سیاسی، نیم سیاسی اور غیر سیاسی کالموں کا مجموعہ
تماشا کب ختم ہو گا؟
از قلم
عطا محمد تبسّم
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
تماشا کب ختم ہو گا؟
عطا محمد تبسم
چار یاروں کے نام جن کی بیٹھک میں
دنیا بھر کے مسائل پر بکواس ہوتی ہے
میری بات
تماشہ کب ختم ہو گا؟ پاکستان کو بنے ہوئے برسوں گذر گئے، لیکن اس ملک کو چلانے والے حکمراں، سیاستدان، صحافت کے ہفت خواں، اور انصاف کے ایوان سب ایک مداری کی ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں، مداری جب چاہے کھیل کا اسکرپٹ بدل دیتا ہے، اور جب چاہے کردار، کردار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں، اور جو کچھ بھی ہو رہا ہے، ان کی مرضی سے ہو رہا ہے، لیکن جب کوئی کردار اپنی حدود سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو اپنی کم مائے گی کا احساس ہونے لگتا ہے، ایسے میں کوئی ہیرو بننے کی کوشش کرے تو اس کو اپنی اوقات اور کھال میں رہنے کا سبق بھی سکھا دیا جاتا ہے۔ یہ کھیل پہلے بھی جاری تھا، اور اب بھی۔
عوام شوق سے یہ تماشا دیکھتے ہیں، برسوں سے دیکھ رہے ہیں، جانے کب تک دیکھیں گے، لیکن اس میں ملک کا جو حال ہو گیا ہے، اور قوم جس طرح پائمال ہو گئی ہے، اب اس کا صرف نوحہ سنا جا سکتا ہے۔
مداری بہت ہوشیار اور عیار ہے۔ وہ اپنا کوئی نام نہیں رکھتا، وہ بے نام ہے، اور تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو، پر یقین رکھتا ہے، جانے ہماری قسمت میں کب تک یہ تماشا دیکھنا ہے، جانے کب یہ تماشا ختم ہو گاِ؟
میرے یہ کالم گذشتہ ایک ڈیڑھ برس میں روزنامہ امت، روز نامہ جسارت، روزنامہ جرات، روزنامہ نئی بات، اردو ویب سائٹ، جسارت بلاگ، میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ کالم تو اب تک کئی ہزار لکھے جاچکے ہیں۔ لیکن کبھی کتاب کی شکل دینے کا خیال نہیں آیا، لیکن فاران کلب کے جنرل سیکٹری ندیم اقبال ایڈوکیٹ نے بہت عرصے سے یہ کام میرے ذمہ لگا رکھا ہے۔ سوچا کہ اس سے پہلے کہ مہلت عمل ختم ہو جائے، یہ کام کر ہی لیا جائے۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے، اللہ نے ہمت اور توفیق دی تو اور بھی کئی ایسے کام پورے کرنے ہیں، جو ہنوز تکمیل کے محتاج ہیں۔ ان تحریروں کے لیے میں اپنے دوستوں اعجاز عبید، مقصود یوسفی، محمد طاہر، اظہر نیاز، الیاس ذکریا، نذیر الحسن، ضیا چترالی، محمد علی، کا بے حد شکر گزار ہوں۔
عطا محمد تبسم
٭٭٭
ڈیوٹی ادا کرنے کا کھیل
اخلاق احمد
ایک زمانہ تھا، یہی کوئی چالیس پینتالیس برس پرانا زمانہ، جب بہت کم اخباری کالم نویس ہوا کرتے تھے اور ہم ان کے کالم ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ ابن انشاء، ابراہیم جلیس، انعام درانی، نصر اللہ خان، خامہ بگوش، اور ایسے ہی کچھ لوگ۔ ان سبھی کالم نویسوں کا اصل ہتھیار وہ شگفتگی اور شوخی ہوتی تھی جو دل میں گدگدی بھی پیدا کرتی تھی اور کسی معاشرتی یا سیاسی خرابی کو بھی سامنے لاتی تھی۔
پھر وقت بدلا تو کالم نویسی کے ڈھنگ بھی بدلے۔ سنجیدہ سیاسی مباحث کو جنم دینے والے کالم، رپورٹنگ پر مبنی کالم، پروپیگنڈہ کالم، خالص ستائشی کالم، ادھوری ریسرچ پر مبنی کالم، مبالغہ آمیز کالم، بیزار کن کالم، ایک عالم وحشت میں ہر شے کو مسترد کر دینے والے کالم، نہ جانے کس کس طرح کے کالم ایجاد ہو گئے۔ اخبارات ایک کے بجائے دو صفحات کالموں کے لئے مختص کرنے لگے۔ سوچ کر ہی لرز اٹھتا ہوں، اگر ڈیجیٹل میڈیا کی آمد سے پرنٹ میڈیا کی اثر پذیری کم نہ ہوتی تو نہ جانے کیا کچھ پڑھنے کو ملتا۔
عطا محمد تبسم پرانے یار دلدار ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت میں ہمارے ہم جماعت، چار عشرے گزر جانے کے باوجود اب تک قریبی تعلق کی ڈور سے بندھے، کہنہ مشق صحافی اور تجزیہ کار، خوش مزاج اور وسیع القلب، ایک واضح نظریہ سے وابستہ، مگر دوسروں کی بات توجہ سے سننے کے لئے تیار۔ شدت پسندی کے اس زمانے میں ایسے لوگ کم کم دکھائی دیتے ہیں۔
یہ نئے زمانے کے کالم ہیں۔ نیا زمانہ اپنے ساتھ ایسے نئے مسائل لایا ہے جن کا پچھلے زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دہشت گردی، خود کش حملے، یونی پولر دنیا، اربوں کی کرپشن، سوشل میڈیا کی حکمرانی، کروڑوں لاچار لوگ، بے سہارا کاسموپولیٹن شہر، ماحولیاتی تباہی، نظر نہ آنے والی آمریت، مفاد کی دھن پر رقص کرتی جمہوریت۔ یہ کالم پڑھئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ نرم خو عطا محمد تبسم کے اندر کیسا آتش فشاں پل رہا ہے۔ یہ بھی، کہ وہ حالات کو خاموشی سے سر جھکا کر قبول کر لینے اور مزاحمت ترک کر دینے پر کسی صورت راضی نہیں ہیں۔ کہنے کو یہ عام سے موضوعات پر لکھے جانے والے سادہ سے کالم نظر آتے ہیں مگر ہر کالم میں ان کا بے قرار قلم ہماری، آپ کی زندگی کو درپیش بے شمار مسائل کا احاطہ بھی کرتا جاتا ہے۔ عطا محمد تبسم خوش نصیب ہیں کہ اپنے حصے کی شمع جلانے کی جو ڈیوٹی قدرت نے لگائی تھی، وہ اسے پوری ایمان داری سے ادا کئے جا رہے ہیں۔
٭٭٭
ویل کم بیک جماعت اسلامی
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی۔ 1987 اور 2023 کے درمیان بہت سے دریا اور پہاڑ اور خون کی ندیاں ہیں، جن کو عبور کر کے آج جماعت اسلامی کراچی میں پھر سے سرخ رو ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس شہر کو لا الہ کے نور سے جگمگانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن کچھ قوتیں ایسی تھیں، جو جماعت اسلامی کو اس شہر سے نکالنا چاہتی تھی، لیکن جماعت اسلامی اس شہر سے نہیں نکل سکی۔ اس نے اپنے کارکنوں کے لہو کی قربانی دی، لاشیں اٹھائی، اور اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑی رہی، اس عرصے میں درمیان میں اسے جب بھی کام کرنے کا موقع ملا، اس نے اپنا فرض ادا کیا، نعمت اللہ خان کی سٹی گورنمنٹ نے اس شہر میں وہ انمٹ نقوش قائم کیے کہ کوئی بھی انھیں نہ بھول سکا۔ میئر عبد الستار افغانی کے ترقیاتی کام آج بھی اس شہر کے لوگوں کو یاد ہیں۔ کراچی شہر حریت ہے، اپنا فیصلہ خود کرتا ہے، اس کے نفع نقصان کو بھی برداشت کرتا ہے، لیکن یہ شہر جن کو ووٹوں سے منتخب کرتا ہے، انھیں ووٹوں ہی سے شکست بھی دیتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں جماعت اسلامی کو ایسی بے باک اور ویژن رکھنے والی قیادت ملی، جس نے اس شہر کی تعمیر نو کا ایک خواب دیکھا، اس کے نوجوانوں کو پان گٹکا، منشیات، لوٹ مار، بھتہ خوری سے نکال کر با عزت شہری بنانے کا عزم کیا اور پھر اس کام میں جت گیا، سردی گرمی، بارش، طوفان، رات دن، اندھیرا اجالا، اس نے کچھ نہ دیکھا اور لوگوں کی مدد سے حالات کو بدلنے محکموں کو لگام ڈالنے، بھتہ خوری کو روکنے، کے الیکٹرک کی چیرہ دستیوں، اور سوئی گیس کی لوٹ مار، کرونا کی مصیبت، سیلاب کی تباہ کاریوں، بارش کی تباہی، سب میں اپنا کردار ادا کیا۔
آج کراچی میں جماعت اسلامی ووٹوں کی طاقت سے ایک بار پھر قومی دھارے کی سیاست میں داخل ہوئی ہے، حافظ نعیم نے مسلسل محنت اور یکسوئی سے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے بساط بھر کوشش کی۔ لیکن ان کا ویژن ہے کہ یہ کام حکومتی وسائل سے زیادہ بہتر طور پر ہو گا، اور اسی لیے انھوں نے کراچی کی مئیر شپ کے حصول کو سامنے رکھ کر ایک ایسی جد و جہد کا آغاز کیا، جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، جماعت اسلامی کی کامیابی کو چرانے کی بہت کوشش کی، لیکن یہ سب کرنے والوں کے منہ پر کالک ہی ملی گئی۔ جماعت اسلامی کو کراچی کے بلدیاتی انتخاب میں 94 نشستوں پر کامیابی ہوئی ہے، لیکن اس کی نشستوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے کم کیا گیا، لوٹی ہوئی ان سیٹوں پر دو دن تک پیپلز پارٹی نمبر ون پارٹی ہونے کا جشن بھی مناتی رہی۔ لیکن حافظ نعیم الرحمان اور ان کے کارکنوں نے جن کے پاس مصدقہ دستخط والے گیارہ فارم تھے، پیپلز پارٹی کے حلق سے یہ سیٹیں نکلوا لی ہیں، اور کچھ پر ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابھی دوسرا مرحلہ تقریباً آٹھ سیٹوں کا باقی ہے، جہاں دوبارہ گنتی ہونی ہے، یوں جماعت اسلامی کے پاس سو سے زائد نشستیں ہوں گی۔
کراچی کی میئر شپ کے لیے لوگوں نے حافظ نعیم الرحمان کا انتخاب کیا ہے، اور کراچی میں لوگوں نے ان ہی کی قیادت کو چنا ہے، اگر حکومت کو کراچی کی حیثیت کو بحال کرنا ہے، اس شہر کی تعمیر نو کرنا ہے، ملک اور قوم کے وقار میں اضافہ کرنا ہے تو انھیں جماعت اسلامی کی قیادت کو یہ موقع ضرور دینا چاہیئے، جماعت اسلامی کو احتجاجی سیاست سے نکل کر اب کام پر توجہ کرنا ہو گی۔ عوام نے ووٹ دیا ہے وہ جانتے ہیں کون منتخب ہے اور کوئی دھاندلی سے آنا چاہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی اب کراچی دشمنی کا رویہ ترک کرنا چاہیئے۔ یہ شہر سب کا ہے، یہاں سندھی مہاجر پٹھان، پنجابی سرائیکی، بلوچ اور دیگر قومیں آباد ہیں، اس کی تعمیر و ترقی میں سب کو شامل ہونا چاہیئے، سندھ کے شہری علاقوں میں تین نسلیں پیپلز پارٹی دشمنی میں جوان ہوئی ہیں۔ اب موقع ہے کہ یہ دشمنی دوستی اور بھائی چارے میں تبدیل ہو۔ عام آدمی سندھی باشندوں سے محبت رکھتا ہے۔ اس محبت کو فروغ دینا چاہیئے، تاکہ صوبہ ترقی کرے۔ کوئی بھی بلدیاتی باڈی سندھ حکومت کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس لیے سندھیوں سے محبت بھائی چارے اور حکومت سے ورکنگ ریلیشن قائم ہونی چاہیئے۔ جماعت اسلامی کی میئر شپ میں اگر کراچی میں تعمیر و ترقی ہوئی تو پیپلز پارٹی کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور شہر اور صوبے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ میڈیا نے جماعت اسلامی کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے، اسے بھی اپنا رویہ ترک کرنا ہو گا۔ کل طلعت حسین نے ایک ٹی وی شو میں حافظ نعیم الرحمن سے کہا کہ ’’حافظ صاحب اب آپ کو تو شکایت نہ ہو گی کہ میڈیا آپ کو ٹائم نہیں دیتا ہے‘‘ حافظ نعیم نے اس بات کے جواب میں کہا کہ ’’اس کے لئے ہمیں پہلے نمبر ون کی جماعت بننا پڑا ہے۔ دنیا آپ کو اس وقت مقام دیتی ہے۔ جب آپ ان کی صفوں میں گھس کر اپنے لئے جگہ بناتے ہیں۔‘‘
جماعت اسلامی کو سندھ میں کام کرنے کے لیے نئی حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ سندھ میں اگر کام کرنا ہے تو جماعت اسلامی کو پیپلز پارٹی سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔ بھٹو دشمنی کی تین دہائی نے سندھ میں بسنے والوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ سندھی آ بادی نے کراچی کے گوٹھوں نے جماعت اسلامی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے سندھی مہاجر پنجابی پٹھان بلوچ سرائیکی سمیت ساری قومیتوں کو یک جان کر دیا۔ کراچی سب کا ہے۔ الحمد للہ یوم تشکر کراچی کے عوام نے فیصلہ دے دیا۔ جماعت اسلامی ایک بار پھر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے ایک نیا آغاز ہو گا۔
جو لوگ الیکشن میں بائیکاٹ کرتے ہیں وہ ہارے ہوئے جواری ہوتے ہیں۔ جن کی سیاست کے باب میں کوئی قدر قیمت نہیں ہوتی۔ جماعت اسلامی نے بھی یہ ہزیمت اٹھائی ہے۔ اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کر کے میدان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں دے دیا۔ کراچی حیدرآباد اور دیگر مقامات پر مہاجر ووٹ کو جس بزدلی کا سامنا اس فیصلے سے ہوا ہے۔ اس کے اثرات اگلے چار برس میں پتہ چلیں گے۔ الیکشن صرف کراچی میں نہیں دیگر جگہوں پر بھی تھا۔ صرف کراچی میں جماعت اسلامی متحرک اور مقابلہ پر تھی۔ باقی جگہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ ایم کیو ایم کر سکتی تھی۔ لیکن ایم کیو ایم نے مہاجر عوام سے غداری کی اور بلدیات پلیٹ میں رکھ کر پیپلز پارٹی کو دے دی۔ وہ حکومت کے کاسہ لیس بن کر رہ گئے ہیں۔ اب وا ویلا کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ڈیفنس رہنے والے ارب پتی مڈل کلاس قیادت کس منہ سے غریب مہاجروں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے۔ جس نے مہاجروں کی تین نسلوں کو پان گٹکا ہیروئن لوٹ مار پر لگا دیا اور ان سے ان کا وقار تعلیم اخلاق تہذیب بھی چھین لی۔ اب انھیں اگلے الیکشن تک انتظار کرنا ہو گا۔
٭٭٭
ہم غریب کے گھر کھانا کھانے چلیں
وزیر اعلیٰ صاحب، ’آپ ہم غریب کے گھر کھانا کھانے چلیں گے؟‘ وزیر اعلیٰ نے ایک لمحہ کی دیر لگائے بغیر پوچھا ’’آج رات کو؟‘ جواب ملنے پر انہوں نے اسٹیج پر اپنے دائیں، بائیں موجود افراد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تینوں آئیں گے‘۔ یہ ایک تقریب تھی، جس میں سامعین میں شامل ایک فرد نے اٹھ کر مائک پر گفتگو کرتے ہوئے اچانک وزیر اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں، میں ایک آٹو والا ہوں آپ آٹو والوں کی بہت مدد کرتے ہیں۔ میں آپ کو اپنے آٹو رکشہ پر ہی دعوت پر گھر لے کر جانا چاہتا ہوں۔ یہ مکالمہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال سے تھا۔ جو تقریب کے بعد آٹو رکشہ میں بیٹھ کر دعوت میں شرکت کے لیے گئے۔ اور بعد میں کھانے کی تعریف بھی کی۔ عام آدمی پارٹی کے ٰ اروند کیجریوال وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود بھی ایک عام آدمی کی طرح اپنے معمولات انجام دیتے ہیں۔ انھوں نے سیاسی سفر کا آغاز ’انڈیا اگینسٹ کرپشن‘ کے نام سے بدعنوانی کی تحریک چلانے سے کیا اور بعد میں اپنی سیاسی پارٹی ’عام آدمی‘ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
عام آدمی پارٹی نے ریاست پنجاب میں حال ہی میں حیران کن کامیابی حاصل کی ہے۔ اروند کیجروال کی جماعت نے ریاست میں 117 نشستوں میں سے 91 حاصل کی ہیں۔ کانگریس اور بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) اسے اگلے انتخابات کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں۔ اروند کیجروال ایک صاف ستھری ساکھ کے حامل ہیں اور انہیں دہلی میں اچھی کارکردگی دکھا نے پر ہر طرف سراہا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے دہلی ماڈل سے خوفزدہ ہیں۔ اور انھیں سنگاپور نہیں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ کیجریوال کو سنگاپور حکومت نے دہلی ماڈل کے بارے میں سننے کے لیے بلایا تھا۔ اروند کیجریوال نے دہلی میں ہر گھر کو 300 یونٹ مفت بجلی، فرشتے اسکیم کے تحت 50 لاکھ کا مفت علاج، عورتوں کو مفت بس سفر، 18 لاکھ بچوں کو اچھی تعلیم، مفت ادویات، مفت علاج، مفت پانی کی سہولیات دی ہیں، ان کی کارکردگی نے نریندر مودی کی نیند اڑا دی ہے۔ ان کے ’’دہلی ماڈل آف گورننس‘‘ نے گزشتہ سات سالوں میں قومی دار الحکومت کا چہرہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ کیجریوال نے تمام چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔ لیکن دہلی میں اپنے شہریوں کو بہترین عوامی خدمات فراہم کرنے کے مشن پر ڈٹے رہے ہیں۔ انھوں نے دہلی کے بجٹ کو خسارے میں نہیں جانے دیا۔ وہ اپنی عوامی خدمت پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے دہلی کے لوگوں کو بہترین سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اس کا چرچا ہے۔ دہلی میں ملک گیر انسداد بدعنوانی تحریک کے بعد جب وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی قیادت میں حکومت بنی تھی تو حکومت نے لوگوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے عزم اور لگن کے ساتھ کام کیا۔ 2015 تک دہلی میں بجلی کے نرخ بہت زیادہ تھے۔ اس کے علاوہ کئی کئی گھنٹے بجلی کی مسلسل بندش رہتی تھی۔ لوگ بجلی کی بندش کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھنے لگے تھے۔ بجلی کمپنیاں بھی خسارے میں چل رہی تھیں۔ اس وقت دہلی کے صرف 50 فیصد میں پانی کی سپلائی کے لیے پائپ لائن تھی اور صرف 40 فیصد کے پاس سیوریج لائن تھی۔ سرکاری اسکولوں کی حالت خستہ تھی۔ اساتذہ تعلیم سے دور تھے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2014 ء میں نئی دہلی دنیا کا سب سے آلودہ شہر تھا۔ نئی دہلی میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد قریب ساڑھے سات ملین تھی۔ ان میں سے زیادہ تر انتہائی فضائی آلودگی کا سبب بننے والے ڈیزل سے چلتی تھی۔ اس کے علاوہ تعمیراتی کاموں کے سبب پیدا ہونے والی دھول، کاشتکاری اور فصلوں کے فُضلہ کو جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہے تھے۔ انھوں نے گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے دہلی میں 30 ہزار بسیں چلا کر عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کیں۔ نئی حکومت بننے کے بعد 2020 تک دہلی میں یہ صورتحال بدل گئی ہے۔ کیجریوال حکومت نے اپنی پالیسیوں سے ہر کسی کو بہتر عوامی سہولیات فراہم کیں۔ محلہ کلینک کے اپنے ماڈل کے ساتھ، کیجریوال حکومت لوگوں کو مفت بنیادی صحت کی خدمات فراہم کر رہی ہے۔ اس وقت بھارت میں دہلی واحد ریاستی حکومت ہے جس کے پاس مالیاتی خسارہ نہیں ہے۔ سات سالوں میں دہلی حکومت کا بجٹ 30 ہزار کروڑ سے بڑھ کر 75 ہزار کروڑ ہو گیا ہے اور دہلی کی جی ڈی پی میں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اروند کیجروال تو اس مطالبہ کی حمایت کرتے ہیں کہ مرکزی حکومت ایسا قانون منظور کرے کہ اگر کوئی بدعنوانی کرے تو اسے جیل جانا پڑے، اس کی جائیداد ضبط کی جائے۔ کانگریس اور ساری پارٹی یہ نہیں مانی۔ سیاست میں ساری پارٹیاں پردے کے پیچھے ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ یہی سب کچھ ہمارے ملک میں بھی ہو رہا ہے، کرپشن کرپشن سب چلاتے ہیں۔ فتح کی انگلیاں اٹھائے جیل چلے جاتے ہیں، لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا۔ یہی نظام چل رہا ہے۔ جب تک یہ سیاست نہیں بدلے گی تب تک ہمیں بدعنوانی سے نجات نہیں مل سکتی۔ اس کے لیے پاکستان میں بھی کوئی عام آدمی پارٹی اور کیجریوال جیسا لیڈر چاہیئے۔
٭٭٭
میں محبت سے محبت کرتا ہوں
وقت کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جو لوگ وقت کے ساتھ نہیں چلتے، اپنی آپ کو اپ ڈیٹ نہیں کرتے پیچھے رہ جاتے ہیں، دنیا بہت تیز رفتار ہے، موجودہ صدی میں سب سے زیادہ ایجادات ہوئیں ہیں، جو کاروباری کمپنیاں وقت کے ساتھ نہیں چل پائیں، ان کا نام نشان مٹ گیا، اس لیے جو کامیاب ہیں، اور جو کامیاب ہونا چاہتے ہیں، انھیں جدت اور نئی چیزوں کو سیکھنا ہو گا، مصنوعی ذہانت نے دنیا کو تبدیل کر دیا ہے۔ فوٹو گرافی کی دنیا میں کوڈک کمپنی بہت شہرت رکھتی تھی۔ کوڈک میں ایک لاکھ ستر ہزار ملازمین کام کر رہے تھے، وہ دنیا میں 85 فیصد فوٹو پیپر فروخت کرتے تھے۔ کچھ ہی برسوں میں ڈیجیٹل فوٹو گرافی نے انہیں بازار سے نکال دیا، اس کمپنی کے معیار میں کوئی کمی نہیں تھی۔ پھر بھی وہ مارکیٹ سے باہر ہو گئی۔ وجہ؟ اس کمپنی نے وقت کے ساتھ ساتھ وہ تبدیلی نہیں کی، جس کی ضرورت تھی۔ آنے والے دس، بیس برس میں دنیا پوری طرح سے تبدیل ہو جائے گی۔ آج چلنے والی صنعتوں میں سے 70 فیصد بند ہو جائیں گی۔ اب ڈیجیٹل انقلاب کا دور ہے۔ آن لائین کاروبار کا زمانہ ہے، گھر بیٹھ کر لوگ اپنا کام کر رہے ہیں، اوبر (Uber) صرف ایک سافٹ ویئر ہے۔ اپنی ایک بھی کار نہ ہونے کے باوجود وہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے، ایئر بی این بی دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے۔ لیکن ان کے پاس اپنا کوئی ہوٹل نہیں ہے۔
چیٹ جی پی ٹی ہر طرح کے معلومات کے ڈھیر لگا سکتی ہے۔ اب امریکہ میں نوجوان وکلاء کے لئے کوئی کام باقی نہیں ہے۔ کیونکہ آئی بی ایم واٹسن سافٹ ویئر ایک لمحے میں بہتر قانونی مشورے دیتا ہے۔ واٹسن نامی سافٹ ویئر انسانوں کے مقابلے میں کینسر کی تشخیص 4 گنا زیادہ درست طریقے سے انجام دیتا ہے۔ 2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہوں گے۔ اگلے 10 سالوں میں 90 فی صد کاریں پوری دنیا کی سڑکوں سے غائب ہو جائیں گی۔ فروخت، خدمت، ریچارج، لوازمات، مرمت، بحالی وغیرہ وغیرہ اب سب کچھ اے ٹی ایم سے کیا جا رہا ہے۔ اب لوگوں نے اپنے فون سے ہی ریلوے ٹکٹ بک کرنا شروع کر دی ہیں۔ کرنسی نوٹ کو پہلے پلاسٹک منی نے تبدیل کیا تھا۔ اب یہ ڈیجیٹل ہو گئی ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ اب آپ کو مزید محنت کرنا ہو گی، نئے نئے چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آنکھیں اور کان کھلے رکھیں ورنہ آپ پیچھے رہ جائیں گے۔ اپنے کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونے کے لئے تیار رہیں۔ وقت کے ساتھ آگے بڑھیں اور کامیابی حاصل کریں۔ لیکن ہم اپنے ملک میں ایک طرف اشرافیہ کو دیکھ رہے ہیں، جو اپنے محلات میں عیاشی کر رہے ہیں، دوسری جانب غریب عوام ہیں، جو آٹا لینے کے لیے روندے جا رہے ہیں، مجھے اس نظام سے نفرت ہو رہی ہے، جس میں دن رات نان ایشو پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے، لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے۔
میں محبت سے محبت کرتا ہوں، اور میرے دل میں ان کے لئے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہے، جو آزادی کا قتل کرتے ہیں، جب میں انصاف کا قتل اور ظالم اور لٹیروں کا راج دیکھتا ہوں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میں طیش سے بھر جاتا ہوں۔ خدا کی لعنت ہو، ان پر جنہوں نے پوری ایک نسل کو بھیڑوں کے ریوڑ میں تبدل کر دیا ہے، کبھی انھیں گیس اور پیٹرول سے محروم کیا جاتا ہے، اور کبھی آٹے اور روٹی سے، میں کسی خیالی جنت کے خواب نہیں دیکھتا، لیکن جانتا ہوں کہ اس ملک میں انصاف، جمہوریت، ایک ڈھکوسلا ہے۔ غریب کے لیے انصاف کے دروازے نہیں کھلتے، وہ انصاف کی دہائیاں دیتے ہوئے ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے ہیں، اور ہماری عدالتوں میں ایک تماشہ لگا رہتا ہے۔ میں خواب دیکھتا ہوں ایک ایسے ملک کا جہاں لوگ با آسانی انصاف کی عدالت میں جا سکیں، وہاں ان کے مقدمات سنے جائیں، جن کی تذلیل ہوئی ہو، جن کے بچے غائب کر دیئے گئے ہوں، جن کے حقوق غصب کئے ہوں، جن کی آزادی چھین لی گئی ہو، میں ان بزدلوں کو بھی حقارت سے دیکھتا ہوں، جو اس نظام سے بغاوت نہیں کرتے، میں جابر حکمرانوں سے نفرت کرتا ہوں، جو مفت آٹے کے لائن میں عوام کر کھڑا کر کے ان کی توہین اور تذلیل کرتے ہیں، اور بزدلوں سے مجھے گھن آتی ہے۔
مجھے عمران خان کی سیاست اور اس کے طرز حکمرانی سے شدید اختلاف ہے، لیکن اس کے باوجود میں اس کی جد و جہد، اس کے استقلال، اس کی ہمت، اور اس کے اسٹیمنا کی داد دیتا ہوں، جس نے ایک چوروں کے ٹولے کو نکیل ڈالی ہوئی ہے، اور ان کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے، اس کے ایک بیان پر پاگلوں کی طرح کئی وزراء، مشیر، اور حکمران ایوان میں میڈیا پر چیختے چلاتے ہیں۔ جو لوگ عمران خان کو نا اہل قرار دینے کا خواب دیکھ رہے ہیں، عنقریب اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ اس ملک میں اشرافیہ کا راج ہے، انھیں فرق نہیں پڑتا کہ آٹا، ایک سو ستر روپے کلو ہو گیا، اور روٹی کی قیمت 25 روپے ہو گئی ہے، لیکن میں اس درد کو محسوس کرتا ہوں، جب لوگ بھوک کے عالم میں ایک وقت کا کھانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو وہ خوراک مہیا کرنے سے قاصر ہیں، جو ان کا بچوں کا حق ہے۔ اس وقت ملک میں عدلیہ، اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ، اور سیاست دانوں کی ایک جنگ جاری ہے، اقتدار کی، دولت کی، ہوس کی، اس ملک کو ان سب نے مل کر تباہ کیا ہے، اور عوام کو آج بھوک اور غربت کی آخری سطح تک لے آئیں ہیں، غیر ملکی قرضے، امداد، اور لوٹی ہوئی دولت پر پلنے والے یہ گندے کیڑے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن عوام بھی ان لٹیروں کو خوب پہچانتے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب عوام انھیں ان کے محلات سے نکال باہر کریں گے۔
٭٭٭
ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں کبھی نہ بہہ سکیں گی
ملک میں سیلاب ہے، لوگ بے گھر ہیں، بجلی کے بلوں نے قیامت مچائی ہوئی ہے، روٹی کی قیمت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ غریب آدمی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہے کہ وہ کیا کرے، مکان کا کرایہ ادا کرے، بچوں کی اسکول فیس دے، گھر میں روٹی دال کا بندوبست کرے، یا بجلی کے بل بھرے، لیکن ان تمام مسائل سے ہمارا میڈیا بہت دور ہے۔ سیاست دان بھی دور ہیں، سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
حکومت کی شاہ خرچیاں ہیں کہ رکتی ہی نہیں، ابھی امریکہ کے دورے میں جن مہنگے ترین ہوٹلوں میں جس شاہانہ انداز کے اخراجات کیے جا رہے ہیں، ان کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک غریب مقروض، مصیبت کے مارے ملک کا وزیر اعظم ہے۔ ہمارے دوست ممتاز صحافی معاوذ صدیقی حکمرانوں نے چٹکیاں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ امریکہ میں مریم اورنگ زیب سے پوچھ رہے تھے کہ ہوٹل کے اخراجات کتنے ہوئے، تو مریم اورنگ زیب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ صرف یہی کہہ سکی کہ پاکستان پہنچ کر بتائیں گی۔ موجودہ کابینہ میں حال ہی میں آٹھ مشیروں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں کابینہ کے اراکین کی تعداد 72 ہے۔ تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ۔ شہباز شریف نے سیلاب زدہ ملک کے قومی خزانے سے ریکارڈ دورے کیئے ہیں۔ ان کا قدم ملک میں ٹکتا ہی نہیں، ان کی کابینہ میں 34 وفاقی وزرا، 7 وزرائے مملکت، 4 مشیران اور 27 معاونین خصوصی شامل ہیں۔ قومی خزانے میں کچھ بچا ہی نہیں، ترقیاتی کاموں یا ملک میں کوئی اور تعمیراتی سرے سے نہیں ہو پا رہا۔ کیونکہ وفاق کے پاس 18 ویں ترمیم کے بعد کچھ زیادہ نہیں بچتا۔ اس پر قرضوں پر سود ادائیگی، دفاع پر بھاری اخراجات ہیں۔ پچھلے 2 ماہ میں اخراجات جاریہ 11 کھرب روپے ہوئے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ جولائی تا اگست کی مدت 71 فیصد سے زائد اخراجات صرف 2 مدات قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع پر ہوئے، ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی پر خرچ کرنے کیلئے بہت کم رہ گیا۔ لیکن جو بہت کم رہ گیا ہے وہ بھی اڑایا جا رہا ہے۔ ہر بات کی مشاورت کے لیے لندن میں نواز شریف سے بات کی جاتی ہے، اعلانیہ اور خفیہ دورے ہو رہے ہیں۔
اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ نئے چیف کی تعیناتی ہے۔ خوب کھینچا تانی ہو رہی ہے۔ موجودہ چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ایجنڈا عمران خان بھی فالو کر رہے ہیں، وہ بار بار اس بات کو دہراتے ہیں کہ ’ان چوروں اور کرپٹ حکمرانوں کو آرمی چیف کی تعیناتی کا مینڈیٹ نہیں دیا جا سکتا۔‘ وہ موجودہ چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے بار بار یہ کہتے ہیں، الیکشن کرائے جائیں، انھیں الیکشن کمیشن پر بھی اعتماد نہیں ہے، وہ الیکشن کمشنر کو ڈس اونیسٹ کہتے ہیں، جس کا سیدھا ترجمہ ’بے ایمان‘ ہوتا ہے۔
اس سب سے ہٹ کر ملک میں لبرل اور دائیں بازو والوں کے درمیان ایک سرد جنگ بھی جاری ہے، یہ جنگ ٹرانس جنڈر بل پر ہے۔ درمیان میں ممتاز صحافی اور عمران خان کے بڑے سپورٹر ایاز امیر کی بہو کا قتل بھی آ گیا۔ قتل بیٹے نے کیا ہے، وہ گرفتار بھی ہو گیا۔ لیکن اب ایاز امیر کو بھی اس مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں نور مقدم کے قتل میں بھی لبرل اور دائیں بازو والوں کی کشمکش کا اظہار ہو چکا ہے۔ پاکستان میں ایک طبقہ مادر پدر آزادی، شراب نوشی کی آزادی، اور آزادانہ جنسی اختلاط کی وکالت کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں روایات اور اخلاقیات میں تیزی سے زوال آ رہا ہے۔ ہمارے قوانین بھی صرف با رسوخ سرمایہ دار اور طاقت والوں کی پست پناہی کر رہے ہیں، مقدمے قتل کے ہوں، یا لوٹ مار کے عدالتیں انصاف مہیا نہیں کر رہی۔ کمزور اور زبردست کے لیے قانون کے علیحدہ علیحدہ ضابطے ہیں، ہم اپنی دینی تعلیمات، اخلاقیات، خاندانی طرز معاشرت اور سماجی ورثہ سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ سندھ میں ناظم جوکھیو کے قتل کا مقدمہ ایسی ہی ایک مثال ہے۔ کمزوروں کو دولت اثر رسوخ، طاقت، سے دبا لیا جاتا ہے۔ عدالتیں کھڑی منہ دیکھ رہی ہوتی ہیں، اور قاتل آزاد ہو جاتے ہیں، پاکستان میں جب تک انصاف کی حکمرانی نہیں ہو گی۔ قانون سب کے لیے برابر، اور حکمرانوں کو کڑا احتساب نہیں ہو گا۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں کبھی نہ بہہ سکیں گی۔
٭٭٭
ملک کے کروڑوں عوام سے کھلواڑ مت کرو
مجھے خواب میں وہ بچہ بار بار آ رہا ہے، وہ نازک پھول سا بچہ، جس کو سورج کی کرنوں نے بوسہ دیا تھا، سورج کی پہلی روپیلی کرنوں نے اس چہرے کو پیار سے چوما۔ ہوا نے اسے ماتھے پر تھپکی دی، اور سمندر کی لہروں نے اسے بہت ہی آہستگی سے بلوچستان کے ریتلے ساحل پر سلا دیا۔ پرندے نے سریلی لے میں اسے آواز دی۔ ایک مچھلی نے ایک اونچی لہر سے سر نکال کر اسے دیکھا۔ لیکن یہ بچہ تو گہری نیند سور رہا ہے۔ اپنی ماں کی گود سے نہ جانے کب جدا ہوا ہو گا، ماں نے اسے اپنے ہاتھوں سے نکلتے اور پانی کی موجوں میں ڈوبتے ابھرتے دیکھ کر کیسی چیخیں ماری ہوں گی اور اسے پکڑنے کی جد و جہد میں پانی کی لہروں میں جانے کہاں تک اس نے ہاتھ پاؤں مارے ہوں گے۔ اب یہ نازک پھول سا بچہ ستر ماؤں سے زائد پیار کرنے والے اپنے رب کے پاس پہنچ چکا ہے۔ بلوچستان کا ساحل خاموشی سے بین کر رہا ہے، اور قریبی پہاڑیاں سر جھکائے غم زدہ اور افسردہ کھڑی ہیں، بارش کے قطرے آنسو کی طرح آسمان سے برس رہے ہیں۔
جانے کتنی لاشیں سیلابی پانی اور دریا میں تیر رہی ہیں، کئی کئی دن سے پانی میں تیرتی یہ لاشیں اپنی بے نور آنکھوں سے یہ سوال کر رہی ہیں، ہمیں کون نکالے گا، کب ہماری لاشیں گور و کفن سے فیضیاب ہوں گی، میں ان سسکتے بلکتے بچوں اور آہ و بکا کرتی عورتوں اور فریاد کرتے مرد و جوانوں کو دیکھ رہا ہوں، جو کئی کئی دن سے چاروں طرف پانی سے گھرے میدان اور مکانوں میں محصور ہیں۔ خوراک اور پانی ان سے دور ہے، ان کی نظریں آسمان پر ہیں، اور فریاد کناں ہیں، اے رب رحیم ہمیں ایسے ظالم اور بے رحم حکمرانوں سے نجات دے، جو ہمیں مصیبت میں مدد کرنے کے بجائے، اقتدار میں آنے اور لوٹ مار میں سرگرم ہیں، اے اللہ ایسے ظالم سپہ سالاروں سے ہمیں نجات دلا۔ جو اٹھانے، گرانے، پھر اٹھانے، اور ظالموں کو ہم پر مسلط کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اے اللہ ہمیں ایسے منصفوں سے نجات دے، جو عدالتوں کو رات کو صرف امیروں با اثر ظالم جھوٹے خائن اور لٹیروں کے اقتدار کو قائم رکھنے، انھیں ریلیف دینے، انھیں ضمانت دینے، اور انھیں رہائی کا پروانہ کھولنے کے لیے تو کھولتے ہیں، لیکن کبھی مظلوم کو انصاف، بے سہارا کو سہارا دینے، اور مصیبت میں گھرے ہوئے لوگوں کی امداد کے لیے حرکت میں نہیں آتے۔
میں ان گمشدہ نوجوانوں کے لیے بھی دعا گو ہوں کہ جن کی مائیں ان کی واپسی کی راہ تک رہی ہیں، ان کی ماؤں کی فریاد جانے کب سنی جائے گی۔ عدالتیں ان کے لیے کب کھلیں گی، ان کی درخواستوں کے نمبر کب آئیں گے۔
تمام ماؤں کے ہونٹ پتھر ہیں۔
اور آنکھوں میں زخم ہیں۔
رات کہتی ہے ان کے بیٹوں کو
شب گئے
چند لشکری
ساتھ لے گئے تھے
تو اب تلک ان کی واپسی کی خبر نہیں ہے۔
مجھے انتظار ہے، اس فون کال کا۔ جو دور امریکہ کے کسی دفتر سے آنی ہے۔ جو ہمارے چیف اور حکمرانوں کو یہ نوید سنائے گی کہ ہاں تمہاری معافی کا فیصلہ ہو گیا، اب تمہارے قرضے جاری کر دیئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف تمھیں قرضے دے گی یہاں تک کہ تمہارے سارے اثاثے ہم گروی رکھ لیں۔ اب تک ہم ایک ڈرامے کے مہر بلب ناظرین ہیں، جو ہر آن آغا حشر کے ڈائیلاگ سن رہے ہیں۔ حکمران ہیں کہ کہ بندر کی پھرتیاں دکھا رہے ہیں۔ اور کہہ رہے ہیں کہ میں نے کوشش تو بہت کی لیکن کچھ نہ ہوا تو میں کیا کروں۔ دل تو چاہتا ہے کہ ان سب کے محلوں کو آگ لگا دی جائے، جو سرخ قالین پر قدم رکھ کر کہتے ہیں کہ ’یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے‘۔ غریب کی زیست مشکل سے دوچار ہے، وہ گھر سے ملازمت کی جگہ جانے کے بھی قابل نہ رہا کہ جو کچھ کماتا ہے، وہ کرائے بھاڑے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ جانے یہ کہانی ختم کب ہو گی؟ اور پردہ کب گرے گا؟ یا یہ ڈرامہ یونہی چلتا رہے گا۔ ایک کہتا ہے کہ ’8 مارچ کو جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو ڈالر 178 روپے کا تھا۔ آج 250 پر پہنچ گیا ہے۔ 8 مارچ 2022 کو مہنگائی 16 اعشاریہ پانچ فیصد تھی اور آج یہ 38 فیصد کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ یہ امپورٹیڈ حکومت مجرموں پر مشتمل نہیں بلکہ یہ سراسر نا اہل بھی ہیں‘ اور دوسرا جواب دیتا ہے کہ ’خان اقتدار میں آیا تو ڈالر 122 کا تھا اور اقتدار چھوڑا تو 190 روپے تک پہنچ چکا تھا۔ خان اقتدار میں آیا تو پاکستان پر قرض 25 ہزار ارب تھا، جب اقتدار سے گئے تو اس میں 19 ہزار ارب کا اضافہ ہوا اور وہ 44 ہزار ارب تک پہنچ گیا۔‘
بند کرو یہ نورا کشی، بنچ فکسنگ، الزامی سیاست، اس ملک کے کروڑوں عوام سے کھلواڑ مت کرو۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
خداوندِ جلیل و معتبر، دانا و بینا منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر!!
٭٭٭
ملک کو چلنے دیں تو سب بچ جائیں گے
ہمارے روپے کی قیمت میں 25 فیصد کمی آ چکی ہے، ہم 75 روپے کے سودے کو خریدنے کے لیے سو روپے خرچ کر رہے ہیں۔ روپے کی قدر و قیمت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ زیادہ افراط زر کے ساتھ معاشی سست روی بھی آتی ہے۔ مئی میں سیمنٹ کی فروخت میں 16 فیصد کمی ہوئی، لوہے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے، تعمیراتی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ تعمیرات تیزی سے سست ہو رہی ہیں۔ تعمیراتی کام سے 30 سے زائد صنعتیں منسلک ہیں، اس لیے معاشی سست روی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
شہباز شریف حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر اندھا دھند عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ اس کی ذمہ دار صرف مسلم لیگ ن نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی، سمیت حکومت کے تمام اتحادی اور اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی ادارے بھی ہیں، جو اب کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اس معاشی تباہی کے ذمہ دار عمران خان بھی ہیں۔ جنہوں نے آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینے کا آغاز کیا تھا۔ صرف جماعت اسلامی اس گناہ میں شریک نہیں ہوئی۔ جب عمران خان نے آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کیا اور اسٹیٹ بنک کا کنٹرول آئی ایم ایف کو دیا۔ تو تباہی کا آغاز ہو گیا تھا۔ یہی کام شہباز حکومت نے شروع کر دیا ہے۔ عوام شور مچا رہے ہیں کہ
ہم کیسے ملک میں جی رہے ہیں نہ آٹا، نہ گیس نہ پانی نہ بجلی گھی کی قیمت روزانہ بڑھ رہی ہے پیٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے گوشت کی قیمت بڑھ رہی ہے، دودھ 170 روپے لیٹر ہو گیا ہے۔ پھل اور سبزیاں مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم جائیں تو جائیں
ہر روز ایک نئی افواہ جنم لیتی ہے، کبھی پیٹرول کی قیمت بڑھنے کا سنتے ہیں، کبھی بنکوں کے کھاتے، فارن کرنسی اکاؤنٹس، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کو فریز کرنے، لوگوں کے نجی لاکرز کو ضبط کرنے کی افواہ سامنے آتی ہے، حکومت تردید کر رہی ہے، کہ بالکل ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ لیکن جھوٹے، خائن، کرپٹ لیڈروں کا کیا اعتبار۔ پہلے ہر وقت یہی بھاشن تھا کہ چھوڑوں گا نہیں، این آر او نہیں دوں گا، اب ٹی وی پر سوشل میڈیا پر گو گی گو گی گو گی بشریٰ بشریٰ بشریٰ دن رات بس یہی سن رہے ہیں۔ عوام کے صبر کا فیوز اڑ چکا ہے عوام پوچھ رہے ہیں کہ بجلی کدھر گئی مہنگائی کب قابو کرو گے لیکن کوئی جواب نہیں آ رہا۔ بس یہی لگ رہا ہے کہ، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے۔ جب تاج اچھالے جائیں گے، اور تخت گرائے جائیں گے۔ جب راج کرے گی خلق خدا۔۔۔۔ ۔ جب راج کرے گی خلق خدا
ملک میں انارکی پھیل رہی ہے، عالمی ادارے اور ہمارا دشمن بھارت فوج کو گالیاں کھاتے دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ یہ عوام کے دل سے فوج کی محبت کھرچنا چاہتے ہیں اور آپ جس دن اس لیول پر آ گئے یہ آپ کو اس دن بھارت کے قدموں میں بٹھا دیں گے ‘ یہ آپ کو بھوٹان اور مالدیپ بنا دیں گے ‘ بس آپ کا ایک ہی کام رہ جائے گا کہ آپ امداد لیتے جائیں گے اور ملک چلاتے جائیں گے۔ اگر ہماری اکانومی ٹیک آف نہیں کرتی‘ اگر مارکیٹ میں استحکام نہیں آتا تو پھر ہمیں کوئی معجزہ ہی بچا سکے گا‘ ہم بھنور میں پھنس چکے ہیں۔ ملک کی بچت کا ایک ہی راستہ ہے۔ معیشت کی بہتری، معیشت کا استحکام اور معیشت کو اٹھانا، معیشت کو سنبھالیں۔ صرف معیشت پر دھیان دیں، لوگوں کے چولہے جلنے دیں، روٹی روزی کا بندوبست کریں ‘ ملک کو چلنے دیں تو سب بچ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں آپ کے فیصلوں، حکومت کو گرانے، اپنے بندوں کو لگانے، اپنی ایک بوٹی کے لیے پورے بکرے کو ذبح کرنا، پسند کی سیاسی جماعتوں کو اقتدار دلانے، اور نا اہلوں کو حکومت میں لانے، اپنی انا کی تسکین کرنے سے پورا ملک آپ کی حماقت کی نذر ہو جائے گا۔
٭٭٭
محراب و منبر والے محمود فاروقی
اگر کوئی تحریر اور اس کے لکھنے والا ساٹھ باسٹھ سال تک اپنے قارئین کے ذہن میں زندہ ہو، تو اسے زندہ تحریر کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے، محمود فاروقی اور محراب منبر دونوں ایسے ہی نام ہیں، جو چھ دہائی گزرنے کے باوجود اپنے قاری کو سحر میں مبتلا کیئے ہوئے ہیں، محمود فاروقی کے یہ کالم ساٹھ کی دہائی میں روزنامہ حریت میں بلا ناغہ شائع ہوتے رہے۔ یہ کالم اپنے مخصوص طرز تحریر، اپنے منفرد اسلوب، ندرت خیال، تحقیق کی بنا پر دل اور ذہن پر نقش ہو جاتے اور ہم جیسوں نے کبھی کبھار پڑھا تو آج تک صاحب تحریر اور تحریر کی چاشنی کو نہیں بھولے۔
کبھی تحقیق، تحریر، ادب، شاعری، خیال ہماری میراث تھی، لیکن آج ہم نے اس میراث سے جان چھڑا لی ہے، ہم علم، کتاب، تحقیق، پڑھنے سے دور ہو گئے۔ دنیا کے بہترین معلم اخلاق اور تعلیم و تربیت کرنے والے ہمارے پیارے رسولﷺ نے سب سے پہلے ایسے انسان تیار کیئے جنہوں نے اپنی زندگی تعلیم، تحقیق، جستجو میں صرف کر دی، اور آج 14 سو سال بعد بھی ہم ان عظیم ہستیوں کا جنہیں صحابہ کرام کا درجہ حاصل تھا، کا بار احسان اٹھائے ہوئے ہیں۔ جس نے ہمیں علم کے خزانے اور سمندر عطا کیئے، اور آج بھی ہم ان چشموں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
سید مودودی رح نے جب تحریک اسلامی کا احیاء کیا تو ان کے پیش نظر بھی ایسے ہیرے تراش کرنے کا کام تھا، وہ خود بھی صحافی، مبلغ، سیرت نگار، محقق، صاحب تفسیر، بہترین نثر نگار تھے ،ا س لیے ان کے آس پاس بھی ایسے ہی شجر سایہ دار لگے، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا منظور نعمانی، نعیم صدیقی، پروفیسر عبد الحمید صدیقی اور پروفیسر خورشید احمد، ملک غلام علی، سید اسعد گیلانی، مولانا ماہر القادری، میاں طفیل محمد، کتنے نام ہیں، جو اس کار خیر میں حصہ لیتے رہے، یہ دور فکر و فاقہ کا دور تھا، لکھنے والوں کو نہ آج جیسی سہولیات تھیں، معاوضہ تو درکنار کوئی چھاپنے پر بھی تیار نہ ہوتا تھا، ابلاغ کے تمام ذرائع پر بائیں بازو کی بہت مضبوط گرفت تھی، اسی قافلہ میں محمود فاروقی اور خالد فاروقی کا نام بھی شامل ہے، دونوں بھائی سید ابو اعلیٰ مودودی کے جانثار سپاہی تھے، اور دونوں کا اوڑھنا بچھونا لکھنا پڑھنا، درس و تدریس ہی تھا۔ یہ لوگ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ محمود فاروقی کو ’سیکولر ادبی صنم خانوں کا محمود غزنوی‘ کا خطاب بھی دیا گیا، کیونکہ انھوں نے ادب میں مقصد کو ہمیشہ مقدم رکھا، ان کی تحریر میں ایک چاشنی ہے، جو بھی ان کی تحریر پڑھتا ہے، اس کا اسیر ہو جاتا ہے، میں نے جب ان مضامین کو پڑھنا شروع کیا تو یقین مانیئے، میں اس کتاب میں کھو کر وقت گردش کو بھی بھول گیا، ان مضامین کو آپ کہیں سے شروع کریں، آپ اس تحریر کی لذت میں ڈوب جائیں گے۔ قصہ آدم سے لے کر اس دنیا میں آنے والے پیغمبروں کے واقعات کو جس انداز میں لکھا ہے، وہ ایسا ہے کہ آپ کے ذہن پر یہ واقعات نقش ہو جائیں، سب سے بڑھ کر اس قصہ گوئی میں تاریخ، واقعات، اور قران کو ملحوظ خاطر رکھا گیا، قرآنی آیات کے حوالے جا بجا ہیں۔ جو اس کی علمیت اور اہمیت کو دوچند کر دیتے ہیں۔ سب سے خوبصورت قصہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے، جس میں فراعین مصر کی پوری تاریخ سمو دی گئی ہے۔ یہ معلومات کس محنت سے حاصل کی گئی ہوں گی۔ اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت نہ تھی۔
محمود فاروقی ایک بہترین افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہو سکتے تھے، اللہ نے ان کی تحریر میں زبان و بیان کی دلکشی عطا کی تھی۔ انھوں نے ہمیشہ ادب میں مقصدیت کو اولیت دی، ورنہ ذہنی مجرم، بساطی باڑہ۔ پڑاؤ امرت رس اور تاباں سیریز کے افسانے انھیں صف اول کے افسانہ نگاروں میں شمار کراتے۔ ان کے ان افسانوں اور کہانیوں کو بھی مجموعہ کی شکل میں سامنے آنا چاہیئے۔
میں شاہد فاروقی، مشہود فاروقی، اور مسعود فاروقی کو اس شاندار کام پر مبارک باد دیتا ہوں، اور اپنی اس تجویز کو دہراتا ہوں کہ آج کل سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کا دور ہے، کتابوں کی شکل بدل رہی ہے۔ تحریری کتابوں کی جگہ بولتی کتابیں لے رہی ہیں۔ فاروقی برادران کو یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ خالد فاروقی اور محمود فاروقی کی تحریروں کو صوتی شکل میں یو ٹیوب پر لانے اور جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ یوں ایک زمانہ ان کی تحریروں سے آشنا بھی ہو گا اور یہ ایک صدقہ جاریہ بھی ہو گا کہ نوجوان نسل ان کے پیغام سے فیض یاب ہو گی۔
٭٭٭
لندن سے دبئی تک
پاکستان کی قسمت کے فیصلے پہلے لندن میں ہوتے تھے، اب دبئی میں ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان فیصلوں میں عوام اور ان کی رائے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، انتخابات کیسے ہوں گے، نگران حکومت میں کون کون حصہ دار ہوں گے، یہ سب اب ایک معاہدے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ اس عبوری سیٹ اپ کے تحت ہونے والے انتخابات کیسے ہوں گے، اس کے بارے میں آپ ابھی سے اندازہ کر سکتے ہیں، جیت کے حصہ دار بہت ہوتے ہیں، چاہے یہ جیت طاقت، اور پیسے کے بل بوتے پر حاصل کی ہو یا دھاندلی کے ذریعے۔ ہار نے والوں کا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ یہ تجربہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی سے کر لیا ہے۔ پاکستان میں خاندانی سیاست مستحکم ہے، اور مستقبل میں بھی سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری قائم رہے گی۔ دبئی میں دو طاقتور سیاسی خاندانوں کے سربراہان اور خاندانوں کی ملاقات میں ملک میں آئندہ کی سیاست کے جو اہم فیصلے ہوئے ہیں، وہ اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔ فوج سے معاملات کرنے میں آصف زرداری نواز شریف سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ اس ملاقات میں مبینہ طور پر آئندہ نگراں سیٹ اپ کے ساتھ ساتھ مستقبل کے اتحاد کی تشکیل پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ اس ملاقات میں دونوں با اثر خاندانوں نے اپنی جانب سے مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر مریم نواز، اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی شریک رکھا۔ یہ ملاقات پاکستانی سیاست میں خاندانی غلبہ کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری نے عملی طور پر انتخابات کے بعد طاقت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کو گلے لگایا ہے۔ لیکن ملاپ اور
دبئی ملاقات یقینی طور پر جمہوریت کے نئے چارٹر پر دستخط کرنے کے لیے نہیں تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد دونوں خاندانوں کے زیر تسلط موجودہ طاقت کے ڈھانچے کو مستحکم کرنے کی حکمت عملی تیار کرنا تھا۔ کسی تیسرے ملک میں جمہوریت کے سیاسی لیڈروں کی حصول اقتدار کے لیے ہونے والی ملاقات کی یہ ایک انوکھی مثال ہے۔ سیاست خاندانی معاملہ بن جائے تو منتخب جمہوری فورمز غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی خاندان ہے۔ جس کے ممبران باری باری حکومت کرتے ہیں۔
عبوری انتظامیہ کی تشکیل پر دونوں خاندانوں کے بڑے افراد کے درمیان ہونے والا معاہدہ آئین پاکستان سے بھی متصادم ہے، جس کی آئینی شق میں کہا گیا ہے کہ نگراں انتظامیہ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے اور اس کے نام قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت سے طے ہونا چاہیے۔ لیکن اقتدار کے اس کھیل میں آئین کی پرواہ کسے ہے؟
پی ٹی آئی کے خاتمے کے تمام مراحل کی تکمیل جاری ہے، ورک ان پروگریس کا بورڈ لگا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود عمران خان کا بھوت بہت سے لوگوں کی نیند اڑائے ہوئے ہے۔ الیکٹرونک میڈیا پر عمران خان کی تصویر اور نام لینے پر بھی پابندی ہے، اس سے پہلے الطاف حسین اور نواز شریف پر بھی ایسی پابندیاں عائد ہوئی تھیں، لیکن ان کے لیے عدالتی احکامات کا سہارا لیا گیا تھا۔ لیکن اس بار اس کا بھی تکلف نہیں رکھا گیا۔ پیمرا اور عدالتی احکامات اس بارے میں خاموش ہیں۔ لیکن یہ پابندی اتنی سختی سے جاری ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم اورنگ زیب بھی اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان کا نام لینے سے کتراتے ہیں، اور ان کا نام لیے بغیر سربراہ پی ٹی آئی کہہ کر کام چلایا جا رہا ہے۔ اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انتخابات کے لیے راستہ صاف ہو گیا ہے۔ لیکن ابھی تک ٹائم فریم کہیں نظر نہیں آتا۔ اس پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا الیکشن سے پہلے عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ ریاستی جبر کے ذریعے پی ٹی آئی کے توڑنے کا عمل اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے نئی حکومتی پارٹی کے قیام نے پورے جمہوری عمل کو مذاق بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکن جیلوں میں بند ہیں اور دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے خلاف فوجی عدالتوں میں بھی مقدمات کی تیاریاں ہیں۔ فوجی تنصیبات کی متعین تعریف میں کونسے مقامات آتے ہیں، اور کیا نو مئی کے واقعات میں جن مقامات پر حملے ہوئے وہ فوجی تنصیبات کی تعریف میں شمار ہوتی ہے۔ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کو یقیناً سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن اس سے پہلے یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ کونسی فوجی تنصیبات تھیں، جنہیں نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ کریک ڈاؤن سے اس بیانیہ کو تقویت دی ہے کہ یہ تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے دور رکھنے یا کم از کم اسے کمزور کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ان مذاکرات میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی شرکت نے مسلم لیگ ن کی اس امید کو بڑھا دیا ہے کہ نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بن جائیں گے۔ نواز شریف اب سعودی عرب کے دورے پر ہیں، جہاں وہ اعلیٰ سعودی رہنماؤں سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا، بلکہ ان کے ضامن بھی ہوئے ہیں۔
اس بار میدان جنگ پنجاب بنا ہے، عمران خان پنجاب کے دل لاہور میں براجمان ہیں، پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں کو جیلوں اور مقدمات کا سامنا ہے، جن کی بڑی اکثریت کا تعلق بھی پنجاب سے ہے، اس طرح پنجاب میں سیاسی کارکنوں کو پولیس اور ریاستی چیرہ دستیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس سے پہلے سندھ، بلوچستان، سرحد، کی سیاسی جماعتیں اس صورت حال سے گذر چکی ہیں۔ اے این پی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن، بلوچستان نیشنل پارٹی منگل گروپ اس ٹوٹ پھوٹ اور کریک ڈاؤن کا شکار ہو چکی ہیں، ان میں سے بیشتر جماعتوں کی شجر کاری اسی نرسری میں ہوئی تھی، جس میں تحریک انصاف کی نشو و نما ہوئی ہے۔
٭٭٭
گالیاں کھا کے بد مزہ نہ ہوا
میں بس سے اترا تو وہ بھی میرے ساتھ ساتھ اترا، خفیہ پولیس کا کوئی اہلکار تھا، جیمس آباد سے حیدرآباد آتے آتے مجھے احساس ہو گیا تھا کہ یہ ’خفیہ‘ والا میرے پیچھے ہے۔ قادیانیوں کے خلاف تحریک زوروں پر تھی، تحریک ختم نبوتﷺ میں نوجوان اور یونیورسٹی کالجوں کے طلبہ بھی ہراول دستہ تھے، قیصر خان، عبد الرشید خان، زاہد عسکری، اور میں عمر کوٹ، کوٹ غلام محمد(جیمس آباد)، کنری، میر پور خاص کے دورے پر تھے، ہم مساجد میں جاتے اور نماز کے بعد وہیں نمازیوں سے قادیانی مسئلہ پر گفتگو کرتے، تقریر کرتے، کارنر میٹنگ کرتے، اور کہیں کہیں موقع پا کر کر عشاء کے بعد جلسہ بھی ہو جاتا۔ میں اکیلا واپس ہوا تھا، باقی اسی طرح جلسے جلوس اور تحریک میں مصروف رہے، پھر ایک دن ہم پولیس کے ہتھے چڑھ گئے، اور اس تحریک میں سنٹرل جیل حیدرآباد چلے گئے۔ وہیں میں نے وہ نظم لکھی تھی ؎، ہم نے جھوٹے نبی کو نا مانا نبی۔ حاکم وقت کی مصلحت توڑ کر ہم نے نعرہ لگایا ببانگ دہل، خاتم الانبیاء خاتم الانبیاء مصطفےٰؐ مصطفےٰؐ۔ 7 ستمبر 1974 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ جن دنوں تحریک ختم نبوت جاری تھی، پنجاب کے کسی شہر میں ایک قادیانی نے عدالت میں ایک مقدمہ دائر کر دیا کہ گاؤں کا ایک فرد مرزا غلام احمد قادیانی کو گالیاں دیتا ہے۔ مقدمہ میں جو وکیل صاحب پیش ہوئے، انھوں نے اس قادیانی کو عدالت کے کٹہرے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بتائیں کہ مرزا غلام احمد کو کیا گالیاں دی گئیں۔ اب قادیانی کو چپ لگ گئی، اور وہ خاموش کھڑا رہا، تو وکیل صاحب نے ان سے کہا کہ آپ شاید وہ گالیاں دہرانا نہیں چاہتے، لیکن میں آپ کی سہولت کے لیے خود یہ گالیاں نکالتا ہوں، آپ بس اشارہ کر دیں کہ کونسی گالی دی گئی تھی۔ اب وکیل صاحب نے بھری عدالت میں مجمع کے سامنے جو فصیح و بلیغ گالیاں دینا شروع کی، اور ہر گالی کے بعد پوچھتے رہے کہ کیا مرزا کی شان میں یہ گالی دی گئی تھی، گالیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا، وکیل صاحب نے اپنے اسٹاک کو بچاتے ہوئے کہا کہ اگر ان میں سے کوئی گالی نہیں تھی تو مجھے موقع دیں کل میں مزید گالیاں تلاش کر کے لاؤں گا۔ تاکہ آپ کے مقدمے کا فیصلہ کیا جا سکے۔
آج کل ہمارے خان صاحب اسی وکیل کا کردار ادا کر رہے ہیں، فوج سے اپنے معاملات کو درست رکھنے کے لیے اب انھوں نے نئی حکمت عملی اختیار کی ہے، انھوں نے جلسوں میں کہنا شروع کیا ہے کہ ’’فوج بھی میری۔ اور ملک بھی میرا۔ اور میں نے تو کہا تھا کہ فوج کے خلاف کوئی بات نہ کریں۔‘‘ لیکن یہ جو موجودہ حکومت میں جو لوگ ہیں، یہ فوج کے بارے میں کیا کہتے رہے ہیں، پھر خان کے اشارے پر وہ کلپ جلسوں کے اسکرین پر چلنا شروع ہوتے ہیں، جن میں اسپیکر قومی اسمبلی ’’ٹانگیں کانپ رہی تھی، رنگ اڑی ہوئی تھی‘‘ کہتے نظر آتے ہیں، پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کلپ چلتا ہے، پھر مریم بی بی کی تصویر کچھ کہتی نظر آتی ہے، پس منظر میں نعروں کی آواز بھی آتی ہے، یہ جو دہشت گردی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کے پیچھے۔۔۔ پھر خان صاحب مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔ پھر وہ زرداری کا اینٹ سے اینٹ بجانے والا کلپ چلا دیتے ہیں۔ پھر مولانا فضل الرحمان کا غصہ اور انھیں گرجتا ہوا دکھاتے ہیں۔ پھر عدلیہ پر حملہ والی ویڈیو چلا دیتے ہیں۔ بے شک اب ٹوئیٹر پر تحریک انصاف والے گالیاں دیتے کم نظر آتے ہیں، اب ان کے پاس نون لیگ، پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمن، خواجہ سعد رفیق، مریم نواز، ایاز صادق کے ویڈیو کلپ ہی کافی ہیں، جو وہ جب چاہیے چلا دیں، اور اپنے ہاتھ کھڑے کر دیں کہ ہم تو یہ نہیں کہہ رہے یہ تو آپ کے چہیتے کہہ رہے ہیں، جنہیں آپ نے اقتدار دیا ہے، تخت پر بٹھایا ہے، خان صاحب پی ڈی ایم والوں سے ہماری اشٹیبلسمنٹ کو وہ کچھ سنا رہے ہیں، جو سنانے کی حسرت وہ دل میں لیے ہوئے ہیں۔
بندوق سے نکلی گولی، اور زبان سے نکلی بات کبھی واپس نہیں آتی، سیاست دانوں کو سیاست میں آنے سے پہلے اخلاقیات سکھانے کی ضرورت ہے، تمیز سے بات کرنا، دلائل سے گفتگو کرنا، شعر و ادب سے تقریروں میں چاشنی پیدا کرنا، انھیں مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، قائد اعظم، مولانا مودودی، نصر اللہ خان، پروفیسر غفور احمد، جیسے لیڈروں سے سیکھنا چاہیئے۔ قائد اعظم سیاست میں آنے سے پہلے باقاعدگی سے برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈ میں پارلیمانی لیڈروں کی تقاریر سننے جایا کرتے۔ جس طرح موسیقی، رنگوں اور خوشبوؤں کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح بڑے آدمی کی زندگی کے چند گوشوں پر روشنی تو ڈالی جا سکتی ہے مگر اس کی شخصیت کا جادو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لفظوں میں لکھا جا سکتا ہے نہ بتایا جا سکتا ہے۔ اب کہاں ہیں ایسے لیڈر ایسے رہنما۔۔۔۔ ۔ اب تو الزام ہیں، دشنام ہیں، اور گالیاں ہیں یا دھمکیاں ہیں۔ لیکن وہ ہیں کہ ان گالیوں کو بھی محبوب کے منہ سے جھڑنے والے پھول ہی سمجھتے ہیں۔ سچ کہا کہ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب۔ گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا۔
٭٭٭
کون ہے یہ حافظ نعیم الرحمن؟
حافظ نعیم الرحمن کون؟
وہ دھرنے والا جو سندھ اسمبلی کے سامنے بیٹھا رہا۔
حافظ نعیم الرحمن کون؟
وہی جو بارش میں نوجوانوں کے ساتھ پھنسی ہولی گاڑیوں کو نکلوا رہا تھا۔
حافظ نعیم الرحمن کون؟
ارے وہی جو کے ای کے دفتر کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھا رہا۔
حافظ نعیم الرحمن کون؟
وہ جو واٹر بورڈ والوں کو کراچی کے شہریوں کا پانی چوری کرنے پر ان کے پیچھے پڑ گیا تھا
حافظ نعیم الرحمن کون?
وہی نا جس نے کرونا میں دن رات ایک کر کے گھر گھر کھانے پہنچائے، دوائیں دی۔ سستے ٹیسٹ کرائے۔
حافظ نعیم الرحمن کون؟
وہی جو عدالتوں میں پانی اور بجلی کے لیے کیس لے کر گیا تھا۔
حافظ نعیم الرحمن کون؟
وہی جو شیر کی طرح دھاڑتا ہے۔ ہر مسئلہ پر کراچی کی آواز بن جاتا ہے۔
حافظ نعیم الرحمن کون؟
وہی جو کراچی کے نوجوانوں کو بنو قابل کا سبق پڑھا رہا ہے۔
حافظ نعیم الرحمن کون؟
یار وہی جو حکمرانوں کو للکارتا ہے۔ جو بحریہ والوں کے حلق سے لوگوں کی رقم نکلوا کر لوگوں کو چیک تقسیم کرتا ہے۔
کون ہے یار یہ حافظ نعیم الرحمن؟
ارے وہی جو نسلہ ٹاور کے مکینوں کے ساتھ کھڑا رہا، جو اسٹریٹ کرائم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔
کون ہے بھئی یہ حافظ نعیم الرحمن؟
یار یہ حافظ نعیم الرحمن بھی جانے کس مٹی کا بنا ہے۔ اب کراچی کی بارش پر بھی اس نے سب کا کچا چھٹا کھول کر رکھ دیا۔ اب اسے ایک بار میئر بنا دو کراچی کا سب کو ٹھیک کر دے گا۔ نر کا بچہ ہے نر کا بچہ انشا اللہ اس کو کامیاب کرنا ہے۔ بہت عرصے بعد کراچی کو ایک سچا پکا لیڈر ملا ہے۔
یہ تو ایک روشن ستارہ ہے۔ منزل کی نشان دہی کرنے والا راہ دکھانے والا ہمت بندھانے والا راستہ بتانے والا آسمان پر چمکنے والے ستارے سے روشنی پانے والے اپنا راستہ تلاش کرنے والے منزل کی جستجو کرنے والے ہی اس سے فیض اٹھاتے ہیں۔ کراچی کے افق پر یہ روشن ستارہ امید کی کرن ہے۔ شعور کا امتحان ہے غریب کی مانگ ہے تنگ دستوں کی مان ہے۔ کراچی میں حافظ نعیم الرحمن تین کروڑ سے زائد آبادی کے حقوق کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے حق دو کراچی کے نعرے کو نوجوانوں کی آواز بنا دیا ہے۔ کراچی کے شہری ان کی قیادت پر اعتماد رکھتے ہیں۔ سندھ اسمبلی پر تاریخی کامیاب دھرنا کراچی کی مردم شماری با اختیار شہری حکومت کے قیام، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈینگ جیسے کتنے ہی مسائل ہیں، جن پر حافظ نعیم الرحمن آواز اٹھاتے ہیں۔ پانی کی ہر گھر میں لائین کے ذریعہ فراہمی کے لیے ان کی جد و جہد نے لوگوں میں جینے کی ایک امنگ اور اپنے حقوق کے لیے کوشش کا نیا راستہ دکھایا ہے۔ کراچی کی بارشوں اور کرونا کے دنوں میں ان کی امدادی سرگرمیاں بھی قابل تعریف ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن نے طلبہ سیاست سے آغاز کیا انھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے طلبہ کی بھرپور قیادت کی۔ شہری سیاست میں تعلیمی زندگی سے فراغت کے بعد حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے، وہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر بھی ہیں، اور ملک گیر سماجی تنظیم الخدمت کراچی کے صدر بھی ہیں، حافظ صاحب ایک طویل عرصے سے کراچی کی سیاست کی توانا آواز ہیں، شہر کے مسائل اور عوام کے حقوق کے حصول کے لیے بیک وقت کے الیکٹرک، واٹر بورڈ، نادرا، سوئی سدرن گیس سمیت مختلف عوامی مسائل کے لیے دھرنوں، مظاہروں، حقوق کراچی مارچ کی صورت میں کراچی کے مظلوم عوام کا مقدمہ ایک تسلسل سے لڑ رہے ہیں۔ وہ اس بار بلدیاتی الیکشن میں اپنی ٹیم کو لے اترے ہیں، وہ خو بھی بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل الفلاح نارتھ ناظم آباد سے چیئر مین کے امیدوار ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں کراچی کو ایک عوامی مخلص اور محنتی قائد ملا ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے حافظ نعیم الرحمن زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے۔
گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر کراچی کو حافظ نعیم ضرورت ہے۔ ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے راتوں کو جاگ کر دن بھر مصروف رہ کر اپنی صحت خراب کر لی ہے۔ وہ سردی گرمی بارش خوشی غمی ہر وقت کراچی کی بہتری کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایسے ہیرا صفت لوگ کسی شہر کو مل جائیں تو شہروں کی قسمت بدل جاتی ہے کراچی کے لوگوں کو اللہ نے یہ موقع دیا ہے اب بھی صحیح فیصلہ نہ کیا تو کراچی کا اللہ ہی حافظ ہے۔
٭٭٭
کون بنے گا میئر کراچی
کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، دس ماہ کا عرصہ گذر گیا، لیکن اب تک بلدیاتی انتخاب کا یہ عمل مکمل نہیں ہو پا یا ہے، نہ ہی اس شہر کی بلدیاتی قیادت کو کام کرنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ ووٹ لے کر پہلی پوزیشن لی، دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پر تحریک انصاف رہی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ ووٹ لے کر بھی جماعت اسلامی نشستوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر اور پیپلز پارٹی پہلے نمبر ہے، ان انتخاب میں پیپلز پارٹی نے بدترین دھاندلی کی، اور اب بھی وہ اس کوشش میں ہے کہ کراچی کا میئر پیپلز پارٹی کا ہو، الیکشن کمیشن نے کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے لیے، 15 جون کی تاریخ کا اعلان کیا ہے، جس کے کاغذات نامزدگی، 9 اور 10 جون کو داخل کیے جائیں گے، ان انتخابات میں چیئرمین ضلع کونسل اور وائس چیئرمین ضلع کونسل کا بھی انتخاب ہو گا۔
گذشتہ دو ہفتوں سے کراچی میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے، سڑکوں سے کوڑا صاف ہونا شروع ہوا ہے، اور بلدیاتی صفائی کا عملہ بھی کام کرتا نظر آ رہا ہے، مٹی اور کوڑا صاف ہونے سے گرد و غبار کا طوفان بھی کسی حد تک تھم گیا ہے۔
کراچی کی میئر شپ کے لیے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان سب سے زیادہ فیورٹ ہیں، لیکن انھیں اس میئر شپ کے لیے بہت سے پلوں کو عبور کرنا پڑ رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی کی جانب مذاکرات کا آغاز کیا تھا، لیکن یہ مذاکرات پیپلز پارٹی کی ضد اور ہٹ دھرمی کا شکار ہو گئے۔ 9 مئی کے بعد صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی آئی، اور تحریک انصاف کے خلاف جو آپریشن شروع ہوا، تو پیپلز پارٹی کے رویہ میں مزید سختی آئی اور زرداری اور بلاول بھی یہ کہنے لگے کہ کراچی میں میئر جیالا ہو گا۔ اس صورت حال میں جماعت اسلامی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ یا تو وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے، یا تحریک انصاف سے ورکنگ ریلیشن شپ بحال کرتے ہوئے، میئر کے لیے ان کے ووٹ حاصل کرے۔ جس وقت پورے ملک میں ریاستی طاقت عمران خان اور تحریک انصاف کو کچلنے میں مصروف ہے، حافظ نعیم الرحمان اور لیاقت بلوچ نے عمران خان سے ملاقات کر کے سیاست میں ایک دھماکہ کر دیا ہے، عمران خان نے کراچی کی میئر شپ کے لیے، جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے اتحاد کی صورت میں دونوں کے ووٹ 192 ہوں گے، جبکہ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی اتحاد کے پاس 173 ووٹ ہیں۔ جب سے حافظ نعیم الرحمن اور لیاقت بلوچ نے لاہور میں زمان پارک میں جا کر عمران خان سے ملاقات کی ہے، اور کراچی کی مئیر شپ میں عمران خان نے جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، پیپلز پارٹی کو سانپ سونگھ گیا ہے، لیکن یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے، پیپلز پارٹی اتنی آسانی سے سونے چڑیا کراچی سے دستبردار نہیں ہو گی، در پردہ خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ، دھونس دھمکی کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کی حمایت کرتے ہوئے، مسلم لیگ ن کے کراچی کے سات منتخب چیئر مینوں نے میاں نواز شریف کو ایک درخواست دی ہے، اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے، ڈپٹی میئر مسلم لیگ ن کا ہونا چاہیئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس پر کہاں تک عمل کرتی ہے یا نہیں کرتی ہے۔
جماعت اسلامی میں کچھ لوگ عمران خان سے مفاہمت اور تعاون کے خلاف ہیں، لیکن انھیں سوچنا چاہیئے کہ سیاست میں زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، جماعت اسلامی کو مین اسٹریم کی سیاست کرنے میں کہیں نہ کہیں اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈالنا ہو گا۔ ورنہ موجودہ صورت حال میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ پیپلز پارٹی کراچی کی تعمیر و ترقی سے زیادہ اس کے فنڈز اور دیگر اختیارات سے دلچسپی رکھتی ہے، اس نے کراچی کے تمام ترقیاتی اداروں پر اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکار کراچی میں کروڑوں روپے دھونس دھمکی، اور ناجائز اختیارات سے روزانہ ہتھیا رہے ہیں، ناجائز تعمیرات یا نقشہ منظوری کے بغیر تعمیرات کرنے والوں کو بغیر کسی نوٹس اور پیشگی وارننگ کے ڈیمالیش کرنے والا عملہ توڑ پھوڑ شروع کر دیتا ہے، اور پھر کیش رشوت کی رقم لے کر انھیں مذاکرات اور مزید رقوم کے لیے بلایا جاتا ہے، پیپلز پارٹی نے بڑی حد تک میئر شپ کراچی کو اپنا حق سمجھ لیا ہے، اور اسی لیے حال ہی میں اس نے میئر کراچی کے اختیارات میں قابل قدر اضافہ کیا ہے، اس میں میئر کراچی، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، واٹر بورڈ، اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے اداروں کا بھی سربراہ ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں کا دعوی ہے کہ ’کراچی کا میئر جیالا ہو گا اور حقیقی کراچی والا ہو گا‘۔
کراچی اس وقت بری طرح تباہ حال ہے، پیپلز پارٹی نے اس شہر کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا ہے، شہر کی مرکزی سڑک ایم اے جناح روڈ، صدر، یونیورسٹی روڈ ٹوٹ پھوٹ کدائی، تعمیراتی کام کے سبب شہریوں کے لیے عذاب بن گئی ہے۔ گذشتہ بارشوں میں تباہ ہونے والے سڑک کی پیوند کاری اس وقت کی گئی ہے، جب جون جولائی کی بارشیں ہونے والی ہیں، ان میں انتہائی ناقص میٹریل کا استعمال کیا گیا ہے، جو پھر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کی تعمیر نو کے لیے ایسی اہل قیادت لائی جائے، جو عوام میں اثر نفوذ رکھتی ہو، کیونکہ کراچی کے مسائل عوام کے تعاون اور ان کی شرکت کے بغیر حل نہیں ہوں گے، جماعت اسلامی کی قیادت اس بات کا ویژن بھی رکھتی ہے، اور اس کے پاس عوامی حمایت بھی موجود ہے، جس سے اس شہر کے حالات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، ورنہ پیپلز پارٹی تو پہلے بھی یہاں ایڈمنسٹریٹر بٹھا کر کام چلاتی رہی ہے، جنہوں نے کراچی کو لوٹ مار اور کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے، کراچی کے بارے میں عوام سے زیادہ فیصلہ کا اختیار ان ریاستی اداروں کو حاصل ہے، جو اس شہر میں امن و امان کے نام پر گذشتہ 35 برسوں سے شراکت دار ہیں، کراچی میں بجلی پانی گیس ٹرانسپورٹ سب پر مافیاز کا قبضہ ہے، جسے ایک با اختیار اور دیانت دار قیادت ہی نکیل ڈال سکتی ہے۔
٭٭٭
کرنے کا اصل کام
محبت میں گرفتار فرد کیا کر سکتا ہے، سوائے اس کے کہ اس سمندر میں ڈوب جائے، اور اپنے آپ کو فنا کر لے۔ لکھنا میرے لیے محبت جیسا ہی ہے، مجھے لفظوں سے پیار ہے، اور میں اس محبت کے اظہار کے بہانے تلاش کرنے لگتا ہوں، کوئی موضوع، کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی قصہ، کوئی حادثہ، کوئی دل چیر دینے والی پھانس مجھے لکھنے پر اکساتی ہے، اور پھر میں لفظوں کو آواز دیتا ہوں، کبھی کبھی یہ ناراض بھی ہو جاتے ہیں، میرے لاکھ بلانے پر نہیں آتے، اور کبھی کبھی یہ میرے دل کی منڈیر پر بیٹھے نغمے سناتے ہیں، اور مجھے مجبور کرتے ہیں کہ میں ان سے کھیلوں، جب یہ کھیل شروع ہوتا ہے تو پھر کچھ ہوش نہیں رہتا، کہانی، قصہ، حادثہ، درد دل سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
حالات جوں کے توں ہیں، کوئی خیر کی خبر نہیں، ایک اور لاش مل گئی ہے، ہماری سیاست میں لاشیں ہی رہ گئی ہیں، ہم اپنے مردے چوراہے پر لا کر ان پر سیاست کرتے ہیں، ایک کے بعد ایک ایسے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں، آج تک ایسے واقعات عدم تحقیق کے سبب تاریخ میں زندہ ہی رہتے ہیں۔ کبھی کبھی انصاف کے ترازو بھی برابر نہیں رہتے۔ ظلم کے قصے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ الیکشن کب ہوں گے، کیسے ہوں گے، اور اس سے کیا نتیجہ برآمد ہو گا، اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتا۔ ادارے اب کہاں ہیں، یہ نہ اپنا فیصلہ کرتے ہیں، اور نہ ہی کوئی کام ڈھنگ سے کرتے ہیں۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو ہوئے کتنا عرصہ گذر گیا۔ لیکن سوائے قانونی موشگافیوں، بیانات، اعلانات کے کیا ہوا ہے، کراچی تباہ حال ہے، سڑکوں پر گندے پانی کا بہاؤ، مٹی کے ڈھیر، گڑھے، کھلے مین ہول، فٹ پاتھوں پر کچرے کے ڈھیر، غلاظت، گداگروں کے غول، تجاوزات، رانگ سائڈ ٹریفک، لوٹ مار، قتل، سب کچھ اس شہر میں ہو رہا ہے، جانے کون لوگ ہیں، جو آرام سے حکمرانی کی سیج پر بیٹھے ہیں، رات دن رشوت کا بازار گرم ہے۔ لیکن کسی کو توفیق نہیں کہ جرائم کرنے والوں سے باز پرس کرے۔
بلدیاتی انتخابات میں بلدیاتی انتخاب میں گیارہ یو سیز ایسی تھیں، جن پر انتخابات نہیں ہو سکے۔ تھے، اب تک ان نشستوں پر انتخابات کا اعلان ہی نہیں کیا گیا۔ ایک صرف جماعت اسلامی ہے، جو اس معاملے پر مسلسل احتجاج کر رہی ہے، جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل نہ کرنے کے خلاف 17 مارچ کو کراچی جام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن اب تک کراچی کے معاملات اسی طرح ہیں۔
کراچی پاکستان کی معیشت کا دل ہے، اگر یہ دل دھڑکنا بند کر دے گا، تو ملک کی حالت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اب حکومت کے اہلکاروں پر عوام اور تاجروں کا اعتبار ختم ہو گیا ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے وزیر خزانہ کو بڑے تاجروں صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی موجودگی میں ملاقات کرنی پڑی۔ اس ملاقات کا بہت چرچا ہے۔ ملاقات میں معاشی بے چینی، بد اعتمادی اور سیاسی عدم استحکام جیسے موضوعات پر کھل کر بات چیت ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی باتوں پر اب تاجر اعتماد نہیں کرتے، ان کے دعووں پر اب تاجر برادری کم ہی اعتبار کرتی ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر تاجر برادری کو آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ٹریک پر لانے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کے تعاون اور مستقل کے متوقع معاشی منظر نامے میں رنگ بھرے ہیں۔
سیاسی عدم استحکام اور سیاسی معاملات سے لے کر معاشی معاملات تک اب لوگ فوج ہی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ گو فوج یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اب کسی طور پر سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی لہٰذا سیاستدانوں کو اپنے سیاسی معاملات خود حل کرنا چاہییے۔ لیکن اس کے باوجود فوجی قیادت کو اس تنگنائے میں لایا جا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف نے بزنس کمیونٹی کو پیغام دیا ہے کہ مسائل ضرور ہیں مگر پاکستان میں سب برا نہیں ہے، مل کر ملک کو مسائل سے نکالیں گے اور آخر تک لڑیں گے۔ تاجر برادری سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملک کو درپیش معاشی صورتحال سے نکالنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں مشکلات ضرور آتی ہیں لیکن ہر مشکل کے بعد آسانی بھی آتی ہے پاکستان نے ماضی میں بھی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور ان مشکلات سے کامیاب ہو کر نکلا ہے انشاء اللہ ہم اس مشکل سے بھی نکل جائیں گے۔ دوست ممالک خاص کر چین اور عرب ممالک کی جانب سے بھی پاکستان کی امداد لی خوش خبری سنائی جا رہی ہیں۔
لیکن اصل مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ عوام اور تاجر برادری کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں ہے، پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایک قابل اعتماد مستحکم حکومت قائم ہو، جس پر سب کو پورا اعتماد ہو، بیرونی دنیا اور ہمارے دوست ممالک بھی اسی وقت ہماری مدد کریں گے، جب یہاں ایک ایسے قیادت موجود ہو، جس سے بات چیت اور وعدے وعید کیے جا سکیں۔
اب رمضان کا مہینہ سر پر ہے، اس ماہ میں ہمارے تاجر جی بھر کر عوام کو لوٹتے ہیں، مہنگائی اپنے عروج پر ہوتی ہے، عوام کو اس بار سادگی کے ساتھ ساتھ ایک اتحاد کی بھی ضرورت ہے، یوں بھی روزہ نفس کی پابندی اور صبر کا پیغام دیتا ہے، عوام کو چاہیئے کہ وہ مہنگی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔ اجتماعی طور پر سستے بازار لگائیں، رفاعی، اور امدادی تنظیمیں بھی روزہ کشائی کے نمائشی کاموں کو ترک کر کے، سفید پوش طبقے اور ضرورت مند لوگوں تک خاموشی سے امداد پہنچائیں، گداگروں کو خیرات دینے کا کلچر ختم کریں، اپنے آس پاس ضرورت مند افراد اور مستحق افراد کا کھوج لگائیں، ان کی فہرست بنائیں، ان کی مدد کریں، اس کام میں محنت تو لگے گی، لیکن کرنے کا اصل کام بھی یہی ہے۔
ہمیں ایک غضب ناک نسل چاہیئے
جو تاریخ کا دھارا بدل دے
جو اتحاد میں کامل ہو
جو ظالم حکمرانوں کو مزہ چکھا دے
قیادت کرنے والی پیش قدمی کرنے والی۔
٭٭٭
کراچی ایک دھکتا ہوا آتش فشاں
کیا کراچی اتنا ہی بدقسمت ہے، میں اب اس شہر کی سڑکوں پر خود کو بہت غیر محفوظ سمجھتا ہوں، گھر سے نکلتے ہوئے، مجھے راستے کے وہ تمام پیچ و خم یاد آ جاتے ہیں، جن سے گذر کر مجھے دفتر جانا اور واپس آنا ہے، مجھے راستے کے تمام گڑھے، ادھڑی ہوئی سڑک، زندہ انسانوں کو اپنے منہ میں ہڑپ کرنے والے اژدہوں کی طرح منہ کھولے گٹر، بہتے پانی، اڑتی دھول ایک ہول میں مبتلا کر دیتی ہے، گاڑی چلانا اب بہت دشوار ہو گیا ہے، پیدل چلنا ممکن نہیں رہا، ہر طرف سے زناٹے بھرتی موٹر سائیکلیں، آپ کو کبھی بھی کہیں پر ڈھیر کر سکتی ہیں، کراچی کے مقابلے میں مجھے حیدرآباد بہت پرسکون لگتا ہے، میں اکثر تہواروں پر اس شہر میں جا کر اپنے آپ کو محفوظ پاتا ہوں۔ عید کی تعطیلات گزارنے کے بعد کراچی میں، میں نے اپنے ساتھی محمد نواز سے ان چھٹیوں کے بارے میں پوچھا، تو اس نے اداسی اور دکھ سے کہا میری عید تو میرے روم میٹ کے اچانک حادثے اور اس کی موت کے سوگ کی نظر ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ چاند رات کو اس کے دوست عامر عباس شگری کا موٹر سائیکل پر اکسیڈینٹ ہوا، اور اسپتال میں کومے کی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہو گیا، ابھی اس کی عمر صرف 22 سال تھی وہ اردو یونیورسٹی میں ماس کیمونیکشن فائنل ایر کا طالب علم تھا، وہ گلگت کے پہاڑوں سے ایک بہتر مستقبل کے لیے کراچی آیا تھا، جہاں اس نے اپنی تعلیم اور روزگار کے لیے مسلسل جد و جہد کی۔
عید تعطیلات میں کراچی والوں پر ایک قیامت گذر گئی، لیکن اس شہر کے حکمرانوں کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی، پورے رمضان میں ٹریفک پولیس بڑی تندہی اور جانفشانی سے ٹریفک چالان کرتی رہی، کروڑوں روپے کی رشوت وصول ہوئی، اور شہر سے پانچ دن ٹریفک پولیس سڑکوں سے غائب ہی رہی، گاؤں اور دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد چھٹیاں منانے اپنے گاؤں چلی جاتی ہے۔ ان 5 دن میں روڈ ایکسیڈینٹ میں 70 افراد ہلاک ہوئے۔ 4 ہزار 168 شہری ٹریفک حادثات میں اپنے ہاتھ پاؤں اور جسم کی ہڈیاں تڑوا بیٹھے۔ دو بڑے سرکاری اسپتالوں کے ریکارڈ کے مطابق 5 دن میں 1 ہزار سے زائد شہریوں کی ہڈیاں ٹوٹیں، 3218 ایکسیڈنٹ کیسز سول ٹراما سینٹر میں اور 950 کیسز جناح اسپتال میں درج ہوئے۔ ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ اوور اسپیڈنگ اور شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کانسٹیبلز کی عدم موجودگی تھی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جناح اسپتال ڈاکٹر نوشین رؤف نے بتایا کہ 60 اموات جناح اسپتال اور 10 اموات سول ٹراما سینٹر میں رپورٹ ہوئے۔ ڈاکٹر نوشین رؤف کے مطابق روڈ ایکسیڈنٹ میں زیادہ تر اموات موقع پر ہی ہوئیں، اور زیادہ تر اموات سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوئیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ روڈ ایکسیڈنٹ کا زیادہ تر شکار ہونے والوں کی عمر 16 سے 30 سال کے درمیان تھی۔ اب ان بن کھلے مرجھا جانے والوں پھولوں کا ماتم کون کرے، کس کو اس شہر کی فکر ہے، کون یہاں کے معاملات دیکھ رہا ہے، کون اس کے لیے جواب دہ ہے۔
سندھ میں کرپشن کا جن بوتل سے باہر ہے، اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنے کے لیے ہمیں آئندہ 30 برس درکار ہوں گے۔ لے کے رشوت پھنس گیا ہے۔ دے رشوت چھوٹ جا۔ سندھ میں کرپشن اور کوٹ مار کی انتہا ہے لیکن حکومت اور ملک کی حفاظت کے دعویداروں کو اس پر کوئی تشویش نہیں ہے۔ سارے ملک میں موٹر وے بننے، اور خوب بنے، لاہور اسلام آباد موٹر وے کا تو کیا کہنا، خوبصورت مناظر، جگہ جگہ موٹل، مساجد، شاپنگ سینٹر، ریسٹورینٹ، باغات پھول پودے، لیکن کراچی حیدرآباد تو موٹر وے کے نام پر ایک تہمت ہے، پورے ہائی وے پر کوئی پارک، رکنے کے لیے تفریحی مقام، سڑک کنارے درخت، سبزہ سرے سے موجود نہیں ہے، ایک جنگل بیابان ہے، جس پر ٹرک، ٹرالر، بسیں، اور اب تو موٹر سائیکل اور رکشاء بھی دوڑتے نظر آتے ہیں، رات کی تاریکی میں سڑک پر دور دور تک روشنی کا انتظام نہیں ہے، اور ہائی وے پر لوگوں نے آمد رفت کے لیے درمیاں سے رکاوٹوں کو توڑ دیا ہے۔ حیدرآباد سکھر موٹروے کرپشن کیس سندھ حکومت کی گڈ گورنس کا منہ چڑا رہا ہے، اس منصوبے میں چار ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے، جانے حیدرآباد کراچی کے منصوبے میں کتنی لوٹ مار ہوئی ہو گی۔ حیدر آباد موٹروے کرپشن کیس کا ملزم عاشق حسین پلی بارگین میں سوا ارب روپے واپس دینے کو تیار ہو گیا ہے۔ ایم 6 موٹروے میگا کرپشن کیس میں کے ملزم عاشق حسین نے ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیورو (نیب) کو پلی بارگین کے لیے درخواست دی ہے۔ درخواست میں ملزم عاشق حسین نے کہا کہ میری نشاندہی پر ہی نیب 636 ملین روپے کی ریکوری کر چکی ہے، یہ رقم مٹیاری اور نوشہرو فیروز کو جاری ہونے والے فنڈز سے حاصل کیں تھی۔ ایم 6 موٹروے نوشہرو فیروز سیکشن میں پونے 4 ارب روپے کا غبن کیا گیا تھا جبکہ ایم 6 موٹروے مٹیاری سیکشن میں سوا 2 ارب روپوں کا غبن کیا گیا۔ اس ملزم کے سرپرست سب عیش کر رہے ہیں۔ یہ سندھ ہے جہاں سندھی اس ظلم پر بھی خاموش ہیں۔ ان کا حق مارا جا رہا ہے، ان کے سر پر قرض باندھے جا رہے ہیں، اور ترقیاتی منصوبوں میں اربوں روپے کی لوٹ مار جاری ہے، سندھ کے محکمہ تعلیم کا بھی بہت برا حال ہے، گھوسٹ اسکول ٹیچر، اسکولوں کے نام پر جعلی کاروبار، فرنیچر اور تعمیراتی ٹھیکوں میں لوٹ مار کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے۔
کراچی کی تباہی میں غیر کا کیا ذکر کریں، یہاں جو کچھ کیا ہے، اور جو ستم ڈھایا ہے، اس میں ’اپنے‘ شامل ہیں۔ حافظ نعیم الرحمان نے اس بارے میں دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے، اس جعلی اور فراڈ ڈیجیٹل مردم شماری پر بہت زبردست احتجاج کیا ہے، اور اس سارے ڈرامے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جس کی پاداش میں ان پر عصبیت کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سرکاری مشینری اپنا کام کر رہی ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق ساتویں خانہ و مردم شماری میں اب تک کے اعداد و شمار کے تحت 23 کروڑ 90 لاکھ 17 ہزار 494 افراد کو شمار کیا جا چکا ہے۔ سندھ میں 5 کروڑ 48 لاکھ 58 ہزار 515 افراد کا شمار ہو چکا ہے جبکہ پنجاب میں 11 کروڑ 68 لاکھ 27 ہزار 125 افراد کی گنتی کر لی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں 3 کروڑ 93 لاکھ 72 ہزار 462 افراد کو گن لیا گیا ہے اور بلوچستان میں 2 کروڑ 94 ہزار 659 افراد کا شمار ہو چکا ہے۔ لیکن کراچی کی مردم شماری ایک سوالیہ نشان ہے۔ کراچی میں اب تک آبادی ایک کروڑ 78 لاکھ 19 ہزار 110 دکھائی جا رہی ہے، سندھ کے گاؤں گوٹھوں کی آبادی میں سالانہ ڈیڑھ فیصد آبادی کا اضافہ دکھایا جا رہا ہے، یوں شہروں کی آبادی کم اور دیہاتوں کی آبادی زیادہ دکھائی جا رہی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سالانہ ڈیڑھ فیصد گروتھ رکھنے والے تعلقہ اور تحصیلوں میں مردم شماری کو منجمد کرنے کے فیصلے کے خلاف وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ انھوں نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو لکھا ہے کہ ’’اگر ہمارے تحفظات دور نہ کیے گئے تو مردم شماری کو مسترد کر دیا جائے گا‘‘ کاش شاہ صاحب سندھ کے گاؤں دیہاتوں کے ساتھ ساتھ کراچی کے مسئلہ پر بھی ایسا ہی دو ٹوک موقف اختیار کرتے۔ مراد علی شاہ نے احسن اقبال کو بذریعہ خط آگاہ کیا کہ ہمارے تحفظات نہیں سنے جا رہے ہیں، تحفظات دور نہ ہوئے تو مردم شماری کے نتائج قابل قبول نہیں ہوں گے۔ کراچی کی آبادی کو پہلے کے مقابلے میں بھی کم دکھایا جا رہا ہے، یہ دنیا کا واحد شہر ہے، جہاں آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا یہ موقف کراچی کی ترجمانی کرتا ہے کہ کراچی میں رہنے والے ہر شخص کو یہاں گنا جائے، یہاں رہنے والے سندھیوں، پختون، پنجابی، بلوچ و دیگر قومیں جو یہاں رہتی ہیں، انہیں یہیں شمار کیا جائے۔ ماضی میں کراچی کے ساتھ جو نا انصافی اور دھوکہ دہی کی گئی ہے، اگر آج اس کا سد باب نہ کیا گیا تو پھر کراچی ہمیشہ ایک دھکتا ہوا آتش فشاں بنا رہے گا۔
٭٭٭
کراچی والے جینے کا ہنر جانتے ہیں
دکان دار نے اپنے دوست سے پوچھا تمھاری دکان تو اتنی چھوٹی ہے، تم اتنی جگہ میں آنکھوں کے ٹیسٹ کا انتظام کیسے کرو گے؟ عینک کی دکان میں تو ٹیسٹ کا انتظام لازمی ہے۔ دوست نے مسکراتے ہوئے کہا، میں نے اپنے سامنے والی دیوار میں شیشہ لگوایا ہے، ٹسٹ کرنے والے کو اصل چارٹ کے بجائے، آئینے میں دیکھنے کو کہیں گے، اصل چارٹ کے بجائے جب کسی ٹسٹ کرنے والے کو اصل چارٹ کے بجائے آئینہ کے عکس میں پڑھوایا جائے گا تو پڑھنے والے شخص اور پڑھی جانے والی چیز کے درمیان کا فاصلہ خود بخود دگنا ہو جائے گا۔ میرے دکان نو فٹ کی ہے، آدمی کی نگاہ پہلے نو فٹ کا فاصلہ طے کر کے پہلے آئینہ کو دیکھتی ہے، پھر آئینہ کی مدد سے اس کی نگاہ مزید نو فٹ کا فاصلہ طے کر کے چارٹ تک پہنچتی ہے۔ اس طرح کل اٹھارہ فٹ ہو جاتے ہیں، دکان چھوٹی ہے تو کیا ہوا، آنکھوں کے ٹیسٹ کا انتظام ایسا ہی ہو گیا ہے، جیسا بڑی دکانوں میں ہوتا ہے،
یہ اصول ساری زندگی اپنائیں، آپ کے لیے مواقع محدود ہوں، آپ کے لیے پھیلنے کا دائرہ تنگ ہو، تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنی عقل کو استعمال کر کے اپنے ’نو فٹ‘ کو ’ اٹھارہ فٹ‘ بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس سرمایہ کم ہے تو دیانت داری اور امانت داری کی دولت سے اس کی تلافی کر سکتے ہیں، آپ کی تعلیم کم ہے تو خوش اخلاقی اور اچھے رویئے اور برتاؤ سے اپنی قدر و قیمت بڑھا سکتے ہیں۔ لڑ کر جیتنے کا موقع نہیں ہے تو حکمت کا طریقہ اختیار کر کے اپنے حریف سے مقابلہ کر سکتے ہیں، تعداد کم ہے تو اتحاد اور تنظیم سے اپنی ٹیم کو آگے لے جا سکتے ہیں، بہترین پلاننگ آپ کو آگے بڑھنے میں مدد دے سکتی ہے، ہر چھوٹی دکان بڑی دکان بن سکتی ہے۔ بس اپنے عقل کو استعمال میں لانا سیکھئے۔
نئے سال کے پہلے دن میں نے یہ سبق اس بوڑھے کی کہانی سے بھی سیکھا ہے۔ یہ بوڑھا شخص کانچ کے برتنوں کا بڑا سا ٹوکرا سر پر اٹھائے شہر بیچنے کے لئے جا رہا تھا۔ چلتے چلتے اسے ہلکی سی ٹھوکر لگی تو ایک کانچ کا گلاس ٹوکرے سے پھسل کر نیچے گر پڑا اور ٹوٹ گیا۔ بوڑھا آدمی اپنی اسی رفتار سے چلتا رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ پیچھے چلنے والے ایک راہگیر نے دیکھا تو بھاگ کر بوڑھے کے پاس پہنچا اور کہا: ’’ابا جی! آپ کو شاید پتہ نہیں چلا، پیچھے آپ کا ایک برتن ٹوکرے سے گر کر ٹوٹ گیا ہے‘‘
بوڑھا اپنی رفتار کم کیے بغیر بولا: ’’بیٹا مجھے معلوم ہے‘‘ راہگیر: حیران ہو کر بولا ’’بابا جی! آپ کو معلوم ہے تو رکے نہیں‘‘
بوڑھا شخص بولا ’’بیٹا جو چیز گر کر ٹوٹ گئی اس کے لیے اب رکنا بے کار ہے، بالفرض میں اگر رک جاتا، ٹوکرا زمین پر رکھتا، اس ٹوٹی چیز کو جو اب جڑ نہیں سکتی کو اٹھا کر دیکھتا، افسوس کرتا، پھر ٹوکرا اٹھا کر سر پر رکھتا تو میں اپنا ٹائم بھی خراب کرتا۔ ٹوکرا رکھنے اور اٹھانے میں کوئی اور نقصان بھی کر لیتا اور شہر میں جو کاروبار کرنا تھا افسوس اور تاسف کے باعث وہ بھی خراب کرتا۔ بیٹا، میں نے ٹوٹے گلاس کو وہیں چھوڑ کر اپنا بہت کچھ بچا لیا ہے‘‘۔ ہماری زندگی میں کچھ پریشانیاں، غلط فہمیاں، نقصان اور مصیبتیں بالکل اسی ٹوٹے گلاس کی طرح ہوتی ہیں کہ جن کو ہمیں بھول جانا چاہیے، چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہیے۔ کیونکہ
یہ وہ بوجھ ہوتے ہیں جو آپ کی رفتار کم کر دیتے ہیں۔ مشقت بڑھا دیتے ہیں۔ نئی مصیبتیں اور پریشانیاں گھیر لاتے ہیں، مسکراہٹ چھین لیتے ہیں۔ آگے بڑھنے کا حوصلہ اور چاہت ختم کر ڈالتے ہیں۔ اس لیے اپنی پریشانیوں، مصیبتوں اور نقصانات کو بھولنا سیکھیں اور آگے بڑھ جائیں۔ ڈیل کارنیکی کا کہنا ہے کہ زندگی میں سب سے زیادہ اہم چیز کامیابیوں سے فائدہ اٹھانا نہیں ہے۔ یہ کام تو بیوقوف آدمی بھی کر سکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں اہم بات یہ ہے کہ تم اپنے نقصانات سے فائدہ اٹھانا سیکھو۔ اس دوسرے کام کے لیے ذہانت درکار ہے۔ اور یہ چیز ایک سمجھ دار اور بے وقوف کے درمیان فرق ظاہر کرتی ہے۔ اس دنیا میں اتفاقا ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی صرف کامیابیوں کے درمیان ہو۔ اور وہ بس کامیابیوں ہی سے فائدہ اٹھاتا رہے، زندگی میں بیشتر انسان اپنے آپ کو مشکلات اور نقصان میں پاتا ہے، لیکن پھر بھی ہمت نہیں ہارتا۔ اور ان ہی مشکلات سے گذرتے ہوئے وہ اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔
اس دنیا میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ہوش مندی کا ثبوت دیں، وہ مشکل اور ناموافق حالات کا خوش دلی اور ہمت سے استقبال کرتے ہیں۔ جو مشکلات کی شکایت کرنے کے بجائے، مشکلوں کو حل کرنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ نقصان سے فائدہ اٹھانا ہی وہ چیز ہے، جو انسان کو کامیاب کرتی ہے۔ اس دنیا میں کامیاب وہ نہیں جس کو مشکلات پیش نہ آئیں، یہاں کامیاب وہ ہے جو مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیاب ہو۔ یہاں منزل پر وہ پہنچتا ہے۔ جو مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے، دشواریوں کے باوجود سفر کرتا ہے اور اپنی منزل پر پہنچتا ہے۔
کراچی والے زندہ دل لوگ ہیں، مشکلات سے نمٹنا جانتے ہیں، زندہ دلی اور مشکلات کو سہنے کا حوصلہ نہ ہوتا تو کراچی کی بارشوں میں ڈوب جاتے، کے الیکٹرک کے بلوں کے بوجھ تلے دب کر مر جاتے، سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ٹھنڈے چولہے کو تکتے رہتے۔ ٹوٹی سڑکوں، کھلے مین ہول، ہر طرف مٹی اور کچرے کے ڈھیر، سے بیزار ہو جاتے۔ بے روزگاری اور ملازمت نہ ہونے سے مایوس ہو جاتے۔ لیکن یہ زندہ دل کرکٹ سے بھی لطف اندوز ہونا جانتے ہیں، دسمبر کی سردیوں میں ہوٹلوں اور ریسٹورینٹ، فوڈ اسٹریٹ کو بھی آباد رکھتے ہیں۔ نئے نئے کاروبار، آن لائین بزنس، نئے اسٹارٹ اپ، جانے کیسے کیسے انداز سے جینے کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔ ایک حافظ نعیم الرحمن ہیں کہ تمام تر سازشوں، محلاتی لوٹ مار، بلدیاتی انتخاب سے فرار کے باوجود ایک طرف نوجوانوں کو بنو قابل کا نعرہ دے کر ان کی عملی تربیت میں مصروف ہے تو دوسری جانب کراچی کے بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے بھی ہر محاذ پر ڈٹ کر کھڑا اپنے مخالفین کو للکار رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی کراچی پر توجہ دینی شروع کی ہے، لیکن جو کراچی کے وارث بنتے تھے، 30 سال سے حکومت کے شریک ہیں۔ وہ اپنا بستر گول ہوتا دیکھ کر آئے دن نئے نئے انداز، سازش، اور دھمکیاں دیتے ہیں، روز پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ لیکن کراچی والے ان بہروپیوں کا پہچانتے ہیں، اور بہت جلد وہ ان ووٹ کے ذریعے شکست دیں گے۔ کراچی والے واقعی زندہ دل ہیں اور جینا جانتے ہیں۔
٭٭٭
کراچی اور حافظ نعیم الرحمان تنہا نہیں ہیں
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی نیک نامی اور شرافت سے اہل سندھ کے دل جیت لیئے ہیں، وہ دھیمے لہجے اور شائستگی سے اپنا موقف پیش کرتے ہیں، پیپلز پارٹی میں وہ اپنے منفرد کردار اور رکھ رکھاؤ کی وجہ سے ایک ہیرے کی طرح جگمگاتے ہیں، اس سال انھوں نے 12 ویں مرتبہ سندھ کا بجٹ پیش کیا ہے۔ سندھ کا یہ بجٹ 22 کھرب 44 ارب روپے کا تخمینہ لیے ہوئے ہے۔ اس بجٹ میں کراچی میگا پراجیکٹس کیلئے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کراچی میں میگا پروجیکٹس ایک طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں، عمران خان نے بھی کراچی میں اپنے دور حکومت میں اعلانات کے سوا کچھ نہیں کیا۔ عوام نے پی ٹی آئی کو جو کراچی میں مینڈیٹ دیا تھا، اس کے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت کا کراچی پر توجہ نہ دینا، اور کراچی والوں کے زخموں پر مرہم نہ رکھنا کبھی بھی بھلائے نہ بھلایا جا سکے گا، وزیر اعظم عمران خان نے ستمبر 2020 میں کراچی کے لیے ‘1100 ارب روپے مالیت کے ایک تاریخی پیکج’ کا اعلان کیا ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کا تعاون شامل ہونے کا عندیہ دیا تھا۔ اس ترقیاتی پیکیج کی مدد سے کراچی کے بنیادی مسائل پانی، نالے، سیوریج کا نظام، ٹرانسپورٹ اور سالڈ ویسٹ کا حل ڈھونڈ نے کا کہا تھا، اس سے ایک برس پہلے بھی عمران خان نے اپنے دورہ کراچی میں 162 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی کراچی کے لیے 800 ارب روپے کا پیکج پیش کرنے کی خوش خبری سنائی تھی۔ جون 2020 میں پیش کیے گئے سالانہ صوبائی بجٹ میں کراچی کی ترقی کے لیے 26 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ لیکن یہ بڑی بڑی رقمیں صرف اعلانات کی حد تک تھیں، کبھی سنجیدگی سے ان پر عمل نہ کیا گیا اور نہ ہی کراچی کو وسائل فراہم کیئے گئے، کراچی کے لیے مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت دونوں کا رویہ ایک جیسا تھا، وہ مرکز اور صوبے کی لڑائی میں کراچی کو مسلسل تباہ اور برباد کرتے رہے۔
در اصل کراچی کو اون کسی سیاسی جماعت نے نہیں کیا، ان حالات میں جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت کی شکل میں کراچی کو ایک ایسی آواز دی، جس نے ہر ہر سطح پر کراچی کا مقدمہ لڑا، کراچی کے شہریوں کے دکھ درد میں ان کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوئے، انھوں نے سماجی سطح پر کراچی کی آواز کو ملک بھر میں پھیلایا، اور بلدیاتی انتخابات میں اپنی محنت سے یہ ثابت کیا کہ کراچی میں جماعت اسلامی ہی وہ سیاسی جماعت ہے، جو اس شہر کے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔
کراچی میں نوے کی دہائی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF) کراچی ڈویژن) کے صدر سید نجیب احمد کی شہادت کے بعد امن و امان کی صورت حال خراب ہوئی۔ تو صوبائی حکومت کی درخواست پر رینجرز کو تین (3) ماہ کیلئے طلب کیا گیا تھا۔ لیکن تا حال 1990۔2023 تک امن عامہ کی صورتحال ایسی ہے کہ اب بھی یہاں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
کراچی میں گذشتہ سال بارشوں کے بعد سے سڑکوں کا انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہوا تھا، جبکہ شہر کے برساتی نالوں کو بھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا تھا، کھلے نالے اب تک کئی لوگوں کے جان لے چکے ہیں، حادثات کا شکار ہونے والوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے، جنہیں یہ برساتی کھلے نالے نگل چکے ہیں۔ مئیر کے انتخاب سے قبل کراچی کا بلدیاتی عملہ، صفائی ستھرائی، کچرا اٹھانے پر متحرک ہوا ہے، جس کے اثرات بھی شہر میں نظر آتے ہیں، پہلے کراچی کی سڑکیں ٹینڈر کرے بنائی جاتی تھیں، لیکن اب سندھ کے مختلف محکمے مختلف علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی آڑ میں بڑی جعلسازی کر رہے ہیں، بجٹ آنے سے پہلے پچھلے بجٹ کا ٹھکانے لگانے کے لیے عجلت میں ٹینڈر اور ٹھیکے دیئے گئے ہیں۔ ان کروڑوں روپے کی لاگت کے ٹھیکوں میں ڈبلنگ اور فراڈ کے بھی انکشافات سامنے آئے ہیں،
کراچی اب مافیاز کے چنگل میں ہے، کراچی کی سیاست اور حالات کی تبدیلی میں بنیادی رول ان مافیاز کا ہے، جو پانی، ٹرانسپورٹ، بجلی، انفرا اسٹرکچر، قانون کی عمل داری، پولیس، اور ریئیل اسٹیٹ کے شعبوں پر مسلط ہے۔ اس لیے وہ کراچی کو کبھی بھی حقیقی اور مخلص قیادت نہیں دینا چاہتے ہیں، اور اب جب جماعت اسلامی نے تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے، اس شہر کی میئر شپ کے لیے ایک حقیقی اور سچی قیادت کو میدان میں لائی ہے تو بھی اس کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے تمام انتخابات میں کمال کی انجینئرنگ کی گئی۔ کراچی کو کنٹرول میں رکھنے والوں نے عوام کا مینڈیٹ رکھنے والی قیادت کو بھی اپنی ضرورت کے لیے کبھی آزادی اور کبھی نکیل ڈال دھاندلی کے سب ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ کراچی کے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ذریعے بدترین دھاندلی کر کے جس طرح عوام کے ووٹوں کا مذاق اڑیا جا رہا ہے اور جس طرح پیپلز پارٹی کا میئر لانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ انتہائی شرمناک ہے۔ کونسلر اور چیئرمین کو آزادانہ طور پر ووٹ نہ دینے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے، ابھی 16 جون میں چند دن کا فاصلہ ہے، لیکن عوام نے جس انداز میں جماعت اسلامی کے ساتھ یکجہتی اور حافظ نعیم الرحمان کو مئیر منتخب ہونے کے لیے اپنی والہانہ وابستگی کا اظہار کیا ہے، اور پورے ملک میں جماعت اسلامی نے اپنی بھرپور ریلیوں سے کراچی کے عوام کی اور ان کے مینڈیٹ
کو تسلیم کنے کے لیے آواز اٹھائی ہے، اس سے ان تمام قوتوں کو جو جمہوری اور آئینی طریقہ کو بالائے طاق رکھ کر ایک پیغام دے دیا ہے کہ کراچی اور حافظ نعیم الرحمان تنہا نہیں ہے، پورا ملک اس کے ساتھ کھڑا ہے۔
٭٭٭
غدار کون ہے؟
کون محب وطن ہے؟ اور کون غدار؟ اس کا فیصلہ آپ کیوں کر کر سکتے ہیں، کیا آپ نے میرا دل چیر کو دیکھا ہے، وہاں آپ کو کیا لکھا نظر آیا۔ یہی کہ میں غدار ہوں؟ کسی کا غدار کسی کا ہیرو ہوتا ہے، سب کے نزدیک غداری اور حب الوطنی کے الگ، پیمانے ہیں، کیسے کیسے لوگوں کو غداری کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کیئے گئے۔ کیسے کیسے لوگوں پر مقدمے چلائے گئے، عدالتوں میں گھسیٹا گیا، جیلوں میں بند کیا گیا۔ زبان بندی کی گئی، جلسوں سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا، عوام میں جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ تصویر دکھانا، جرم قرار دے دیا گیا، لیکن کیا کوئی خوشبو کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ باغ میں نہ پھیلے، مشک کو تو بہت چھپا کر رکھا جاتا ہے نا۔ کہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا۔ کس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو غدار قرار دے، اور آئین پاکستان غدار کس کو قرار دیتا ہے، اس بات کو تعین کون کرے گا کہ غدار کون ہے۔ اور غدار کے خلاف کاروائی کا حق آئین کسے دیتا ہے۔ کیا عوامی جلسوں، چوراہوں، پریس کانفرنس میں غداری کے فتوے جاری کیئے جا سکتے ہیں۔
فوج کے جرنیل غدار نہیں ہو سکتے؟ ہرگز نہیں ہو سکتے۔ نہیں ہونا چاہیئے، لیکن پھر یہ فوج میں کورٹ مارشل کس لیے ہوتا ہے، یہ ہماری عدالت نے کیسا فیصلہ دیا، پھر کیوں جنرل مشرف پر آئین معطل کرنے کے فیصلے پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ ایک ایسے ملک پر جہاں ایک طویل عرصے تک فوج کی حکومت رہی ہو۔ وہاں ایسے مقدمات چلانا آسان کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے حوصلہ چاہیئے، وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ خصوصی عدالت لگانی پڑتی ہے۔ اس مقدمے کو نمٹانے میں پانچ برس لگے اور بالآخر تین رکنی عدالت کے ججوں نے وہ حیران کن فیصلہ سنایا کہ مشرف غداری کے مجرم ہیں۔ انہیں سزائے موت سنا ئی گئی۔ مشرف ابھی زندہ ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ابھی زندہ ہے۔ تاریخ دیکھے گی، ہم عدالتوں کے فیصلوں کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے۔ کیسے چلے گئے، کون کون سہولت کار بنا۔
جیسے کسی فوج کا سپاہ سالار غدار نہیں ہو سکتا۔ کیوں کے ملک کی حفاظت کا پورا نظام اس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اس طرح ملک کا وزیر اعظم بھی غدار نہیں ہو سکتا، کیوں کہ عوام نے اسے ووٹوں سے منتخب کیا ہوتا ہے۔ اکثریت سے نوازا ہوتا ہے، تو پھر ایک منتخب وزیر اعظم پر غداری کا مقدمہ کیوں قائم ہوا۔ ان پر ‘انڈیا نوازی’ اور ‘مودی کے یار’ جیسے الزامات کیوں لگے، کس نے لگائے۔
ہم نے تو مجیب الرحمن کو بھی غدار قرار دیا، اکثریت سے جیتا تھا، ملک پر حکمرانی کا حق رکھتا تھا، لیکن ہم نے اقتدار نہیں اسے غداری کا تمغہ دے دیا۔ جسے سینے پر سجا کر وہ آزادی کا ہیرو بنا اور اپنے قوم کو ایک علیحدہ ملک دینے میں کامیاب ہو گیا۔
پاکستان میں محب وطن اور غداروں کی فہرست بار بار بنائی جاتی ہے، جب بھی مفادات کا مرحلہ آتا ہے، ضرورت پڑتی ہے، توکل کے غدار محب وطن قرار پاتے ہیں، اقتدار ان کے پاؤں میں رکھ دیا جاتا ہے، وزارت اور سفارت سے نوازے جاتے ہیں۔ غداری اور حب الوطنی کے درمیان ایک لکیر کا فاصلہ ہے، یہ لکیر کھنچنے والے نادیدہ ہاتھ، جب چاہیں جہاں چاہیں، اپنی مرضی سے یہ لکیر کھینچ سکتے ہیں۔ اعتراض کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ سوال کرنے والے پوچھتے ہیں کہ یہ لکیر اس وقت کیوں نے کھینچی گئی، جب جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا اور مشرف نے آئین توڑا تھا۔ آئین کی بالا دستی کے لیے اٹھنے والے سیاسی رہنما اس لکیر کی زد کیوں آ جاتے ہیں۔ مولانا مودودی، فاطمہ جناح، شیخ مجیب، ذوالفقار علی بھٹو، صمد خان، خیر بخش مری، بے نظیر بھٹو، عطا اللہ مینگل، ولی خان، اکبر بگٹی اور نواز شریف ملک دشمن، اور غدار کیوں قرار پاتے ہیں۔ میں بار بار تاریخ کے جھروکے سے جھانک کر پیچھے دیکھتا ہوں، کہیں میں لکیر کے اس سمت تو نہیں کھڑا ہوں، جو مجھے غدار قرار دے دے۔ لیکن غدار اور ملک دشمن قرار دینے سے پہلے اور مجھے سزا دینے سے پہلے میرا دل چیر کر ضرور دیکھ لینا کہ کیا میں واقعی غدار ہوں۔
٭٭٭
سید تنظیم واسطی
سید تنظیم واسطی 29 اپریل بروز ہفتہ کی شب لندن میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ گذشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے، گذشتہ دنوں فاران کلب انٹرنیشنل کے سیکریٹری ندیم اقبال ایڈوکیٹ لندن سے لوٹے، تو انھوں نے تنظیم واسطی صاحب کی بیماری کی خبر سنائی، جن سے ان کی ملاقات ہوئی، وہ پروفیسر خورشید احمد سے بھی ملاقات کے خواہشمند تھے۔ لیکن بیماری کے سبب ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ برطانیہ میں دین اسلام کی تبلیغ اور رفاہی کاموں اور دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاً افغانستان، کشمیر، بوسنیا، فلسطین، سوڈان، چیچنیا، برما، کے مسلمانوں کے لیے ان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ سید محمد تنظیم واسطی گزشتہ چند برسوں سے پیرانہ سالی کے سبب گھر سے بہت کم باہر نکلا کرتے تھے۔ وہ ساری عمر دنیا بھر میں ستم رسیدہ مسلمانوں کی امداد کے لیے کوشاں رہے۔ ان کی عمر کا بہت بڑا حصہ سفر میں گذرا، دنیا بھر کے مسلمان لیڈروں، اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں اہم شخصیات، اسکالرز، صحافیوں، علماء سے ان کے خصوصی روابط تھے۔ سید تنظیم واسطی سے میرا پہلا تعارف مدیر تکبیر محمد صلاح الدین نے 1984 میں کرایا تھا، انھوں نے مجھے ہفت روزہ تکبیر کے لیے واسطی صاحب کے انٹرویو کا اسائمنٹ دیا، نیو ایم اے جناح روڈ کے ایک فلیٹ میں میری ملاقات سید تنظیم واسطی سے ہوئی یہ ان کی بہن کا فلیٹ تھا، جہاں وہ قیام پذیر تھے۔ بعد میں وقتاً فوقتا ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، وہ جمیعت الفلاح اور فاران کلب سے ایک تعلق خاص رکھتے تھے، جب بھی پاکستان آتے، ان دو اداروں میں ان کی خصوصی بیٹھک ہوتی۔ وہ ایک شفیق بزرگ کی طرح ملتے، اور ہمیشہ دنیا میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی مشکلات کے حل کے لیے سرگرم رہتے۔ وہ مارچ 2017 میں کراچی آئے، تو ندیم اقبال ایڈوکیٹ نے مجھے اور ایڈیٹر جسارت مظفر اعجاز کو یہ فریضہ سونپا کہ سید تنظیم واسطی کی یاد داشتوں کو قلم بند کیا جائے، یوں ہماری تنظیم واسطی صاحب سے طویل نشستیں ہوئیں، اور ان سے سوال جواب کی صورت میں کئی گھنٹوں کی ریکارڈنگ کی گئی۔ بدقسمتی سے یہ کام تنظیم واسطی کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکا، انشا اللہ بہت جلد یہ قرض اور فرض ادا کرنے کی کوشش ہے۔ 2022 میں فاران کلب کراچی اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے پروفیسر خورشید کی کتابوں کے سلسلے ’’ارمغان خورشید ‘‘کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا۔ پروفیسر خورشید احمد کا یوم پیدائش 23 مارچ ہے، اور یہ تقریب بھی اسی دن منعقد ہوئی، بیماری کے باوجود سید تنظیم واسطی نے اس تقریب سے آن لائن خطاب کیا، پروفیسر خورشید سے ان کا ایک خصوصی تعلق خاطر تھا۔ سید تنظیم واسطی نے یو کے اسلامک مشن کے پہلے سیکریٹری جنرل، نائب صدر، سینئر نائب صدر، مختلف کمیٹیوں کے صدر اور مسلم ایڈ کے ٹرسٹی اور بہت سارے اداروں کی داغ بیل ڈالی اور کی سرپرستی کی۔ ان کی زندگی کا مقصد، دین کی سربلندی رہا۔ وہ اسلام کی سربلندی کے لئے زندگی بھر مصروف رہے۔ سید تنظیم واسطی زمانہ طالب علمی سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو گئے تھے، وہ جمعیت کے مختلف علاقوں کے علاوہ کراچی یونیورسٹی میں بھی ناظم کے عہدے پر فائز رہے۔ برطانیہ آ کر وہ یو کے اسلامک مشن کے پلیٹ فارم سے سرگرم رہے اور مسلمانوں کو متحد کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، انہوں نے یو کے اسلامک مشن کے جنرل سیکرٹری کے طور پر بہت بڑی سالانہ کانفرنسوں کا اہتمام کیا جس میں برطانیہ بھر سے مسلمانوں کی بڑی تعداد شرکت کیا کرتی تھی۔ انھوں نے سعودی شاہ فیصل اور سید ابو اعلیٰ مودودی کے اعزاز میں برطانیہ میں ایسے شاندار استقبالیہ اور کانفرنس منعقد کیں، جس کی کوریج پوری دنیا کے میڈیا نے کی۔ یو کے اسلامک مشن کی ذمہ داریوں سے فراغت پانے کے بعد سید تنظیم واسطی نے مسلم ایڈ کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی ذمہ داریاں ادا کیں، ان کا پورا گھرانہ تحریک اسلامی سے جڑا ہوا ہے، ان دنوں بھی ان کے گھر پر خواتین کیلئے ہفتہ وار تفہیم القرآن کا ہفتہ وار درس ہوتا ہے۔ UK Islamic Mission کی تاریخ سید محمد تنظیم واسطی کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ اپنے برطانیہ جانے کے فیصلے اور یو کے اسلامک مشن کے قیام کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ’’1964 میں ایوب خان کی آمریت پورے عروج پر تھی۔ پورے ملک میں جماعت اسلامی پر سخت ابتلاء کا دور تھا۔ جماعت اسلامی کی شوریٰ کے اراکین جیلوں میں بند تھے۔ کراچی میں چوہدری غلام محمد، پروفیسر خورشید احمد سنٹرل جیل میں تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں برطانیہ جا رہا ہوں تو چوہدری غلام محمد صاحب نے پیغام بھیجا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں۔ میں بھی ان سے ملاقات کو متمنی تھا۔ تاکہ انہیں بتا سکوں کہ میں برطانیہ جا رہا ہوں۔ میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ میں برطانیہ میں کس طرح تحریک کا کام کر سکتا ہوں۔ برطانیہ روانگی سے چند دن پہلے میری چوہدری غلام محمد سے جیل میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں خورشید صاحب (پروفیسر خورشید احمد) اور چوہدری غلام محمد صاحب دونوں موجود تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ برطانیہ میں لوگوں نے جماعت اسلامی کے نام سے کام شروع کر دیا ہے۔ لیکن یہاں جماعت کا فیصلہ ہے کہ بیرون ملک جماعت اسلامی کا نام استعمال نہ کیا جائے۔ برصغیر سے باہر جماعت اسلامی کا نام استعمال نہ کیا جائے کوئی اور نام رکھ لیا جائے۔ انہوں نے مجھے برطانیہ میں موجود احباب کے نام ایک خط دیا۔ میں جون 1964 کی چار تاریخ کو لندن پہنچا۔ دوسرے دن میں میں 148 لیور پول پہنچا، ان لوگوں سے ملا۔ وہاں Fosis کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ میں بھی اس میٹنگ میں شریک ہوا۔ میں نے چوہدری صاحب کا خط بیرسٹر قربان علی کو دیا۔ انہیں میں نے بتایا کہ میں جماعت اسلامی کا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اراکین کی میٹنگ بلائی۔ تین دن میٹنگ چلتی رہی۔ اس میں یہ طے ہوا کہ جماعت اسلامی کا نام ختم کر کے پرانا نام UK Islamic Mission رکھا جائے جو 1962ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ بنگلہ بھائیوں نے سرکل قائم کیا تھا اس کے بعد الیکشن ہوئے۔ بیرسٹر قربان علی کو صدر چنا گیا اور مجھے جنرل سیکریٹری، یہ وہ وقت تھا جب قربان علی اپنی تعلیم ختم کرنے والے تھے اور بیرسٹر بن کر واپس مشرقی پاکستان جانے والے تھے۔ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی کرتے تھے۔ بہت سے لوگ بیرسٹر قربان کے مکان 148 لیور پول روڈ میں رہتے تھے۔ وہ یہاں خود بھی قیام پذیر تھے۔ ان کے علاوہ عبد السلام صاحب تھے۔ کچھ بنگلہ ساتھی تھے۔ سلیم صدیقی مظفر علی بیگ، رشید اور محمد خان کیانی اور شاید بعد میں عبد الرشید صدیقی صاحب یہاں رہے تھے۔ یہ تمام افراد اس وقت بھی مقیم تھے۔ میرے آنے سے پہلے مولانا ظفر اسد انصاری، پروفیسر خورشید احمد، چوہدری غلام محمد سے ملا تھا۔ اس کے علاوہ حسن اطہر اور خواجہ محبوب الٰہی (اسلامی جمیعت طلبہ مشرقی پاکستان کے سابق ناظم اعلیٰ اور ممتاز صنعتکار جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے) سے ملا تھا حسن اطہر صاحب سے پہلے یہاں کے حالات معلوم کیے۔ اسلامک مشن کلچرل سنٹر میں تحریکی لوگوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ وہ اس کے ممبر تھے۔ حسن اطہر صاحب ان دنوں تازہ تازہ برطانیہ میں آئے تھے۔ انہوں نے یہاں کے حالات بتائے اور مشکلات بھی بیان کیں۔ میں نے جب چوہدری صاحب اور خورشید صاحب سے جیل میں ملاقات کی تو انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ بیرون ملک تحریک کا کام کیسے کرنا ہے۔ مثلاً جماعت اسلامی کا ڈائریکٹ کنٹرول نہیں ہو گا۔ تاکہ اگر باہر کوئی ایسا کام ہو جو جماعت نہیں کرنا چاہتی تو اس کا نقصان جماعت کو نہ پہنچے۔ اس کے علاوہ اخوان کے ساتھ جماعت کے روابط تھے۔ ان میں طے ہوا تھا کہ برصغیر (ہندوستان اور پاکستان) میں جماعت اسلامی کے نام سے کام کیا جائے گا۔ عرب ممالک میں اخوان کے نام سے کام کریں گے تاکہ اپنے اپنے ایریا میں کام کیا جائے۔ اسی لیے جماعت اسلامی کا نام استعمال نہ کیا جائے۔‘‘
٭٭٭
سید تنظیم واسطی (2)
سید تنظیم واسطی کا شمار برطانیہ میں آنے والے سابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے 1964 میں ماسٹرز کیا تھا، اور لندن میں مستقل بود و باش اختیار کی۔ یہ وہ زمانہ تھا، ہندوستان اور پاکستان سے ہزاروں لوگ نئے مستقبل کی تلاش میں یورپ کا سفر کر رہے تھے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں چھوٹی چھوٹی سماجی علاقائی تنظیمیں سر گرم عمل تھیں۔ لیکن تنظیم واسطی کا مشن اسلامی کی دعوت پھیلانا، اور تحریک اسلامی کے کام کو منظم کرنا تھا، جس کے لیے انھوں نے دن رات ایک کر دیئے۔ انھوں نے پاکستان ہی نہیں، عرب ممالک کے طلبہ کے کام کو بھی منظم کیا۔ اس بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ ’’اس کے وقت لندن کے علاوہ برمنگھم میں ڈاکٹر نسیم اور ان کے والد جو رکن جماعت تھے کام کر رہے تھے۔ ایک سابق رکن بھی تھے افضال الرحمن اس کے علاوہ نور محمد سابق رکن جمعیت تھے۔ اس کے علاوہ کچھ اور کارکن تھے۔ ڈاکٹر نسیم مردوں کا اور خواتین کا اسٹڈی سرکل چلا رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک حلقہ لیوٹن میں اور ایک بریڈ فورڈ میں تھا۔ اس کا مانچسٹر میں بھی سرکل تھا۔ سینئر لوگوں میں افضال الرحمن تھے جو پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ حاشر فاروقی صاحب تھے جو PhD کر رہے تھے۔ Imperial College میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حسن اطہر تھے۔ محبوب حسین لیوٹن میں بھارت سے آئے ہوئے بخشی صاحب تھے۔ کشمیر کے عبد الرحیم عبد الکریم صاحب تھے۔ ہماری اس مسئلہ پر کوئی تین چار دن میٹنگ جاری رہی۔ خط میں بھی وہی پیغام تھا جو میں نے زبانی بتایا۔ کچھ لوگ جماعت کا نام تبدیل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہ دو چار لوگ تھے۔ لیکن جب جماعت کی لیڈر شپ کا پیغام دیا گیا تو مطمئن ہوئے۔ لہٰذا UK Islamic Mission کے نام سے دوبارہ کام شروع ہوا۔ اس کے بعد ہم نے مشن کی پلاننگ کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے حالات بہت خراب تھے۔ کیونکہ جنگ میں بہت لوگ کام آئے تھے۔ اس لیے دوسرے ممالک سے آنے والوں پر کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ برطانیہ کی تعمیر نو کے لیے افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ چنانچہ مغربی اور مشرقی پاکستان سے بھارت سے اور دیگر ممالک سے لوگ برطانیہ آئے۔ بعد میں عرب ممالک سے بھی طلبہ آئے۔ اسی طرح دیگر ممالک سے بھی افراد آئے۔ مثلاً ملائیشیا سے طلبہ آئے یہاں سائپرس (قبرص) کے مسلمان موجود تھے ان کی تعداد 50 ہزار کے قریب تھی۔ مختلف اسلامی ممالک مثلاً ملائیشیا، ترکی، عرب ممالک اور پاکستان، بھارت، افریقہ سے بڑی تعداد میں طلبہ تعلیم کے لیے برطانیہ آئے۔ یہ 50 کے عشرے کی بات ہے۔ مقامی مسلمانوں کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ 150 سال قبل یمن سے مسلمان برطانیہ آئے مگر وہ برطانیہ کے معاشرہ میں جذب ہو گئے ان کی باقیات جو تھیں وہ Damicy Clack وغیرہ تھیں۔ یہ حضرات صوفی ٹائپ تھے۔ ان کا انداز تحریک اسلامی والا نہیں تھا۔ تحریک اسلامی نے جو پلاننگ کی۔ اس کی 1950ء سے 1970ء کے بعد یہاں آئے ہوئے مسلمان طلبہ اور دوسرے تمام مسلمان تھے۔ کیونکہ زیادہ تعداد برصغیر کے لوگوں کی تھی۔ لہٰذا طے ہوا کہ UKIM برصغیر کے لوگوں کے لیے کام کرے گی۔ کیونکہ زبان کا بھی مسئلہ تھا۔ دوسرا سیکشن عرب طلبہ کے لیے بنایا گیا تھا جن میں عراق، شام، سوڈان اور لیبیا وغیرہ سے لوگ تھے۔ ان میں حسن عادل شام سے تھے۔ ایک اخوان ساتھی آئے ہوئے تھے۔ وہ غالباً گلاس کو میں PhD کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ تھے۔ ان کے لیے ایک تنظیم بنائی جو AMS کے نام سے شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ تیسری تنظیم طلبا کی Fosis تھی۔ تاکہ دونوں کو ملا کر کام کیا جائے۔ جو لوگ یورپ سے تعلیم حاصل کر کے جاتے تھے۔ وہ سیکولر اور کمیونسٹ بن کر واپس جاتے تھے اور تحریک اسلامی کے مخالف بن جاتے تھے اس لیے فوسس قائم کی جس کی ہر یونیورسٹی میں برانچ ہوتی تھی فوسس کا مقصد یہ تھا کہ یہاں طلبہ کی تربیت کی جائے۔ تاکہ جب یہ طلبہ واپس اپنے ممالک میں جائیں تو اسلامی ذہن کے ساتھ جائیں۔ لہٰذا ہر کالج اور یونیورسٹی میں حلقے قائم ہوئے۔ جن میں تمام ممالک کے طلبہ وابستہ تھے اللہ کا شکریہ ہے کہ مشن اور دیگر تنظیموں نے مل کر قریبی تعلقات رکھے اور لوگوں کی خدمت کی۔ جب مشن کی کانفرنس ہوئی تھی تو فوسس کے اندر اخوان لوگ شریک ہوتے۔ ہم بھی ان کے پروگراموں میں شرکت کرتے۔ جب فوسس کی کانفرنس ہوئی تو ہم بھی جاتے تھے۔ جب عرب طلبہ کی تنظیم کی کانفرنس ہوتی تو ہم سب اس میں شریک ہوتے۔ اس بنیاد پر ہم نے کام شروع کیا۔ اللہ نے بڑی برکت دی یہ وہ زمانہ تھا جب 1964ء میں جب میں برطانیہ آیا تو لیور پول روڈ پر جہاں قربان علی تھے وہاں ایک کمرہ کرایہ پر لیا۔ جسے مشن کا دفتر قرار دیا گیا۔ سب سے پہلا کام یہ کیا گھر کی صفائی کی گارڈن میں ایک کمرہ تھا۔ اس کو صاف کر کے مسجد قرار دے دی گئی جہاں ہم 5 وقت نماز وغیرہ ادا کرتے۔ یہ پہلے سال کا آغاز ہے۔ اس کے بعد آئندہ کے لیے پلاننگ کی گئی۔ اسی زمانے میں اخوان المسلمون پر سخت آزمائش کا دور تھا۔ مصر میں تحریک اسلامی پر مصری حکومت نے ظلم و ستم ڈھائے۔ اس وقت سید قطب کو پھانسی دی گئی۔ دیگر لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔ ان پر کتے چھوڑے گئے۔ جیلوں میں عورتوں پر ظلم و ستم ڈھانا معمول تھا اس وقت ہم نے ایک مظاہرہ کیا جو اسلامک کلچرل سنٹر کے قریب میں ہوا۔ یہ یو کے اسلامک مشن کا پہلا مظاہرہ تھا۔ جو عوامی سطح پر کیا گیا۔ پھر ایک مہم چلائی گئی جس میں خطوط لکھے، پریس ریلیز جاری ہوئیں۔ یہاں پر رات بھر ساتھی آتے تھے اور کام کرتے تھے۔ پھر کاروں میں جا کر اپنی نیوز اخبارات کے دفتر جا کر پہنچاتے تھے۔ یہ پہلی سرگرمی تھی جو ہم نے مصری بھائیوں کے لیے کی۔
تنظیم واسطی مستقبل کا ویژن رکھنے والے تھے، ان کی دور رس نگاہوں نے بہت پہلے برطانیہ میں کام کرنے اور اسلام کی دعوت و اشاعت کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کر لیا تھا، اس لیے انھوں نے تمام ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا۔ انھوں نے یورپ میں مسلمانوں کی ضرورت کو محسوس کرنے ہوئے، اسلامی کلینڈر شائع کیا۔ جو آج بھی باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے، اور مسلمان اس کا ہر سال بے تابی سے انتظار کرتے ہیں، اس کلینڈر کی ابتداء کے بارے میں وہ بتاتے ہیں ’’ہمارے ایک ساتھی صابر اوگلو PhD کرنے کراچی یونیورسٹی سے گئے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک کیلنڈر تحفہ میں دیا۔ یہ بڑی خوبصورت خطاطی تھی۔ یہ کیلنڈر میں ساتھ لے آیا تھا۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ یہاں نمازوں کا بڑا مسئلہ ہے اور ہر شہر میں نمازوں کے اوقات مختلف ہیں۔ برمنگھم، گلاسکو، مانچسٹر اور لندن میں نمازوں کے اوقات مختلف ہوتے تھے۔ یہ مسئلہ تھا کہ لوگوں کو نمازوں کے اوقات معلوم ہونا چاہئے۔ تاکہ وہ اسلامی کیلنڈر کے مطابق بر وقت نماز ادا کر سکیں۔ لہٰذا 1965ء میں پہلی دفعہ ہم نے کیلنڈر چھپوایا۔ یہ کیلنڈر آج تک لگاتار چھپتا ہے اور لوگوں کو اس کا انتظار رہتا ہے۔ چونکہ ہمارے پاس پرنٹنگ پریس نہیں تھا۔ لہٰذا یہ طے ہوا کہ تمام کارکنان پرنٹر کے پاس پہنچ جائیں گے اور سب ایک ایک شیٹ Collect کر کے اسے کیلنڈر کی شکل میں یکجا کریں گے۔ اور پھر ہم اسے فروخت کریں گے۔ لہٰذا میں سلیم صدیقی اور دوسرے کارکن آٹھ دس افراد پریس پہنچ گئے۔ وہاں جا کر ہم چھپے ہوئے کاغذ یکجا کر کے یہ کیلنڈر تیار کرتے۔ پھر اسلامک کلچرل سنٹر اور دیگر جگہ جا کر فروخت کرتے اور باقاعدہ ہاکر کی طرح آواز لگاتے یہ کیلنڈر بڑا مقبول ہوا۔ پورے یو کے میں مختلف دکانوں اور مساجد میں لوگ اس کلینڈر کو لگاتے ہیں۔ بلکہ ہم نے اسے پورے یورپ میں بھی پھیلایا۔ یہ صدقہ جاریہ کی طرح آج تک چل رہا ہے۔ لوگ باقاعدہ اس کا انتظار کرتے ہیں۔ ہر سال اس کا ایک Theme ہوتا ہے۔ اس میں UKIM کے اغراض و مقاصد اور پروگراموں کی تفصیل ہوتی ہے۔ ہر سال ایک نئے موضوع کا انتخاب ہوتا ہے مثلاً روس کی مساجد میں، ترکی کی مساجد میں وغیرہ وغیرہ فلسطین پر دو تین دفعہ کیلنڈر پر وہاں کے حالات کو اجاگر کیا۔ 1965ء میں یہ کیلنڈر شروع ہوا ہے بغیر کسی ناغہ کے آج تک چل رہا ہے۔‘‘
٭٭٭
سیاست کے داؤ پیچ آزمائیں
سیاست میں گرفتاری، جیل جانا، تھانے کچہری کا سامنا کرنا معمول کی بات ہے، لیکن یہ اعزاز صرف قائد اعظم کو حاصل ہے کہ انھوں نے ایک بڑی سیاسی تحریک برپا کی، پاک و ہند کی سیاست میں بھرپور سیاسی کردار ادا کیا، لیکن کبھی گرفتار نہیں ہوئے، انھوں نے کبھی قانون کی حدود کو نہیں توڑا۔ اب پاکستان کی سیاست میں تشدد کا غلغلہ ہے، لیکن پاکستان کی سیاست کب تشدد سے پاک رہی ہے۔ پنجاب پولیس تو ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہے۔ شاہی قلعہ کے عقوبت خانے کچھ ایسے ہی تو مشہور نہیں ہوئے۔ کتنے سیاست دان ان عقوبت خانوں میں مارے گئے، حسن ناصر کو کیسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، شورش کاشمیری پر کیسے ستم ڈھائے گئے۔۔ شورش نے پہلی تقریر مسجد شہید گنج کے ہنگامے کے دنوں میں 1935ء میں شاہی مسجد لاہور میں کی تھی۔ جس پر وہ گرفتار ہوئے مقدمہ چلا تین سال قید اور تین سو جرمانے کی سزا ہوئی بعد میں تین ماہ کی قید کے بعد وہ رہا ہو گئے۔ 1935ء سے 1939ء تک ہر سال چند ماہ جیل میں جانا ان کا معمول تھا۔ 1944ء میں صرف 47 سال کی عمر میں 9 برس جیل میں گزار چکے تھے۔ ایوب خان کے آمریت کے دور میں بھی انھوں نے حق گوئی کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔ اور اس دور میں بھی 232 دن جیل میں گزارے۔ دور کیوں جایئے۔ ’ایک عہد ستم کی داستان‘ میں کیسے کیسے سیاست دانوں پر پولیس نے مظالم کے پہاڑ توڑے۔ بھٹو کے اس عہد ستم میں محمد صلاح الدین شہید پر کیسے کیسے مقدمے بنائے، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، جاوید ہاشمی ابھی زندہ ہیں۔ مصطفی کھر کا عہد گورنری کیسا تھا، جوان لڑکیاں کالجوں سے اٹھا کر گورنر ہاوس پہنچائی جاتی تھی، بھٹو کی نتھ فورس کیسے شریف خاندانوں کے گھروں میں عورتوں کی بے حرمتی کرتی تھی، پولیس اور ایف ایس ایف مسجد میں جوتے سمیت کیسے گھس جاتی تھی۔
محمود خان اچکزئی سے پوچھئے کہ ان کے والد عبد الصمد خان اچکزئی کو کس نے قتل کیا تھا؟ مولانا فضل الرحمن سے پوچھئے کہ مفتی محمود کی ٹرین کی بو گی پر بموں سے حملہ کس نے کیا تھا؟ جماعت اسلامی سے پوچھیئے کہ ڈیرہ غازی خان کے درویش صفت ڈاکٹر نذیر احمد کو کس نے شہید کیا۔ جے یو آئی بلوچستان کے مولوی شمس الدین کی شہادت کیسے ہوئی؟ حیات محمد خان شیرپاؤ کو کس نے مارا تھا؟ مسلم لیگ والے خواجہ سعد رفیق کے منہ پر کیوں تالے لگے ہیں، ان سے پوچھئے کہ ان کے والد خواجہ رفیق کو کس نے قتل کروایا تھا؟ لیاقت باغ میں عبد الولی خان کے جلسے پر فائرنگ کروا کر 11 افراد کس نے مار ڈالے تھے؟
بھٹو دور پاکستان کی تاریخ کا فسطائیت کا تاریک دور تھا۔ جس میں مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لئے فیڈرل سیکیورٹی فورس بنائی گئی تھی۔ بھٹو دور میں جیلوں میں قیدی اس قدر زیادہ تھے کہ جیلوں میں گنجائش نہیں تھی۔ شیخ رشید، معراج محمد خان، تو ان کے اپنے تھے، ان کے ساتھ کیا کیا۔ مولانا محمد خان شیرانی سے پوچھئے کہ ان کے ساتھ اس دور کی جیل میں کیا گیا تھا؟ ایرپورٹ پر مولانا شاہ احمد نورانی کی پگڑی کیسے اچھالی گئی۔ نوجوان نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھٹو دور میں امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کی داڑھی کیسے نوچی گئی، ان کی شلوار میں چوہے کیسے چھوڑے گئے۔ بھٹو ایک سیاسی عفریت تھا، اس دور کی جیل میں گزرنے والی قیامتوں کی تفصیل ہولناک بھی ہے اور جان لیوا بھی۔ ضیا الحق نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کو سر عام کوڑے مارے گئے، پیپلز پارٹی اور ایم آر ڈی کے لیڈروں اور کارکنوں پر تشدد کیا گیا۔ نواز شریف کا دور کون سا صاف ستھرا تھا۔ انہوں نے بھی اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے پورا زور لگایا۔ عمران خان نے بھی اپنے دور میں میاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز کو جیل میں ڈالے رکھا، رانا ثنا اللہ پر مقدمات قائم کیئے۔ تو اب عمران خان کو شہباز گل، عمران ریاض، جمیل فاروقی، پر ہونے والے تشدد پر ریاستی اداروں کو دھمکی دینا، اور شور مچانا کچھ زیب نہیں دیتا۔ آپ جس سیاسی کلچر کا حصہ ہیں۔ یہ سب اس میں روا ہے۔ آپ نے بھی میر شکیل الرحمن کو، حامد میر کو، اور دیگر میڈیا کے اداروں کی آواز کو اسی طرح بند کیا ہے، اب جو کچھ ہو رہا ہے، اسے مکافات عمل سمجھ کر برداشت کیجئے۔ جوانمردی سے اس کا مقابلہ کریں، سیاسی انداز میں سیاست کریں۔ داؤ پیچ آزمائیں، اپنے پتے کھیلیں۔ اس سے ہی لیڈر بنتے ہیں، اور اسی طرح سے کامیابی ملتی ہے۔
٭٭٭
سیاست کے ابلتے ہوئے گٹر
قائد نے یہ پاکستان اس لیے نہیں بنایا تھا کہ یہاں جمہوریت کے نام پر باری لگتی رہیں، یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا، لوگ اسلام کی سربلندی کے لیے کٹ مرے تھے، ایک خطہ زمین اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کے زرین اصولوں پر اسلامی ریاست قائم ہو گی۔ مسلمانوں نے اسلام کے نفاذ کے لیے قربانیاں دی تھی۔ لیکن ہم یہاں کلچر ڈے منا رہے ہیں، صوبائی ثقافت کے گل بوٹے ٹانک رہے ہیں، ملک کے ایک حصے کو کاٹ کر پھینک دیا، لیکن اب بھی زراعت کے محکمے کے ذریعے جھاڑ جھنکار کی شجر کاری کر رہے ہیں۔ اور یہ بھان متی کا کنبہ اقتدار سے چمٹ کر اپنے حلوے مانڈے میں مصرف ہے۔ ان حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ آٹا ایک سو تیس روپے کلو ہو گیا ہے، پیاز 200 روپے ہے، اور روٹی 20 روپے کی ہو گئی ہے، یہ سارے حکمران لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ لیکن ان کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت کی کابینہ میں توسیع پر توسیع ہو رہی ہے، کابینہ کے ارکان کی تعداد 76 ہو گئی ہے جس میں 31 معاونین خصوصی، 34 وفاقی وزراء، 7 وزیر مملکت اور 4 مشیر شامل ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ ہے۔ ان کے غیرملکی دورے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ملک میں زر مبادلہ کی کمی ہے، ڈالر مارکیٹ سے غائب ہے، لیکن یہ ٹولہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے۔ جی بھر کر اس قوم کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ لیکن ہم پھر ان ہی کو منتخب کرتے ہیں۔ انتخاب سے اس طرح بھاگ رہے ہیں جیسے ہیروین کا نشہ کرنے والا پانی سے بھاگتا ہے۔
امریکہ کا دم بھرنے والے ذرا وہاں کی جمہوری روایات ہی کا پاس کر لیں، وہاں جو بھی صدر بنتا ہے، عوام کا مفاد سب سے پہلے دیکھتا ہے، اقتدار سے باہر آنے کے بعد بھی وہ عوام کی خدمت کرتے ہیں، صدر بل کلنٹن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں وائٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد بھی لوگوں کی خدمت کروں۔ انہیں ایسے موقعے فراہم کروں جن کے ذریعے وہ خوشیوں تک پہنچ سکیں۔ میں نے یہ سب کچھ اس لئے ضروری سمجھا کہ میرے ہم وطنوں نے مجھے زندگی میں ایک تاریخی مقام تک پہنچنے میں مدد دی تھی۔ ایک ایسا مقام جو ہر شخص کو نہیں ملتا۔ امریکہ کا صدر اور وہ بھی دو بار‘‘۔ بل کلنٹن نے یہ باتیں اپنی کتاب ’’دینا‘‘ یا Giving۔ میں لکھی ہیں۔ کلنٹن کا کہنا ہے کہ ’’سیاست ایک ایسا کام ہے جس کا انحصار عام طور پر صرف لینے پر ہے۔ سیاست دان لوگوں سے مدد لیتے ہیں، عطیات لیتے ہیں یا پھر ووٹ لیتے ہیں اور یہ عمل ایک بار نہیں بار بار دہرایا جا تا ہے۔ آپ خواہ کسی بھی منصب پر پہنچ جائیں ٗآپ لوگوں کو اتنا واپس نہیں کر تے جس قدر آپ ان سے وصول کر چکے ہو تے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ مجھے پرانا سارا حساب بے باق کرنا ہے۔ اس محبت کا قرض اتارنا ہے جو امریکی عوام نے مجھ سے کی۔ میں اپنے اہل خانہ کے علاوہ بہت سے لوگوں کے لئے بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں یہ سب کچھ کروں تاکہ میرے ہم وطن اور دنیا بھر کے لوگ ایک خوشگوار زندگی سے ہمکنار ہوں۔ ‘‘ یہ ساری باتیں کلنٹن نے اس کتاب کے تعارف میں کہی ہیں۔
دوسری جانب یہ غریب ملک ہے، جو سیلاب کی تباہ کاری سے لڑ رہا ہے، سندھ کا سب سے برا حال ہے، بہت سی زمینوں پر پانی اب تک کھڑا ہے، فصلیں ڈوبی ہوئی ہیں، راستے تباہ حال ہیں۔ عوام بے حال ہیں۔ سیلاب نے پورے ملک کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بے گھری، اموات اور بھوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ذرا ان تباہ کن اثرات کا ایک جائزہ تو لیں۔ 1500 سے زیادہ اموات، تقریباً 13,000 زخمی، 10 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا، تقریباً 800,000 گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے، ایک ملین سے زائد مویشی ضائع ہو گئے، 9 ملین ایکڑ سے زائد فصلیں متاثر ہوئیں، اس آفت زدہ قدرتی واقعے کی جانی اور مالی نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے صرف امداد کی آس میں رہے۔ سردیاں آ گئی، خیمے بھی جو امداد میں آئے وہ اب تک متاثرین کو نہیں پہنچ سکے۔ ان کی خوراک، روزگار، مکان کی چھت کی فراہمی کو کسی کو خیال نہیں، لیکن اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے ارکان کی خرید و فروخت جاری ہے، عدالتیں بھی اس کھیل کا حصہ بن گئی ہیں، عام آدم انصاف کے لیے ترس رہا ہے، اس کا مقدمہ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ لیکن حکمرانوں کے لیے رات دن کسی بھی وقت عدالتیں کھلی ہوئی ہیں، ان کے مقدمات سننے جار ہے ہیں، ایک فیصلہ حمایت میں ہوتا ہے، اور دوسرے سے اس کی نفی ہو جاتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پاکستانی عوام کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
اسمبلیاں توڑنا، ارکان اسمبلی کو خریدنا بس یہی ایک کام رہ گیا ہے، یا دوسرا کام وہی ویڈیوز کا ہے، سیاست کے گٹر ابل رہے ہیں، ہر طرف تعفن پھیلا ہوا ہے، گندگی کا ڈھیر ہے، اور اس گندگی کر پھیلانے کے لیے رات دن سوشل میڈیا پر کام جاری ہے۔ صحافت کے نام پر جو کچھ رات دن پھیلایا جا رہا ہے، وہ کسی طور پر صحافت نہیں کہی جا سکتی، اور نہ ہی ان لوگوں کو صحافی کہا جا سکتا ہے، یہ تاجر، لٹیرے، گندے کام کو پھیلانے والے، اپنی قیمت وصول کر رہے ہیں، کوئی بورڈ کا چیئرمین، اور کوئی سفیر و وزیر یا ٹھیکے داری میں مصروف ہے۔ پاکستان ہرگز اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، یہ تو مسجد کی جگہ تھی، جیسے میخانہ بنا دیا گیا ہے۔
٭٭٭
سیاست کو سیاست سے شکست دیں
ایک طرف تو آئی ایم ایف کی شرائط کو مان کر بجٹ میں 215 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگا دیئے ہیں، تو دوسری جانب وزیر خزانہ نے فرمایا ہے کہ ’’پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے خصوصی حج فلائٹ کا انتظام کیا ہے، ارکان اسمبلی حج پر جائیں اور ملک کے لیے دعائیں کریں‘‘۔ 52 ارکان پارلیمان کا یہ حج قافلہ جس میں صدر مملکت عارف علوی بھی شامل ہے، خصوصی پرواز سے گیا ہے، اور یہ سارے اخراجات اس ملک کے غریب عوام ہی کو بھگتنے پڑیں گے، یہ ملک دعاؤں کے سہارے ہی چل رہا ہے۔ ورنہ حکمرانوں نے تو اسے ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے ایوان کی بجٹ سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ فنانس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب تھی، وزیر اعظم سمیت اہم پارلیمانی لیڈر بلاول بھٹو، آصف زرداری، راجہ یونس، اختر مینگل، امیر ہوتی سب غیر حاضر تھے، صرف 70 حکومتی اور 2 اپوزیشن ارکان کی شرکت سے یہ بھاری ٹیکسوں کا فنانس بل منظور کر لیا گیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے سود حرام قرار دیا ہے، وفاقی شرعی عدالت سود کے خاتمے کا فیصلہ دے چکی ہے، لیکن حکومت اس سودی نظام کو جاری رکھے ہوئے جماعت اسلامی کے اکلوتے رکن اسمبلی مولانا عبد الاکبر چترالی نے اس پر آواز اٹھائی اور فنانس بل کو سودی نظام پر مبنی قرار دیتے ہوئے، اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کا مطالبہ کیا، لیکن اس نقار خانے میں ان کی آواز کون سنتا ہے۔
ملک میں الیکشن کے بارے میں کوئی آواز اٹھتی ہوئی نظر نہیں آتی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی، دونوں تیاریوں میں مصروف ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے سے خائف اور برسر پیکار بھی ہیں، پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب اور مسلم لیگ ن کے قلعوں میں شگاف ڈال رہی ہے، اور اس پر مسلم لیگ شور بھی مچا رہی ہے۔ لیکن مسلم لیگ ن زرداری کی سیاست کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، عیاری اور چالاکی، اور وقت سے فائدہ اٹھانے میں زرداری کو اولیت حاصل ہے، نواز شریف اب شاید ہی پاکستان آئیں، اس لیے بھاری دل کے ساتھ انھوں نے مسلم لیگ ن کی صدارت کی پگھ اب شہباز شریف کے سر پر رکھ دی ہے، مسلم لیگ میں بھی توڑ پھوڑ جاری ہے، مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی نے اپنے راستے جدا کر لیئے ہیں، حکومت میں پیپلز پارٹی نہ صرف اپنے حصے کا شیئر لے رہی ہے، بلکہ حکومت کو بلیک میل بھی کر رہی ہے، سوات میں بلاول بھٹو کی تقریر میں بجٹ پر تنقید بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، بلاول نے واضح کیا تھا کہ سیلاب زدگان کے لئے مناسب فنڈ نہیں رکھے تو بجٹ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ بعد میں ان کو لائن شیئر کے طور پر سیلاب زدگان کے نام پر فنڈز مہیا کر دیئے گئے۔ سارا عالم جانتا ہے کہ سیلاب میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں کیا امدادی کام کیا تھا، یہ الخدمت اور دیگر فلاحی تنظیم تھیں، جنہوں نے سندھ اور جنوبی پنجاب میں شاندار خدمات انجام دی تھی۔ گذشتہ دنوں طلال چوہدری نے، پیپلز پارٹی سے کہا تھا کہ ’’ہم بھی انتخابات کے لئے تیار ہیں لیکن یہ آزاد کشمیر اور مئیر کراچی جیسے نہیں ہونے چاہئیں۔‘‘ انھوں نے پیپلز پارٹی کو یہ احسان بھی جتایا کہ کراچی مئیر کے انتخاب میں مسلم لیگ ن نے بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دیئے تھے۔ کراچی میں جس ڈھٹائی اور بے شرمی سے پیپلز پارٹی میئر شپ پر قابض ہوئی ہے، وہ سب نے دیکھ لیا۔ جماعت اسلامی اس انتخاب کو چیلنج کر رہی ہے، لیکن جب تک سہولت کار پیپلز پارٹی کو سہارا دے رہے ہیں، وہ کراچی پر قبضہ رکھے گی۔ جماعت اسلامی کو شکست نہیں ہوئی، اس کی یہ فتح ہے کہ اس نے پیپلز پارٹی کی فسطائیت کو بے نقاب کیا ہے، جماعت اسلامی کو کراچی میں نو ٹاؤن چیئرمین ملے ہیں، اسے اب ان پر فوکس کر کے اپنے تنظیمی اور دعوتی کام پر توجہ کرنی چاہیئے۔ مسلسل احتجاجی سیاست، مظاہرے، ریلی، جلسے جلوس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ جماعت اسلامی ایک مضبوط اپوزیشن سے بلدیہ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ اس بات کو پیپلز پارٹی بھی جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے کامیابی کیسے حاصل کی ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کو بھی عوام کی خدمت کر کے بدنامی کا یہ داغ مٹانا چاہیئے۔ کراچی کے بہت سے حلقے جن میں چاروں وارڈ جماعت اسلامی کے کونسلر جیت چکے تھے اس کے باوجود چیئرمین اور وائس چیئر مین کو جتوایا گیا جس پولنگ بوتھ سے جنرل الیکشن میں چار ووٹ پڑے وہاں اسی بوتھ میں دس ووٹ کو دو سفر کے اضافے کے ساتھ ہزار ووٹوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ اگلے مرحلے میں کیا ہو گا، اس کی ایک جھلک الیکشن کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں پر پیپلز پارٹی اور پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن سے سب دیکھ چکے ہیں۔ یعنی طاقت کے مقابلے میں طاقت کا مظاہرہ کریں گے تو اپنے قیمتی کارکنان کا نقصان کریں گے۔ حافظ نعیم کی قیادت، ہمت، نیک نامی، کی سب تعریف کرتے ہیں۔ وہ ہارے نہیں ہیں، بلکہ ہرائے گئے ہیں۔ عوام یہ سب جانتی ہے، آدھے سے زیادہ شہر ان کے قبضے میں ہے، ضلع وسطی کورنگی گلشن اقبال شاہ فیصل کالونی جیسے اہم مقامات میں، اب مقابلہ کام کا ہونا چاہیئے جس سے شہریوں کا بھلا ہو گا۔ عام انتخابات قریب ہیں جماعت اپنے ٹاونز میں ترقی لاتی ہے تو مزید ووٹ لے سکے گی۔ سندھ میں جماعت اسلامی کو کام کرنا ہے، تو جھگڑے کی سیاست سے باہر نکلنا ہو گا۔ جہاں شہری علاقوں میں نا انصافی ہے، وہاں سندھ کے گاؤں دیہاتوں میں بھی نا انصافی اور ظلم ہے، اس پر آواز اٹھانی چاہیئے۔ یہ سیاسی معاملہ ہے۔ جسے سیاسی انداز ہی نمٹنا چاہیئے۔
٭٭٭
سونے کی چڑیا کون ہاتھ سے جانے دے گا
اتوار کی صبح سویرے بازار جانا ہوا تو سبزیوں اور پھلوں کی افراط نظر آئی، تازہ تازہ سبزیاں ڈھیر کی شکل پر ٹھیلوں اور سڑک کنارے فروخت کرنے والے لیے بیٹھے تھے۔ ٹماٹر آج سو روپے کے ڈھائی کلو تھے، لیکن خوش رنگ ٹماٹروں کو کوئی نہیں پوچھ رہا تھا، مٹر آلو، پالک، بند گوبھی، شلجم سب کچھ نارمل ریٹ پر تھا، چند ہفتوں پہلے سبزی کے ریٹ آسمان پر تھے، ٹماٹر تین سو روپے کلو تھے اور لوگوں خرید رہے تھے، شکوہ بھی تھا کہ سبزیوں کے بھاؤ بہت بڑھ گئے۔ لیکن اب جب سبزی بازار اور مارکیٹ میں سستی ہے تو ہم مرغی کی قیمت کا رونا لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، آج کراچی میں مرغی کا گوشت 5 سو اسی روپے کلو ہے۔ مرغی کی قیمت بڑھتے دیکھ کر گائے کا گوسٹ ہڈی والا خاموشی سے 800 روپے کلو کر دیا گیا ہے، دودھ کی قیمت پر یوں بھی کوئی کنٹرول نہیں 190 روپے لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر کوئی کنٹرول نہیں، مارکیٹ ریٹ کنٹرول کرنے والے تمام محکمے اور ان کے اہل کار رشوت بٹورنے کا کام کرتے ہیں، سندھ میں رشوت اس قدر دیدہ دلیری سے پہلے کبھی نہیں لی جاتی تھی، کل ایک دودھ والے کے پاس کھڑا تھا، ایک موبائیل آ کر رکی، پولیس والے نے، دودھ، دہی، انڈے لے کر اس نے سو دوسو روپے ہی دیئے ہوں گے، اگلے مرحلے پر اس نے آس پاس کھڑے پھل والوں کے ٹھیلے سے بھی کچھ پھل اٹھا کر اپنے ساپر میں ڈال لیے، اوپر والے اس سے زیادہ رشوت لیتے ہوں گے، سندھ حکومت کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ حکومت کی جاری کردہ پرائس لسٹ نہ کوئی دیکھتا ہے، اور نہ اس پر کوئی عمل ہوتا ہے، اشیاء خورد و نوش کی مختلف دکانوں پر مختلف قیمتیں ہیں۔ یہاں پر یہ مرغی تقریباً 700 روپے فی کلو مل رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری کردہ پرائس لسٹ یہاں پر موجود نہیں ہے سوال یہ ہے کہ ان قیمتوں کی نگرانی کون کر رہا ہے؟ ان محکموں اور ان کے اہلکاروں کا جواز کیا ہے۔ جب زیادہ شور مچتا ہے تو کمشنر کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کر دیا جاتا ہے کہ ان دکانداروں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا جو سرکاری پرائس لسٹ آویزاں نہیں کریں گے۔ آٹا کی قیمتوں پر مجھے بے حد تشویش ہے، آٹے کو دس کلو کا تھیلا اس وقت مارکیٹ میں سولہ سو روپے تک پہنچ گیا ہے، آٹا ملیں کیا کر رہی ہیں، ان کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے والا کون ہے، اور کیا وہ سو رہے ہیں، انھیں نظر نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز پر آنے والا آٹا لوگوں کو نہیں مل رہا، لائین لگی رہتی ہے اور آٹا ختم ہو جاتا ہے، سستے آٹے کے نمائشی ٹرک اب غائب ہو چکے ہیں۔ لوگ پریشان حال ہیں، کراچی میں ہر طرف مٹی اور کچرے کے ڈھیر ہیں، میں ہول، نالے کھلے پڑے ہیں، ترقیاتی کام کے نام پر درختوں کو کاٹا جا رہا ہے، ہر طرف مافیاز کا راج ہے، پانی سردی میں بھی لائینوں میں دستیاب نہیں، ٹینکر سے دستیاب ہے، رقم خرچ کریں اور پانی منگوا لیں۔ اس صورت حال میں حکمران ٹولہ بھی اپنی رنگ رلیوں اور لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکے گا کیوں کہ ’ایک طرف بدعنوان نظام ہے اور دوسری جانب نام نہاد ’قوم ہے، جو اب تک نہ کوئی لائحہ رکھتی ہے، اور نہ اس میں کوئی جذبہ اور تحریک ہے، ایک ہجوم ہے، جو سمت کا تعین کیے بغیر دوڑے جا رہا ہے۔ گزرا سال 2022 مہنگائی کے حوالے سے پاکستان کے عوام پر کافی بھاری رہا ہے۔ مالی سال 2021۔2022 تک مہنگائی کی شرح 12 فیصد سے 13 فیصد تک رہی تاہم نئی حکومت کے آنے کے بعد جون میں نئے مالی سال 2023۔2022 کا بجٹ آنے کے باعث ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان سامنے آیا جس کی باعث مہنگائی گزشتہ سات ماہ سے 20 فیصد سے اوپر رہی۔ خطے کی مناسبت سے مہنگائی کی شرح کا موازنہ کیا جائے تو سال 2022 میں مہنگائی کی اوسط شرح بھارت میں تقریباً 7 فیصد، چین میں تقریباً 2 فیصد جبکہ بنگلا دیش میں 7.4 فیصد رہی۔ اس کے برعکس پاکستان میں مہنگائی کی اوسط شرح تقریباً 20 فیصد رہی، یوں مہنگائی میں اضافے کے اعتبار سے پاکستان چین، بھارت اور بنگلا دیش سے اوپر ہے۔
سود اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ ہے۔ اور ہم یہ جنگ مسلسل کیے جا رہے ہیں، دل میں ہڈ حرامی ہو تو، پھر کوئی کام نہیں ہو سکتا، سو بہانے اور مسائل اور مشکلات کا رونا روتے رہیں گے، اس شرح سود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے مہنگائی میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال اور افراطِ زر کا اندازہ اس ملک میں حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی شرح سود سے لگایا جا سکتا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق شرح سود میں عموماً اس وقت اضافہ کیا جاتا ہے جب ملک میں جاری مہنگائی پر قابو پانے میں حکومت کو مشکل پیش آ رہی ہو، جبکہ شرح سود میں اس وقت کمی کی جاتی ہے جب ملک میں معاشیات کا پہیہ سست روی سے چل رہا ہو۔ ماضی میں بھی کورونا لاک ڈاؤن کے باعث ملکی معیشت کو سست روی کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں ریکارڈ کمی کرتے ہوئے ریکارڈ 5.75 فیصد تک لے جایا گیا۔ سال 2022 میں ملکی معیشت میں استحکام لانے اور مہنگائی کی شرح کو کم کرنے کیلئے شرح سود میں گزشتہ ایک سال کے دوران 625 بنیادی پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا تھا۔ 15 دسمبر 2021 میں شرح سود 9.75 فیصد تھی، جسے سابق حکومت کے اقتدار سے جانے سے دو دن قبل 250 بیس پوائنٹس بڑھا کر 12.25 فیصد کر دیا گیا۔ 24 مئی 2022 میں مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں ایک بار پھر 150 پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 13.75 فیصد کر دیا گیا، 13 جولائی 2022 کو شرح سود 125 بیس پوائنٹس اضافے کے ساتھ 15 فیصد تک جا پہنچی، جبکہ سال 2022 میں 28 نومبر 2022 کو شرح سود میں آخری بار 100 بیس پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے اسے ریکارڈ 16 فیصد کر دیا گیا۔ یوں پاکستان کی شرح سود کی موجودہ شرح گزشتہ 24 سالوں کی بلند ترین شرح ہے۔ اور منگائی کا جن قابو سے باہر ہے۔
کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کو ایک مذاق بنا دیا گیا ہے، حکومت انتخابات کرانے میں ہرگز سنجیدہ نہیں ہے، مجھے تو 15 جنوری کو بھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے، حافظ نعیم الرحمان نے ایک بار پھر جلسہ جلوس ریلی نکال کر الیکشن کرانے کی مہم شروع کی ہے، لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی، کراچی پر اسٹیبلشمنٹ کی رال ٹپکتی ہے، وہ حکومت سندھ، اور اپنے حلیفوں کے ذریعے 30 سال سے اس شہر کے وسائل کو چاٹ رہی ہے، وہ اب بھی اس سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
٭٭٭
’سوشل میڈیا‘ ہمارا پیارا قاتل
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟ میرے لوگ مر رہے ہیں، تباہ ہو رہے ہیں، لیکن کوئی قاتل کو قاتل نہیں کہہ رہا، اس نے دستانے ہی نہیں پہنے بلکہ اس نے ایسا خوب صورت روپ دھارا ہے، کہ سب اس پر جی جان سے فدا ہیں۔ سوشل میڈیا جس سے سب کو پیار ہے، جس پر سب لوگ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت خرچ کر رہے ہیں۔ اس نے ہماری دنیا ہی بدل دی ہے۔ ہمارے رشتے ختم کر دیئے ہیں۔ ہماری معاشرتی اقدار کو موت کی گھاٹ اتار دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اب دنیا اب ’’ڈیجیٹل وَرلڈ‘‘ میں تبدیل ہو چُکی ہے۔ قندیل بلوچ سے عامر لیاقت تک کتنے ہی لوگ اس خرابے میں بدنام ہوئے، اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ابتداء میں کہا گیا کہ ’’سوشل میڈیا کا بنیادی مقصد مختصر وقت میں زیادہ سے زیادہ افراد تک خیالات اور نظریات کی رسائی ہے‘‘۔ یہ رسائی انسانوں کو ایک دوسرے سے دور لے گئی۔ اب پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کوئی نہیں گفتگو کرتا، لیکن ایک انجانی دنیا اور دور بیٹھے ہوئے افراد سے چیٹنگ، بات چیت، تصویروں اور خیالات کا تبادلہ جاری ہے۔ اب لوگ سوشل نیٹ میں فیس بُک، ٹوئیٹر، لنکڈاِن، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ، یو ٹیوب، فیس بک لائیو، آئی جی ٹی وی، اسکائپ، ٹِک ٹاک اور اسنیک میں مشغول ہیں۔ میسیجنگ ایپس میں واٹس ایپ، وائبر، لائن، میسینج، وی چیٹ، ٹیلی گرام، سگنل وغیرہ کے علاوہ ایسے کھیل بھی ہیں، بہت سی گیمنگ ایپس ہیں، جن میں کینڈی کرش، کاؤنٹر اسٹرائیک، پب جی اور لوڈو وغیرہ آپ کو ایک دوسرے سے دور اور انجانے اور دور دراز کے لوگوں سے قریب کر دیں گی۔ اس وقت دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد 3.80 ارب ہے۔ دنیا کی کل آبادی سات ارب 86 کروڑ کے لگ بھگ ہے
اب سوشل میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی آبادی کو ایک طرف بجلی پانی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ لیکن اس وقت مُلک کی 87 فی صد آبادی کو ٹیلی کام سروسز میسّر ہیں۔ عوام کے پاس کھانے کے پیسے ہوں نہ ہوں، لیکن بیلنس ڈلوانے کے ہے، رقم موجود ہے۔ 2020ء سے 2021 کے درمیان پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 24 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں فیس بُک، ٹوئیٹر کے بعد ٹِک ٹاک کی مقبولیت عروج پر ہے، جب کہ یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا مُلک ہے۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں ماہانہ دو کروڑ افراد ٹِک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔ آج ہر شخص راتوں رات سُپر اسٹارز بننے کی کوشش میں ہے۔ اب ہر کوئی ’’وائرل‘‘ ہونے کا خواہش مند ہے۔ اور اس کوشش میں کوئی لڑکی مردوں کے درمیان بیہودہ لباس کے ساتھ، بیہودہ حرکتیں کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی، اپنے کپڑے پھاڑ کر تصویر کھنچوانے اور پوری قوم کو بدنام کرنے، اور بعد میں اس طے شدہ منصوبے کی خبریں شائع کرانے پر قوم سے معافی بھی نہیں مانگتی۔ منفرد سیلفیز کا شوق نوجوانوں کو موت کے دہانے تک لے جا رہا ہے۔ کتنے ہی واقعات میں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ ’دعا زہرۃ‘ کا قصہ پب جی کی دوستی کا نتیجہ ہے۔ سوشل میڈیا کا منفی، نازیبا زبان تصاویر اور ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے کی مکمل آزادی نے لوگوں کے درمیان کدورتیں اور دوریاں بڑھ گئی ہیں، ریٹنگ کے چکّر میں اب کسی کو نہ ملک کی سالمیت کی پروا ہے۔ افواج پاکستان کے خلاف، مذہب کے خلاف، پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کے خلاف ہر طرح کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کی نجی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ سیاست دانوں سے لے کر مذہبی شخصیات ہر کی ہر طرح کی ویڈیوز آنے سے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کر شکار ہے
عامر لیاقت کی ذاتی زندگی بھی اسی سوشل میڈیا کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ ہم نے اپنی نوجوان نسل کے ہاتھ میں خوفناک ہتھیار دے رکھے ہیں، لیکن ان ہتھیاروں کو کیسے استعمال کرنا ہے، کہاں استعمال کرنا ہے، کیا سیکھنا ہے، کیسے اس کو چلانا ہے، اس کے لیے کوئی قاعدہ قانون بنانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، کیا قومیں اسی طرح آگے بڑھتی ہیں، ایسے ہی ترقی کرتی ہیں، بات تو سوچنے کی ہے، لیکن اس پر سوچتا کون ہے۔
٭٭٭
سوشل میڈیا ایک بہت بڑا دھوکہ ہے
سوشل میڈیا ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ یہ ہمیں انسان سے حیوان بنا رہا ہے اور ہم انسانی ہمدردی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ اس شخص کے الفاظ ہیں، جو خود بہت عرصہ سوشل میڈیا پر سرگرم رہا۔ دنیا میں اس وقت تقریباً آدھی دنیا سوشل میڈیا پر دیوانی ہے، چار ارب 62 کروڑ افراد دن رات کی پیڈ، اور اسکرین سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، 2017 میں یہ تعداد صرف 2 ارب 73 کروڑ تھی، اور پانچ سال بعد یہ تعداد پانچ ارب 85 کروڑ ہو جائے گی۔ پاکستان میں بھی یہ جنون تیزی سے بڑھ رہا ہے، موبائیل ہمارے ہاتھ سے چپک کر رہ گیا ہے، آپ اسے اپنے سے دور کر دیں، تھوڑی دیر بعد ہی ایک نشئی کی طرح آپ اسے ڈھونڈتے نظر آئیں گے۔
پاکستان میں اس وقت 8 کروڑ 90 لاکھ افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ جن میں سے سات کروڑ 17 لاکھ افراد سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں۔ اس میں سے بھی زیادہ تعداد یو ٹیوب کی دیوانی ہے۔ ہر شخص اپنے بجٹ کا ایک حصہ موبائیل کمپنیوں اور انٹرنیٹ کمپنیوں کو دیتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنی زندگی کے قیمتی لمحات بھی۔ ہاشم رضا بھی ایک ایسا ہی نوجوان تھا، جو سوشل میڈیا، سماجی تنظیموں اور سماجی امدادی کاموں میں مصروف رہا، ڈیڑھ برس پہلے اسے کینسر کی بیماری کا پتہ چلا۔ اور وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔ اور بیماری سے جنگ لڑتے لڑتے رخصت ہو گیا۔ زندگی کے سکھانے کا اپنا ہی انداز ہے۔ ہاشم رضا نے بھی جاتے جاتے زندگی سے بڑے اہم سبق سیکھے۔ جاتے جاتے وہ اپنے دوستوں کو جو نصیحت کر گیا۔ وہ ایسی ہیں کہ ہمیں ان پر توجہ دینی چاہیئے۔ اس نے اپنی وال پر لکھا کہ خود کو اللہ کے سپرد کر دیں کہ آپ کے کنٹرول میں کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ ناقابلِ تسخیر ہرگز نہیں ہیں۔ آپ کے گھر والے سب سے پہلے ہیں اور ماں کی محبت کا نعم البدل کوئی بھی نہیں ہے۔ آپ بیماری میں ہیں اور اگرچہ آپ بستر سے ہلنے کے قابل بھی نہیں اور آپ کا درد ناقابلِ برداشت ہو تو تب بھی آپ کے پاس اپنے رب کا شکرگزار ہونے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ اس پر شکر ادا کریں۔ ہم بہت محدود ہستی ہیں جو بعض اوقات کسی خاص معاملے کی وجہ یا وقت کا تعین تبھی کر پاتے ہیں جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے کچھ خاص لوگوں کے سوا کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا. لہٰذا آپ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کی زندگی میں وہ خاص لوگ کون ہیں اور ان کی پہلے سے ہی قدر کیجیے۔ کچھ لوگ اپنے بن کر آپ سے خوب فائدے اٹھاتے رہتے ہیں لیکن وہ مشکل وقت میں آپ کے کسی کام نہیں آتے۔ ایسے لوگوں سے خبردار رہیں اور امید مت رکھیں۔ تھوڑے مگر ستھرے، کم مگر مخلص لوگوں سے دوستی رکھیں۔ زندگی میں مفت ملی ہوئی چھوٹی چھوٹی نعمتوں کی قدر کیجیے۔ کسی سے بات چیت، پارک میں چہل قدمی کرنا، باقاعدہ کھانا کھانا، ہنسنا، بھرپور نیند لینا اور چھوٹے موٹے کام کرنے کے قابل ہونا، یہ وہ نعمتیں ہیں کہ جو شاید آپ کے لیے معمولی ہوں لیکن میں آج ان سے محروم ہوں اور ان کے لیے ترستا ہوں۔ اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال کر کسی کی تیمار داری کرنا بیمار کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت بھی ہے۔ جانیں کہ آپ کے لیے واقعی اہم کیا ہے۔ وہ چیزیں جنہیں میں اپنے لیے بہت اہم سمجھتا رہا لیکن بیمار پڑا تو وہ میرے لیے بالکل غیر اہم ہو کر رہ گئیں۔ کچھ عام لوگ آپ کے لیے آپ کے دوستوں سے بڑھ کر اچھے ثابت ہوتے ہیں۔ ان کی قدر کریں۔ یاد رکھیں۔ سوشل میڈیا ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ یہ ہمیں انسان سے حیوان بنا رہا ہے اور ہم انسانی ہمدردی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس دھوکے میں پڑنا بہت آسان ہے کہ میرے بغیر دنیا نہیں چل پائے گی مگر سچ یہ ہے کہ اسے ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں خود بھی سوشل میڈیا پر رہتا ہوں۔ لیکن یہ میرے کام کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ہمیں اس پر اپنی ساری توانائی صرف نہیں کرنی چاہیئے۔ یہی میں آپ سے چاہتا ہوں۔
٭٭٭
بٹ صاحب آپ نے کمال کر دیا
بھارتی ترنگے کے مقابلے میں بلند پاکستانی سبز ہلالی پرچم دیکھ کر میرا دل فخر سے جھوم اٹھا، میری روح سرشار ہو کر فضا کے چکر کاٹنے لگی، مجھے ہر طرف سبز پرچموں کی بہار نظر آ رہی تھی۔ پاکستانی قومی ترانا بج رہا تھا، اور ساری دنیا پاکستان کے پرچم اور اس کے سامنے عقیدت کا بت بننے اس نوجوان کو دیکھ رہی تھی۔ جس کی عمر ابھی صرف 24 سال ہے۔ جس کا والد اس بات پر ناراض ہوا کہ ابھی تک اس نے کانسی کا تمغہ کیوں جیتا، گولڈ میڈل کیوں نہیں لیا۔ پھر نوح دستگیر بٹ نے پاکستان کو کامن ویلتھ گیمز میں پہلا گولڈ میڈل دلوا دیا۔ یہ کامن ویلتھ گیمز کی تاریخ میں دوسرا موقع ہے کہ کسی پاکستانی ویٹ لفٹر نے طلائی تمغہ جیتا ہے۔ کامن ویلتھ گیمز کی تاریخ میں 16 سال بعد یہ معجزہ دوسری بار ہوا ہے، جس میں کسی پاکستانی ویٹ لفٹر نے طلائی تمغہ جیتا ہے۔ اس سے قبل 2006 میں شجاع الدین ملک نے میلبرن میں ہونے والے مقابلوں میں 85 کلوگرام وزن کے مقابلے میں یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔
نوح دستگیر کا تعلق پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ سے ہے، وہی گوجرانوالہ جو پہلوانی، کبڈی اور ویٹ لفٹنگ اور چڑے کھانے کے لیے مشہور ہے۔ بچپن سے ویٹ لفٹنگ اس کا شوق ہے، اس نے اپنے والدہ کو ہمیشہ سبز پرچم کو بلند کرنے کے جذبے سے سرشار پایا، نوح دستگیر بٹ کے والد غلام دستگیر بٹ پانچ مرتبہ ساؤتھ ایشین گیمز گولڈ میڈلسٹ اور ریکارڈ ہولڈر ہیں جنھوں نے اٹھارہ مرتبہ قومی چیمپئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اب ان کی پوری توجہ اپنے بیٹوں پر مرکوز ہے۔ وہ انھیں قومی چیمپئین بنانا چاہتے ہیں۔ نوح کے چھوٹے بھائی ہنزلہ دستگیر بٹ بھی پاکستان کے قومی جونیئر چیمپیئن رہ چکے ہیں۔، پاکستان کا نام روشن کرنے والا نوح دستگیر مجھے اس لیے بھی پسند ہے کہ اس نے انڈیا کے گردیپ سنگھ کو اس مقابلے میں پچھاڑ دیا ہے، اسے چت کر کے رکھ دیا ہے، انھیں اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا، اور اسے تیسری پوزیشن پر گذارا کرنا پڑا۔ یوم آزادی کے اس جشن میں اس سے بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے۔ میں پوری قوم کی جانب سے نوح دستگیر کو مبارک باد دیتا ہوں، بٹ صاحب آپ نے کمال کر دیا، میں تو شاہ حسین شاہ کو بھی اپنا ہیرو کہتا ہوں، بارش کے پہلے قطرے کی طرح اس نے دولتِ مشترکہ کھیلوں میں پہلا تمغہ کانسی کے تمغے کی شکل میں حاصل کیا تھا۔ شاہ حسین نے یہ تمغہ جوڈو کی 90 کلوگرام کیٹیگری میں جنوبی افریقہ کے کھلاڑی کو ہرا کر جیتا ہے۔ اس نے 2014 کے کامن ویلتھ گیمز میں بھی چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ ان کی محبت قابل دید ہے۔ پہلوان انعام بٹ نے کامن ویلتھ گیمز میں جیتا ہوا سلور میڈل لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثے کے شہداء کے نام کر دیا۔
پاکستان نے کامن ویلتھ گیمز میں اب تک مجموعی طور پر 26 طلائی، چاندی کے 25 اور کانسی کے 26 تمغے جیتے ہیں جن میں ویٹ لفٹنگ میں جیتے گئے طلائی تمغوں کی تعداد دو ہے جبکہ اس کھیل میں پاکستان نے چاندی کے دو اور کانسی کے تین تمغے بھی جیت رکھے ہیں۔ عجیب سی بات ہے پاکستان کا سارا بجٹ اور ساری توجہ کرکٹ پر ہے، سب سے زیادہ قوم کا پیشہ کرکٹ کے کوچز اور کھلاڑیوں کی تربیت پر خرچ کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان کے قومی کھیل ہاکی پر کوئی توجہ نہیں، کبھی ہاکی ہمارا فخر تھا، دنیا میں ہماری ہاکی ٹیم کا ڈنکا بجتا تھا۔ پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم نے اس ملک کو اس وقت روشناس کرایا تھا، جب دنیا میں پاکستان کا نام کم ہی سنا جاتا تھا، ہماری ہاکی ٹیم نے تین اولمپک گولڈ میڈل جیتے، چار عالمی کپ جیتے، تین چیمپئیز ٹرافی جیتی، لیکن آج ہماری ہاکی رو بہ زوال ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے مالی سال 2022۔23 کے لیے پندرہ ارب روپے کی رقم رکھی ہے۔ ہماری بچیاں جو دن رات محنت کرتی ہیں، اولمپک مقابلوں اور دنیا کے دیگر کھیلوں کے مقابلے میں جاتی ہیں، انھیں ٹریننگ کے مواقع نہیں ہیں، وہ معمولی ملازمتیں کرتی ہیں، اور عالمی مقابلوں میں پاکستان کا نام روشن کرتی ہیں، لیکن انھیں کوئی سہولت کوئی انعام کوئی اعزاز، کوئی اچھی ملازمت نہیں دی جاتی۔ کسی بھی کھلاڑی کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی کرے۔ لیکن ہم ان کو کیا دے رہے ہیں؟ مجھے شرم آتی ہے جب میں، پیرا ایتھلیٹ انیلہ عزت بیگ سے یہ سنتا ہوں کہ ’’میرے لیے وہ لمحہ انتہائی تکلیف دہ تھا جب میں نے فیکٹری مالکان سے کہا کہ مجھے کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لینے کے لیے تیاری کرنی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ کو ان دو ماہ چھٹیوں کی تنخواہ نہیں ملے گی۔‘‘ انیلہ عزت بیگ فیصل آباد کی ایک مشہور ٹیکسٹائل ملز میں صرف 17 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتی ہیں۔ انھوں نے کامن ویلتھ گیمز کے پیرا ایتھلیٹکس مقابلوں کے ڈسکس تھرو ایونٹ میں حصہ لیا۔ انیلہ عزت بیگ کہتی ہے ’’میں اس کھیل کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔ میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ پولیو کی وجہ سے میری بائیں ٹانگ متاثر ہے۔ میرے اندر جذبہ اور جنون ہے اور میں پاکستان کے لیے کچھ کر دکھانا چاہتی ہوں۔‘‘ پیرا ایتھلیٹس ہوں، کبڈی ہو، پہلوانی ہو، فٹبال ہو، باکسنگ ہو، بیڈمنٹن ہو، اسکوائش ہو، یہ سارے کھیل بھی اہم ہیں، اسپیشل بچوں کے کھیل اور مقابلے بھی اہم ہیں، یہ گلی محلے کے بچے جو کھیل میں بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ہیں، یہ بھی پاکستان کے شہری ہیں، انھیں بھی تربیت اور سہولیات ملنی چاہیئے، ان کے لیے بھی بجٹ ہونے چاہیئے، یہ بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے دیگر عام ایتھلیٹس، کرکٹ، یا دوسرے کھیل۔ پرائیوٹ اداروں کو بھی سوچنا چاہیئے، اسپانسرشپ بڑے کھلاڑیوں اور کرکٹ، اسکوائش اور بیڈمنٹن ہی تک محدود نہ رکھیں، اپنے نوجوانوں کی ہمت افزائی کریں، اپنے کھلاڑیوں کی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کو ممکن بنائیں۔ یہ شاندار کارکردگی بھی دکھائیں گے اور سبز ہلالی پرچم کو بلند بھی کریں گے، اور پاکستان کا نام روشن بھی کریں گے۔
٭٭٭
دہشت گردوں کے سرے؟
ہم بدترین معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن ہماری عیاشی بھی عروج پر ہے، ہماری اشرافیہ عوام سے دور اپنے محفوظ خوشحالی کے جزیرے میں ہر طرح کے فوائد سمیٹنے میں لگی ہے، اور عوام ان سب سے بے نیاز ان سیاست دانوں کی کٹ پتلی بنی ہے، جو انھیں بھوکا ننگا رکھ کر نچا رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاست دانوں، عدلیہ، جرنیلوں، صنعتکاروں نے ایکا کر لیا ہے، اور وہ عوام کو ہر طرح سے مل کر لوٹ رہے ہیں، ان کے منافع دولت، لوٹ مار کی کوئی حد ہے نا حساب۔ ملک پر نا اہل سیاست دانوں، اور ان کے سرپرست قابض ہیں، اور عوام کو دن بدن مشکل ترین امتحان میں ڈال رہے ہیں، ترقی اور خوشحالی خواب بن کر رہ گئی ہے۔
عوام بھی بہت اچھے نہیں ہیں، وہ بھی جانتے بوجھتے ان نا اہل سیاسی لیڈروں کے ساتھ کیوں چمٹے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ بھی چھوٹی موٹی چوری چکاری میں ملوث ہیں، وہ ان پارٹی سے اس لیے تعلق رکھتے ہیں کہ وہ ان کے برے کرتوں میں ان کا ساتھ دیں گے۔ دوسری جانب ناکارہ بیوروکریسی ہے، جو اپنی مراعات تنخواہوں، پرٹوکول میں مگن ہیں، وہ اس ڈوبتے ہوئے ملک کو بچانے کی نہ تو صلاحیت رکھتے ہیں، اور نہ ہی انھیں اس ملک کو سدھارنا ہے، ان کے پاس بیرونی ملکوں کے پاسپورٹ، شہریت، اور ویزے ہیں، وہ جب چاہیں اس ملک کو چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، اور اپنے اس خیال پر قائم ہوں کہ جس طرح انگریز کی پالیسی برصغیر میں یہ رہی کہ ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘۔ اب اس ملک کے کرتا دھرتا بھی اس نظریہ اور خیال پر جمے ہوئے ہیں کہ جب ملک کی عوام پر کوئی نیا ٹیکس، بجٹ، مہنگائی، پیٹرول کے نرخوں، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے، جس سے عوام کی چیخیں نکلنے لگیں، اور ان میں بغاوت، یا احتجاج کی لہر اٹھے تو ملک میں کوئی ایسا بڑا واقعہ ہو جائے، جس سے عوام کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹ جائے، گذشتہ دنوں جب پیٹرول کی قیمت پر ایک ہی ہلہ میں 35 روپے کا اضافہ ہوا تو ہمیں اگلے دن سو سے زائد لاشیں اٹھانی پڑی، پورے ملک میں کہرام مچ گیا، اور ہم پیٹرول بم کی تباہ کاریوں کو بھول گئے، اب منی بجٹ آیا تو کراچی میں سی سی پی او کے دفتر پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا، اور اب ہم اس حملے میں سیکورٹی کے نا ہونے، غیر ملکی ہاتھ، اور دہشت گروں کے نیٹ ورک میں الجھے ہوئے ہیں، ہمیں نہ آئی ایم ایف کی شرائط یاد ہیں، نہ ہمیں یہ اندازہ ہے کہ اس اتحادی ٹولہ کے وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس نے عوام کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ کے لیے سب سے کڑی شرط سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح کو سترہ سے اٹھارہ فیصد کرنے کا اقدام ہے جس کا اطلاق تمام شعبوں پر ہو گا۔ جس کا براہ راست عام آدمی کی زندگی پر اثر پڑے گا، روپے کی قوت خرید یوں بھی بہت کم ہے، اب سو روپے میں سے اٹھارہ روپے سیلز ٹیکس کی مد میں جانے پر، سو روپے کی قیمت خرید کیا رہ جائے گی۔ لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح کو سترہ سے بڑھا کر پچیس فیصد کر دیا گیا ہے۔ سگریٹ اور مشروبات، سیمنٹ، ایئر لائن ٹکٹوں پر ایکسائز ڈیوٹی، انکم ٹیکس کی کیٹیگری میں شادی اور دیگر تقریبات پر دس فیصد کے حساب سے ایڈوانس ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ دودھ، دالوں، گندم، چاول اور گوشت کو سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والے اضافے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، لیکن حکومت کی رٹ کہیں بھی نہیں ہے، دودھ کی قیمت میں ایک دم 20 روپے کلو کا اضافہ کر دیا گیا ہے، دودھ 210 روپے کلو ہے، آٹا مارکیٹ میں 130 روپے کلو ہے اور روٹی کی قیمت 25 روپے ہو گئی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ امیر اور طاقتور حکمران اشرافیہ ہی ہمیں تباہی کے ان گڑھوں کی طرف لے جا رہی ہے۔ وہ اس ملک کی تمام دولت اور گاڑیاں، زمینیں اور قرضے، مراعات اور پروٹوکول اور امداد اور سبسڈی کو قانونی اور غیر قانونی طریقے سے لوٹ رہے ہیں، پاکستان کے عام شہری کو اس نا انصافی اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیئے۔ سرکاری افسران، سول اور فوجی حکام، عدلیہ کے ججوں، سیاست دان، وزراء، ممبران پارلیمنٹ کو دی جانے والے متعدد خود ساختہ فوائد، مراعات اور سہولیات کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
سرکاری گاڑیاں اور پیٹرول، کا استحقاق صرف اشرافیہ کو کیوں حاصل ہے؟ چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کے افسران نے ایسی ڈیڑھ لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں اپنے لیے مختص کر رکھی ہیں۔ کیا ایسی سہولیات برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا، بھارت جیسے ملک میں حاصل ہیں؟ہم نے بحریہ، ڈی ایچ اے، دفاعی منصوبوں کے نام پر جو کاروبار شروع کر رکھا ہے، اسے اب بند ہونا چاہیئے، کل ہی 33 برس بعد سپریم کورٹ نے آرڈیننس فیکٹری منصوبے کے متاثرین کو زمین کی مارکیٹ ریٹ پر ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے حکومت اور وزارت دفاع کی کم قیمت پر زمین کی خریداری کی اپیلیں مسترد کیں ہیں۔ حکومت نے عوامی منصوبوں کے متاثرین کو جائز حق دینے کیلئے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ عوامی منصوبوں کے متاثرین کے تنازعات کے ہزاروں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ 1990 میں ضلع اٹک کے تین دیہات 29 ہزار کنال زمین 30 ہزار روپے فی کنال خریدنے کا نادر شاہی حکم دیا گیا تھا۔
نا انصافی اور ظلم حد سے زائد بڑھ جائے تو لوگ دہشت گردی کی طرف نکل جاتے ہیں، ہماری سیکورٹی ایک سوالیہ نشان ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اس بیان کی مذمت کی جانی چاہیئے، جس میں انھوں نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف مزید حملوں کی دھمکی دی ہے، اور کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو چاہیے کہ غلام فوج کے ساتھ ہماری جنگ سے دور رہیں۔ کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے تینوں دہشت گردوں کا تعلق شمالی وزیر ستان سے بتایا جا رہا ہے، ہمارے حکام کو سوچنا چاہیئے کہ دہشت گردوں کے سرے بلوچستان، اور شمالی وزیرستان سے کیوں ملتے ہیں۔
٭٭٭
درجہ حرارت اور دباؤ بڑھ رہا ہے۔
میں عمران خاں سے دو بار ہی ملا ہوں، پہلی بار وہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم پر تھے، اور اسٹیٹ لائف انشورنس میں آئے تھے۔ وہ ورلڈ کپ کی جیت کا تمغہ سینے پر سجائے تھے اور انھیں قومی ہیرو کا درجہ حاصل تھا، دوسری بار کراچی پریس کلب میں وہ میٹ دی پریس سے خطاب کرنے آئے تھے، اور اقتدار سے گلے ملنے کے لیے تیار تھے، وہ وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے تھے۔ ان سے ہاتھ ملانا ایک کھلاڑی سے ہاتھ ملانا جیسا ہے، جو بے دلی سے اپنے مداحوں سے ہاتھ ملا رہا ہوتا ہے۔ عمران خان ایک فائٹر ہے، لڑائی لڑنے میں اسے مزہ آتا ہے۔ چاہے اس لڑائی میں خود کا بھی برا حال ہو جائے۔ نئے تنازعات بڑھتے جا رہے ہیں، نومبر سے پہلے اکتوبر میدان جنگ میں بدل چکا ہے۔ 15 اکتوبر کو کیا ہو گا؟ کیا واقعی عمران خان فائنل کال دیں گے، اسلام آباد میں گھبراہٹ اور اداروں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔ اسلام آباد میں سب کچھ ریڈ زون نہیں ہے، وہاں عام لوگ بھی رہتے ہیں، اگر احتجاج میں شدت آ گئی تو کیا ہو گا؟ عوام کی جان اور مال کیسے محفوظ رہیں گے۔ نئے انتخابات، سائفر، چیف سے عمران خان کی ملاقات، وارنٹ گرفتاری سے بڑھ کر، اب تو عمران خان اپنی جان کے خطرے کی بات بھی کر رہے ہیں، انھوں نے بھی اپنے نہ ہونے پر ایک ٹیپ کی بات کی ہے، جس میں انھوں نے سب کچھ ریکارڈ کرا دیا ہے۔ ایسی ہی ایک ٹیپ بے نظیر بھٹو نے بھی ریکارڈ کرائی تھی۔ پھر کیا ہوا، اس ٹیپ پر کوئی کاروائی ہوئی، جن پر الزام لگایا گیا تھا، ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ راولپنڈی میں دو وزیر اعظم قتل ہوئے، پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل راولپنڈی ہی میں ہوا تھا، یہی اکتوبر کا مہینہ تھا، 16 اکتوبر 1951 کے بعد سے آج تک اس بارے میں کیا ہوا، وہ جہاز جس میں تحقیقات کی دستاویزات اور ثبوت تھے، تحقیقات کرنے والوں سمیت تباہ ہو گیا، پھر بے نظیر بھٹو کے قتل کی کونسی تحقیقات ہوئیں۔ سب کچھ ماضی کی نذر ہو گیا۔ تو اب خدا نخواستہ پھر کوئی سانحہ ہوا تو کیا ہو گا؟ کوئی اس پر نہیں سوچتا، سب اقتدار کے لیے مرے جا رہے ہیں، کس قیمت پر، عوام کی تباہی، ملک کی تباہی، معیشت کی تباہی، معاشرہ کی تباہی۔ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہوئی ہے، عوام جس طرح برباد اور تباہ حال ہیں، اس بارے میں کون سوچ رہا ہے، کون اس کے لیے کچھ کر رہا ہے، حکومت کے وہی اللے تھللے ہیں، کوئی دوسری شادی کی رنگینیوں میں مگن ہے، کروڑوں روپے کے اخراجات، وہی عیاشیاں، وہی شاہ خرچیاں، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ چھ ماہ میں پچاس سے زائد جلسے ہو گئے ہیں، جلسے ایسے ہی تو نہیں ہو جاتے، کروڑوں روپے کے اخراجات ہوتے ہیں، کہاں سے آ رہے ہیں، یہ پیسے، کون سرمایہ کاری کر رہا ہے، مسلسل مقتدر حلقوں کو باور کرایا جا رہا ہے، ہمیں لاؤ، ہم پر بھروسہ کرو، ہم ہی حکومت کے اہل ہیں، عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ ہماری شرائط پر انتخابات کراؤ۔ ورنہ صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوں گے۔ نئے آرمی چیف کو بھی ابھی نہ لگایا جائے۔ انتخابات کے بعد نئی حکومت بننے تک یہ اہم تعیناتی ملتوی کر دی جائے۔ کیوں کر دی جائے، اس کا کوئی جواب نہیں ہے، گو زبان سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ ’’میں توسیع کا خواہش مند نہیں‘‘ وقت مقررہ پر چلا جاؤں گا۔ لیکن نومبر سے پہلے یہ گھمسان کا رن پڑ رہا ہے۔ اس سے لگ رہا ہے، جانے والے اتنی آسانی سے نہیں جائیں گے۔ پہلے بھی راحیل شریف کے جانے سے پہلے انھیں بہت سے یقین دہانی کرائی گئی تھیں، ان کی اچھی ملازمت کا انتظام کیا گیا تھا، ان کے بہت سارے تحفظات کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اب بھی کچھ ایسا ہی انتظام ہو گا، یہاں سے نہیں ہو گا تو کہیں اور سے ہو گا، ایک کھلاڑی عوامی رد عمل کو دیکھ کر پر جوش ہو جاتا ہے۔ اسے تماشائیوں کی داد جیت کے لیے سب کچھ لگا دینے پر ابھارتی ہے۔ اس لیے کپتان بھی اب فائنل کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فائنل کی نوبت نہیں آئے گی، تحریک انصاف کو اس سے پہلے ایوان میں جانا ہو گا۔ بہت سے لیڈر عوامی پذیرائی سے غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں، بھٹو اپنے جلسوں میں مخالفین کو للکارتے، عوام سے کہتے، ’لڑو گے، گھروں سے نکلو گے، قربانی دو گے۔‘ لیکن پھر کیا ہوا، لاکھوں کے جلسے کرنے والے لیڈر کو پھانسی دے دی گئی۔ نہ خون کی ندیاں بہتی نظر آئیں، نہ پہاڑ روئے، عمران خان کہتے ہیں کہ ’’وہ جھوٹ بولنا نہیں چاہتے اور سچ وہ بتا نہیں سکتے۔‘‘ سچ کیا ہے، کیا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات، ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ گاجر اور اسٹک کا کھیل نہیں ہو رہا ہے، ’عوامی آگاہی مہم‘ سے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی صرف ایک ڈیمانڈ ہے کہ عام انتخابات کا اعلان کیا جائے اور پھر وہ تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں۔ کیونکہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ اس سے زیادہ ساز گار موقع کبھی نہیں آئے گا، عمران خان کو یقین ہے کہ اگر ابھی انتخابات کرائے گئے تو وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ اس لیے وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتے۔ لیکن بڑے بڑے بہادر اور انقلابی ہونے کا دعوی کرنے والے بھی اپنے آخری وقت میں، چی گویرا کی طرح گھگیاتے نظر آتے ہیں، اور اپنی زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں، ’’پلیز گولی مت مارنا۔ میں چے گویرا ہوں۔ زندہ رہنے کی صورت میں زیادہ مفید ثابت ہوں گا‘‘۔
٭٭٭
خوشبو کہاں سے آ رہی ہے؟
چوری اور منافع خوری کی عادت پڑ جائے تو پھر اس کا کوئی انت نہیں ہوتا۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، گھر میں کوئی چوری کرنا شروع کر دے تو گھر برباد ہو جاتے ہیں، اور معاشرے اگر چوری کی لت میں پڑ جائیں تو قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ سیلاب کیا آیا، امداد اور امداد جمع کرنے والے، سب ہی نکل آئے، اچھے اور برے، اچھوں کا ذکر کم ہوتا ہے، دیر سے ہوتا ہے، تھوڑا تھوڑا ہوتا ہے، لیکن پھولوں کی خوشبوؤں کی طرح پھیلتا ہے، سارے باغ میں پھیلی خوشبو بتا دیتی ہے کہ خوشبو کہاں سے آ رہی ہے، کونسا خوش رنگ پھول ہے، جس سے سار چمن مہک اٹھا ہے، الخدمت تو پہلے بھی تھی، برسوں سے ہے، 2005 میں بھی تھی، 2010 میں تھی، جب زلزلہ آیا، تو کیمپ لگائے، امداد دی، میڈیکل کیمپ قائم کیئے، خیمے بستر کھانے، دوائیاں، سب کچھ ہی کیا۔ زلزلے میں جو یتیم ہوئے، انھیں بے سہارا نہ چھوڑا، آغوش جیسا ادارہ بنایا، بچوں کو پڑھایا لکھایا، اب تک یہ کام جاری ہے، پچھلے سیلاب میں بھی خوب امدادی کام کیا، اب بھی کر رہے ہیں۔ آئندہ بھی کرتے رہیں گے، یہ لوگ خدمت ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
حکمرانی تو ووٹوں اور نوٹوں سے آتی ہے۔ اس لیے اس کا امکان ذرا کم ہی ہے۔ اس کے لیے یو ٹرن لینے پڑتے ہیں، پہلے جنہیں غدار کہتے تھے، انھی پراعتماد کرنا پڑتا ہے۔ پہلے جن پر ووٹ چوری کا الزام لگاتے تھے، انھی کو ووٹ کا رکھوالا بنانا پڑتا ہے، تھوکا ہوا چاٹنا پڑتا ہے، بوٹ صاف کرنے پڑتے ہیں۔ جن کی ایمپائرینگ پر انگلی اٹھائی جاتی تھی، غدار کہا جاتا تھا، ان کو الیکشن تک رہنے دینے اور مدت ملازمت میں توسیع دینے کی سفارش کی جاتی ہے۔
سیلاب پہاڑوں کے رونے سے آتے ہیں اور بستیاں غرق کر جاتے ہیں۔ کچھ سیلاب بد دیانتی، بدنیتی، چوری، مال مفت سمیٹنے کی ہوس، اپنی زمینوں کو بچانے، دوسروں کو ڈبونے، امداد کے لیے جھولی پھیلانے، امدادی سامان کو ذخیرہ کرنے، مسکین کے ہاتھ جھٹکنے، لوگوں کو در بدر کرنے، ترقیاتی کام نہ کرنے، منصوبہ سازی نہ کرنے سے بھی آتے ہیں۔ ایسے سیاست دان اور حکمران ہمیشہ جھولی پھیلائے رہتے ہیں، ان کے کشکول کا سوراخ، اور پیٹ کا دوزخ کھبی نہیں بھرتا، میرے گھر میں تین افراد ڈینگی کا شکار ہیں۔ بخار کی شدت، درد کی اذیت، اور سب سے بڑھ کر مریض کو دیکھ کر انسان جس اذیت کا شکار ہوتا ہے، وہ بھی ایک عذاب ہے۔ ڈینگی کا علاج کیا ہے۔ برداشت، پیناڈول کی گولی، اور انتظار، کہ کب یہ اذیت ناک دن، اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ کیسے ظالم لوگ ہیں۔ پیناڈول جیسی عام سے دوا مارکیٹ سے غائب کر دی، گودام بھرے ہوئے ہیں، بلیک میں فروخت کر کے مال کما رہے ہیں، اجناس کے ریٹ بڑھا دیئے، خیموں کے ریٹ بڑھا دیئے، چاول، آٹا، سبزیاں سب پر منافع کما رہے ہیں، تجوریاں بھر رہے ہیں، اپنی قبروں میں آگ بھر رہے ہیں، اور جہنم میں اپنے حصے کی آگ بھی لے جانے کا سامان کر رہے ہیں۔ سندھ میں بھوک سے بچے مر رہے ہیں، جانوروں کے کھانے کو چارہ نہیں ہے، وہ بھی مر رہے ہیں، بچوں کو دودھ نہیں مل رہا، عورتیں اور بچے بیماریوں کا شکار ہیں، برسوں سے یہاں کبھی مچھر مارنے کا اسپرے نہیں ہوا، کبھی اس کو کام ہی نہیں سمجھا گیا، اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی، اب خیال آ رہا ہے، اسپرے مشینیں خریدی جا رہی ہیں کروڑوں روپے خرچ کر کے سندھ کے 20 اضلاع میں مشینیں آئیں گی۔ کراچی بھی ایک ضلع ہے۔ تین کروڑ آبادی کا شہر، جس کے ایک ضلع کے لیے ایک مشین آئے گی۔ جس سے ڈینگی ختم ہو جائے گا۔ جانے کب نو من تیل ہو گا، اور رادھا ناچے گی۔ انسان تو ان دھوئیں پھینکنے والی مشینوں کے آنے سے پہلے ہی درگور ہو جائیں گے، علاج کا انتظام کیوں نہیں کرتے، لوگوں میں دوائیاں کیوں نہیں تقسیم کرتے، ڈاکٹر اور اسپتالوں کا بندوبست کیوں نہیں کرتے۔ شاید اس میں کوئی کمائی کا چانس نہیں ہے، کون ہے جو وقت گذرنے کے بعد پوچھے گا، کہ یہ مشینیں کب آئیں، کب کب کہاں کہاں اسپرے ہوا، کتنی دوا خرچ ہوئی، سب کچھ دھوئیں میں اڑ جائے گا، اور ساری رقم بھی۔ جیسے کرونا کے زمانے میں ایکسپو سنیٹر میں ایک نمائشی کیمپ لگا کر اربوں روپے کے اخراجات دکھا دیئے گئے۔ انجکشنوں کا حساب کون دیکھے گا، چین پر یہ آفت آئی تو انھوں نے ایسا عظیم الشان اسپتال رات دن میں بنایا کہ دنیا ششدر رہ گئی، قومیں اپنے روئیے سے پہچانی جاتی ہیں۔ اپنے ویژن سے ان کا نام ہوتا ہے، اور اپنے کام سے وہ دنیا میں قائم و دائم رہتی ہیں، ہمارے پاس نہ منصوبہ ہے، نہ کوئی ویژن، نہ کوئی ادارہ، نہ کوئی لیڈر شپ۔ سب کچھ باتیں ہیں، ہوائی باتیں، ہوائی منصوبے، سب خاک میں، ہوا میں اڑ جائیں گے اور ہم پھر ایک نئے سیلاب، نئے زلزلے، نئی آفت یا کوئی کرائے کی جنگ کا انتظار کر رہے ہوں گے کہ کب کوئی ایسا موقع آئے، ہم جھولی پھیلائیں، کشکول اٹھائیں، دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔
٭٭٭
چھوڑنا نہیں بجاتے رہو۔
تم ایک زرد پتے کے مانند ہو۔ موت کے کارندے تمہاری گھات میں لگے ہوئے ہیں۔ تم ایک سفر کا آغاز کر رہے ہو۔ کوئی اور تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ تم جلد ایک شمع بن جاؤ جو تمہاری خامیوں کو جلائے اور خوبیاں روشن کرے تاکہ تمھیں وہ جوان
زندگی میسر آئے جو بڑھاپے اور موت کی زد سے باہر ہے۔
ہماری زندگی کیسے ہی کٹھن حالات و واقعات سے گذرے، ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیئے، اسی لیے مایوسی کو کفر کہا گیا ہے۔ ہماری زندگی میں کیسے ہی اشتعال انگیز واقعات پیش آئیں، جو ہماری روح کو گھائل کر دیں، وہ تاریک رات ہی کی طرح کیوں نہ ہوں۔ لیکن ہمیں یہ امید رکھنی چاہیئے کہ ہر تاریک رات کے بعد ایک روشن صبح نمودار ہونے والی ہے، ہر آنے والا دن ہمارے رب کی طرف سے ایک انعام ہے، ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے۔ اس پر ایسا ایمان و ایقان ہونا چاہیئے، جیسا حضور اکرمﷺ کو تھا، احد کے میدان میں دشمن نے ہر طرح سے آپ پر یلغار کر رکھی تھی۔ لیکن آپﷺ کو اپنے رب پر بھروسہ تھا اور آپ ڈٹ کر کھڑے رہے۔ جب ہم مشکلات میں ہوتے ہیں، اور زندگی کی جد و جہد میں مصروف ہوتے ہیں، تو خدا ہمارے ساتھ ہوتا ہے، اور خدا ہمارے اندر دور کہیں سرگوشیاں کر رہا ہوتا ہے کہ ’’چھوڑنا نہیں۔ کوشش جاری رکھو، تم تنہا نہیں ہو۔ ہم دونوں مل کر ٹوٹے ہوئے لوگوں کی زندگیوں کو بہترین گیتوں میں ڈھال دیں گے۔‘‘ جیسے ایک چھوٹے لڑکے اور پیانو بجانے والے ایک عظیم ماسٹر نے کیا تھا۔
ایک چھوٹا لڑکا پیانو بجانا سیکھ رہا تھا، ایک دن اس کی ماں اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اسے ایک مشہور پیانو ماسٹر کے کنسرٹ میں لے گئی، ہال بھرا ہوا تھا، اس دوران ماں اپنی ایک جاننے والی سے بات چیت میں مصروف ہو گئی، لڑکے کو موقع مل گیا، وہ اسٹیج کی طرف چلا گیا، اور مختلف دروازوں سے گذرتا ایک دروازے کے پاس پہنچا، جہاں لکھا تھا ’اندر آنا منع ہے‘ اس دوران ہال کی روشنیاں مدھم ہو گئیں، کنسرٹ شروع ہونے لگا، ماں اپنی نشست پر آئی تو چھوٹا بچہ وہاں موجود نہیں تھا۔ اچانک اسٹیج کے پردے اٹھنے لگے۔ ماں کی نظر اسٹیج پر پڑی تو اس نے دیکھا، اس کا بچہ پیانو پر بیٹھا، کی بورڈ سے کھیل رہا ہے، اور اپنی پسندیدہ دھن ’ٹونکل ٹونکل لٹل اسٹار‘‘ بجا رہا ہے۔ ٹھیک اسی لمحے مشہور پیانو ماسٹر اسٹیج پر آئے، وہ تیزی سے پیانو کی طرف گئے، اور لڑکے کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ’’چھوڑنا نہیں، بجاتے رہو‘‘ وہ لڑکے پر جھک گیا، پیانو پر اور کی بورڈ پر انگلیاں پھیرنے لگا۔ دونوں نے فضا میں ایک نئی خوب صورت اور دل فریب دھن تخلیق کی کہ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
جب ہم کچھ کرنے کی اپنی سی ٹوٹی پھوٹی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، تو اللہ ہمارا ہاتھ پکڑ لیتا ہے، ہمارے کام میں برکت دیتا ہے، ہمیں ایسا راستہ سجھا دیتا ہے، جس پر کامیابی کھڑی ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
اٹلی میں مقیم 23 سالہ سینیگالی نوجوان خابی لام ٹک ٹاک کا بے تاج بادشاہ ہے۔ اس پلیٹ فارم میں سب سے زیادہ فالورز خابی کے ہیں۔ 155.6 ملین فالورز۔ وہ 13 ملین ڈالر کا مالک ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ خابی حافظ قرآن ہے۔ اس نے 14 سال کی عمر میں قرآنی حفظ کیا تھا۔ خابی لام (پیدائش 9 مارچ 2000) اٹلی میں مقیم سینیگال میں پیدا ہونے والی ایک نہایت مشہور و معروف سوشل میڈیا شخصیت ہے۔ لام اپنی ٹک ٹاک (TikTok) ویڈیوز کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں، جن میں وہ خاموشی سے ان لائف ہیک ویڈیوز کا مذاق اڑاتے ہیں جو حد سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔ شہرت کا تعارف کرانے کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ لام 2022 میں (ٹک ٹاک) پر دوسرا سب سے زیادہ فالو کیا جانے والا شخص ہے۔ خابی 2020 میں ایک عام سا فرد تھا۔ جب کرونا کی وبا پھیلی تو وہ شمالی اٹلی کے ایک قصبے میں فیکٹری ورکر کے طور پر اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ان کے والد نے انھیں دوسری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کو کہا۔ لیکن اس نے Khaby Lame کے نام سے TikTok پر ویڈیوز پوسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2022 میں، وہ ٹک ٹاک پر سب سے زیادہ فالور رکھنے والا شخص بن گیا، 22 سالہ سینیگالی نژاد تخلیق کار، جو اٹلی میں مقیم ہے، سوشل میڈیا ایپ پر دوسرے تخلیق کاروں کی جانب سے متعارف کرائے گئے پیچیدہ ’لائف ہیکس‘ کو توڑنے اور اپنی ویڈیوز کو بڑی آنکھوں سے گھور کر ختم کرنے کے لیے مشہور ہے۔ لیم کی کہانی کا سب سے اہم حصہ یہ ہے: وہ ایک لفظ بھی کہے بغیر اپنے سنکی مزاح کو بیان کرنے اور عالمی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ 2021 میں، لیم نے نیویارک ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ان کے بے معنی، اظہار خیال رد عمل نے انہیں دنیا بھر کے مداحوں کے دلوں تک پہنچنے کا موقع دیا۔ ’’یہ میرا چہرہ اور میرے تاثرات ہیں جو لوگوں کو ہنساتے ہیں‘‘۔ لیم کا کہنا ہے کہ اس کا خاموش رد عمل ایک ’عالمی زبان‘ ہے۔
انسان کو اپنی قسمت کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، لیکن اللہ نے اسے علم، محنت، دانش، قوت عمل، تخلیقی صلاحیتوں سے نواز کر اسے اپنا نائب بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اسے اپنی ان صلاحیتوں سے کام لینا ہے، اور اس امتحان میں پورا اترنا ہے۔ مشکل حالات میں ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیئے، کیا اللہ سے شکوہ اور شکایت ہی میں زندگی گزارنا چاہیئے یا اس میں تبدیلی لانے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہیئے۔ اگر چہ چند ہی افراد ایسے ہیں، جو حالات کو رخ موڑ نے کی کوشش نہیں کرتے، لیکن اپنی زندگی کو بدل دیتے ہیں۔ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم بدترین حالات میں کیسے اپنی زندگی کو زیادہ آسان، زیادہ پرامن اور پر مسرت اور نافع بنا سکتے ہیں۔ ہم اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو کام میں لا کر اپنی ذات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم سے کچھ چھن گیا ہے تو جو کچھ باقی ہے، اس سے کام لے سکتے ہیں۔
٭٭٭
جھوٹی حکومت کا کون اعتبار کرے گا
ایسی جھوٹی حکومت کا کون اعتبار کرے گا۔ جو چند گھنٹوں پہلے تک اس بات کا اعلان کرتی رہے کہ ملک میں پیٹرول کی کوئی قلت نہیں ہے، اور پیٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی جا رہی ہیں، اور چند گھنٹوں کے بعد پٹرول کی قیمت میں ایک دو روپے نہیں یکمشت 35 روپے کا اضافہ کر دے۔ ایک بے اعتبار وزیر خزانہ، جو ڈھٹائی سے اپنی نا اہلی، اور غلطیوں کا بوجھ عوام پر لاد رہا ہے، جو حکومت میں صرف اپنے مقدمات ختم کرانے، اور اپنی دولت کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے، اور عوام کو اللہ سے دعا کرنے کی تبلیغ کرتا ہے۔ مہنگائی کا یہ بم عوام پر کیا قیامت ڈھائے گا، اس کا اندازہ تو ان غربت کے ماروں کو ہو رہا ہے، جو ایک روٹی خریدنے کی سکت سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ بسوں اور عام ٹرانسپورٹ میں لوگ کس طرح کرایہ کا بوجھ برداشت کرتے ہیں، اس کا اندازہ ان پھٹی ہوئی جیبوں سے لگا سکتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں مڑے تڑے چند نوٹ ہوتے ہیں، اور وہ کرائے کے پیسے نہ ہونے پر کنڈیکٹر کی منتیں کر رہے ہوتے ہیں، مہنگائی نے لوگوں کو عزت نفس سے بھی محروم کر دیا ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں۔ رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن، اب یہ دن سب کے سامنے ہے، لیکن قرض کی مے پینے والوں کے منہ، جو حرام لگا ہوا ہے، وہ اسے چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہیں، اقتصادی حوالے سے پاکستان سنگین ترین بحران میں مبتلا ہونے کے باوجود ہماری اشرافیہ اپنے رنگ ڈھنگ بدلنے پر تیار نہیں، سب سے زیادہ لوٹ مار تو سیاست دانوں نے مچائی ہوئی ہے، ایک فوج، ظفر موج ہے، جو عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہے، کوئی پوچھنے والا ہے کہ یہ 76 وزراء، مشیروں، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی پر مشتمل فوج کس کام کی ہے، یہ ملک کے کونسے مسائل حل کر رہے ہیں، کونسی عوامی خدمت کر رہے ہیں، کون کس کے کوٹے پر ہے، اور کیوں ہے؟ یہ سیاست دان جو حکومت کرنا، وزارت میں رہنا، مشیروں کے اختیارات اور پرٹوکول لینا اپنا حق سمجھتے ہیں، ہر ماہ 380 ملین روپے ان کا خرچہ یہ غریب قوم برداشت کر رہی ہے۔ اگر ملک کی معیشت تباہ حال ہے، قرض بڑھ گیا ہے، تو ان مسٹنڈوں کو کیوں پالا پوسا جا رہا ہے، کیوں اتنی بڑی کابینہ اور مشیروں کو رکھا ہوا ہے، کیوں ان کا وظیفہ باندھا ہوا ہے۔
1988 میں ہمارے ماہر اقتصادیات اس وقت کے وزیر خزانہ نے بحران سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک حل یہ نکالا کہ پاکستان کے بینکوں میں فارن اکاؤنٹ میں رکھے ڈالروں پر ڈاکہ ڈالا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک سرمایہ داروں کا اعتماد بحال نہیں ہوا، اور اب وہ اپنے ڈالر بنکوں میں نہیں رکھتے، ڈالر کی تجارت، ایک نفع بخش کاروبار بن گیا، اور سب اس کاروبار سے دولت سمٹنے میں رات دن مصروف ہیں۔ عجب سے بات ہے ہمارے پاس اب کوئی ماہر اقتصادیات ہی نہیں ہے، سرتاج عزیز، اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل، حفیظ پاشا، ڈاکٹر حفیظ شیخ، اسد عمر، ان ہی کو آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں، ان میں سے چند ایسے ہیں، جو ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، اور امریکہ کے پسندیدہ ہیں، جو ان کے مفاد کی پالیسیاں بناتے ہیں، حکومتیں، ان ہی کو وزارت خزانہ سونپنے پر مجبور ہوتی ہیں، یہ عوام کا تیل نچوڑ، ٹیکس لگانے، قیمت بڑھانے، گیس اور تیل کے نرخ بڑھانے، عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کے منصوبہ ساز ہوتے ہیں، عمران خان سے عوام نے بہت امیدیں وابستہ کیں تھیں، اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا کرتے تھے کہ وہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کے بجائے وہ ’خود کشی‘ کو ترجیح دیں گے۔ لیکن انھوں نے خودکشی نہیں کی، لیکن عوام کو خودکشی پر مجبور کر دیا۔ اسد عمر کو وزارت خزانہ کے منصب سے ہٹا کر آئی ایم ایف کے لاڈلے ٹیکنوکریٹ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو لانا پڑا، ڈاکٹر حفیظ شیخ نے منصب سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے معاہدہ پر دستخط کر دئے۔ تمام کڑی شرائط منظور کر لی گئی۔ عمران نے ایک ظلم یہ کیا کہ ملک کی معیشت ایک بنکر کے ہاتھ سونپ دی۔ شوکت ترین اپنے وقت کے ناکام وزیر خزانہ جو آئی ایم ایف کو سمجھ ہی نہ پائے، ہمارے سیاست دانوں کے پاس کوئی ڈھنگ کا ماہر معیشت بھی نہیں ہے۔ لیکن ہماری معیشت کی تباہی میں ان غیر ملکی قرضوں کا ہاتھ ہے، جو مختلف ادوار میں حکومتیں اپنے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے لیتی رہی ہیں۔ عالمی اداروں سے ملنے والی امداد میں حتمی فیصلہ سازی امریکہ ہی کی ہوتی ہے۔ خارجہ امور کی بابت اس کی ترجیحات آئی ایم ایف کے رویے میں نرمی یا سختی کا حقیقی سبب ہوتی ہیں۔ انھیں جمہوری حکومتیں راس نہیں آتی۔ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی فیصلہ سازی کو دیکھنا ہو تو جنرل مشرف کے دور کو دیکھ لیں، ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اکتوبر 1999ء میں اقتدار سنبھالا اور امریکہ کو وہ کچھ دیا جس کا وہ عرصہ سے متمنی رہا تھا۔
ہماری اقتصادی مشکلات کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہماری اشرافیہ اس ڈوبتی کشتی سے بھی اپنا حصہ کشید کر رہی ہے، ہم نے اپنے تمام خرابیوں کو کرپشن سے جوڑ دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ایک قوم کی طرح کفایت شعاری کو اختیار ہی نہیں کیا ہے۔ اگر ایک گھر مشکلات کو شکار ہو تو سب گھر کا سب کی کے افراد کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ پاکستان ڈوب رہا ہے، تو ہماری اشرافیہ کو بھی اپنی عیاشی ختم کرنی چاہیئے۔ سول، فوجی یا عدالتی، حکومتی اہلکاروں کو سہولت یا استحقاق نہیں ہونا چاہیئے۔ اخراجات کو کم کرنے کی کوشش ایک قوم کی طرح کرنی چاہیئے۔ سول اور فوجی اخراجات میں کمی لانے کا فیصلہ کرنا چاہیئے۔ یہ نہ سوچنا چاہیئے کہ ہم کب ڈیفالٹ ہوتے ہیں، ہم اندرونی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں، بس اب اس کا اعلان ہونا باقی ہے۔
٭٭٭
معیشت کے جادوگر
اس دن جوئیلرز اور جم ایسوسی ایشن کراچی کے ایک استقبالیہ میں اسحاق ڈار کو ایک یادداشت پیش کرنی تھی، جس کا ترجمہ کرنے اور اردو میں کمپوزنگ کی ذمہ داری مجھے تفویض کی گئی تھی، بھاگم دوڑ کر کے جب میں یہ یاد داشت تیار کر کے ڈیفنس کلب پہنچا تو اسحاق ڈار و ہاں پہنچ چکے تھے، یہ میاں نواز شریف کا دوسرا دور تھا، جس میں وہ انشورنس کے کاروبار کو کسی نہ کسی طرح نجی شعبہ کو دینا چاہتے تھے، ان پر امریکن لائف کا بہت دباؤ تھا، جس کے سبب اسٹیٹ لائف انشورنس کی بیمہ زندگی پر اجارہ داری ختم کی جا رہی تھی، اور غالباً یہی موقع تھا، جب حکمرانوں کی اسٹیٹ لائف کے لائف فنڈ پر رال ٹپکنا شروع ہوئی، یہ اربوں مالیت کے اثاثے ہیں، لیکن حکومت کے نہیں ہیں، یہ بیمہ داروں کی امانت ہے، لاکھوں یتیم بچے، بیواؤں، اور بیمہ داروں کی یہ امانت آئندہ 20 تیس سال میں انھیں کلیم، میچورٹی کلیم، حادثاتی اور ایڈیمنٹی کلیمز کی صورت میں ادا ہونی ہے۔ وہاں میں نے آبنوسی رنگت والے اس جادوگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو دیکھا، جس نے آنکھوں میں گہرا کاجل بھی لگایا ہوا تھا۔ آنکھوں سے کاجل چرانا اردو محاورہ ہے، اور ہمارے یہ وزیر خزانہ اس ہنر میں یکتا ہیں۔ ایک اکاونٹینٹ ہی کو یہ مہارت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اعداد و شمار سے کھیل سکے، اور وہ اس کھیل میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔ انھیں منصب خزانہ سنبھالے ہوئے، چند روز ہوئے ہیں، اور ڈالر ان کے خوف سے کانپ رہا ہے، روپیہ تگڑا ہو رہا ہے۔ مخالفین شور مچا رہے ہیں، اور نون لیگی نعرے مار رہے ہیں۔ مہنگائی اور بیروز گاری پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار اب تیسرا مسئلہ سیلاب ہے۔ اوپر سے بجلی کی نرخوں میں اضافے، بڑھتی ہوئی غربت، ٹیکسوں کے اضافی بوجھ، روپے کی قدر میں کمی، کرپشن، اقربا پروری، رشوت اور ملاوٹ، بجلی کی لوڈشیڈنگ، قانون اور انصاف کے نفاذ میں امتیازی سلوک، ریاستی اداروں کی ایک دوسرے کے کام میں مداخلت، کورونا کی وباء اور دہشتگردی نے عوام کو پاگل بنا رکھا ہے۔ ماہرین نفسیات سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ ملک میں نفسیاتی مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہر قانون شریف الدین پیرزادہ ضیا الحق کے دور میں قانون و آئین کی موشگافیوں میں یگانہ شہرت رکھتے تھے، اسی لیے انھیں جدہ کا جادوگر کا خطاب دیا گیا تھا، اسحاق ڈار بھی مالیاتی معاملات میں جو ہنر کاری اور فنکاری دکھاتے ہیں، اس کے جوہر بھی کچھ عرصے بعد ہی کھلتے ہیں، انھوں نے سب سے پہلے ڈالر اکاونٹ پر سب خون مارا تھا، اس کا خمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے، بیرون ملک اور پاکستان کے بڑے سرمایہ دار بشمول شریف خاندان اور زرداری، اور ملک کی اشرافیہ، تاجر اور صنعت کار آج بھی پاکستان کے بنکوں میں اپنے ڈالر اکاونٹ میں اپنی جمع پونچی رکھنے پر تیار نہیں ہیں۔ اور اپنا زیادہ سرمایہ باہر ہی کے بنکوں میں محفوظ سمجھتے ہیں۔ 2017 میں شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں نیشنل سیکورٹی کی میٹنگ میں قمر جاوید باجوہ صاحب نے اسحق ڈار سے ایک سوال پوچھا تھا کہ ’’ڈار صاحب فنانشل ایکسپرٹ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بھاری سود پر قرضے لے لیے ہیں، ہم یہ ادا نہیں کر سکیں گے۔‘‘ اور ڈار صاحب اس سوال پر خاموش ہو گئے تھے، ڈار صاحب سے ایک اور سوال بھی کیا گیا تھا۔ ’’کیا انھوں نے ویشپا کمپنی سے جو پاکستان میں دو پلانٹ لگانا چاہتی تھی کوئی کمیشن مانگا تھا۔‘‘ اس بارے میں قمر باجوہ صاحب سے پاکستان میں اٹلی کے سفیر نے شکایت کی تھی۔
یہ سوال اب بھی جواب چاہتے ہیں۔ عوام مہنگائی کے مارے ہیں، پیٹرول کی قیمت میں کمی، اور ڈالر کے ریٹ میں کمی سے کچھ ریلیف مل گیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ سوچ لینا چاہیئے کہ شعبدہ گر ہمیشہ آپ کی آنکھ میں دھول جھونکتا ہے، وہ آپ کی توجہ کسی اہم معاملہ سے ہٹا کر، آپ کو وہ دکھاتا ہے، جو حقیقت نہیں ہوتی۔ لیکن آخر میں بھانڈا پھوٹ جاتا ہے، جو حقیقت ہوتی ہے، وہ سامنے آ جاتی ہے، ملک کے حالات اور دنیا کے معاملات کسی کے آنے جانے سے نہیں بدلتے، اس کے لیے طویل منصوبہ بندی، اخلاص، سچائی، جیسی صفات اور بلند کرداری، بھی درکار ہوتی ہے، جو لوگ جھوٹ بول کر مقدمات سے فرار ہوتے ہوں، منتخب ہونے کے باوجود چار سال تک حلف نہیں اٹھاتے، اور وزیر اعظم کے طیارے میں فرار ہوتے ہوں، چار سال تک بیماریوں کا ڈھونگ رچاتے رہے ہوں، جھوٹ بول کر عوام کو بیوقوف بناتے ہوں، جعلی اعداد و شمار بنا کر معیشت کو ڈبوتے ہوں، عوام کو سبز باغ دکھاتے ہوں، وہ چند دن میں ملک میں کوئی انقلاب برپا نہیں کر سکتے۔ ایسے جادوگروں سے اللہ بچائے۔
٭٭٭
پی ڈی ایم حکومت کا ایک سال
زندگی میں ہمیں بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی برا سلوک ہو رہا ہے، ہمیں وہ انعام اور اعزاز نہیں مل رہا، جس کے ہم حقدار ہیں، ہمیں دھکے دیئے جا رہے ہیں، لوگ ہمیں پاؤں تلے روند ڈالا رہے ہیں۔ ہم محض بے کار اور کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتے۔ ایک مقرر نے ہال میں تقریر کرنے سے پہلے اپنے پرس سے ایک ہزار کا نوٹ نکالا، اس نے نوٹ کو لہراتے ہوئے اپنے سامعین سے سوال کیا، یہ کیا ہے؟ ایک ہزار کا نوٹ۔ ہال سے کئی آوازیں ابھریں، اس نے سوال کیا کہ کیا اس کی کوئی قدر و قیمت ہے۔ سب نے جواب دیا۔ ہاں، بازار میں اس سے ہزار روپے مالیت کی چیزیں خریدی جا سکتی ہیں۔ مقرر نے اس ہزار کے نوٹ کو ہاتھوں سے مل دیا، مڑ تڑا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھا، اور وہ پوچھ رہا تھا کہ کیا اب بھی اس کی کوئی قیمت ہے۔ سب نے جواب دیا۔ ہاں اس کی قیمت ایک ہزار روپے ہی ہے، مقرر نے وہ مڑا تڑا نوٹ زمین پر گرا دیا اور اس پر اپنے جوتے سے کئی ضرب لگائیں، اور پھر پوچھا کیا اب بھی اس کی کوئی قدر و قیمت ہے۔ لوگوں نے جواب دیا ہاں یہ ہزار روپے کا نوٹ ہے، اور اس کی وہی قدر و قیمت ہے۔ اب مقرر نے کہنا شروع کیا ’’دوستو میں نے اس نوٹ کو حلیہ بگاڑ دیا، اسے موڑ توڑ کر رکھ دیا، اسے مسل دیا، اس پر جوتے سے کچوکے لگا دیئے، لیکن یہ پھر بھی اپنی قدر و قیمت رکھتا ہے، اس بدسلوکی نے اس کی قدر و قیمت کو نہیں گھٹایا، وہ تو وہی رہی، جو پہلے تھی، اس نے ایک گہری سانس لی، اور کہا زندگی میں ہمیں یہی لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، اس میں ہماری کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ لیکن آپ کی جو قیمت ہے، اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔‘‘
عمران خان کو بھی نہیں بھولنا چاہیئے، کہ اس کے ساتھ جو بد سلوکی ہو رہی ہے، اسے عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے، اسے پنجرے میں قید کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس پر الزامات گھڑے جا رہے ہیں، اسے ڈرایا جا رہا ہے، اس کی جان لینے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، اس کا راستہ روکا جا رہا ہے تو اس سے عمران خان کی قدر و قیمت پر کوئی فرق نہیں پڑا، وہ ایک ہیرے کی قیمت رکھتا ہے، اور وہ ایک ہیرا ہی ہے، جسے جتنا چاہے کیچڑ اور گندگی میں دھکیل دو، لیکن ذرا سا پانی، اسے صاف و شفاف ہیرے کی مانند جگمگ جگمگ کرتا، لشکارے مارتا، سامنے لے آئے گا۔
آج پی ڈی ایم کی حکومت کو پورا ایک سال ہو گیا ہے، جو پی ٹی آئی کی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے تھے، ، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے تھے، اب وہ ووٹ کے ڈبوں سے خوفزدہ ہیں، انھوں نے ایک سال میں جو تباہی پھیری ہے، معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے، عوام کو بھوک، مہنگائی، گیس بجلی سے محرومی کا جو تحفہ دیا ہے، آٹے پر لائین لگوائی ہیں، پیٹرول کی کمائی سے اللے تھللے کر رہے ہیں، تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ وزیروں مشیروں کی فوج لیے بیٹھے ہیں، آئین جو اس ملک کو جوڑے ہوئے ہیں، اب اس آئین کے درپے ہیں، یہ اعزاز مسلم لیگ کو سزاوار ہے کہ اس نے اپنے ہر دور حکومت میں اداروں سے جنگ کی ہے، کبھی فوج سے کبھی عدلیہ سے، آج بھی پارلیمنٹ کو عدلیہ کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سال پہلے، نو اپریل 2022 کو جس طرح عمران خان کی حکومت کو ختم کیا گیا، رات کو عدالت کے دروازے کھولے گئے، مارشل لاء آنے کا ڈراوا دیا گیا، وہ پوری قوم کے لیے ایک ڈراونا خواب ہے، اگر عمران خان کو اس طرح میدان سے باہر نہ کیا گیا ہوتا تو عوام آنے والے انتخاب میں اس کے بارے میں خود فیصلہ کر دیتے۔ آرمی چیف کی تعیناتی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات پر پورے ملک اور قوم کو جس آزمائش سے دوچار کیا گیا ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ آج چیف جسٹس سے استعفیٰ کا غیر آئینی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت معاشی میدان میں بہتری اور نئے انتخابات کرانے کے لیے وجود میں آئی تھی، اس کی نا اہلی کی اس سے زیادہ بدترین مثال کیا ہو گی کہ آج ایک سال بعد بھی یہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ڈالر کی اڑان اونچی ہو رہی ہے، ملک میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی، اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی تحلیل ہوئے، مدت گزر گئی لیکن 90 روز میں انتخابات کا انعقاد اب بھی جنرل ضیا کے وعدے کی طرح حقیقت سے بہت دور ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ 2023 ملک میں عام انتخابات کا سال ہے۔ لیکن اب جس طرح سے قبائلی علاقوں میں آپریشن کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ انتخابات کے بجائے ملک میں نئے سرے سے خون خرابے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے، تاکہ عوام کی توجہ انتخابات سے ہٹ جائے۔ حکمران اتحاد کی پالیسیوں نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا ہے، اب حکومت کے پاس ایسی کوئی پالیسی نہیں جس کی بنیاد پر وہ ووٹرز کا سامنا کر سکے۔ اس ملک میں بار بار تجربات کرنے اور من پسندیدہ نتائج کی متمنی نادیدہ قوتوں کو صاف نظر آ رہا ہے کہ انتخابات میں عمران خان کو کامیابی ملے گی۔ ان قوتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ عوام کو اپنے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے دیں۔ مسلم لیگ نے اپنا ووٹ بنک اپنی حماقت سے کھو دیا ہے۔ عدلیہ سے تازہ محاذ آرائی اسے آئندہ چل کر بہت مہنگی پڑے گی۔
پاکستان میں ایک جماعت اسلامی سے عوام کو بہت امیدیں ہیں، لیکن جماعت اسلامی کو ٹیک آف کرنے کے لیے جس حکمت عملی، ویژن، کشا کش، اور سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے تھا، وہ اس سے دور ہے، یا اسے جان بوجھ کر دور رکھا جا رہا ہے، ایک بہترین پروڈکٹ، دیانت دار اور امانت دار قیادت کے ہوتے ہوئے، جماعت اسلامی کوئی واضح اور دو ٹوک موقف اپنانے اور اپنے سیاسی قوت کو میدان میں لانے سے قاصر رہی ہے۔ اس کی اس پالیسی کا فائدہ، پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم کو ہوا ہے، وہ پی ٹی آئی، اور پی ڈی ایم دونوں کو ایک ہی سانس میں ناکام کہتے ہیں۔ لیکن ایک حکومت میں ہے اور دوسری اپوزیشن میں۔ دونوں میں واضح فرق ہے، ایک اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی ہے، اور دوسری اس سے نبرد آزما۔ انھیں اپنا وزن سوچ سمجھ کر کسی پلڑے میں ڈالنا چاہیئے۔ زلزلہ سیلاب، آفات میں عوام کی مدد اور خدمت نے عوام کا جماعت سے تعارف تو کرایا ہے، لیکن اسے ووٹوں میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہے،
جماعت اسلامی ضرور کسی سے اتحاد کیے بغیر اپنے پلیٹ فارم، اپنے جھنڈے اور اپنے نشان ترازو پر الیکشن میں لڑے لیکن اسے سیاسی حکمت عملی اور مقامی سطح پر ’لو اور دو‘ کے اصول پر کسی نہ کسی کا تو ساتھ دینا ہو گا۔
٭٭٭
سیاست تشدد کی جانب بڑھ رہی ہے
پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر پر تھپڑ مکے بال کھینچنے کے پر تشدد مناظر آج پوری قوم نے دیکھے ہیں۔ یہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ پاکستانی سیاست دن بدن تیزی سے تشدد کی جانب بڑھ رہی ہے۔ روز ایسے واقعات کی ویڈیوز سامنے آتی ہے، جس میں ہم عوام اور سیاست دان برداشت کی حدوں کو پھلانگ کر ایک دوسرے پر دشنام درازی کرتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے میں عوام کی بڑی تعداد نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس کے فوراً بعد بیت الحمزہ پر پی ٹی آئی کے ورکرز کی جانب سے چڑھائی اور اس پر عمران خان کی چاکنگ کی وڈیوز سامنے آئیں۔ جواب میں ایم کیو ایم حقیقی کی جانب سے ان کے دفتر اور جھنڈوں پر جوابی وار ہوا۔ اسی طرح کا واقعہ ملتان میں پیش آیا کہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کی ریلیاں آمنے سامنے آ گئیں بیرون ملک احتجاج میں بھی پاکستانی ایک دوسری پارٹی کی۔ حمایت میں لڑ پڑے۔ میریٹ ہوٹل والا واقعہ تو سب نے سوشل میڈیا پر بار بار دیکھا ہے۔ اس جنگ میں صحافی بھی شریک ہیں، نصراللہ ملک کو کوریج کے در میان جس طرے پی ٹی آئی ورکرز کرنے گھیر ہوا تھا۔ اور مطیع اللہ جان جس جارحانہ انداز سے پی ٹی آئی کے لیڈروں کا پیچھا کرتے ہیں۔ وہ مناظر سب دیکھ رہے ہیں۔ ایک فوری حاضر سروس میجر پر سعد رفیق کے بھائی نے اپنے گارڈز کے ذریعے جو تشدد کیا ہے، اس کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر ہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، اور دیگر مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کو پی ٹی آئی ورکرز نے گھیرا اور ان کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ مناظر بھی ہماری سیاست کے انحطاط کا اظہار ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس طرح طوفان بد تمیزی برپا ہے، وہ بھی ہماری عدم برداشت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اور اس کا سہرا تو ہمارے لیڈروں کو جاتا ہے، جنہوں نے اس کا آغاز اپنے جلسوں جلوسوں میں تقریروں میں ایک دوسرے کے خلاف تضحیک آمیز جملوں سے کیا ہے۔ بلاشبہ اس میں عمران خان سب سے آگے ہیں، انھوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے جس لب و لہجہ کا
استعمال کیا، سیاسی رہنماؤں کو جن القابات سے نوازا، وہ اب زبان زد عام ہیں۔ جب پارلیمینٹ کا اسپیکر ویڈیو میں گالی دیتا سنائی دے۔ تو پھر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی محفلوں میں کیا کچھ نہیں کہا جا رہا ہو گا۔ ماضی میں ایسے بہت سے واقعات ہیں، جن میں ایک دوسرے پر الزام اور گالی گلوچ نے ایسی صورت حال اختیار کی کہ بہت سے ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ موجودہ حالات میں بلاول بھٹو اعتدال کی راہ پر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی تقاریر میں ہمیشہ شائستگی کا مظاہرہ کیا۔ اور اپنی مسکراتی تصویر کو دوام بخشا ہے۔ دوسری جانب ہم نے پارلیمانی روایات کا بھی جنازہ نکال دیا ہے، تحریک عدم اعتماد میں ووٹنگ میں اسپیکرز، ڈپٹی اسپیکر کا اجلاس کو کنڈیکیٹ نہ کرنا، پارلیمانی روایات کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر صدر مملکت نے بھی اپنے عہدے کا پاس نہیں کیا۔ انھیں پارلیمانی روایات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ اس بات پر بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ میاں شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب میں بیک وقت صدر عارف علوی، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، کی غیر موجودگی کی وجوہات کیا تھیں۔ سیاست میں مصنوعی شجر کاری برگ و بار نہیں لاتی۔ محکمہ زراعت جب بھی ہے موسم شجر کاری کرتا ہے، اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ موجودہ سیاسی حالات میں تبدیلی جس انداز سے ہوئی، اس نے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد احتجاج کر رہی ہے۔ گو بظاہر منصوبہ ساز کامیاب نظر آتے ہیں۔ انھوں نے اپنے سارے پتے بہت اچھے انداز میں کھیلے، سارے مہرے ان کے قبضے میں آخر تک رہے، آئین اور قانون کے تمام تقاضے بھی پورے کیے گئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس بات کا اندازہ نہ کر پائے کہ عوام کی اتنی بڑی تعداد اس تبدیلی کے خلاف سراپا احتجاج ہو گی۔ بس یہی منصوبہ سازوں کی سنگین غلطی ہے۔ عوام کا احتجاج بہت سے منصوبوں کو غارت کر سکتا ہے، بے نظیر بھٹو نے ایک انتخاب کو ’انجینئررڈ‘ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان میں ہونے والے سارے انتخابات ’انجینریک‘ کا شاہکار ہیں۔ ایک انجینئر منصوبہ ساز اگر منصوبہ بناتے وقت فطرت کے تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھے تو دیر بدیر اسے اپنے تخلیقی شاہکار کی تباہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ تجربہ ہم نے عمران خان کو لا کر بھی کیا، اور اب اسے رخصت کر کے بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے محکمہ زراعت نے مصنوعی فصلوں کی کاشت کے چکر میں اپنی بہت اچھی فصلوں کو تباہ و برباد کیا ہے، جس کا نقصان پاکستان اور اس کی عوام کو اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان کی محب وطن، قومی سیاسی جماعتوں کو ایک منصوبے کے تحت ٹھکانے لگایا گیا۔ جماعت اسلامی جیسی محب وطن، آئین اور حق کے ساتھ کھڑی ہونے والی جماعت کو دانستہ منظر سے ہٹایا گیا اے این پی کو ختم کر دیا گیا، مسلم لیگ
کے حصے بخرے کر دیئے، پیپلز پارٹی کو حقیقی قیادت سے محروم کر دیا گیا اور ایک قومی جماعت کو تراش خراش کر ایک صوبے تک محدود کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک قومی سیاسی جماعت بنانے میں ناکام رہے۔ علاقائی، لسانی، فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ ملا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں محکمہ زراعت چار سیاسی جماعتوں کی قیادت کی تبدیلی کے اشارے دیئے۔ ان میں پیپلز پارٹی مائنس آصف علی زرداری، ایم کیو ایم مائنس الطاف حسین، جماعت اسلامی مائنس منور حسن، مسلم لیگ مائنس نواز شریف کا فارمولہ دیا گیا۔ جماعت اسلامی میں تو یہ تبدیلی پارٹی انتخابات کے نتیجے میں انجام پائی، آصف زرداری نے اس پر ذرا بہادری دکھاتے ہوئے کہ ’’ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ یہ بیان دے کر انھیں دبئی میں پناہ لینی پڑی۔ اور معافی تلافی کر کے جان چھٹی اور پھر انھیں پسپائی اختیار کرتے ہوئے، قیادت بلاول بھٹو کے حوالے کرتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین نے بھی مزاحمت کی، راتوں کو اچانک کارکنوں کو نائین زیرو بلا کر، چینل پر لائیو فوج کے جرنیلوں کو برا بھلا کہا لیکن بالآخر انھیں بھی ہیرو سے زیرو کا سفر کرنا پڑا۔ آج ایم کیو ایم کی ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ نشانہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ واویلا اور شور میں نواز شریف نے ڈالا۔ وہ وزیر اعظم تھے، انھیں کسی صورت یہ بات قابل قبول نہ تھی کہ وہ وزیر اعظم کا منصب چھوڑ دیں۔ اور اس کے لیے پارٹی سے کسی اور فرد یا شہباز شریف کو آگے لے آئیں۔ انھوں نے مجھے کیوں نکالا کار رولا ڈال کر سیاپا کیا۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا۔ انھیں ’سو جوتے اور سو پیاز‘ کھانے کے بعد آج اس فیصلے کو قبول کرنا پڑا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کا ساڑھے تین سال کا دور اس وقت شروع ہوا، جب سب ’ایک پیج‘ پر تھے۔ بی بی سی کے آصف فاروقی نے 2018 میں ایک انٹر ویو کیا، جس میں عمران خان نے کہا کہ ان کے پاس حکومت کے لیے افراد تیار نہیں تھے۔ بعد میں انھوں نے انٹر ویو میں سے اس حصے کو نکلوانے کی کوشش کی۔ یہیں سے آصف فاروقی اور عمران خان میں تصادم شروع ہوا۔ اور اس کا انجام 10 اپر یل کی وہ رپورٹ ہے، جو بنی گالا میں ہیلی کاپٹر اترنے کی داستان پر مبنی ہے۔ عمران خان واقعی حادثاتی طور پر آئے تھے یا لائے گئے تھے۔ اس پر حتمی رائے تو نہیں دی جا سکتی لیکن ان کے ساتھیوں نے ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ عامر کیانی کا نام دواؤں کی قیمت بڑھانے والے اسکینڈل میں شامل ہے، غلام سرور گیس پیٹرول اسکینڈل، زلفی بخاری رنگ روڈ اسکینڈل، علی زیدی پورٹ اینڈ شیک، خسرو بختیار چینی اسکینڈل، علیمہ خان کے اربوں روپے کے کاروبار، پنجاب میں بزدار کی نا اہل حکومت، اسٹیٹ بنک کو آئی ایم ایف کے حوالے کر دینے کے باوجود اور آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کے قرض لینے کے باوجود عمران خان لائے گئے تھے، ان کے ساتھی بار بار اس کا اعتراف کرتے تھے کہ انھیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔ آئی ایس آئی چیف، اور کور کمانڈر پشاور کی تقرری کا وقت آیا اور چیف آف اسٹاف کی ریٹائر منٹ اور ان کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ سامنے آیا۔ عمران خان اس فائل کو ٹالتے رہے۔ جب کبھی ان سے پوچھا جاتا تو وہ کہتے کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے۔ ان کی ہمدردی پشاور والوں سے جڑی تھی، اور ان کو ’’فیض کا چشمہ‘‘ وہیں سے بہتا نظر آ رہا تھا۔ گذشتہ چار ماہ میں اس کھیل میں بہت سے پرانے اور نئے کھلاڑی شامل ہوئے، کپتان کو سیاست کے اس کھیل کی سمجھ بہت دیر میں آئی، اس وقت تک پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا، بیرونی طاقت خصوصاً امریکہ کا ہماری سیاست میں عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے، امریکہ ہماری فوج کی تربیت اور اسلحہ کی فراہمی میں بھی بہت حصہ رکھتا ہے، افغانستان کی جنگ، پھر ’وار اینڈ ٹیرر‘ اتحادی فوجوں کی سپلائی لائین کے طور پر بھی ہمارا امریکہ سے بہت گہرا رابطہ رہا ہے۔ عوامی سیٹ پر ’گو امریکہ گو‘ کی مہم بھی ان تعلقات کو کم نہ کر سکی۔ موجودہ حالات میں امریکہ کی دیدہ دلیری اس قدر بڑھ گئی کہ اس نے عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے تمام سفارتی حدود کر پائمال کر دیا۔ بس یہی ایک تنکہ ڈوبتے کے ہاتھ آیا۔ اور اس خط پر انھوں نے ایسی ہی جنگ لڑی جیسی نواز شریف نے قطری شہزادے کے خط کے ذریعے اپنی حکومت کو بچانے کے لیے لڑی تھی۔ اب عمران خان سڑکوں پر ہیں اور عوامی جلسوں میں پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ’میرا جرم کیا ہے‘۔
پاکستان کی سیاست میں نہ کوئی آئین ہے، نہ کوئی قانون، نہ ہی ہماری عدلیہ اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ ایسی ہیں کہ ان کے ماضی کی درخشندہ روایات ہوں، اس لیے ایک بے یقینی کی صورت حال ہے۔ اور لوگ کسی اچھی بات پر بھی مشکل ہی سے یقین کرتے ہیں۔ ہمیں تو ہر آن بس کہانیاں درکار ہیں۔ نئی نئی کہانیاں جن سے ہم اپنا دل بہلا سکیں۔
٭٭٭
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان کی گرفتاری ہے۔ اگر عمران خان توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہو جاتے ہیں، تو ملک کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ملک میں ایک تماشہ لگا ہوا ہے، اور پی ڈی ایم اے کی حکومت جس طرح ملکی معاملات چلا رہی ہے، اس سے پورے ملک میں بے چینی اور بد دلی پائی جا رہی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو آکسیجن ٹینٹ میں رکھا ہوا ہے، اور جان بوجھ کر آئی ایم ایف سے معاملات کو الجھایا جا رہا ہے۔
روز کی بنیاد پر ایک نیا تماشہ شروع ہوتا ہے، اور پھر اس پر شور شرابہ کیا جاتا ہے، روزانہ درجنوں پریس کانفرنس ہوتی ہیں، براہ راست ٹی وی پر آ کر الزامات لگائے جاتے ہیں، بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے۔ شام کو ٹاک شو میں بھی ان ہی موضوعات پر بات ہوتی ہے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ انانیت کی یہ جنگ اس ملک کو کہاں لے جا رہی ہے۔ اتوار کو بھی سارا دن یہی ڈرامہ جاری رہا۔ اسلام آباد کی پولیس لاہور عمران خان کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرنے پہنچی، پولیس کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ عمران خان اپنی رہائش گاہ پر موجود نہیں ہیں۔ اور اب ’قانونی کار روائی کی راہ میں غلط بیانی سے کام لینے پر شبلی فراز کے خلاف کار روائی کی جائے گی۔ ‘
اٹھائیس فروری کو توشہ خانہ کیس میں عدم پیشی پر ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد ظفر اقبال نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ عمران خان کو اس وقت 74 کیسز کا سامنا ہے، انسانی طور پر سب میں عدالت کے سامنے پیش ہونا ممکن نہیں۔ ‘ اگر عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش میں یہ حد سے آگے بڑھے تو پورے پاکستان میں احتجاج کی کال دیں گے۔
اس وقت ملکی معیشت جس طرح تباہ حال ہے، اس کو بحال کرنے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی، کل اسحاق ڈار نے جو پریس کانفرنس کی وہ ایک ناکام وزیر خزانہ کی صرف الزامات پر مبنی پریس کانفرنس تھی۔ ایک سال کا عرصہ موجودہ حکومت کو ہو گیا، لیکن وہ اب بھی معیشت کی بے حالی کا سارا الزام عمران خان کی بیڈ گورنس پر ڈال رہی ہے۔ ان کے پاس کہنے کو صرف یہی رہ گیا ہے کہ ’عمران خان کی حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا، ایسا لگتا تھا کہ عمران خان پاکستان ڈبو دے گا۔‘ ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبروں پر اسحاق ڈار کے منہ سے کف نکل رہے تھے، انھوں نے کہا کہ انہوں نے ڈیفالٹ ڈیفالٹ کی رٹ لگائی ہوئی ہے، ’’پاکستان نہ ڈیفالٹ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔‘‘ اسحاق ڈار نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ان کے لانے والوں نے کہا اگر یہ رہ جاتے تو پاکستان کیلئے خطرے سے خالی نہ تھا، یہاں تک کہنا تھا کہ پاکستان خدا نخواستہ ٹوٹ جاتا۔‘‘ اب یہ لانے والے موجودہ حکومت سے بھی تنگ ہیں، 1972 سے 1922 تک آرمی چیف بننے والے دس جرنیلوں میں سے پانچ کی تقرری نواز شریف نے بحیثیت وزیر اعظم کی ہے، ہمیشہ سینارٹی و اہلیت کو نظر انداز کر کے ہمیشہ ’اپنا بندہ‘ پونے کا معیار سامنے رکھا، اس کے باوجود وہ کسی ایک سے نباہ نہ کر سکے، 2016 میں میاں نواز شریف نے اسی معیار کی بنیاد پر ساتویں نمبر والے قمر جاوید باجوہ کو نامزد کیا۔ جس نے انھیں پنامہ کیس میں کوئی رعایت نہ دی۔ آج پھر مریم نواز موجودہ آرمی قیادت پر کھلے عام الزامات لگا رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کو بار بار سیاست میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف جن کے بارے میں دعوی تھے کہ وہ ملک کو صحیح خطوط پر ڈال کر ملک کی معیشت بحال کر دیں گے، اب ان کی قابلیت اور اہلیت کہاں ہے، انھیں تختیاں لگانے، غیر ملکی دورے کرنے، اور اجلاسوں کی صدارت کرنے، اور جھوٹے دعوی کرنے کے علاوہ اور کیا کام ہے۔ ملک میں مراعات یافتہ طبقہ کے الاونس، رعایت ختم کرتے ہوئے، انھیں تکلیف ہوتی ہے، دس بارہ لاکھ روپے پنشن پانے والوں سے انھیں ہمدردی ہے۔ انھیں گاڑی، سکیورٹی، رہائش، کوڑیوں کے مول کروڑوں کے پلاٹ، ٹول ٹیکس کی معافی، گالف، بہترین ملکی و غیرملکی طبی سہولتوں کس لیے دی گئی ہیں۔
اسحاق ڈار کب تک اس ملک کی معیشت سے کھیلتے رہیں گے، ان کی قابلیت کیا ہے، علاوہ ’سمدھی‘ ہونے کے، ماضی میں انھوں نے کونسے کارنامے انجام دیئے ہیں، سوائے معیشت کی تباہی کے۔ وفاقی کابینہ نے ملک میں معاشی بحران کے خاتمے کے لیے کفایت شعاری سے متعلق جو فیصلے کیے وہ اس ملک کے 22 کروڑ عوام کے ساتھ ایک مذاق ہیں۔ جون 2024 تک نئی سرکاری گاڑیاں خریدنے پر پابندی ہو عائد کرنے والے یہ بتائیں گے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد کتنی گاڑیاں خریدی گئی، اور کیوں خریدی گئیں۔ گاڑیوں کا الاؤنس وصول کرنے والے سرکاری افسران کو گاڑیاں نہیں دی جائیں گی۔ لیکن کونسے قانون کے تحت انھیں یہ رعایت دی گئی تھی کہ وہ الاونس بھی لیں اور سرکاری گاڑیاں بھی استعمال کریں۔ وزرا بیرون ملک دوروں کے لیے جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کریں گے جب کہ بیرون ملک فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام پر بھی پابندی ہو گی۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک مشکل میں ہے تو یہ دورے کیوں کیے جا رہے ہیں، اور ان سے اس ملک کے کونسے مسائل حل ہو رہے ہیں۔ جہاں اخراجات کم کرنے ہیں، وہاں فیصلہ کرنے سے ان کے پر جلنے لگتے ہیں۔ یہاں وزیر اعظم شہباز شریف اتنا ہی کہہ کر رہ گئے کہ ’’فوج کے غیر جنگی اخراجات میں کمی کے حوالے سے فوج سے بات ہوئی ہے وہ جلد خود اس کا اعلان کرے گی۔‘‘ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کو کو مختصر کیے جانے سے متعلق سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ اس بارے میں جلد خوش خبری سنائی جائے گی، تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ کابینہ کم خرچ میں عوام کی خدمت کرے گی۔ وزیر اعظم نے ’توانائی بچت پلان‘ سرکاری تقریبات میں ون ڈش پالیسی ’’سرکاری اجلاسوں میں صرف چائے اور بسکٹس’’ سے حکومت سالانہ 200 ارب روپے کی بچت کر سکے گی۔ یہ سارے اقدامات نمائشی اور اس قوم سے مذاق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت اقتدار سے چمٹ کر عوام کی ہڈیوں کو بھنبھوڑ رہی ہے، اور ان کے جسموں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ رہی ہے۔ یہ اس فقیر کی طرح سے ہیں، جسے حلوہ کھانے کا شوق تھا، اور قسمت سے اسے بادشاہت مل گئی تھی۔ لیکن جب پڑوسی ملک کی فوج نے حملہ کیا تو اس فقیر نے پوری قوم کو حلوہ بنانے اور حلوہ کھانے پر لگا دیا یہاں تک کہ دشمن فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا، اور بادشاہ نے اپنی فقیری گدڑی اٹھائی اور یہ کہتا ہوا چل دیا کہ ہمیں بادشاہت اور حکومت سے کیا کام۔ ملک پر مصیبت اور تباہی آنے پر یہ بھی پتلی گلی سے ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے، بھگتنا تو اس ملک کے غریب عوام ہی کو ہو گا۔
٭٭٭
بچوں کا تحفظ ضروری ہے؟
میرا ایک دوست ایک بار اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے کہیں منہ کالا کر کے آیا تھا۔ نوعمری میں اس طرح کے واقعات میں سنسی خیزی اور تجسس فطرت کا تقاضا ہے، میں نے بھی اس سے کچھ پوچھا، اس نے کہا کہ وہ لڑکی بہت گھبرائی ہوئی تھی، دو تین دوست تھے، وہ پسینے میں شرابور تھی، اور منت کر رہی تھی، اسے چھوڑ دیا جائے۔ جانے کسی مجبوری نے اسے اپنے جسم کا سودا کرنے پر مجبور کیا ہو گا۔ مجھے آج بھی اس کے الفاظ یاد آتے ہیں تو میں لرز جاتا ہوں۔ میرا اسکول حیدرآباد کے اس علاقے میں تھا، جہاں رات کو راگ رنگ کی محفلیں سجتی، اور گلیوں میں جسموں کے بیوپاری اور سوداگر گھومتے تھے۔ ہم ان گلیوں سے گزرتے ان خواتین کے چہرے دیکھتے، مجھے ان کی مجبوریوں پر ہمیشہ ترس آیا، اور اس کاروبار سے ہمیشہ ایک نفرت میرے دل میں قائم رہی۔
یہ تو مجبوری کا سودا، اور کاروبار ہے، جو اب مخصوص علاقوں سے نکل کر ہمارے پورے معاشرے میں پھیل گیا ہے، اب سڑکوں کے کنارے، چوراہوں، شاپنگ مال میں رات ہو یا دن یہ کاروبار جاری ہے، لیکن اس کاروبار نے اس معاشرے میں زہر گھول دیا ہے۔ اب ہمارے بچے گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہے۔ ہر وقت ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے، آپ کو اس بارے میں آگاہ ہونا چاہیئے، اس کی روک تھام کے لیے کوئی فائر وال بنانی چاہیئے، ویڈیوز اور موبائیل پر کڑی نظر رکھنی چاہیئے۔
دو تین دن سے میں ایک اضطراب کا شکار ہوں۔ ایک خوف، ایک واہمہ میرا پیچھا کرتا ہے، تین چار دن پہلے ایک خبر پڑھی کہ ایک لڑکی کو تمام رات 20 افراد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر وہ لڑکی دم توڑ گئی۔ یہ خبر کوئی بڑی سرخی، بڑی ہیڈ لائن، بڑا سانحہ گ، اور بڑے واقعہ کے طور پر میڈیا میں نہ سنائی دی اور نہ دکھائی گئی۔ کوئی بے وسیلہ، مانگنے والے، فٹ پاتھ پر بے آسرا ہو گی، جس کی آواز کسی کو سنائی نہ دی۔ لیکن اس واقعے کی سفاکی، بے دردی، ظلم نے مجھے شدید دکھ میں مبتلا کر دیا، آج ایک بڑے اخبار کے صفحہ اول پر ایسی ہی ہولناک خبر چند سطر میں پڑھی۔ محمود آباد تھانے کی حدود میں ایک کالونی میں گھر کی سیڑھیوں سے 10 سالہ بچی کی لاش ملی ہے، بچی کو ڈوپٹے سے پھندا لگا کر قتل کیا گیا تھا، یہ بچی دوپہر میں اپنے گھر میں بالائی فلور پر رہائش پذیر ملازم کو کھانا دینے گئی تھی، آدھے گھنٹے تک جب وہ واپس نہیں آئی تو گھر والے اسے دیکھنے اوپر گئے تو سیڑھیوں پر بچی کی لاش پڑی تھی، ملزم نے بتایا کہ کا بچی جب اسے کھانا دینے کے لئیے آئی تو اس نے بچی سے زبردستی کی کوشش کی جس پر بچی نے چیخنا شروع کر دیا جس پر ملزم نے دروازہ بند کر کے بچی کے دوپٹہ سے ہی گلا دبا کر قتل کر دیا۔ ملزم نے بچی کو قتل کرنے کے بعد ہوس کا نشانہ بنایا۔
پاکستان میں بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال 92 سے زیادہ بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔
بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات کے اعداد شمار ہمارے یہاں کہیں ریکارڈ نہیں کیے جاتے، کچھ این جی او اس بارے میں کام کرتی ہیں، اور ہر سال اس کی رپورٹ جاری کرتے ہیں، اس این جی او کی رپورٹ کے مطابق ملک میں سنہ 2021 میں بچوں سے جنسی تشدد کے کل 3852 کیسز سامنے آئے ہیں ان میں سے 2275 واقعات ریپ کے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ‘بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات 30 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ جن میں بچوں سے ریپ جنسی تشدد، غیر اخلاقی ویڈیوز، 87 واقعات میں ریپ کے بعد قتل جبکہ 68 واقعات میں بچوں کے قریبی رشتے دار ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کا تحفظ درکار ہے، ہمیں انھیں ان واقعات سے آگاہ کرنے، انھیں یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ کوئی انھیں بری نیت سے ہاتھ لگائے تو وہ کسی طرح اپنا دفاع کریں، ہمارے قانون کو بھی اس بارے میں حرکت میں آنا چاہیئے۔ معاشرے میں سفاکیت بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ حرص اور ہوس میں اندھے ہو رہے ہیں۔ ہمیں یہ کام مل جل کر کرنا ہو گا، والدین کو بچوں پر کڑی نظر رکھنی ہو گی، انھیں باہر جانے اور اکیلے جانے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ کام ایسا ہے جو توجہ چاہتا ہے، ذرا اپنی مصروفیت سے وقت نکالیں، معاشرے کو سدھارنے کا کام آپ نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ ہمیں اپنے بچوں کا تحفظ کرنا ہی ہو گا۔
٭٭٭
ایک اور دھرنے کا سامنا ہے
ہماری تاریخ میں یوم سیاہ بڑھتے جا رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ کلینڈر پر اتنے سیاہ دھبے نظر آئیں، کہ ہمیں پورا کلینڈر ہی سیاہ نظر آنے لگے، ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ ہمیں پچھلے سانحے بھلا دیتا ہے، 12 مئی کا سانحہ کراچی میں ایک فوجی آمر کی طاقت کا مظاہرہ تھا، ایم کیو ایم نے اس دن اس فوجی آمر کا بھرپور ساتھ دیا اور پورے کراچی کو خون میں نہلا دیا۔ ہم اس سانحے کو نہیں بھولے، لیکن اب مئی کے ماہ میں ہمیں ایک اور سیاہ دن 9 مئی کو منانا ہو گا، اس دن ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے کارکن ہماری پاک فوج کے ہیڈ کواٹر، جی ایچ کیو پر اور لاہور میں کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کرتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں، آگ لگاتے ہیں، پی ٹی آئی کے پر تشدد مظاہروں میں صرف راولپنڈی میں سرکاری اور نجی املاک کو دس کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے، دوسری طرف دو روز میں ٹیلی کام سیکٹر کو ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا نقصان، حکومتی محصولات میں 57 کروڑ کی کمی، لاکھوں افراد کی آمدن متاثر ہوئی۔ انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر پاکستانی فری لانسرز کو مشکلات کرنا پڑا، جو اس خراب حالات میں بھی ملک میں ڈالر لا رہے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش سے سے ہزاروں نوجوان جو بیرونی دنیا سے منسلک ہو کر کام کر رہے ہیں، انھیں دشواری کا سامنا ہے۔ ان مالی نقصان سے کہیں زیادہ اس پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، جس پر ہم اب تک پھول نچھاور کرتے آتے ہیں۔
ملک میں سیاست میں تشدد کا عنصر کچھ نیا تو نہیں ہے۔ اے این پی کے بم دھماکوں پیپلز پارٹی کے پی آئی اے کے طیارہ اغوا چوہدری ظہور الٰہی خواجہ رفیق ظہور الحسن بھوپالی کا قتل ال ذو الفقار تنظیم کی دہشت گردی، بے نظیر قتل پر پورے ملک میں تین دن تک لوٹ مار کراچی میں ایم کیو ایم کی مسلسل دہشت گردی حکیم سعید سے لے کر محمد صلاح الدین اور ہزاروں افراد کا قتل فوج کے میجر کلیم کا کیس چینلز پر فوج کے جرنیلوں کو سرعام گالیاں پھر ٹی ٹی پی کی دہشت گردی چھاؤنی آرمی ہیڈ کواٹر پر حملے سے پی ایس میں معصوم بچوں کا قتل عام اور اس کے بعد بھی آئے دن پر تشدد واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
لیکن پھر یہ سیاست دان پاک و صاف ہو جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں ان واقعات سے سبق نہیں سیکھتی اور سیاسی قیادت وقت آنے پر پھر اپنے کارکنوں کو پکارتی ہیں، انھیں احتجاج پر اکساتی ہیں، سیاسی کارکنوں کی ڈھال میں سیاسی لیڈر اپنا قد کاٹھ بلند کرتے ہیں۔ عظیم قوموں کے چھوٹے لوگ کسی بحران کی کسوٹی پر اپنے آپ کو کامیاب ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پاکستان میں دھرنا سیاست نے اب مستقل اہمیت اختیار کر لی ہے، ہم کسی بھی مسئلہ کو اس وقت تک سیریس نہیں لیتے جب تک عوام سڑکوں پر نکل نہ آئیں اور دھرنا نہ دیں۔ عمران خان کی سیاست میں دھرنے بہت اہمیت کے حامل ہیں، دھرنے جماعت اسلامی نے بھی دیئے ہیں، مولانا فضل الرحمن بھی اپنی قوت کا اظہار دھرنے سے کرنے والے ہیں، منیر نیازی کے شعر میں تھوڑی سی ترمیم کر دی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ
ایک اور دھرنے کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک اور دھرنے سے نکلا تو میں نے دیکھا
اس ملک میں سیاست میں دخیل رہنا اور من پسندیدہ قیادت کو پالنا اسے اقتدار میں لانا اور اتارنا ایسا شوق ہے، جو بار بار کیا جاتا ہے، اس شوق کی بھاری قیمت ادا کرنے پر اس شوق سے تائب ہونے، اور آئندہ یہ نہ کرنے کا اعلان بھی ہمیں اس سے باز نہیں رکھتا۔ نواز شریف کی رخصتی کس انداز میں ہوئی، عدالتیں کیسے فیصلے کرتی رہی، پھر کیسے ایک لاڈلے کو لاڈ اور پیار سے لایا گیا۔ یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ پھر عمران خان کی رخصتی جس عجلت اور جارحانہ انداز سے کی گئی، وہ بھی سب کے سامنے ہے، پی ڈی ایم میں مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو ایک کال پر کیسے جمع کر لیا گیا، اسمبلی میں کیا کیا تماشے نہ ہوئے، اور اب تک ہو رہے ہیں، ملک کی معاشی بدحالی عروج پر ہے، کس نے اس پر توجہ دی ہے، سب کچھ واضح ہے کہ اس لڑائی میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے، اور اب بھی ڈال رہے ہیں، سیاست دان تو سیاست ہی کرتے ہیں، انھوں نے تو پینترے ہی بدلنے ہوتے ہیں، کہہ کر مکر جانا ان کی عادت ہوتی ہے، لیکن ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو اپنا وقار ملحوظ رکھنا چاہیئے۔ ہمارے ریاستی اداروں کے شوق پورے ہی نہیں ہوتے۔ ملک تباہ ہوتا ہے تو ہو جائے۔ معاملہ جب خراب ہوتا ہے جب ان کے پالے، انھیں آنکھیں دکھانا شروع کرتے ہیں۔ اپنے پالنے والوں پر بھونکنا اور بھنبھوڑ نا شروع کرتے ہیں۔ اس وقت ملک کی سلامتی اور جمہوریت کے سفید پرچم نکال کر امن کی دہائی دی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ظلم بھی رہے اور امن بھی ہو۔ اس ملک کی عوام کو غربت اور افلاس کی چکی میں پس رہی ہے، ملک کا آئین اور قانون کہاں ہے، عدالتوں کا احترام کہاں ہے، جب ادارے ایک دوسرے کے سمانے کھڑے ہو جائیں، تو ملک میں امن اور سلامتی ایک خواب بن جاتی ہے، اور آج پھر ہمارے سامنے ادارے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کبھی اس پر ہاتھ رکھنا کبھی اس پہ ہاتھ رکھنا۔ کا کھیل کھیل رہے ہیں، جو ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
٭٭٭
الہ دین پارک کی فریاد
یہ میری محرومی کی داستان ہے، میں الہ دین پارک کیسے بنا اور کیسے اس انجام کو پہنچا۔ کراچی میرا شہر تھا۔ میں اس کی بنجر زمیں کا ایک حصہ تھا۔ یہ بنجر زمین سفاری پارک کا حصہ تھی۔ 1994 میں ایک سیاسی حکومت نے سوچا کہ اس پر ایک پارک بننا چاہیئے۔ اس پارک کی تعمیر اور قیام کے لیے ٹھیکہ 52 ایکٹر رقبہ ایک پرائیوٹ پارٹی کو دے دیا گیا۔ اس نے لینڈ کے اصولوں کو جو وہ جانتا تھا اور جو کاغذات میں چیزیں لکھی ہوئی آتی تھی۔ اس پر اس نے پارک کی تعمیر کا کام شروع کر دیا۔ جو مجھے ابتدائی TOR دیا گیا۔ اس میں یہ بات بتائی گئی کہ آپ پانچ فیصد کمرشیل ایریا بنا سکتے ہیں۔ یہ جو پانچ فیصد کمرشیل ایریا تھا وہ پہلے دن سے میرے خاتمے تک متنازعہ رہا اور مجھے لے ڈوبا۔ مجھ پر 25 سال تک یہی الزام رہا کہ میں ایک ایمنیٹی پلاٹ ہوں اور مجھے کمرشیل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھانے سے قاصر رہا کہ ایک امیوزمنٹ پارک میں ساری دنیا میں جو بھی چیزیں ہوتی ہیں وہ کمرشیل ہی ہوتی ہیں، چاہے وہ داخلہ فیس ہو، چاہے وہ پارکنگ ہو، چاہے اس میں ریسٹورینٹ ہوں، چاہیں اس میں دکانیں ہوں، چاہے اس میں جھولے ہوں، چاہے اس میں سوئمنگ پول ہوں، چاہے اس میں کلب ہوں، کوئی بھی چیز تجارتی مقاصد کے بغیر چل نہیں سکتی۔۔ کمرشیل فیس بھی جو طے کی گئی تھی، وہ بہت کم تھی، جتنا میں لوگوں سے پیسے لیتا تھا، اس سے زیادہ کم کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہر آدمی یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ میں کس سطح پر عوامی خدمت انجام دے رہا ہوں، میں نے اس شہر میں سب سے صاف ستھرے پارک کی حیثیت سے کام کیا۔ میں بہترین کلب تھا، جس میں، میں نے بہترین اسپورٹس کی سہولیات فراہم کیں۔ میں نے مڈل کلاس اور لوئر میڈل کلاس، اورنگی، کورنگی، نئی کراچی، سرجانی، ملیر، گلشن، ناظم آباد، اور کراچی کے وہ علاقے جہاں یہ سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔ میں نے ان شہریوں کو یہ سہولیات فراہم کیں۔ مجھے بنانے والوں نے ہر وقت مجھے ہر طرح کے نئے نئے ایگریمنٹ بنا بنا کر مجھے کپڑے پہنائے اور اس کے تحت کوشش کی کہ مختلف حکومتوں کی نگاہ کے اندر مجھے لیگلائز اور قانونی شکل دے سکیں۔ ہر بار قانونی شکل کے بعد مجھے ایک نئی مشکل اور تنازعہ سے دوچار ہونا پڑا۔ مجھے قانونی جواز فراہم کرنے والوں نے اپنی من مانی کے ساتھ ساتھ اپنے مفاد کو بھی مقدم رکھا، اور اپنا مفاد نہیں چھوڑا۔ اس طرح مجھے اس شہر میں ایک ناجائز بچے کے طور پر بدنام کر دیا گیا۔ مجھے اتنا بدنام کیا، اتنا بدنام کیا کہ جہاں میری آواز جاتی، وہاں مجھ پر غیر قانونی ہونے کا الزام لگایا جاتا۔ مجھ پر یہ داغ لگا کر ہی ان لوگوں کو سکون ملا۔ جو میری تباہی چاہتے تھے۔ شاید بدنامی ہی میرا مقدر تھی۔ لیکن مجھے کچھ چیزوں کا یقین ہے میں اس شہر میں لوگوں کی ایک محبوب تفریح گاہ تھا، ہر سال میرے پاس تقریباً تین ملین افراد آتے تھے۔ اور تقریباً دو ملین کلب ممبر ہر سال مجھے وزٹ کرتے تھے۔ تقریباً 12 سو خاندانوں کی روزی کا چراغ، اللہ نے میرے توسط سے جلایا ہوا تھا۔ شہر کے بہت سارے کاروبار، سپلائر کا میں ایک وسیلہ تھا، تقریباً چار ہزار کلب ممبر اسپورٹس کے لیے روزانہ میرے پاس آتے تھے۔ میں نے کے ایم سی کو اور ٹیکس کی مد سالانہ 50 لاکھ ریوینو دیا، جو ملک میں کسی پارک کی جانب سے دیا جانے والا سب سے بڑا ٹیکس تھا۔ میرے چار سو دکان دار بیٹے تھے، جن کی روزی کا چراغ میرے توسط سے جلتا تھا۔ 25 سال سے ان کے گھر کی معیشت میرے دم سے قائم تھی۔ میں یہاں کے ایم سی کے ان چھوٹے بڑے افسران کا بھی ذکر کروں گا، جو ہر وقت مجھے پریشر میں رکھ کر یہاں سے پیسے طلب کرتے تھے۔ ان کے لیے بھی میں ایک دودھ دینے والی گائے تھی۔ اب ان کے گھروں کے چولہے بھی بجھ گئے ہیں۔ 16 جون 2021 کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے مجھے میرے انجام کو پہنچا دیا، میں اتنا برا تھا، اتنا برا تھا کہ مجھے عدالت عظمی نے سننے کا موقع بھی نہ دیا۔ میں اتنا بڑا بوجھ تھا کہ مجھے نیست و نابود کرنے کا حکم 12 گھنٹے میں ہوا، اور مجھ پر بلڈوزر چلا دیئے گئے۔ میں اتنا منحوس اور بدقسمت ہوں کہ میری لاش اٹھانے کا بھی وقت نہیں مل سکا۔ آج بھی میری بے گور کفن لاش راشد منہاس پر پڑی ہے۔ کے ایم سی اور دیگر ادارے میرے ملبے کے لوہے سریئے، ملبہ، میری ہڈیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔
اس شہر کے لاکھوں بچے، جنہوں نے مجھ میں (الہ دین پارک) کبھی تفریح کے چند لمحات گزارے ہیں، ان کے ان گنت سوالات ہیں، جن کے جواب میرے پاس نہیں ہیں، میں اسے کوئی تسلی اور دلاسا بھی نہیں دے سکتا، میں انھیں نہیں سمجھا سکتا کہ کرپشن کیا ہوتی ہے، غیر قانونی تعمیرات کیسے ہوتی ہیں، سپریم کورٹ کیسے بڑی بڑی عمارتوں کو ایک فیصلے سے ڈھا کر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتی ہے، اور بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے اور بڑی بڑی گاڑیوں میں آنے جانے والے انصاف کے دیوتا کیسے غریبوں کے گھروں کا مسمار کر دیتے ہیں، کیسے چھوٹے چھوٹے دکانداروں کو ان کی روزی روٹی سے محروم کر دیتے ہیں، بلکتے ہوئے بچے، روتی ہوئی عورتیں اور اپنی دکانوں کو مشین کے آہنی ہاتھوں سے مسمار ہوتے دیکھ کر رونے والے نوجوان، ادھیڑ عمر افراد، اور مزدوری کرنے والے ملازمین کیسے خون کے آنسووں سے روتے ہیں۔
میری قیام گاہ کراچی کی مشہور شاہراہ راشد منہاس روڈ پر واقع ہے۔ بنیادی طور پر میں ایک امیوزمنٹ پارک کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ میرے پاس نوجوانوں اور بچوں کی تفریح کا بھرپور انتظام موجود تھا۔ فیملی پارک ہونے کے سبب یہاں صرف فیملیز کو ہی داخلے کی اجازت تھی،۔ میرے پاس ہمہ اقسام کے جھولے، سلائیڈ موجود تھے، جن کی گود میں بیٹھ کر بچے خوش ہوتے تھے۔ مجھے) الہ دین پارک) کو بنتے پھلتے پھولتے اور مٹی کا ڈھیر ہوتے سب نے دیکھا ہے۔ کبھی میں پاکستان بھر میں اپنے شہر کی پہچان تھا۔ میری رونق سے سب ہی لطف اندوز ہوتے تھے۔ لیکن اب یہاں مٹی کا ڈھیر، لوہا، سریا، اڑتی دھول اور دیو ہیکل مشینی آہنی ہاتھ ہیں، جو روز بروز مجھے ریزہ ریزہ کر رہے ہیں، میں کسی کی راہ میں رکاوٹ نہ تھا، یہاں کاروبار کرنے والے قانونی دستاویز کے ساتھ لاکھوں روپے دے کر ان دکانوں کے مالک ہوئے تھے۔ کراچی کی اسی شاہراہ پر ایسی غیر قانونی عمارتیں بھی ہیں، جو انصاف کے دیوتاؤں کا منہ چڑا رہی ہیں، جو عین سڑک کے درمیان قائم ہیں، ٹریفک میں خلل ڈال رہی ہیں، غیر قانونی ہیں، ان کے انہدام کے احکامات پرزوں میں تبدیل ہو کر ان انصاف کے ایوان اور اس میں بیٹھنے والوں کے منہ پر تماچہ ہیں، لیکن انصاف کے دیوتا ایسے منہ پر پڑنے والے طمانچوں کے عادی ہیں، یہاں اپنے احکام کے نفاذ کراتے ہوئے ان کے پر جلنے لگتے ہیں۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اور انصاف دینے والے بہرے ہوتے ہیں، انھیں مظلوم کی چیخیں نہیں سنائی دیتی۔ وہ فریق ثانی کو نہیں سنتے اور چند منٹوں میں ہزاروں خاندانوں کو معاشی تباہی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ میں ایک دن میں تو نہیں بنا تھا، 25 برسوں کی کہانی ہے۔ میں گزشتہ 25 برس سے کراچی والوں کو تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ تھا۔ میری پیدائش سے پہلے 52 ایکڑ پر محیط اس زمین کو تفریحی پارک بنانے کے لئے لیز کیا گیا تھا، اس وقت یہ اراضی صرف خالی میدان تھی۔ مجھے ایک پرائیوٹ کمپنی نے شب و روز محنت کر کے مکمل تفریح گاہ میں تبدیل کیا تاکہ یہاں شہری اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ خوشی کے لمحات گزار سکیں، لیکن عدالتی فیصلے کے بعد مجھے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ عدالتی حکم کے بعد چند دنوں میں ہی اربوں روپے کی انویسٹمنٹ خاک کر دی گئی۔ میری تعمیر غیر قانونی نہیں تھی۔ لیکن میری پیدائش کی تمام قانونی دستاویزات کو دیکھنے اور فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کو رد کر دیا گیا۔ میری درخواست کو سرے سے سنا ہی نہیں گیا۔ کے ایم سی نے 16 جون کو عدالتی احکامات پر 25 برس سے قائم میرے جسم کے حصوں پر بلڈوزر چلا دیے، انتظامیہ نے چند گھنٹوں کے نوٹس پر 25 برس سے قائم تفریح گاہیں چھوڑنے کا حکم دیا جو کہ یہاں کام کرنے والے ہزاروں افراد کو بے روز گار کرنے کا باعث بن گیا۔ روزگار چھننے سے میرے بیٹوں کی روشن زندگیوں میں تاریکی چھا گئی ہے۔ جس دن سپریم کورٹ کے حکم پر میرے جسم پر بلڈوزر سے آپریشن کیا گیا اور دکانیں مسمار کی گئیں۔ اس دن میرے بیٹے یہاں کے دکانداروں کا احتجاج، رونا، اور اپنے کاروبار کو تباہ ہوتے دیکھ کر سینہ کوبی کرنے کے مناظر درد ناک بھی تھے اور افسوس ناک بھی۔۔ صرف پانچ فیصد کمرشیل زمین کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے کر ایک بہت بڑے منصوبے کو غارت کر دینا اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دینا، کہاں کا انصاف ہے، کراچی جہاں لوگوں کے پاس نہ تفریح کے لیے پارک ہیں، نہ کھیلنے کو میدان، یہاں بچوں کو تفریح سے محروم کر دینا کس قدر اذیت ناک ہے۔ یہ ان بچوں سے پوچھیئے، جو آج بھی میرے پاس آنے کی ضد کرتے ہیں۔
٭٭٭
اک ذرا صبر کے فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عمران خان کی سات انتخابی حلقوں سے جیت کی خبریں آ رہی ہیں، پی ڈی ایم کا حکومتی اتحاد بہت آسانی سے ڈھیر ہو گیا۔ ایک طرف تیرہ 13 سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور دوسری طرف اکیلا کپتان عمران خان، مسلم لیگ نون کو تو الیکشن میں پولنگ شروع ہوتے ہی اپنی شکست کا اندازہ ہو گیا تھا، شاید اسی لیے عطا اللہ تارڑ ووٹروں سے یہ کہتے نظر آئے کہ ’’عمران خان کو ووٹ دینا ووٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا ہے‘‘۔ تحریک انصاف نے اپنی حکمت عملی سے موجودہ سیاسی داؤ پیچ کھیلنے والوں کو ناک آوٹ کر دیا ہے۔ عوام کی اکثریت نے اس ضمنی الیکشن میں بہت زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا۔ عمران خان اگر الیکشن میں کھڑے نہ ہوتے تو شاید ان انتخابات میں کوئی ووٹ ڈالنے بھی نہ جاتا۔ اور پولنگ اسٹیشنوں پر دھول اڑتی نظر آتی۔ اب عمران خان پھر اسلام آباد کی جانب رخ کریں گے، لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان تو وہ کر چکے ہیں، بس تاریخ دینا باقی ہے۔ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی بار ہوا ہے، جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 1996 میں ایسا ہی لانگ مارچ کیا تھا، پھر نواز شریف نے بھی وکلاء حمایت میں ایسا ہی لانگ مارچ شروع کیا تھا، عمران خان نے پہلے بھی لانگ مارچ اور دھرنے دیئے تھے، مولانا فضل الرحمٰن 2021 میں ایسا لانگ مارچ کر چکے ہیں، تحریک لبیک والے بھی اسلام آباد میں دھرنا دے چکے ہیں، بلاول بھی ریلی لے کر نکلے تھے۔ اسلام آباد کانچ کا بنا ہوا ہے، یا نمک کا ذرا سے پتھراؤ سے ٹوٹ جائے گا، یا تھورے سے پانی سے گھل کر بہہ جائے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اس وقت عمران خان کو ایسے دھمکیاں دے رہے ہیں جیسے کوئی پہلی بار اسلام آباد یا راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ کرنے نکلا ہے۔ بہت سارے معاملات طے ہو چکے ہیں، آئندہ چند دنوں میں بہت کچھ بے نقاب ہو جائے گا، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف کے درمیان ون ٹو ون ملاقات میں موسم کے احوال پر تو بات نہیں ہوئی ہو گی۔ امریکہ سے لے کر ملکی اندرونی صورتحال پر بات چیت ہوئی ہو گی۔ آئندہ کا لائحہ عمل بھی زیر غور آیا ہو گا۔ امریکہ پاکستان کے خلاف دل میں کیا عناد رکھتا ہے، اس کا اظہار تو امریکی صدر کے بیان سے ہو گیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ’’اُن کے خیال میں پاکستان شاید ’دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے ‘ جس کے پاس موجود جوہری ہتھیار ’غیر منظم‘ ہیں۔‘‘ عمران خان کی حکومت کو ہٹا نے کے بعد موجودہ حکمران اتحاد کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایک پیج پر ہیں۔ بلاول بھٹو کے دوروں، آرمی چیف کے حالیہ دورے کے بعد، امریکی صدر کا یہ کہنا اس بات کا اظہار ہے کہ ’ڈو مور‘ کا مطالبہ پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ عمران خان نے موجودہ اتحادی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے صدر بائیڈن کے اس بیان کو ’امپورٹڈ حکومت کی خارجہ پالیسی اور ان دعووں کی مکمل ناکامی قرار دیا ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اکتوبر کے آغاز میں واشنگٹن کے دورے پر گئے تھے۔ جہاں انھوں نے امریکی سیکریٹری دفاع لوئڈ آسٹن سے ملاقات کی تھی۔ جنرل باجوہ نے یہ دورہ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل کیا اور بظاہر اس ملاقات کا مقصد پاکستان کا امریکہ کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں کی مدد کرنے پر شکریہ ادا کرنا تھا۔ اس سے یہ تاثر بھی ملا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خوشگوار نوعیت کے ہیں، اور دونوں ملک ایک پیج پر ہیں۔ لیکن امریکی صدر کے اس بیان نے اس صورت حال کو تبدیل کر دیا ہے، امریکہ کو پاکستان کے حالیہ حکومتی سیٹ اپ پر اعتبار نہیں ہے، اور وہ جو کچھ مطالبات کر رہے ہیں، حکومت شاید ان کی توقعات پر پوری نہیں اتری ہے۔ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی پر اکثر امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، خود عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکہ کی سازش قرار دیا تھا۔ جس کے بعد انھیں زبردست عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک مہم چلائے ہوئے ہیں، اور اس میں کئی بار اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آئے، انھوں نے جلسوں میں یہ بھی کہا کہ وہ آئندہ اسٹبشمنٹ کے خلاف یا اہم شخصیات کے خلاف کچھ نہیں کہیں گے، لیکن پھر بھی وہ اشاروں کنایوں میں اس بات کا ظہار کرتے رہے ہیں کہ ان کے خلاف جو کچھ بھی ہوا، اس میں کچھ شخصیات اور اسٹیبلشمنٹ شریک ہے۔ گذشتہ دنوں لندن میں مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کی ملاقاتیں، اور نواز شریف سے مشوروں نے بھی اس موقف کو تقویت دی کہ موجودہ حکمرانوں کو ہدایات لندن سے مل رہی ہیں۔ ڈالر پر جو سٹہ چل رہا ہے، اور اربوں روپے جس انداز سے کچھ لوگوں اور بنکوں اور اداروں نے کمائے ہیں، اس سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ الیکشن سے پہلے جو ہاتھ لگ جائے، وہ حاصل کر لیا جائے، بعد میں شاید یہ موقع نہ ملے، ضمنی الیکشن میں عمران خان کی کامیابی نے ان کے اس موقف کی بھی تائید کر دی ہے کہ انھیں عوام حمایت حاصل ہے، اس لیے وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس پر عمل کیا جائے۔ وہ اب پھر اپنا دباؤ بڑھائیں گے۔ اور ممکن ہے کہ حکومت بہت جلد ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دے، حکومت کی بساط الٹ جائے، اور وقت سے پہلے الیکشن کے انعقاد کا اعلان کر دیا جائے۔ پاکستان کو بچانے کے لیے یہی ایک صورت ہے، ورنہ اندھیرے دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے، دیئے بجھتے جا رہے ہیں، اور تاریکی بڑھ رہی ہے۔
٭٭٭
اظہار رائے پر پابندی
وزیر اعظم شہباز شریف کو برسر اقتدار آئے ہوئے، اب تقریباً دو ماہ ہونے والے ہیں، انھوں نے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے، بجلی کی قیمتوں میں کمی، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، پیٹرول ڈیزل کے قیمتوں میں کمی، اشیا ضرورت کو عوام الناس تک با آسانی رسائی، کے جو وعدے کیے تھے، ان سے وہ نہ صرف یکسر منحرف ہو چکے ہیں، اور انہوں نے عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیا، پیٹرول اور بجلی گیس کے نرخوں میں وہ ہو شربا اضافے کیے ہیں، جس نے ہر غریب اور متوسط طبقے کے ساتھ ساتھ امیروں کے بھی ہوش اڑا دیئے ہیں۔ انھیں سب سے زیادہ پریشانی سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے تھی، جس کے بڑے بڑے نام پہلے ہی ان کی حمایت میں رطب اللسان تھے، زبانوں اور قلم سے دن رات عمران خان کی حکومت کے خلاف زہر اگلنے والے، اب یا تو خاموش ہیں، یا پھر حکومت کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں۔ شہباز شریف نے حکومت میں آنے کے فوراً بعد مخالف پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے، ایک مہم شروع کی تھی، جس میں ان کے حکم پر برقی خطوط ای میلز، بلاگز اور سماجی رابطے (Social Media) کے ذریعے حکومت مخالف جذبات کا اظہار کرنے والوں کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) نے پکڑ دھکڑ شروع کی۔ اس مہم کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ کاروائی ریاست کے خلاف منفی اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کی جا رہی ہے۔ لیکن اپنے مخالفین کی زباں بندی کیلیے یہی دلیل ہر حکومت پیش کرتی چلی آئی ہے۔ اس مہم میں بھی یہی دیکھنے میں آیا۔ میڈیا میں عکس وہی نظر آتا ہے، جو آپ کا اصل چہرہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی رہتی ہے کہ حکمران آئینہ دیکھ کر اپنے چہرے کے داغ ٹھیک کر لیں، اور شیشہ توڑ کر وجیہ بننے کی کوشش نہ کریں، ایسی خواہش خلل دماغ کے سوا کچھ نہیں۔ یہی مشورہ اداروں کیلئے بھی ہے۔ جنہیں اب تک یہ سبق یاد نہیں ہو سکا کہ ’آزادی اظہار رائے انسان کا بنیادی حق ہے‘ اور اس سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا ہے، اور نہ کسی کی زبان بندی کی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر ارسلان خالد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کریک ڈاؤن بہت زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ زوروں پر ہے۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی چل رہا ہے، وہ ہمارے ملک، فوج، ریاستی اداروں، ملک کے نظریاتی تشخص کے لیے ایک نہایت سنگین ہے، باجوہ کے نام سے سوشل میڈیا پر جو مہم چل رہی ہے، اور جس میں غداری کا سرٹیفیکیٹ دیا جا رہا ہے، لیکن ان میں بہت سے ’اپنے‘ ہیں۔ جو بوقت ضرورت کام آتے ہیں، اسی لیے انھیں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سائیبر کرائم کا قانون موجود ہونے کے باوجود اس پر کتنا عمل ہو رہا ہے، اس کا اندازہ آپ ٹوئیٹر پر گذشتہ دو ماہ سے جاری رہنے والے ٹرینڈ کو دیکھ کر کر سکتے ہیں۔ کریک ڈاؤن کا فیصلہ کرنے والوں نے ’پنڈی کے دلے‘ نام سے ٹرینڈ چلانے والوں کو تو کچھ نہ کہا، نہ ہی اس شخص کو جو لندن سے بیٹھ کر جنرل باجوہ جنرل باجوہ فیض حمید فیض حمید کی گردان سناتا تھا اور جس کی ویڈیوز آج بھی چل رہی ہیں۔ آپ نے کچھ نہ کہا، بلکہ ان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جلسے میں ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ کے نعرے لگوانے والی خاتون بھی آج کل پس پردہ اور اعلانیہ سابق فوجیوں کی مراعات ختم کرنے کے احکامات صادر کر رہی ہیں، انھیں ہر طرح کی سہولت میسر ہے۔ جس شخص کی عدالت پیشی پر نعرے لگے تھے ’باجوہ کتا ہائے ہائے‘ وہ تو آج اقتدار کے سنگھاسن پر تشریف فرما ہیں۔ کل جو شخص اسلام آباد میں کھڑے ہو کر صحافیوں کے درمیان آئی ایس آئی کو گالیاں دے رہا تھا۔ وہ تو اب آپ کے پسندیدہ ہیں۔ کل جس سیاست دان نے یہ دھمکی دی تھی کہ ’ہم جی ایچ کیو کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘ وہ اب آپ کے اتحادی ہیں۔ آپ کی پالیسی وقت اور ضرورت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، ملک، قوم، عوام سے زیادہ آپ کو اپنے مفادات عزیز ہیں، اس ملک میں حقیقی جمہوریت اگر کسی پارٹی میں ہے تو وہ واحد سیاسی جماعت، جماعت اسلامی ہے۔ جو محب وطن ہے، اور اپنے سینے پر قربانیوں کے نشان سجائے ہوئے ہے۔ جماعت اسلامی آج بھی آئین اور حق کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ اپنا جدا موقف رکھتی ہے، جماعت اسلامی نہ حکومت کی طرفدار ہے نہ اپوزیشن کی، جماعت اسلامی آئین پاکستان کی طرفدار ہے اور عوام کی آواز ہے، یہ جماعت ہی ہے، جس کا واحد سینٹر مشتاق احمد خان ہی ہے، جو ایوان بالا میں حق کا اظہار کر رہا ہے، جو اس بات کو بار بار کہتا ہے کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ آئین محفوظ ہو، اس میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے، اس میں اسلامی شقیں موجود ہیں، یہ آئین عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی ضمانت ہے، اس کی حفاظت کرنا ایمان کا تقاضا ہے‘‘۔ جو ملک سے سود کے خاتمے اور اشرافیہ کی لوٹ مار کے خلاف بول رہا ہے، جماعت اسلامی کی گدڑی میں سراج الحق جیسے درویش، مولانا ہدایت اللہ جیسا سرفروش، عبد الرشید جیسا بے باک لیڈر، اور حافظ نعیم الرحمان جیسا نڈر اور بے خوف لیڈر موجود ہے۔ اس لیے اس جماعت کا راستہ مت روکیے، ماضی میں آپ نے جو فیصلے کیئے ان سے ملک اور قوم کو بہت نقصان پہنچا ہے، حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنا بند کیجئے، حقیقی قیادت کا راستہ مت روکیے، صرف سیاسی انتقام کے لیے اپنے مخالفین کو اٹھانے کی روش کو ختم کیجئے۔ تاکہ یہ ملک ان مسائل اور مصیبتوں سے نکل کر خوشحالی کی طرف بڑھے۔
٭٭٭
ثالثی کوئلوں کی دلالی کا کاروبار
سیکھنے اور سکھانے کا عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ اس سفر میں بھی بہت سے ایسے مقامات آتے ہیں، جہاں ہم اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آگے کیا ہو گا، سب کچھ قدرت کے دست غیب میں ہے، وہ جو چاہے جس کو چاہے، جہاں چاہے عطا کر دے، یہ رضا اور عطا کا سلسلہ ہے، دینے والا راضی ہو جائے تو اس کی عطا کا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ لیکن اس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں ہے، رمضان کا آخری عشرہ اللہ سے مانگنے کا، اس کی رحمت سے فیض یاب ہونے، تزکیہ نفس کرنے، نیکیاں کرنے کا ہے، اللہ نے آپ کو دیکھنے والی آنکھ اور بصیرت سے نوازا ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں، اس کی عنایات کا ایک شکر یہ بھی ہے کہ ہر چیز کا اظہار نہ کریں، دکھاوا نہ کریں، کسی کا دل نہ دکھائیں، کسی کو محرومیت کا احساس نہ دلائیں، ہو سکتا ہے اللہ نے اپ کو زیادہ دیا ہے، اچھا دیا ہے، خوب دیا ہے، لیکن یہ کیا کہ ہر وقت اس کا اظہار کرتے رہیں۔ ہر جگہ اپنی شخصیت کا، اپنے پہناوے کا، اپنے بڑے گھر کا، اپنی مال دولت کا ذکر کریں۔ ذہانت اور علم بھی اللہ کی دین ہے، اگر آپ پر اللہ کا کرم ہے، اس کی نوازش ہے، تو ضروری نہیں اس کا اظہار بھی کرتے رہیں۔
جو اچھی چیز آپ کو ملی ہے، اس میں دوسروں کو شریک کر لیں، اللہ نے جو کچھ آپ کو دیا ہے، اس کو بانٹئے۔ ارادے کی پختگی انسان کو آگے بڑھاتی ہے، اگر آپ کوئی نیک کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کی نیکی بھی آپ کے کھاتے میں لکھ دی جاتی ہے، اب اگر آپ نے اس پر عمل بھی کر دیا تو مزید نیکیاں آپ کو مل جاتی ہیں۔
انسان اپنی قوت فیصلہ سے ترقی کرتا ہے، اگر آپ میں قوت فیصلہ نہیں ہے تو آپ کتنی عمر کے ہو جائیں، لیکن آپ اپنے بچپن سے باہر نہیں نکلیں گے۔ قوت فیصلہ آپ کو حالات اور مسائل سے مقابلہ کرنا سکھاتی ہے۔ جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایک قوت اور طاقت موجود ہے تو وہ اس کو استعمال میں لاتا ہے۔ جن لوگوں نے مسائل اور مشکلات کا سامنا نہیں کیا ہوتا وہ زندگی کے مسائل سے بھاگنے والے ہوتے ہیں، ناکام لوگ۔ لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں، جو پر عزم ہوتے ہیں قوت فیصلہ رکھتے ہیں وقت اور حالات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
ہمیں اس وقت ایک پر عزم قیادت کی ضرورت ہے، ایک ایسی قیادت جو اس ملک کے مسائل کا ادراک رکھتی ہو، مخلص ہو، اس وقت ملک میں انتخابات کی ضرورت ہے، انتخاب ہی کے ذریعہ عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انتخابات کی راہ میں جس طرح پیچیدگیاں اور مسائل کھڑے کیے جا رہے ہیں، اس سے شکوک و شبہات جنم لے رہے کہ اس ملک کو چلانے والی طاقتیں کونسی ہیں، عدلیہ، پارلیمان، سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ، ریاستی ادارے، اگر یہ سب جسم کے حصوں کی طرح یک جان، اور یکسو نہیں ہوں گے تو ملک نہیں چلے گا، اب من مانی اور من پسندیدہ نتائج اور من چاہے لوگوں کو اقتدار میں لانے کے منصوبے اس ملک کو مزید تباہ کر دیں گے۔ ان تمام مقتدر قوتوں کو اس ملک اور اس کے بدحال مظلوم عوام کے بارے میں سوچنا چاہیئے، ان کی مشکلات کے حل کے لیے مل جل کر کوشش کرنی چاہیئے۔
رمضان کی ستائیس تاریخ کو یہ ملک اللہ نے اپنے بندوں کو انعام کے طور پر دیا تھا، اس وعدے پر دیا تھا کہ یہاں امن، چین، انصاف، اور اسلام کے نظام نافذ ہو گا۔ ہم نے اس وعدے کو بھلا دیا، اب ہم اس ملک میں اسلام نظام کے نفاذ کی بات نہیں کرتے، ہم سود کے خاتمے کے لیے جھوٹے بہانے بناتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، انانیت اور اقتدار کی جنگ نے ملک کو تباہی کے دہانہ پر کھڑا کر دیا ہے، غریب اور کمزور طبقوں کے لیے زندگی مشکل بنا دی گئی ہے، روٹی کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے، حکومت ایک لوٹ کا نظام چلا رہی ہے، عید سے قبل ایک بار پھر پیٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی ہے، حکومت کے پاس معیشت چلانے کے لیے قرض مانگنے اور عوام پر ٹیکس کی بھر مار کرنے کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں رہا ہے۔ اسمگلنگ کا راج ہے، بلوچستان اور صوبہ سرحد سے افغانستان اور ایران سے جس بڑے پیمانے پر سرکاری سرپرستی میں اسمگلنگ ہو رہی ہے، اس نے ملک میں لاقانونیت، منشیات، کو فروغ دیا ہے۔
پاکستان اس وقت بری طرح آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے، آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کے لیے ایک کے بعد ایک مطالبہ رکھ رہا ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف مزید شرائط بڑھا رہا ہے، حالیہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، حالانکہ اس وقت عالمی منڈی میں تیل کے نرخ کم ہیں۔ اب آئی ایم ایف نے تازہ شرط یہ رکھی ہے کہ معاہدے سے پہلے پاکستان اپنے دوست ممالک سے مزید یقین دہانیاں حاصل کرے کہ وہ اس کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے رقم فراہم کریں گے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں پاکستان کو امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جب کہ چین نے بھی قرض رول اوور کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف اسٹاف اور منیجمنٹ کے درمیان یہ مذاکرات ایک سال سے جاری ہیں۔ وزیر خزانہ کئی مرتبہ معاہدے کے قریب پہنچنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ اور انتخابات کی تاریخ میں توسیع بھی بار بار اسی لیے کی جا رہی ہے کہ کسی طرح یہ معاہدہ ہو جائے۔ لیکن اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ثالثی کے لیے امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایک بار پھر سرگرم ہوئے ہیں، 2018 میں بھی جب عمران خان دھرنا دیئے ہوئے تھے۔ اس وقت بھی سراج الحق صاحب نے دونوں فریقوں سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے لیے ایسی ہی بات چیت کی تھی، لیکن اس کے بعد عمران خان کو اپنے دور اقتدار میں کبھی سراج الحق یاد نہ آئے، دوسری جانب نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی جماعت اسلامی سے وعدہ خلافیوں کی ایک تاریخ ہے، عمران خان جب کسی معاملے کو حل نہیں کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک مذاکراتی ٹیم بنا دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے اتحاد کے لیے بھی انھوں نے منور حسن کے دور میں ایک کمیٹی بنائی تھی، اس کو جو حال ہوا تھا وہی اب ہو گا، مذاکرات جن کی ضرورت ہے وہ قاضی فائز عیسی کو بھی پارلیمنٹ میں لے جاتے ہیں، نتیجہ قاضی صاحب مفت بدنام ہوئے، کوئلے کے دلالی کے اس کاروبار میں ہاتھ کالے ہونے کے سوا کیا حاصل ہو گا۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور وفاقی وزیر مفتی عبد الشکور کی حادثاتی موت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے، مولانا فضل الرحمان کو اپنے وزیر کی اس موت کی تحقیقات کرانی چاہیئے، مفتی شکور ایک درویش صفت انسان تھے، اب بھی موٹر سائیکل پر سفر کرتے تھے۔ ان کی وزارت مذہبی امور کے دور میں گزشتہ سال حج بیت اللّٰہ کے بارے میں بہت سے حجاج گواہی دیتے ہیں کہ وہ حج کے دنوں میں ہر جگہ پر پاکستانی حجاج کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ سرکاری پروٹوکول کے تحت فائیو سٹار ہوٹل پر قیام کے بجائے عام حجاج کے ساتھ قیام کرتے، انھوں نے گذشتہ سال حج اخراجات نو لاکھ سے کم کروایا اور تمام حجاج کو ایک لاکھ پچاس ہزار روپے واپس کئے۔ اللّٰہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔
٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
مکالمہ ہماری ضرورت ہے، ہم اظہار آزادی کے نعرے لگاتے ہیں، لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ ہم آج جس اظہار آزادی پر نازاں ہیں، وہ ہماری آزادی نہیں بلکہ ہماری آزادی کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہماری آزادی کو ان شرائط و ضوابط نے کنٹرول کر رکھا ہے، جو سرمایہ داروں نے ڈیزائن کی ہیں، آج کا انسان سوچتا بھی وہ ہے، جو سوشل میڈیا چاہتا ہے۔ دنیا یک رخی ہو گئی ہے، آج کی فلاسفی یہ ہے کہ انسان کے خیالات کو کس طرح قابو میں کیا جائے، آج کی دنیا ارادے کو قابو کرنے کی ہے، جو لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں، ان کی کوشش اور خواہش ہے کہ انسان کی تمنا کو بدل دے، انسان کو ان چیزوں کی طرف راغب کرے، جو وہ پیدا کر رہے ہیں، جو وہ فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ آج ابلاغ بہتر ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ اظہار کے مواقع زیادہ ہیں، دنیا کنٹرولڈ ہو گئی ہے، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کا اظہار حاضر کے علوم اور مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مجھے یہ سب کچھ پروفیسر ڈاکٹر عبد الوہاب سوری سے بزم مکالمہ کی نشست میں سننے کا موقع ملا۔
اب سے ایک سال قبل طارق جمیل شیخ نے ’بزم مکالمہ‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ مارچ 2022 میں اس بزم کا آغاز بھی پروفیسر ڈاکٹر عبد الوہاب سوری کے لیکچر ’’لبرل ازم کے تصور آزادی‘‘ سے ہوا تھا۔ بعد میں ہر ماہ ایک لیکچر کی روایت برقرار رہی، جس میں خرم علی شفیق، جسٹس وجیہ الدین احمد، ڈاکٹر عبد الہادی شاہد، خواجہ رضی الدین حیدر، فراست رضوی، پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر صابر حسین، پروفیسر ڈاکٹر مسعود محمود، ڈاکٹر ریاض الدین، محمود شام نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا اور سامعین سے سوال جواب کی صورت میں مکالمہ کیا۔ بزم مکالمہ کوئی تنظیم نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سوچ اور نظریہ کا نام ہے، یہ ایک تحریک ہے، جس کا مقصد معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے ایک جگہ جمع کر کے ایک موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا موقع دینا ہے۔ شیخ طارق جمیل کو یہ وصف اپنے والد شیخ جمیل الرحمن مرحوم سے ملا ہے، جو ڈاکٹر اسرار احمد کے رسالے میثاق کے ایڈیٹر رہے، اور ڈاکٹر اسرار کی کئی کتابیں انھوں نے مرتب کیں۔
طارق جمیل شیخ کراچی کی علمی ادبی شعری تقریبات میں ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ بزم شعر سخن کے بھی بانی ہیں، جو 2017 سے ہر سال ایک شاندار محفل مشاعرہ منعقد کرتے ہیں، جس میں نامی گرامی شعرا شرکت کرتے ہیں۔ طارق جمیل کو احباب بھی ایسے ملے ہیں، جو پرورش لوح و قلم کے راستے کے مسافر ہیں۔ ان میں فراست رضوی، افتخار ملتانی، خالد میر، تاجدار عادل، ظفر اقبال، شفیق اللہ اسماعیل، ارشاد آفاقی، سید ہانی رضوی جیسے لوگ شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر احباب خود شعر و ادب میں نامور ہیں۔ بزم مکالمہ کی روح یہ ہے کہ ’’مخالفت نہیں بلکہ اختلاف کیجئے‘‘ ایک سال کے عرصے میں جو پروگرام ہوئے، ان کے موضوعات بھی بہت اہم تھے، پاکستان میں سیاسی نظام کی ناکامی، پاکستان معاشی استحکام یا دیوالیہ، ذہنی صحت و پاکستانی معاشرہ، لیاقت علی خان سیاست اور شہادت، سید ابو الاعلیٰ مودودی بحیثیت نثر نگار، قائد اعظم کا تصور قومیت، پاکستان کے معاشی حالات اور سدھار کے امکانات، یہ سارے موضوعات اور ان پر ہونے والے سوال جواب ہمیں معاشرے میں مکالمے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔
موجودہ سیاسی صورت حال میں بھی مکالمے کی اشد ضرورت ہے، تبدیلی اور قلاب طاقت کے مظاہروں سے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے نہیں آتے۔ عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کو جس طرح تماشہ بنایا گیا ہے، اس سے یہ بھی اظہار ہوتا ہے کہ اصل مقصد عمران خان کو گرفتار کرنا اور انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا نہیں بلکہ انھیں اس سرکشی کی سزا دینا ہے، جو انھوں نے نادیدہ طاقت کے خلاف ڈکٹیشن قبول کرنے کے خلاف کر رکھی ہے۔ عدلیہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ یا کوئی اور ریاستی طاقت اسے اب پاکستان میں مزید تجربات کا کھیل بند کر دینا چاہیئے۔ عوام کی طاقت صحیح یا غلط اس وقت عمران خان کے سحر میں ڈوبی ہوئی ہے، اسے طاقت سے نہیں توڑا جا سکتا۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ موجودہ حکومت جس انتخاب کے وعدے پر اقتدار میں آئے تھے۔ اسے پورا کریں، اور جیتنے والوں کو اقتدار سپرد کریں۔ ملک کو چلانے کا ٹھیکہ کسی کے پاس نہیں ہے، جو اپنے آپ کو اس ملک کا ٹھیکہ دار سمجھ کو اپنی من مانی کر رہے ہیں، انھیں بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیئے کہ عزت اور وقار ان سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اب زبانیں کھل گئی ہیں، نفرت چہروں پر پھیل رہی ہے، اگر یہ صورت حال رہی تو ان کو گلی محلوں اور بستیوں میں بھی مشکلات کو سامنا کرنا پڑے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا جائے۔
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے۔
جسم و زبان کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
٭٭٭
مولانا ماہر القادری
مولانا ماہر القادری کو عام طور پر ایک نعت گو اور غزل گو شاعر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے، لیکن دیکھا جائے تو مولانا ماہر القادری جیسے نابغہ ادب کی نثری کاوشیں بھی خوب ہیں، وہ ایک بڑے ادیب و شاعر، دانشور، محقق، نقاد، کے ساتھ ساتھ کمال کے ایڈیٹر بھی تھے، ان کی ادارت میں شائع ہونے والے پرچے ’فاران‘ کی شہرت پورے برصغیر میں تھی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’23 سال کی مدت میں ہمارے قلم سے ڈھائی ہزار سے زائد کتابوں پر فاران میں تبصرہ ہوا، کسی مصنف، مترجم، مولف، شاعر و ادیب کے ساتھ ہم نے زیادتی نہیں کی۔‘‘ وہ ہر کتاب کو پوری توجہ سے پڑھتے اور دیانت داری سے اس پر رائے دیتے۔ شعراء، اہل قلم، مصنفین ان کی تنقید کو اپنے لیے اعزاز و افتخار سمجھتے اور ان کی رائے کا انتظار کرتے۔ مولانا کی تبصرہ نگاری، دیدہ ریزی، جانفشانی، دیانت داری اور ہمہ گیری کی ایک مثال ہی کافی ہے۔ مولانا نے 1972 میں جوش ملیح آبادی کی سوانح عمری ’یادوں کی برات‘ پر ’فاران‘ میں اٹھائیس صفحات پر تبصرہ شائع کیا، جس کی پورے برصغیر میں دھوم مچ گئی۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی نے اسے اپنے رسالے میں قسط وار شائع کیا۔ اس تبصرہ میں وہ تحریر کرتے ہیں ’’جوش صاحب جنسی معاملات، ہوس ناک واردات اور تجربوں کے اظہار میں شرم و غیرت کو بزدلی اور نامردی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ’یادوں کی برات‘ اپنی جگہ عریانی و برہنگی کا کوک شاستر بن گئی ہے۔ کوک کا پنڈت زندہ ہوتا تو اس برہنگی کی واقعی داد جوش صاحب کو دیتا۔ وصل و ہم آغوشی کے ذکر و بیاں میں جنسی جذبات کے لیے بڑی لذت اور کشش ہوتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس لذت اور کشش کی اس کتاب میں فراوانی ہے۔ اخلاق باختگی، ان کی نگاہ میں انسانیت کا بہت بڑا شرف ہے۔ طوائفیں اپنا کاروبار چمکانے کے لیے اپنی کم سن لڑکیوں کو جلد از جلد بالغ اور جنسی معاملات میں بے تکلف دیکھنا چاہتی ہیں، ’یادوں کی برات‘ کے فحش و برہنہ مقامات ان نوچیوں کے کام کی چیز ہیں۔ جوش کو سب سے زیادہ دشمنی حیا اور غیرت سے ہے۔‘‘
مولانا ماہر القادری کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ انھوں نے 28 سال تک (اپریل 49 سے مئی 1978 کے درمیانی عرصے میں) اپنے ماہنامے فاران میں یاد رفتگان کے تحت کمال کے خاکے لکھے ہیں۔ مولانا نے رفتگان میں متوفی کی زندگی کے وہ واقعات لکھتے جو ان کے علم میں ہوتے، مولانا اس راز سے واقف تھے کہ ہر انسان کی کہانی دلچسپ ہو سکتی ہے۔ وہ کردار نگاری میں مہارت رکھتے تھے۔ اس لئے ان کے تعزیتی مضمون بے جان نہیں بلکہ دلچسپ اور خاصے کی چیز ہیں۔ اس باب میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی اور آغا شورش کاشمیری، زیڈ اے بخاری، علامہ طالب جوہری، زکی کیفی، حاتم علوی، سمیت سینکڑوں شخصیات پر مضامین لکھے۔ وہ بہت عمدہ خاکہ نگاری کرتے، ایسی کے تصویر سامنے آ جائے۔ زیڈ اے بخاری کے سراپے کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
’’مسٹر ذوالفقار بخاری کو پہلے پہل یوم اقبال کی تقریب میں دیکھا۔ سرخ سپید رنگت، کشیدہ قامت، سلک کا پاجامہ اور سلک کا کرتا، جس کے حاشیوں پر سفید بیل ٹکی ہوئی، کرتے پر کشید کی ہوئی صدری جس میں ریشمیں خوبصورت تکمے جھلملاتے تھے۔ سلیم شاہی کامدار جوتیاں جن میں سفید رنگ ٹکے تھے۔ اس حلیہ اور وضع قطع کے آدمی کو پوری محفل میں توجہ کا مرکز بننا ہی چاہیئے۔‘‘
مولانا ماہر القادری نے بہت پہلے 1941 میں اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ کیمونسٹ شاعروں اور ادیبوں کا نقطہ نگاہ اور مقصد مزدور کی ہمدردی کے پردے میں کیمونزم اور لادینیت کی تبلیغ اور اشتراکی انقلاب کے لیے زمین ہموار کرنا ہے۔ اور اس ادب کا نام انھوں نے ترقی پسند ادب رکھا۔ اس زمانے میں مولانا ماہر القادری کی نظم مزدور بہت مشہور تھی۔
اب کسی کے سامنے مزدور جھک سکتا نہیں
آنے والا انقلاب آئے گا، رک سکتا نہیں
شاید اسی وجہ سے سجاد ظہیر نے انھیں چائے پر بلایا۔ لیکن مولانا تو لادینی اور اشتراکی رجحانات کے سخت خلاف تھے۔ انھوں نے اسی دور میں تن تنہا ہر اسٹیج پر اس کی مخالفت شروع کر دی۔ 1945 میں انھوں نے بمبئی میں حلقہ فکرو نظر قائم کیا جس کے افتتاحی اجلاس میں ’ادب اور ترقی پسندی‘ کے موضوع پر پونے دو گھنٹے کی تقریر کی۔ اس اجلاس کی صدارت راجہ صاحب محمود آباد نے کی تھی۔ سجاد ظہیر اور ترقی پسند مولانا ماہر القادری سے شدید خائف تھے۔ سجاد ظہیر نے ترقی پسند مصنفین کے مینی فیسٹو میں لکھا کہ ایک راجہ (راجہ صاحب محمود آباد)، ایک شاعر ماہر القادری، اور ایک حکیم یعنی حکیم حیدر بیگ ہمارے مخالف ہیں۔ ایک تقریب میں رضیہ (بیگم سجاد ظہیر) نے اعلانیہ ماہر صاحب سے کہا ’’ماہر صاحب آپ تو ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کے پیچھے لٹھ لیے پھرتے ہیں۔‘‘
ایک اور واقعہ کے بارے میں ماہر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’1946 کے وسط میں حضرت جگر مراد آبادی اور میں حکیم حیدر بیگ کے یہاں مہمان تھے، سجاد ظہیر نے جگر مراد آبادی کو اپنے یہاں شعری نشست پر بلایا۔ جگر نے ماہر القادری سے کہا، ماہر تمھیں ان لوگوں نے مدعو نہیں کیا۔ کیمونسٹ تو میں بھی نہیں ہوں۔ مولانا ماہر القادری نے فرمایا، بے شک آپ کیمونسٹ نہیں ہیں۔ مگر کیمونزم کی تردید میں کچھ نہیں فرماتے، اس لیے کیمونسٹ آپ کو گوارا کر لیتے ہیں۔ میں نام نہاد ترقی پسند ادب کی مخالفت کرتا ہوں، کیونکہ یہ ادب لادینیت کا آئینہ دار ہے۔
مولانا ماہر القادری کو جمعیت الفلاح سے خصوصی شغف تھا، جمعیت الفلاح کے ڈاکٹر امیر حسن صدیقی سے ان کی دوستی تھی، مولانا ماہر القادری، کہتے ہیں کہ ’’جمعیت الفلاح میں کوئی ادبی جلسہ یا قومی تقریب ہوتی تو راقم الحروف کو خاص طور پر یاد فرماتے، کئی بار جمعیت الفلاح کے نعتیہ مشاعرے کی صدارت کے لیے راقم الحروف کو نامزد کیا۔‘‘ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، ماہر القادری رقم طراز ہیں ’’جمعیت الفلاح کی شاندار عمارت، اس ادارے کا استحکام اور ترقی ڈاکٹر صاحب کی ان تھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جمعیت الفلاح کے انگریزی آرگن وائس آف اسلام میں کئی ہزار روپے ماہوار کے اشتہار انہی کے اثر رسوخ سے ملتے تھے۔ جمعیت الفلاح کی خدمات انہوں نے کسی معاوضہ یا الاونس کے بغیر انجام دیں۔ اس معاملے میں وہ بڑے محتاط اور ایثار پسند تھے۔‘‘ مولانا ماہر القادری کو جمعیت الفلاح سے خاص نسبت تھی، مولوی تمیز الدین خان کے بارے میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ، مولوی تمیز الدین خان مرحوم جمعیت الفلاح کے سرپرست صدر اور بانی تھے۔ جمعیت کی پارٹیوں اور جلسوں میں مولوی صاحب مرحوم سے ملاقات ہوتی، میں نے ان کی موجودگی میں کئی بار نظمیں سنائی، جمیعت الفلاح کی طرف سے ایک بار شپ میں دعوت کا اہتمام ہوا۔ کھانے کے بعد مولوی تمیز الدین خان نے اردو میں تقریر فرمائی، بولے جمعیت الفلاح کے کسی جلسہ میں اتنا مجمع نہیں ہوا، جتنا آج کی دعوت میں ہوا ہے۔ بھائیو لوگوں کی طبعیت کا یہی رنگ ہے، تو اب جمعیت کے جلسہ کے ساتھ کھانا بھی رہے گا، الحمد للہ یہ روایت آج بھی قیصر خان اور قمر محمد خان اسی طرح نبھا رہے ہیں۔
مولانا ماہر القادری جماعت اسلامی اور سید مولانا مودودی سے خاص لگاؤ رکھتے تھے، مولانا کے بارے میں وہ شورش کاشمیری سے بھی مکالمہ جاری رکھتے اور ان کی غلط روش پر انھیں تنبیہ کرتے، مولانا مودودی کو جماعت اسلامی کی دینی جد و جہد اور رفاہی کاموں کے لیے کراچی کے شہریوں کی طرف سے فریر ہال کے لان میں ایک بڑا استقبالیہ دیا گیا اور کیسہ زر پیش کیا گیا، تو ماہر القادری نے بھی بڑے بڑے لوگوں سے رابطہ کیا، کراچی کے سابق مئیر حاتم علوی سے بھی انھوں نے پانچ سو روپے کا عطیہ حاصل کیا۔
ماہر القادری نے بمبئی کی فلمی زندگی میں بھی وقت گزرا، خود کہتے تھے کہ ’’میری طلب اور کوشش کے بغیر فلم کمپنیوں میں مجھے گانے لکھنے کا کام مل گیا‘‘ پاکستان میں بھی لاہور میں ان کا فلم والوں سے ملنا جلنا تھا۔ ایک بار مشہور فلمی پروڈیوسر آغا گل نے اپنے اسٹوڈیو میں نخشب، ذکی کیفی، اور ماہر القادری کو چائے پر بلایا، مغرب کے بعد کسی فلم کی شوٹنگ بھی تھی، تینوں بیٹھے شوٹنگ دیکھ رہے تھے، اتنے میں حمید نظامی اور شورش کاشمیری بھی وہاں آ گئے۔ شورش نے مولانا ماہر القادری کو دیکھتے ہی فرمایا ’’ماہر صاحب آپ کا یہی صحیح مقام ہے۔‘‘
’جمنا کا کنارا‘ جیسی رنگین نظمیں کہنے والا جماعت میں کہاں جا پھنسا‘ ذکی کیفی کے کہنے پر مولانا ماہر نے در گزر سے کام لیا۔ اگلے دن شورش کاشمیری ادارہ اسلامیات میں تشریف لائے۔ ماہر القادری بھی موجود تھے۔ شورش نے ہنس ہنس کر رات کا واقعہ سنایا اور کہا کہ میں اس واقعہ پر ایک نظم کہوں گا۔ مولانا نے ترکی بہ ترکی حساب بے باق کرتے ہوئے، فرمایا میں نے نظم شروع بھی کر دی ہے۔
لطف لینے کا جہاں جذبہ بھی تھا کوشش بھی تھی
ہائے وہ محفل جہاں شورش بھی تھا شورش بھی تھی۔
٭٭٭
کراچی ایک شہر برباد
کراچی کے ایک شہر برباد ہے، جس پر آہ و
فغان اور ماتم کرنے والے تو بہت ہیں، لیکن اس کے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں، اب گھر یا دفتر سے نکلتے ہوئے آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ آپ وقت پر دفتر، گھر، یا کسی تقریب پہنچ پائیں گے۔ شہر کا ٹریفک بے قابو ہے، اور احتجاج یا کھیل کے سبب کہیں سے بھی آپ کو اپنے راستے سے کسی اور طرف دھکیل دیا جاتا ہے، دو دن پہلے شام کو اچانک کراچی کی سڑکیں جام ہوئیں اور پھر لوگ راستہ پانے کے لیے جگہ جگہ مارے پھرتے رہے، اسٹیڈیم اور اطراف کا علاقہ تو پی ایس ایل کرکٹ کے سبب بند ہی تھا، اوپر سے کئی علاقوں میں احتجاج کرنے والوں نے سڑکیں بند کر دی۔ یوں ہر طرف ایک بھاگ دوڑ شروع ہو گئی، اور کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ کس طرف جائے تو اسے راستہ ملے گا، خواتین، بچے، بوڑھے، مریض، گاڑی والے، اور موٹر سائیکل والے، رکشاء اور منی بس والے ہر طرف گاڑیاں دوڑا رہے تھے، پولیس اہلکار سڑک کے کنارے ہاتھ جھاڑے کھڑے تھے۔ گرو مندر سے گھر راشد منہاس روڈ تک کا سفر تقریباً چار گھنٹے میں طے کیا، درمیان میں کئی سواریاں بدلنی پڑی۔
کراچی میں ٹریفک جام روز کا معمول ہے، یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائین کی کھدائی اور تعمیرات نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے، ایکسپو میں ہونے والی نمائشیں، اور اسٹیڈیم میں ہونے والے میچ، شہر کے لاکھوں لوگوں کو پریشان رکھتے ہیں، اسٹیڈیم کے نزدیک شادی ہال، ہوٹل، بیکری، اسپتال، اسکول کالج، اور مساجد میں بھی لوگوں کو جانے سے روک دیا جاتا ہے، کوئی گاڑی اطراف میں پارک نہیں کی جا سکتی، یہ کراچی کے شہریوں سے ایک مذاق ہے، سیکڑوں لوگوں کا کاروبار سرے سے بند کرا دیا جاتا ہے۔ کراچی روشنیوں کا شہر اندھیروں کا شکار ہے۔ ناقص طرز حکمرانی اور اداروں کی کمزور صلاحیت، عوام کی عدم دلچسپی، حکمرانوں کی لوٹ مار، اور عوام کے مینڈیٹ سے اغماض برت کر، زبردستی من مانی کرنا، کراچی کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کراچی کو قابل رہائش اور میگا سٹی بنانے کے لئے 10 برس میں کئی ہزار ارب روپے بھی نا کافی ہوں گے۔ اور اس کے ساتھ ایک اچھی قیادت بھی، عوام نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اپنا فیصلہ دے دیا، لیکن اس شہر پر حکمران مقتدر قوتیں، اس شہر کو چھوڑنا نہیں چاہتی، ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور وفاقی و صوبائی بجٹ سے رقم فراہم کر کے کراچی شہر کا انفراسٹرکچر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس شہر کو بہتر کرنے کا خیال کس کو ہے، شہر کی مرکزی سڑکیں کھنڈر بن گئی ہیں، کھلے ہوئے نالے، میں ہول، لوگوں کو آئے دن حادثات سے دوچار کرتے ہیں، لیکن کوئی اس پر سنوائی کرنے والا نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کو کراچی کے منصوبے اچھے لگتے ہیں، کہ یہاں سے عوام کی ہڈیوں سے رس نچوڑا جا سکتا ہے۔ اس شہر پر ٹیکسوں کا بوجھ لادا جا سکتا ہے، یہاں کے اداروں کو گروی رکھا جا سکتا ہے۔
ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف نے ہمیشہ کراچی کو دودھ دینے والی گائے سمجھا ہے۔ ’معاشی بیمار ممالک‘ کو قرضوں میں جکڑنے والے یہ ادارے اب تک کئی ممالک کو اپنی مکمل گرفت میں لے چکے ہے۔ بہت سارے ممالک میں تباہی پھیرنے والے ان اداروں نے اب پاکستان پر جال ڈال دیا ہے، پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے بھی اس پھندے کو عوام کے گلے میں ڈال دیا ہے، اب پاکستان کا حال بھی ان تباہ معیشت والے ملکوں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ایئر پورٹس سے لے کر موٹر وے اور پٹرول پمپس تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس گروی ہیں۔ ورلڈ بینک کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے۔ ٹیکسوں کا 65 فیصد سے زائد کراچی ہی ادا کرتا ہے۔ یعنی عالمی قرضوں کا سود کراچی ہی ادا کرے گا۔ جس ملک میں سب کچھ ہو اور وہ قرضوں پر چل اور پل رہا ہو اس کا حال ہی اس کا مستقبل بن جاتا ہے۔
کراچی کے مسائل سے ہم ہی نہیں عالمی ادارے ورلڈ بینک، اور آئی ایم ایف بھی واقف ہیں۔ کئی سال پہلے ورلڈ بنک نے ایک رپورٹ جاری تھی۔ جس میں سب سے اہم بلدیاتی اور صوبائی اداروں کی ناقص کارکردگی کا ذکر تھا۔ صوبائی اداروں نے کراچی کے ترقیاتی فنڈز اپنی مٹھی میں دبا کر رکھے ہیں۔ بلدیاتی اداروں نے بھی قسم اٹھا رکھی ہے کہ وہ کراچی سے کچرا نہیں اٹھائیں گے۔ ٹھیکیداری، در ٹھیکیداری نظام چل رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں سیوریج اور صفائی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ تمام حکمران کہتے ہیں کہ اداروں کو مضبوط کریں گے لیکن کمزور بھی خود ہی کرتے ہیں۔ کراچی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ تمام اداروں کو جان بوجھ کر تباہ کر دیا گیا۔ اب سڑکوں کا وہ حال ہے کہ گاڑیاں بھی ’سسک سسک‘ کر چلتی ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر کراچی کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ سے جان چھوٹی تو اسٹریٹ کرائمز نے کراچی کا ”گلا‘‘ پکڑ لیا ہے۔ اسٹریٹ کرائم دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر میں رسمی سیکورٹی کے فرائض انجام دیتے ہیں، وہ نظر تو آتے ہیں، لیکن امن و امن قائم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے موجودگی دکھانے کے لیے موجود ہیں۔ تاکہ ان کا حق حکمرانی قائم رہے۔ ایک ایک کر کے کراچی کے تمام ادارے یا تو وفاق نے چھین لئے یا پھر سندھ حکومت نے ان پر ”قبضہ‘‘ کر لیا اور یہ سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔ کراچی کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو نہ تو اختیار دیا جا رہا ہے، اور نہ ہی ترقیاتی فنڈ۔ سب کے ہاتھ باندھ کر کہہ دیا کہ آؤ ہمت ہے توہم سے چھین لو، ہمارا مقابلہ کرو۔
کبھی کراچی میں سرمایہ کاری اپنے جوبن پر تھی۔ کاروبار اور صنعتیں برق رفتاری سے چل رہی تھیں۔ معیشت کا پہیہ رواں دواں تھا۔ لیکن اب چند ہفتوں قبل گورنر سندھ کو ایک تقریب میں کراچی کے صنعت کاروں نے اپنی ملوں، اور کارخانوں کی چابیاں یہ کہہ کر پیش کی کہ اب کاروبار اور صنعتوں پر تالہ لگا دیا گیا ہے، اور اس کی چابیاں آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔ آج کراچی کی صنعتیں اپنی آخری سانسیں گن چکی تھیں۔ تاجروں کا برا حال ہے، ہزاروں کنٹینر بندرگاہ پر کھڑے ہیں، روشنیوں کا شہر کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہونے کے باوجود بھی بہت سی محرومیوں کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کی بے حسی ہے۔ وہ اس شہر سے سیاسی انتقام لے رہے ہیں۔ ماضی میں کراچی کو بھارتی شہر ممبئی کا جڑواں شہر قرار دیا جاتا تھا اور یہ دونوں شہر معیار اور طرز زندگی میں یکسانیت کے حامل تھے۔ ٹرامز، سرکلر ٹرین سروس، ڈبل ڈیکر بسیں، اعلیٰ صفائی ستھرائی، شاہراوں کی چمک دمک اور خوبصورت بس اسٹاپ، بلند و بالا عمارتیں اور دیگر بہت سی سہولیات شہریوں کا اثاثہ ہوتی تھیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کراچی جیسے کچرے کا ڈھیر بن گیا ہو۔ سب چیزیں نہ صرف تھم گئیں بلکہ تنزلی کا شکار ہو گئیں۔ بھارتی شہر ممبئی ایک مثالی شہر بن گیا جبکہ کراچی کی روشنیاں مدھم سی ہو گئیں اور وہ ایک اجڑی بستی کا روپ دھار گیا۔ جہاں جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکیں، ناکارہ بسیں اور بے تکی آبادیوں کا پھیلاؤ شہر قائد کا مقدر ٹھہرا۔ نہ صرف یہ بلکہ حالیہ دنوں تک بھی ان کھٹارہ بسوں کی چھتوں پر محو سفر شہری کسی گاؤں یا قصبہ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ شہر کراچی کی اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان کے تمام شہروں سے نچلے درجہ پر آ چکا ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے شہریوں کو دی جانے والی سہولیات کی تشہیری مہم کو دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے پورے کراچی اور سندھ میں سب زبردست ہے اور ہم یورپ میں بستے ہیں۔ کبھی ریڈ لائین اور کبھی پنک بس، لیکن کیا یہ واقعی عوام کو سہولت فراہم کر رہی ہیں کہ شو پیش کے طور پر شہر کے کچھ اہم مقامات پر نمائش کے لیے کھڑی نظر آتی ہیں۔ کراچی کی حقیقی آبادی تو چنچی رکشاؤں یا پرانی کھٹارا منی بسوں ہی میں سفر کر رہی ہے، جہاں آئے دن کرائے پر مسافروں اور بس کنڈیکٹرز میں تکرار ہوتی ہے کہ یہاں کوئی کرایہ نامہ نہیں ہے
گذشتہ پینتیس سالوں سے کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، جس نے شہری اداروں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ شہریوں کی سہولیات کا انحصار ایک پائیدار اور با اختیار میٹرو پولیٹن کارپوریشن پر ہوتا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی مقامی حکومت کا راستہ روک رکھا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں پوری قوم کی نظر کراچی شہر پر تھی، اور لوگوں کو توقع تھی کہ یہاں ایک اچھی مقامی حکومت قائم ہو گی تو پورے ملک کے لیے وہ ایک مثال بن کر ابھرے گی۔ کراچی کے ان بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کراچی نے کامیابی حاصل کی تو سیاسی پنڈتوں نے ان نتائج کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کر دیا ہے، اب حافظ نعیم الرحمن کو عدالتوں کا رخ دکھا کر انھیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی کھیل شروع کر دیا ہے۔ کراچی میں مقامی حکومت کے قیام کے راستے میں کانٹے بچھا دیئے گئے ہیں۔ ملک بھر میں حافظ نعیم الرحمن نے ایک جری اور بہادر لیڈر کی حیثیت سے ایک امیج بنایا ہے، جماعت اسلامی کی دیانت دار قیادت پر عوام کو اعتماد ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کراچی مئیر کے لئے ایک قابل قبول شخصیت ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ وہ کراچی کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن نادیدہ ہاتھ انھیں اس منصب پر آنے سے روکے ہوئے ہیں۔ یہ کراچی کے عوام کے منڈیٹ کی توہین ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کی روشنیاں بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے، ماضی میں عبد الستار افغانی اور نعمت اللہ خان یہ فریضہ دیانت داری سے ادا کر چکے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن بھی کرشماتی شخصیت ہیں، وہ یہ کام کر سکتے ہیں، کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے اس شہر کو صوبائی حکومت کے چنگل سے نکالنا ہو گا۔ صوبائی حکومتوں کا بلدیاتی حکومتوں کے حق پر ڈاکا ڈالنا اب ختم ہونا چاہیئے۔
مشن کائنات کی سب سے بڑی عدالت
پرویز مشرف کی 12 مئی 2007 کی تصویر میرے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے، جس میں وہ کہہ رہے تھے آج ہم نے کراچی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، ایک آمر نے ایک فسطائی تنظیم سے مل کر پورے کراچی کو خون میں ڈبو دیا، اور وہ اسے اپنی طاقت کا مظاہرہ کہہ رہا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں سے ڈھکی ہوئی وہ سیاہ رات بھی ابھی تازہ ہے، جس میں لال مسجد سے نوجوان بچیوں کی چیخیں گونج رہی ہیں، ان کے جلے ہوئے جسم اور قران کے جلے ہوئے اوراق ان کے بے بسی کی شہادت کا نوحہ سنا رہی ہیں، مجھے لیاقت بلوچ، اور ملک نعیم کے ساتھ وہ سفر بھی یاد ہے، جس میں لیاقت بلوچ کو کسی نے اکبر بگٹی کی شہادت کی خبر دی تھی، اور لیاقت بلوچ کی زبان سے بے اختیار نکل گیا تھا کہ ’’ملک کی سیاست کے لیے یہ بہت برا ہوا ہے۔‘‘ اس کے اثرات بہت برے ہوں گے، اور بلوچستان میں امن ایک خواب ہو جائے گا۔ پرویز مشرف کے جرائم بہت گھناونے، اور بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان کو امریکہ کے کہنے پر بدترین جنگ میں دھکیلنے سے لے کر، بلوچستان سے لے کر وانا اور وزیرستان کو آگ اور خون کے سمندر میں دھکیلنے تک، عافیہ صدیقی جیسی پاکستان کی بیٹی، اور بہت سے بے گناہوں کو ڈالروں میں فروخت کرنے تک، لال مسجد پر فاسفورس بموں سے حملہ کرنے سے لے کر ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ایک مجرم کی طرح ٹیلی ویژن پر بٹھا کر زبردستی بیان دلوانے تک، جو مکے لہرا کر طاقت کے نشے میں کہتا تھا کہ ’’میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں‘‘۔
جدے دیت، روشن خیالی، اور ترقی کے نام پر پاکستان میں جو تباہی پرویز مشرف نے پھیری ہے، اس کا مداوا بہت مشکل ہے، ایک عشرہ تک، وہ فرعون کے لہجے میں، مسجد، ملا، مدرسہ، اور جہاد کے خلاف بولتے رہے، قوانین بناتے رہے، ہزاروں، علماء، حفاظ قران، طلبہ ان کے دور میں شہید کیے گئے، اغوا کیے گئے، امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کیے گئے، لاپتہ کیے گئے، ایک دور سیاہ تھا، جس میں روشنی کے لیے لوگ ترستے تھے۔
پرویز مشرف نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کیا، کارگل جنگ میں مشرف نے ہمیشہ جھوٹ بولا۔ انھوں نے ایک منتخب وزیر اعظم کو اندھیرے میں رکھا، فروری 1999 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے اور دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ لاہور بھی طے ہوا۔ لیکن جب کارگل کے بارے میں بھارتی حکام کو خبر ہوئی تو انہوں نے اسے پاکستان کی جانب سے پیٹھ میں چھرا گھونپے جانے کے مترادف قرار دیا۔ کارگل جنگ نے کشمیر کی جد و جہدِ آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، اور کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو سفارتی سطح پر ایک ناجائز کاز بنا دیا۔ آج 5 فروری کو کشمیر کی آزادی سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستانیوں کو اس کا ادراک ہونا چاہیئے کہ کشمیر کے مسئلہ پر غداری کس نے کی ہے؟
پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا گلا گھونٹنے کا اقدام، تواتر سے ہوتا رہا ہے، ایوب خان، یحی خان، ضیاء الحق کے بعد پرویز مشرف نے صرف ذاتی مخاصمت کی بنیاد پر 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی آئینی حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نواز شریف کو پابندِ سلاسل کر دیا۔ نو گیارہ کے واقعے کے بعد امریکہ کے سامنے جنرل پرویز مشرف نے جس طرح گھٹنے ٹیک کر نہ صرف امریکی جنگ میں پاکستانی قوم کو جھونکنے کا شرمناک فیصلہ کیا اور پاکستانی ہوائی اڈے امریکی فوج کے حوالے کر دیے۔ بلکہ امریکہ کی تمام شرائط مان کر پاکستان کو ایک دلدل میں دھکیل دیا، جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔
جنرل پرویز مشرف کی کتاب In The Line of Fire کے انگریزی ایڈیشن میں انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ 2001 میں شروع ہونے والی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو دہشتگردی کے شبے میں امریکہ کے حوالے کیا۔ یہ انکشافات کتاب کے اردو ترجمے سے حذف کر دیئے گئے ہیں۔ لیکن انگریزی ایڈیشن میں ان کا ایہ اعتراف موجود ہے، ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ باب مشرف ہی کے دور میں پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی صورت میں شروع ہوا، جو آج بھی ہمارے ملک میں نا انصافی اور ظلم کا کلنک کا ٹیکہ بن کر ہمارے ماتھے پر سجا ہوا ہے۔ 2022 میں انتخابی دھاندلیاں، ایم کیو ایک کے مردہ وجود کو حیات بخشنے، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں نقیب لگانے، مسلم لیگ ق کو فتحیاب کرانے، پیپلز پارٹی پیٹریاٹ نام کا فارورڈ بلاک بنانے اور ظفر اللہ خان جمالی کو محض ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم پاکستان بنوانے کا کارنامہ انجام دیا گیا۔ فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کا بدترین مظاہرہ ہوا، جس کے ذریعے فوجی آمر کے لئے عوامی حمایت کا ڈھونگ رچانے کا سامان کیا۔ قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان مسلط کرنے اور اس کے خلاف آپریشن میں جو تباہی اس دور میں ہوئی ہم آج تک اس سے بھی نہیں نکل پائے۔
جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں امریکہ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون جیسے ظالمانہ اور غیر انسانی ہتھیار کے استعمال کی اجازت دی گئی۔ جس میں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہزاروں بیگناہ قبائلی شہریوں کی جانیں گئیں اور ہزاروں کی تعداد میں بوڑھے، بچے اور خواتین و حضرات اپاہج بھی ہوئے۔
مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو ایک نادر شاہی حکم کے ذریعے عہدہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ انہوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کیا تو ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھجوا دیا گیا۔ اسی کیس کی پہلی پیشی کے دن افتخار چودھری کو نہ صرف بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا بلکہ وکلا پر ڈنڈے بھی برسائے۔ پرویز مشرف نے این آر او دینے کا ریکارڈ قائم کیا، بینظیر بھٹو سے مذاکرات کے بعد 12 اکتوبر 1999 سے قبل بنائے جانے والے جرائم سے متعلق مقدمات کو ختم کیا گیا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی، بیوروکریسی اور اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیئے بلکہ راتوں رات ان مقدمات کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا۔ مشرف بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام سے بھی بری نہیں ہیں، 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔ ان کی جائے شہادت کو دھو دیا گیا جس سے موقع واردات سے تمام ثبوت مٹ گئے۔ گو مشرف کو بے نظیر قتل مقدمے میں بری کر دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم کو وہ سکیورٹی نہیں دی جو کہ ان کا حق تھا اور بالآخر ان کو قتل کر دیا گیا۔
پشاور ہائی کورٹ کی ایک خصوصی عدالت نے ملک میں ایمرجنسی لگانے پر، پرویز مشرف کو 2007 سزائے موت سنائی اور تفصیلی فیصلے میں سابق آمر کی لاش ڈی چوک میں لٹکانے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ دے کر عدلیہ کی تاریخ میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جناب وقار سیٹھ نے اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر لیا۔ لیکن کیا اس ملک میں یہ کھلواڑ کرنے والے اکیلے مشرف تھے؟ کیا ہمارے سیاست دان، عدلیہ سے تعلق رکھنے والے معززین، اشرافیہ، ترقی پسند، لبرل، جرنیل، ملک کی سلامتی اور تحفظ کے ادارے، ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ کیا یہ کھیل اب ختم ہو گیا ہے؟ تحریک طالبان پاکستان نے مشرف کی موت پر جو بیان جاری کیا ہے۔ اس کی آخری سطریں سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ مشرف سزا سے بچنے کے لیے بھاگتے رہے، لیکن اب وہ اپنے جرائم کے ساتھ اس سب سے بڑی عدالت کا سامنا کریں گے۔ جہاں ان کی حمایت کرنے والا کوئی نہ ہو گا؟ ان کے جرائم کی گواہی خود ان کے اعضاء دیں گے، اور ان کے سفارش کے لیے اس قہار و جبار ہستی کے سامنے اس کے اذن کے بغیر کسی کو دم مارنے کی اجازت نہ ہو گی۔
٭٭٭
سودے بازی نہیں ہونی چاہیئے؟
بازار میں اشیاء خورد نوش کی کمی نظر نہیں آتی، سبزیوں اور پھلوں سے ٹھیلے بھرے ہوئے ہیں، لیکن ان کو خریدنے والے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں، اکثر پھلوں اور سبزیوں کے ریٹ کے دام پوچھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، گوشت کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے، لوگ سستے آٹے کی تلاش میں ماری مارے پھر رہے ہیں، انڈے، دودھ، ڈبل روٹی اور خوردنی تیل اور گھی کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ رمضان کی آمد میں ابھی تین ماہ باقی ہیں۔ لیکن ملک بھر میں آٹے کے بعد سستے گھی اور کوکنگ آئل کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کو سستے آٹے، گھی، تیل کی سپلائی بند ہو چکی ہے لوگ گھنٹوں یوٹیلیٹی اسٹورز پر لائین میں اس امید پر کھڑے رہتے ہیں کہ انھیں آٹے کا تھیلا یا سستے گھی اور کوکنگ آئل کا ڈبہ مل جائے گا، لیکن اسٹور پر یہ اسٹاک آتے ہی ختم ہو جاتا ہے، اور لوگ لائین میں لگے کھڑے خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔
ملک میں مافیا کا راج ہے، تاجر صنعتکار، سیاست دان، بیوکریٹ سب لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تیل اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ آئل کمپنیوں کی جانب سے سپلائی میں کمی کر دی گئی جس کی وجہ سے ہول سیل مارکیٹ میں گھی اور آئل میں تیزی کا رجحان ہے، یہ سب رمضان کے لیے اسٹاک تیار کر رہے ہیں، جو نئی قیمتوں کے ساتھ آئے گا اور کوکنگ آئل کی قیمت میں مزید اضافے کر دیا جائے گا۔
قیمتوں میں من مانا اضافہ کرنا، ذخیرہ اندوزی کرنا، ملاوٹ کرنا، عیب چھپا کر مال فروخت کرنا، کم تولنا، کم ناپنا ہمارے معاشرے میں عام ہو گیا ہے، اب نہ کسی کو دین کا خیال ہے، اور نہ ہی دنیا کا، لوگ ڈھٹائی سے ملاوٹ کر رہے ہیں، بلکہ فتوی بھی لیتے ہیں کہ چائے کی پتی میں ہم چھلکا ملاتے ہیں، جو مضر صحت نہیں ہے، نیز اس کا مقصد چائے کی پتی کو ذائقہ دار بنانا ہے۔ شرعی اور معاشرتی طور پر یہ برائی ہے۔ جس کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ آج کا تاجر اگرچہ مسلمان ہے اور اُسے ان چیزوں کی برائی کا علم بھی ہے، مگر وہ یہ سب کام کر رہا ہے۔ اُسے یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ اُس کی ملاوٹ سے عوام کا کیا نقصان ہو رہا ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے: جس کے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ جاتا ہے تو اس کے تمام اعضا گناہ میں ملوث ہوتے ہیں اور وہ جسم جہنم کے قابل ہے۔ یہ تاجر دیندار بھی ہیں، جبہ قبا دستار اور داڑھی والے بھی ہیں، خیرات و زکوٰۃ بھی کرتے ہیں۔ لیکن حرام کما رہے ہیں۔ یہ تاجر نہ جانے لوگوں کو کیا کیا حرام اور حلال ملا کر کھلا رہے ہیں۔ بہت سے کیمیکل ایسے ہیں جن کو غذاؤں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ کوئی لیبارٹری نہیں جو ان کا ٹیسٹ کرے۔ کہ کون سے کیمیکل غذا یا دوسری قابل استعمال اشیا میں استعمال کرنے چاہییں اور وہ حلال بھی ہیں۔ آج کل حرام اور حلال کی ملاوٹ عام ہو گئی ہے۔ تاجروں کو ذاتی ناجائز منافع کمانے کی ہوس ہو گئی ہے۔ تاجر کی جہالت بھی معاشرہ کو لے ڈوبتی ہے۔ حکمران بھی ملاوٹ میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ کھلے عام رشوت کا بازار گرم ہے۔ بازاروں اور تاجروں پر حکومت کی کوئی رٹ قائم نہیں ہے۔ اس چور بازاری میں ہمارا معاشرہ بھی ساتھ دے رہا ہے۔ لوگ جانتے ہوں کہ ملاوٹ ہو رہی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی کوشش سے تاجروں کو منع نہ کریں تو یہ لوگ بھی ملاوٹ میں کسی حد تک شامل ہیں۔ دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے۔ اناج میں پانی، مٹی، کنکر اور روڑے ملائے جاتے ہیں۔ غذاؤں میں حرام کیمیکل ملائے جاتے ہیں۔ اصلی گھی، شہد حتیٰ کہ لال مرچ تک خالص نہیں مل پاتی۔
ان گنت اشیا میں ملاوٹ ہو رہی ہے، جس میں انسانوں کی صحت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ آج ملک میں خالص اور صاف پانی تک میسر نہیں۔ مٹھائی سے لے کر دوائی تک غلط اشیا کی ملاوٹ نے تاجروں کا اعتماد ختم کر دیا ہے۔ عوام جن کے ہاتھ میں ایک اختیار ہے کہ اُن کو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہر حال میں وہی کھانا پڑتا ہے، جو بازار میں میسر ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے کردار میں اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ زہر کو زہر جانتے ہوئے بھی کھا رہے ہیں؟ مکہ مدینہ کو عمرہ پر بار بار جانے والے تاجروں کے سامنے سعودی عرب کا معاشرہ بھی ہے، وہ بھی مسلمان ہیں اور ان کے ہاں نہ صرف اشیائے خوردنی سستی ہیں، بلکہ خالص بھی ہیں۔ وہاں اگر کسی جگہ سے ملاوٹ شدہ سامان آنے کی خبر ہوتی تو وہاں کے حکام ایسی برآمدات کو ختم کر دیتے ہیں اور تاجروں کو بھی سزا دیتے ہیں۔ ہمیں بھی ہر حال میں اپنے معاشرے کو ملاوٹ سے پاک کرنا چاہیے۔ لوگ علمائے کرام سے باغی ہوتے جا رہے ہیں کیوں کہ وہ ان کے قول و عمل میں بھی تضاد پاتے ہیں۔۔ معاشرے میں فری لائف (آزاد منش) طرز زندگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافے نے عوام کو گوشت سے بھی محروم کر دیا ہے، گائے کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، بکرے کا گوشت تو متوسط طبقے کے لیے ایک خواب ہی ہو گیا ہے، پنجاب میں تو فوڈ اتھارٹی کچھ نہ کچھ کاروائی کرتی ہے، لیکن صوبہ سندھ اور کراچی میں اس محکمہ کی کوئی کاروائی نظر نہیں آتی، سب کو فری ہینڈ دیا گیا ہے، کہ وہ جو چاہیں، لوگوں کو کھلائیں، جو ملاوٹ کرنا چاہیں کریں۔ یہاں ہر چیز کی رشوت کا ریٹ مقرر ہے۔ گندم کے ذخائر موجود ہونے کے باوجود سندھ حکومت کی آٹے کی فراہمی میں ناکامی اور اس کی قیمت میں اضافہ اس کی پیشانی پر ایک سیاہ داغ ہے۔ رمضان میں بیسن کی کھپت بڑ جاتی ہے، اور جعلی بیسن جس میں ناقص دالیں، اور جانے کیا کیا ملایا جاتا ہے، یہ جعلی بیسن ٹنوں کے حساب سے تیار کر کے عوام کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ مٹھائی کی دکانوں پر قیمتیں ہو شربا حد تک بڑھ چکی ہیں۔ اس وقت انسانوں میں ۷۰ سے ۸۰ فی صد بیماریاں یا تو ملاوٹ والی خوراک کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یا پھر نا خالص خوراک کی وجہ سے۔
پاکستان میں گردے کے امراض سے ہونے والے ہلاکتوں کی تعداد سالانہ بیس ہزار ہے۔ جبکہ تین کروڑ کے لگ شہری گردوں کی بیماریوں کا شکار ہیں۔ 2021 میں سرطان سے دو کروڑ افراد متاثر ہوئے، اور ایک کروڑ اموات ہوئیں، ہپاٹائٹس میں مبتلا دو کروڑ اور دل کی بیماریوں میں مبتلا چار کروڑ ہیں۔ اِس کے علاوہ ذیابیطس، فشارِ خون اور دُوسری تکالیف کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ یہ سب ناقص خوراک کا شاخسانہ ہے۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد مئیر شپ کے لیے تینوں جماعتوں، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، اور تحریک انصاف کے درمیان دوڑ لگی ہے۔ جماعت اسلامی کے لیے دونوں جماعتیں ایک طرف کنواں اور دوسری جانب کھائی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی شنید ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی کی اس کامیابی کو ملکی سیاست میں ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر کراچی کے مینڈیٹ پر ملکی سیاست میں جماعت اسلامی نے کوئی سودے بازی کی تو یہ کراچی کے عوام سے غداری ہو گی۔
٭٭٭
’بنو قابل‘ سے کراچی کی روشنیاں بحال ہوں گی
امریکہ میں مقیم سینئر صحافی عارف الحق عارف ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں، اور ہر جگہ ان کے اعزاز میں محفلیں منعقد ہو رہی ہیں، عارف الحق عارف صحت مند بھی ہیں، اور یاد داشت بھی کمال کی رکھتے ہیں۔ پچاس ساٹھ برس کا قصہ ہے، جو وہ ایک داستان گو کی طرح سناتے ہیں، ان کی داستانوں میں سیاست صحافت، شخصیات، واقعات، سب سموئے ہوتے ہیں، نوجوانوں کے لیے ان کی داستانوں میں بہت کچھ ہے، ایک شخص کی جد و جہد، اپنے پروفیشن سے لگاؤ، نئے آنے والوں کی رہنمائی، وہ سوشل میڈیا پر بھی اپنے سفر کا احوال، ملاقاتیں، پرانے قصے، لکھتے ہیں، ان کو پڑھنے والے اور سننے والوں کا ایک نیا حلقہ وجود میں آ گیا ہے، وہ فیس بک کے ابن بطوطہ ہیں، جن کو امریکہ برطانیہ، کنیڈا، بھارت، بنگلہ دیش اور جہاں جہاں اردو کے پڑھنے والے موجود ہیں، شوق اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ کراچی پریس کلب نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب رکھی۔ اگلے دن ہمایوں نقوی نے عارف الحق عارف کے ساتھ چند دوستوں کو مدعو کیا، ہمایوں نقوی کی دعوت اور محفل کا ایک الگ مزا ہے، یہاں کام دہن کی لذت کے ساتھ، مختلف موضوعات پر بھی گفتگو ہوتی ہے۔ اس بار انھوں نے یہ سوال اہل محفل کے سامنے رکھا کہ ہمارے یہاں ذہین افراد، اور اپنے شعبے کے قابل ترین افراد منظر نامے سے کیوں غائب ہوتے جا رہے ہیں؟ سوال اہم تھا، جس پر عارف الحق عارف، ممتاز اینکر انیق احمد، اور چند دوستوں نے اظہار خیال کیا۔
عارف الحق عارف نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے، بنگلہ دیش کی مثال دی، جہاں ہزاروں نوجوان، تعلیم کے میدان میں کامیاب ہو رہے ہیں اور عملی زندگی میں بھی وہ آئی ٹی کے میدان میں پیش رفت کر رہے ہیں، ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی اس شعبے میں بہت کام ہوا ہے، اور وہ اس وقت آئی ٹی کی فیلڈ میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں چند لوگ ہی ہوتے ہیں، جو کسی تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں، اور پھر ان خوابوں کی تکمیل میں جی جان سے لگ جاتے ہیں، پاکستان میں ہر شعبے میں ایسے لوگ موجود ہیں، اور بساط سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں، بدقسمتی سے ان کوششوں اور منصوبوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں ہے، حکومت نے بھی اس سلسلے کے کئی پروگرام شروع کر رکھ ہیں، لیکن لوگوں کی ان تک رسائی آسان نہیں ہے، اور نہ ہی ان منصوبوں اور پروگراموں کے بارے میں عوام کو مکمل آگاہی ہے۔ کراچی ہمیشہ سے ملک کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کراچی کے نوجوانوں کے ایسے رہنما بن کر ابھرے ہیں، جو نوجوانوں کو ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں، کرونا، کراچی کی بارشیں، سیلاب کی تباہی میں انھوں نے نوجوانوں کو لے کر جو کام کیئے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اب انھوں نے الخدمت کراچی کے تحت شہر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو آئی ٹی کی مہارت کی تربیت اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے مقصد کے ساتھ ایک نیا اور انتہائی پر جوش پروگرام ’بنو قابل‘ کے نام سے شروع کیا ہے تاکہ وہ 6 ماہ میں مہارت حاصل کر کے با عزت طریقے سے روزگار کمانا شروع کر سکیں۔
یہ اقدام کراچی کی تعمیرِ نو پروگرام کا حصہ ہے، جس کا آغاز حافظ نعیم الرحمان نے کراچی کی تعمیر نو کے سلسلے میں کیا تھا۔ ان کا وژن کراچی کی شان و شوکت کو بحال کرنا اور اسے ایک بار پھر دنیا کے سب سے زیادہ مقبول شہروں میں سے ایک بنانا ہے۔ اس پروگرام پر مرحلہ وار عمل درآمد کیا جا رہا ہے، پہلے مرحلے پر سیمنار، ورکشاپ، کانفرنس، تھنک ٹینک کے اجلاس، میں ان مسائل کا جائزہ لیا گیا تھا، جو کراچی کی تعمیر نو کے لیے اہم ہیں، اگلے مرحلے پر ان مسائل کے حل اور اس پر عمل درآمد تھا، اس سلسلے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور انھیں آئی ٹی کے شعبہ میں آگے بڑھنے کے مواقع دینے کے لیے عملی کام شروع ہوا ہے، اور طلبہ کو اینڈرائیڈ ایپ اور ویب سائٹ کے ذریعے بنو قابل ڈاٹ پی کے پر بنا کسی فیس کے رجسٹر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ چونکہ طلباء کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے درخواستیں دی گئی تھیں اور آئی ٹی کورسز کے لیے اسکالر شپ فراہم کرنے کی محدود وسائل تھے، اس لیے بہترین امیدواروں کو منتخب کرنے کے لیے ایک قابلیت جانچنے کے ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ جو ایک بے مثال ایونٹ تھا، جس میں ہزاروں طلبہ نے شرکت کی اور رجسٹریشن کرایا۔ آج اس سلسلے کا دوسرا پروگرام تھا، باغ جناح میں لڑکیوں، اور خواتین کی بہت بڑی تعداد نے اس پروگرام میں حصہ لے کر ثابت کر دیا کہ کراچی کی طالبات اور خواتین بھی اس مہم میں آگے آگے ہیں۔
کراچی ملک کا معاشی حب ہے، جہاں صنعت و تجارت کا پہیہ چلتا ہے، تو پورا ملک اس سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یہ شہر وفاق کو 65 سے 70 فیصد ریونیو بھی دیتا ہے، مگر یہاں کے نوجوان خصوصاً پڑھے لکھے نوجوان روز گار سے محروم رہتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کا قتل کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کراچی کے نوجوان اپنے ارد گرد مسائل ہی مسائل دیکھتے ہیں جو ان کیلئے اذیت اور پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
الخدمت ملک کی سب سے بڑی این جی او، اپنے نمایاں کاموں کی وجہ سے قومی افق پر روشنی بن کر ابھری ہے۔ الخدمت نے کراچی کے ان نوجوانوں کیلئے ’’ بنو قابل ‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے، وہ نہ صرف اس شہر بلکہ اس صوبے اور ملک میں بھی ایک روشن مثال بن کر ابھرے گا۔ جس میں کراچی کے لاکھوں نوجوان، ہنر مند بنیں گے۔ الخدمت اور Aptech (ایپٹیک) کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پایا ہے۔ الخدمت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر راشد قریشی اور Aptech (ایپٹیک) کی جانب سے سی ای او اقبال یوسف نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ جس کے تحت الخدمت پڑھے لکھے ہزاروں نوجوانوں کو یہ کورسز بلا معاوضہ کروائے گی۔ اس منصوبے کے لیے 100 ملین روپے کا تخمینہ لگایا ہے، جبکہ اس کے لیے 50 ملین روپے کی رقم مختص بھی کر دی گئی ہے۔ یہ اہم قدم کراچی میں ہزاروں میٹرک اور انٹر پاس بے روزگار نوجوانوں کو ہنر مند بنائے گا۔ الخدمت نے banoqabil.pk کے نام سے ویب سائٹ اور ایپ کا بھی اجرا کیا ہے جو گوکل اور ایپل اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کے تحت جو آئی ٹی کورسز کرائے جائیں گے۔ ان میں ویب ڈیولپمنٹ، ویب ڈیزائننگ، ایمزون اور فری لانسنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ سمیت دیگر کورسز شامل ہیں۔ ’بنو قابل‘ عالمی معیار کے ٹیکنالوجی ماہرین کی زیر قیادت اعلیٰ قدر کے آن لائن تربیتی پروگرام، خاص طور پر بنو قایل کے طلباء کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ جس میں الخدمت اب سی آئی ایس سی او اکیڈمی کا ایک سند یافتہ انسٹرکٹر ہے۔ طلباء یہاں سے اپنے سی سی این اے اور سی سی این پی کی اسناد (سرٹیفکیٹس) حاصل کر سکیں گے۔ اس سلسلے میں ایک آزمائشی پروگرام اس سال کے شروع میں، الخدمت نے پی آئی بی کالونی میں ایک ہنر مندی اور تربیت پر مشتمل ادارہ قائم کر کے کیا تھا جو ٹیلرنگ، الیکٹریشن، پلمبنگ اور واٹر ٹیسٹنگ لیب ٹیکنیشن کی تربیت فراہم کرتا ہے اور وہاں سے بہت سے نوجوان اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
اگلے مرحلے پر الخدمت کراچی میں کئی ایکڑ اراضی پر ایک اعلیٰ درجے کا ہنر مندی اور تربیت پر مشتمل ادارہ تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو توقع کے مطابق 2023 میں الخدمت کو دستیاب ہو جائے گا، یہ ادارہ ہزاروں طلباء کو مفت یا سبسڈی پر پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرے گا۔ ہمارے نوجوانوں میں غربت اور بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے، نوجوانوں کے پاس تعلیم بھی ہوتی ہے اور ذہانت بھی، مگر وسائل کی عدم دستیابی انہیں آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔ ایسے میں انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کریں۔ یہی نوجوان یا تو بھٹک کر برے راستے پر چل نکلتے ہیں یا پھر وہ چھوٹے موٹے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن ’بنو قابل‘ سے اس بات کی امید بندھی کہ کراچی کی روشنیاں پھر بحال ہوں گی۔
٭٭٭
کراچی کو کب تک لوٹو گے؟
مجھے اب کراچی کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے ڈر لگتا ہے، چلتے چلتے اچانک کوئی گڑھا، گٹر، سڑک کے بیچوں بیچ رکھا گملا، کسی گٹر میں کھڑا ہوا بانس، فٹ پاتھ پر رکھا ہوا، صوفہ، یا سڑک کے درمیان میں رکھا ہوا کموڈ، یا پلاسٹک کا بڑا سا باتھ ٹب، سڑک کے درمیان اگا ہوا درخت مجھے خطرہ کا نشان نظر آتا ہے۔ ایک بار ہم گلشن اقبال میں ڈینٹسٹ کے پاس گئے، میرے بچے اس وقت چھوٹے تھے، بیٹے نے گاڑی کا ایک طرف کا پچھلا دروازہ کھولا اور نیچے پیر رکھتے ہی غائب ہو گیا۔ اس سے بڑی بیٹی دوسرے دروازے سے اتری، اور اس نے اپنے بھائی کو نیچے ہوتے ہوئے دیکھا، وہ بھاگ کو دوسری جانب پہنچی تو ایک گٹر کھلا ہوا تھا، اور اس کا بھائی اس میں گر چکا تھا، میں گاڑی پارک کرنے میں مصروف تھا، جوں ہی گاڑی بند کی، مجھے میری بیٹی کی چیخوں کی آواز آئی، میں جب تک گاڑی سے نکلا ایک مجمع جمع ہو چکا تھا، اور ایک نیک دل شخص نے گٹر میں اتر کو فوراً ہی بچے کو باہر نکال لیا تھا۔ کیچڑ اور غلاظت اور کاکروچ اس کے جسم پر نظر آ رہے تھے، اس ہولناک حادثے کا میری بیٹی پر شدید اثر ہوا، اور اس کی چیخیں اب بھی مجھے اس واقعہ کی یاد دلاتی ہیں۔ خود میں بھی ایک بار ایسے ہی حادثے میں زخمی ہو چکا ہوں، ناظم آباد کے علاقے میں جہاں میں نے گاڑی کھڑی کی تھی، واپسی پر ایک بند گٹر کے ایک حصے پر میرا پاؤں پڑا اور گٹر کا ڈھکن اٹھ گیا اور میں اس کے اندر گر گیا۔ لوگوں نے میری مدد کی اور مجھے نکال لیا، لیکن چوٹیں کئی دن تک اس حادثے کی یاد دلاتی رہیں۔ کراچی میں کتنے بچے اور خواتین، موٹر سائیکل سوار ایسے حادثوں کا شکار ہو چکے ہیں، کراچی میں ہر ایک موٹر سائیکل سوار اپنی زندگی میں کم و بیش ایک دو بار ایسے حادثوں سے دوچار ہوتا ہے۔ آرتھوپیڈک کے کیسیز کراچی میں بہت زیادہ ہیں۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کم و بیش چالیس برس سے اس شہر پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ درمیان میں دو تین بار بلدیات اور مئیر شپ جماعت اسلامی کے حصے میں بھی آئی ہے، لیکن مئیر عبد الستار افغانی، اور نعمت اللہ خان نے جو خدمت کا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے، ایم کیو ایم کے میئرز اور پارٹی کے ایڈمنسٹریٹرز اس کے پاسنگ کو بھی نہ پہنچ سکے، رہی سہی کسر پیپلز پارٹی نے موجودہ دور میں پوری کر دی، اب سندھ کے دیہات اور کراچی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے، دونوں اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں، کراچی میں ٹرانسپورٹ کا بدترین نظام ہے، چن چی رکشوں، موٹر سائیکلوں کی کثرت، پانی کے ٹینکروں کی مسلسل آمد و رفت نے پورے کراچی کے مواصلاتی نظام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات اس شہر کی ضرورت ہیں، بہت سے ایسے مسائل جو تھوڑی بہت توجہ سے حل ہو سکتے ہیں، وہ ایماندار اور خدمت کرنے والے نمائندوں کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔ کراچی میں صفائی کا نظام ابتر ہے، حکومت نے جس کمپنی کو کروڑوں روپے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے، اب اس کی کچرا اٹھانے والی گاڑیاں کہیں نظر نہیں آتی، کچرے کے پلاسٹک کے بڑے ڈرم بھی غائب ہو گئے ہیں، اب کچرا اٹھانے کے لیے موٹر سائیکلوں پر لگے ٹھیلے نما سائیکل رکشہ استعمال ہوتے ہیں، وہ بھی کہیں کہیں کچرا اٹھاتے اور اسے شہر ہی میں کسی جگہ ڈمپ کرتے نظر آتے ہیں، تین ہٹی سے گرو مندر تک شہر کی اہم اور مصروف ترین دو طرفہ سڑک جہانگیر روڈ برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لیکن سندھ حکومت یا بلدیاتی ادارے اسے مکمل طور بنانے کو تیار نہیں، گذشتہ دنوں سڑک کے ایک حصے کی مرمت کی گئی تھی، جو ایک ہی بارش میں بہہ گئی۔ اسی طرح گرو مندر اور لسبیلہ چوک پر گہرے گہرے گڑھے پڑ گئے ہیں، جنہیں پر کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ جیل چورنگی پر بنے فلائی اوور سے جب یونیورسٹی روڈ پر اترا جائے تو یونیورسٹی روڈ اور فلائی کے ملاپ کے مقام پر سڑک مکمل طور پر ٹوٹ گئی ہے، جس کے باعث ہر وقت یہاں کسی جان لیوا حادثے کا خطرہ موجود ہے۔ کشمیر روڈ پر پڑھے گڑھے اور یونیورسٹی روڈ سے سر شاہ سلیمان روڈ کی جانب مڑنے والی سڑک پر ٹوٹ پھوٹ بھی ٹریفک کی روانی کو حسن اسکوائر کے قریب شدید متاثر کرتے ہیں، جہاں ایک سڑک دوسری سے قریباً 4 سے 6 انچ نیچے ہو گئی ہے، اس کے باعث یہاں ٹریفک جام رہنے کے ساتھ ساتھ حادثے کا خطرہ بھی ہر وقت موجود ہے، مگر کوئی اس پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ لیاقت آباد سے کریم آباد کی طرف جاتے ہوئے لیاقت فلائی اوور پر اور شہید ملت روڈ پر بنے عمر شریف انڈر پاس میں کئی جگہ گڑھوں کی موجودگی سے بھی ٹریفک کی روانی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ حادثات کا امکان ہر دم رہتا ہے۔ یہ کراچی کے پوش علاقے ہیں، باقی علاقوں کی تباہی تو دیکھی نہیں جا سکتی۔
کل سے کراچی میں چار روزہ بین الاقوامی دفاعی نمائش آئیڈیاز 2022 کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ہونے جا رہی ہے، جس کا افتتاح وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کریں گے۔ اس نمائش کے لیے حسن اسکوئر کے اطراف میں سڑکوں کو جس جادوئی طریقہ پر راتوں رات اپ ڈیٹ کیا گیا ہے، وہ ہماری بیوکریسی کا شاہکار ہے، ایکسپو کے سامنے سوک سینٹر کے چوراہے سے سارا کچرا صاف کر دیا گیا ہے، بلکہ پودے اور گھاس بھی لگا دی گئی ہے، تاکہ وزیر اعظم کو بتایا جا سکے کہ کراچی بہت ترقی یافتہ ہے۔ وزیر اعظم کو مزار قائد اعظم پر آنا چاہیئے اور گرو مندر کے اطراف کا بھی دورہ کرنا چاہیئے، اگر وہ اس کا صرف اعلان کر دیں تو صبح کو آپ کو صاف ستھرا چمکتا دمکتا گرو مندر کا علاقہ دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ چار روزہ دفاعی نمائش ڈیفنس ایکسپو سنٹر میں ہو گی۔ اور یہ چار دن ایکسپو کے آس پاس رہنے والوں کے لیے کس قدر عذاب ناک ہوں گے، اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پورے شہر کا ٹریفک درہم برہم ہو گا۔ لوگ گھنٹوں ٹریفک میں چار دن تک بار بار پھنسے رہیں گے۔ دل تو چاہتا ہے کہ یہ ایکسپو سنٹر اور کراچی اسٹیڈیم یہاں سے اٹھا کر بلاول ہاوس کے سامنے منتقل کرا دوں۔
اب کراچی میں تیسری بار بلدیاتی انتخابات ملتوی ہو رہے ہیں۔ سندھ کابینہ نے کراچی ڈویژن میں بلدیاتی الیکشن 90 روز کے لیے ملتوی کرنے کی منظوری دے دی ہے سندھ کابینہ کی منظوری سے متعلق الیکشن کمیشن کو آگاہ کر دیا۔ پیپلز پارٹی کا ساتھ متحدہ بھی دے رہی ہے، اور سابق ناکام، اور 12 مئی کے ماسٹر مائنڈ مئیر نے عدالت میں ان انتخابات کے التوا کی درخواست دی ہے۔ ایک سے ایک بہانے اور طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس بار بلدیاتی الیکشن آگے بڑھانے کے لیے سندھ حکومت نے بلدیاتی ایکٹ میں ملنے والے اختیارات کا استعمال کیا ہے۔ بلدیاتی ایکٹ میں شق 34 کو تبدیل کرنے سے 120 دن میں الیکشن ہر صورت کرانے کی پابندی ختم ہو گئی۔ اب تبدیلی کے بعد انتخابات 90 دن یا غیر معینہ مدت تک بھی نہیں کرائے جا سکیں
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی میں عوامی مسائل کو جس طرح اٹھایا، لوگوں میں اپنے حقوق کا شعور بیدار کیا، اس سے حکومت اور متحدہ کو خطرہ ہے کہ انتخابات کا یہ میدان حافظ نعیم الرحمان جیت لیں گے۔ اس لیے انھوں نے ہر طرح عوام کے عوامی نمائندوں کو آنے سے روکنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت، اور متحدہ ملے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی اور غیر قانونی ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کراچی سے جو خیر کی امیدیں تھیں وہ بھی یہ دیکھ کر ختم ہو گئی ہیں کہ سڑکوں کی استر کاری کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن، ناقص میٹریل کا استعمال سب کچھ ان کے دور میں ہو رہی ہے۔
کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اس سال بھی اس شہر کے باسیوں نے 42 فیصد زیادہ ٹیکس جمع کروایا ہے لیکن اس کے باوجود کراچی کے مسائل سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے۔
٭٭٭
میری جاسوسی کون کر رہا ہے؟
میں اپنے اس دوست نما دشمن سے پیار بھی کرتا ہوں، اور نفرت بھی، یہ میری زندگی میں جب سے آیا ہے، مجھے بہت سی سہولتیں بھی حاصل ہوئی ہیں، اور بہت سی مشکلات بھی، میں اس کے بغیر رہ بھی نہیں سکتا، اور اس کی موجودگی مجھے پریشان بھی بہت کرتی ہے، اس کے بغیر میں خود کو ادھورا سمجھتا ہوں، یہ میری زندگی میں اس قدر دخیل ہو گیا ہے کہ رات کو جب نیند سے آنکھیں بند ہونے لگتی ہی، تو بھی یہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ رات کو اکثر جب میری آنکھ کھلتی ہے، تو بھی سب سے پہلے میں اسے دیکھتا ہوں، میں اپنے روز مرہ کے کاموں میں خود کو اس کا محتاج پاتا ہوں، لوگوں سے میرے رابطہ بھی یہی کراتا ہے، مجھے کب کہاں جانا ہے، وہ بھی یہی بتاتا ہے، خوش خبری، اور منحوس خبریں بھی سب سے پہلے یہی دیتا ہے۔ کئی بار مجھے اس پر شدید غصہ آتا ہے، دل چاہتا ہے میں اس کو دیوار پر مار دوں، لیکن پھر تھک ہار کر اسے اپنے سے دور پٹخ دیتا ہوں۔ لیکن یہ دوری بھی بہت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ اور پھر میں اسے اٹھا لیتا ہوں۔ یہ میرے لیے دنیا تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ لیکن اب یہ میری نجی زندگی میں دوسروں کے گھسنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ یہ ایک جاسوس ہے، جو ہر دم میری جاسوسی کرتا ہے، میں کہاں جا رہا ہوں، کس سے مل رہا ہوں، میں نے کس جگہ کے کتنے وزٹ کیئے ہیں، میں نے کس ہوٹل میں کتنی بار کھانا کھایا ہے، اسے سب معلوم ہے، یہ میری تصویریں بھی جمع کرتا ہے، میرے الفاظ بھی نوٹ کرتا ہے، میں نے کب کس کو گالیاں دیں ہیں اور کب کس کو برا بھلا کہا ہے، کس کو مبارک باد دی ہے، اور کس کی شادی اور سالگرہ پر خوشی کا اظہار کیا ہے، سب اس کے پاس نوٹ ہے۔
یہ جاسوس بہت خطرناک ہے، یہ دشمن سے مل جائے، اور اس کے لگائے ہوئے جاسوسی کے سافٹ ویئر سے ساز باز کر لے تو، میری ہر چیز تک دشمن کی رسائی ہو جائے گی۔ جب سے اعظم سواتی کے رونے اور اس کی ویڈیوز کے لیک ہونے کے بارے میں سن رہا ہوں۔ مجھے اپنے اس جاسوس سے مزید ڈر لگنے لگا ہے۔ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں بلاول بھٹو، وزیر اعظم کو مشورہ دے رہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کی جاسوسی کے لیے وہ خفیہ ایجنسی کی ڈیوٹی لگائیں۔ بلاول بھٹو کی ماں، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو تو یہ کہتی کہتی اس دنیا سے چلی گئی کہ ان کے پیچھے خفیہ ایجنسی لگی ہیں۔
پاکستانی تاریخ میں سیاستدانوں کے فون ٹیپ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ ماضی میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اور اداروں پر جاسوسی کے الزامات عائد کرتی آئی ہیں۔ لیکن وہ پرانے زمانے تھے، اب نئے انداز نئے آلات ہیں، اب تو ایسی ویب سائٹ ہیں، جو وزیر اعظم سے لے کر ملک کی اہم شخصیات تک کی مبینہ آڈیوز یا ویڈیوز کی بولی لگا کر نیلام کر رہی ہیں
یہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کی ویڈیوز ہیں۔ یہ آڈیوز 100 گھنٹوں سے بھی زیادہ طویل دورانیے کے ریکارڈ شدہ اس ڈیٹا کا حصہ ہیں جس کی خریداری کے لیے بنیادی قیمت تین لاکھ 45 ہزار ڈالر مقرر کی گئی ہے۔ اوپن سورس انٹیلیجنس انسائڈر کا دعویٰ ہے کہ یہ فون پر ہونے والی گفتگو نہیں بلکہ پی ایم آفس میں ریکارڈ کی گئی گفتگو ہے۔ شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اس معاملے کی انکوائری کرا رہے ہیں، لیکن اب ایک کے بعد ایک ویڈیوز آنا شروع ہو چکی ہیں۔ معاملہ ان ویڈیوز سے بڑھ کر ایک ملک اور قوم کا ہے، یہ ہر سیاسی جماعت اور ہر پاکستانی کا معاملہ ہے کیا ہم اخلاقی سطح پر اس قدر نیچے چلے گئے ہیں کہ اب گھر کی عورتوں کی ویڈیوز بھی آنا شروع ہو گئی ہیں۔
ڈارک ویب تو ساری دنیا میں بدنام ہے۔ اس کے سرے تلاش کرنا تقریباً نا ممکن ہے اور اس کی یہی خصوصیت اسے سیاسی کارکنوں سے لے کر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد تک سب میں مقبول بناتی ہے۔ انٹرنیٹ کی اس ‘بلیک مارکیٹ’ میں صرف معلومات ہی نہیں بلکہ جعلی پاسپورٹس، ہتھیار، منشیات اور فحش مواد سب کچھ میسر ہے۔ ڈارک ویب در اصل دنیا بھر میں موجود ایسے کمپیوٹر صارفین کا نیٹ ورک ہے جن کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کو کسی قانون کا پابند نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظر رکھنی چاہیے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ خفیہ ریکارڈنگ کرتا کون ہے؟ اس ریکارڈنگ کی اجازت کون دیتا ہے۔ یہ وہ اہم سوال ہے جو ماضی میں بھی پاکستان کے سیاست دانوں اور دیگر اہم شخصیات کی جانب سے پوچھا جاتا رہا ہے اور آج بھی پوچھا جا رہا ہے۔ ہم جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو الزامات لگاتے ہیں، اور جب اقتدار میں ہوتے ہیں، تو اپنے مخالفین کی ان ویڈیوز کو سند کے طور پر لے کر ٹی وی پر پریس کانفرنس کرتے دکھائی دیتے ہیں، آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا،
سیاہی کا یہ داغ مٹ
یہ
یہ داغ مٹ نہ پائے گا۔
ایک بزرگ جانے کن کن ممالک کے دورے کے بعد، منصورہ پہنچتے ہیں، گھر جانے سے پہلے دار المال جاتے ہیں، اپنی شیروانی جیبوں سے ریال، ڈالر، پونڈ، کرنسی نوٹ، روپے، چیک نکالتے ہیں، ایک ایک جیب ٹٹولتے ہیں، کسی کونے کھدرے میں کچھ رہ نہ جائے، سب کچھ نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں، اطمینان کا سانس لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں، یہ سب جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کر کے رسید لکھ دو، شکر الحمد للہ کہتے ہوئے، کہتے ہیں میرے سر سے بوجھ اتر گیا۔ اب میں اطمینان سے گھر جا سکتا ہوں، یہ بزرگ خلیل احمد حامدی ہیں، جماعت اسلامی کے رہنما معروف عالم دین، مولانا ابو اعلیٰ مودودی کے قریبی ساتھی دعوت دین کے لیے ملکوں ملکوں گھومتے، جو تحفے تحائف ملتے، چندہ اکھٹا ہوتا، وہ دورے سے واپسی پر گھر جانے سے پہلے جماعت کے بیت المال میں جمع کرا دیتے۔
سید منور حسن کی صاحبزادی کی شادی ہوئی، بہت سے تحفے ملے، کئی لاکھ روپے کی مالیت کے، منور حسن نے بیٹی سے کہا، یہ تحفے منور حسن کی بیٹی کو نہیں ملے، یہ تو جماعت اسلامی کے امیر کی صاحبزادی کو ملے ہیں، چنانچہ یہ تحائف تمام کے تمام اٹھا کر جماعت کے بیت المال میں جمع کرا دیئے گئے۔ امانت کا یہ تصور ہی کسی معاشرے کی جان ہوتا ہے۔ مودودی کی ویڈیو دیکھیں، سو کروڑ سے زیادہ کے تحائف جو انھیں ان کے مداح دوست احباب چیک، نقد رقم، تصویروں، تحائف کی صورت میں دیتے انھیں سرکاری خزانے میں جمع کراتے، پھر اس کا باقاعدہ نیلام ہوتا۔ انھوں نے یہ سو کروڑ روپے بچیوں کی تعلیم کے لیے خرچ کیئے۔
یہ ٹھیک ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے تحائف حکومت کے بنائے ہوئے قواعد کے تحت ہی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن انھیں فروخت کر کے رقم کمانے کسی ہیرو کو زیب نہیں دیتا۔ قوم کے ہیرو اپنے اصولوں اور اخلاق اپنے پیروں کاروں کو تعلیم دیتے ہیں۔ مودی کو کس نے منع کیا تھا کہ وہ یہ تحائف اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، قانون میں یہ گنجائش موجود تھی کہ اگر کوئی سربراہِ مملکت چاہے تو وہ ملنے والے کسی تحفے کو مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے مگر پاکستان اور انڈیا میں ایسے تحائف کی نیلامی بھی کی جاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔ نواز شریف اور اس کے بعد آنے والوں نے اس اصول کو توڑا۔ پاکستان کے تین سابق حکمرانوں نے اس اپنے چہرے پر وہ کالک مل لی ہے، جو بار دھونے سے بھی کبھی نہ اتر پائے گی۔ تاریخ میں وہ چور، خائن، بد دیانت، امانت کا پاس نہ کرنے والے ہی کہلائیں گے، ان کو توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑ ا، یہ ملک کے سابق وزراء اعظم، میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، اور عمران خان ہیں، صدر کے عہدے کو آلودہ کرنے والے آصف زرداری بھی ان میں شامل ہیں، ان کے پاس یوں بھی دولت کے انبار ہیں۔ ان کو کس چیز کی کمی تھی۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارت عظمی کے دوران قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی۔ آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 ‘Li’ 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ آصف زرداری آج بھی یہ گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں، انھوں نے عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔
ہم ملک میں انصاف کی دھائی دیتے ہیں، امانت دار صدیق کہلانے کے کہاں سے حقدار ٹھہر تے ہیں، جب قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹتے ہیں، کبھی بیرون ملک دوروں کے نام پر، کبھی بیرون ملک علاج کے نام پر کبھی اپنے استحقاق کے نام پر قومی خزانے سے پیشہ خرچ کرتے ہیں۔ اب عمران خان بد دیانت اور خائن ہو چکے ہیں، ہمارا قانون موم کی ناک ہے، جدھر چاہیں موڑ دیں، اس لیے اب اس بات کا امکان ہے کہ وہ اس مقدمے سے بری ہو جائیں گے، لیکن ان پر یہ داغ ایسا ہے جو کبھی دھل نہ سکے گا۔
انھیں عدالت ریلیف دینا چاہتی ہے، انھیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے، احتجاجی سیاست ترک کرے الیکشن کی طرف آنا چاہیئے، اگلا سال الیکشن کا سال ہے، انھیں اب اس کی تیاریاں کرنا چاہیئے۔
٭٭٭
سیلاب کیوں آتے ہیں؟
شجاعت اور دلیری کی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں، ہست بر مومن شہید زندگی۔ بر منافق مرد نیست و زندگی۔ مولانا روم نے کہا کہ مومن کے لیے شہادت زندگی ہے، منافق کے لیے موت اور تباہی ہے۔ جس نے ایک انسان کی جان بچا لی، اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی، سیلاب نے کیسی تباہی مچائی ہے، کیا اس بار واقعی پہاڑ روئے ہیں؟ اگر یہ پہاڑ انسان کے، انسان پر حد سے زیادہ ظلم پر روئے ہیں تو پھر انسان ہی اس سیلاب میں کیوں ڈوبے، ظالم اور طاقت ور تو اب بھی نشہ میں چور ہیں، وہی منافقت، وہی چوری، وہی لوٹ مار، اس بار انہیں سیلاب پر چندہ کھانے، امداد کا مال جمع کرنے کا موقع پھر مل گیا ہے، انسانیت کا درد رکھنے والے تو اپنے حصہ کا کام کر رہے ہیں، دنیا بھر سے پاکستان کو امداد، سیلاب کے آفت زدگان کے نام پر ملے گی، لیکن کیا یہ سرکار اور حکمرانوں کے ہاتھوں سے اہل، مستحق، غربت کے مارے، گھروں سے محروم، پانی سے گھرے، بھوکے ننگے عوام تک پہنچ پائے گی؟
سندھ میں تباہی بہت پھیلی ہے، سلسلہ رکا نہیں ہے، ابھی اور پھیلے گی، بلکہ پھیلائی جا رہی ہے، اپنی زمینوں اور فصلوں کو بچانے کے لیے پانی کے ریلے کا رخ آبادیوں کی طرف کیا جا رہا ہے، اب پرانا دور نہیں ہے، یہ واقعات چھپے نہیں رہ سکتے۔ مکروہ چہرے سب کے سامنے ہیں، ان کے کرتوت بھی سامنے ہیں، ان کی منافقت کا پردہ چاک ہو رہا ہے، یہ جو، ادی کا شوہر پچاس پچاس روپے غریبوں میں بانٹ کر حاتم طائی کی سخاوت کو چیلنج کر رہا ہے، یہ مصیبت زدہ افراد کا مذاق اڑا رہا ہے، پورے پاکستان میں 200 سے زائد ہیلی کاپٹر حکومت کے پاس ہیں، امدادی سرگرمیوں میں کہیں نظر نہیں آئے، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے تک پانی میں گھرے مصیبت کے مارے افراد امداد کے لیے پکارتے پکارتے لوگوں کے سامنے پانی کے ریلے میں بہہ گئے۔ روتے ہوئے انسان حالات سے مجبور ہیں کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں، نہ کشتی، نہ ہیلی کاپٹر، نہ کوئی اور امداد کا سامان، لوگ کمر سے رسے باندھ کر بپھرتی موجوں کا مقابلے کر رہے ہیں، زندگی کا ٹمٹماتا چراغ پھر سے جلا رہے ہیں، جن کو بچا سکتے ہیں، بچا رہے ہیں، باپ اپنے دو بیٹوں کی جان بچانے کے لیے سرکش موجوں سے لڑ رہا ہے، بہتے پانی میں پوری قوت سے دونوں بچوں کو اٹھا کر تیرنے اور کنارے پر کھڑے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کامیاب بھی ہو جاتا ہے، اور بچوں کو محفوظ ہاتھوں میں بھی دے دیتا ہے، لیکن خود موجوں میں بہہ جاتا ہے، ان پانچ بھائیوں کی فریاد سن رہا ہوں۔ جو پانی سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے امداد کے لیے پکار رہے ہیں۔ لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں، ویڈیو بنا رہے ہیں۔ مدد کے لیے اداروں کو پکار رہے ہیں۔ لیکن کوئی امدادی ہیلی کاپٹر نہیں پہنچا اور پانچوں نوجوان پانی میں بہہ گئے۔ الخدمت کے نوجوان ہیں، جان کی پروا کیے بغیر رسوں سے ڈوبی ہوئی کار کو پانی سے نکال رہے ہیں۔ اللہ جس کو چاہے زندگی دے۔ دو خواتین زندہ بچ گئیں۔ پاکستان میں بارشوں کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ روز سیلاب سے ہونے والی اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے، لاشیں پانی میں تیر رہی ہیں۔ مجموعی طور پر 14 جون سے اب تک طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ایک ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ سیلابی ریلوں نے پل، سڑک، ریلوے لائن سب کچھ توڑ پھوڑ دیا ہے۔ بہت سے علاقوں کی حالت بہت مخدوش ہے۔ لوگوں کے پاس پینے کے لیے پانی نہیں ہے، کھانے کے لیے خوراک نہیں ہے، پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں مائیں نڈھال ہیں، جانور پانی میں بہہ گئے، جو بچ گئے ہیں، بھوکے کھڑے ہیں، ان کے لیے چارہ کہاں سے آئے۔ جانور کے تھن دودھ سے محروم ہیں اور بچے بھوک سے بے حال ہیں۔ سارے المیے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والے پانی نے ہولناک تباہی مچائی ہے، لوگ بے گھر ہیں، ہزاروں ایکڑ فصلیں زیر آب آ گئیں۔ جتنی بڑی تباہی ہوئی ہے، اتنی بڑی تیاری نہیں ہوئی، این ڈی ایم اے کا ادارہ کھوکھلا اور بے جان ہے، نہ کوئی تیاری نہ کوئی ویژن۔ بس امداد کا انتظار کر رہا ہے۔ جماعت اسلامی کی الخدمت اور کچھ این جی اوز رضاکارانہ طور پر امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں، مگر اس کے باوجود متاثرین سیلاب کو موقع پر مکمل امداد فراہم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ تمام سرکاری مشینری سیلاب متاثرین کی امداد میں حرکت میں لانے کے بجائے مخالفین کی گرفتاری اور عمران خان کی دہشت گردی کی ایف آئی آر پر عمل درآمد کرانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ نیا پاکستان والے اب بھی جلسوں میں مصروف ہیں۔ انہیں بھوک سے بلکتے بچے، پریشان اور مفلوک الحال امداد کے منتظر عوام نظر نہیں آ رہے۔ امداد کے لیے سینکڑوں کیمپ، خوراک اور طبی امداد کی ضرورت ہے۔ این ڈی ایم اے صرف نقصانات کی رپورٹ بنا رہا ہے۔ زیریں سندھ کے حیدر آباد اور میر پور خاص کے اضلاع بدین، ٹھٹھہ، سجاول، سانگھڑ اور عمر کوٹ میں میں کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ کچے مکانات گر گئے ہیں۔ پہلے بارشوں میں لوگ دیہاتوں سے باہر نکل کر سڑک پر آ کر بیٹھ جاتے تھے، لیکن اس بار سڑکیں بھی زیر آب آ گئی ہیں۔ منافع خوری کا کوئی موقع ہم ضائع نہیں کرتے اس لیے خیموں کی قیمت جو دو دن پہلے تین چار ہزار تھی اب ان خیموں کی قیمت دس سے بارہ ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ سندھ میں حکومت امدادی کام میں مصروف این جی اوز کے آسرے پر ہے، اور ان اداروں سے کہا جا رہا ہے کہ امدادی سامان حکومت کے حوالے کر دیں، وہ مستحقین میں تقسیم کریں گے۔ ان کے گوداموں میں تو اب تک پچھلا امدادی سامان بھرا ہوا ہے، میر پور خاص میں ایک سرکاری گودام سے ہزاروں مچھر دانی برآمد ہوئی ہیں، جو غریبوں میں مفت تقسیم کرنا تھی۔ غریبوں کو امداد کے نام پر جو سامان غیر ممالک بھیجتے ہیں، وہ بین الاقوامی معیار کا ہوتا ہے، جب امداد کے نام پر چاکلیٹ، دودھ کے ڈبے، بہترین ٹینٹ، بستر اور کپڑے آتے ہیں تو سرکاری اہلکاروں کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔ وہ کہتے یہ قیمتی چیزیں ان غریبوں میں تقسیم کریں، یہ تو انہیں خراب کر دیں گے۔ یہ ان کے لیے نہیں ہیں، انہیں علیحدہ رکھ دو، یہ ہم آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ ایسے کفن چور حکمرانوں کے دور میں سیلاب اور آفات نہ آئیں تو کیا آئے، پھر کہتے ہیں سیلاب اور زلزلے کیوں آتے ہیں؟
٭٭٭
حف حرف کہانی، امین جالندھری اور جمہوریت ہی راستہ ہے
حرف حرف کہانی۔ امین جالندھری
پشاور میں دھماکے سے پہلے پاکستانی عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم پھٹا تھا، پیٹرول کی قیمت میں ایک ہی دن میں 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا، اس سے پہلے کہ عوام اس پر احتجاج کرتے، ملک میں شور مچتا، سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر خبروں کا طوفان آتا، پشاور میں جمعہ کی نماز میں بم دھماکہ ہو گیا، پھر کسی کو یہ یاد بھی نہ رہا کہ ملک کی عوام پر مہنگائی کا بم پھٹنے سے لاکھوں لوگ موت آنے سے پہلے مر گئے ہیں، ان کے جسموں کے چیتھڑے فضا میں اڑ رہے ہیں، ان کے جسم کے خون کے قطرے ہر چیز پر جمے ہوئے ہیں، اور ان کی لاشیں نوچنے والے گدھ، آئی ایم ایف کے ہرکاروں کی صورت میں ملک کے کروڑو عوام کا گلا دبانے اور ان کا گوشت نوچنے کے لیے موجود ہیں۔ برسوں سے ملک کی سیاست اور میڈیا منیجمنٹ کے منیجروں نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے، جب حکومت کی جانب عوام کا غم و غصہ اور غیض و غضب بے قابو ہو تو اس کا رخ کسی اور طرف موڑ دو، کوئی ایسا بڑا سانحہ، حادثہ، واقعہ ہو جائے، جو اس اصل معاملے سے عوام کی توجہ ہٹا دے۔ یہ سانحہ، حادثے، اور دھماکے کرنے والے کبھی بلیک واٹر، کبھی داعش، کبھی طالبان، کبھی را کے ایجنٹ، کبھی تحریک طالبان، بن کر اس کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں، تفتیشی ادارے ان دھماکے کے ملزمان تک نہ صرف پہنچ جاتے ہیں، بلکہ جائے وقوع سے ملزمان کی سم، اور جسمانی اعضا بھی برآمد کر کے ان کی ڈی این اے کرا کے سارے گینگ کو پکڑ لیتے ہیں، پھر یہ بھی کمال ہوتا ہے کہ کسی برس کی تحقیق، تفتیش، مقدمے، عدالتی کاروائی کے بعد یہ ملزمان بری بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ کھیل صرف پاکستان ہی میں ہو سکتا ہے۔ اور ہم بار بار اسی کھیل کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اس پر کوئی توجہ بھی نہیں دیتے، ہمارے میڈیا پر ہونے والے شو اس کا ذکر بھی نہیں کرتے، اینکرز کی زبانیں، ان موضوعات پر خاموش ہو جاتی ہیں۔
مجھے یہ سب ناصر الدین محمود کے منتخب کالموں کے مجموعہ ’’جمہوریت ہی راستہ‘‘ پڑھ کر یاد آیا۔ اپنی تخلیق کے بعد سے پاکستان سیاسی سماجی اور معاشی نظام کو فطری ارتقاء کے اصولوں کے مطابق آگے بڑھنے سے روکا گیا ہے۔ اس راہ میں بڑے بڑے انقلاب آئے، ملک کے دو منتخب وزراء اعظم قتل کر دیئے گئے، تین بار ملک میں مارشل لاء لگا۔ منتخب وزراء اعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے روکا گیا۔ جمہوریت کے جسم پر جو زخم بار بار لگائے گئے، جبر کے جو راستہ مسلط کیے گئے، بے رحمی کے جو ضابطے تشکیل دیے گئے، اس سے اس قوم کی جان نکل گئی ہے، یہ ایک بے روح لاشہ ہے، جو ہر جور و ستم کی عادی ہو چکی ہے۔ ناصر الدین محمود ایک سیاسی کارکن ہیں، جو جمہوری جد و جہد پر یقین رکھتے ہیں، ان کے مضامین ملک کے بڑے اخبارات میں شائع ہوئے، اور انھوں نے تسلسل سے ان معاملات پر لکھا ہے، ان کے مضامین میں ایک گہرائی ہے، اور سرسری تبصرے سے گریز کرتے ہوئے تفصیل اور مسائل کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے، وہ معاشی بحران، سیاسی معاملات، اندرونی اور بیرونی سازشوں، امریکہ کی چالا کیاں، عالمی اداروں کی بے وفائی اور لوٹ مار کے تمام واقعات کو ان کے سیاہ سباق کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔ ناصر الدین محمود کی یہ کتاب مجھے فضلی سنز کے طارق رحمن کے توسط سے ملی، اور ہمارے دوست عبد الستار شیخ نے جو سیاست کے میدان میں تبدیلی کا خواب دیکھتے رہتے ہیں، اور اب بھی ایک نئے سیاسی جماعت بنا کر عام آدمی سے ایک انقلاب کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ انھوں نے بھی اس کا تذکرہ کیا۔ پاکستان میں ایسے سیاسی کارکن کم ہیں، جو ملک کے اہم مسائل پر غور و خوض کرتے ہیں، بلکہ ان پر قلم بھی اٹھاتے ہیں۔ اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کتاب سیاسی کارکنوں کے لیے ایک ریفرنس کا درجہ رکھتی ہے۔ جس سے انھیں فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
حیدرآباد نے شعر و ادب کی دنیا میں، قابل اجمیری، حمایت علی شاعر، پروفیسر عنایت علی خان، جیسے نابغے پیدا کیے۔ شعر و ادب کی محفلیں اس شہر کی جان ہیں، یہ محفلیں گاہے بگاہے آج بھی منعقد ہوتی ہیں، رابطہ کے پلیٹ فارم سے ہمارے دوست امین جالندھری یہ تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ امین جالندھری ایک اچھے افسانہ نگار ہیں، ان کے افسانوں میں تخیل کی ندرت شامل ہے۔ میں انھیں پیار و محبت میں ’بابا‘ کہتا ہوں۔ بابا امین جالندھری ہمارے سٹی کالج کے بابا ہیں۔ ہم نے ان کی سیاست دیکھی ہے۔ کتنے ہیرے تراشے حمید فاروقی منور، عبد الجبار، اور اجرک اوڑھے ہوئے بابا۔ بابا جادوگر ہے۔ اپنی چادر کے بکل سے نئے نئے شعبدے نکال لاتا ہے۔ اور حیران کر جاتا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے بابا میرا پیچھا کر رہا ہے۔ بابا امین جالندھری کی ایک ادبی انجمن ہے۔ رابطہ حیدرآباد میں اس کے پروگراموں کی دھوم ہے۔ شاعر ادیب کوئی بھی ہو رابطہ کے ربط میں رہتا ہے۔ ان کی دو کتابیں ”حرف روشنی” مضامین کا مجموعہ اور ’’حرف حرف کہانی‘‘ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہیں۔ حرف حرف روشنی میں انھوں نے اپنے دوستوں ساتھیوں کو جس طرح یاد کیا ہے، وہ دل پر اثر کرتا ہے، صابر ذوقی، مضطر ہاشمی، کے قصے، شہر کے ادبی معرکے، اس کتاب میں رقم ہیں۔ ان کی کتاب ’حرف حرف کہانی‘ میں 30 افسانے ہیں، بہت ہی کمال کے افسانے، جن کی شہرت اب بھارت تک پہنچ گئی ہے۔ میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو ایک کے بعد ایک کہانی حیرت کے باب کھولتی گئی۔ ’حرف حرف کہانی‘ کی پہلی کہانی نے ہی دماغ کی بتی گھما دی۔ یہ بابا تو واقعی بابا ہے۔ کچھ انوکھی نگری کا مسافر اسے بابوں سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔ اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی کے بابے اسرار و رموز کے گورکھ دھندے ایک انجانی دنیا کے مسافر۔ امین جالندھری کے افسانے ’’موڑ کا سجاد‘، یا ’چکنگ ب 45‘ کا نور الدین، یا خمار کی ماروی یا مسافر کے فضل خان سب ہمارے معاشرے کے عام سے کردار ہیں۔ لیکن امین جالندھری نے اپنے قلم سے انھیں ایک ایسے قالب میں ڈھال دیا۔ جو ہمیں ایک اور دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ اس کائنات کا۔ نظام چلانے والے نے کس کس کو کہاں کہاں ڈیوٹی سونپی ہوئی ہے۔ یہ کس کس بھیس میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ جانے نظر آتے بھی ہیں یا نہیں۔ ابھی میں ان افسانوں کے سحر میں ڈوبا ہوا ہوں۔ حرف حرف کہانی کے افسانے ان تمام لوگوں کو دعوت مطالعہ دے رہے ہیں جو ادب میں جمود یا نئے خیال نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں۔ ان افسانوں کی ملک گیر پیمانے پر پذیرائی ہوئی چاہیے۔
٭٭٭
میرا تعارف
عطا محمد خان کا قلمی نام عطا محمد تبسم ہے۔ آپ فروری ۱۹۵۴ء میں حیدرآباد (سندھ) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۷۲ء میں جامعہ سندھ سے اقتصادیات میں ایم اے اور ۱۹۸۰ء میں جامعہ کراچی سے صحافت میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ ۱۹۷۴ء سے ہفت روزہ افریشیاء لاہور، نوائے وقت کراچی، جسارت، پی پی آئی، ہفت روز و تکبیر، ہفت روزہ فاتح، این این آئی، ماہنامہ رابطہ ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلیویژن، روز نامہ قومی اخبار، روز نامہ ایکسپریس، جہان پاکستان، روز نامہ جنگ کراچی، روزنامہ جسارت، روزنامہ نئی بات، روزنامہ امت سمیت مختلف اخبارات و رسائل میں صحافتی خدمات انجام دیتے رہے ہیں، اور ان اخبارات میں کالم بھی تحریر کرتے ہیں۔ ان کے کالم ہماری ویب، جسارت بلاگ، اردو ویب سائیٹ، دانش، پر بھی شائع ہوتے ہیں۔ عطا محمد خان نے ۱۹۸۱ء میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کے ایڈور ٹائزنگ اور سیلز پر موشن ڈیپارٹمنٹ میں بطور ایگزیکیٹیو آفیسر شمولیت اختیار کی اور اس شعبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ۲۰۱۴ء میں وہ اسٹیٹ لائف کے کارپوریٹ کیمونیکیشن ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کے سربراہ اور ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ انھیں پبلک ریلیشنز اور میڈیا کنسلٹینسی کا وسیع تجربہ ہے۔ انھوں نے عالمی بنک کے ایک پروجیکٹ (سیڈا) میں بھی میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ عطا محمد تبسم اس وقت آج نیوز کے ادارتی شعبے کے سر براہ ہیں۔ کالم نویس، افسانہ نگار، اسکرپٹ رائٹر، شاعر، مصنف عطا محمد تبسم معاشی، کاروباری، سماجی، اور سیاسی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کے فکر انگیز کالم اور مضامین قومی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ بیمہ زندگی کے قومی ادارے سے وابستگی اور شعبے میں اشتہارات اور فروخت کاری (سیلز پرموشن) کے موضوع پر اردو میں معلوماتی اور تربیتی مواد کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے انھوں نے اسٹیٹ لائف کے خبر نامے (اسپاٹ لائٹ حالیہ تحفظ) قومی اخبارات اور رسائل میں ان موضوعات پر مضامین لکھ کر اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے مضامین بیمہ کی صنعت کے کارکنوں میں نہایت دلچسپی اور شوق سے پڑھے گئے۔ سوشل میڈیا پر بیمہ کار، اور انشورنس پر ان کا بلاگ
www.facebook.com/ata.tabussum بے حد مقبول ہے۔ علاوہ ازیں وہ ویب سائٹ beemakar.com کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں۔ ان کی کتاب، فروخت کا فن،، مارکیٹنگ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کی رہنمائی اور اس کیئریر میں کامیابی کے لئے ایک مفید کتاب ہے۔ کتاب کی مقبولیت ہی کے سبب اس کا نظر ثانی شدہ تیسرا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔ عطا محد تبسم انشورنس، مارکیٹنگ کے معروف جریدے بیمہ کار، کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں۔ یہ رسالہ گزشتہ 36 برسوں سے مستقل شائع ہو رہا ہے۔ مارکیٹنگ پر ان کی دو کتاب مارکیٹنگ کے گر، سومنٹ سونکات بھی حال ہی میں شائع ہوئی ہیں۔ سوانح اور بایو گرافی ان کے خصوصی دلچسپی کے شعبے ہیں، وہ امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، قاضی حسین احمد، سراج الحق پر بھی کتابیں لکھ چکے ہیں، جو ان کے قلمی نام خرم بدر کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔ انھوں نے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی یاد داشتوں کو مرتب کیا ہے، اور کتاب ’سید منور حسن یاد داشتیں‘ شائع کی ہے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں