اردو محفل (مرحوم) کے اراکین کی ٹائپ شدہ ایک کلاسیکی پیشکش
شریر بیوی
از قلم
عظیم بیگ چغتائی
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
شریر بیوی
مرزا عظیم بیگ چغتائی
مرحوم اردو محفل کی پیشکش
اس پر مذاق مگر اصلاحی ناول میں نو باب ہیں
اور
ہر باب ایک جداگانہ اور مکمل افسانہ ہے
پہلا باب : ہماری شرارتیں
آج ہم ناظرین کو اپنی شرارتوں کا کچھ مختصر سا حال سناتے ہیں۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہمارے والد صاحب کانپور میں تھے تو ہم ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے اور گورنمنٹ بنگلہ میں ٹھنڈی سڑک پر رہتے تھے۔ اتوار کا دن تھا اور صبح تڑکے ہی ہمارے بنگلہ پر دو تین دوست وارد ہوئے۔ جب سے طے ہو گیا تھا کہ دریا کے کنارے ککڑی کھانے چلیں گے۔ ہم لوگ بنگلے سے صبح ہی صبح نکلے۔ جیسے ہی باہر نکلے کوئی صاحب باہر سڑک کے کنارے بیٹھے پیشاب کر رہے تھے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو یہ کام کیا گیا کہ ایک دم سے ان کے دونوں کندھے پکڑ کر بالکل چِت لٹا دیا اور یہ جا وہ جا۔ گالیاں تو نہ معلوم کتنی دیں مگر دور سے یہ ضرور دیکھا کہ وہ نل پر نہا رہے ہیں۔ ذرا آگے بڑھے تو ایک صاحب بائیسکل پر جا رہے تھے۔ لہٰذا ہم اُچک کر کیل پر پیچھے کھڑے ہو گئے تھے اچھے آدمی تھے۔ ہنسنے لگے۔ ہم خفیف ہو کر تھوڑی دیر میں اتر پڑے۔ ایک دوسرے صاحب ملے۔ ان کی سائیکل پر جو ہم کھڑے ہوئے تو وہ بے حد خفا ہوئے۔ حتی کہ ہمیں چپت مار کر بھاگنا پڑا۔ ایک اور صاحب سائیکل سوار ایک تار کے کھمبے کے پاس کھڑے سگریٹ سُلگا رہے تھے۔ ان کے پاس پہنچ کر ہم نے کہا حضرت ذرا دیا سلائی عنایت کیجئے گا۔ انہوں نے دے دی۔ تو ہم نے کہا ذرا سگریٹ دیجئے گا۔ تو انہوں نے کہا "ایسے اُلّو کہیں اور رہتے ہیں۔” ہم نے دیا سلائی جیب میں رکھی اور کہا "اچھا نہ دیجئے۔” وہ ہمارے پیچھے دوڑے مگر لا حول ولا قوۃ کہاں ہم کہاں وہ۔ ہم لوگ بہت آگے نکل گئے اور وہ واپس گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے مڑ کر جو دیکھا تو وہ حضرت سائیکل پر آہستہ آہستہ چلے آ رہے ہیں۔ ہم ایک کنارے کے درخت کی آڑ میں چھپ گئے کہ کہیں دیکھ نہ لیں ہم نے دیکھا کہ منہ میں ان کی سگریٹ ہے۔ جیسے ہی سائیکل برابر آئی ہاتھ بڑھا سگریٹ ان کے منہ سے چھین لیا انہوں نے جو دیکھا تو جھک کر سلام کیا وہ بر افروختہ ہو کر ہمارے پیچھے سائیکل رکھ کر دوڑے۔ ادھر ہمارے ایک ساتھی نے کیا کیا کہ ان کی سائیکل لے کر یہ جا وہ جا۔ وہ ہم کو چھوڑ کر ادھر لپکے جب ہم نے یہ دیکھا تو ہم رک گئے اور ہمارے ساتھی نے کچھ دور جا کر سائیکل زمین پر ڈال دی، لیکن ایک سوراخ اس کے ٹیوب میں کر دیا۔ ہم دوسری سڑک پر اپنے ساتھیوں سے جا ملے۔ داہنے ہاتھ کو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک بڑا بھاری میدان دور تک چلا گیا ہے۔ ایک آدمی لوٹا لے کر بیچ میدان میں چلا جا رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ پاخانے جا رہا ہے۔ جس بنگلہ سے وہ آیا تھا وہ بہت دور تھا۔ ہم فوراً سڑک چھوڑ کر اس کے پاس دوڑتے ہوئے گئے اور پکارتے جاتے تھے کہ بھائی ذرا بات سن لو۔ ہانپتے ہانپتے ہم اس کے پاس پہنچے۔ اس کی شکل دیکھ کر ڈر معلوم ہوا۔ کیونکہ تگڑا جوان مضبوط تھا۔ مگر ہم بھی جان پر کھیل گئے کہ ہماری محنت اکارت نہ جائے۔ اُلٹی سیدھی دو ایک باتیں کر کے لوٹے میں ہاتھ مار کر گرا دیا اور یہ جا وہ جا۔ وہ بے تحاشا ہماری طرف دوڑا مگر ہماری خوش قسمتی کہیئے کہ اس قوت نے اس کو روک لیا جس سے رستم بھی عاری ہو گا۔ ہم نے مڑ کر جو دیکھا تو وہ حضرت مجسمۂ شکست تھے۔ پھر تو ہم نے اس کو مارے اینٹوں کے پریشان کر دیا۔ غرض اس فرض کو انجام دے کر کچھ دور گئے ہوں گے کہ دیکھا کہ ایک پہلوان صاحب تہ بند باندھے چلے جا رہے تھے ان کے قدم ایسے پڑ رہے تھے کہ ہمارے منہ میں پانی بھر آیا کہ کاش کہ ہم ان سے بھی کچھ دلچسپی لیتے اور کم از کم ان کی مضبوط پنڈلیوں میں پیر اڑا کر گراتے۔ ہمارے ساتھیوں نے کہا کہ یہ ہم کو ضرور مارے گا۔ ہم اس کی رائے نہیں دیتے۔
ہم نے کہا "خواہ جان جائے یا رہے ہم اس کو ضرور ایک ٹنگڑی دیں گے۔”
ہمارے ساتھی گھبرا کر الگ ہو گئے مگر ہم نے اللہ کا نام لے کر پیچھے سے جا کر ان کے پیر میں پیر ایسا اڑایا کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے۔ وہیں سے پہلوان صاحب جوتا لے کر اٹھے اور اٹھتے اٹھتے انہوں نے جوتا پھینک کر مارا جو ہماری پیٹھ میں لگا۔ ہم نے حماقت کی جو مڑ کر دیکھا کیوں کہ چشم زدن میں ہم پکڑ لئے گئے۔ اور پہلوان صاحب نے ہمارے ایک طمانچہ ایسا مارا کہ اگر ہم اپنے ہاتھ پر نہ روکتے تو شاید ہمارا منہ پھر جاتا۔ دوسرا پڑنے ہی کو تھا کہ ہمارے ساتھی نے ان کے سونے کے کام کی ٹوپی ان کے سر سے اچک لی۔ ہمیں چھوڑ کر یہ ادھر بھاگے اور ہمارے ساتھی نے ان کی ٹوپی پھینک کر اپنی جان بچائی۔ بہت اُلٹا سیدھا چکر دے کر راہ کاٹی۔ ہم چلے جا رہے تھے کہ ایک صاحب نے ہم کو ایک دکان سے پکارا کہ "میاں صاحب زادے! ذرا بات سُن جاؤ۔” ہم جو پہنچے تو انہوں نے ایک خط پیش کیا کہ یہ بڑا ضروری خط ہے ذرا پڑھ دو۔ ہماری جان ہی تو جل گئی ہم ذرا دکان سے ہٹ کر خط کو چاک کر کے معہ اپنے ساتھیوں کے ایسے بھاگے کہ کان میں گالیوں کی بھی خوشگوار آواز نہیں پہنچ سکی۔ ذرا آگے پہنچے تو دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں چوں کہ ہمیں یہ منظور نہ تھا کہ ان میں لڑائی ہو، ہم نے بھی شرکت کی اور بالکل انصاف سے کام لیا کہ دونوں کو ڈھیلوں سے مارنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں لڑائی چھوڑ کر ہم پر حملہ آور ہوئے۔ مگر ہم بھلا کہاں ہاتھ آتے تھے۔ دُور سے دیکھا کہ ان دونوں میں صلح تھی کیونکہ دونوں ساتھ چلے جا رہے تھے۔ پیاس بہت لگ رہی تھی ایک نل پر پہنچ کر ہم نے پانی پیا۔ پاس ہی ایک کتاب والے نے ایک بڑی سی چٹائی بچھائی اور دکان لگائی تھی۔ ہم نے جو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نل سے جو پانی بہہ کر ضائع جا رہا تھا۔ بڑی آسانی سے ایک کچی منڈیر توڑ کر اس طرح استعمال ہو سکتا ہے کہ ان کتب فروش صاحب کی دکان کو سیراب کر دے۔ چنانچہ فوراً اس پر عمل در آمد کیا گیا اور ہم کو اس میں وہ لطف آیا کہ بیان سے باہر۔ کتب فروش صاحب اپنی کتابوں کو بچانے کے لئے اس بری طرح کود پھاند رہے تھے کہ ہم بیان نہیں کر سکتے۔ کچھ آگے بڑھ کر ہم نے دیکھا کہ ایک ساقی صاحب زبردست حقہ لئے چلے آ رہے ہیں۔ چلم کے سر پر گویا ایک بے چندوے کی ٹرکش کیپ رکھی تھی اور کوئلے چوٹی تک بھرے ہوئے خوب دہک رہے تھے۔ ہم لوگ سلام علیک کر کے آگے بڑھے اور حقہ گڑگڑانے لگے۔ ہمارے دوسرے ساتھی حقہ کی تعریف میں مشغول تھے اور ساقی صاحب کو باتوں میں لگائے تھے۔ ہم نے آنکھ سے اشارہ کیا اور ایک لمبی سانس لے کر اپنے دونوں پھیپھڑوں کی قوت صرف کر کے زور سے جو حقہ کو پھونکا تو پانی چلم کے اندر پہنچا ادھر ساقی صاحب کوئلوں کے بجھنے کی آواز سے چلم کی طرف متوجہ ہوئے ہی تھے کہ ہم سر پر پیر رکھ کر بھاگے۔ نہ معلوم کتنی گالیاں سنیں۔ کچھ اور فاصلے پر جا کر ہم نے پتنگ بازی دیکھی اور کچھ ڈور بھی لُوٹی، جو پھینک پھانک دی۔ کچھ ہو دور گئے تھے کہ سامنے سے مس ولیم اپنی بائیسکل پر آتی نظر پڑی۔ یہ ایک لڑکی تھی جو مشن اسکول میں پڑھتی تھی اور ہم سے بہت ڈرتی تھی کیونکہ ہم موقع بموقع جب کبھی اس کو دور سے آتے ہوئے دیکھتے تو اپنی سائیکل کی ہوا نکال کر کھڑے ہو جاتے اور سائیکل روک کر اس کا پمپ لے کر خوب دیر لگا کر ہوا بھرتے۔ ہم نے اس کو اتنا تنگ کیا تھا کہ ہر جگہ اس کو روکتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز پکڑ کر اس کے باپ کے بنگلہ پر لے جائے گئے۔ لیکن وہاں بجائے مارے جانے کے ہماری خاطر ہوئی اور کیک کھانے کی نوبت آئی۔ نتیجہ اس پیشی کا یہ ہوا کہ مس صاحبہ الٹی ڈانٹی گئیں۔ اور ہم سے کہا گیا کہ تم ضرورتاً اس سے پمپ مانگ کر سائیکل میں ہوا بھر لیا کرو۔ مس موصوفہ نے ہم سے مصالحت ان شرائط پر کی تھی کہ ہم کو دیکھتے ہی سائیکل سے اکنّی سڑک پر ڈال دیتی تھیں اور ہم محض سلام ہی پر اکتفا کرتے تھے۔ حالانکہ ہمارے پاس سائیکل نہ تھی مگر ہم نے آگے آ کر روکنا چاہا۔ فوراً اکنّی وصول کر کے فوجی سلام کر کے سائیکل کو جانے دیا۔ اس سے فرصت پائی تھی کہ سامنے سے دو گورے آتے نظر پڑے وہ ابھی دور ہی تھے کہ ہم نے قطعی طے کر لیا کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ان سے ہم ضرور الجھیں گے۔ وہ جب قریب آئے تو ہم اقبال کرتے ہیں کہ ہم ڈر گئے اور کچھ نہ کر سکے۔ مگر تھوڑی دیر بعد جوش آیا اور اپنا راستہ چھوڑ کر گوروں کا پیچھا کیا۔ قصہ مختصر کوئی خاص شرارت کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ لہٰذا مجبوراً ہم نے پیچھے سے ان پر دھول پھینکنے پر اکتفا کی اور سر پر پیر رکھ کر بھاگ آئے۔
خدا خدا کر کے نہ معلوم کتنا چکر کاٹ کر آخرش دریا پر پہنچے۔ یہاں کچھ اور لوگ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ککڑی کے کھیت دریا کے بیچوں بیچ ایک جزیرہ پر تھے اور وہاں جانے کے لئے کسی نیک مہاجن نے ایک ناؤ وقف کر دی تھی یہ ناؤ بڑی سی تھی اور اس کے دونوں کناروں پر رسّے بندھے ہوئے تھے۔ ایک رسّہ اس کنارے کھونٹے سے بندھا ہوا تھا اور دوسرا رسّہ دریا کے اُس پار۔ ہم لوگ ناؤ میں سوار ہو گئے۔ دوسرا سرا رسّے کا گھسیٹ کر اس پار کھیت پر پہنچے۔ کھیت پر پہنچ کر ہم نے پیسے کی چار ککڑیاں ٹھہرائیں۔ مگر شرط یہ رکھی کہ کڑوی ہوں گی تو پھینک دیں گے اور دوسری لیں گے۔ چنانچہ بہت سی میٹھی ککڑیاں کاٹ کاٹ کر پھینک دیں اور دوسری اس کے عوض لیں۔ مگر چلتے وقت جب حساب ہو چکا تو زمین سے وہ ککڑیاں بھی اٹھا کر کھا گئے اور اس طرح سے ہم کو بجائے پیسہ کی چار کے پیسے کی پانچ ککڑیاں پڑیں۔
یہاں کنارے پر سادھو لوگ بھی رہتے تھے اور ہم نے نہایت ہی صفائی سے ایک بہت عمدہ قسم کا چمٹا یعنی آگ اٹھانے کا دست پناہ چرایا اور اس کو کوٹ میں چھپا کر لے آئے۔
واپسی کے وقت ہم لوگ جو ناؤ پر پہنچے تو وہ اس پار تھی اور کچھ لوگ اس پر بیٹھا ہی چاہتے تھے۔ ہم فوراً ہی دوڑے اور رسّہ کھینچنا شروع کیا۔ یہ ہماری انتہائی بد تمیزی تصوّر کی گئی اور غصہ میں آ کر وہ لوگ ادھر سے کھینچنے لگے۔ مگر اس رسّہ کشی میں ہم کو فتح ہوئی اور ہم ناؤ پر بیٹھ گئے۔ چونکہ ہم ان لوگوں کو سزا دینا چاہتے تھے، لہٰذا اس کنارے پر کی ہم نے میخ رسّہ گھسیٹ کر اکھیڑ دی۔ جس کا علم ان کو جب ہوا جب ہم ذرا دور سے کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ اب اس پار نہیں جا سکتے تھے۔ یہاں سے یاروں کی رائے ہوئی کہ بھئی چلو بے فصلے بے دانہ امرود کے باغ مین چلیں۔ اور قصہ مختصر کوئی دو میل کا فاصلہ طے کیا اور باغ میں پہنچ گئے۔
باغ بہت بڑا تھا۔ اور ہم نے طے کیا کہ اس پر ہر چہار طرف سے حملہ کرنا چاہیئے چنانچہ دو دو تین تین کو ٹولیاں بن گئیں اور چاروں طرف کنارہ کے درختوں پر چڑھ گئے اور بے تکلف امرود توڑنا اور پھینکنا شروع کئے۔ باغبان کی نظر پہلے ہمارے اُوپر پڑی اور وہ دوڑا سامنے والی پارٹی نے جو دیکھا کہ اس نے ہم کو دیکھ لیا ہے تو انہوں نے بے تحاشا لکڑی سے کچے بکے امرود جھاڑنا شروع کئے اور غل مچا کر اپنی طرف متوجہ کی اس نے دیکھا کہ نقصان ادھر زیادہ ہو رہا ہے وہ ادھر بھاگا اور ادھر ہم اس کے پیچھے پیچھے اس کی جھونپڑی پر حملہ آور ہوئے۔ اور جو کچھ پایا لوٹ لیا۔ مٹی کے گھڑے پھوڑ ڈالے اور حقہ پھینک دیا غرض خوب نقصان کیا۔ وہ لوگ درخت سے اتر کر بھاگے۔ جب دیکھا باغبان نہیں مانتا تو دوسری پارٹی کی طرف اشارہ کیا کہ دیکھ وہ زیادہ نقصان کر رہے ہیں۔ اس نے جو مڑ کر دیکھا تو برا حال تھا۔ ہماری پارٹی کے جواں مرد مارے لکڑیوں کے درختوں کو بچھائے دیتے تھے۔ وہ بد قسمت ادھر دوڑا کہ پارٹی نے پھر اپنی جگہ لے لی۔ قصہ مختصر ذرا سی دیر میں وہ ہانپ کر تھک کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا "خوب کھاؤ” ہم نے تعمیل کی اور مزے سے کھا کر لوٹ آئے۔
واپسی میں ہم کو ایک کھیت کے کنارے ایک ناریل کا حقہ رکھا ملا۔ جس کا حقہ تھا وہ ذرا فاصلے پر کنویں کے پاس تھا۔ ہم نے فوراً حقہ اٹھا لیا اور مزے میں اس وقت تک اس سے دلچسپی لیتے رہے جب تک اس نے کام دیا، پھر پھینک دیا۔ وہاں سے واپسی میں ہم کو ایک درخت ملا جس پر کچے پکے کیتھے لگے ہوئے تھے۔ رائے ہوئی کہ ان کو توڑنا چاہیے۔ پھر کیا تھا سیکڑوں ہزاروں کیتھے گرا دیئے۔ اتنے میں ایک آدمی آ گیا۔ اس نے بد زبانی کی تو ہم نے اس کو فوراً اسی سادھو والے چمٹے سے مارنا شروع کیا۔ قصہ مختصر اس کو ادھیڑ کر ڈال دیا، مگر مارنا بند نہ کیا۔ اس کی خوش قسمتی تھی جو سامنے سے چار پانچ آدمی ہم کو لٹھ لیے غل مچاتے، شور کرتے آتے نظر پڑے۔ ہم وہاں سے تیر کی طرح بھاگے۔ ہمارا بہت پیچھا کیا، مگر بے کار۔ واپسی میں کسی نئی شرارت کا موقع ہی نہ ملا۔ سوائے اس کے کہ ایک خوانچے والے کی مٹھائی اس طرح خراب کی کہ اس کے پاس والی نالی میں اس زور سے پتھر مارا کہ تمام چھینٹیں اُڑ کر اس کے اور اس کے خوانچہ پر پڑیں۔ ہوتے ہوتے وہاں سے اولن ملز کمپنی کے پاس سے ہوتے ہوئے ہم ینگ مین ایسوسی ایشن کلب پہنچے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ فٹ بال کا میچ ہو رہا ہے اور کثرت سے ہجوم ہے۔ گوروں سے میچ ہو رہا تھا۔ ہمارے سب ساتھی الگ ہو گئے تھے۔ صرف وہی دو رہ گئے تھے جو ہمارے بنگلے سے ہمارے ساتھ ہوئے تھے۔ اور ہم بھی تھکے ہوئے تھے۔ لہٰذا میچ میں جی نہ لگتا تھا۔ بہت ترکیبیں سوچیں کہ کیا کریں مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ مجبوراً وقت گزارنے کے لیے وہاں پہنچے جہاں بے شمار سائیکلوں کا ہجوم تھا۔ اور سیفٹی پن نکل کر پنکچر کرنا شروع کیے۔ قصہ مختصر ساری سائیکلیں بیکار کر دیں۔ اس سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ معاً خیال آیا کہ میچ ختم کرانا چاہیے۔ فٹ بال میدان سے باہر بھی آ گرتی تھی اور لڑکے دوڑ کر اٹھا کر کھلاڑیوں کو واپس کر دیتے تھے۔ ہم نے بھی ایک مرتبہ یہ خدمت انجام دی لیکن آہستہ سے اپنے سیفٹی پن کی نوک اس میں چبھو دی۔ مشکل ہی سے دو کک اس میں لگے ہوں گے کہ دوسرا فٹ بال جو موجود رہتا ہے، مانگا گیا۔ اس کا بھی ہم نے وہی حشر کیا۔ چلئے چھٹی ہوئی اور فٹ بال ہی نہ رہا۔ میچ گڑبڑ ہو گیا۔ مگر ساتھ ہی ہمارے اوپر شبہ سا کیا گیا اور ہم نے بہتر سمجھا کہ وہاں سے کھسک آئیں۔ میچ درہم برہم ہو گیا اور اصل لطف تو جب آیا، جب سب کے سب بائیسکل والے اپنی بائیسکلوں پر چڑھ کر فوراً ہی اترنے پر مجبور ہوئے۔ عجیب لطف آ رہا تھا۔ سب لوگ کہہ رہے تھے یہ کون شریر تھا۔ جس نے فٹ بال کو بھی بگاڑا، اور بائیسکلوں کو بھی۔ میچ سے ہم واپس آ کر اپنے بنگلہ میں داخل ہونے ہی کو تھے کہ ہم نے دیکھا کہ سامنے کے پریڈ کے میدان میں دو سانڈ لڑ رہے ہیں۔ یہ میدان چاروں طرف سے ایک نیچی دیوار سے گھرا ہوا ہے جس پر سلاخچے لگے ہوئے ہیں۔ ہم اس پر کھڑے ہو کر تماشہ دیکھنے لگے لیکن کچھ لوگ اندر کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ منجملہ اوروں کے ان میں ایک مٹھائی والا بھی تھا۔ سانڈوں میں ایسی ریل پیل ہوئی کہ خوانچہ والا دیوار اور سانڈوں کے بیچ میں اس طرح آ گیا کہ اس کو دیوار پر خوانچہ کندھے پر رکھے رکھے اس طرح بیٹھنا پڑا کہ خوانچہ ہمارے سامنے مثل دستر خوان کے لگ گیا۔ ہم نے بھی خوب کھایا خوانچہ ولا دیکھ رہا تھا اور کچھ نہ کر سکتا تھا کیونکہ غل غپاڑہ اور ہلڑ بیحد تھا۔ افسوس کہ ہماری ہنسی نے ہم کو زیادہ نہ کھانے دیا اور لڑائی ختم ہونے سے پہلے ہی ہم بھاگ گئے۔ چراغ چل گئے تھے کہ اتنے میں ایک صاحب آئے۔ انہوں نے کہا کہ چلو کھلونوں کا میلہ دیکھ آئیں جو نہ معلوم یاد نہیں کہ کون سے مندر کے احاطہ میں ہوتا تھا۔ ہم نے پہلے تو انکار کیا مگر پھر چلنا پڑا۔ پریڈ کے میدان میں سے گزر کر اس کے دوسرے پھاٹک پر نکلے۔ دیکھا کہ ایک آدمی کپڑے کی دکان لگائے ہوئے ہے۔ اس دکان کی اس نے چادریں تان کر کپڑے ہی کی چھت بنائی تھی ہم اس کی پشت پر سے ہو کر گزرے کہ ہم کو ایک چھوٹا سا ٹھیلہ نظر پڑا جس پر یہ کپڑے گھر سے لاد کر لایا تھا۔ ہم نے فوراً ٹھیلہ کو دور لے جا کر زور سے دوڑا کر دکان کی پشت میں اس زور سے ریلا کہ وہ کپڑے کی دیوار توڑتا ہوا دکان کے اندر اس طرح گھُس گیا کہ ساری دکان گر گئی۔ اندر سے دو آدمیوں کے چیخنے کی آواز آئی مگر ہم بھاگ گئے۔ اب ٹریموے کی پٹری پٹری جا رہے تھے۔ خیال آیا کہ لاؤ ٹریموے کی پٹری پر اینٹ رکھیں دیکھیں کیا ہوتا ہے، فوراً رکھ دی اور اسپتال کی پشت کی طرف کھڑے ہو کر تماشہ دیکھنے لگے۔ ایک ٹریموے اتنے میں زور سے آئی اور اینٹ پر آ کر بڑے جھٹکے سے رُکی۔ ٹریموے والے نے غل مچایا اور ایک سپاہی دوڑا ہوا آیا لوگوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور ایک پاجی آدمی نے نہ معلوم ہم لوگوں کی طرف کچھ شبہ سے انگلی اٹھائی کیونکہ ہم لوگ اسپتال کی دیوار پھاند کر بھاگے اور ہمارے پیچھے کانسٹیبل دوڑا۔ ہم اسپتال کی کمپاؤنڈ میں اندھیرے میں بے تحاشا بھاگے اور بد قسمتی سے ٹھوکر کھا کر گرے اور پکڑے گئے۔ کانسٹیبل نے بری طرح ہم کو گھسیٹا اور ڈانٹا اور پکڑ کر لے چلا۔ مگر ہم بھلا کاہے کو جنبش کرنے والے تھے۔ وہیں پسر گئے۔ وہ ہمارا نام اور پتہ دریافت کرتا تھا اور ہم بتا کر فوراً چھوٹ سکتے تھے۔ مگر اس میں اندیشہ تھا کہ گھر پر مرمت ہو گی۔ لہٰذا ہم نے نہ بتایا۔ اتنے میں ہماری کمک آ گئی۔ اور ہم نے اطمینان سے دیکھا کہ ہمارا ساتھی کانسٹیبل پر پیچھے سے حملہ آور ہوا۔ اور صافہ جھپٹ کر چلتا بنا۔ کانسٹیبل کا اُدھر منہ کرنا تھا کہ ہم نے جھٹکا دے کر ہاتھ چھٹایا اور یہ جا وہ جا۔ اور ہمارا ساتھی بھی تھوڑی دور چل کر ہمیں ملا۔ صافہ پھینک کر آیا تھا۔ ہم لوگ سیدھے اپنے مندر کی طرف چلے۔ راستہ میں دیکھا کہ ایک خوانچہ والے نے ایک نوجوان مزدور کو پکڑ رکھا ہے اور حجت ہو رہی ہے۔ ہم فوراً سے پہنچے اور دخل در معقولات کیا۔ ہم نے خوانچے والے کو بڑی بُری طرح ڈانٹا کہ ہمارے نوکر کو چھوڑو کیوں پکڑتے ہو، یہ ہمارا آدمی ہے۔ اس نے کہا کہ مجھ کو اس سے پانچ آنہ پیسے لینا ہیں۔ ہم نے فوراً کہا اس کے ہم ذمہ دار ہیں۔ اس کو چھوڑ دو، وہ چھوٹتے ہی بھاگا اور ادھر ہم بھی روانہ ہو گئے۔ مندر کے احاطے میں پہنچے۔ بڑے زور سے میلہ لگا ہوا تھا۔ وہ دھکا پیل تھی کہ خدا کی پناہ سب سے پیشتر یہ طے ہوا کہ کچالو اور سونٹھ کے بتاشے کھائے جائیں۔ چنانچہ خوب اس سے شوق کیا۔ اس کے بعد اسی جگہ بیٹھ کر مٹھائی کی ٹھہری ہم روپیہ لے کر مٹھائی لینے ایک ساتھی کے ساتھ گئے اور باقی کو وہیں چھوڑا۔ ہر دکان پر پہنچ کر مٹھائی چکھی اور وہ بھی اس طرح کہ آخر انہوں نے چکھانے سے انکار کر دیا۔ ہم نے بنگالی مٹھائی پسند کی۔ حالانکہ ہمارے ساتھی کشمیری برہمن تھے مگر دکاندار ہم دونوں کو بھنگی سمجھتا تھا اور کہا الگ کھڑے ہو۔ ہم کو بُرا معلوم ہوا۔ اُس نے سیر بھر مٹھائی ہماری فرمائش سے تولی اور بجائے ہاتھ میں دینے کے ہم سے کہنے لگا۔ ہاتھ پھیلاؤ۔ ہم نے ہاتھ پھیلا دیئے۔ اس نے دور ہی سے دونہ مٹھائی کا ہمارے ہاتھوں پر چھوڑا۔ ہم نے فوراً ہاتھ ڈھیلے کر دیئے اور دونہ مٹھائی کا نیچے گرا۔ ہم گرج کر فوراً دکاندار پر برس پڑے اور اُدھر وہ دکان پر سے اتر پڑا کہ اپنے پورے دام لے لوں گا۔ پورا فتنہ کھڑا ہو گیا۔ مگر ہم نے نہ دام دینے تھے نہ دیئے۔ دوسری جگہ سے مٹھائی خریدی اور کھا کر پان والے کی دکان پر پہنچے۔ یہ پان کی دکان بھی دیکھنے کے لائق تھی۔ پان والا صدر دروازہ کے بائیں طرف قدِ آدم اونچائی پر ایک پاڑ باندھ کر بیٹھا تھا اور دکان کو ایسا سجایا تھا کہ لوگ اسی دکان پر ٹوٹے پڑتے تھے۔ پان والے صاحب اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھے ہوئے تھے دکان پر بیسیوں رنگ برنگ بوتلیں اور سجاوٹ کا سامان چنا ہوا بڑی اونچائی تک چلا گیا تھا اور کپڑے کی چھت لگائی تھی۔ جس میں قندیلیں اور قمقمے آویزاں تھے۔ بہت سی تصویریں چاروں طرف لگی تھیں۔ ہاتھ میں پنواڑی صاحب کے ایک قمچی تھی جو وہ ہر ایسے لونڈے کے رسید کرتے تھے جو ان کے مچان کے کھمبے کے پاس آتا تھا۔ ہم کو یہ بہت بُرا معلوم ہوا اور ہم نے ان سے کہا کہ ایسا کیوں کرتے ہو تو انہوں نے کہا کہ صاحب وقت رہا نہیں تھا۔ یہ بانس کا موٹا کھمبا جس پر مچان رکھا ہوا ہے۔ زمین پر یونہی رکا ہوا ہے۔ اور مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں ٹھیس لگ کر ساری دکان نہ آ پڑے ہم نے کہا یہ تو زمین میں گڑا ہوا ہے۔ بھلا کیسے گرے گا تو انہوں نے فرمایا کہ صاحب گڑھا کھودنے کا وقت ہی نہ ملا یہ یوں ہی رکھا ہوا ہے اور پھر طرہ یہ کہ مچان کے تختہ میں بندھا بھی نہیں ہے اس وجہ سے مجھ کو بہت اندیشہ ہے۔
اب پان کھا کر ہم نے جو دوستوں کی صلاح کی کہ بھئی بولو کیا رائے ہے اس پان والے کی دکان کیوں نہ گرائی جائے تو اس پر ہمارے کسی ساتھی نے حامی نہ بھری۔ دکان کیا تھی، پورا تعزیہ تھا۔ مچان پر بوجہ سامان آرائش تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور مجمع یہاں ایسا تھا کہ پکڑا جانا یقینی تھا۔ مگر ہم نے کہا کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم یہ کام ضرور کریں گے۔ ہمارے ساتھیوں نے کانوں پر ہاتھ دھرے۔ ہم نے بھاگنے کی راہ وغیرہ خوب غور سے دیکھی۔ اور گھوم پھر کر اس جگہ پہنچے جہاں احاطہ کی چھوٹی سی کچی دیوار تھی۔ یہ جگہ الگ سی تھی ہم نے ساتھیوں کے ساتھ دو تین گھنٹے سیر کی اور پھر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئے۔ گھومتے پھرتے دکان کے پاس آ کر ہم نے ہمت کر کے مجمع کے دباؤ میں کھمبے سے لگ کر جو ڈنڈے کو گھسیٹا تو ایک شور بے ہنگام پیدا ہوا اور دکان معہ چھت اور سامان سجاوٹ اور پان والے اور بوتلوں کے آن پڑی۔ کتھے اور چونے کی کُلیاں سب ایک ہوئیں اور غضب یہ ہوا کہ وہ برتن بھی گرا جس میں پان والا پیسے رکھتا جاتا تھا۔ پیسے جو مجمع میں گرے لوگوں نے دست اندازی کر دی۔ ہم کو اس میں فرار کا موقع مل گیا اور اس شور و غل میں ہم معہ ساتھیوں کے دیوار پھاند کر گلی میں کود کر اس بری طرح بھاگے کہ نہ معلوم کہاں آ نکلے۔ ہم کو سخت اندیشہ پکڑے جانے کا تھا۔ کیونکہ دروازہ پر جو کانسٹیبل تھا اس نے ہم کو شرارت کرتے ہوئے شاید دیکھ لیا اور ہم عجب نہیں پکڑے جاتے۔ اگر کہیں دکان نہ لٹنے لگی ہوتی۔
رات کافی آ گئی تھی اور ہم نہ معلوم کس جگہ تھے جہاں نسبتاً سناٹا تھا۔ جگہ جگہ لوگ چارپائیوں پر سڑک کے کنارے سو رہے تھے۔ ایک لالہ ننگے بدن پلنگ پر عین ایک موڑ پر اس طرح توند پھیلائے لیٹے ہوئے تھے کہ ہم کو مجبوراً اپنا سگریٹ جو قریب الختم تھا۔ ان کے پیٹ پر رکھ دینا پڑا۔ وہ ایسے تڑپ کر پیٹ پیٹتے ہوئے اُٹھے کہ ہم کو لطف ہی آ گیا اور ہم بھاگ کر دوسری جگہ پہنچے۔ کچھ آگے پہنچ کر ہم نے ایک چارپائی مع سونے والی کے الٹی اور گھر واپس ہونے سے پہلے پہلے ہم نے ایک اور برہنہ بدن سونے والے کے پیٹ پر سگریٹ جلتا ہوا رکھ کر بہترین تماشہ دیکھا۔ رات گئے گھر واپس آئے۔ مگر چونکہ صبح ہم گھر سے اجازت لے کر نہیں گئے تھے اس لیے دوسرے روز محض یہی جرم ہمارے سر رہا کہ دن بھر کیوں غائب رہے۔ اس کی پاداش میں دن کا کھانا ہمارا بند کیا گیا اور ہمیں مجبوراً اپنے پنڈت دوست کے یہاں کھانا کھانا پڑا۔
٭٭٭
دوسرا باب : شریر لڑکی
۔۔ ۱ ۔۔
ہم انٹرنس میں پڑھتے تھے اور ایک قومی اسکول کے بورڈنگ میں رہتے تھے۔ بورڈنگ سے کچھ فاصلہ پر ایک مکان تھا جو بورڈنگ سے اسکول اور ہاکی کھیلنے کے فیلڈ جانے میں پڑتا تھا۔ اس مکان میں ایک سید صاحب رہتے تھے جو کچہری میں ملازم تھے۔ سڑک سے ذرا ہٹ کر مکان کی ایک کھڑکی تھی جس میں لوہے کی سلاخیں لگی تھیں اور کواڑ بھی لگے تھے۔ یہ کواڑ ہمیشہ بند رہتے تھے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ ہم اپنے ایک دوست سے اس کھڑکی کے نیچے کھڑے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ ہم کو کھڑکی کے اس طرف کچھ آہٹ معلوم ہوئی ہم نے غور سے جو دیکھا تو ایک سوراخ سے ایک آنکھ کا ایک حصہ نظر آیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی جھانک رہا ہے۔ ہم بھی اس طرف دیکھنے لگے کہ آنکھ اس سوراخ کے سامنے سے غائب ہو گئی۔ ہم کو جو شرارت سوجھی تو ہم نے گلی کو سُونا پا کر اپنے دوست کا سہارا لے کر اسی سوراخ سے اپنی بھی آنکھ لگا دی۔ سوراخ میں سے مکان کا اندر کا حصہ صاف نظر آیا۔ یہ کھڑکی دالان میں تھی۔ بیچ دالان میں ایک نوجوان لڑکی کھڑی اس سوراخ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یہ لڑکی ایسی تھی کہ ہم کو بہت اچھی معلوم ہوئی۔
اور ہم اس کو دیکھ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے معلوم کر لیا ہے کہ ہم سوراخ میں سے جھانک رہے ہیں۔ چنانچہ وہ سامنے سے ہٹ گئی۔ اور ہم انتظار کر رہے تھے کہ پھر سامنے آئے۔ آنکھ کھولے ہوئے دیکھ ہی رہے تھے کہ اسی چھوٹے سے سوراخ پر کسی نے مٹھی بھر دھول جھونک دی جو پوری کی پوری آنکھ میں پڑی اور ہم بیتاب ہو کر گڑ پڑے۔ ہمارے دوست جو عینک لگائے تھے، انہوں نے جو پنجوں کے بل کھڑے ہو کر دیکھا تو ان کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ یہ شرارت اسی لڑکی کی تھی۔ لیکن چونکہ وہ عینک لگائے تھے لہٰذا ان کی آنکھ کے اندر کچھ نہ پڑا۔ ہماری آنکھ دن بھر کھٹکا کی اور ہم سے کلاس میں پڑھا بھی نہ گیا۔ گو کہ اس شریر لڑکی پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ لیکن ہم کو ساتھ ہی یہ پسند بھی تھی اور بالخصوص اس کی یہ بے تکلفی۔
واپسی میں ہم نے پھر جھانکا اور اس نے پھر ہماری آنکھ میں مٹی ڈالنے کی کوشش کی۔ مگر ہم ہوشیار تھے اور بچ گئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسکول کی گھنٹی کی آواز سن کر وہ کھڑکی کے پاس آ گئی تھی۔ اب آئندہ کے لیے ہم نے روزانہ کا معمول کر لیا کہ ضرور با ضرور سوراخ میں سے جھانکتے اور آنکھ میں دھول ڈلواتے۔ جب یہ روز ہی کا دستور ٹھہرا تو ہم نے ایک تین آنہ کی عینک محض اس لئے خرید لی لیکن اس کو یہ بات معلوم ہو گئی۔ کیونکہ ایک روز اس شریر نے ہماری آنکھ میں چھتری کی تان اس طرح جھونک دی کہ ہم کانے ہوتے ہوتے بچے اور ہماری عینک کا تال پھوٹ گیا۔ مگر ہم بھی باز نہ آئے اس نے ہماری اس ضد کو دیکھ کر ایک روز آہستہ سے جیسے خود سے کہا آنکھ پھوڑے بغیر نہ مانوں گی۔ ہم نے غصہ میں آ کر کہا ہم تجھ کو دیکھنے سے باز نہ آئیں گے۔
اس لڑکی سے یہ ہماری پہلی بات چیت تھی۔
۔۔ ۲ ۔۔
ہمارے گھر سے حلوے کا پارسل آیا تھا۔ اور ہم جیب میں ڈالے ہوئے دن بھر کھاتے رہے۔ حسب دستور ہم نے آ کر جھانکا اور اس نے ہماری آنکھ میں دھول جھونکی۔ ہم نے اس کے جواب میں کہا "لے حلوہ کھا” اور یہ کہہ کر حلوے کا ٹکڑا، جو ملائم تھا، سوراخ کے اوپر رکھ کر زور سے دبا دیا۔ سوراخ بالکل گول نہ تھا مگر کم و بیش دوائی برابر تھا۔ لہٰذا کافی حلوہ پہنچ گیا۔ ہم تھوڑی دیر بعد آئے۔ نہ معلوم اس نے وہ حلوہ کھایا بھی یا نہیں۔
دوسرے روز ہم جو پہنچے اور جھانک کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ ہم نے کھڑکی پر ہاتھ مارا تو دیکھا کہ لپکی ہوئی آ رہی ہے اور جھٹ سے اس نے مٹھی بھر راکھ زمین سے اٹھائی۔ ہم ہوشیار ہو گئے اور وار خالی کر دیا۔ فوراً ہی ہم کو سوراخ سے کوئی سفید چیز پتلی سی نکلی ہوئی معلوم ہوئی۔ ہم نے پکڑ کر جو گھسیٹا تو کھوئے کی لمبی لمبی بتی سی تھی۔ ہم نے فوراً چکھا اور اس کو پیڑے کے مزے کا پایا۔ ہم نے کہا کہ "اس سے مزے کا تو ہمارا حلوہ ہی تھا۔” لڑکی نے کہا "کس نے پکایا تھا۔” ہم نے فوراً کہا "ہماری اماں جان نے پکایا تھا۔ گھر سے آیا تھا۔” تین روز بعد پھر اسی سوراخ سے ایک روز ویسے ہی کھوئے کی لمبی سی بتی نکلی اور ہم نے فوراً لے کر منہ میں رکھ لی، دو تین دانت ہی مارے ہوں گے کہ حلق تک کڑوا ہو گیا اور ہم کو تھوکنا پڑا۔ اس شریر لڑکی نے اس میں کونین ملا کر الو بنا دیا۔
کچھ عرصہ تک اسی طرح تبادلہ تحائف ہوا کیا مگر اس ظالم کی آنکھوں میں خاک ڈالنے کی عادت نہ گئی۔
ایک روز جو ہم آئے تو کھڑکی کی کنڈی کھلی اور کواڑ ذرا سا کھلا اور اس کے بیچ میں سے کھیر کا ایک پیالہ باہر نکلا۔ ہم نے فوراً لے لیا اور چکھتے ہوئے بورڈنگ چلے آئے۔ ہماری اس عجیب و غریب دوستی کا علم کسی کو نہ تھا اور عرصہ تک اسی طرح ہماری ملاقات جاری رہی۔ ایک روز ہم نے پوچھا "کیا تمہارے گھر میں کوئی نہیں ہے؟” تو اس نے کہا کہ "بس سوا بیمار ماں کے کوئی نہیں ہے۔”
ہم اپنا نام اس کو پیشتر ہی بتا چکے تھے مگر اس نے اپنا نام ہمیں نہ بتانا تھا، نہ بتایا۔ ہمارے گھر سے کچھ روز بعد میوے کا حلوہ آیا اور ہم نے سوچا کہ ہم اس کو ضرور کھلائیں گے۔ لہٰذا ہم نے اس سے کھڑکی کھلوا کر ایک کاغذ میں لییٹ کر رکھ دیا جو اس نے بخوشی قبول کر لیا۔
۔۔ ۳ ۔۔
ہمارا اس سے پان کا بڑا تقاضا رہتا تھا۔ ایک روز اس نے کہا کہ "ہم تم کو پان کھلائیں گے۔” چنانچہ حسبِ وعدہ اس نے کھڑکی کھولی سامنے ہم کو کچھ نظر نہ آیا۔ ہم نے ہاتھ اندر پھیلا دیا اور اس نے ہاتھ پر پان رکھ دیا۔ ہم نے سلام کر کے کھا لیا کہ اتنے میں اندر سے کہا کہ "الائچی کھائے گا” ہم نے "نیکی اور پوچھ پوچھ” کہہ کر ہاتھ پھر اندر ڈال دیا۔ مگر اس مرتبہ اس سفاک نے ہماری ہتھیلی پر ایک دہکتا ہوا انگارہ رکھ دیا۔ ہم بیتاب ہو گئے اور تڑپ اٹھے اور ہاتھ فوراً باہر نکال کر جھٹکا۔ اس کا ہنسی کے مارے برا حال تھا اور یہاں آنکھوں سے مارے تکلیف کے آنسو نکل پڑے۔ کیونکہ ایسا دہکتا ہوا تھا کہ ہتھیلی کی کھال سے چپک کر رہ گیا تھا اور دو تین جھٹکے دینے سے گرا تھا۔ دو روز تک ہم مارے غصے کے نہ آئے مگر تیسرے روز ہمارا غصہ جاتا رہا۔ اور ہم پھر آئے تو اس شریر نے ہم سے پھر پوچھا "الائچی کھائیے گا۔” مگر ہم کو بجائے غصہ کے اس مرتبہ ہنسی آئی۔ عرصہ تک ہماری اس سے ملاقات اسی طرح جاری رہی مگر کبھی ہم نے سوائے اس قسم کے مذاق کے اور کوئی بات نہ کی اور نہ اس کو کوئی خط لکھا۔ ہاں البتہ روزانہ قریب قریب کہتے تھے کہ "تو ہماری کون ہے؟” کیونکہ اس کا جواب اس کے پاس کوئی معقول نہ تھا۔ اس لئے وہ کبھی کچھ کہہ دیتی اور کبھی کچھ کہہ دیتی۔ مگر اکثر یہ کہا کرتی کہ "تیری بہن ہوں” جس سے ہم سخت نکار کر کے کہتے کہ بہن نہیں بلکہ کچھ اور ہو۔
ایک روز ہماری محسنہ نے ہم سے کہا کہ، "دیکھو تو تمہارے ساتھی بھی کتنے کمینے ہیں” یہ کہتے ہوئے اس نے کاغذ کی ایک بتی سوراخ میں سے باہر کی۔ ہم نے اس کو لے کر پڑھا تو ہم کو سخت افسوس ہوا۔ یہ ہمارے اسکول کے ایک لڑکے کا خط تھا۔ جس میں دنیا بھر کے عشق کی داستان اور روپے پیسے کے لالچ کے قصے لکھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا کہ "ہم اس کے ہرگز ذمہ دار نہیں۔” اس نے کہا۔ "اگر کہو تو میں اس کو کچھ سزا دوں اور الو بنا دوں؟” ہم نے اتفاق کیا۔ ہم سے اس نے کہا کہ "تم میری طرف سے اپنا خط بدل کر ایک خط لکھ کر لاؤ۔ علاوہ اور باتوں کے اس خط میں یہ ضرور لکھنا کہ اگر آپ مجھ کو اس وقت دس روپے قرض دے سکیں تو مشکور ہوں گی۔” ہم بورڈنگ آئے اور ہم نے نہایت ہی باتمیز عبارت میں خط کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دس روپے کی ضرورت ظاہر کی اور نیچے نام وغیرہ تحریر کرنے والی کا نہ لکھا۔ بلکہ صرف لفظ فقط لکھ دیا۔ ہم نے جا کر خط سوراخ سے اپنی دوست کو دیا۔ اس نے پڑھ کر بہت پسند کیا اور کہا کہ اس کو دروازہ کی چوکھٹ کے پاس اینٹ سے دبا کر رکھ دو جیسا کہ انہوں نے اپنے خط میں لکھا تھا۔ انہوں نے چالاکی یا بے وقوفی سے اپنا نام نہ لکھا تھا۔ لیکن خط کی عبارت سے پتہ چلتا تھا کہ ہمارے ساتھی ہیں کیونکہ بورڈنگ اور اسکول کا ذکر تھا۔ ہم اس فکر میں تھے کہ کسی طرح ہم کو نام معلوم ہو تو اچھا ہے۔ اور اس لئے ہم نے وہ خط اپنے پاس رکھ لیا کہ شاید تحریر سے ہم کچھ نام کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو جائیں۔
تیسرے روز ہماری دوست نے ہم کو کھڑکی سے دس روپے کا نوٹ دیا اور کہا کہ، "الو پھنس گیا۔” ہم نے کہا "ہم کو نوٹ نہیں چاہیے۔” اس کا جواب ہم کو یہ دیا کہ "اس کو رکھ لو میں نہیں رکھوں گی”۔
ہم نے نوٹ رکھ لیا۔ اور آخرش ہم نے اور ہماری دوست نے خوب مزے سے مہینہ بھر تک میوے کھائے۔
اس دوران میں ہم نے کوشش کر کے یہ بھی پتہ لگا لیا کہ ہماری محسنہ کے بدتمیز شیدائی کون ہیں۔ ہم نے ان کو اپنی شریر محسنہ سے سازش کر کے اس بری طرح لوٹا کہ یہ بورڈنگ کے بہت سے لڑکوں کے قرضدار ہو گئے۔ حتیٰ کہ عشق کو رخصت کرنے پر مجبور ہو گئے۔
۔۔ ۴ ۔۔
حالانکہ اس لڑکی کی اور ہماری بہت گہری دوستی ہو گئی تھی۔ مگر ہمارے ساتھ وہ شرارت سے نہ چوکتی تھی۔ ایک روز تو اس نے ہماری انگلی میں جو ہم نے شرارتاً سوراخ میں دی تھی۔ ایسا کاٹا کہ اس میں دانتوں کے نشان بن گئے اور وہ سوج گئی اور پھر یہ ستم کیا کہ تیسرے روز جو ہم خفا ہو کر پھر واپس اس ظالم کو انگلی دکھانے آئے تو اس نے اس میں اس طرح سوئی بھونک دی کہ ہم نے زور سے ہاتھ جو جھٹکا تو سوئی کی نوک انگلی میں ٹوٹ کر رہ گئی۔
ہم جل کر واپس آئے اور وہ حسب معمول ہنستی ہوئی چلی گئی۔ ہماری انگلی میں سخت درد ہوا۔ اور شام تک سوج آئی۔ رات بھر ہم تڑپا کئے اور اس ظالم کو دعائیں دیا کئے۔ تیسرے روز یہ بری حالت ہوئی کہ انگلی بالکل پھوڑا ہو گئی۔
ایک روز ہم اسی دوران میں گئے اور اپنا حال سنایا۔ مگر اس کے دل پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ یہی کہا کی کہ "اچھا ہوا۔ اچھا ہوا۔” نوبت یہاں تک پہنچی کہ انگلی پک گئی اور چیری جانے کو ہوئی۔ ہسپتال جاتے وقت یہ کہتے گئے کہ "ہماری انگلی کی حالت تو نے یہ کر دی ہے۔ ہم کبھی اب تیرے پاس نہ آئیں گے” اور یہ کہہ کر انگلی کھول کر جو دکھائی تو وہ بہت گھبرائی اور کہنے لگی، "معاف کرنا مجھ کو نہیں معلوم تھا کہ تمہاری انگلی کی یہ حالت ہے۔” مگر ہم یہ کہہ کر چلے آئے کہ، "ہم اب تمہارے پاس نہ آئیں گے۔”
قصہ مختصر ہماری انگلی پندرہ بیس روز میں اچھی ہوئی اور اس دوران میں ہم کھڑکی کے پاس تک نہ گئے۔ دو ایک مرتبہ جب ہم گزرے تو کھڑکی پر اس نے ہم کو متوجہ کرنے کے لئے ہاتھ بھی مارا۔ مگر ہم چونکہ واقعی خفا تھے۔ ہم نے کچھ بھی پروا نہ کی۔
ایک روز ہم گزر رہے تھے کہ سوراخ میں سے کاغذ کی بتی نظر پڑی۔ ہم لیتے ہوئے چلے گئے۔ یہ پہلا خط تھا، جو اس نے ہم کو لکھا تھا۔ اس میں آداب و القاب وغیرہ کچھ نہ تھے۔ صرف یہ لکھا تھا کہ، "معاف کر دو آئندہ سوئی کبھی اس طرح نہ چبھوؤں گی کہ انگلی پکے بلکہ آہستہ سے چبھوؤں گی۔” ہم کو اس شرارت آمیز معافی کی درخواست پڑھ کر ہنسی آ گئی۔ قصہ مختصر ہم پہنچے اور اپنی انگلی اس شریر کو دکھانے کو سوراخ میں ڈالی۔ اس نے دیکھ بھال کر پھر سوئی چبھو دی۔ مگر حسبِ وعدہ اس قدر آہستہ سے چبھوئی کہ ہم کو زیادہ تکلیف نہ ہوئی۔ مگر اس کی شرارت کا قائل ہو جانا پڑا۔ ہماری اور اس کی دوستی کی حد بس یہیں تک تھی کہ ہم اپنے گھر کے قصے جب وہ پوچھتی، بتا دیا کرتے یا وہ خود اپنے گھر کی باتیں بتایا کرتی۔ کھڑکی چونکہ ایسے مقام پر تھی جو سڑک سے ذرا الگ واقع تھا اور سنسان سی جگہ تھی لہٰذا ہمیں کافی موقع ملتا تھا۔ کہ خوب باتیں کریں۔
باپ کی چونکہ اکلوتی بیٹی تھی۔ لہٰذا باپ اس کو بہت چاہتا تھا اور وہ زیادہ تر اپنے باپ ہی کے قصے سنایا کرتی تھی۔
ہمارے امتحان کا زمانہ قریب آیا تو ہمارے لئے اس نے بد دعائیں مانگیں تاکہ ہم فیل ہو کر یہیں رہیں۔ آخر وہ دن آیا کہ ہم امتحان دے کر جائیں اور پاس ہونے پر شاید اس شہر میں کبھی نہ آئیں۔ ہم نے اس کو جب خدا حافظ کہا تو اس نے متاثر ہو کر ہم سے صرف اتنا کہا کہ، "ہماری شرارتوں کو بھول جانا مگر ہم کو نہ بھولنا۔” ہم چلے گئے مگر یہ جملہ ہم کو یاد رہا۔
۔۔ ۵ ۔۔
جب ہم پاس ہو گئے تو علی گڑھ جانے کی ٹھہری۔ کالج میں داخلہ سے پندرہ روز پہلے ہی ہم روانہ ہو گئے۔ کیونکہ ہم کو ہیڈ ماسٹر صاحب سے سرٹیفیکٹ لینا تھا کہ ہم بڑے اچھے کھلاڑی ہیں اور ہونہار اور نیک چلن لڑکے ہیں۔ جس روز ہم آئے اسی روز کھڑکی کے پاس پہنچے اور کھڑکی پر ہاتھ مار کر اپنے دوست کو بلا کر علیک سلیک کیا۔ ہماری دوست بہت خوش ہوئی اور کہا کہ، "انتے دن بعد آئے ہو ذرا اپنی انگلی تو لاؤ تاکہ میں تم کو سزا دوں۔” ہم نے اپنی انگلی داخل کر دی مگر چونکہ اس کے پاس اس وقت سوئی وغیرہ نہ تھی۔ اس نے محض چٹکی پر اکتفا کی۔
تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے چلتے وقت اس نے ہم سے عجیب پیرایہ میں کہا کہ، "میں نے آج تک تم سے کسی کام کو نہ کہا مگر اب میرا ایک کام ہے” میں نے کہا "وہ کیا؟” تو اس نے کہا، "شام کو آنا”۔ ہم پہنچے تو اس نے سوراخ میں سے ایک رقعہ دیا۔ ہم نے رقعہ کو جو پڑھا تو اس میں صرف مختصر طور پر یہ لکھا تھا کہ "جج صاحب کی کچہری میں جہاں اس کے والد کام کرتے ہیں جا کر چپکے سے کسی طرح منشی حامد علی کو دیکھ آؤ اور مجھ کو مفصل بتاؤ کہ وہ کیسے آدمی ہیں” ہم قبل اس کے کہ کچھ دریافت کریں وہ کھڑکی سے جا چکی تھی۔ ہم کو عجیب معلوم ہوا کیونکر ہم جب تک چلے نہ جاتے، وہ کبھی نہ جاتی تھی۔ ہم عجیب چکر میں تھے کہ الٰہی ماجرا کیا ہے پہلی دفعہ ہم نے اب کمزوری محسوس کی۔
دوسرے روز ہم کچہری پہنچے اور پتہ لگا کر معلوم کیا کہ یہ حضرت منشی حامد علی کون ہیں۔ عجیب وضع قطع کے آدمی تھے۔ ہم نے دیکھا کہ گویا چڑی کا بادشاہ بیٹھا ہے۔ جس کی داڑھی بوجہ خراب قسم کے خضاب مختلف رنگ پیش کر رہی ہے۔ چہرہ پر جھریاں ایسی ہیں کہ پیاز کا شبہ ہوتا ہے۔
ہم دروازے پر کھڑے ہی دیکھ رہے تھے کہ یہ حضرت کھانستے ہوئے باہر نکلے اور ہماری معلومات میں اتنا اضافہ ہوا کہ ان حضرت کو دمہ بھی ہے۔ ہم دیکھ بھال کر چلے آئے اور یہ سب باتیں اپنی عزیزہ دوست کو بتا کر وجہ دریافت کی۔ بجائے شرارت آمیز باتیں کرنے کے وہ چپ تھی۔ ہم حیرت میں تھے کہ اس نے ہم سے کہا، مجھ کو تم اس مصیبت سے بچاؤ۔ ہم کو شبہ تو پیشتر ہی ہو گیا تھا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ اب ہم اصل بات سمجھ گئے حالانکہ ہم کو کوئی وجہ نہ تھی کہ افسوس ہو۔ لیکن نہ معلوم کیوں ہم خود بخود بے حد متفکر ہو گئے۔ اور ہم نے بھی مذاق کو رخصت کر کے نہایت سنجیدگی سے دریافت کیا کہ "کیا سب معاملات طے ہو گئے ہیں۔” اس پر اس نے کہا کہ "تاریخ تک مقرر ہو گئی ہے۔ اور اب صرف ڈیڑھ مہینہ رہ گیا ہے۔” ہم وعدہ کر کے آئے کہ "اگر ہماری جان میں جان ہے تو ہم تم کو اس مصیبت سے بچائیں گے۔” مگر چلتے وقت ہم نے از راہ شرارت اتنا ضرور کہہ دیا کہ، "چڑی کے بادشاہ تم کو سلام کہتے تھے۔” مگر وہاں تو مذاق رخصت تھا۔
ہم گھر پر آئے تو عجیب خلجان میں تھے۔ عقل نہ کام کرتی تھی کہ آخر کیا کریں۔ ایک غیر شہر میں جہاں ہم بحیثیت ایک طالب علم کے رہتے تھے۔ نہ کسی کو پہچانتے تھے۔ دوبارہ جو ملنے آئے تو ہم نے اقبال کیا کہ ہماری عقل کام نہیں کرتی کہ کس طرح مدد کریں۔ تیسرے روز عاجز آ کر ہم نے یہ صلاح دی کہ "تم اپنے والد سے کیوں نہ صاف صاف کسی دن کہلوا دو۔” مگر یہ کہنا بھی گویا ستم تھا۔ اس نے کہا کہ، "میں مرنا بہتر خیال کرتی ہوں۔” اس نے چلتے وقت ہم سے یہ کہا کہ، "اگر تم کچھ نہ کر سکو تو اتنا ضرور کر دینا کہ جب جانے لگو تو مجھ کو بازار سے زہر لا دینا۔” میں سناٹے میں آ گیا کہ "الٰہی میں کیا کروں جو اس کو اس مصیبت سے نکالوں” جب ہمارے جانے میں چند روز رہ گئے تو ہم کو ایک ترکیب سوچھی۔
ہم نے اپنا بہترین سوٹ نکالا اور کالر اور ٹائی سے درست ہو کر جنٹلمین بن کر دوسرے روز ہی صبح کو جج صاحب مسٹر کلارک کے پاس پہنچے۔ جج صاحب نے ناشتہ کے بعد طلب کیا۔ ہم بہت باقاعدہ سلام کر کے بیٹھ گئے اور ہم نے جج صاحب سے کہا کہ "ہم آپ کے پاس ایک ایسے کام سے آئے ہیں، جو آپ کو کرنا ہی پڑے گا اور آپ کا فرض ہے۔” جج صاحب نے متعجب ہو کر پوچھا تو ہم نے یہ کہا "اس سے کہ، آپ کے دفتر میں کوئی منشی حامد علی ہیں۔ آپ ان کو جانتے ہیں۔” اور ان کا حلیہ بیان کیا۔ ہم نے کہا "وہ حضرت آپ ہی کے دفتر کے سید جامن علی کی پندرہ سالہ لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں آپ کو یہ شادی ہر طرح اپنا اثر ڈال کر رکوا دینا چاہئے” جج صاحب نے متعجب ہو کر ہم سے پوچھا "تم کون ہو جو اس معاملے میں دخیل ہوتے ہو” اس کا جواب ہم نے یہ دیا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا چال چلن کا سرٹیفکیٹ پیش کیا۔ اور پھر کہا کہ "ہم اس معاملے میں پڑنے والے کوئی بھی نہیں مگر قوم کی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے آپ کے پاس آئے ہیں”۔ جج صاحب نے ہماری پیٹھ ٹھونکی اور ہم سے کہا "کل ہمارے پاس آنا”
منشی حامد علی صاحب چونکہ چھ ماہ بعد ہی پنشن پانے والے تھے اور خود دولہا کی حیثیت رکھتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے تو جج صاحب کو صاف جواب دے دیا کہ، "صاحب اس معاملہ سے آپ کا مطلب”، مگر سید ضامن علی صاحب جو عمر میں اپنے منتخب شدہ داماد سے بہت چھوٹے تھے اور ان کو ابھی بہت دنوں تک ملازمت کرنا تھی۔ اور جج صاحب کی ایک جنبش قلم سے برخاست ہو سکتے تھے، مجبور ہو گئے۔ اور بہت بری طرح ڈانٹے گئے۔ جج صاحب نے ان سے صاف کہہ دیا "اگر تم نے شادی کر دی تو میں یک قلم موقوف کر دوں گا۔” سید صاحب نے یہ عذر کیا کہ "صاحب! میں لڑکی کی شادی جلد کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ وہ جوان ہو گئی ہے۔ اور یہ رشتہ محض اس وجہ سے کر رہا ہوں کہ لڑکی آرام سے رہے گی۔ کیونکہ منشی حامد علی صاحب جائیداد ہیں۔ اور دوسری جگہ مجھ کو کوئی نظر نہیں آتی۔” جج صاحب نے اس کا جواب دیا کہ، "ہم تمہاری لڑکی کی شادی کرا دیں گے۔”
دوسرے روز ہم جج صاحب کے بنگلے پر حاضر ہوئے، اور یہ سن کر ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ ہمارے دل کی مراد پوری ہوئی۔ جج صاحب نے پھر خود ہی ہنس کر ہم سے دریافت کیا کہ "تم اس لڑکی سے شادی کرنے پر رضا مند ہو یا نہیں؟” نہ معلوم ہمارا دل کیوں دھڑکنے لگا۔ ہم نے کچھ رک کر کہا کہ "صاحب ابھی ہم پڑھتے ہیں۔ ہمارے والد صاحب مرحوم گورنمنٹ میں اچھے عہدے پر ملازم تھے اور پنشن لینے سے پہلے انتقال کر گئے۔ اور ہم اپنے باپ کے اکیلے ہی لڑکے ہیں” تو جج صاحب نے کہا "تم نوکری کیوں نہیں کر لیتے؟”۔ ہم نے کہا "ہم نوکری کریں گے یا جو کچھ بھی کریں گے۔ وہ اپنی تعلیم پوری کرنے کے بعد کریں گے مگر ویسے ہم کو اس لڑکی سے شادی کرنے میں کوئی انکار نہیں۔ ہم کو تو صرف یہی فکر ہے کہ مختصر سی جائیداد کی آمدنی میں ہماری اور ہماری ماں ہی کی گزر مشکل سے ہو رہی ہے۔ بیوی کو کہاں سے کھلائیں گے۔” اس کا جواب جج صاحب نے یہ دیا کہ "تم کو اس سے کچھ بحث نہیں صرف یہ بتاؤ کہ تم لڑکی سے شادی کرنے کو تیار ہو یا نہیں۔” ہم نے منظور کر لیا۔ جج صاحب نے ہم کو رات کو بنگلہ پر بلایا وہاں ہم جو پہنچے تو سید صاحب پیشتر سے ہی موجود تھے۔ سید صاحب کی خدمت میں جج صاحب نے ہم کو پیش کر کے کہا کہ "بولو یہ لڑکا تم کو پسند ہے یا نہیں۔” سید صاحب کی بھلا کیا مجال تھی کہ چوں بھی کرتے۔ ہم جبراً و قہراً پسند کئے گئے۔ ہم سے جج صاحب نے کہا کہ "تم جاؤ”، چنانچہ ہم ہانپتے کانپتے واپس کھڑکی کے پاس آئے اور ہم نے جو خوشخبری صبح سنائی تھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے صاف صاف کہا کہ "اب ہم تم سے شادی کرنے والے ہو رہے ہیں۔” اس نے اس کو مذاق ہی تصور کیا اور جواب میں یہ کہا کہ "شاید تمہاری شامت آنے والی ہے۔” اس پر ہم نے کہا کہ، "عنقریب ہم تمہاری خود الٹی شامت بلانے والے ہیں۔” ہم نے بہت کچھ سنجیدہ ہو کر کہا کہ "ہم مذاق نہیں کرتے بلکہ واقعی ہماری شادی تم سے طے ہو گئی ہے۔” مگر اس کو یقین نہ آیا۔ کیونکہ نہ تو وہ جھینپی اور نہ اس نے شرارت آمیز باتیں بند کیں۔
۔۔ ۶ ۔۔
ہم بورڈنگ ہی میں مقیم تھے کہ ہمارے پاس ہمارے مہربان ہیڈ ماسٹر صاحب آئے جن کو جج صاحب نے بلایا تھا اور وہ اس سے مل کر آ رہے تھے۔
جب گفتگو ہوئی تو ہم نے ان سے صاف کہہ دیا کہ "بغیر اپنی والدہ مکرمہ کی شرکت یا مرضی کے کچھ نہیں کر سکتے۔” مگر دوسرے روز ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمارے والد مرحوم کے ایک دوست کو جو یہاں ڈپٹی کلکٹر تھے لا کھڑا کیا۔ اور انہوں نے اسی روز کچھ گڑبڑ کر کے ایسا تار دیا کہ ہماری اماں جان دوسرے ہی روز ان کے گھر پر موجود تھیں۔ اور ہمارے دولہا بنائے جانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ہم سے اور ہماری والدہ صاحبہ سے کہا گیا کہ، اس شادی کرنے میں ہماری آئندہ بہبود ہے۔ چوتھے روز ہمارا نکاح اس شریر لڑکی سے ہو گیا۔ اور یہ طے ہوا کہ رخصتی جب ہو گی۔ جب ہم تعلیم پوری کر چکیں گے۔ ہم کو معلوم ہوا کہ جج صاحب نے ہماری بیوی سے چچا اور بھتیجی کا رشتہ قائم کر کے اس کو بیس روپے ماہوار دینے کا ارادہ کیا ہے۔ ہماری نیت اس بات کو ہرگز گوارہ نہ کرتی۔ مگر چونکہ معاملہ ہمارے خسر صاحب اور جج صاحب کے درمیان کا تھا۔ لہٰذا ہم کچھ نہ بولے۔
ذرا غور کیجئے کہ اب بعد نکاح جو ہم کھڑکی کے پاس پہنچے تو جواب ندارد بہت کچھ ہاتھ مارا، کھٹکھٹایا مگر بے سود۔ ہم جھک مار کر چلے گئے اور چلتے وقت بھی ہماری منکوحہ بیوی ہم سے بات کرنے نہ آئی۔
مگر یہ بے رحمی اور خاموشی زیادہ عرصہ تک نہ رہی۔ ہم کھڑکی کے بجانے کے لئے چپکے سے چھٹیوں میں علی گڑھ سے بھاگ بھاگ کر آتے تھے اور اپنی شریر بیوی سے مل کر چلے بھی جاتے تھے اور ہمارے خسر صاحب یا کسی دوسرے کو پتہ بھی نہ چلتا۔ شرارتیں ہماری بیوی کی اس طرح جاری ہو گئیں، ہم کبھی نہ بھولیں گے کہ کیسی کیسی خوشامدیں کرواتی تھی۔ جب جا کر اور وہ بھی انگلی میں خوب سوئی بھونکنے کے بعد ہم کو اپنی شریر صورت کی بس ایک جھلک دکھاتی تھی۔
بجائے تعلیم ختم ہونے پر رخصتی کے ہماری اماں جان ہماری بیوی کو ڈیڑھ سال بعد ہی گھر لے آئیں۔ جب ہم سے ہمارے بیوی کی پہلی ملاقات ہوئی تب بھی وہ شرارت سے باز نہ آئی۔ ہم جو کمرے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے کہ لیمپ روشن ہے اور ہماری بیوی خوب اپنے آپ کو کپڑوں میں لپیٹے اور سر منہ سب چھپائے پلنگ پر بیٹھی ہے۔ ہم نے اپنی چہیتی بیوی کے کاندھے پر ہاتھ رکھکر ہلا کر کہا، "بندہ پرور السلام علیکم۔ کہیے مزاج تو بخیر ہیں۔”
یہ کہتے ہوئے ہم نے رضائی گھسیٹ کر الگ ڈال ڈی۔ مگر وہ نہ بولی اور شرم و حیا کا پشتارہ بن گئی۔ تو ہم نے از راہِ تمسخر کہا۔ "کہیے وہ آپ کی شرارتیں کیا ہوئیں؟ کیا گھر چھوڑ آئیں؟۔” یہ کہہ کر جب ہم نے جواب نہ پایا تو پلنگ پر بیٹھ گئے اور ہم نے کہا "لاؤ ہم اپنی شریر بیوی کو ذرا گلے تو لگا لیں۔” یہ کہہ کر ہم نے اس شریر کو گلے لگایا ہی تھا کہ ران میں اس نے ایسی بیدردی سے سوئی چبھوئی کہ ہم بے تاب ہو کر اچھل ہی تو پڑے۔ پھر اس کے بعد اس نے ہم سے یہ مذاق نہیں کیا اور یہ سوئی کا آخری مذاق تھا۔
ہماری اس شریر کے ساتھ خوب نبھی اور مزے سے نبھ رہی ہے اور یہ محض اسی شادی کرنے کا نتیجہ ہے کہ ہماری بیوی کے ساختہ چچا یعنی جج صاحب نے ہم کو تعلیم ختم کرنے کے بعد ہی ایسی ملازمت دلوا دی کہ
اب ہم مزے کرتے ہیں۔
چونکہ ہماری کورٹ شپ کی داستان لوگوں کو دلچسپ معلوم ہوئی لہٰذا ہم نے بھی اس کو بہت اختصار کے ساتھ ہدیہ ناظرین کیا ہے۔
٭٭٭
تیسرا باب : غلط فہمی
ہم بیوی سے صبح یہ کہہ کر چلے گئے تھے کہ نو دس بجے تک واپس آ جائیں گے۔ مگر مچھلی کا شکار بھی کیا لغو چیز ہے۔ بجائے نو بجے کے گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں بارہ بجے کے بعد گھر پہنچے۔ شکار میں بھی ہمیں وہی کامیابی ہوئی جو عموماً مچھلی کے شکاریوں کا حصہ ہے۔ پریشان بھی ہوئے اور کچھ نہ ملا۔ بھوکے پیاسے جلتے بھنتے گھر پہنچے۔ نہا دھو کر کمرہ پر جو پہنچے تو ملازمہ نے کہا بیگم صاحبہ آپ کا انتظار کرتے کرتے ابھی سوئی ہیں۔ ہم فوراً دوسرے کمرے میں گئے اور کھانا کھایا۔ ہاتھ دھو کر سگریٹ سلگایا اور سیدھے کمرے میں جا پہنچے۔ ہمیں ایسا معلوم ہوا کہ ہم جنت میں آ گئے ہیں تین طرف خس کی ٹٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ اور بجلی کا پنکھا زوروں میں چل رہا تھا۔ ہماری شریر بیوی سو رہی تھی۔ ہم نے غور سے اس کے معصوم چہرہ کو دیکھا۔ کچھ سوچے۔ سامنے دوات رکھی تھی۔ کچھ اور خیال آیا۔ چنانچہ قلم کو الٹی طرف سے ڈبو کر چہرہ رعب دار بنا دیا اور اس کے بعد ہم بھی اپنے پلنگ پر پڑ کر سو رہے۔ تھکے ہارے تو تھے ہی۔ ایسے سوئے کہ تن بدن کا ہوش نہ رہا۔
کچھ عرصہ بعد ہم نے منہ پر ٹھنڈک محسوس کی۔ آنکھ کھلی تو بیگم صاحبہ کو شرارت کرتے ہوئے پایا۔ یعنی برف کا ٹکڑا لے کر ہمارے منہ پر مل رہی تھیں۔ اور اپنی مونچھوں کا ان کو پتہ بھی نہ تھا۔ ذرا غور کیجئے یہ مقطع اور رعب دار چہرہ اور اس پر یہ شرارت ہمیں بے اختیار ہنسی آئی۔ جس کی ہم نے خوب ہی داد دی۔ اٹھ کر ہم نے دروازہ کھولا شام ہونے کو آئی تھی۔ اتنے میں ایک ملازمہ آئی اور اس نے جو اپنی مالکہ کے رعب دار چہرے کو دیکھا تو ہنستی ہوئی بھاگی۔
کیوں ہنستی ہے۔ ہماری بیگم صاحبہ نے خفا ہو کر پوچھا۔ مگر وہ واپس نہ آئی۔ غصہ میں مونچھیں عجیب بہار دے رہی تھیں۔ اتنے میں دوسری ملازمہ آئی اور دروازہ پر پیر رکھتے ہی اس نے کہا۔ "کیا آپ مجھے بلاتی ہیں۔” یہ کہہ کر اس نے بھی اپنی مالکہ کا با رعب چہرہ دیکھا، اور وہ بھی ہنسی کو ضبط کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔
ہماری بیوی بولی، "آج معلوم ہوتا ہے ان کی شامت آئی ہے۔” ہم نے کہا "آج ہمیں بھی ڈر لگ رہا ہے۔” وہ کچھ نہ سمجھی اور ہم نے اس ہنسی میں شرکت فضول سمجھی اور اٹھ کر باہر چل دیئے۔
۔۔ ۱ ۔۔
گھنٹہ بھر بعد جب ہم گھر میں آئے تو معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ نہا کر نکلی ہیں اور آئینہ والی میز پر کنگھی کر رہی ہیں۔ ہم کمرے کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور ہم نے دیکھا کہ قد آدم آئینہ میں دیکھ دیکھ کر پنکھے کی ہوا سے بال خشک کیے جا رہے ہیں۔ بال اڑ اڑ کر ہمارے لئے عجیب کیفیت پیدا کر رہے تھے۔ اور ہم محو دیدار تھے کہ ہماری آنکھیں آئینے میں چار ہوئیں۔ مڑ کر ہماری طرف دیکھا مگر فوراً ہی پھر منہ موڑ لیا کہ قریب پہنچے اور جیسے ہی نظر سے نظر ملی تو غصہ بھری نظریں ہماری طرف ڈالیں اور جونہی مسکراہٹ آئی تو اس کو دبا کر ماتھے پر شکنیں ڈال کر ترش روئی سے کہا "اس قسم کی حرکتیں ہمیں پسند نہیں۔”
ہم نے کہا۔ "کیوں کیا ہوا؟”
"ایسے مذاق سے کیا فائدہ کہ تمام نوکرانیاں ہنستی پھریں۔”
"ہم نے کوئی مذاق نہیں کیا۔” ہم نے تصنع سے کہا۔
"تو پھر آخر یہ کیا تھا؟”
"آج جب ہم استرا لے کر حسب معمول بیٹھے تھے تو تم نے ہی تو کہا تھا کہ ہمیں مونچھیں بہت پسند ہیں۔ ہم نے دل میں سوچا کہ ہمیں تو پسند نہیں، کیونکہ ہم تو روزانہ ہی ان کو صاف کر ڈالتے ہیں۔ مگر چونکہ ہماری بیوی کو پسند ہیں تو لاؤ ذرا اس کی مونچھیں ہی بنا دیں۔”
یہ سن کر غصہ رفو چکر ہو گیا۔ اور ہماری بیوی نے ہماری شرارت کو پسند کرتے ہوئے ہنس کر کہا۔ "تو ہمارا یہ مطلب کب تھا۔ مونچھیں تم رکھو۔”
ہم نے تصنع کے ساتھ کہا، لا حول و لا قوۃ، تم نے پیشتر ہی اگر بتا دیا ہوتا تو ہم یہ غلطی ہی کیونکر کرتے۔”
ادھر ادھر مطلب کی دو تین باتوں کے بعد ہم نے اپنی بیوی کو ایک گلاس انار کا شربت پلایا اور وہ بھی اپنے ہاتھ سے اور مزدوری وصول کرنے کے بعد ہم نے کہا "کیوں دوست ہمارا ایک کام کر دو گے؟”
"پھر وہی تم نے مردانی بولی سے مجھ مخاطب کیا: کیا کام ہے؟”
"ہمارے ایک ہندو دوست آ رہے ہیں۔ ان کے کھانے کا انتظام۔ انتظام خاص۔ اور وہ یہ کہ اپنے ہاتھ کی کوئی چیز ان کو ضرور کھلانا۔ یہ بھی ویسے ہی دوست ہیں کہ جن سے رات بر باتیں کی جانا چاہئیں۔”
"یہ تم آخر رات بھر کیا باتیں کرتے ہو؟” بیوی نے کرید کر پوچھا۔
"ان سے تو زیادہ تر تمہاری شرارتوں کی باتیں کریں گے۔” ہم نے ہنس کر کہا۔
"یہ غلط ہے، تم بد چلن آدمیوں سے ملتے ہو۔ آخر بتاؤ تو سہی کہ گلاب چند سے تم کو کیوں اتنی محبت ہے۔ وہ شخص جو بازاری عورتوں میں تمہیں لے جائے ہر گز ملنے کے لائق نہیں۔”
"ہم صحیح کہتے ہیں کہ یہ جو آ رہے ہیں ان سے سوائے تمہارے یا خود ان کی بیوی کی باتیں کرنے کے اور کچھ بھی نہیں کریں گے۔ تم خود جانتی ہو کہ اگر ہمیں تم سے جھوٹ ہی بولنا ہوتا تو ہم تم سے کہتے ہی کیوں؟”
وہ بولی "یہ تو ہم جانتے ہیں کہ اگر تم کسی رنڈی کے یہاں جاؤ گے تو ہم سے ضرور کہہ دو گے اور یہ بھی معلوم ہے کہ یار دوستوں کے ساتھ زبردستی چلے جاتے ہو۔ مگر آخر پھر اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟” بیوی نے کچھ متانت سے کہا۔
"کچھ نہیں۔ نتیجہ کیا ہو سکتا ہے تم خود جانتی ہو کہ میں تمہارا ہوں اور خواہ میں دن رات بازاری عورتوں میں ہی رہوں تب بھی کوئی فرق نہ ہو گا”۔
اتنا کہہ کر میں نے بیوی کی طرف غور سے دیکھا اور پھر کہا۔
"اچھا جیسا کہو گی، ویسا کریں گے، مگر ان دوست کی ہم انتہائی خاطر چاہتے ہیں۔”
۔۔ ۲ ۔۔
رات کا کھانا ہم نے باہر دوست کے ساتھ کمرے میں کھایا۔ کھانا کھا کر اپنے دوست سردار سندر سنگھ سے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ بجلی کی روشنی چونکہ تیز تھی لہٰذا ہم کمرے کے اس دروازہ میں بیٹھے تھے جو سڑک کی طرف کھلتا تھا۔ اس کے بیچ کے دروازے کے سامنے ہی ایک بڑی الماری رکھی تھی۔ جس میں قد آدم آئینہ لگا تھا۔
ایک دم سے ایک خادمہ آئی اور اس نے سر ڈال کر جھانکا ہی تھا کہ فوراً لوٹ گئی۔ ہم چونکہ سردار صاحب سے باتوں میں مشغول تھے لہٰذا اس طرف غور نہ کیا۔ ملازم سے آواز دے کر پان کا تقاضا کروایا اور پھر باتوں میں مشغول ہو گئے۔
——————–
اب ذرا اندر کی کیفیت سنیئے۔
بیوی نے پان بنا کر ملازمہ کے ہاتھ بھیجے تھے کہ اتنے میں وہ ہانپتی کانپتی دوڑی چلی آئی۔ پان کی تھالی رکھ کر بولی "بیگم صاحبہ غضب ہو گیا”
"کیوں کیا ہوا؟” بیوی نے گھبرا کر پوچھا۔
اس نے کہا۔ "میں پان لے کر جو پہچی تو مجھ کو کوئی نظر نہ آیا میں نے خیال کیا کہ کمرہ میں کوئی ہو گا۔ کمرے کے دروازے پر ہی پہنچی تھی کہ بیگم صاحبہ بس کیا بتاؤں کیا دیکھا۔
"اری کمبخت آخر کیا دیکھا؟”
"کمرے میں کوئی عورت کھڑی تھی۔ بس میں الٹے پاؤں ہی تو بھاگی۔”
"جھوٹی، کمبخت دیوانی ہے، عورت بھلا کہاں سے آئی؟”
"اگر یقین نہ آئے تو کسی اور کو بھجوا کر دکھا لیجیئے۔”
بیوی نے فوراً دوسری کو بھیجا۔ وہ بھی اسی طرح دوڑی آئی اور تصدیق صورت شکل یا کپڑے کے بارے میں کچھ تفصیل ہماری بیوی کو معلوم نہ ہو سکی۔ کیونکہ دونوں عورتیں فوراً ہی ایک جھلک دکھا کر بھاگ آئی تھیں۔
ادھر ہم ایسے باتوں میں مشغول تھے کہ کچھ خبر ہی نہ تھی۔ دوسری عورت جو پھر اسی طرح جھانک کر چلی گئی تھی۔ تو ہم نے ملازم کو آواز دی کہ پان لاؤ۔
ملازم پان لینے چلا کہ ملازمہ نے راستہ ہی میں اس کو پکڑا کہ چلو بیگم صاحبہ بلاتی ہیں۔ غریب ملازم قسمیں کھا رہا تھا کہ بیگم صاحبہ کوئی عورت نہیں ہے۔ مگر بیگم صاحبہ کو کیسے یقین آتا جب کہ دو عینی شہادتیں موجود ہوں۔ قصہ مختصر ہماری طلبی ہوئی۔
ہم سردار صاحب سے اجازت لے کر گئے تو بیوی کو علیحدہ ٹہلتے ہوئے پایا۔ ہم نے حسب عادت کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ "دوست کیا ہے؟۔”
بجائے اس کے کہ کوئی جواب ملتا وہ رک گئی۔ ہم نے دیکھا تو چہرہ مغموم اور ملول تھا۔ قبل اس کے کہ ہم کچھ کہیں، ہمارا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ "میں نے تمہاری کیا خطا کی ہے، مجھ سے کیوں خفا ہو گئے؟” یہ کہہ کر ہمارے سینہ پر سر رکھ کر سسکیاں لینے لگی۔ ہم اس کے لئے قطعی تیار نہ تھے۔ گھبرا کر ہم نے کلیجہ سے لگا کر کہا۔ "خدا کے واسطے کچھ کہو تو”
اس نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا "یہ باہر کمرہ میں عورت کون بیٹھی تھی؟”
ہمیں ہنسی آئی اور متعجب ہو کر کہا "تم کیا بک رہی ہو”
"میں بک نہیں رہی ہوں بلکہ صحیح کہہ رہی ہوں” بیوی نے زور دے کر کہا۔
"معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا دماغ صحیح کام نہیں کر رہا ہے۔”
"میرا دماغ صحیح کام کر رہا ہے”
ہماری عقل چرخ تھی۔ مگر ہم نے مسکرا کر کہا۔ "بالفرض اگر بیٹھی بھی ہے تو تمہاری بلا سے”
اس کے جواب میں اس نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر کچھ تیزی سے بولی۔
"بخدا کوئی ہرج نہیں جس سے تم خوش اس میں میں خوش اور میرا خدا خوش۔ جاؤ شوق سے رات بھر باہر رہو۔ مگر میرے دل پر چوٹ جو لگی تو اس بات پر کہ آخر بہانہ کرنے سے کیا فائدہ پیشتر ہی کہہ دیتے کہ ایک دوست معہ رنڈی کے آئیں گے اور میں رات بھر باہر رہوں گا۔” یہ الفاظ بیوی نے پر درد لہجہ میں کہے۔
"آخر تمہیں یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اتنا ہی ہم کہنے پائے تھے کہ جملہ کاٹ دیا۔ اور پھر اسی طرح کہا۔
"میں ان عورتوں میں نہیں ہوں جو میاں کو خواہ مخواہ تنگ کریں۔ میں خوب جانتی ہوں کہ تم میرے ہی ہو۔ خواہ بد چلنوں میں بیٹھو، خواہ نیک چلنوں میں۔ میں اگر تم کو روکوں گی تو اور ترکیبوں سے روکوں گی۔۔ نہ کہ لڑ کر مگر افسوس تو مجھے اپنی قسمت پر آتا ہے کہ تم نے میری قدر نہ کی۔ مجھ کو کم ظرف سمجھا اور مجھ سے سچ سچ نہ کہا۔ یہ تو تمہارے دوست کی رنڈی ہے اگر کہیں خدا نہ کرے تمہاری بلائی ہوتی تو کیا میں اس کی یا تمہاری خدمت نہ کرتی۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ مگر بخدا اگر ایسا ہوا تو تم مجھے ثابت قدم پاؤ گے۔” اتنا کہنے ہی پائی تھی کہ اس کی آواز جذبات کے تلاطم سے گھٹ گئی اور پھر سسکیاں لے کر رونا شروع کیا۔
ہم سخت چکر میں تھے کہ الٰہی کیا ماجرا ہے۔ بیوی کو ہم نے گلے لگایا اور چمکارا اور سیدھے چھت پر لے گئے۔ وہاں ہم نے سب قصہ سنا تو دنگ رہ گئے اور نوکرانیوں کو بلایا اور دریافت حال کے بعد ان کو رخصت کر کے بیوی سے کہا۔ "معلوم ہوتا ہے تمہاری نوکرانیاں جھوٹ نہیں بولتی ہیں مگر ان کو کچھ دھوکا ہوا ہے۔ ہم نے تم سے جھوٹ ہر گز نہیں بولا اور نہ بولیں گے۔ ہم سچ کہتے ہیں اور تم یقین کرو کہ کوئی عورت کمرے میں نہیں ہے۔ شاید انہوں نے کسی عورت کو کہیں اور دیکھا ہے۔”
"میرا مذہب اور دین اور ایمان سب تم ہی ہو۔ بخدا جو تم کہو وہ سچ ہے۔ مجھ کو قطعی یقین ہے کہ وہاں کوئی عورت نہیں۔ محض اس وجہ سے کہ تم کہتے ہو” بیوی نے بظاہر راضی ہو کر کہا۔
ہم سردار صاحب کے پاس آئے اور غیر معمولی دیر کی وجہ بیان کی ہماری عقل کام نہ کرتی تھی کہ الٰہی یہ عورتوں کے دماغ میں کیا خلل آ گیا جو ان کی آنکھوں کے سامنے رنڈی کی خیالی تصویر آ گئی۔ رات گئے تک ہم سردار صاحب سے باتیں کرتے رہے۔ ارادہ تو ہمارا یہی تھا کہ ہم باہر سوئیں۔ مگر رات کے واقعہ کی وجہ سے ہم نے خیال کیا کہ ہم اپنی بیوی سے باتیں کر لیں تو بہتر ہے۔
ہم چھت پر پہنچے تو بیوی کو سوتے ہوئے پایا۔ یہ نا ممکن تھا کہ ہم میں کوئی ایک دوسرے کو سوتے دیکھ پائے اور کچھ شرارت نہ کرے۔ کیونکہ اس معاملے میں ہماری بیوی کی طبیعت ہر وقت حاضر رہتی تھی۔ ہم نے قطعی طے کر لیا کہ بیوی کی فاختہ اڑائی جائے۔ چنانچہ ہم نے پانی کی دو تین بوندیں ناک میں جو ڈالیں تو بیوی ہنستی، کھانستی، چھینکتی اٹھی۔ بیوی نے کہا کہ "ایک ملازمہ پھر گئی تھی اور پھر آ کر اس نے یہی کہا تھا کہ عورت کمرہ میں ہے۔”
"تو پھر تم نے کیا کیا؟” ہم نے تعجب سے پوچھا۔
"میں کرتی کیا خوب ڈانٹا کہ "جھوٹی ہے مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر دونوں نے صلاح کر کے ایسا جھوٹ بنایا۔ مجھ سے تو تم نے کہہ دیا بس کافی ہے۔ اگر میں خود بھی آنکھوں سے دیکھ لوں جب بھی تمہیں جھوٹا نہ مانوں گی۔”
ہم نے متاثر ہو کر بیوی سے صرف اتنا کہا کہ "تم بڑی اچھی ہو۔ ہم دونوں تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے کہ آخر ان نوکرانیوں کو کیا سوجھی کہ ایسی بے بنیاد بات کہہ دی اور پھر اس پر قائم ہیں۔ بیوی ان کو نکالنے کو کہتی تھی مگر ہمارا خیال ضرور تھا کہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردار سندر سنگھ خوبصورت جوان نہیں بلکہ ایک حسین اور خوش رو جوان تھے۔ خدا کی شان ہے کہ کچھ عقل کام نہ کرتی تھی کہ ان کو بھی کیسا حسن ملا تھا لوگوں کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ ان میں زنانہ حسن کا عنصر غالب ہے یا مردانہ حسن کا۔ گورا چمکتا رنگ، بدن نہایت ہی نازک اور اکہرا، قد نہایت ہی موزوں۔ آنکھیں، ناک، ہونٹ اور دانت وغیرہ کل چہرہ اس قدر سبک اور حسین کہ جو دیکھتا تعریف کرتا ان سب باتوں کے علاوہ کمر کمر تک ریشم کی طرح ملائم بال ان کے زنانہ حسن کی تکمیل کرتے تھے۔ مگر ان کی داڑھی خدا کی پناہ! ماشاء اللہ ڈیڑھ فٹ کی داڑھی نہیں بلکہ داڑھا تھا۔ یہی ایک ایسی چیز تھی جو ان کے زنانہ حسن کو دبانے کی اور مغلوب کرنے کی ناکام کوشش کرتی تھی۔ کیونکہ سب کی متفقہ رائے یہی تھی کہ اس قدر لمبی داڑھی کو بھی اس مقصد میں ذرا بھی کامیابی نہیں ہوتی۔ اپنی داڑھی وہ لپیٹ کر ریشمی جالی سے اس طرح باندھ لیتے تھے کہ یہی معلوم ہوتا تھا کہ معمولی خشخشی داڑھی ہے۔ محض ان کی داڑھی ہی ایک ایسی چیز تھی جو ان کو ایک حسین مرد بنا دیتی تھی۔ لیکن پھر بھی زنانہ حسن کا عنصر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں۔ غالب ہی رہتا تھا۔ کیونکہ آپس کے یار دوست ان کے زنانہ حسن کی اتنی تعریف کرتے تھے کہ وہ جھینپ جاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر کہیں میرے داڑھی نہ ہوتی تو مجھ سے یار دوستوں کے مذاق کا جواب ہی دیتے نہ بن پڑتا۔
———–
صبح ہماری آنکھ ذرا دیر سے کھلی۔ اٹھ کر ہم باہر پہنچے۔ سردار صاحب غسل خانہ میں تھے ہم برآمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھے تھے کہ سردار صاحب نہا کر مسکراتے ہوئے نکلے۔ ڈیڑھ بالشت کی داڑھی اس خوبصورت چہرے پر عجیب بہار دے رہی تھی ایک سفید دھوتی ساڑھی کی طرح باندھے ہوئے تھے اور آدھی اوڑھے ہوئے تھے جس سے سارا بدن سوائے کہنیوں تک ہاتھوں کے اور سر کے کھلا ہوا تھا۔ ان کے لمبے اور ریشمی بال کمر تک لٹک رہے تھے۔ ہماری کرسی ہی کے پاس میز تھی۔ جس پر آئینہ رکھا تھا۔ وہ کرسی کے برابر آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر بال پونچھنے لگے اور کہنے لگے کہ "بھئی تم اپنی بیوی سے کب ملاقات کراؤ گے؟”
ہم نے ہنستے ہوئے اور ان کے بالوں سے کھیلتے ہوئے کہا جو ہمارے سامنے لٹک رہے تھے کہ "سردار صاحب ہمارا تو یہ ارادہ تھا کہ آپ سے کل ہی ملاقات کرا دیں۔ مگر بد قسمتی سے یہ ارادہ بدل دینا پڑا اور اب شاید ملاقات قطعی نہ کرا سکیں۔”
"بھئی یہ کیوں؟” سردار صاحب نے اپنے ریشمی بال جھٹکتے ہوئے عجیب ادا سے کہا۔
رات کا واقعہ آپ کو معلوم ہے۔ آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ہماری بیوی نے بھی کس قدر مشکوک طبیعت پائی ہے۔”
"تو آخر اس سے کیا مطلب۔” سردار صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اجی حضرت تمام نوکرانیاں یہی کہہ رہی ہیں کہ آپ کی داڑھی مصنوعی ہے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ ہماری بیوی کہیں آپ سے جلنے نہ لگے۔ لہٰذا بہتر ہے ملاقات نہ ہو۔”
سردار صاحب نے ایک قہقہہ لگا کر کہا! "شکریہ، تسلیم، تسلیم۔ بھئی میری اس قدر بڑی تو داڑھی ہے اور بات تو یہ ہے کہ اس داڑھی پر تمہارا کوئی فقرہ چست ہی نہیں ہو سکتا”
ہم نے ہاتھ میں بال لیتے ہوئے کہا
"صید از حرم کشد غم جعد بلند تو
فریاد از تطاول مشکیں کمند تو
صورت اور شکل اور انہیں کہاں لے جاؤ گے؟”
اتنا ہی کہا تھا کہ ملازم آیا اور اس نے ہم سے کہا کہ "آپ کو اندر کسی بہت ضروری کام سے بلایا ہے۔” ہم فوراً اٹھ کر گئے۔ معلوم ہوا اوپر ہیں، وہاں جو پہنچے تو سب سے پہلے دونوں خادمائیں آنکھیں پھاڑے متوحش اور ششدر ملیں۔ "الٰہی خیر تو ہے۔” ہم نے دل میں کہا اور کمرے میں داخل ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ بیوی صاحبہ تکیے میں منہ چھپائے پڑی ہیں۔ پاؤں کی آہٹ پا کر جو سر اٹھایا، تو ہم دیکھتے ہی حیران رہ گئے۔ رنج و الم سے چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ہم بے حد پریشان ہوئے اور پاس بیٹھ کر ہم نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مضطرب ہو کر کہا "میری جان تمہیں کیا ہوا؟ خیر تو ہے۔”
روتے ہوئے بیوی نے جواب دیا۔ "معلوم ہوتا ہے میرے دن اب قریب آ گئے ہیں۔”
متوحش ہو کر ہم نے پھر کہا۔ "خیر تو ہے۔ آخر کیا ہوا؟”
"تمہارا اعتبار جب میرے اوپر سے اٹھ گیا تو میں کیونکر زندہ رہ سکتی ہوں۔ اگر کسی بازاری عورت سے تم ملو اور مجھ سے کہہ دو تو خیر کچھ نہیں۔ لیکن وہ گھر میں آئے اور تم مجھ سے چھپاؤ۔ تو اس کے یہی معنی ہیں کہ میری موت قریب ہے۔ مجھ کو اب تک فخر تھا کہ میں تمہاری راز دار ہوں۔ مگر خدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اتنا کہہ کر آواز گھٹ گئی اور پھر بری طرح منہ چھپا کر رونا شروع کیا۔ ہم سخت چکر میں تھے کہ "الہٰی یہ کیا مصیبت ہے۔ کیا مجھ کو پاگل بنا دو گی! آخر یہ کیا معمہ ہے؟ کیسی رنڈی اور کیسی منڈی یہاں کہاں ہے۔”
بیوی نے آنسو پونچھ کر اور آنکھیں چار کر کے کہا۔ "اب بھی یہی کہے جاؤ گے کہ عورت نہیں ہے۔”
"کوئی نہیں، بالکل غلط ہے۔ پھر معلوم ہوتا ہے وہی رات کا قصہ پیش ہے۔”
"جو تم کہو وہ صحیح ہے۔ کہہ چکی کہ میرا مذہب ہو، تو تم ہو، اور ایمان ہو، تو تم ہو۔ مگر اب میں بغیر اپنی آنکھیں پھوڑے نہ رہوں گی۔ میرا مذہب ہے کہ اگر ایک چیز میری آنکھیں دیکھیں کہ ہے۔ مگر تم کہو کہ نہیں ہے۔ تو میری آنکھیں جھوٹی اور تم سچے۔ شاید میری آنکھوں نے بھی نوکرانیوں کی طرح دھوکا کھایا ہو۔ لہٰذا ایک دفعہ اور آزما لوں۔ یہ کہہ کر اٹھی اور کھڑکی سے باہر جھانکا۔ انگلی سے ہمیں اشارہ کیا۔ ہم بھی گئے۔
"وہ دیکھو! میری آنکھیں تو اب بھی مجھے دھوکا دے رہی ہیں” اشارہ سے بتاتے ہوئے کہا۔ ہم نے جو کھڑکی سے باہر کو نظر ڈالی تو بیشک اپنی بیوی کا کہنا ٹھیک پایا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ برآمدے میں ایک عورت کھڑکی کی طرف سے پشت کئے ہوئے کھڑی آئینہ دیکھ رہی ہے۔ اس کے لمبے لمبے بال اس کی کمر تک لٹک رہے ہیں جن کو وہ اپنے نازک اور گورے ہاتھوں سے سلجھا رہی ہے اور جھٹک رہی ہے۔ سفید ساڑھی باندھے۔ سر اور کہنیوں تک ہاتھ کھلے ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ بہت حسین ہو گی۔ ہم نے یہ نظارہ دیکھ کر بیوی کی طرف دیکھا تو اس نے عجیب اور پر درد و مغموم لہجہ میں کہا "کیا بتاؤں، میرا اس وقت کیا حال تھا۔ جب میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ تم ہنس ہنس کراس کے بالوں میں ہاتھ ڈال کر کھیل رہے ہو۔”
بجائے اس کے ہم کچھ جواب دیتے ہم نے بیوی کا ہاتھ پکڑا اور کمرہ میں لائے۔ گلے سے لگا کر بیوی سے خوشامد کر کے اپنی خطا کا اعتراف کیا اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔
"خدا کے لئے مجھے گنہگار نہ کرو۔ میں بھلا اس لائق ہوں کہ تم مجھ سے معافی مانگو۔”
"یہ کوئی بات نہیں، جب ہماری خطا ہے تو ہم کیوں نہ معافی مانگیں۔”
راضی ہو کر بیوی نے کہا۔ "اچھایہ بتاؤ کہ تم مجھ سے رات کوہی کیوں نہ کہہ دیا۔”
"محض حماقت اور بے وقوفی۔ یہی خیال تھا کہ تم ناگوار گزرے گا۔”
"میں پھر کہتی ہوں کہ جس میں تم خوش اس میں میں خوش اور میرا خدا خوش۔ خدا کے واسطے مجھ سے کوئی بات نہ چھپاؤ۔”
ہم نے وعدہ کر لیا اور کہا کہ "ہم تو تم سے اصل واقعہ خود ہی کہنے والے تھے، کیونکہ ہمیں تم کو اس عورت سے ملانا ہے اب ہم تم سے ایک بات کہتے ہیں اور وہ یہ کہ تم اس سے چل کر ابھی مل لو تاکہ ہمارا دل ہلکا ہو جائے۔”
"ملنے میں مجھے کوئی انکار نہیں۔ مگر ابھی؟”
"ہاں ابھی اور اسی طرح۔ اگر تم کو مجھ سے محبت ہے تو پھر میں جو کہوں وہ کرو۔ لو، اٹھو۔”
یہ کہہ کر ہم نے بیوی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور کہا "وہیں باہر ہی چل کر مل لو اور سوائے اس کے اور اس وقت کوئی نہیں ہے۔”
ہماری شریر مگر معصوم اور وفا دار بیوی ہمارے اشارے پر چلتی تھی۔ سیدھی ہمارے ساتھ ہولی۔ ہم بجائے دروازے پر آنے کے اس زینہ سے اترے جو خاص اس برآمدہ میں نکلتا تھا۔ یہاں سردار صاحب نہ تھے۔ ہم نے بیوی کو یہیں چھوڑا اور چپکے سے کمرہ میں جھانک کر دیکھا کہ سردار صاحب کدھر ہیں۔ سردار صاحب کمرہ میں سڑک کی طرف والے دروازے میں ہماری طرف پشت کیے ہوئے بالوں کو ہوا دے کر سکھا رہے تھے۔ ہم فوراً لوٹ آئے اور بیوی کو آگے کیا۔ بیوی کی نظر سامنے والے قد آدم آئینے پر پڑی، اور وہ ایک دم سے ذرا رکی کہ نظر داہنی طرف پڑی۔ اندر آئیں تو دیکھا کہ وہی عورت اس طرف منہ کیے بال سکھا رہی ہے۔ ذرا آگے بڑھی کہ سردار صاحب نے ذرا پیر کی آہٹ پا کر منہ جو پھیرا تو ڈیڑھ بالشت کی داڑھی والا چہرہ سامنے تھا۔ گھبراہٹ میں سردار صاحب کے منہ سے صرف اتنا نکلا۔ "ہیں”
ہم نے جو مڑ کر دیکھا تو بیوی ندارد۔
سردار صاحب حیران و پریشان تھے اور ادھر مارے ہنسی کے ہمارا یہ حال کہ ہنستے ہنستے دیوانے ہوئے جا رہے تھے۔ جتنا بھی سردار صاحب خفا ہو کر ہم سے پوچھتے تھے کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔ اتنا ہی ہمارا ہنسی کے مارے برا حال ہوتا تھا۔ ہنسی کو بار بار ضبط کر کے اور دم لے لے کر قصہ سنایا کہ "جناب، آپ کھڑکی کی طرف پشت کر کے کنگھا کر رہے تھے اور ہم آپ کے ریشمی بالوں سے ہنس ہنس کر کھیل رہے تھے۔ ہماری بیوی نے داڑھی دیکھی یا نہیں یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ آپ کا منہ دوسری طرف تھا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ آتش رشک میں جل مریں اور رو رو کر وہ حال کیا کہ خدا کی پناہ۔ خدا آپ کی داڑھی کی عمر دراز کرے اور الٰہی وہ خوب پروان چڑھے کہ آج اس نے ایک میاں اور بیوی میں ناچاقی ہوتے ہوتے بچا لی۔ وہ یہاں در اصل اس عورت سے ملنے آئی تھیں جس کو انہوں نے کھڑکی میں سے اپنی طرف پشت کیے ہوئے، سفید ساڑھی باندھے برآمدہ میں بال سکھاتے دیکھا تھا اور جس کے بالوں سے مجھے ہنس ہنس کر کھیلتے دیکھا تھا۔ اب یہ ان کی قسمت ہے کہ آپ نے جو منہ موڑا تو ڈیڑھ بالشت کے داڑھے کا کچھ ایسا رعب چھایا کہ بھاگتے ہی بن پڑی۔
سردار صاحب کو بھی یہ لطیفہ سن کر بے حد ہنسی آئی۔ مگر ہمارے تمام فقرے اب سب طرح چست ہو رہے تھے اور سردار بے حد جھینپ رہے تھے۔
——-
ہم جو اندر گئے تو بیوی صاحبہ نے ہمیں دیکھ کر پھر تکیہ میں منہ چھپا لیا۔ ہم نے پاس جا کر گدگدایا تو بیوی کو مارے ہنسی کے بے حال پایا۔ ہم نے کہا۔ "تم کس قدر بد اخلاق ہو کہ اس عورت سے بات بھی نہ کی۔ وہ کہتی ہو گی کہ کیسی تمیز دار بی بی ہیں۔
——-
اس کے بعد ہی وہ رات کی غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔ واقعہ یہ تھا کہ رات کو بجلی کی روشنی میں کمرہ میں جو عورت جھانکتی تھی تو سامنے قد آدم آئینہ میں اس کو اپنا عکس نظر پڑتا تھا۔ رات کے وقت یہ تو تمیز ہوتی نہ تھی کہ کون ہے اور پھر جلدی میں محض ایک جھپک دیکھ کر بھاگ جاتی تھیں۔ یہ معمہ ہماری بیوی نے حل کیا۔ کیونکہ جیسے ہی وہ کمرہ میں داخل ہوئی تھی تو وہ خود اپنا عکس دیکھ کر ایک لمحہ کے لیے جھجک گئی تھی۔ چنانچہ جب نوکرانیوں کودن کے وقت بھیجا کہ جا کر دیکھو کہ وہ عورت ہے کہ نہیں۔ تو ان کو اپنی حماقت کا پتہ چلا۔ بات در اصل یہ تھی کہ اس کمرہ میں نوکرانیوں کا کم گذر ہوتا تھا۔
اب سردار صاحب بیوی سے ملاقات کرنے کو راضی ہی نہ ہوتے تھے۔ اور نہ بیوی راضی ہوئیں۔ سردار صاحب کہنے لگے کہ اب کی مرتبہ جب آئیں گے تب ملاقات کریں گے۔ غرض یہ کہ عرصہ تک ہمارا تقاضا رہا۔ مگر سردار صاحب صاحب ملاقات پر راضی ہی نہ ہوئے۔
جب دوستوں کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو سردار صاحب جگہ جگہ تنگ کئے گئے۔ اور اب تک برابر تنگ کئے جاتے ہیں۔ یہ واقعہ ان کو یار دوستوں میں شرمانے کے لئے کافی ہے۔
٭٭٭
چوتھا باب : لاہور کا سفر
۔۔ ۱ ۔۔
ہماری بیوی کا سخت تقاضا تھا کہ لاہور کی سیر کریں۔ لہٰذا دسمبر کی چھٹیوں میں ہم لاہور گئے۔ ہم نہیں بتائیں گے کہ کس جگہ ٹھہرے۔ مگر خوب سیر کی۔ چلنے سے ایک روز پیشتر ہم نے اپنی بیوی سے کہا کہ "بغدادی چور کا مشہور فلم آیا ہوا ہے۔ کیا تو دیکھے گی” چونکہ ہماری بیوی کے مزاج میں سیر و تفریح سمائی ہوئی تھی۔ لہٰذا فوراً ہی تو راضی ہو گئی۔ بد قسمتی سے ہم دونوں سینما ایسے تنگ وقت میں پہنچے کہ بمشکل اول درجہ میں جگہ ملی اور وہ بھی بد قسمتی سے ایسی کہ ادھر ہم ادھر بیوی اور بیچ میں ایک پگڑ باز جو بہت ہی سخت خطرناک قسم کا بڑا سا صافہ باندھے ہوئے تھے۔ ہم نے ان سے کہا کہ "صاحب آپ اپنی جگہ ہماری جگہ سے بدل لیجئے تو بڑی عنایت ہو، تاکہ ہم اپنی بیوی کی معیت کا لطف اٹھا سکیں” مگر وہ نہ مانے اور بد مزاجی سے پیش آئے۔ اور نوبت گفت و شنید تک پہنچتے پہنچتے رہ گئی۔ قسمت کی خوبی یا اتفاق کہ آگے کی صف سے ایک صاحب بہادر اٹھ کر رفو چکر ہوئے اور ان کی جگہ خالی ہوئی ہم نے ان سے کہا "حضرت آگے والی جگہ خالی ہے۔ آپ بیٹھ جائیے۔” چنانچہ وہ پگڑ باز آگے جا بیٹھے اور ہماری بیوی ان کی جگہ آ بیٹھی اور اس کی جگہ ایک صاحب نے پیچھے سے آ کر لے لی۔ یہ صاحب بہت شائستہ اور معقول آدمی معلوم ہوتے تھے۔ یہ لاہور کے ایک ہندو وکیل تھے۔
اب معلوم ہوا ہماری بیوی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ سامنے زبردست پگڑی تھی۔ ہم نے نہایت ادب سے ان حضرت سے بیکار کہا کہ "حضرت آپ صافہ اتار لیں۔” وہ نہ مانے اور ہماری بیوی نے تنگ آ کر ہم کو بھی نہ دیکھنے دیا۔ اور باتوں میں مشغول کر لیا۔ وہ چپکے چپکے کہہ رہی تھی کہ "ان پگڑ باز سے بدلہ لو۔ اور ان کا صافہ سمیٹو۔” ہم کہہ رہے تھے کہ "ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تو آج ماری جائے گی اور ہمیں بھی ذلیل کرائے گی۔” وہ کہتی تھی کہ "آخر پھر کیا کیا جائے۔” وکیل صاحب ہماری بیوی کی تجویزوں میں بہت دلچسپی لے رہے تھے۔ مگر یہ رائے ان کی بھی تھی کہ "تم عورت ہو۔ شرارت کرنا مناسب نہیں۔” تو اس کا جواب ہماری شریر بیوی نے یہ دیا کہ "حضرت پھر آپ ہی مرد بنئے اور کسی طرح ان کا صافہ اتروائیے۔” وکیل صاحب نے خود ان پکڑ پسند حضرت سے کہا کہ "صافہ اتار ڈالئے یا کوئی اور ترکیب کیجیئے” مگر وہ نہ مانے۔
ہماری بیوی ہم کو تماشہ دیکھنے ہی نہ دیتی تھی۔ ہماری کرسی کے تکیہ پر بایاں ہاتھ رکھے ہوئے ہماری ٹوپی کے پھندے سے کھیل رہی تھی۔ اور باتوں میں لگائے ہوئے تھی۔ ہم کہہ رہے تھے کہ نہ تو خود تماشہ دیکھتی ہے اور نہ ہمیں دیکھنے دیتی تھی۔ آخر یہ کیا معاملہ ہے کہ اتنے میں اس نے کہا کہ "باہر چلو، چائے پئیں۔” ہم نے انکار کیا اور کہا "تو جا، اور ہمیں دیکھنے دے۔” وہ چلی گئی اور وہاں سے جو واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ہماری ٹوپی کے پھندنے کے دو ڈورے تھے۔ جو فتیلہ کی طرح سلگ رہے تھے۔ ایک ان میں سے اس نے وکیل صاحب کو دیا اور ایک اپنے ہاتھ میں لیا۔ ہم نے دریافت کیا کہ "یہ کیا معاملہ ہے” تو اس نے نہ بتایا۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے پگڑ باز حضرت کی گردن پر سلگتا ہوا کنارہ اس ڈورے کا چھوا دیا۔ بس ہم کیا بتائیں کہ انہوں نے کس صفائی سے اپنی گدی جھاڑی۔ گویا ان کی گردن میں کسی کیڑے نے ڈنک مار دیا۔ جیسے ہی انہوں نے مڑ کر دیکھا۔ تو ہماری بیوی نے وکیل صاحب سے کہا کہ "وکیل صاحب آپ کو ایسا نہ کرنا چاہئیے۔” وکیل صاحب نے اس مذاق سے کافی دلچسپی لی۔ پگڑ باز حضرت اس مذاق کو پی گئے۔ اور سوائے دو ایک مرتبہ سر ہلا ہلا کر وکیل صاحب کو دیکھنے کے کچھ نہ کیا۔ اب ہماری بیوی نے پھر یہی کرنا چاہا۔ ہم نے بہت کچھ کہا کہ "کمبخت تو مار کھائے گی۔ اور تیری شامت آ رہی ہے۔” مگر وہ نہ مانی اور اس نے پھر ایک چرکا دیا۔ اب کی مرتبہ وہ بل کھا گئے۔ غل تو مچا نہ سکتے تھے۔ نہ معلوم کیا پھسپھسانے لگے۔ مگر سخت برہم تھے۔ وکیل صاحب نے جو دیکھا کہ معاملہ میرے اوپر آ رہا ہے۔ تو انہوں نے ہاتھ کا فتیلہ پھینک دیا۔ مگر پگڑ باز نے اس کو دیکھ لیا تھا اور وہ یہ خیال کر رہے تھے کہ شرارت وکیل صاحب کی ہے۔ کیونکہ ہماری بیوی بالکل بھیگی بلی بنی بیٹھی تھی۔ اور بار بار کہتی تھی کہ "ایسا نہ کرنا چاہئیے، بری بات ہے۔” اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ حضرت پگڑ باز ہوشیار ہو کر بیٹھے تھے۔ اور غافل نہ تھے۔
تھوڑی دیر بعد وکیل صاحب نے اٹھ کر ایک صاحب سے سگریٹ مانگنا چاہا۔ اور ادھر پگڑ باز سمجھے کہ میرے ساتھ شرارت کا ارادہ ہے یہ صاحب ان پگڑ باز کے بائیں ہاتھ کو بیٹھے ہوئے تھے۔ وکیل صاحب نے اٹھ کر ہاتھ جو لمبا بڑھایا کہ پگڑ باز نے جو بالکل ہوشیار بیٹھے تھے۔ گھما کر ایک ہاتھ بغیر دیکھے بھالے اندھیرے ہی میں ایسا وکیل صاحب کے دیا کہ ان کی کنپٹی پر پڑا۔ لازمی امر تھا کہ وکیل صاحب بھی اس کا جواب دیتے اور انہوں نے زور سے پگڑی پر ایک ایسا ہاتھ مارا کہ وہ ان کے گلے میں اتر آئی۔ پگڑ باز کا جام صبر لبریز ہو چکا تھا اور وہ بلائے بے درماں کی طرح غل مچا کر کود کر ہماری صف پر گرے اور وکیل صاحب سے غلغب ہو گئے۔ ایک ہلڑ مچا اور روشنی ہوئی۔ ایک انگریز سارجنٹ نے آ کر مداخلت کی۔ ہماری بیوی نے اور پڑوسیوں نے ان پگڑ باز کی جھوٹی سچی شکایت کی۔ وہ حضرت سارجنٹ سے بھی سختی سے پیش آئے۔ جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ حضرت پکڑ کر نکالے گئے اور پھر ہماری بیوی نے بقیہ کھیل اطمینان سے دیکھا۔
کھیل ختم ہوا تو وکیل صاحب سے ہم نے اپنی بیوی کی شرارتوں کی معذرت چاہی۔ مگر وکیل صاحب ہماری بیوی کی شریر شرارتوں کے قائل ہو چکے تھے۔ اور انہوں نے ہمارا نام و پتہ مفصل دریافت کیا اور اپنا بتا دیا اور اپنے یہاں دوسرے روز چائے پر مدعو کیا۔ ہم نے معذرت چاہی مگر ہماری بیوی نے بات کاٹ کر کہا کہ "نہیں صاحب، ہم اس خدمت کے لئے حاضر ہیں اور ضرور آپ کے یہاں آئیں گے۔” بڑی گرمجوشی سے وکیل صاحب ہم سے پختہ وعدہ لے کر رخصت ہوئے۔
شام کو ہم وکیل صاحب کے یہاں پہنچے جہاں بہت پر تکلف چائے پی اور کئی ایسے صاحبوں سے ملاقات ہوئی کہ اگر ان سے نہ ملتے تو افسوس ہی رہ جاتا۔ اسی رات کو ہم لاہور سے لکھنؤ کے لئے روانہ ہو گئے۔
۔۔ ۲ ۔۔
واپسی پر دو روز دہلی ٹھہرے اور خوب سیر کی ہم نے بیوی سے کہا کہ "تیری سیر سپاٹے کی نذر ہم دو سو روپے سے زائد کر چکے ہیں اور اب تجھ کو تیسرے درجے میں سفر کرائیں گے۔” قصہ مختصر بہ نظر کفایت یہ طے ہوا کہ یہاں سے انٹر کلاس کا ٹکٹ لیا جائے۔ بد قسمتی سے دہلی کے اسٹیشن پر ہماری بیوی کی ایک ملنے والی مل گئیں جو علی گڑھ جا رہی تھیں۔ اور ہماری بیوی نے کہا "ہم اب زنانہ درجے میں سفر کریں گے” ہم ہمیشہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ ہی بٹھانا پسند کرتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ اس وجہ سے بٹھاتے ہیں کہ "مال عرب پیش عرب” مگر در اصل ہم باتونی زیادہ ہیں اور پھر بیوی کے ساتھ جو باتیں کرنے کا مزہ آتا ہے، وہ کسی میں نہیں۔ ہم سوچتے تھے کہ علی گڑھ کے بعد بیوی کا ساتھ ہو جائے گا۔ مگر بد قسمتی سے مردانہ درجہ میں جگہ کی اس قدر قلت ہوئی کہ بیوی کو ساتھ بٹھانے کا خیال ہی ترک کرنا پڑا۔ ہم نے جو بیوی سے سیکنڈ کلاس میں چلنے کو کہا تو وہ راضی نہ ہوئی۔ کیونکہ اس کو خود خیال تھا کہ بہت روپیہ اٹھ چکا ہے۔
بد قسمتی پر بد قسمتی تھی۔ اچھی بیوی اور اچھا مسافر ساتھی مشکل ہی سے ملتا ہے علی گڑھ کے بعد تو ہمیں دوزخ کے مزے آ رہے تھے۔ کیونکہ دو تین سیٹھ صاحبان آ بیٹھے تھے۔ جو تجارت کی اس قدر نامعقول باتیں کر رہے تھے کہ ہم سرسوں اور تل کا نرخ سنتے سنتے تنگ آ گئے اور ہمیں کہنا پڑا کہ "حضرت یہ ریل ہے، دکان نہیں کہ آپ صاحبان تمام خرید و فروخت کے قصے یہاں سنائیں۔”
ٹونڈلہ کا اسٹیشن آیا اور ہم اپنی بیوی سے خوش گپیاں کرنے پہنچے۔ بیوی نے خواہش ظاہر کی کہ کہیں عمدہ کیک ملیں تو بہتر ہے۔ ہم کیک کی تلاش میں ویٹنگ روم کے ہوٹل کی طرف چلے۔ بھیڑ بھاڑ میں تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے سامنے سے پرانا یار آتا نظر پڑا۔ ہم دوڑ کر اس سے لپٹ گئے کہ دونوں کی زبان سے ایک ساتھ نکلا کہ "بھئی خوب ملے۔ کہاں جا رہے ہو، کیسے ہو اور کہاں ہو”، یہ دو چار جملے تھے جن کے سوال و جواب دونوں طرف سے دو چار ہی باتیں ہوئیں تھیں کہ حامد نے ہم سے کہا۔ "یار ایک بڑی زور دار لڑکی دیکھنے میں آئی ہے۔” ہم نے متعجب ہو کر دریافت کیا کہ "کہاں ہے۔” حامد نے کہا "زنانہ درجے میں جمی ہوئی ہے۔ ارے یار کیا بتاؤں کہ برابر قریب قریب ہر اسٹیشن پر اسے دیکھنے کے لئے اترتا ہوں۔ مگر جونہی پاس پہنچتا ہوں وہ ظالم منہ پھیر لیتی ہے۔ بھئی کیا کہوں غضب کی لڑکی ہے۔” حامد یہ کہتے ہوئے ہمیں لے کر دکھانے چلے۔
ہم دل میں سوچ رہے تھے کہ آخر وہ کون سی لڑکی ہے جس نے یہ ستم ڈھا رکھا ہے کیونکہ ہمیں تو اب تک نظر نہ پڑی تھی۔ ہم دونوں تیزی سے زنانہ درجہ کی طرف پہنچے کچھ دور کھڑے ہو کر حامد نے کہا "وہ دیکھو سیاہ برقعہ کی نقاب سر پر ڈالے منہ کھولے بیٹھی ہے۔ کہو کچھ ہے زور دار۔”
ہم بھلا سوائے اس کے اور کیا جواب دیتے کہ "بھئی لڑکی واقعی زور دار ہے” کیونکہ در اصل جس کو اس اہتمام سے میاں حامد نے دکھایا تھا، وہ ہماری بیوی ہی تھی۔ ہم نے دل میں کہا کہ حامد بہت دن کے بعد ملا ہے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کو تختہ مشق نہ بنائیں۔ لہٰذا ہم نے حامد سے کہا "بھئی ہم پاس جا کر ذرا دیکھیں تو صحیح رائے قائم کر سکیں۔”
"کہیں ایسا غضب بھی نہ کرنا۔ ورنہ وہ ظالم منہ موڑ کر بیٹھ جائے گی اور پھر اس سے بھی جاؤ گے۔” حامد نے یہ کہہ کر ہمیں روکا۔
ہم نے حامد سے کہا کہ "یار، یہ تو بڑی ٹیڑھی بات ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ "تم ہر اسٹیشن پر اتر کے اس کے پاس گئے تو مگر کچھ ڈورے بھی ڈالے؟”
حامد جل کر بولے "تم بھی عجب احمق ہو۔ صورت تک تو وہ دکھاتی نہیں، ڈورے کیا خاک ڈالتے۔”
ہم نے حامد سے کہا کہ "تم ہمیشہ کے احمق ہو اور تم سے کچھ نہیں ہو سکتا” حامد نے اس کا یہ جواب دیا کہ "اچھا اگر تم عقلمند ہو تو کچھ کر لو” ہم نے دل میں سوچا کہ حامد ڈھرے پر آ رہا ہے لہٰذا ہم نے کہا کہ "یوں نہیں کچھ شرط رہے۔”
حامد نے کہا۔ "رہی۔” ہم نے کہا کہ "ہم اس پٹاخہ سے اگر پان اینٹھ لانے تو کیا دو گے۔” حامد نے تاؤ میں آ کر ایک پانچ روپے والا نوٹ نکالا اور ہم نے اس کو اپنی جیب میں رکھا اور چلنے کو ہوئے۔ حامد ایک دم سے بولے "یاد رکھنا دو گنے لے لوں گا۔” ہم رک گئے اور ہم نے حامد سے کہا "دوست یہ جھوٹی بات ہے۔ ہم تو ایک طرفہ شرط بدتے ہیں۔ پان لے آئیں تو نوٹ ہمارا ورنہ اپنا نوٹ جوں کا توں واپس لے لینا۔” حامد اس پر راضی ہو گئے۔ ہم نے دونی شرط اس وجہ سے بدی کہ کہیں حامد کو شبہ نہ جائے اور معاملہ بگڑ جائے۔
۔۔ ۳ ۔۔
ہم پہلے آہستہ آہستہ کھڑکی کے سامنے سے بیوی کو دیکھتے ہوئے نکل گئے۔ ہماری بیوی بھی گویا پھلجڑی ہے کہ ہر بات میں اس کو مذاق ہی نظر آتا ہے۔ ہمیں اس طرح بے تعلق جاتے ہوئے دیکھ کر مسکرائی اور دیر تک ہمیں دیکھتی رہی۔ حتی کہ ہم بھیڑ میں مل کر غائب ہو گئے۔ گھوم کر ہم حامد کے پاس آئے اور کہا کہ "بولو اب کیا کہتے ہو۔”
"ارے یار، تو بھی غضب کا آدمی ہے۔ ہماری تو عقل چرخ ہو گئی ہے تم نے تو صرف ایک ہی مرتبہ اس کو سر اٹھا کر دیکھا مگر وہ تم کو برابر دیکھتی رہی۔ اور پھر ستم یہ کہ سن رہی تھی۔”
ہم نے ذرا اکڑ کر کہا کہ "بھئی ہم تمہاری طرح احمق تھوڑا ہی ہیں۔ اب کہ مرتبہ ہم بات کریں گے۔”
حامد کہنے لگے کہ "معلوم ہوتا ہے۔ تمہاری قسمت دھکا کھا رہی ہے اور گداگدی کی چندرماں دیکھنا چاہتے ہو۔ اچھا جاؤ تو سہی یاد رکھنا بری طرح مارے جاؤ گے”
ہم پھر ٹہلتے ٹہلتے پہنچے۔ ادھر ادھر مشکوک نظروں سے بن بن کر دیکھتے جاتے تھے۔ اور بیوی سے مزے دار باتیں کرتے جاتے تھے۔ اس نے جو سنا کہ ہم اپنے ایک دوست پر "دھار” رکھ رہے ہیں تو بہت خوش ہوئی۔ ہم نے ایک پان اس سے اس طرح چھپٹا کہ جیسے کوئی دیکھ نہ لے اور چلے آئے۔
اب حامد سخت چکر میں تھے اور کہنے لگے۔ "یار تمہیں کچھ جادو آتا ہے۔” یہ کہہ کر بے بسی کے عالم میں پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر معاملہ پر غور کرنے لگے۔
ہم نے نوٹ کو، جو ہم جیت گئے تھے، جیب میں سے نکالا اور آگے بڑھ کر ان کے سامنے کر کے اس کو ایک بوسہ دیا۔ حامد ہنس کر بولے۔ "ہاں بھئی ہم ہار گئے نوٹ تمہارا ہے۔ مگر یہ ضرور کہیں گے کہ ہو چھٹے ہوئے۔”
ہم نے کہا کہ "تم غلطی پر ہو۔ ہماری اس میں کچھ چالاکی نہیں۔ بلکہ یہ تو ہمارا مردانہ حسن ہے کہ ایسی ایسی چھوکریاں نہ معلوم کتنی روزانہ فدا ہوتی ہیں۔”
حامد نے کہا "استاد بن آئی ہے۔ جو جی چاہے کہو۔ اب پھر جاؤ گے۔”
ہم نے کہا "اب ہم جانا ٹھیک نہیں خیال کرتے۔ کیونکہ وہ ہم سے کیک مانگ رہی ہے۔”
"اچھا کھاؤ قسم” حامد نے متعجب ہو کر کہا۔ ہم نے فوراً قسم کھا لی۔ کیونکہ یہ واقعہ تھا کہ وہ کیکوں کا سخت تقاضہ کر رہی تھی۔ حامد اس پر بولے "پھر دے کیوں نہ آئے” جس کا ہم نے جواب دیا کہ "ہم ایسی بے وقوفی ہرگز نہ کریں گے۔ ایسا ہی ہے تو تم خود دے آؤ۔” حامد نے تیاری ظاہر کی۔ بشرطیکہ ہم جا کر معاملہ ٹھیک کر دیں۔ ہم دوڑے ہوئے بیوی کے پاس پہنچے اور اس کو خوشخبری سنائی کہ "دوست تمہاری دعوت ہمارا دوست کر رہا ہے۔ اور چوکنا مت، کیک فوراً لے لینا۔”
حامد کیک تو لے آئے مگر اب ان کو ڈر لگا کہ کہیں کوئی مرد نہ ہو۔ ہم نے کہا "اس کے ساتھ کوئی مرد نہیں۔ کیونکہ وہ اکیلی سفر کرنے کی عادی ہے۔ تم بے خوف جاؤ مگر حامد راضی نہ ہوتے تھے۔ ہم نے کہا "اچھا تم کیک لئے ہوئے سامنے سے گاڑی کے گزرو، اگر مانگے تو دینا ورنہ چلے آنا”
حامد کھڑکی کے سامنے سے کیک لے کر نکلے۔ ادھر ہم نے اپنی شریر بیوی کو مدعو کیا۔ اس نے فوراً ہاتھ بڑھا کر لے لئے اور شکریہ ہی ادا نہیں کیا بلکہ ان کے ہاتھ میں ایک پان بھی دے دیا۔
حامد جو ہمارے پاس آئے تو کیا بتائیں کیا حال تھا۔ ہماری بیوی کے حسن و رنگت کی انہوں نے وہ تعریف کی کہ ہم شکریہ ادا کرتے کرتے تھک گئے کیونکہ ہم حامد سے کہہ رہے تھے کہ وہ ہماری ہے۔ گاڑی چلنے کو ہوئی تو ہم نے بھی حامد کے ساتھ اپنا ٹکٹ دوسرے درجہ کا بنوا لیا۔
۔۔ ۴ ۔۔
اب حامد دوسرے تیسرے اسٹیشن پر ضرور ہماری بیوی کے پاس جاتے۔ ہم بیوی سے کہہ آئے تھے کہ حامد میرا ایسا دوست ہے کہ اس سے ذرہ بھر تکلف نہ کرنا اور ساتھ ہی شرارت میں بھی کمی نہ کرنا” حامد کے ساتھ ایک مرتبہ ہم بھی جو اترے تو وہ بولے کہ "دو آدمیوں کا جانا ٹھیک نہیں۔ تم یہیں ٹھہرو۔ ورنہ وہ پھر بات نہ کرے گی۔” ہم نے کہا "اگر ایسا ہی ہے تو ہم تمام معاملہ خراب کئے دیتے ہیں۔ ورنہ تم ہمیں اس سے جا کر گفتگو کرنے دو” چنانچہ ہم اپنی بیوی کے پاس پہنچے جس کی شرارت آمیز مسکراہٹ ہمارے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی۔ ہم نے جاتے ہی کہا "کہو دوست کیا رنگ ہے۔” اس پر اس نے اپنے کوٹ کی جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر کہا۔ "ہم تو حامد صاحب کے ساتھ اب الہ آباد جا رہے ہیں۔” ہم نے کہا "واہ دوست یہ تم نے کیوں کر اینٹھا۔” تو اس نے کہا "روپے کا بوجھ زیادہ تھا۔ میں تم سے دو مرتبہ کہہ چکی تھی کہ نوٹ بھنا لو۔ مگر تم نے پروا نہ کی۔ حامد صاحب کے بٹوے میں جو انہوں نے کھولا تو یہ نظر پڑا۔ لہٰذا ہم نے فوراً کہا "روپیہ لیجئے اور نوٹ دے دیجئے۔” نوٹ وہ دے گئے مگر روپیہ جلدی میں نہ لے سکے۔ "ہم نے نوٹ لے کر جیب میں رکھا اور کہا "اب آئیں تو ان کو ایک پڑیا دینا۔” بیوی کی مارے خوشی کے رنگت بدل گئی۔ اور کہنے لگی۔ "ضرور ضرور مجھ کو تو یاد ہی نہ رہا تھا۔”
ہم جو واپس آئے تو حامد نے دریافت کیا کہ "کیا باتیں کر آئے۔” ہم نے کہا "ہم نہ بتائیں گے۔ کیونکہ راز و نیاز کی باتیں کر کے آ رہے ہیں۔” حامد نے کہا "تم بد تمیز ہو۔ وہ شریف لڑکی ہے۔ تم اس سے راز و نیاز کی باتیں کر ہی نہیں سکتے۔” نوٹ وغیرہ کا قصہ ہی ہم نے حامد سے نہ کہا۔
دوسرے اسٹیشن پر میاں حامد نے کہا "ہم تو پان کھانے جاتے ہیں” ہم نے کہا "میاں زیادہ چونچ نہ لال کرو ورنہ پچھتاؤ گے۔” حامد اتر گئے۔ وقت تھوڑا تھا۔ فوراً ہی پان منہ میں دابے واپس آئے۔ ابھی اچھی طرح بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ منہ بنانا شروع کر دیا۔ اور بری طرح کھڑکی کے باہر منہ کر کے تھوکنا شروع کیا۔ ہمارے مارے ہنسی کے برا حال تھا۔ کیونکہ ہم جانتے تھے کہ کہ کونین کی پڑیا حامد کے منہ گھلی ہوئی ہے۔ ہم نے ہنس کر کہا کہ "بھائی کیا مصیبت آئی۔ کچھ تو بتاؤ۔” تو تھوک تھوک کر کہتے جاتے تھے کہ "بڑی شریر ہے، میرا تمام حلق تک کڑوا ہو گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کونین ملا دی۔” ہم نے کہا "بھائی بعض پان خود ایسا کڑوا ہوتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ تمہارا خیال غلط ہو۔” دوسرے اسٹیشن پر حامد تو اپنا حلق صاف کرنے میں اور کلیاں کرنے میں لگے۔ اور ہم اپنی بیوی سے کہہ آئے کہ اب جو حامد صاحب آئیں تو کھڑکی بند کر دینا۔
اب جو حامد صاحب وہاں پہنچے تو کھڑکی بند۔ مجبوراً لوٹ آئے۔ دو تین مرتبہ اگلے اسٹیشنوں پر بھی کوشش کی اور ناکام رہے۔ اب ہم نے کہا کہ "حضرت وہ آپ سے قطعی بات نہ کرے گی۔” اور خود جا کر اور بات کر کے لوٹ آئے۔ حامد نے، تعجب ہے کہ، اب تک نوٹ کا تذکرہ ہی نہ کیا تھا۔ ہم نے خود جیب سے نوٹ نکال کر حامد کو دکھایا اور کہا کہ "بھئی وہ تو ہمارے اوپر جان فدا کئے دیتی ہے” اور یہ نوٹ اس نے زبردستی دے دیا اور تم سے تو وہ اب گفتگو بھی کرنے کی روا دار نہیں ہے” حامد نے کچھ چونک کر کہا کہ "یہ نوٹ تو میرا ہے اور قاعدہ سے مجھے واپس ملنا چاہیئے۔” ہم نے حامد سے کہا "بھائی قاعدہ سے تو یہ ہمارا ہے کیونکہ ہماری چاہنے والی نے ہمیں دیا ہے۔ لیکن اگر تم سچ کہتے ہو کہ تمہارا ہے تو ہم تم کو ضرور واپس کر دیں گے۔ بشرطیکہ اس نے واپس لیا۔” ہم نے حامد سے دوبارہ کہا کہ "بھئی جاؤ، کچھ اپنے نوٹ کی ہی کوشش کر آؤ” تو وہ بولے کہ "اب نہیں جا سکتا کیونکہ وہ اب تمہاری چیز ہے جو تم کو چاہتی ہے۔ میں اس سے محبت نہیں کر سکتا۔ ہاں عزت کر سکتا ہوں۔” ہم نے اپنے پیارے کی پیٹھ ٹھونکی اور شکریہ ادا کیا۔ حامد ایک دم سے بولا کہ "یار یہ تو بتاؤ کہ اب کرو گے کیا۔ کیا اس سے شادی کرو گے اگر شادی کرو گے بھلا کیسے۔” ہم نے کہا "ہم اس شریر لڑکی سے شادی وغیرہ نہیں کریں گے اور نہ ہم ضروری خیال کرتے ہیں۔ ہم تو فی الحال اس کو گھیر کر لکھنؤ لئے جاتے ہیں۔” حامد نے ہم سے کہا "اگر واقعی ایسا ارادہ ہے تو بہت ہی خراب ہے کہ ایک لڑکی کی عمر بگاڑ کر اس کو راہ بد پر لگا رہے ہو”۔ ہم نے کہا "میاں، ہم اس کی عاقبت درست کر دیں گے۔ تم کیا جانو۔” مگر حامد یہی کہے گئے کہ "اگر خراب نیت سے تم اس کو لئے جا رہے ہو تو تم قطعی قابل نفرت ہو۔” ہم دل ہی دل میں اپنے دوست کی پاکبازی کے ضرور مداح تھے۔ مگر باتوں سے پتہ نہ چلنے دیا اور یہ کہہ کہہ کر خوب لطف لیا کہ چونکہ تم ناکام رہے لہٰذا ہم کو پند و نصائح کا شکار بنانا چاہتے ہو۔
۔۔ ۵ ۔۔
کان پور کا اسٹیشن آیا اور ہم نے حامد سے کہا کہ "تم ہمارا اسباب اتروانا۔ ہم ذرا اس کو اتروائیں۔” حامد نے کہا "کیا واقعی تم اس کو اتارے لے رہے ہو۔ وہ تو الہ آباد جا رہی تھی۔ تم کو ہر گز ایسا نہ کرنا چاہیے۔” ہم نے کہا کہ "بالفعل تو ہم اس کو لکھنؤ کی ہوا کھلائیں گے۔” یہ کہتے ہوئے ہم چلے گئے حامد کو گاڑی سے سیدھا جانا تھا۔ لہٰذا ہمارا اسباب اتروا کر وہ وہیں کھڑے تھے۔
ہم اپنی شرارت تاب بیگم صاحبہ کو لے کر حامد کی طرف آئے۔ ہماری بیوی اس وقت اپنا بڑا گرم کوٹ پہنے ہوئے ہمیں ایسی اچھی معلوم ہو رہی تھی کہ ہم بیان نہیں کر سکتے۔ حامد نے کچھ منہ سا پھیر لیا۔ مگر ہم آگے بڑھے اور ہم نے کہا "حامد اب مذاق ختم ہوتا ہے۔ اور ہماری بیوی سے تم باضابطہ ملاقات کرو۔” یہ کہہ کر ہم نے اپنی شریر بیوی کا حامد سے تعارف کرایا۔ وہ ہکا بکا رہ گئے اور خاموش تھے۔ گویا انکار کر رہے تھے۔
ہم نے کہا "یار، تم کو تو باتیں بھی یاد ہیں۔ اس شریر لڑکی کو بھول گئے جس نے ایک روز کھڑکی کے سوراخ میں سے ہماری اور تمہاری آنکھوں میں مٹی جھونکی تھی” حامد نے ہماری بیوی کو غور سے دیکھا اور حالانکہ ایک ہی مرتبہ دیکھا تھا۔ مگر فوراً پہچان گئے۔ اور اچھل پڑے اور پھر تو اس گرمجوشی سے ملے کہ بیان سے باہر اور کہا کہ "میں پہچان گیا۔ پہچان گیا۔” ہماری مسخری بیوی نے کہا کہ "اگر آپ جلدی پہچانتے تو آپ کا حلق ہی کیوں کڑوا ہوتا” حامد سے ہم نے بہت کہا کہ "لکھنؤ چلو مگر وہ نہ مانتے تھے۔ ہم نے اپنی بیوی سے کہا کہ "ان کو پکڑ کر ضرور لے چلو ورنہ ہم انہیں اپنی شادی کا دلچسپ قصہ نہ سنا سکیں گے۔”
القصہ حامد ہمارے ساتھ لکھنؤ دو روز رہے اور ہم نے یہ دو روز اپنے دوست کے ساتھ بے حد لطف سے گزارے۔ تیسرے روز حامد ہمیں ہماری دلچسپ بیوی ملنے پر مبارکباد دیتے ہوئے رخصت ہوئے مگر اس کے ضرور قائل تھے کہ ریل میں انہیں بیوقوف بنایا۔ ہم نے ان کے شرط کے روپے اور سو روپیہ کا نوٹ کانپور ہی میں واپس کر دیا تھا۔ ہماری بیوی کو انہوں نے جو گھڑی بطور تحفہ دی اس کی پشت پر انہوں نے اس سفر کی یادگار اس طرح قائم کی کہ یہ الفاظ کندہ کرا دئیے۔ "حامد کی طرف سے تحفہ اپنے پیارے دوست کی پیاری مگر سخت شریر بیوی کو۔”
٭٭٭
پانچواں باب : کونین کا استعمال
ویسے تو ہماری بہت سی خالائیں ہیں مگر ان میں سے جو سب سے چھوٹی ہیں وہ بہت فرسٹ کلاس ہیں۔ نہ اس وجہ سے کہ وہ ہمیں زیادہ چاہتی ہیں۔ بلکہ اس وجہ سے کہ ہمیں اور ہماری بیوی کو وہ بہت پسند کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ ہمارے یہاں آئیں تو ہماری بیوی کا نام چاندنی رکھ گئیں۔ وہ کہنے لگیں کہ "تیری بیوی چونکہ چاندنی کی طرح کھلی رہتی ہے۔ لہٰذا اس کا نام چاندنی بہت ٹھیک ہے۔” ہم نے کہا "آپ کو نہیں معلوم یہ ہر گز اس لائق نہیں کہ اس کا نام چاندنی رکھا جائے بلکہ ہم تو اس کا نام اندھیرا وغیرہ رکھنے والے ہو رہے تھے۔” مگر وہ نہ مانیں اور انہوں نے جلدی نیک نہاد بیوی کو چاندنی کا لقب دے ہی دیا۔ ہم دو چار روز بجائے چاندنی کے اندھیرا ہی کہا کئے۔ مگر آخر کو ہم چاندنی کہنے لگے جواب تک جاری ہے اور آئندہ ہم یہاں بھی لکھیں گے۔
۔۔ ۱ ۔۔
ملازمت ایسی چیز ہے کہ ایک جگہ رہنا ہی نہیں ہوتا۔ مگر ایک بات یہ بھی ہے کہ جہاں جانا ہوتا ہے، وہاں نئے احباب دوست پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ایک دوست اس نئی جگہ پیدا ہو گئے۔ یہ کشمیری پنڈت تھے۔ اور نہر میں انجنیئر تھے اور تھوڑے ہی دنوں میں ان سے بہت یارانہ ہو گیا۔ جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ چاندنی اور ان کی بیوی کی خوب گھٹتی تھی۔
چاندنی ان کے یہاں اکثر جایا کرتی تھی۔ ان کے بنگلہ پر ایک بڑا سا نہانے کا حوض دیکھا تو ان کی بیوی سے کہا کہ "آخر کیوں نہ اس کو صاف کر کے بھرا جائے۔” یہ حوض بالکل میلا پڑا تھا۔ تیرنا سیکھنے کے لئے بنایا گیا تھا اور نہر سے اس میں پانی آنے کا راستہ تھا۔ چاروں طرف بند تھا۔ اور چھت پر ٹین چھایا ہوا تھا۔ دونوں کی رائے ہو گئی۔ اور پنڈت جی کی بیوی نے اس کی صفائی وغیرہ شروع کرا دی۔ اس حوض کے شوق میں چاندنی دیوانی ہو رہی تھی۔ کئی دن حوض کی مرمت اور صفائی دیکھنے کے لئے گئی۔ اور بڑی دلچسپی لے رہی تھی۔ ہم نے اس کے لئے بمبئی سے زنانہ سوٹ منگایا جس کو دیکھ کر انجنیئر صاحب کی بیوی نے بھی منگایا۔
بڑے شوق اور انتظار کے بعد وہ دن آیا کہ حوض بھرا گیا اور وہ نہانے گئی۔ سفر میں پہلی مرتبہ اسے پانی میں کھیلنے کا موقع ملا۔ تو وہ روزانہ جانے لگی۔ رفتہ رفتہ شوق نے متعدی صورت اختیار کر لی اور دوسری عورتوں کو بھی شوق ہو گیا اور انجینئر صاحب کے بنگلہ پر گویا نہانے اور تیرنے کا ایک زنانہ کلب قائم ہو گیا۔ ہم اس کلب سے سخت پریشان تھے کیونکہ یہ تو روز کا جھگڑا ہو گیا کہ بیوی شناوری کرنے چلی جاتی اور ہم شام کو ادھر ادھر مارے مارے پھرتے۔ ہم بہت کوشش کرتے کہ کسی روز نہ جائے۔ اور اس کو روکتے۔ مگر وہ کہتی تھی کہ "اب تم کلب وغیرہ جانا شروع کر دو۔ میں تیرنا سیکھ رہی ہوں۔” ہم کہتے تھے کہ "ایک نہ ایک دن تو ڈوبے گی اور پھر الٹی لٹکا دی جائے گی۔ اور خواہ مخواہ ہم پریشان ہوں گے” انجینئر صاحب کے ہاں ان کی بیوی نے یہ مشورہ دیا کہ موٹر کے ٹیوب میں ہوا بھر کر اس کی مدد سے تیرنا چاہیے۔ لہٰذا ہم نے دو ٹیوب موٹر کے منگا کر دیئے۔
قصہ مختصر، اس کو ایسا شوق لگ گیا کہ دن بھر یہی انتظار کرتی رہتی کہ کب شام ہو اور میں جاؤں۔ وہاں سے آ کر اپنی شناوری اور غواصی کے دلچسپ قصے سنایا کرتی۔ شرارتیں وہاں بھی اس کے ساتھ تھیں۔ اور یہ اس کا دلچسپ مشغلہ تھا۔ کہ کسی نو وارد بی کو چپکے سے پانی میں بیٹھ کر ٹانگ گھسیٹ کر لوٹ دیا۔
یہ حوض در اصل محض تیرنے اور نہانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ تیسرے روز نہر سے صاف پانی اس میں بھر دیا جاتا تھا۔ ایک طرف اس میں دو تین سیڑھیاں تھیں اور کم پانی تھا۔ مگر آگے کو دوسری طرف سطح ایسی ڈھلوان تھی کہ گہرا ہوتا چلا گیا تھا۔ حتی کہ دوسرے کنارے پر قد آدم سے بھی گہرائی زیادہ تھی۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ چاندنی نے ہم سے کہا "آج ہم بہت جلد جائیں گے کیونکہ انجنیئر صاحب کے یہاں آج کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں اور دوسری بیبیاں بھی آئیں گی۔” ہم سے کہا کرتی تھی کہ "اب ہم کچھ تیر لیتے ہیں۔”
وہاں آج کافی عورتوں کا مجمع تھا۔ اور چاندنی کو ایک اور شریر بیوی وہاں مل گئیں۔ ان دونوں نے یہ رائے کی کہ ایک بی بی کو جو پانی میں بہت ڈر رہی تھیں، گھسیٹا جائے۔ ان دونوں نے چنانچہ ایسا ہی کیا اور پھر پانی میں ایسا ہلڑ مچایا کہ وہ بیچاری گہرے پانی کی طرف گریں۔ اس گڑبڑ میں انہوں نے چاندنی کو بھی گھسیٹ لیا۔ اور نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ دونوں گہرے پانی میں غوطہ کھانے لگیں۔ حالانکہ موٹر کے ٹیوب پانی میں موجود تھے۔ لیکن وہاں ہوش ہی بجا نہ تھے۔ جو ان کی امداد لی جاتی۔ غرض ایک دوسرے کو اس طرح پکڑ کر غوطے کھا رہی تھیں کہ نوبت ڈوبنے تک پہنچی۔ اور بیبیوں نے بہ ہزار دقت ایک ساڑی اندر پھینکی جس کا سرا پکڑ کر دونوں نکل آئیں۔ مگر برا حال تھا۔ ناک اور منہ سے نہ معلوم کتنا پانی پیٹ میں جا چکا تھا اور عجب نہیں کہ تھوڑی دیر اور لگ جاتی تو دونوں ڈوب جاتیں۔
ہم گھر پر انتظار کر رہے تھے۔ وہ مسکراتی ہوئی پہنچی۔ ہم نے کہا کہ "آج یہ کیا معاملہ ہے کہ جلدی آ گئیں۔” تو اس نے قصہ سنایا۔ ہم سمجھے کہ معمولی بات ہے لہٰذا ہم نے خوب بیوی کا تماشا بنایا۔ اس کو پیاس لگ رہی تھی اور اس نے دو مرتبہ دو گلاس پانی پیا۔ اور پھر بھی پیاس نہ بجھی۔ تھوڑی دیر بعد اس کو ایک قے ہوئی اور طبیعت خراب ہو گئی۔ کھانسی علیحدہ تھی۔ اتنی تکلیف ہوئی کہ ڈاکٹر کو بلانا پڑا۔ ڈاکٹر نے کہا "معلوم ہوتا ہے۔ شاید پھیپھڑوں پر بھی کچھ پانی کا اثر پہنچ گیا ہے کیونکہ کھانسی بہت آ رہی تھی۔” دوا انہوں نے کہا صبح دی جائے گی۔ پہلے پیٹ میں سے
پانی نکلنا چاہیے۔
انہوں نے جو علاج کیا وہ ہمیں بہت پسند آیا۔ ایک چار پائی انہوں نے منگائی اور اس کی پائنتی خوب اونچی کر دی۔ پھر چاندنی سے کہا کہ "اس پر لیٹو۔” اس کو اس طرح لٹکایا کہ منہ سرہانے لٹکائے رہے اور اوندھی پڑی رہے۔ پیٹ کے نیچے ایک تکیہ رکھ کر ہم اس پر تعینات کئے گئے کہ وقتاً فوقتاً اس کو اوپر سے دبا کر قے کرائیں۔ ڈاکٹر صاحب کے جاتے ہی ہم نے کہا "کہو ہم نہ کہتے تھے کہ الٹی لٹکائی جاؤ گی۔”
قصہ مختصر دو تین گھنٹہ تک تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کو دباتے۔ پھر قے ہوتی رہی اور اتنا پانی نکلا کہ ہمیں بڑی حیرت ہوئی۔ قے کرتے کرتے پریشان ہو گئی اور ہلکان ہو کر حرارت سی ہو گئی۔ اس کو بڑی بے چینی تھی اور نیند نہ آتی تھی۔ اور گھبراہٹ اور پیاس تھی۔ ہم نے بڑی مشکل سے اس کو تھپک تھپک کر اور سر سہلا سہلا کر سلایا۔ صبح اٹھی تو طبیعت رات کی تکلیف کی وجہ سے بہت کسل مند اور بہت کمزور تھی۔
ہم کچہری سے واپس آئے تو دیکھا کہ چارپائی پر چادر اوڑھے لیٹی ہوئی ہے۔ ہم جانتے تھے کہ ضرور جاگ رہی ہو گی اور بنی پڑی ہے۔ چنانچہ ہم نے آتے ہی گدگدایا۔ اس نے ہنستے ہوئے چادر کو جو منہ سے سرکایا تو ہم کیا دیکھتے ہیں کہ چہرہ تمتمایا ہوا ہے اور سرخ ہو رہا ہے۔ ہم نے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو بخار تھا۔
اب چاندنی کو باری سے بخار آنے لگا۔ بخار بند ہوا تو پھر اور طبیعت خراب رہنے لگی۔ ہم نے حکیم کا علاج تجویز کیا۔ وہ نہ معلوم کیوں حکیموں کے علاج کے خلاف تھی۔ بمشکل راضی ہوئی۔ حکیم صاحب کو دوسرے روز ہم نے بلوایا۔ یہ حکیم واقعی کچھ یونہی سے تھے۔ چاندنی نے جو ان کو دیکھا تو اور بھی خراب رائے قائم کی۔ حکیم جی نے حال پوچھا اور مفصل کیفیت سنی۔ ہاضمہ کا جو حال پوچھا تو اس کو شرارت سوجھی۔ اس نے ان سے کہا۔ "ہاضمہ تو میرا آجکل ایسا ہے کہ جو کھاؤں وہ سب ہضم ہو کر پورا پورا خون بن جاتا ہے۔ حتی کہ فضلہ تک نہیں بنتا۔” حکیم صاحب کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ اس کو تجاہل عارفانہ خیال کریں یا واقعی یہ سمجھیں کہ مریض مغالطہ میں ہے۔ بہرحال انہوں نے اول تو قبض کے متعلق اعادہ کیا۔ پھر نسخہ لکھا۔ چاندنی اٹھ کر دو کھوٹے روپے نکال کر لائی جو ہم نے ان کی نذر کئے۔ ہمیں اس کا علم بعد میں ہوا۔ اور ہم نے کھوئے روپے واپس لے لئے۔ حکیم جی کا نسخہ اس نے فوراً پھاڑ ڈالا۔
پھر ڈاکٹری علاج شروع کر دیا۔ جس میں کونین کا استعمال زیادہ رہا۔ مگر جلد ہی آرام آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہم سے کہا تھا کہ اگر نینی تال ان کولے جاؤ تو بہت جلد طبیعت درست ہو جائے گی۔ چنانچہ ہم نے اس سے وعدہ کر لیا کہ تجھ کو ضرور نینی تال کی سیر کرائیں گے۔
۔۔ ۲ ۔۔
ان دنوں کونین کے استعمال سے نہ معلوم چاندنی کو کیا ہو گیا۔ پہلے ہی کیا اپنی شرارتوں میں کونین کا استعمال کرتی تھی۔ اور اب تو وہ گویا دیوانی ہو گئی۔ ایک بڑی سی بوتل میں اس نے سیکڑوں گرین کونین گھول کر نہایت تیز مکسچر تیار کرایا۔ اور پڑیاں علیحدہ تھیں۔ شکر میں کونین ملی ہوئی علیحدہ رکھی گئی اور یہ سب محض شرارت کی نیت سے۔ تختہ مشق ہمارے دوست ہی موقع بموقع نہیں بنتے تھے۔ بلکہ ہم اور اکثر دوسرے لوگ بھی شرارت کا نشانہ بنتے تھے۔ اور پھر ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے تھے جن سے مذاق مقصود ہی نہ ہوتا تھا۔ ہماری باہر کی الماری میں کھانے پینے کی چیزیں رکھی رہتی تھیں۔ ہم تو صرف وقت پر بیوی کے ساتھ ہی کھاتے تھے۔ اور وہ خود ہی نکالتی تھی۔ مگر ہمارے دوست احباب اکثر بے وقت اس پر ڈاکہ زنی کرتے تھے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ ایک صاحب اس الماری پر حملہ آور ہوئے۔ ایک بسکٹ لے کر انہوں نے کچھ رس بھری کا جام اس پر لگا کر جو کھایا تو بس بل کھا گئے۔ اور تھوکتے پھرے دوڑ کر برآمدے سے صراحی لے کر جو کلی کی تو اور بھی لطف آیا۔ وہاں ایک کی بجائے آج دو صراحیاں رکھی تھیں اور ان میں سے ایک میں کونین گھلی ہوئی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ اس صراحی پر لیبل لگا ہے کہ یہ پانی پینے کا نہیں ہے۔ ہم اندر پہنچے کہ بیوی سے اس نالائقی کا سبب دریافت کریں۔ تو وہاں اور ہی رنگ تھا۔ وہ مرغیوں کو کھڑی ہوئی آہستہ آہستہ گھیر کر پانی کے کونڈے کی طرف لا رہی ہے۔ ہم جو آتے تو مرغیاں کود کر بھاگ گئیں۔ قبل اس کے ہم کچھ کہیں وہ ہم سے خفا ہونے لگیں کہ مرغیاں کیوں بھگائیں۔ ہم نے کہا "آخر کیا ہوا” تو وہ کہنے لگی۔ "ہم انہیں پانی پلانے لائے تھے” ہم نے وجہ پوچھی تو وہ ہنسنے لگی۔ معلوم ہوا کہ مرغیوں کے کونڈے میں کونین ملا رکھی گئی ہے۔ ہم نے اس سے کہا "آخر یہ کیوں تو اس قدر موذی ہو گئی ہے کہ جانوروں تک کو پریشان کرتی ہے۔” اور پھر شکایت کی کہ "آخر یہ کیا حماقت ہے کہ کھانے کی چیزوں اور پینے کے پانی میں کونین ملائی۔” اس نے کہا "اس لئے کہ ہر کوئی نہ کھائے اور صراحی میں اس لئے ملائی کہ دیکھوں دن میں کتنے عقلمند آتے ہیں۔ اور کتنے بیوقوف۔ کیونکہ صراحی پر لکھا ہوا ہے کہ یہ پانی پینے کا نہیں۔ پھر بھی لوگ نہ مانیں تو کیا کیا جائے”۔
ہم کھڑے باتیں ہی کر رہے تھے کہ ملازم لڑکا کتے کو بلا کر لایا۔ اس کا کھانا اس کے برتن میں رکھا ہوا تھا۔ ہم نے کہا "یہ کیا معاملہ ہے کہ کتے کو اس وقت کھانا دیا جا رہا ہے” تو وہ کہنے لگی۔ "تم رہنے دو” ہم ہنسی سے سمجھ گئے۔ غریب کتے نے جو تیزی سے روٹی اور دودھ کھایا تو وہ بھی تھوکتا پھرا اور چاندنی تماشہ دیکھ کر دیوانوں کی طرح ہنسی کے مارے لوٹتی پھری۔ ہم بھی ہنسنے لگے کہ کیا تماشہ بیوی ہمیں ملی ہے۔
اتنے میں دوڑی گئی اور ایک رکابی لائی۔ اس کو کھول کر جو دکھایا تو ہم کیا دیکھتے ہیں کہ بہترین انڈوں کا حلوا ہے۔ زعفران اور کیوڑہ کی مہک سے دماغ معطر ہو گیا۔ چاندی کے ورق لگے ہوئے ہیں۔ اور بادام اور پستہ کی ہوائیاں چھڑکی ہوئی ہیں۔ ہم نے کہا "یہ تو بڑے زور کا مرغن تم نے تیار کیا” ہمیں بالکل خیال نہ آیا کہ اس نالائق نے اتنے دام خراب کر کے اس کو بھی کڑوا کر ڈالا ہے۔ فوراً ایک لقمہ لے ہی تو لیا۔ وہ پلیٹ رکھ کر بے دم ہو کمرہ میں پلنگ پر ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو کر جا پڑی۔ ہم نے فوراً حلق کڑوا ہونے سے پہلے ہی تھوک دیا اور پھر اس کی شرارت کی سزا پر گدگدا کر بیدم کر دیا۔
غرض دن رات اس کو اب کونین کے مذاق سوجھتے رہے۔ وہ کہتی تھی کہ میرا بس نہیں۔ جو تمام بازار کی مٹھائیوں میں کونین ملا دوں۔ غرض کونین خورانی کی مشق آج کل زوروں پر تھی۔ مگر ہم نہ جانتے تھے کہ کونین خولیا کیا کیا رنگ لانے والا ہے۔
۔۔ ۳ ۔۔
ہم نے چاندنی سے کہا کہ "اگر تجھ کو واقعی نینی تال جانا ہے۔ تو کونین خورانی کم کر۔ ورنہ تیرا وہاں جانا منسوخ ہو گا۔” اس پر اس نے کہا "اگر کہیں ایسا ہو گیا تو پھر سمجھ لو کہ سارے گھر میں کونین ہی کونین نظر آئے گی۔” نینی تال جانے کی تیاری اس نے بڑے زور سے کی۔ اسباب گو مختصر تھا۔ مگر کچھ کپڑے گرم بھی تھے۔ چلتے وقت بجائے ایک ڈبیہ پان بنانے کے ہم نے دیکھا کہ پان کی دو ڈبیاں تیار ہو رہی ہیں۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ ایک میں کڑوے پان ہیں۔ ورنہ ہم اس شرارت کو روک دیتے۔ محض پانوں کی وجہ سے در اصل گاڑی میں اتنی دیر ہوئی کہ ہم ٹکٹ تک نہ خرید سکے۔ اور بمشکل چلتی گاڑی میں اسباب وغیرہ جس طرح بنا رکھوا کر ایک مردانہ ڈیوڑھے درجے میں بیٹھ گئے۔ جو اتفاق سے سامنے ہی تھا۔ اس میں کافی گنجائش اور چاندنی نے فوراً بچھونے کھولنے کا کہا۔ ہم نے کہا "یہ انٹر کلاس ہے۔ اس وقت خالی ہے۔ مگر آگے چل کر شاید بھر جائے۔” مگر اس نے کہا "نہیں جب جگہ کافی ہے تو خواہ مخواہ کیوں زیادہ دام خرچ کئے جائیں” اور یہ واقعہ تھا کہ یہ ڈبہ بہت بڑا تھا۔ اور صرف تین ہی آدمی تھے اس سے زیادہ کیا جگہ ملتی۔ مگر ہم جانتے تھے کہ آگے چل کر ضرور مسافر آئیں گے اور عجب نہیں کہ سونا بھی نہ ملے اس نے کہا کہ بچھونے اوپر کی معلق بنچ پر لگا لو تا کہ پھر سب جھگڑا ہی جاتا رہے۔ چنانچہ ہم نے یہی کیا کہ ایک پر اس کا بچھونا لگایا اور اس کے نیچے جو سیٹ تھی اس پر ہم بیٹھ گئے۔ کیونکہ ہم کو بھی ابھی اگلے اسٹیشن پر ٹکٹ خریدنا تھے۔ بیوی کو تو ہم نے اوپر چڑھا دیا اور وہ مزے سے تکیہ لگا کر لیٹ گئی۔ اگلے اسٹیشن پر موقع نہ ملا۔ مگر ہم نے گارڈ سے کہہ دیا۔ دوسرے اسٹیشن پر ہم ٹکٹ لے کر جو واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بھاری بھر کم لالہ صاحب ہماری سیٹ پر قبضہ کئے دراز ہیں۔ تمام اسباب ان کا ڈھیر کا ڈھیر اوپر تلے رکھا تھا۔ ہم نے کہا "حضرت آپ کا نام تو اس جگہ پر لکھا نہ تھا اور نہ آپ نے اپنی جگہ رجسٹر کرائی تھی۔ جتنا حق آپ کو ہے اس سے زیادہ مجھ کو ہے” ہم چپ ہو گئے۔
گو ڈبہ کافی بڑا تھا مگر رفتہ رفتہ مسافروں کا ہجوم ہونا شروع ہو گیا۔ ہم نے دیکھا کہ ہمیں نیند آ رہی ہے اور ہم نے سوچا کہ اگر مسافروں کی آمد کا یہی سلسلہ جاری رہا تو ہم نیچے آرام سے نہ سو سکیں گے۔ لہٰذا ہم نے اس اوپر والی معلق بنچ پر بچھونا کیا۔ جو چاندنی کی جگہ سے بالکل ملی ہوئی تھی۔ در اصل ایک کھڑکی کا فاصلہ بیچ میں تھا۔ ہمیں نیند آنے والی تھی کہ نیچے کچھ سیاسی معاملات پر گفتگو ہونے لگی۔ چونکہ ہمیں بھی سیاسیات میں کافی "خلل” ہے لہٰذا ہم بحث کرنے نیچے آ گئے۔ ہم تو سیاسیات پر بحث کر رہے تھے۔ مگر ہماری شریر بیوی حسب معمول کچھ اور ہی کر رہی تھی۔ در اصل اس کو اپنے نیچے کی منزل میں رہنے والے مسافر پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ اور وہ بدلہ لینے کی فکر میں تھی۔ ان حضرت نے ایک اسٹیشن پر کچھ کھانے کا انتظام کیا۔ سب سے پہلے اپنے لوٹے میں پانی بھر کر رکھا۔ چاندنی نے جیب سے چھوٹی شیشی نکال کر چپکے سے اس میں کونین مقطر اس صفائی سے اوپر ہی سے ٹپکا دی کہ انہیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ کیونکہ یہ خرید و فروخت میں لگے تھے وہ اٹھ کر باہر گئے اور کھڑکی میں سے اپنی جگہ پوریاں اور ترکاری خرید کر رکھی اور مٹھائی والے سے گفتگو میں لگے۔ اتنے میں شریر نے پوریوں کے ساگ کو بھی کڑوا کیا۔ لوگ ایسے باتوں میں مشغول تھے کہ اس نے اوپر سے چپکے سے شیشی میں سے بوندیں ٹپکا دیں۔ اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔
ہم بڑے مزے سے پالٹیکس پر بحث کر رہے تھے کہ زور سے تھوکنے اور خا خا کی آواز آئی۔ مڑ کر دیکھا تو لالہ صاحب چلتی گاڑی سے سر باہر نکالے تھوک رہے ہیں۔ لوٹا لے کر کلی جو کی تو اور بھی مزہ آ گیا۔ بری طرح کھنکار کر تھوک رہے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ "حضرت یہ کیا مصیبت ہے” تو وہ سخت پریشان ہو کر تھوکتے ہوئے بولے کہ "صاحب پوری والے نے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ زہر دے دیا۔ مگر پانی کیسے کڑوا ہو گیا” یہ معما کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔
ہم نے دل میں کہا ارے غضب ہو گیا کیونکہ ہم جان گئے یہ کس کی کارستانی ہے۔ وہ اپنی چادر کے ایک گوشے سے جھانک کر تماشا دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی ہم نے اس کی طرف دیکھا اس نے منہ بند کر لیا۔ لالہ صاحب نے پوریاں اور ساگ پھینک دیا۔ اور پانی بھی پھینک دیا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ لالہ صاحب نے مٹھائی پر اکتفا کر کے رو مال سے منہ پونچھ کر لیٹ گئے۔ لالہ صاحب کے سرہانے ایک بکس رکھا تھا۔ اس پر ایک بنڈل تھا۔ اور اس کے اوپر ایک ٹوکری رکھی تھی۔ وہ اٹھے اور انھوں نے اس میں سے ایک بڑا سا نہایت ہی خوشگوار امرود نکال کر کھایا اور پھر اسی طرح لیٹ گئے۔ ہم پھر باتوں میں مشغول ہو گئے۔ جب تھک گئے اور نیچے کافی مسافر بھر گئے تو ہم اپنی جگہ سے سونے کی نیت سے اٹھے۔ نیچے کی بنچ پر لالہ صاحب بے خبر سو رہے تھے۔ ہم چاندنی کے پاس آئے اور ہم نے اس کے کان میں انگلی ڈال کر کہا "اگر تو شرارتوں سے باز نہ آئی تو ضرور اس سفر میں کہیں ماری پیٹی جائے گی۔”
ہم اپنی جگہ پر چڑھ گئے۔ ہم لیٹے ہی تھے کہ ہماری پیٹھ میں کوئی چیز گول گول گری۔ ہم نے جو اٹھ کر دیکھا تو تین بڑے بڑے الہ آبادی امرود پائے۔ ہم فوراً جان گئے کہ اس نے اس ٹوکری میں سے یہ امرود چرائے۔ ہم نے جو ادھر دیکھا تو وہ چپکے چپکے ہنس رہی تھی اور انگلی کے اشارہ سے چاقو مانگ رہی تھی۔ وہ در اصل چادر میں منہ لپیٹے امرود کتر کر کھا رہی تھی۔ ہم نے چاقو نکالا اور امرود حلال کر کے بیوی کو دیا۔ امرود کی ٹوکری اس کی پائنتی کے پاس تھی اور اب اس نے اپنا سر ادھر کر کے چپکے چپکے ٹوکری سے امرود نکالنا شروع کئے۔ کیونکہ ٹوکری کا منہ بالکل اوپر کے تختے سے ملا ہوا تھا۔ لالہ صاحب کو پتہ ہی نہ تھا کہ کیو ہو رہا ہے۔ امرود اس نے ایک ایک کر کے ہمارے اوپر پھینکنا شروع کئے۔ ہم اشارے سے کہہ رہے تھے کہ ضرور تو ماری جائے گی۔ اور دراصل ہم سخت گھبرا رہے تھے کہ کہیں یہ چوری کرنے میں پکڑی نہ جائے۔ ایک ایک کر کے اس نے سب امرود نکال لئے اور ہم سے اشارہ سے کہا کہ نیچے لوگوں کو بانٹ دو۔ ہم نے پھر دیکھا اور امرودوں کے مالک کو بے خبر سوتے پایا۔ لہٰذا ہم نے جلدی سے اتر کر بے تکلف ہو کر تمام لوگوں کے ہاتھوں میں دو دو امرود دے دیئے اور بقیہ سب کے بیچ میں ایک بنچ پر رکھ دیئے کہ کھائیے۔ ان میں سے ایک صاحب چاندنی کو شاید یہ تمام شرارتیں کرتے دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ وہ کونے میں بیٹھے چپکے چپکے مسکرا رہے تھے۔ چاندنی نے ان کو دیکھا ور وہ سمجھ گئی۔ لہٰذا ان سے انگلی سے خاموشی کو کہا، اور وہ ہنس کر سر ہلانے لگے کہ میں نہ بولوں گا۔ ہم بدستور اپنی جگہ پر آ کر لیٹ گئے۔ نیچے لوگ بے تکلفی کے ساتھ امرودوں کی دعوت اڑا رہے تھے کہ اسٹیشن آیا اور ریل کے جھٹکے سے لالہ صاحب جاگ اٹھے۔ وہ حضرت جو اس کونہ میں بیٹھے تھے اور اس شرارت سے واقف تھے، انہوں نے ایک صاحب سے کہا کہ جناب لالہ صاحب کو بھی امرود کھلائیے۔
لوگوں نے جب ان سے کہا تو کہنے لگے کہ "میرے پاس خود الہ آباد کے امرود موجود ہیں۔” ایک صاحب بولے "بہتر ہوتا اگر آپ کم از کم اپنے امرودوں کا نمونہ چکھاتے۔” انہوں نے مسکرا کر کہا۔ "بڑے شوق سے، ٹوکری سے نکال لیجیئے۔”
ایک صاحب اٹھے اور انہوں نے ٹوکری میں ہاتھ ڈال کر اس کو خالی پا کر کہا کہ "واہ جناب آپ خوب مذاق کرتے ہیں۔ یہاں تو پتہ تک نہیں ہے۔”
یہ سُن کر وہ تڑپ اٹھے اور ٹوکری کو خالی پا کر چاندنی کی طرف دیکھا۔ جو اس وقت امرودوں کی ٹوکری کی طرف پاؤں کئے ہوئے اور چادر اوڑھے ہوئے گویا بے خبر سو رہی تھی۔ ان کی اس پریشانی پر شاید لوگ اس معاملہ کو سمجھ گئے۔ اور ایک فرمائشی قہقہہ اڑا۔ بچارے یہ کہہ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے کہ یہ مذاق ٹھیک نہیں ہے۔
صبح ہم بریلی کے اسٹیشن پر اترے۔ اسباب ویٹنگ روم میں رکھوایا۔ ناشتہ کیا اور بریلی شہر کی خوب سیر کی۔ دوپہر کو واپس آ کر کھانا اسٹیشن پر کھایا۔ جب چاندنی کو معلوم ہوا کہ کھانے کے دام پورے ساڑھے سات روپے چارج ہوں گے۔ خواہ ہم کُل کھائیں یا تھوڑا۔ تو اس کو بہت غصہ آیا۔ دراصل صبح ناشتہ زیادہ کر لیا تھا۔ اور اس وقت کچھ کھایا نہ گیا۔ ہم نے دیکھا بھی نہیں اور جب ہم ہاتھ دھو رہے تھے تو اس نے کونین سے سب بچا ہوا کھانا خراب کر دیا۔ صرف یہی نہیں کیا بلکہ ہم تو کھانے کی قیمت ادا کرنے میں لگے اور اس نے موقع پا کر باہر کے برآمدے میں جو چائے کی بڑی کیتلی انگیٹھی پر رکھی تھی۔ اس کو بھی خراب کر دیا۔ ہم دونوں فوراً پھر شہر روانہ ہو گئے۔ دو چار کرسیاں اور میزیں خرید کر گھر روانہ کرائیں۔ اور پھر مختلف مقامات کی سیر کرنے چلے گئے۔ چراغ جلنے کے بعد اسٹیشن پر بہت دیر میں واپس آئے۔ اور ہمیں یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ہوٹل کے نوکروں نے کھانا کھا کھا خوب تھوکا۔ اور علاوہ اس کے کئی مسافروں سے کڑوی چائے پلانے کی وجہ سے یہ قصہ طول پا گیا۔ حتیٰ کہ ایک انگریز نے ہوٹل کے بیرے کو مارتے مارتے چھوڑا۔ ہم چپ تھے اور ہم نے خفا ہو کر چاندنی سے کہا۔ "معلوم ہوتا ہے کہ تیری قطعی شامت آئی ہے اور تو خود مار کھائے گی اور شاید ہمیں بھی پکڑوائے گی۔ وہ بھی محض اپنے موذی پن کی بدولت نہ خود کھائے اور نہ کسی کو کھانے دے۔ آخر اس سے کیا فائدہ۔”
ہمارے اس لیکچر کا اثر الٹا ہوا اور وہ کہنے لگی کہ "تمہاری بلا سے، ہم مارے جائیں تو تم ہم کو نہ بچانا۔” ہم تو ایک جگہ بیٹھ گئے اور وہ ترش رو ہو کر پلیٹ فارم پر سیدھی ٹہلنے چلی گئی۔ سب سے پیشتر اس نے یہ موذی پن کیا کہ مسلمانوں کی پانی والہ گھڑونچی کا معائنہ کر کے سارا پانی کڑوا کیا۔ اس کے بعد تو اور بھی غضب ہو گیا اور وہ یہ کہ ریلوے افسروں کے کمرہ کے آگے ایک صراحی رکھی تھی، اس کو بھی کڑوا کیا۔ وہاں سے وہ سیدھی ہندوؤں کے پینے کے پانی کے پاس گئی۔ مگر وہاں سخت پہرہ تھا۔ وہ وہاں گھوم ہی رہی تھی کہ ہم بھی پہنچے اور چونکہ شرارت اس کے چہرے سے عیاں تھی لہٰذا ہم سمجھ گئے اور اس کو پکڑ لائے اور کہا کہ "کمبخت تجھ کو یہ آج ہو کیا گیا ہے۔ کیوں مار کھانے کی باتیں کر رہی ہے۔” مگر یہ سب بے سود تھا کیونکہ وہ پھر ہمارے پاس سے سرک گئی۔ اور اب اس نے ایک اور ہی شرارت کی۔
پان والے کو ذرا ایک علیٰحدہ سی جگہ میں کھڑے ہو کر بلایا۔ اس سے دو آنے کے پان لئے۔ اور ہمارے لئے خواہ مخواہ سگریٹ کی ڈبیہ خریدی اور اس کو دس روپے کا نوٹ دیا۔ یہ اس سے پوچھ لیا تھا کہ اس کے پاس پانچ کے نوٹ کے روپے ہیں۔ بعد میں کہا کہ پانچ کا نوٹ نہیں، دس کا ہے۔ وہ خوانچہ رکھ کر نوٹ کے روپے لینے گیا۔ اور یہاں اس نے کتھا اور چونا بالکل کڑوا کر دیا۔ ہمیں اس کا قطعی علم نہ ہوا۔ یہ شرارت کر کے وہ واپس آئی اور مسکرا رہی تھی۔ ہم نے کہا "کیا کہیں کوئی نیا شگوفہ چھوڑا۔” کیونکہ شرارت اس وقت اس کے چہرے اور آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔ ہم نے جب اصرار کیا تو اس نے کہا کہ "میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔ صرف پان والے سے دو آنے کے پان اور تمہارے سگریٹ لے آئی ہوں۔” ہم نے چونک کر کہا کہ "کیا تو نے پان والے کے ساتھ بھی کچھ کیا۔” اس پر اس کا ہنسی کے مارے برا حال ہو گیا۔ اور اس نے چپکے چپکے سب واقعہ سنایا۔
ہم نے کہا کہ "اب تم قطعی پولیس میں پکڑی جاؤ گی۔ اور یہ جرم ہے۔” ہم نے بڑی انسانیت سے ان سب شرارتوں کی اہمیت کو بتایا اور کہا کہ اب اگر تو نے ایسا کیا تو تیری خیر نہیں ہے۔ وہ نیم راضی ہو کر بولی کہ "اگر سخت ضرورت پڑی تو میں کروں گی۔ ورنہ نہ کروں گی۔” پھر اٹھ کر جو جانے لگی تو ہم نے پکڑ لیا کہ "اب ہم تجھے نہ جانے دیں گے۔ ہمارے پاس بیٹھی رہ۔ کیونکہ تو پھر شرارت کرے گی۔” بہت کچھ اس نے ہم سے وعدہ کیا۔ مگر ہم نے نہ چھوڑا۔ تو اس نے کہا کہ "اب میں اپنا وعدہ واپس لیتی ہوں۔” ہم نے ایک نہ سُنی۔
رات کا وقت تھا۔ لہٰذا ہم نے کچھ ہلکا سا ناشتہ اور چائے ویٹنگ روم میں منگوائی۔ چائے آئی اور ہم نے دو پیالیاں بنا لیں۔ چمچہ سے شکر چائے ہم ملا رہے تھے اور کلی کے لئے پانی منگوایا تھا۔ کیونکہ پان کھا رہے تھے۔ ہم باہر سے کلی کر کے آئے تو ہم نے اپنی شریر بیوی کے چہرے پر وہ خاموشی دیکھی جو نہایت ہی سخت شرارت سے تعلق رکھتی ہے۔ ہم نے جو پیالی کی طرف دیکھا تو ہم جان گئے کہ یہ شریر شاید اب ہمارے اوپر ہاتھ صاف کر رہی ہے۔ ہم نے غور سے جو چہرہ دیکھا تو ہمارا شبہ اور بھی قطعی ہو گیا اور وہ ہنسنے لگی۔ ہم نے کہا کہ "کیا دیوانی ہوئی ہے، کیوں ہنستی ہے؟” اس پر وہ اور ہنسی اور پان والے کا قصہ کہنے لگی۔ ہم اسی طرح چلا رہے تھے اور ہمارا شبہ کچھ مٹ گیا اور ہم نے چائے کی پیالی پینے کے لئے اٹھائی کہ اس کو پھر ہنسی آئی جس کو اس نے تھوکنے کے بہانے سے ٹالنا چاہا۔ وہ آتش دان میں تھوکنے اٹھی اور اُدھر ہم نے موقع پا کر احتیاطاً اس صفائی سے چائے کی پیالی بدلی کہ اس کو شبہ تک نہ ہوا۔ ہم اس چائے سے کھیل رہے تھے کہ جیسے اس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں کہ اس اپنے آگے کی چائے کی پیالی اٹھائی جو ہمارے لئے کونین سے زہر ہلاہل کر کے رکھی تھی۔ پہلے گھونٹ میں بس اس کو مزہ آ گیا۔ چائے گرم نہ تھی اور چونکہ اس کو شبہ بھی نہ تھا۔ لہٰذا ایک بڑا سا گھونٹ اس نے ایسا لیا کہ حلق کے پار ہو گیا۔ کیا بتائیں کہ ہم نے کیسے جھک جھک کر سلام کئے اور کیا مزہ ایا۔ اس کا بھی ہنسی کے مارے برا حال کہ تھوکنا مصیبت ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ہم پلیٹ فارم پر آئے اور تھوڑی دیر میں کاٹھ گودام والی گاڑی آ گئی۔ ہم نے اپنا اسباب ایک دوسرے درجہ میں لگوایا جو بالکل خالی تھا۔
ہم اس پان والے کا تماشا دیکھنے گئے۔ جس کے کتھے چونے کو چاندنی نے کڑوا کر دیا تھا۔ ہمیں زیادہ تلاش کرنے کی دقت اٹھانا نہ پڑی۔ کیونکہ بہت جلد ہم نے دیکھا کہ ایک پان والے سے
کچھ لوگ لڑ رہے ہیں۔ دوسرے لوگ یہ جھگڑا سن کر اور آ گئے اور ان میں سے کچھ ملے جو کہتے تھے کہ "ہمارا پیسہ واپس کر۔ کیونکہ تو نے ہمارا پان کڑوا کر دیا۔” ہم تو اس دلچسپ جھگڑے کو دیکھ کر اپنی بیوی کی شرارت سے لطف اندوز ہو رہے تھے ادھر ہماری نیک نہاد بیوی اور ہی کچھ کر رہی تھی۔ ایک سالن روٹی والا مسلمان ہم سے تقاضا کر چکا تھا کہ ہم اس کے میلے سودے میں سے کچھ خریدیں۔ حالانکہ چاندنی نے کئی مرتبہ اس کو ٹال دیا۔ مگر وہ نہ مانا اور مجبوراً اس نے اس سے کہا کہ "اچھا ایک پیالہ میں تھوڑا سا نکال کر ہمارے سامنے بطور نمونہ پیش کرو۔”
نمونہ ہماری سیدھی سادی بیگم صاحب نہ کھڑکی سے اندر لے کر بجلی کی روشنی میں دیکھا اور ناپسند کر کے واپس کر دیا۔ اس غریب کو کیا معلوم کہ کیا حرکت کی گئی ہے۔ اس نے فوراً اپنے بڑے برتن میں واپس ڈال دیا۔ ہم پان والے کا تماشا دیکھ کر واپس آ رہے تھے کہ ایک ڈیوڑھے درجہ کے مسافر سے اور اس باورچی سے جھگڑا ہوتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ غضب ہو گیا۔
ہم جو اپنے ڈبہ میں واپس آئے تو دیکھا کہ کسی دوسرے صاحب کا اسباب رکھا ہے۔ اور بنچ پر چائے کی کشتی میں کچھ مکھن، توس اور چائے رکھی ہے۔ ہم نے چپکے سے بیوی سے کہا "ارے تو یہ کیا ستم کر رہی ہے۔” وہ اس وقت پوری پردہ نشین بیوی بنی ہوئی تھی اور برقعہ اوڑھے بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ اس نے اس نیت سے کیا تھا کہ کوئی بھلا مانس ہو تو اس کو دیکھ کر شاید نہ آئے۔ مگر ایک صاحب پھر بھی آ ہی گئے۔ وہ ڈبہ کے باہر کھڑے ہو کر کچھ جھجکے۔ پہلے تو کہا کہ "یہ زنانہ ڈبہ نہیں ہے۔” اس پر چاندنی بولی کہ "جناب زنانہ ڈبہ ہے۔” انہوں نے کہا کہ "آپ براہِ مہربانی زنانہ ڈبے میں چلی جائیں۔” چونکہ اس نے انکار کیا۔ لہٰذا ان کے نوکر نے ان کا اسباب وغیرہ رکھ دیا۔ وہ چائے منگوا کر کسی دوسری جگہ باتوں میں مشغول تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں یہ کہنا فضول ہے کہ ان کی چائے کے ساتھ چاندنی نے کیا کاروائی کی۔ اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ ان کے لوٹے میں جو خالی تھا۔ کافی مقدار ڈال دی۔ اور پھر ستم یہ کیا کہ ان کی برف رکھنے کی بوتل میں بھی کونین ڈال چکی تھی، جیسا کہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا۔ اتنے میں یہ حضرت آئے۔ بہت معقول آدمی تھے۔ ہم سے دو ایک باتیں ہوئیں اور ہمیں چائے پر مدعو کرنے لگے۔ چائے کیتلی میں سے انڈیلتے ہوئے انہوں نے ہم سے کہا کہ صاحب یہاں اسٹیشن پر آج عجب ہی معاملہ ہے۔ ہم نے پوچھا "وہ کیا؟” تو انہوں نے کہا کہ "ایک پان والے سے تمام آدمی جھگڑا کر رہے ہیں۔” ہم نے کہا "کیوں” تو وہ ہنس کر بولے کہ "صاحب بڑا لطف آیا۔”
"کیا لطف آیا” ہم نے پوچھا۔
"اجی جناب! تمام لوگوں کے منہ اس پان والے نے کڑوے کر دیئے۔” انہوں نے بہت ہنس کر کہا۔ "اور اب اس سے لڑ رہے ہیں۔ پھر اس کے علاوہ سالن روٹی والے کو بھی دو تین آدمی گھسیٹ رہے ہیں۔ کہ سب سالن کڑوا ہے۔ یہیں نہیں بلکہ سارا بریلی کڑوا ہو رہا ہے۔” قہقہہ لگا کر چائے میں شکر ملاتے ہوئے انہوں نے کہا۔
"کیا اور بھی کوئی قصہ ہوا۔” ہم نے بن کر پوچھا۔
اجی تمام مسلمانوں کے پینے کا پانی کڑوا ہو رہا ہے اور وہ لطف آ رہا ہے ہنستے ہنستے لوٹ۔۔۔۔۔۔۔ خڑپ خا! تھو!”
چائے کی پیالی کا گھونٹ انہوں نے کیا لیا کہ حلق میں کڑوا پھندا پڑا کہ تھوک رہے تھے۔ ہم نے کہا "حضرت یہ کیا ہوا۔” تھے بڑے خوش مزاج۔ بے طرح ہنسے اور دہرے ہو ہو گئے۔ اور کہنے لگے کہ "صاحب کسی سفاک نے چائے والے پر بھی معلوم ہوتا ہے، حملہ کر دیا۔ یہ دیکھئے سب چائے کڑوی ہے۔” یہ کہہ کر نوکر کو بلایا کہ "چائے والے کو لاؤ۔” اس نے متعجب ہو کر کہا کہ "صاحب کیا بتائیں کہ آج دوپہر سے نہ معلوم کیا ہو رہا ہے کہ "کئی مسافروں نے مارتے مارتے چھوڑا۔” وہ غریب چائے واپس لے گیا۔ اتنے میں ملازم خالی لوٹا بھر لایا اور انھوں نے کلی جو کی تو اور بھی تھوکنے لگے۔ کہنے لگے کہ یہ کیا مصیبت ہے۔ معلوم ہوا نوکر نل سے پانی لایا تھا۔ القصہ عجیب چکر میں تھے۔ باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ ریلوے پولیس انسپکٹر اس کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ہم سناٹے میں آ گئے۔ اور ہم نے گھبرا کر بیوی کے کان میں کہا کہ "لے آج تو پکڑی جائے گی۔” چاندنی پولیس وغیرہ سے کبھی نہ ڈرتی تھی۔ مگر اس وقت واقعی وہ چپ ہو گئی۔ ہم دونوں پھر آ کر بیٹھ گئے۔ اور یہ حضرت جو در اصل ممبر کونسل تھے۔ خوب اس کڑوے مذاق پر ہنس رہے تھے۔ اتنے میں ان کے ایک دوست آئے اور وہ بھی بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ پانی کی بوتلیں بہت سی تھیں۔ ان کے دوست نے ایک بوتل اٹھائی اور اس کو گلاس میں گھول کر برف کی بوتل میں ڈال کر پھر گلاس میں واپس کر کے جو پیا تو کیا بتائیں وہ کیسے کودے۔ گلاس چھوڑ کر کود رہے تھے۔ ان کے دوست کا اور ہمارا اسی کے مارے برا حال ہو گیا۔ اب یہ حضرت عجیب چکر میں تھے۔ کہنے لگے کہ "یہ بوتلیں اور برف تو شہر کی ہیں۔ ان میں کہاں سے کڑواہٹ گھس گئی۔” ہماری بیوی غریب اور بیچاری ہی ہوئی۔ برقعہ اوڑھے اپنے بچھونے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ جیسے اس کو اس سے کچھ تعلق ہی نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پان کی ڈبیا مانگی۔ اس نے ہینڈ بیگ میں بتائی۔ ہم نے اس میں سے ڈبیا نکالی، اور ان دونوں کو پان پیش کئے۔ وہ حضرت ہنس کر کہنے لگے کہ "جناب کہیں ان پانوں میں تو مصیبت نہیں ہے۔” ہم نے کہا کہ "صاحب یہ تو ہمارے گھر کے ہیں۔” انہوں نے ایک پان لیا اور ایک ان کے دوست نے لیا۔ در اصل ہمیں معلوم بھی نہ تھا کہ ایک ڈبیا کڑوے پانوں کی ہے۔ اور ہم نے بھی ایک پان منہ میں رکھ لیا۔ فوراً ہی سب کو تھوکنے پڑے اور ان حضرت کا تو مارے ہنسی کے بُرا حال تھا۔ اور کہتے تھے کہ "یہ آخر کیا مصیبت ہے” کہ چاندنی نے بات بنا دی اور کہا کہ "معلوم ہوتا ہے آپ نے اسٹیشن والے پان کھا لئے۔” دوسری ڈبیا میں سے لیجیئے۔ ہم نے کلی کی اور پھر دوسرے پان کھائے۔ کڑوے پھینک دئیے۔
۔۔ ۴ ۔۔
نینی تال ہم خدا خدا کر کے پہنچے اور درمیان میں کوئی واقعہ قابلِ ذکر پیش نہ آیا۔ ہمارے ہمسفر حضرت رہ رہ کر رات کے معاملات پر غور کر رہے تھے۔ اور تعجب کے ساتھ ہنس بھی رہے تھے کیونکہ اس کے اور ساتھی بھی جو کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ کونین کا ذائقہ یا تو خود بریلی میں چکھ چکے تھے اور یا ان کا تماشہ دیکھ چکے۔ ہر شخص تعجب کرتا تھا کہ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ شہر سے بوتل میں برف آئے اور وہ کڑوی ہو جائے۔ حد ہو گئی کہ نل کی ٹونٹی سے کڑوا پانی نکلے۔ غرض ان سے رخصت ہوئے۔
ہم نے ایک پورا موٹر کرائے پر کیا اور بیوی کو اس میں بٹھایا اور نینی تال کی چڑھائی شروع ہوئی۔ ہم نے بیوی کو متنبہ کر دیا کہ "اگر آئندہ
تو شرارت کرے گی تو قلعی پولیس میں دی جائے گی۔” مگر وہ تو رات کے واقعات کے اوپر ہنسی کے مارے بیتاب تھی۔ غرض اس چڑھائی کو ہم نے خوب لطف کے ساتھ طے کیا۔
نینی تال پہنچ کر ہم نے ہمالیہ ہوٹل پر قیام کیا۔ دوسرے ہی روز سے ہلکے پیمانے پر چاندنی نے پھر کونین کا استعمال جاری کر دیا۔ نا ممکن تھا کہ چائے آئے اور بقیہ شکر یا دودھ وغیرہ کڑوا نہ کر دے۔
روزانہ کا معمول تھا کہ ہم میلوں پیدل چلتے تھے اور دن بھر سیر و تفریح میں گزرتا۔ نہ معلوم کب کے اوور کہاں کے دوستوں سے ملاقات ہوئی تھی اور ہم اور ہماری بیوی جگہ جگہ دعوتیں کھاتے تھے۔ کونسل کا اجلاس دیکھنے گئے۔ یہاں ہمارے ہم سفر دوست سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان سے اپنی بیوی کا باضابطہ تعارف کرایا۔ یہ بھی عجیب مسخرے اور دلچسپ آدمی تھے۔ آتریبل نواب محمد یوسف سے کون ایسا بھلا آدمی ہو گا جو نپنی تال جائے اور کسی نہ کسی طرح واقفیت حاصل نہ کرے۔ یا ان کے وسیع اور پر تکلف دسترخوان پر بغیر بلائے ہوئے طرح طرح کے انگریزی اور ہندوستانی کھانے نہ کھا آئے۔ یہ حضرت بھی ان ہی کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کو بریلی کا واقعہ ایسا یاد تھا کہ پھر ذکر کر کے ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ وہاں خوب ہی لطف رہا۔ مگر یہ نہ معلوم ہوا کہ آخر کس کی شرارت تھی۔ دو تین ہی روز میں ان حضرت سے کافی واقفیت ہو گئی۔ کیونکہ ہم ضرور بالضرور کونسل کا اجلاس دیکھنے آتے تھے۔ چاندنی کو شرارت کئے کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ لہٰذا وہ پھر ایک شرارت ایسی کر گذری کہ ہم سخت گھبرا گئے۔ کونسل کے ریفرشمنٹ روم میں ویسے تو کئی مرتبہ گئے بلکہ روزانہ حاضری کا اتفاق ہوتا تھا۔ مگر ایک روز ہماری فرشتہ سیرت بیگم صاحبہ کو وہاں بھی موقعہ مل گیا۔ اور نہ معلوم کس طرح چائے شکر اور دودھ وغیرہ ایسا کڑوا کیا کہ ہم کو بھی پتہ نہ چلا۔ پتہ تو ہمیں جب چلا جب کونسل کے وقفہ میں وہی حضرت ہنستے ہوئے ہمارے پاس دوڑے آئے اور کہنے لگے کہ "لو بھئی! ہوشیار ہو جاؤ۔ بریلی والا آ گیا” ہم نے کہا "کیا معاملہ ہے” تو وہ ہمیں اور چاندنی کو کونسل کے ریفرشمنٹ روم میں لے گئے۔ جہاں چند آنریبل ممبران منہ کی کڑواہٹ دور کرنے کے لئے کلیاں کر رہے تھے۔ ہم نے چاندنی سے چپکے سے کان میں کہا کہ "اب تیری شامت قطعی آ گئی ہے۔ بہتر ہے کہ یہاں سے بھاگ چل۔” چنانچہ ہم فواً واپس آئے۔
جس روز ہم جانے والے تھے اس سے ایک روز قبل یہ کونسل کے ممبر صاحب ہمیں جھیل کے کنارے ملے۔ اور ہم نے ان کے بارے کے تذکرہ سے اور ان کی طبیعت سے خوش ہو کر مناسب خیال کیا کہ ان کو اس کڑواہٹ کا راز بتا دیں۔ چنانچہ جب ہم نے ان سے چاندنی کی شرارت کی معافی مانگی تو ہکا بکا کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ اور پوری داستان سن کر کہنے لگے کہ "اب ہم تمہیں دو تن روز نہ جانے دیں گے۔” انہوں نے دو تین رو میں اپنے دوستوں کو جو یا تو خود بریلی کے اسٹیشن پر کونین کا شکار ہوئے تھے اور یا دوسروں کو دیکھ چکے تھے۔ چاندنی سے ملایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری بیوی اس تفریح کے مقام سے لوگوں کی نظروں سے بچنے کے لئے ہمیں لڑ کر ایسی غائب ہوئی کہ لوگ تلاش ہی کرتے رہ گئے۔
۔۔ ۵ ۔۔
واپسی میں بد قسمتی سے یا خوش قسمتی سے ہمارے ایک دوست کا ساتھ ہو گیا۔ ان کی بیوی پردے کی سخت پابند اور یہ ان کو تیسرے درجے میں سفر کراتے تھے اور خود سیکنڈ کلاس میں سفر کرتے تھے۔ اور پھر لطف یہ کہ بیوی کے پاس نہ پھٹکتے تھے۔ نوکر یا ملازمہ کے ذریعہ خبر گیری رکھتے تھے۔
ہم نے بھی چاندنی کو تیسرے درجے میں ٹھونسا اور کہا لے "اب اپنی اوقات سے سفر کر” اور برقعہ اوڑھ کر شریف زادیوں کی طرح منہ لپیٹ کر بیٹھ۔” اس کو مجبوراً بیٹھنا پڑا۔ ہمارے دوست کی بیوی بہت ہی شرمیلی خاموش اور سیدھی سادی تھیں حالانکہ چاندنی کے ہم عمر ہی ہوں گی۔ مگر بے چاری کو دنیا کا تجربہ بالکل نہ تھا۔
ہمارا ان کا بریلی تک ساتھ تھا۔ نینی تال سے صبح کی گاڑی سے روانہ ہوئے۔ کبھی کبھی بیوی سے ملاقات کر آتے تھے۔ ہمارے ساتھ حضرت دور ہی سے کھڑے ہو کر صرف اتنا دیکھ لیتے تھے کہ بیوی کھڑکی کا پٹ بند کئے ہیں یا کھولے ہوئے ہیں۔
ایک اسٹیشن پر زنانہ درجے کے پاس سے کوئی غنڈہ گزرا اور اس نے ہمارے دوست کی بیوی کو، جو اس وقت کھڑکی کھولے بیٹھی تھیں، دیکھا تو قریب سے یہ کہتا ہوا گزر گیا کہ "کہاں جا رہی ہو؟” وہ بیچاری دھک سے رہ گئی اور مارے دہشت کے ان کا کلیجہ کانپنے لگا۔ اور چاندنی سے گھبراہٹ کے لہجہ میں کہا کہ "بہن خدا کے واسطے کھڑکیاں چڑھا لو۔ کوئی بدمعاش مجھ سے ایسا کہہ کر چلا گیا۔” ہماری تیز طرار بیوی نے ہنس کر کہا کہ "آپ نے بتا کیوں نہ دیا کہ بریلی جا رہی ہوں۔” وہ بے چاری ہنسنے لگیں اور کہنے لگیں کہ "میرے تو منہ سے آواز ہی مشکل سے نکلی اور میں گھبرا گئی۔” یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ وہ پھر کھڑکی کے سامنے سے گزرا اور اس نے پھر وہی کہا۔ یہ گھبرا گئیں اور ایک دم سے کھڑکی چڑھانے لگیں کہ وہ چلتے چلتے بولا "یہ ستم نہ کرو۔” ہاتھ پیر ان کے پھول گئے۔ کھڑکی ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اور یہ بے چاری بے دم ہو کر کونے میں منہ چھپا کر بیٹھ گئیں۔ چاندنی ہنس رہی تھیں اور یہ اس سے کہہ رہی تھیں کہ "اسی مارے کھڑکی کے پاس عورتوں کا بیٹھنا ٹھیک نہیں ہوتا۔” در اصل ان کی حالت قابلِ رحم تھی۔ چاندنی فوراً لپک کر کھڑکی کے پاس آئی مگر وہ غنڈہ جا چکا تھا۔
ہم جو ایک اسٹیشن پر آئے تو اس نے یہ واقعہ بیان کیا اور دور سے اس شخص کو دکھا کر کہا "معلوم ہوتا ہے کہ آج اس کی شامت آئی ہے۔” ہم نے دیکھا کہ ایک معمولی سا لفنگا صفت آدمی ہے۔ ترکی ٹوپی اور سیاہ اچکن پہنے تھا۔ اور ایک میلا سا سفید پاجامہ۔ گاڑی یہاں دیر تک ٹھہرتی۔ ہم تھوڑی دیر بعد ہی چلے آئے اور اپنے دوست سے کہا۔ وہ بے چارے کہنے لگے کہ "کیا بتائیں۔ بس اسی مارے تو عورتوں کا سفر کرنا ٹھیک نہیں ہے۔” ہم نے کہا، "جناب آپ نے انتہائی پردہ کرا کے یہ حال کر دیا ہے اگر آپ اپنے ساتھ بٹھائیں۔ تو کیا مضائقہ ہے۔” مگر یہ سب بے سود تھا کیونکہ ہمارے اور ان کے خیالات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔
ہماری بیوی پر شرارت کا جن پھر سوار ہو گیا۔ اس نے پہلے تو ہمارے دوست کی بیوی کی بزدلی پر خفا ہر کر بطور سزا کے ایک کڑوا پان کھلایا۔ نہ معلوم ایسی سیدھی عورت کے تنگ کرنے میں کیا مصلحت تھی۔ اس کے بعد اس نے دیکھا کہ وہ حضرت آ رہے ہیں۔ وہ کھڑکی کی طرف منہ کھولے بیٹھی تھی اور پان کی ڈبیہ اس کے ہاتھ میں تھی۔ جیسے وہ قریب آیا ویسے ہی اس نے ڈبیا کھولی۔ وہ غنڈا مسکرا کر بولا "اکیلے ہی اکیلے” چاندنی نے فوراً ایک پان اسے دے دیا جو اس نے فوراً لے لیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھا کہ یہ حضرت نل پر کھڑے تھوک تھوک کر اپنی چونچ صاف کر رہے ہیں کیونکہ سارا منہ کڑوا ہو رہا تھا۔
یہ حضرت جلے بھُنے پھر لوٹ کر آئے اور چاندنی سے پان کی کڑواہٹ کے بارے میں ایک سخت ناشائستہ اور بیہودہ لفظ کہا۔ اس نے ڈانٹ کر کہا "شریفوں کی سی باتیں کرو۔” اس کو بے حد غصہ آ رہا تھا۔ ہمارے دوست کی بیوی کا یہ باتیں دیکھ کر جو حال ہوا وہ بیان سے باہر ہے جب اس نے پان دیا تو کہنے لگیں کہ "تمہارے میاں دیکھ لیتے تو کیا ہوتا۔” اس نے کہا "کچھ نہیں اس میں کیا ہرج ہے۔” غرض وہ کہتی تھیں کہ "خدا کے لئے رہنے دیجیئے۔ ورنہ وہ اور بھی پیچھے لگ جائے گا۔” اتنے میں وہ پھر آیا۔ اور اس مرتبہ پیشتر سے زیادہ بیہودہ گوئی سے کام لیا۔ چاندنی مارے غصہ کے کانپنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ نینی تال پر ہم نے اسے ایک نہایت ہی نازک سی ساڑھے سات روپے کی سیپ کے دستے کی چھتری دلا دی تھی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ چھتری لے کر اور گاڑی سے اتر کر پیچھے سے اس غنڈے کے سر پر ایک ہاتھ زور سے مارا۔ اس نے جو مڑ کر دیکھا تو زور کی ڈانٹ بتا کر جو چھتریاں مارنا شروع کیں تو ایک غل مچا۔ لوگوں نے سمجھا کہ نہ معلوم اس شخص نے کونسی نا شائستہ حرکت کی لہٰذا دوڑ کر آئے اور ایک انگریز مسافر جو پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اس پکڑ لیا۔ ایک ہُلڑ ہو گیا۔ وہ اپنے ڈبہ میں لوٹ گئی۔ یہ حضرت پکڑ کر پولیس کے ہاتھوں میں دے دیئے گئے۔ ہم اپنی بیوی کے پاس جو مارے غصہ کے جنگ کے بعد کانپ رہی تھی اور اس کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے۔ ہمارے دوست کی بیوی سہمی ہوئی کونے میں منہ دیئے بیٹھی تھی۔ ہم نے بیوی کی پیٹھ ٹھونکی اور کہا "واہ شاباش! کیا کہنا ہے۔ تم بڑی بہادر ہو۔” غرض شاباش دے کر ہم لوٹ آئے۔
۔۔ ۶ ۔۔
بریلی کے اسٹیشن پر ہمارے دوست ہمارے بہادر بیوی کی تعریف مگر اعتراض کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔ اتنے میں ایک پولیس سب انسپکٹر صاحب آئے۔ اور انہوں نے ہمارا پتہ وغیرہ لکھ لیا اور کہا کہ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو آپ کی بیوی کا نام بھی گواہوں میں لکھ لوں۔ معلوم ہوا کہ ان حضرت کے پاس کوکین برآمد ہوئی۔
تھوڑے ہی دنوں بعد چاندنی کے نام بریلی کے ریلوے مجسٹریٹ کی عدالت سے سمن آیا کہ "فلاں فلاں دن حاضر ہو کر ملزم کو شناخت کرو۔ اور گواہی دو۔” وہ اس عدالت کی پیشی سے چکرائی اور کہنے لگی کہ "میں تو نہ جاؤں گی۔” ہم نے کہا "شاید تیری شامت آئی ہے۔ کیونکہ اگر تو نہ جائے گی تو وارنٹ جاری ہو گا۔ اور پکڑی جائے گی۔ اور پھر مقدمہ کے وکیل تجھ سے جرح کر کے سب تیری شرارتوں کی اکٹھی کسر نکالیں گے۔” سمن کو تو لینا پڑھا۔ مگر وہ سخت پریشان تھی۔ اگر ہم چاہتے تو اس جھگڑے سے اس کو نکال سکتے تھے۔ مگر در اصل ہمارا خیال تھا کہ کچھ تجربہ حاصل کر کے تو اچھا ہی ہے۔ اور ہم نے اس کہ کہ "بیوی گھبراؤ نہیں ہم تمہارے ساتھ چلیں گے۔”
ریلوے مجسٹریٹ ایک ڈپٹی کلکٹر تھے اور جب ہم اپنی بیوی کو لے کر خود حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنے قریب کرسی دی۔ ملزم کی شناخت وغیرہ ہوئی۔ اور چاندنی کے مجسٹریٹ نے بیان لئے۔ ہم نے چپکے سے یہ اس کے کان میں کہہ کر بوکھلا دیا کہ "وکیل تجھ سے جرح کرے گا۔ اور اگر کہیں تو نے ذرا بھی جھوٹ بولا تو بس سمجھ لے کہ دروغ حلفی کا مقدمہ تیرے اوپر قائم کر کے تجھے جیل کی ہوا کھلائی جائے گی۔”
جب اس سے ملزم کے وکیل نے جرح کی تو وہ سخت گھبرائی۔ مجبوراً اس کو اقبال جرم کرنا پڑا کہ ملزم کو بطور سزا کے اس نے کونین ڈال کر پان دیا تھا۔
اتفاق کی بات کہ واقعہ تازہ تھا۔ دن اور تاریخ جو مجسٹریٹ نے پوچھی تو معلوم ہوا کہ جس روز بریلی کے اسٹیشن پر تمام چیزیں کڑوی ہو گئی تھیں۔ وہی دن اس کی موجودگی کا بھی تھا۔ اس معاملہ کی تحقیقات پولیس پہلے ہی کر چکی تھی۔ تمام کڑوی چیزوں کا ڈاکٹری امتحان بھی ہو چکا تھا۔ اور ممتحن نے بتایا تھا کہ تمام اشیا کونین سے کڑوی کر دی گئی ہیں۔ ہر جگہ تحقیقات سے ثابت ہو چکا تھا کہ کوئی عورت تھی۔ کیونکہ پان والے نے کہا کہ میں نے ایک عورت کے ہاتھ پان فروخت کئے۔ اور یہی خونچہ والے نے کہا اور اس پر طرہ یہ کہ ہوٹل والے کا بیان۔ ان سب باتوں کو ملا کر جو مجسٹریٹ نے دیکھا تو معاملہ کچھ اور ہی نظر آیا۔ علاوہ اس کے تحقیقات میں جو لوگوں نے بیان دیئے تھے اس میں چاندنی کا حلیہ درج تھا۔
مجسٹریٹ بیچارے بڑے نیک آدمی تھے۔ انہوں نے کچھ تو ہمارا لحاظ کیا اور کچھ ہماری بیوی کا۔ کیونکہ وہ اس وقت بے طرح گھبرا رہی تھی۔ انہوں نے ایک طرف تو وکیل کو بہت سے ایسے سوالات کرنے سے روکا کہ ان کا جواب دینے سے پیشتر ہی وہ شاید رو دیتی اور دوسرے طرف بے موقع کڑواہٹ کا تذکرہ بند کیا۔ عدالت سے اس نے فراغت پائی تو اس کی جان میں جان آئی۔ لیکن ڈبل فرسٹ کلاس کا کرایہ کا پروانہ جو اس کے ہاتھ آیا۔ پھر اس کی وہی کیفیت ہو گئی۔ ہم نے کہا "کیوں جی آدھے دام پر ہمارے ہاتھ فروخت کرتی ہو۔” اس نے کہا کہ "انہی داموں میں سے تو کونین خریدی جائے گی۔”
قصہ مختصر وہ سب پریشانیاں جو عدالت میں پیش آئی تھیں، دور ہو گئیں۔ ہم نے کہا کہ "تو نہ معلوم کس بھول میں ہے۔ ابھی عجب نہیں کہ تیری پیشی بطور ملزم کے کونین والے مقدمہ میں ہو۔” یہ وہ بھی جانتی تھی کہ مجسٹریٹ اور سب انسپکڑ ریلوے پولیس خود تحقیقات کر چکے تھے۔ جان گئے تھے کہ تمام چیزیں اس نے کڑوی کی تھیں۔ لہٰذا وہ کچھ گھبرا رہی تھی۔ ہم شام کو ریلوے مجسٹریٹ کے بنگلہ پر اپنی ملزم بیوی کو لے کر گئے۔ اور ان کے سامنے اس کی طرف سے اقبال جرم کیا۔ جو کو انہوں نے حیرت اور دلچسپی سے سنا اور اطمینان دلایا کہ وہ مقدمہ فائل کر دیا جائے گا۔
غرض اس قصہ کو ختم کر کے ہم واپس آئے۔ یہ واقعہ ہے کہ اس کی کونین خورانی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ اگر کہیں اس کا اس دلچسپی سے جہ نہ بھر جاتا تو وہ ضرور کہیں پکڑی دھکڑی جاتی۔ خدا خدا کر کے اس بات میں آپ ہی میانہ روی آ گئی مگر عادت بالکل نہ گئی اور نہ جائے گی۔
٭٭٭
چھٹا باب : ہندوستانی پردہ
ہم دروازے پر پہنچے اور ڈیوڑھی میں داخل ہوئے۔ لیکن اندر جُوں ہی قدر رکھا کہ چونک پڑے۔ ایک جنٹل میں آرام کُرسی پر لیٹے ہوئے حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ پاس اُن کی خوبصورت بیوی بیٹھی تھیں۔ ہم فوراً ارے کہہ کر لوٹے۔ اور وہ حضرت گرج کر حقے کی نَے سنبھال کر "لینا لینا بدمعاش کو پکڑنا” کہہ کر پھاند پڑے۔ ہماری شامت جو آئی ہم سیدھے بوکھلا کر بھاگے۔ اور وہ ننگے پیر اور حقہ کی نیزہ ہاتھ میں ہمارے پیچھے لینا لینا کرتے دوڑے۔ گلی کے موڑ پر ہم فوراً رُکے کہ کہیں لوگ ہمیں بدمعاش سمجھ کر پکڑ نہ لیں۔ ان حضرت نے ایک، دو، تین ہمارے اوپر حقے کی نَے تڑاٹر لگائیں۔ "سنئے تو، سنئے تو”، ہمارے منہ سے نکل رہا تھا۔ اور وہ ہمارے اوپر برس رہے تھے کہ لوگ درمیان میں آ گئے۔
"بدمعاش، پاجی، لچا، دن دھاڑے۔” کانپتے ہوئے وہ بولے۔ "ذرا سُنئے تو، سنئے تو” ہم نے کہا۔
"ٹھہر جائیے، صبر سے کام لیجئے۔” ایک بڑے میاں بولے۔ "کیا معاملہ ہے۔” ہم نے عذر کیا۔ "بدقسمتی سے میں بجائے برابر والے مکان کے ان کے مکان میں داخل ہو گیا۔ اور میں سخت شرمندہ ہوں۔”
اس پر وہ بولے۔ "بے ایمان، بدمعاش، جھوٹا ہے۔ جان بوجھ کر۔۔۔۔”
"نہیں صاحب ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ جانے دیجئے۔” بڑے میاں بولے۔ "جانے دیجئے۔!” وہ حضرت بولے۔ "میں تو پولیس میں دے دیتا۔”
غرض لوگوں نے معاملہ رفع دفع کیا۔ ہم پٹے پٹائے سخت شرمندہ کھڑے تھے اور اصلی جگہ جانے کا ارادہ فسخ کر کے گردن نیچی کر کے لوٹ آئے چراغ جل چکے تھے کہ گھر پہنچے۔
۔۔ ۱ ۔۔
آج صبح نہ معلوم کس منحوس کا منہ دیکھا تھا۔ ہم نے چاندنی سے کہا۔ "کہیں تو تو سامنے نہیں آ گئی۔”
چاندنی نے ہنس کر کہا۔ "کیا ہوا۔ ہم کہتے تھے کہ رات کو تکئے کے پاس بیٹھ کر آئینہ مت دیکھو۔ منحوس ہوتا ہے۔ تم بھول گئے اور وہ وہیں رکھا رہ گیا۔ اور صبح ہی شاید تم نے دیکھ لیا۔”
ہم کو ہنسی آ گئی۔ کیونکہ بیشک ہم نے رات کو بدقسمتی سے آئینہ دیکھ کر وہیں رکھا رہنے دیا تھا۔ اور چاندنی کی بن آئی۔ اُس نے مفصل قصہ پوچھا۔
ہم نے بتایا کہ کس طرح ہم نے آج ایک جگہ دھوکہ سے پردہ نشین بیوی کے گھر میں گھس گئے اور مارے گئے۔ قصہ گیا آیا ہوا۔ یہ قصہ لکھنؤ کا تھا۔ اور اس واقعہ کے چار روز بعد ہم یہاں سے لد گئے۔
ہم ویٹنگ روم میں آرام کرسی پر لیٹے ہوئے مزے میں اخبار پڑھ رہے تھے کہ ذرا باہر نکلے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بند گاڑی آ کر رُکی۔ لوگوں نے چادریں پردہ کے لئے تانیں۔ اور کوئی بیگم صاحبہ زنانہ ویٹنگ روم میں اُتریں۔ ہم لوٹ آئے اور بدستور اخبار پڑھنے لگے۔ کھٹ پٹ کی آواز آئی۔ ہم نے اخبار ہٹا کر دیکھا۔ ایک صاحب نہایت با وضع جنٹل مین۔ "افوہ” کر کے کرسی پر بیٹھ گئے۔ اور ہماری طرف دیکھنے لگے۔ یہ وہی حضرت تھے۔ جنہوں نے ہماری حقہ کی نے سے مرمت کی تھی۔ یہ اپنی بیگم صاحبہ کو زنانہ ویٹنگ روم میں اتروا کر آ رہے تھے۔
"خدا کی پناہ” ٹوپی اتار کر بولے۔ "جناب کہاں تشریف لے جائیں گے!” ہم نے غور سے دیکھا اور ہم خوش ہوئے کہ "چلو اچھا ہے کہ انہوں نے ہمیں پہچانا نہیں” اور پھر بتایا کہ "آگرہ تشریف لے جا رہے ہیں۔” یہ کہہ کر جو انہوں نے سلسلہ شروع کیا تو دنیا بھر کی باتیں پوچھ کر پھر وہی پرانی باتیں شروع کیں۔ سفر کی خرابی، عورتوں کا ساتھ وغیرہ وغیرہ کہتے کہتے بولے۔ "کیا بتاؤں صاحب میں تو پریشان ہو جاتا ہوں، عورتوں کا ساتھ ہونا سفر میں واقعی مصیبت ہے۔ چار گھنٹہ تو عورتوں کو سوار کرانے میں گئے۔”
"وہ کیسے؟” ہم نے پوچھا تو وہ بولے۔
"اجی صاحب! عورتوں کے معاملات ہیں اور پھر سُسرال کا معاملہ اور مہمانی، اندر جا نہ سکتا تھا۔ کیونکہ اور دوسری رشتہ دار عورتیں تھیں۔ باہر سے کہلواتا کچھ تھا اندر سے جواب کچھ آتا تھا۔ خدا خدا کر کے اسباب بندھا اور پھر بھی کچھ چیزیں جو باہر رہنا تھیں، اندر رہ گئیں اور جو اندر رہنا تھیں، باہر رہ گئیں۔ شور و غل گھنٹوں جب ڈیوڑھی پر مچایا گیا تب جا کر سوار ہونے کی نوبت آئی۔ عورتوں کا ساتھ ہونا واقعی سفر میں مصیبت ہے۔ احباب کو دیکھئے یا انہیں۔ ایک وبالِ جان ہیں۔” اصغر صاحب نے کچھ پریشان ہو کر کہا۔ کیونکہ وہ واقعی کچھ بوکھلائے ہوئے سے تھے۔
ہم نے کچھ اختلاف کرتے ہوئے کہا۔ "شاید، مگر وجہ کیا کہ وبالِ جان ہوں۔ آخر باعث آرام و آسائش کیوں نہ ہوں تاکہ راہ کی کلفت ہی دور ہو۔”
"توبہ کیجئے۔ لا حول و لا قوۃ”۔ اصغر صاحب نے کہا۔ "کلفت دُور ہو! یہ کہیے دوگنی ہوتی ہے۔”
ہم نے ہنس کر کہا۔ "معلوم ہوتا ہے آپ کے ساتھ بہت سی عورتیں ہیں۔”
وہ بولے۔ "بہت سی تو نہیں صرف میرے گھر میں میرے ساتھ ہیں۔”
ہم نے نہایت ہی سادگی سے پوچھا۔ "گھر میں سے کون ساتھ ہے؟”
وہ بولے۔ "خود میرے ہی گھر میں سے ہیں۔”
"کون” ہم نے پھر ہنس کر شرارتاً کہا۔
"خود گھر ہی میں سے ہیں۔” اصغر صاحب نے پھر وہی جواب دیا۔
"و اللہ آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔ آخر گھر میں سے کون ہے، اماں، بیوی، بہن، ملازمہ، آخر کون ہے؟ شاید بیوی ہوں گی۔”
کچھ جھینپ کر اصغر صاحب نے کہا۔ "جی ہاں اور آپ کی سواریاں؟”
"میں نے تو کل ہی اُنہیں بُک کرا دیا”۔ ہم نے جواب دیا۔
اصغر تعجب سے ہمیں دیکھنے لگے۔ ابھی کی ملاقات اور سنجیدہ گفتگو وہ ایسے دیکھ رہے تھے کہ انہیں کچھ برا معلوم ہوا۔ کہنے لگے۔ "جناب مذاق کرتے ہیں۔”
ہم نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔ "میری دانست میں مجھ کو آپ سے مذاق کرنے کا حق اتنی جلدی حاصل نہیں ہو سکتا۔ میں مذاق نہیں کرتا بلکہ صحیح عرض کرتا ہوں اور مجھ کو تعجب ہے کہ جناب کو آخر میرے بیان کی صداقت میں کیوں شبہ ہو رہا ہے۔ یہ دیکھئے رسید بھی موجود ہے۔ میں نے اپنی دونوں سواریوں کو بُک کرا دیا۔” یہ کہہ کر ہم نے رسید اصغر کے حوالے کی۔ کیونکہ واقعی ہم موٹر سائیکل اور بائیسکل دونوں کو بذریعہ سواری گاڑی بُک کرا چکے تھے۔
اصغر کچھ خفیف سے ہوئے۔ رسیدیں واپس دے کر کہنے لگے۔ "شاید آپ تنہا سفر کر رہے ہیں۔”
ہم نے کہا۔ "جی نہیں۔ میں تنہا سفر کرنے کا عادی نہیں۔ میری بیوی میرے ساتھ ہے۔”
اصغر بولے۔ "مگر زنانہ ویٹنگ روم تو خالی ہے۔ اچھا شاید وہ ڈولی جو نل کے سامنے رکھی ہے۔ اُس میں وہی ہیں۔” یہ انہوں نے کچھ قطعی یقین کے ساتھ کہا۔
ہم نے ہنس کر کہا۔ "جی نہیں۔”
"پھر کہاں بٹھایا ہے؟” اصغر نے پوچھا۔
"کہیں نہیں۔ بلکہ انہوں نے مجھے بٹھایا ہے۔”
"معاف کیجئے گا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں”۔ اصغر نے مذاق سمجھ کر ناپنسدیدگی سے کہا۔
ہم نے ہنس کر کہا۔ "وہ مجھے یہاں بٹھا کر ٹکٹ لینے گئی ہیں۔”
"ارے! یہ کیا؟”
ہم نے کہا۔ "صاحب وجہ یہ ہے کہ اسباب میرے پاس ضرورت سے زیادہ ہے۔ اُس میں کچھ تو مال گاڑی سے جائے گا اور کچھ سواری گاڑی سے جائے گا۔ پھر اُس میں کچھ ایسا ہے جو بریک میں دیا جائے گا اور کچھ ساتھ رہے گا۔ میری طبیعت کچھ خراب تھی تو مجبوراً وہ بیچاری مجھے یہاں آرام سے بٹھا کر ٹکٹ خریدنے اور سب اسباب بُک کرانے گئی ہیں۔ آدھ گھنٹہ سے زائد ہو گیا ہے اور ابھی تک نہیں آئیں۔”
"ارے ! کیا اکیلی گئی ہیں؟” اصغر تعجب سے بولے۔
ہم نے نہایت ہی روکھے منہ سے کہا۔ "جی نہیں بلکہ اُن کے ساتھ بکنگ کلرک اور قلی بھی گیا ہے۔”
"خوب، یک نہ شد دو شد۔” اصغر صاحب آنکھیں پھاڑ کر بولے ۔ "تو وہ پردہ کیا بالکل نہیں کرتیں؟”
"کیوں نہیں، کرتی کیوں نہیں، بہت کرتی ہیں۔”
تو پھر یہ کیسے؟” اصغر نے کہا۔
ہم نے کہا۔ "یہ کوئی ضروری نہیں کہ پردہ کیا جائے تو دنیا کا کوئی کام ہی اُس کی وجہ سے نہ کیا جائے۔ مجبوری ہے۔”
اصغر نے کہا۔ "جناب حدیث شریف میں آیا ہے کہ عورتیں اندھوں تک سے سخت پردہ کریں۔ حتی کہ اُن کی طرف بھی نہ دیکھیں۔”
ہم نے کہا۔ "صاحب آیا ہوگا۔ ہمیں تو پتہ نہیں۔ مگر آئندہ ہم بھی ضرور احتیاط رکھیں گے اور حتی الامکان پابندی کرائیں گے۔ مگر میرا تو خیال ہے کہ میری بیوی خواہ مخواہ بے ضرورت اندھوں کو بھی نہیں دیکھتیں۔ مگر ضرور سا سب دیکھتی ہیں۔ اب اور تاکید کر دوں گا۔ مگر یہ تو بتائیے کہ۔۔۔۔ اتنا کہنے پائے تھے کہ دروازے کے سامنے ہم نے دیکھا کہ ہماری منتظم بیوی تیزی سے جا رہی ہے چنانچہ ہم نے فوراً آواز دی۔
وہ آئی۔ ہم نے پوچھا ۔”کہو، کیا دیر ہے” تو اس نے کہا۔ "بس رسید بنوانا رہ گئی ہے۔ ابھی آتی ہوں۔ "یہ کہہ کر چلی گئی۔
"آپ تو کہتے تھے کہ پردہ کرتی ہیں۔ یہ تو منہ کھولے گھوم رہی ہیں۔”
اصغر نے کہا۔
ہم نے کہا "سر سے پیر تک تو غریب نے اس گرمی کے موسم میں اپنے کو چادر سے لپیٹ رکھا ہے۔ اور پھر بھی آپ اعتراض کر رہے ہیں۔ وہ کیا منہ کو بھی بند کر لے تو آپ کا کیا یہ مطلب ہے کہ تیزی سے اِدھر اُدھر جانے اور اسباب بتانے اٹھوانے میں برقعہ سے اُلجھ کر گرے یا کوئی بنڈل اُڑوا دے۔ معاف کیجئے میں ایسے پردہ سے باز آیا۔”
"پھر مزہ یہ کہ آپ ان کا نام لے کر پکارتے ہیں۔” اصغر صاحب نے دُوسرا اعتراض کیا۔
"آخر پھر کیسے پکاروں؟ آپ ہی کوئی تدبیر بتائیں۔ مجھ کو تو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ ارے دیکھنا۔ اے جی سنو تو، وغیرہ وغیرہ کہہ کر پکاروں، اور خواہ مخواہ اسٹیشن پر بیسیوں آدمیوں کو اپنی طرف مخاطب کر لوں۔”
مگر وہاں تو تیسرا اعتراض موجود تھا۔ "آپ تو مردوں کا کام عورتوں سے لیتے ہیں۔ یہ سب کام جو آپ کی بیگم صاحبہ دوڑ دوڑ کر کرتی پھر رہی ہیں۔ در اصل آپ کے کرنے کے تھے۔” اصغر صاحب نے کہا۔
ہم نے کہا۔ "بیشک۔ مگر عرض کیا نا کہ میری طبیعت کچھ خراب ہے۔ گرمی کا موسم ہے۔ ورنہ میں ہر گز اپنی بیوی کو تکلیف نہ دیتا۔ میں تو اس حالت میں بھی ان کو منع کرتا رہا مگر وہ نہ مانیں کہ کہیں میری طبیعت زیادہ خراب نہ ہو جائے! اصغر صاحب کیا کہوں کہ بیوی ایک نعمت ہے اور خصوصاً سفر میں۔”
اتنے میں ریل گاڑی کی گھنٹی بجی اور اصغر صاحب بری طرح اٹھ کر بھاگے۔ ہم اُسی طرح بیٹھے رہے۔ کیونکہ گاڑی یہاں بہت دیر ٹھہرتی تھی۔ تھوڑی دیر میں چاندنی آئی اور کہا چلئے۔ ہم گاڑی میں گئے تو وہاں سب اسباب قرینے سے رکھا ہوا اور بستر بچھا پایا۔ ہم نے چاندنی سے کہا۔ "دوست خدا تمہارا سہاگ قائم رکھے۔ بس ایک گلاس شربت اور پلوا دو۔” یہ کہہ کر ہم مزے سے لیٹ رہے۔ چاندنی نے قلی وغیرہ سب رُخصت کر دیئے تھے۔ اور تھوڑی ہی دیر میں ہم بیٹھے سرد پانی سے اور اپنی بیوی سے باتیں کر کر کے دل ٹھنڈا کر رہے تھے۔
۔۔ ۲۔۔
اُدھر اصغر صاحب کا حال سنئے۔ ریل کیا آئی کہ مصیبتوں کا دفتر کھل گیا۔ کہاروں نے پالکی میں ان کی بیگم صاحبہ یا یوں کہئے کہ اسباب جہالت کو اٹھایا اور آگے بڑھے۔ اصغر نے اسباب اور قلیوں کو دیکھا تو ایک قلی غائب۔ پالکی نکلی جاتی تھی۔ ایک دم سے اُدھر دوڑے کہ پھر اِدھر آئے۔ دوسرے قلی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ صاحب ابھی تو یہیں تھا۔ شاید آگے بڑھ گیا ہو گا۔ اس کو ساتھ لیا اور تیزی سے آگے بڑھے کہ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ قلی اُن کا اسباب لئے مجمع کے ساتھ ساتھ پھاٹک سے باہر جانا ہی چاہتا ہے۔ غضب ہی تو ہو گیا۔ اور بے تحاشا اس کی طرف لپکے اور اس ہڑبونگ میں نہ معلوم کس کس سے ٹکرائے کہ آخرش اس جلد بازی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک صاحب سے جو شاید ان سے بھی زیادہ ضروری کام سے جا رہے تھے، ایسی ٹکر ہوئی کہ یہ گرتے گرتے بچے۔ مگر سنبھلنے جو لگے تو ایک دہی بڑے والے کا خوانچہ سامنے آیا۔ پھاندے جو سہی، تو دہی بڑے والے نے ہاتھ سے روکا۔ نتیجہ یہ کہ دہی بڑے والے کے خوانچہ میں قدم پڑا۔ اور بری طرح گرے۔ تڑپ کر اُٹھے کہ دہی بڑے والے نے پکڑا۔ وہاں اسباب نکلا جاتا تھا۔ ہاتھ کو ایک جھٹکا دیا اور چھڑا کر
سیدھے پھاٹک کی طرف دوڑے۔ قلی باہر نکل چکا تھا مگر اب بھی نظر آ رہا تھا۔ پھاٹک پر جو کشمکش ہوتی ہے وہ سب جانتے ہیں۔ وہاں کشتم کشتا کر کے کوشش کی کہ باہر نکل جاؤں کہ دہی بڑے والے نے پکڑا۔ اُس سے ہاتھ چھڑاتے ہیں اور اطمینان دلاتے ہیں مگر توبہ کیجئے وہ کاہے کو چھوڑتا۔ دیکھتا تھا کہ یہ باہر نکلے جا رہے ہیں پھر کاہے کو ہاتھ آئیں گے۔ اس کو کیا معلوم کہ یہ کہاں جا رہے ہیں۔ غرض یہاں یہ دہی بڑے والے سے ایسی پکڑ لڑے کہ آخر کو ٹکٹ کلکٹر کی چھاتی پر پہنچے۔ اس نے کہا ٹکٹ! مگر یہاں قلی نکلا جاتا تھا۔ بری طرح پھاند کر زور دے کر نکل گئے اور تڑپ کر قلی کا ہاتھ جا پکڑا۔ اور ادھر ٹکٹ کلکٹر اور ایک سپاہی معہ دہی بڑے والے کے ان پر ٹوٹ پڑے۔ جس کا یہ قلی اور اسباب تھا۔ اس نے کہا۔ "یا وحشت حضرت خیر تو ہے؟” سخت شرمندگی ہوئی۔ کیونکہ نہ ان کا قلی تھا اور نہ اسباب۔ ٹکٹ کلکٹر کو اپنی پریشانی مختصر الفاظ میں بتا کر ٹکٹ دکھا کر بے طرح واپس ہوئے۔ اور دہی بڑے والے سے کہا ذرا دم لے۔ وہاں سے نکل کر جو واپس آئے تو دوسرا قلی بھی غائب۔ حیران ہو کر پولیس کے دفتر کی طرف جا رہے تھے کہ کسی نے کہا صاحب ایسا نہیں ہو سکتا۔ قلی دونوں پالکی کے پاس ہوں گے۔ دوڑ کر پالکی کے پاس پہنچے۔ وہاں ایک ہی موجود تھا۔ اتنے میں خیال آیا کہ دوسرے قلی نے پوچھا تھا کہ میاں کون سے درجہ میں سامان رکھا جائے گا۔ فوراً دوڑے ہوئے ہماری طرف آئے اور قلی کو ہمارے ڈبہ کے سامنے کھڑا پایا۔ ان کو اطمینان ہو گیا۔ اور بغیر ہماری بات سنے سیدھے پالکی کی طرف بھاگے۔
اُترنے والے اتر چکے تھے اور بیٹھنے والے بیٹھ چکے تھے۔ اور اب اصغر صاحب نے پالکی کو زنانہ درجہ سے لگوا کر دو چادروں سے پردے تنوائے اور بیوی سے کہا اُترو۔
کہیں ایک قسمت کا مارا گورا ٹہلتا ہوا ادھر آ نکلا۔ شاید تازہ ولایت سے اسی روز آیا ہو گا۔ ورنہ کم از کم لکھنؤ میں تو قطعی نو وارد تھا۔ اس نے بھلا یہ دھندے کاہے کو دیکھے تھے۔ معلوم اس نے کیا سمجھا، کہ وہ قریب آیا۔ اور از راہ تعجب یا تجسس پردہ کے قریب آ کر یہ دیکھنا چاہا کہ اس میں کیا ہو رہا ہے۔ اس نے ایک طرف چادر کو ہاتھ سے نیچا کر کے اوپر سے سر ڈال کر دیکھا۔ بیوی تو بیٹھ ہی گئیں۔ لیکن چادر سمیٹ کر۔ اصغر صاحب گورے پر گویا پھٹ پڑے۔ وہ زور کا نعرہ مار کر اُس پر آئے کہ ہلڑ سا ہو گیا۔ اور ان کے ساتھ دو تین اور آدمیوں نے مل کر گورے کو وہ آڑے ہاتھوں لیا کہ اگر ایک دوسرا گورا آ کر بیچ بچاؤ نہ کرتا تو شاید پورا جھگڑا کھڑا ہو گیا ہوتا۔ اصغر صاحب بعد میں کہتے تھے کہ وہ گورا قطعی بدمعاش تھا اور جھوٹا تھا اور اس نے جان بوجھ کر جمیع مسلمانانِ ہند کی توہین کرنے کی نیت سے یہ فعل قبیح کیا تھا۔
زنانہ درجہ کی سب کھڑکیاں چڑھا کر اور پانی وغیرہ کا انتظام کر کے اصغر صاحب مع ایک نفر قلی اور دہی بڑے والے کے ہمارے یہاں آئے۔ ہم شربت پی رہے تھے۔ پہلے تو قلیوں سے بحث مباحثہ ہوا۔ پھر دہی بڑے والے کا نمبر آیا۔ پہلے تو دہی بڑے کا خوانچہ پھاندنے میں ناکامی کی وجوہات پر انہوں نے مفصل طور پر روشنی ڈالی۔ اور پھر سارا الزام دہی بڑے والے پر رکھا کہ اگر وہ اپنا ہاتھ خواہ مخواہ پاؤں میں حائل نہ کر دیتا تو وہ قطعی اس کو پھاند گئے ہوتے۔ غرض خوب جھائیں جھائیں ہونے کے بعد دہی بڑے والا پانچ روپے لے کر ٹلا۔ ریل چلی اور ذرا اطمینان ہوا تو پریشانیوں کی پوری تفصیل سننے میں آئی۔ اب غور سے دیکھتے ہیں تو پتلون کے پائینچوں اور موزوں پر دہی اور سونٹھ کی چٹنی کے جگہ جگہ دھبے تھے۔ لہٰذا ان کو رو مال تر کر کے چھڑانے کی کوشش کر کے خوب پھیلایا۔
ذرا غور سے دیکھئے کہ جتنا اسباب ان کے ساتھ تھا اس سے چوگنا ہمارے ساتھ پاس تھا۔ سفر کرنے والے دو میاں بیوی وہ اور وہی ہم دو میاں بیوی تھے۔ مگر وہ ایک مصیبت میں گرفتار تھے اور ہم آرام سے تھے۔ ان کی بیوی اگر باعثِ مصیبت تھیں تو ہماری بیوی باعث آرام و تفریح۔ اگر وہ واقعی مذہب کے پابند تھے اور ہم اس سے آزاد تھے۔ تو کیا یہ صحیح ہے کہ یہ مذہب اس زمانہ اور معاشرت کے لئے ناموزوں ہے۔ یا ہمارا دعوی کہ ہمارا مذیب دین فطرت ہے، صحیح ہے۔ ذرا پھر سوچئے۔
۔۔ ۳ ۔۔
تین چار اسٹیشن بعد اصغر نے اتر کر بیوی کی خبر لی کہ کس حال میں ہیں وہاں دیکھتے کیا ہیں کہ سب کھڑکیاں جو بند کر کے گئے تھے کھلی ہیں۔ فوراً ان کو چڑھایا۔ بیوی نے یہ خبر وحشت اثر سنائی کہ کوئی شخص کالی اچکن پہنے ان کے چلے جانے کے بعد زنانہ درجہ میں آیا اور ایک قلی پر ان کا ایک ٹرنک دن دہاڑے رکھوا کر چلتا بنا۔
ان کی بیوی بیچاری پردہ نشین نا تجربہ کار عورت تھیں۔ انہوں نے جو یہ دیکھا تو بجائے اس کے خود کچھ کہتیں یا روکتیں ایک قریب والی بی بی کے کان میں کہا۔ مگر یہ تیسرا درجہ تو تھا نہیں سب پردہ نشین بیویاں تھیں۔ انہوں نے کہا پھر روکتی کیوں نہیں ہو یہ بھلا کیسے روکتیں وہ لے کر چل بھی دیا۔ اور گاڑی چل دی۔ اس ٹرنک میں علاوہ قیمتی کپڑوں کے ڈیڑھ دو ہزار کی مالیت کا اور بھی سامان تھا۔
فوراً دوڑ دھوپ کر کے پولیس کو اطلاع کی اور نار دلوائے چاندنی نے ان سے کہا "معاف کیجئے گا۔ اس میں آپ کی بیگم صاحبہ کی غلطی ہے۔ اول تو ان کو فوراً اس آدمی کو وہیں روکنا تھا اور پھر اگر یہ نہ ہو سکا تو ان کو زنجیر کھینچ کر گاڑی روکنی تھی۔ اور نہ سہی یہ ہی کہ کم از کم پہلے ہی اسٹیشن پر اطلاع کرتیں۔”
"معاف کیجئے” اصغر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ "اس آدمی کا ہاتھ پکڑ لیتیں۔”
"آخر کیوں نہ پکڑ لیتیں۔ میں ہوتی تو اپنا ٹرنک ہرگز اس طرح نہ لے جانے دیتی۔” چاندنی نے کہا۔
اصغر بولے۔ "جناب ایک ٹرنک کے پیچھے ہمارے یہاں کی عورتیں نہ تو پردہ توڑتی ہیں اور نہ مردوں سے الجھتی ہیں۔” یہ الفاظ اصغر نے کچھ فخریہ لہجے میں کہے۔
چاندنی نے کہا۔ "محض اس بنا پر شاید انہوں نے اس کے متعلق اطلاع بھی نہ دی۔”
"بیشک” اصغر بولے۔ "یہ تو ایک ٹرنک ہے۔ اگر لاکھوں کی چیز ہوتی تو تب بھی وہ کسی مرد سے اس کے اس کے پیچھے بات نہ کرتیں۔”
ہم نے کہا "تعجب ہے آپ نے اپنے گھر کی عورتوں کو اس درجہ معذور بنا رکھا ہے۔ میری دانست میں ان فرسودہ خیالات کو آپ سے روشن خیال آدمی کو جلد از جلد ترک کر دینا چاہیئے۔” اس پر وہ بولے "بندہ پرور! میں ایسی روشنی کا قائل نہیں۔ جو مذہب کے خلاف ہو۔ یہ روشنی مصطفی کمال کی بادشاہی کو مبارک ہو۔”
یہی باتیں ہوا کیں۔ ایک اسٹیشن پر اصغر نے دیکھا کہ کوئی صاحب کھڑے زنانہ درجہ کی کھڑکیاں کھول رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا فوراً لپک کر موقعہ پر پہنچے۔ "میں کھڑکیاں بند کرتا ہوں اور آپ ہیں جو کھول دیتے ہیں۔”
"اچھا یہ آپ ہیں۔ میں خود تنگ ہوں کہ بار بار کھولتا ہوں اور آپ بند کر دیتے ہیں۔ مارے گرمی کے عورتوں کا برا حال ہے اور آپ کو پردہ کی سوجھی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو آپ اپنی عورتوں کو کسی اور جگہ بٹھائیے۔ ورنہ لے کر ہی کیوں چلے تھے؟” اجنبی نے کہا۔
"مگر میں جناب کو کھڑکیاں نہیں کھولنے دوں گا۔” اصغر نے ایک کھڑکی کو بند کرتے ہوئے کہا۔ "جتنا آپ کو حق ہے اتنا ہی مجھے ہے۔”
"میں حق وق کچھ نہیں جانتا اور کھولوں گا۔ عورتیں نہ ہوئیں جانور ہو گئیں”
"تو کم از کم آپ میری طرف والی کھڑکی رہنے دیجئے۔” اصغر نے کہا۔
"میں آپ کی اور اپنی کچھ نہیں جانتا۔ میں اس کھڑکی کو تو ضرور کھولوں گا کیونکہ وہی تو ایک ضروری ہے۔” اس ٹرے اور ضدی شخص نے کہا۔
"آپ نہیں مانتے تو میں اسٹیشن ماسٹر سے کہتا ہوں۔” اصغر نے کہا۔
"آپ لاٹ صاحب سے کہہ دیجئے، جائیے۔”
اسٹیشن ماسٹر اور گارڈ دونوں آئے اور یہ ٹرا اور ضدی شخص جیت گیا۔ گرمی ہی اس شدت کی تھی کہ کھڑکی بند کرنا محال تھا۔ مجبوراً اصغر پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔ اور غصہ بیوی پر اس طرح اتارا کہ ان سے کہا کہ برقعہ کے اوپر ایک چادر اور ڈھک کر کونے میں ناک لگا کر بیٹھ جاؤ۔ کیا یہی مذہب ہے؟
۔۔۴۔۔
اصغر صاحب کی مصیبت کا در اصل خاتمہ نہ ہوا تھا۔ بلکہ یہ تو آغاز تھا۔ قدم قدم پر ان کے مذہب اور موجودہ معاشرت کا تصادم ہوتا تھا۔
گاڑی چلتے چلتے آہستہ ہوئی اور رک گئی۔ زنانہ ڈیوڑھے درجہ کے پہیوں کے دھرے بوجہ روغن کی کمی اور گرمی کی شدت کے تپ اٹھے تھے اور آگ لگ جانے کا اندیشہ تھا۔ گاڑی جنگل میں رکی ہوئی تھی۔ اور اس کے دھرے پر پانی کا چھڑکا جا رہا تھا۔ عورتوں کو جلدی جلدی اتارا جا رہا تھا۔ اصغر صاحب کی بدحواسی قابل عبرت تھی۔ تمام پردہ کے لوازمات کے ساتھ بیوی کا اتارنا اور اسباب اتروانا ایک مصیبت تھا۔ یہاں کون تھا جو چادریں تانتا اور کون تھا جو ڈولی لاتا۔ ادھر گارڈ "اترو اترو جلدی کرو۔” کہہ کر اور بھی رہے سہے ہوش اڑائے دے رہا تھا۔ مجوراً اصغر نے اپنی بیوی سے اترنے کو کہا۔ پلیٹ فارم تو تھا نہیں گویا چھت پر سے یہاں اترنے کا مضمون در پیش تھا۔ ہماری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ کس طرح کوئی آنکھیں بند کر کے اتر سکتا ہے۔ مگر یہاں اصغر صاحب کی بیوی موجود تھیں جن سے اس کمال کی توقع کی جا رہی تھی۔ وہ عورت جو ڈولی سے ایک قدم رکھ کر گاڑی کے ڈبے میں بیٹھنے کی عادی ہو، وہ بھلا کیونکہ برقعہ اور برقعہ کے اوپر چادر اوڑھ کر اس حیرانی اور پریشانی میں اتر سکتی ہے۔ کانپتے ہاتھوں سے ٹٹول کر غریب نے کھڑکی کو پکڑا، پیر نیچے کر کے ٹٹول رہی تھیں کہ کس چیز پر اور کہاں رکھوں کہ بے پردگی ہونے لگی یعنی ہوا سے چادر اڑ کر کچھ حصہ پوشاک کا کھل گیا۔ اصغر زور سے چلائے، غریب نے گھبرا کر سنبھلنا چاہا کہ پیر کہیں پڑا۔ ہاتھ سے کھڑکی چھوٹی اور دھم سے نیچے گریں۔ نیچے ٹرنک رکھا گیا تھا۔ جس پر اصغر کھڑے تھے۔ اس کو کونہ کولہے پر اس زور سے لگا کہ بے دم ہی تو ہو گئیں۔ مگر زبان سے اُف تک نہ نکلی۔ ایک تو گرمی کی شدت پھر اس پر کپڑوں کا حبس اور اس پر یہ چوٹ۔ غریب بے ہوش ہو گئیں۔ جوں توں کر کے گھبراہٹ اور جلدی میں چاندنی سے سہارا دے کر اُٹھوایا۔ کسی دوسرے مرد کی اعانت کے روا دار نہ تھے اور چاندنی میں اتنی قوت نہ تھی۔ نتیجہ یہ کہ بیچاری کو کنکروں پر مردہ کی طرح گھسیٹ کر لے چلے۔ (کیا یہی ہمارے مذہب کی شان ہے۔؟)
جس طرح بن پڑا بیزار دقت ایک زنانہ تیسرے درجہ میں غریب کو رکھا، اپنے ساتھ بٹھائے کون۔ ہم نے بہت کچھ کہا مگر نہ مانے۔ کوئی دوسرا درجہ بھی خالی نہ تھا۔ چاندنی از راہ ہمدردی ان کی بیوی کی تیمار داری کے لئے ساتھ ہو گئی۔ جوں توں کر کے اسباب اپنے ساتھ کیا اور گاڑی چلی۔
چاندنی نے وہیں گاڑی کی بنچ کے پاس لیٹا رہنے دیا۔ کیونکہ جگہ نہ تھی تکیہ لگایا اور منہ کھول کر ہوا دی۔
اگلے اسٹیشن پر اصغر صاحب اتر کر جو آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ زنانہ درجہ کا دروازہ کھلا ہے اور سامنے بیوی لیٹی ہیں۔ چاندنی ان کے پاس بیٹھی ہوا دے رہی ہے۔ اور اس نے برف کا پانی مانگا۔ مگر یہاں حالت ہی دوسری تھی۔ بے اختیاری کے عالم میں آ کر اصغر صاحب زور سے چلائے ۔ "ارے یہ کیا غضب کر رہی ہیں۔ منہ تو ڈھکئے۔ ارے منہ کیوں نہیں ڈھکتیں۔” یہ کہہ کر اپنی بیوی کا منہ ڈھک دیا۔ اور ٹیڑھی نظر سے غصہ میں چاندنی سے کہا۔ "یہ آپ سے کس نے کہا کہ آپ اپنی طرح میری بیوی کا بھی منہ کھول دیں۔ یہ آپ ہی کو مبارک ہو۔ آپ رہنے دیجئے ۔ اور جائیے۔”
گئ تھی بھلے کو، اور وہاں برا ہوا۔ چاندنی بے چاری چپ چاپ چلی آئی۔ ہماری طبیعت خراب تھی اور اس وجہ سے اس سفر میں اس کی طبیعت حاضر نہ تھی۔ پھر بھی کہنے لگی "کہیئے تو ان کی خبر لی جائے۔” ہم نے کہا "نہیں رہنے دو۔” اتنے میں اصغر صاحب آ گئے۔ اور پھر اسی جلے بھنے لہجے میں چاندنی سے کہنے لگے۔ "آپ سے آخر کس نے کہا تھا کہ آپ میری بیوی کو منہ ہر کس و ناکس کے دیکھنے کے لئے کھول دیں۔”
چاندنی بولی۔ "میں شرمندہ ہوں۔ مگر یہ تو۔۔۔۔۔”
"اجی صاحب’ اصغر نے کہا مگر وگر کو جانے دیجئے۔ آخر شرم و حیا بھی تو کوئی چیز ہے۔ آپ کی طرح سے کوئی نسوانی شرم و حیا کو بالائے ۔۔۔”
اتنا کہنا تھا، کہ جلی تو بیٹھی ہی تھی۔ چھتری لے کر جب تک ہم روکیں، روکیں، ایک دو تین، اصغر صاحب کے اوپر تڑاتڑ بالکل اس طرح لگا دیں جس طرح ہمارے اوپر انہوں نے حقہ کے ہاتھ جڑے تھے۔ اصغر صاحب نے بہت کچھ وار رد کئے مگر تین چار بری طرح پڑے۔۔ ہیں ہیں کر کر کے ہم نے ڈانٹ کر روکا۔
"بد تمیز بد زبان تم یہاں سے نکل جاؤ” یہ کہہ کر وہ غصہ میں زنجیر کی طرف لپکی۔ "میں ابھی نکلواتی ہوں۔”
"یہ کیا واہیات ہے۔” ہم نے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا اور پکڑ کر بٹھایا۔ وہ غصہ میں کانپ رہی تھی اور کہہ رہی تھی ۔ "مجھے چھوڑ دیجئے۔”
ہم نے ڈانٹ کر بٹھایا۔ اصغر صاحب کی عجب ہی حالت تھی۔ ہم نے ان سے معافی مانگی۔ اور تھوڑی دیر میں چاندنی سے بھی کہا کہ تم بھی معافی مانگو۔
"بشرطیکہ اصغر صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔ میں اپنی بیوقوفی اور گستاخی پر نادم ہوں اور معافی مانگتی ہوں۔” چاندنی نے بڑی مشکل سے سمجھانے بجھانے پر کہا ۔
"مجھ کو افسوس ہے کہ میں غصہ میں آپ کو نہ معلوم کیا کہہ گیا۔”
یہ ہم نے اصغر صاحب سے کہلوایا۔ اور دونوں سے ہاتھ ملوایا۔ مگر نہ تو چاندنی کا دل صاف تھا اور نہ اصغر صاحب کا اور بقیہ راستہ ادھر وہ منہ پھلائے بیٹھے رہے اور ادھر یہ چپ بیٹھی رہی۔
ہم نے چپکے سے چاندنی کے کان میں کہا "دوست تم نے ہمارا بدلا خوب لیا۔ اسی شخص نے اس روز ہماری حقہ سے مرمت کی تھی۔”
چاندنی نے تعجب سے کہا۔ "ارے” تو ہم نے کہا "چپ، خبر دار جو بات نکالی۔ یہ حضرت ہمیں پہچان ہی نہ سکے۔ خواہ مخواہ شرمندہ کرنے سے کوئی نتیجہ نہیں” وہ چپ ہو گئی۔ آگرہ پر ہم دونوں جب اترے تو اصغر صاحب سے پھر ملال رفع کرنے کے ہاتھ ملائے۔
بد قسمتی سے اصغر صاحب کی مصیبتوں کا خاتمہ اب نہ ہوا تھا اور ہم آٹھ سات روز کے بعد جب اصغر صاحب کے گھر دوبارہ اپنی بیوی کی بد تمیزی پر معافی مانگنے گئے تو ہمارے تعجب کی انتہا نہ رہی۔ اصغر کا گھر تو خاصا ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ اور ہم سناٹے میں آ گئے جب ہم نے سنا کہ اصغر صاحب کی بیوی کھو گئیں۔ آگرہ کے اسٹیشن پر سے وہ اسی طرح چادر تان کر ڈولی میں بٹھا کر لائے۔ یہ تانگے پر تھے اور ڈولی کے ساتھ ساتھ نوکر تھا۔ گھر پر بجائے بیوی کے ایک سن رسیدہ پردہ نشین غریب بی بی اتریں۔ ادھر وہ حیران کہ کہاں آ گئی۔ اور ادھر اصغر صاحب کے گھر والے پریشان۔ وہ کہتی تھیں کہ "میرا بیٹا کہاں ہے جو ڈولی لے کر آیا تھا۔” اور یہ کہتے تھے کہ "ہماری بیوی لاؤ۔” دوڑ کر اسٹیشن پر پہنچے۔ وہاں سے گاڑی راجہ منڈی کے اسٹیشن پر جاچکی تھی وہاں پہنچے تو اتنا ضرور پتہ چلا کہ گاڑی چونکہ یہاں ختم ہو جاتی ہے ۔ لہذا سوائے ایک برقعہ پوش عورت کے اس میں کوئی نہ رہا تھا۔ چنانچہ وہ اتر کر ایک آدمی کے ساتھ چلی گئی۔ دونوں کے پاس ٹکٹ آگرہ سٹی سے راجہ منڈی تک کے تھے ۔ دوسرا آدمی ملازم معلوم ہوتا تھا۔ جو ان کو کسی بند گاڑی میں بٹھا لے گیا۔
یہاں اس تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں کہ کس طرح دن اور رات پولیس نے تفتیش کی۔ مگر یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ غریب سن رسیدہ بی بی صاف چھوٹ گئیں۔ دوسرے ہی روز صبح کو ان کا خط ان کے بیٹے کو مل گیا۔ جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ "ڈولی لے کر اسٹیشن پر ملنا۔” اصغر کا برا حال تھا۔ سر ٹکرا ٹکرا کر انہوں نے دیوانوں کی طرح پھوڑ لیا تھا۔ بلکہ کیا عجب کہ اگر گھر والے نہ ہوتے تو وہ اپنی جان گنوا دیتے کیونکہ ان کو اپنی بیوی سے محبت ہی نہیں، بلکہ عشق تھا۔ ان کی حالت زار قابل رحم تھی اور ان کو دیکھنے سے عبرت ہوتی تھی۔ وہ بالکل پاگل ہو رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ ان کا بکس مل گیا۔ کوئی بھلے مانس دھوکہ میں لے گئے تھے، وہ غلطی کا علم ہونے پر واپس کر گئے جو یہاں آ گیا۔ مگر یہاں تو اب بکس والی کا رونا تھا۔ ہم ان کے گھر والوں سے اور ان سے اظہار ہمدردی کر کے رنجیدہ گھر واپس آئے اور چاندنی کو حال سنایا۔ اس کو بھی بے حد افسوس ہوا۔
سال بھر تک ہم آگرے میں رہے اس وقت تک تو ان کی بیوی ملی نہ تھیں۔ اور ان کا قصہ بھی پرانا ہو چکا تھا۔ کہ ہم دوسری جگہ پہنچے۔
٭٭٭
ساتواں باب : گمنام خطوط
ہماری بیوی ہماری اس نوکری سے خوش تھی کہ تبادلہ ہوتا ہے اور نئے نئے مقامات میں رہنے کا موقع ملتا ہے۔ ہم کئی جگہ کی ہوا کھا چکے تھے اور پھر نئی جگہ کی امید تھی۔ اتفاق کی بات یا خوش قسمتی کہ ہماری خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ رہا جب ہمیں معلوم ہوا کہ ہمیں اب حامد کے وطن میں رہنے کا موقع ملے گا۔ حامد اپنے پرانے دوست اور یار غار تھے۔ ہم نے انہیں فورا تار دیا اور ہماری بیوی نے اسباب وغیرہ تو فورا ہی بند کرنا شروع کر دیا۔ حامد کا خط آیا۔ جو خط کیا تھا گویا استقبالیہ کمیٹی کے صدر کی طرف سے ایڈریس تھا۔
نئے شہر میں سیدھے معہ بیوی کے حامد کے مہمان ہوئے انہوں نے ہماری اس طرح خاطر کی کہ گویا برسوں کا حق دوستی پیشگی ہی ادا کر دیا۔ حامد نے ایک نیا موٹر لیا تھا۔ نیا نیا شوق، خوب ہمیں اور ہماری بیوی کو سیر کراتے۔ اور تمام شہر کے مشہور مقامات ایک ایک کر کے دکھائے۔
حامد کی ماں اور بہنیں ہماری بیوی سے مل کر بے حد خوش ہوئیں۔ آٹھ دس روز ہم حامد کے مہمان رہے ۔ پھر اس کے بعد شہر کے کچھ باہر ہی ہمیں ایک چھوٹا سا بنگلہ مناسب کرایہ پر مل گیا۔ اور ہم اس میں چلے گئے۔
ہماری اور ہماری بیوی کی زندگی میں اس تھوڑے سے ہی عرصہ میں انقلاب عظیم ہو گیا تھا اور رفتہ رفتہ منزل بمنزل ہم اور ہماری زندگی دونوں بدلتے جاتے تھے۔ پہلے شروع میں مکانوں میں رہتے تھے اور شہر پسند تھا۔ اور پھر بنگلوں میں آئے اور بنگلوں ہی کی روش اختیار کی۔ پہلے ہماری بیوی کو سوسائٹی اور دلچسپیوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور وہ سیدھی سادھی ایک غریب اور شرمیلی لڑکی تھی مگر اب بھلا یہ کیسے ممکن ہو کہ ہم کہیں سیر و تفریح یا دلچسپی کو جائیں اور ہماری بیوی ہمارا ساتھ نہ دے۔ اس نے اس تبدیلی کو بخوشی منظور کیا تھا۔ پہلے تو وہ پردہ کے نام نہاد حدود میں رہتی تھی۔ اور ہم یار دوستوں کے ساتھ گھومتے تھے اور اکثر ان میں ایسے بھی ہوتے تھے جیسے ہمارے پرانے یار، ماسٹر گلاب چند۔ مگر اب ہمارے لئے یہ نا ممکن تھا کہ ہم کسی ناشائستہ سوسائٹی یا زبان دراز دوست سے مل سکیں یا اس کے ساتھ بیٹھ سکیں۔ کیونکہ ہماری بیوی ہمارے ساتھ ہی ہونا پسند کرتی تھی۔ محض اسی بنا پر ہم کو کلب سے بھی دلچسپی نہ رہی تھی کیونکہ اکیلی بیوی گھر پر گھبرایا کرتی تھی۔ ہم کبھی کبھی چلے جاتے۔ مگر ہم کو دلچسپی زیادہ اسی میں تھی کہ شام کو اپنے گھر پر رہیں یا تنہا بیوی کے ساتھ ہوا کھا آئیں۔ ہماری بیوی اس موجودہ زندگی کو اگر پسند کرتی تھی تو صرف اس وجہ سے کہ وہ خوش تھی کہ ہماری پرانی سوسائٹی چھوٹ گئی۔ اور ہمارے دوستوں اور ملنے والوں کی تعداد اس قدر محدود ہو گئی کہ اس میں کسی کو اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہی۔ ہمارے دوستوں میں یہاں ویسے تو بہت تھے۔ اور سب تھے مگر دراصل ہمارے دوست بھی اب دو قسم کے تھے۔ ایک تو وہ جو ہمارے ذاتی ملنے والے تھے اور ان سے ہماری ملاقات ملنے والے کمرہ ہی تک محدود تھی اور دوسرے وہ جو ہمارے اور ہماری بیوی دونوں کے ملنے والے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ملنے والوں کی تعداد کم ہو گی۔ اور سوائے حامد کے دوسرا کوئی نہ تھا۔ یا پھر حامد کے ایک اور گہرے دوست تھے جن کا نام رفیق تھا۔ مگر چونکہ وہ دیہات میں رہتے تھے لہذا وہ صرف کبھی کبھی آتے تھے۔
حامد کو شکار کی بھی بڑی دھت تھی۔ مگر جب سے ہم آئے تھے، اتوار کو ان کو پکڑ لیتے تھے اور ان کو موقع نہ ملتا تھا۔ حامد نے روزانہ کہہ کر آخر ہمیں ایک روز راضی کر ہی لیا۔ چاندنی نے چونکہ شکار کبھی نہ دیکھا تھا لہذا ہم نے بھی مجبوراً منظور کر لیا۔ شکار پارٹی بھی بہت مختصر تھی۔ ہم، ہماری بیوی، حامد اور ایک بیرسٹر صاحب۔ بیرسٹر صاحب کا نام ہم یہاں بتانا نہیں چاہتے۔ بہت معقول صورت و معقول سیرت جوان آدمی تھی۔ پینتس برس کی عمر ہوگی۔ ولایت سے بیوی لائے تھے جو سال بھر کے اندر ہی مر گئی۔ پھر شادی دوبارہ نہیں کی۔ دوسری جگہ کے آدمی تھے۔ مگر شروع سے یہیں رہتے تھے۔ اور ہمیشہ سے بالکل ہی تنہا رہنے کے عادی تھے۔
۔۔۱۔۔
صبح چار بجے ہی آ کر حامد نے کھٹکھٹایا۔ بیرسٹر صاحب سے ہماری تو ملاقات کئی مرتبہ ہو چکی تھی۔ مگر ہماری بیوی کی اور ان کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ بہت جلد ہم نے چائے تیار کرائی۔ اور فارغ ہو کر حامد کی موٹر میں روانہ ہو گئے۔ حامد موٹر خود چلا رہے تھے اور آگے ان کے پاس ہماری بیوی بیٹھی تھی اور ہم بیرسٹر صاحب پیچھے بیٹھے تھے۔
بارہ پندرہ میل پختہ سڑک کا راستہ طے کر کے کچی سڑک آئی اور پھر دو چار میل چل کر گڑھے اور اونچی نیچی زمین سے سابقہ پڑا یہ مشکل بھی آسانی سے طے ہو گئی اور جھیل آ گئی۔ ہم لوگ اُتر پڑے اور جھیل کی طرف چلے۔ جھیل میں مرغابیاں اور قازیں بھری پڑی تھیں۔ ہم نے چاندنی کو ایسی جگہ بٹھا دیا جہاں سے وہ تماشہ دیکھ سکے۔ اور ہم تینوں جھیل کی طرف چلے۔ ہم لوگ الگ الگ چلے گئے۔ اور جھیل کو تین طرف سے گھیر لیا۔ حامد نے پہلے بندوق چلائی اور پھر اڑنے پر بیرسٹر صاحب اور حامد نے بہت فائر کئے۔ ہم نے بھی طبع آزمائی کی۔ ہم نے تو ایک پر تک نہ مارا مگر حامد اور بیرسٹر صاحب نے مل کر سات بڑی قازیں اور تین چھوٹی مرغابیاں ماریں۔
یہاں سے فراغت پا کر اب ہرن کے شکار کا ارادہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بیرسٹر صاحب ہم سے اور ہماری بیوی سے بھی بے تکلف ہو گئے اور شکار میں خوب لطف آیا۔ حامد سے اور بیرسٹر صاحب پرانا شکار کا یارانہ تھا۔ اور دونوں پرانے شکاری تھے۔
قصہ مختصر ہم لوگ ۱۲ بجے کے قریب لوٹے۔ علاوہ ان آبی جانوروں کے دو ہرن قتل کئے گئے اور چاندنی نے بھی شکار کا خوب لطف اٹھایا۔ چونکہ کھانا تیار ہی تھا۔ حامد اور بیرسٹر صاحب نے بھی ہمارے ہی ہاں کھانا کھایا۔ قصہ مختصر، دن مزے سے کٹا۔ بیرسٹر صاحب ہم سے اور چاندنی سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے اور چاندنی نے بھی ان کے بارے میں قطعی فیصلہ دیا تھا کہ یہ بہت معقول اور اچھے آدمی ہیں اور واقعی وہ تھے بھی ایسے ہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیرسٹر صاحب ہماری بیوی سے پہلی مرتبہ ملے تھے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ کسی سے ملو تو اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کرنا چاہئیے۔ وہ یورپ کی ایک جھلک دیکھے ہوئے تھے۔ عموماً جو ہمارے نوجوان انگلستان جاتے ہیں اور جن کی وسعت تین چار سو روپے ماہوار سے زائد نہیں ہوتی وہ عموماً اسفل ترین سوسائٹی میں وہاں بسر کرتے ہیں اور وہاں کی عورتوں کے طبائع اور روشن خیالات کو دیکھ کر عالم نسواں کے بارے میں ایک عام رائے قائم کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو ماہر نسائیات سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے بیرسٹر صاحب کا یہی حال تھا۔ حامد نے جب ان سے ہماری بیوی کے بارے میں گھر واپس جاتے ہوئے تذکرہ کیا تو انہوں نے ایک تمسخر آمیز اور طنزیہ طریقہ پر کہا۔ "آپ کو ان سے اس قدر کیوں دلچسپی ہے”۔
"اس لیئے کہ وہ میرے دوست کی بیوی ہیں۔”
"یا اس کے لئے کہ وہ ایک دوست کی خوبصورت بیوی ہیں۔”
"لا حول و لا قوۃ، تم بھی کیا آدمی ہو۔” حامد نے کہا۔
"مجھ سے زیادہ آپ کو موجودہ روش کی دلدادہ عورتوں کا تجربہ نہیں ہے۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔
"بہتر ہے اگر آپ کوئی دوسرا تذکرہ کریں۔” حامد نے سنجیدہ ہو کر کہا۔
"اجی جناب آپ مجھ سے۔۔۔۔۔”
"براہِ کرم چپ ہو جاؤ۔ واللہ میں ایک لفظ نہیں سن سکتا۔” حامد نے ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہو کر کہا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ اور حامد نے ہم سے کبھی اس کا ذکر بھی نہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کا دن تھا اور ہم نے چاندنی سے کہا کہ آج تو دوست حلوہ کھلاؤ۔ ہماری بیوی کو ہمارے ایسے دوستوں کی خاطر مدارت کی فکر رہتی تھی۔ جن کے گھر عورتیں نہ ہوں۔ وہ طرح طرح کے کھانے پکا کر ایسے دوستوں کو اکثر بھجواتی رہتی تھی۔ ہماری رائے سے ہماری بیوی نے قطعی اتفاق کیا اور کہا کہ ہم آج دو تین طرح کے حلوے پکائیں گے۔ اور مرغ کا قورمہ پکائیں گے۔ اور بیرسٹر صاحب کے یہاں ضرور بھیجیں گے۔
ہم نے دل میں سوچا کہ ہم بھی نہ اپنی بیوی کا ہاتھ بٹائیں۔ جب ہماری بیوی نے یہ سنا تو یہ طے ہوا کہ ایک ہم پکائیں اور ایک ہماری بیوی۔ ہم نے بیوی سے کہا کہ مونگ کی دال کا حلوہ تو پکا اور ہم چنے کا پکائیں گے۔ ارادہ دو قسم کے حلوے کا تھا۔ مگر پھر تین قسم کا طے ہو گیا۔ یعنی سوجی کا بھی۔
ہم نے اپنے بنگلے کے برآمدہ میں بہت جلد اینٹوں کے چولہے تیار کئے اور بہت جلد حلوے پکائے جانے لگے۔ دو مرغ ذبح کئے گئے تھے ان کو دوسرے چولہے پر چڑھا دیا۔ ہماری بیوی چونکہ تمیز دار زیادہ تھی۔ اس لئے وہ مختلف ڈبوں پر ہر چیز مثلاً نمک اور شکر وغیرہ کے لیبل لگا کر رکھتی تھی۔ نمک بھی اس احتیاط سے پیس کر رکھا جاتا تھا کہ حکم تھا کہ چمچہ ہی سے ڈبہ سے نکال کر ڈالا جائے۔ بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ جب گھی میں دونوں حلوے خوب بھنے اور خوشبو نکلنے لگی تو بجائے شکر کے جو پسی ہوئی تھی، خوب اچھی طرح اس نے نمک ڈالا۔ جلدی سے تیار کر کے حلوے اتارے گئے اور نہایت تکلف سے ان کو زعفران اور کیوڑے کی خوشبو دے کر پلیٹوں میں رکھ کر سنہری ورق لگائے گئے۔ اور میوہ کی افشاں چھڑکی گئی۔ خوش قسمتی سے سوجی کے حلوے میں نمک نہ پڑا۔ اس کو ہم پکا رہے تھے۔ جب شکر وغیرہ پڑ گئی تو وہ بھی اتارا گیا۔ ہم اصل میں اس کو ملائم چاہتے تھے۔ مگر معلوم ہوا کہ وہ تختی حلوہ بن گیا۔ خیر کچھ بھی ہوا۔ اس کو سینی میں جما دیا گیا۔
اب مرغ کے قورمے کا حال سنئیے۔ اس میں بجائے نمک کے نہایت اطمینان سے شکر ڈالی گئی۔ ہم نے مرغ کا نمک بھی چکھا۔ مگر بوجہ گرم گرم ہونے کے کچھ سمجھ میں نہ آیا اور ہم نے یہ سمجھ کر ٹھیک ہے اس کو پاس بھی کر دیا مگر ہماری بیوی نے احتیاطاً نمک نہ ڈالا۔ کہ کہیں تیز نہ ہو جائے۔
سب سے پہلے ان سب چیزوں میں سے تھوڑا ہماری بیوی نے بیرسٹر صاحب کے لئے نکالا اور آدمی کو دوڑایا کہ جلدی جائے، تاکہ کھانے کے وقت پہنچ جائے۔
اب ہمارے سوجی کے حلوے کا حال سنئیے کہ وہ کمبخت اس قدر سخت ہو گیا کہ ہماری عقل کام نہ کرتی تھی۔ کسی طرح کھایا ہی نہ جاتا تھا ور اس کو توڑنے کے لئے پتھر کی ضرورت تھی۔ دوسرے حلوے جو چکھے گئے تو نمک کے مارے زہر نکلے اور مرغ کو جو چکھا گیا تو قدرے میٹھا۔ غرض کل چیزوں کا خوب ستیاناس مارا گیا۔ ہم چاندنی کو الزام دیتے تھے اور وہ ہمیں۔ اب رائے یہ ہوئی کہ اس کا کیا کیا جائے۔ نمکین حلوے تو بالکل بیکار تھے۔ مجبوراً دلچسپی کے لئے سب کے یہاں تقسیم کرائے۔ قورمہ کو ہم نے نمک درست کر کے کھا لیا۔
یہ کوئی غیر معمولی بات تھی کہ مذاق میں ایسا ہو جائے مگر بیرسٹر صاحب نہ معلوم کس طرف جا رہے تھے اور نہ معلوم کہ انہوں نے کیا سمجھا۔ شام کو آئے اور حلوے کا شکریہ ادا کیا اور ہماری دلچسپ بیوی سے بہت باتیں کرتے رہے۔ حامد بھی آئے۔ غرض شام کو تفریح رہی اور اس کا اختتام موٹر کی سیر پر ہوا۔
۔۔ ۲ ۔۔
وہ تین مہینے میں ہمارے بیرسٹر صاحب سے ایسے تعلقات ہو گئے کہ حامد سے بھی نہ تھے۔ بیرسٹر صاحب ہماری بیوی کی تعریف کرتے کرتے مرے جاتے تھے اور اب ہماری ان سے بے حد بے تکلفی تھی ہمارے اوپر اور چاندنی پر وہ اس قدر مہربان تھے کہ سینکڑوں تحائف وہ ہماری بیوی کو نذر کر چکے تھے اور چاندنی کا بھی یہ حال تھا کہ دن رات بیرسٹر صاحب کی مدح سرائی ہوتی تھی۔ قصہ مختصر بیرسٹر صاحب ہمارے بہترین دوستوں میں سے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کچہری سے ایک روز جو آئے تو چاندنی غیر معمولی طور پر خوش معلوم دی۔ ہم نے کہا "کیا معاملہ ہے۔ ہمیں بھی بتاؤ” تو اس نے ایک خط ہمارے سامنے کر دیا اس میں چند عشقیہ اشعار لکھے ہوئے تھے۔ اور لکھا تھا کہ اگر اس کا جواب دینا ہے تو فلاں فلاں مقام پر رکھ دینا۔ ہم چکر میں تھے کہ الٰہی یہ کون ہے۔ لفافہ پر پتہ اور مہر کو دیکھا۔ معلوم ہوا کہ یہیں کا ہے۔ ہماری بیوی کا پتہ لکھا تھا۔ ہم نے بہت کچھ سوچا مگر سمجھ میں نہ آیا۔ چاندنی بھی بطور خط کے جواب کے بڑی مشکل سے سوچ بچار کر حسب ذیل اشعار لکھ لائی اور ہم کو دکھائے۔
"ایک لڑکے نے یہ بڈھے باپ سے اپنے کہا
تو سراپا ناز ہے میں ناز برداروں میں ہوں
ایک لڑکے نے یہ بڈھے باپ سے اپنے کہا
آنکھوں ہی آنکھوں میں ظالم مسکرانا چھوڑ دے
ایک لڑکے نے یہ بڈھے باپ سے اپنے کہا
یار کی گلیوں میں کیونکر یار جانا چھوڑ دے”
ظاہر ہے کہ ہمارا ہنسی کے مارے کیا حال ہوا ہو گا۔ مگر ہم نے اپنی شریر بیوی کی طبیعت کی خوب ہی داد دی۔
قصہ مختصر خط رکھ دیا گیا۔۔ اس کا جواب جو آیا تو اس میں اور بھی تیز تیز اشعار تھے۔ چار، چھ خط میں اس طرح آئے گئے کہ خط بھجنے والے بر سر مطلب آ گئے اور نثر میں عشق کی داستان سنانے لگ گئے۔
ہم نے بیوی سے کہا کہ "مارو گولی جانے دو”، مگر وہ بڑی مشکل سے مانی۔ مگر وہاں وہ دوسرے حضرت بھلا کیوں مانتے۔ ان کے اس قدر طول طویل خط آنے لگے کہ چاندنی نے کہا کہ اب نا ممکن ہے کہ ان کے خطوط کا جواب نہ دیا جائے چنانچہ مناسب جواب لکھ دیا گیا۔ جیسا کہ ایک عورت کو لکھنا چاہیئے تھا۔
ہم نے اب حامد کو اس راز سے آگاہ کیا اس نے جو خط دیکھے تو وہ سر پکڑ کر رہ گیا اس نے کہا کہ یہ حضرت بیرسٹر صاحب ہیں اور پھر جو ان سے بات چیت ہوئی تھی اس کا تذکرہ کیا۔ ہم سناٹے میں آ گئے اور ہمیں فوراً معلوم ہو گیا کہ شاید اسی وجہ سے بیرسٹر صاحب نے ہمارے یہاں آنا بند کر دیا ہے۔ چاندنی کو ایک صدمہ سا ہوا کہ جیسے اس کا کوئی نقصان ہو گیا۔ مگر وہ ذرا ہی دیر میں بولی کہ "اگر آپ دونوں خاموش رہیں تو میں تماشہ دکھاؤں۔ کہ آپ لوگ عمر بھر یاد کریں۔” ہم نے کہا "وہ کیا” تو اس نے کسی نہایت ہی سخت شرارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ہم تم کو نہ بتائیں گے۔ اس کے چہرے پر شرارت رقص کر رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک خط ان گمنام خطوط کے لکھنے والے کو ان کے خط کے جواب میں لکھا کہ چونکہ آپ مجھ سے تنہائی میں ملنے کے بے حد خواہشمند ہیں۔ لہٰذا آپ مجھ کو پولو کے میدان میں ملئے گا۔ مگر یاد رکھئے کہ آپ وہاں اس طرح پوشیدہ ہوں کہ سڑک پر سے دکھاوا نہ پڑے۔ بہتر یہ ہے کہ سڑک سے کچھ فاصلہ پر جو درخت ہے اس پر چڑھ کر پتوں میں چھپ جائیے گا۔ میں انشاء اللہ مغرب کے وقت پہنچوں گی۔ دن اور تاریخ تو مقرر ہی تھی۔ ہم فوراً وقت مقررہ سے پیشتر حامد کو لے کر بیرسٹر صاحب کے یہاں پہنچے۔ اور ان سے کہا کہ موٹر پر ہوا کھا آئیں۔ بیرسٹر صاحب نے عذر کیا۔ جب ہم نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے کہ "میں آج کہیں نہ جاؤں گا۔” اس پر ہم دونوں نے کہا کہ "پھر ہم بھی آپ ہی کے یہاں بیٹھے ہیں۔” بیرسٹر صاحب چکرائے اور کہنے لگے کہ "بھائی بات در اصل یہ ہے کہ مجھے ایک جگہ ایک اور مقدمہ کے سلسلہ میں جانا ہے۔” ہم نے کہا "ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے۔” مگر بیرسٹر صاحب نے لاچار ہو کر کہا "افسوس ہے میں کچھ ایسے کام سے ایک صاحب سے شہر ہی میں ملنے جا رہا ہوں کہ آپ لوگوں کو بتا نہیں سکتا۔ مجھے معاف کیجئے گا۔” جب ہم نے خوب تنگ لیا تو چلے آئے۔
۔۔ ۳ ۔۔
موٹر کو تو ہم نے پولو کے میدان سے کچھ دور چھوڑا اور ہم اور حامد اور دو صاحبان اور جن کو ہم کلب سے پکڑ لائے تھے۔ ٹہلتے ٹہلتے پولو کے میدان کے اس درخت کے پاس پہنچے۔ اوپر جو نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو بیرسٹر صاحب معلق ہیں۔ تعجب سے ہم نے تصنع کے ساتھ چلا کر بیرسٹر صاحب کو پکار اور ساتھی بھی دوڑ کر آئے۔ بیرسٹر صاحب سے ہم نے اور حامد نے کہا کہ "کیوں جناب آپ تو شہر میں کسی سے ملنے جلنے والے تھے۔ آخر یہ کیا خلاف شرع معاملہ ہے کہ درخت پر آویزاں ہیں۔ خدا کے واسطے جلد اس معمہ کو حل کیجئے۔” بیرسٹر صاحب خفت کی مسکراہٹ سے کام لے رہے تھے۔ کہنے لگے کہ "بھئی میں در اصل آج کل سیاروں کی نقل و حرکت پر بھی غور کر رہا ہوں۔ چنانچہ زحل کا طلوع دیکھنے چڑھا تھا۔” ہم لوگوں نے ایک قہقہہ لگایا اور مختلف رائیں قائم کیں۔ بیرسٹر صاحب نہ معلوم کس مصبیت سے چڑھے ہوں گے۔ کیونکہ جوتا پہنے ہوئے تھے۔ ہم لوگوں نے امداد دے کر اتارا۔ اب سنجیدگی اور خاموشی سے جو ان سے وجہ دریافت کی تو پھر وہی کہنے لگے کہ زحل کا طلوع دیکھ رہا تھا۔ بیرسٹر صاحب کو چاندنی نے ایسا زحل دکھایا کہ ان کا لوگوں نے ناطقہ بند کر دیا۔ یار دوست ملنے والے جن کو اصل وجہ معلوم نہ تھی۔ سب یہی کہتے تھے کہ نہ معلوم کیا معاملہ ہو گا۔ کلب میں اور کچہری میں غرض جہاں بھی کوئی کسی سے بہانہ کرے تو آپس میں یہ محاورہ استعمال ہونے لگا کہ کہیں زحل دیکھنے تو نہیں جا رہے ہو۔ غرض بیرسٹر صاحب کا ناک میں دم آ گیا۔
غرض اسی طرح ہمارے چاندنی نے بیرسٹر صاحب کو کئی جگہ دوڑایا ایک مرتبہ لکھ دیا کہ پرانے قلعہ کے دروازہ کے سامنے موٹر پر ٹھیک ساڑھے پانچ بجے ملئے گا۔ میں ٹہلنے آؤں گی۔ مگر براہ کرم تنہا ہوئیے گا۔ ہم لوگ چہل قدمی کو نکل گئے اور ٹھیک سوا پانچ بجے وہاں پہنچے۔ بیرسٹر صاحب موجود تھے۔ ہم، حامد اور ایک صاحب اور تھے، فوراً دوڑ کر موٹر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔ "بھئی خوب ملے۔” بیرسٹر صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا "بھئی تم لوگوں کا کیا منشا ہے۔” ہم نے کہا "یہ کہ ہوا خوری کریں اور گھر واپس چلیں۔” بیرسٹر صاحب بولے کہ میں یہ کر سکتا ہوں۔ کہ تم لوگوں کو سیدھا تمہارے گھر پہنچا دوں اور بس۔ کیونکہ مجھ کو کسی دوسرے جگہ جانا ہے۔ ہم نے کہا "نہیں صاحب معاف کیجئے۔ ہم لوگ اترے جاتے ہیں۔” یہ کہہ کر ہم لوگ اتر کر ایک پُل پر بیٹھ گئے۔ اب بیرسٹر صاحب بڑے چکرائے کہ ہم لوگ یہاں سے ٹلتے ہی نہ تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ ہم لوگوں کو موٹر پر لاد کر کہیں پھینک کر واپس آ جائیں۔ دوبارہ آئے اور ہمیں راضی کرنے لگے کہ "چلو گھر پہنچا دیں۔” مگر ہم بھلا کاہے کو مانتے تھے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے چھ بجائے۔ بیرسٹر صاحب مجبوراً چلے گئے۔ ہم کیا بتائیں کہ بیرسٹر صاحب نے اس اتفاقیہ ملاقات کا کن الفاظ میں بذریعہ خط چاندنی سے تذکرہ کیا۔
غرض خوب خوب بیرسٹر صاحب سے چاندنی نے قواعد کرائی۔ کبھی رات کو اسٹیشن پر دوڑایا تو کبھی میلوں پیدل چلایا۔ شکار کے لئے کبھی تیار کیا تو ایسی گڑبڑی کر دی کہ خود نہ جا سکی۔ اور بیرسٹر صاحب نے ناشتہ کا انتظام کیا وہ یاروں نے چکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت جلد ہی اس لغو خط و کتابت سے جی بھر گیا۔ اور ہماری سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ آخر خواہ مخواہ اس طرح بیرسٹر صاحب کو دوڑانے سے کیا فائدہ۔ کوئی خاص دلچسپی نہ آتی تھی۔ مگر چاندنی کا ان معاملات میں ہم سب لوگوں سے زیادہ دماغ کام کرتا تھا۔ حامد کے ملنے والے ایک دوست سب انسپکٹر پولیس تھے جو سول لائن کے تھانے میں افسر تھے۔ ان سے ہم سے محض سرسری ملاقات تھی۔ ہماری بیوی نے حامد صاحب سے کہہ کر ان سے ملاقات کی تمنا ظاہر کی اور ان کو ایک روز چائے پر مدعو کیا۔ ان کو اس راز سے آگاہ کر کے جو تجویز ہمارے شریر بیوی نے پیش کی وہ سب کو پسند آئی۔ بیرسٹر صاحب کے کل خطوط چاندنی نے ان کو دیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کا دن تھا اور بیرسٹر صاحب اپنے بنگلہ میں ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر بیٹھے تھے ایک یکہ آ کر رکا اور اس میں سے ایک سب انسپکٹر پولیس معہ دو کانسٹیبلوں کے اترا۔ بیرسٹر صاحب کو اطلاع کی گئی اور وہ باہر آئے۔ سب انسپکٹر صاحب نے کہا کہ "میں کچھ تنہائی میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔” بیرسٹر صاحب اپنے ملنے کے کمرے میں سب انسپکٹر صاحب کو لے گئے اور کہا "فرمائیے کیا ارشاد ہے۔” سب انسپکٹر صاحب نے اپنی جیب سے پولیس کا وارنٹ تلاشی نکال کر پیش کیا اور کہا کہ "میں آپ کی خانہ تلاشی لینے آیا ہوں۔ جس کی اجازت دی جائے۔” بیرسٹر صاحب معمولی آدمی نہ تھے۔ تند ہو کر بولے "یہ کیا”۔ سب انسپکٹر صاحب نے ہمارا نام لے کر کہا کہ انہوں نے آپ کے اور اپنی بیوی کے متعلق پولیس میں کچھ جواہرات کے سرقہ کی بابت رپورٹ درج کرائی ہے۔ اور یہ خطوط داخل کئے ہیں۔ جن کو وہ بتاتے ہیں کہ آپ کے ہیں اور مجھ کو اب مقدمہ کی تحقیقات کے لئے تلاشی لینا ہے۔ کیونکہ ان کا بیان ہے کہ آپ کے یہاں ان کی بیوی کے خطوط نکلیں گے۔
"مگر یہ میرے خطوط نہیں ہیں۔” بیرسٹر صاحب نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ "یہ سراسر الزام ہے۔”
"میں مجبور ہوں تلاشی کرنے پر خود معلوم ہو جائے گا۔ کیا آپ کوئی اپنی تحریر پیش کر سکتے ہیں۔” تھانیدار صاحب بولے۔
بیرسٹر صاحب حالانکہ قانون دان تھے۔ مگر کہنے لگے۔ "میری توہین ہے میں ہرگز اپنی تحریر اس طرح دکھانے پر تیار نہیں ہوں۔”
"معاف کیجئے گا۔ میں مجبور ہوں اور خانہ تلاشی کے سلسلہ میں جناب کی تحریر بھی مجھ کو کہیں نہ کہیں مل جائے گی۔ جو میں اپنے فرائض کو انجام دیتے ہوئے لے لوں گا۔”
"میں شاید تلاشی بھی اس طرح نہ دے سکوں” بیرسٹر صاحب نے کہا۔
"معاف کیجئے گا۔ آپ قانون دان ہیں اور مجھے امید نہیں کہ آپ جھگڑے کو زیادہ طول دیں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ پولیس آفیسر کو فرائض منصبی ادا کرنے سے روکنا جرم ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ مجھ کو تلاشی لینے میں امداد دیں گے۔ اور اپنے بیانات قلمبند کرا دیں گے۔”
"میں سپرنٹنڈنٹ پولیس کو لکھتا ہوں۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔
"میں اس عرصہ میں اپنے فرض سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔” یہ کہہ کر سپاہی کو آواز دی۔
"آپ خوب سمجھ لیجئے کہ میری توہین ہو رہی ہے۔ اور آپ کو جب تک سپرنٹنڈنٹ پولیس کا جواب نہ آ جائے قانوناً رکنا پڑے گا۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔
"میں معافی چاہتا ہوں کہ میں انتظار نہیں کر سکتا اور بہتر ہوتا کہ آپ اس معاملہ کو طول نہ دیتے۔”
اتنے میں موٹر کی آواز آئی اور حامد صاحب وارد ہوئے۔ سیدھے کمرہ میں چلے آئے اور سب انسپکٹر صاحب اور بیرسٹر صاحب کو پایا۔ سب انسپکٹر صاحب نے حامد سے کہا۔ "یہ بہت اچھا ہوا کہ آپ آ گئے۔ براہ کرم بیرسٹر صاحب کو سمجھا دیجئے۔”
"آخر کیا معاملہ ہے؟” حامد نے دریافت کیا۔
"آپ خود بیرسٹر صاحب سے دریافت کر لیجئے۔ میں علیٰحدہ ہوا جاتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ باہر آ گئے اور برآمدہ میں بیٹھ گئے۔
حامد نے بناوٹ کے ساتھ تعجب سے بیرسٹر صاحب کو دیکھا جن کی عجیب ہی حالت تھی اور کچھ پوچھنے ہی والے تھے کہ تھانیدار صاحب پھر کمرہ میں گھس آئے۔ اور حامد صاحب سے کہا کہ "میری ذرا بات سن لیجیئے۔ پہلے میں آپ کو سب حال سنا دوں۔” بیرسٹر صاحب کا بس نہ کہ وہ سب انسپکٹر صاحب کو اس سے باز رکھتے۔ سب انسپکٹر صاحب نے حامد کو ذرا علیٰحدہ لے جا کر سب حال سنایا اور خطوط دکھائے۔ بیرسٹر صاحب یہ سب بناوٹی کاروائی دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد پھر سب انسپکٹر صاحب کمرہ سے باہر چلے گئے۔
حامد کا جی تو چاہتا تھا کہ اس وقت بیرسٹر صاحب سے ان کی شکار والے روز کی حماقت کا بدلہ لے کر ان کو جھک کر سلام کرے۔ مگر اس طرح کھیل بگڑ جاتا۔ اس نے بیرسٹر صاحب کی صورت اور موقع کو دیکھتے ہوئے کہا کہ "اب کیا کرنا چاہیے۔”
"کوئی تدبیر تم ہی نکالو اور اس کو دفان کرو” کچھ خاموشی کے بعد بیرسٹر صاحب بولے۔
حامد سب انسپکٹر کے پاس آئے۔ اور پھر بیرسٹر صاحب کے پاس جا کر کہا کہ "وہ کہتے ہیں کہ میں کسی طرح بغیر وہ خطوط لئے نہیں جا سکتا۔” حامد نے بہت کچھ انسانی مروت اور ہمدردی کا واسطہ دیا تھا۔ اور سب انسپکٹر صاحب کو خود ہمدردی تھی۔ مگر وہ مجبور تھے کیونکہ یہ معاملہ خود افسر اول یعنی ان کے تھانے کے بڑے سب انسپکٹر کے ہاتھ میں تھا۔ دوسری تجویز بیرسٹر صاحب نے یہ کی تھی کہ "بھئی رشوت دے کر ان کو ٹال دو۔” سب انسپکٹر صاحب بھی اب آ گئے۔ اور حامد نے بیرسٹر صاحب کے سامنے ان سے سفارش کی اور کہا کہ "شہر کے ایک بڑے رکن کی عزت کا معاملہ ہے۔ آپ اس معاملہ میں نرمی اور رعایت سے کام لیجیئے۔ اور کہہ دیجیئے گا کہ تلاشی پر کچھ برآمد نہیں ہوا۔”
"واہ جناب آپ مجھے پھنسانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ خطوط بیرسٹر صاحب کے لکھے ہوئے ہیں تو وہ خطوط یہاں نہ نکلیں یہ نا ممکن ہے۔ اور ہر شخص میرے اوپر شبہ کرے گا اور میں کہیں کا نہ رہوں گا۔”
"معاف کیجئے گا۔ ہم آپ کی جو کچھ بھی روپیہ پیسے سے خدمت ممکن ہو کرنے کو تیار ہیں۔” حامد نے کہا۔
"حامد صاحب مجھے بڑا افسوس ہے کہ آپ اس طرح مجھ کو ذلیل کرتے ہیں۔ میرے امکان میں ہوتا تو میں ویسے ہی آپ کی اور بیرسٹر صاحب کی خدمت کرتا مگر یہ معاملہ تو اسٹیشن افسر سے متعلق ہے۔”
"اچھا یہ بتائیے کہ وہ کچھ لے دے کر معاملہ رفع دفع کر دیں گے۔” حامد نے پوچھا۔
"میں کہہ نہیں سکتا۔ یہ آپ خود ان سے دریافت کر لیں تو بہتر ہے۔”
"اچھا آپ صرف اتنا بتا دیں کہ کیا وہ معاملات میں لیتے ہیں۔” حامد نے پوچھا۔
"ہاں وہ ضرور لیتے ہیں۔ مگر میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملہ میں ان کی کیا رائے ہے۔” سب انسپکٹر صاحب نے کہا۔
"یہ بس تو انسانی ہمدردی اگر آپ میں کچھ بھی ہے تو یہ معاملہ طے کرا دیجیئے۔” حامد نے کہا۔
"میں وعدہ نہیں کرتا۔ مگر ہاں ان سے انتہائی کوشش کروں گا۔ مانیں نہ مانیں اس کا میں ذمہ دار نہیں۔ مگر آپ کو وہ تمام خطوط اور تحریر کا نمونہ ضرور دینا پڑے گا۔”
"ہم ابھی دے دیں گے۔ مگر آپ امداد کا وعدہ کریں جو رقم بھی آپ اس معاملہ میں طے کرا دیں گے۔ وہ ہم ان کی نذر کر دیں گے۔”
چنانچہ یہ معاملہ طے ہو گیا اور بیرسٹر صاحب خطوط لینے اٹھے تو سب انسپکٹر صاحب بھی ان کے ساتھ اُٹھے۔ اور کہا کہ "جناب کوئی خط ضائع نہ ہو۔ میرے سامنے نکالئے۔” مجبوراً سب خطوط اور اپنی تحریر کا نمونہ بیرسٹر صاحب کو دینا پڑا۔ سب انسپکٹر صاحب نے یہ چیزیں قبضہ میں کر کے مختصر سے بیرسٹر صاحب کے بیان تحقیقاتی لئے جس میں بیرسٹر صاحب نے ہر بات سے انکار کیا۔
چلتے وقت تک سب انسپکٹر صاحب سے پختہ وعدہ ہی نہیں لیا۔ بلکہ حامد ان کے ساتھ تھانہ پر گئے۔ اور معاملہ یوں طے ہوا کہ پانچ سو روپیہ بیرسٹر صاحب رشوت دیں۔ حامد واپس آئے اور سب انسپکٹر صاحب کی سفارش اور کوشش کا حال بیان کر کے کہا کہ "اسٹیشن افسر تو کسی طرح دو ہزار سے کم نہیں کرتا تھا۔”
"واقعی سب انسپکٹر صاحب بڑے شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں مگر بھئی آج انہوں نے وہ کام کیا کہ عمر بھر شکر گزار رہوں گا۔ اور میں ان کی بہت جلد ہی ایک دعوت کروں گا۔” حامد نے کہا۔
"ضرور کرنا چاہیے۔ واقعی انہوں نے میری عزت بچا لی۔”
بیرسٹر صاحب بولے۔ "بھئی حامد معاف کرنا۔ مگر تم نے دیکھ لیا کہ تمہارے دوست کی بیوی کیسی ہیں۔”
"میں ان کو خوب جانتا ہوں مگر سچ بتانا کیا خطوط ہی تک دوستی محدود رہی یا۔۔۔۔۔۔۔۔”
"اب یہ مجھ سے نہ کہلواؤ۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "وہ تو محض اتفاق تھا کہ شاید میرا کوئی خط پکڑا گیا۔ مگر میں تم سے آج کہے دیتا ہوں کہ وہ عورت ان کے پاس اب رہے گی نہیں۔”
"کیوں”
"اس لئے کہ وہ اب میری ہو چکی ہے۔”
بیرسٹر صاحب نے بہت ہی جلد مبلغ پانچ صد روپے سب انسپکٹر صاحب کی خدمت میں ارسال کرا دیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعہ کو پندرہ بیس روز ہو چکے تھے۔ اور بیرسٹر صاحب کی ہم سے بالکل ملاقات بند تھی۔ حامد کے یہاں پُرتکلف ڈنر تھا اور لطف یہ کہ چاندنی اور ہم دونوں مدعو تھے۔ در اصل یہ ڈنر حامد کے دوست سب انسپکٹر صاحب کی خاطر تھا۔ ہم اور چاندنی سر شام ہی سے حامد کے یہاں جا دھمکے۔ وہ تو زنانخانہ میں حامد کی ماں اور بہنوں کو دعوت کے انتظام میں امداد دینے کو جا بیٹھی اور ہم اور حامد باہر غپیں ٹھوک رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔
بیرسٹر صاحب بھی آئے اور ہم کو دیکھ کر سخت متعجب ہوئے۔ ہم ان سے بہت اچھی طرح ملے اور لطف تو جب آیا کہ چاندنی بھی آ گئی۔ کمرہ میں صرف ہم اور چاندنی اور حامد تھے۔ چاندنی سے بیرسٹر صاحب سے مصافحہ کیا۔ ان کا مزاج پوچھا اور ان سے عرصہ سے ملاقات نہ ہونے کی شکایت کی۔ بیرسٹر صاحب کا عجیب حال تھا اور ان کی عقل کام نہ کر رہی تھی کہ الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ خیر کچھ بھی ہو۔ مگر وہ بھی مناسب باتیں کرتے رہے۔ ہماری بیوی خوش مزاجی اور باتوں کا اس وقت خزانہ ہو رہی تھی۔ اور تمامتر اس کی توجہ بیرسٹر صاحب کی طرف تھی۔ مگر بیرسٹر صاحب کا کچھ عجیب ہی حال تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں چاندنی گھر میں چلی گئی۔ ہم دو ایک مہمانوں سے باتیں کرتے باہر چلے گئے۔ بیرسٹر صاحب نے تعجب سے حامد سے ہماری اور چاندنی کی موجودگی اور پھر اس قسم کے عمدہ برتاؤ کی وجہ پوچھی۔ حامد نے کہا کہ تم کو دعوت کے بعد خود ہی معلوم ہو جائے گا۔ بیرسٹر صاحب بہت ہی خوش تھے اور حامد سے انہوں نے اس عجیب و غریب معاملہ کو سلجھانے کی بہت کوشش کی مگر حامد نے نہ بتانا تھا نہ بتایا۔
۔۔ ۴ ۔۔
دعوت وہ پر تکلف تھی کہ عرصہ سے ایسی دعوت کھانے کیا بلکہ دیکھنے میں نہ آئی ہو گی۔ قریب چالیس مہمان تھے۔ اور ملنے جلنے والوں، یاروں، دوستوں اور احباب میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو موجود نہ ہو۔ طرح طرح کے انگریزی اور ہندوستانی کھانے تھے۔ اور وہ بھی اس قدر بے شمار کہ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ کیا کھاؤ اور کیا نہ کھاؤ۔ دعوت بڑے لطف کے ساتھ ختم ہوئی، اور دعوت کے اختتام پر حامد نے سب سے پہلے چاندنی کا جام صحت تجویز کیا۔ اس پر ایک قہقہہ لگا۔ اور لوگ اس کی نوعیت سمجھنے سے قاصر رہے۔ حامد نے کہا کہ "اچھا آپ لوگ اس پر اتنا تعجب کرتے ہیں تو جانے دیجئے اور میری استدعا پر اس دعوت کا شکریہ ادا کیجئے۔” اس پر کئی صاحبان ہنسنے لگے اور حامد کا شکریہ ادا کرنے لگے کہ واقعی ہم شکر گزار ہیں کہ آپ نے ایسی پر تکلف دعوت کی۔ حامد نے فوراً کہا کہ "حضرات آپ میرا غریب کا شکریہ کیوں ادا کرتے ہیں۔ آپ در اصل بیرسٹر صاحب کا شکریہ ادا کیجئے۔” لوگ ہنسنے لگے اور بیرسٹر صاحب کی طرف متوجہ ہوئے۔ دس پانچ کو پہلے ہی سے حامد نے سکھا رکھا تھا۔ انہوں نے بیرسٹر صاحب کا اتنا شکریہ ادا کیا کہ بیرسٹر صاحب بھی چکرا گئے۔ اتنے میں ایک منصف صاحب زور سے چلا کر بولے کہ "بھئی آخر کیا معمہ ہے کہ جس سے آدھے لوگ واقف معلوم ہوتے ہیں اور پورا لطف اٹھا رہے ہیں۔ اور بقیہ بے وقوف بن رہے ہیں۔”
حامد نے اس پر سب کو خاموش کر کے اصل قصہ سنایا۔ زحل دیکھنے بیرسٹر صاحب جب درخت پر چڑھے تھے۔ تو کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا معاملہ ہے۔ لہٰذا وہ وہ خط ہماری بیوی کا حامد نے پڑھ کر سنایا اور ناظرین سے کہا کہ اب کہیے بیرسٹر صاحب کیونکر نہ زحل کا طلوع دیکھتے۔ بیرسٹر صاحب کا عجب حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔
اس پورے قصہ کو ختم کرنے کے بعد سب انسپکٹر صاحب کی کوششوں کا حال سنایا اور پانچ سو روپے وصول ہونے کو ذکر کر کے کہا کہ جناب پانچ سو روپے میں سے اسی روپے گیارہ آنے دعوت پر خرچ ہوئے۔ چار سو انیس روپے پانچ آنے یہ حاضر ہیں۔ جو بیرسٹر صاحب کو واپس کئے جاتے ہیں۔ اور آپ سب صاحبان بیرسٹر صاحب کا تہ دل سے شکریہ ادا کیجئے۔ اس پر تو وہ لطف آیا کہ باید و شاید۔ جن کو پیشتر سے بتا دیا تھا، انہوں نے بیرسٹر صاحب کا شکریہ ادا کرتے کرتے ناک میں دم کر دیا۔ بیرسٹر صاحب فوراً ہی بھاگ گئے۔ اور کسی طرح نہ رکھ۔ بہت دیر تک اسی واقعہ پر آپس میں باتیں ہوا کیں۔ اور تمام دوسرے قصے دہرائے گئے۔ اس دعوت میں بہت سے لوگوں کو ہماری بیوی کی طرف سے خیالات بدلنا پڑے۔ قصہ مختصر دعوت زور کی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس کہ بیرسٹر صاحب اس قدر اس مقام سے بیزار ہوئے کہ اپنی جمی جمائی پریکٹس کو چھوڑ کر اس واقع کے بعد وطن چلے گئے اور پھر ڈیڑھ برس تک تو ہم وہاں رہے۔ مگر جب تک تو آئے نہیں۔
٭٭٭
آٹھواں باب : دوست کی حماقت
ہمارے پرانے اور لنگوٹیا یار صرف دو تین ہی تھے۔ ان میں سے ایک تو حامد تھے جن کے شہر میں ہم رہ آئے تھے۔ اور ایک کامل تھے۔ قسمت کی خوبی کہ اب ان کا ساتھ ہوا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت تھی اور جب ہم ان کے وطن میں آئے تو انہوں نے حامد سے بھی زیادہ ہماری اور چاندنی کی خاطر مدارت کی۔ حامد کی طرح یہ بھی رئیس زادے تھے مگر ان کے والد صاحب زندہ تھے۔ حامد میں اور ان میں اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ کہ حامد کو سیر و شکار کا شوق تھا اور اپنی جائداد کا وہ خود انتظام کرتا تھا۔ اور ایل ایل بی میں اگر فیل نہ ہو جاتا تو شاید وکالت کرتا ہوتا۔ مگر ارادہ ضرور تھا کہ پھر امتحان دے۔ لیکن کامل نے انٹرنس پاس کر کے ہی پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ اور ان کو اپنی جائداد وغیرہ کے کام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مگر ہمارے تعلقات دونوں سے ایک سے تھے۔ جس طرح حامد ہمارے اور ہماری بیوی کے لئے ایک لازمی چیز تھے۔ اسی طرح کامل بھی تھے۔
جب سے ہم آئے تھے ہمیں اور چاندنی دونوں کو بغیر ان کے لطف ہی نہ آتا تھا۔ ہم کلب جایا کرتے تھے اور کامل چاندنی کو اپنی موٹر میں بٹھا کر اپنی بہنوں کے ساتھ ہوا کھلانے لے جاتے تھے۔ کبھی اپنی بہنوں کو بٹھا کر ہمارے یہاں آتے اور چاندنی ساتھ ہو جاتی۔ اور کبھی چاندنی کو گھر لے جاتے اور وہاں سے اپنی بہنوں کو لے آتے۔
۔۔ ۱ ۔۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ آدمی کی پرکھ اس کے برتنے سے معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ کامل کے مزاج میں بد نظمی اور آوارگی ہے۔ یہ سن کر افسوس ضرور ہوا مگر ہم نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا۔ در اصل ہمیں کبھی کچھ خیال بھی نہ ہوا اور ہم نے کبھی چاندنی سے یہ بھی نہ پوچھا کہ تو کہاں جا رہی ہے۔
ہماری معلومات میں اس بات سے اضافہ ہوئے زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا کہ ایک روز چاندنی نے کامل کے ذکر پر محض تذکراً ہی کہا کہ کامل صاحب کچھ اچھے آدمی نہیں معلوم ہوتے اور مجھے ان کے ساتھ ہوا خوری کرنے جانا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔
ہم نے برسبیل تذکرہ ان کے چال چلن کو مد نظر رکھتے ہوئے چاندنی کی تائید کی۔ مگر یہ ضرور پوچھا کہ "تم نے آخر ان کے چال چلن کے متعلق کس سے سنا۔”
"وہ مجھ سے ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں۔ اور بے تکلف بھی بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ جو مجھ کو پسند نہیں۔”
ہم نے کہا "تو آخر تم سے حامد سے بھی تو بے تکلفی تھی۔ کیا وہ تم سے دلچسپی نہیں لیتے تھے۔”
"حامد بھائی سا تو آدمی دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ سب کچھ تھا مگر انہوں نے تنہائی میں میری طرف نظر کر کے دیکھنا بھی گناہ سمجھا۔ ان کی بے تکلفی اور کامل صاحب کی بے تکلفی میں بہت فرق ہے۔” ہم نے پوچھا "آخر فرق کیا ہے؟”
چاندنی نے کہا کہ "میری سمجھ میں نہیں آتا۔ مگر ایسا فرق ہے کہ میری طبیعت ان کی طرف سے کُند رہتی ہے۔”
ہم نے کہا کہ "تم کو اس بات کا احساس آج ہوا ہو گا۔ مگر مجھ کو شاید کچھ پہلے سے شبہ ہے کہ وہ میری وجہ سے تم سے نہیں ملتے۔ بلکہ در اصل تمہاری وجہ سے مجھ سے ملتے ہیں۔ میں خود اس خیال میں ہوں کہ تمہارا ملنا جلنا ان سے کم ہو جائے تو اچھا ہے۔”
چاندنی کو اپنے شبہ کی تصدیق ہوئی اور وہ متعجب ہو کر بولی۔ "بخدا میں ان کو کبھی ایسا نہ خیال کرتی تھی۔”
"وہ در اصل بد تمیز اور آوارہ ہیں۔ اور تمہارا ملنا جلنا ان سے کسی طرح ٹھیک نہیں”
یہ سُن کر چاندنی غصہ میں چمک اٹھی اور کہنے لگی۔ "معاف کیجئے! اِن کی آوارگی شہر کی بدبو دار گلیوں ہی تک محدود ہو سکتی ہے۔ میرا وہ کیا بگاڑ سکتے ہیں۔”
"تو سچ کہتی ہے۔” ہم نے دل میں خوش ہو کر کہا۔ "مگر خراب آدمی سے دور ہی رہنا چاہیے۔”
"وہ دن بھول گئے جو کہتے تھے کہ بری صحبت میں اٹھنے بیٹھنے سے تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔” چاندنی نے پرانی باتوں کو یاد دلایا۔ ہم نے کہا "تم جانو ہم تم کو منع تھوڑا ہی کرتے ہیں۔”
"تم منع کر دو تو میں ہرگز اُن سے نہ ملوں۔” اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اور اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ "ٹھیک ہی تو کر دوں۔”
"اس سے کیا مطلب؟” ہم نے پوچھا۔
"اگر وہ واقعی ذرا بھی آوارہ ہیں تو تم مجھ سے بدستور ملنے دو۔ اگر ذرا بھی غلط راہ پر آئیں گے، وہ منہ کی کھائیں گے کہ عمر بھر نہ بھولیں گے۔”
ہم چپ ہو رہے۔ ہم جانتے تھے کہ یہ روا داری بالکل غلط اصول پر مبنی ہے۔ مگر ہم چاندنی کی محبت اور وفا داری کا اسی طرح بہترین خراج ادا کرنا تصور کرتے تھے کہ عام اصول سے کنارہ کشی کرتے ہوئے بالکل ہراساں نہ ہوں۔ خدا جانے انگلستان کے مشہور شاعر "ملٹن” نے اپنے مشہور و معروف ڈرامہ "کومن” میں کہاں کی زبان استعمال کی ہے کہ ہماری تو روح تک ہمیشہ کے لئے اس کے پڑھنے سے پاک ہو گئی ہے۔ وجہ اس کی شاید یہ ہے کہ اس حسین و جمیل شاعر کا سا چال چلن شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔ جس کی نیک چلنی کی دمک اس کی شاعری کے لفظ لفظ سے عیاں ہے۔ ہمارے کانوں میں اس وقت وہ لفظ گونج رہے تھے جو اس ڈرامہ میں ایک بھائی نے دوسرے بھائی سے بہن کے کھو جانے پر کہے تھے۔
"ہماری بہن ہر قسم کے آسیب سے محفوظ ہے کیونکہ تمام تاریکی کی نجاست اس کی عصمت و عفت کی روشنی کے آگے کوئی چیز نہیں۔ اس کے پاس عصمت کی سپر ہے جو وہ چیز ہے کہ اس کی نگاہ عفت شیطان پر پڑ جائے تو وہ فرشتہ ہو جائے اور اگر غصہ ہو کر پتھر پر وہ نظر پڑے تو وہ شق ہو جائے اور اگر فولاد پر پڑے تو وہ موم ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ”
بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہی ہمارا مذہب تھا اور اب بھی ہے۔ ہم جانتے تھے کہ چاندنی اور ہم در اصل ایک جان دو قالب ہیں اور ہماری سمجھ ہی میں آنا نا ممکن تھا کہ پھر بھی ہمیں دنیا داری برتنا چاہیے اور اس اصول سے گریز نہ کرنا چاہیے جو ہر صورت میں لازمی ہے۔ ہمارا ایمان ہمیشہ سے یہی ہے کہ ہم دونوں کے ایمان شکست ہونے سے پہلے خود ہمیں معلوم ہو جائے گا۔ در اصل یہی خیال تھا جس نے ہمارے عقیدے میں پائیداری پیدا کی تھی۔
۔۔ ۲ ۔۔
جس کا ہمیں اندیشہ تھا وہی ظہور میں آیا۔ ہم پہلے ہی سمجھے ہوئے تھے کہ کامل کوئی نہ کوئی حماقت ضرور کریں گے۔ انہوں نے مذاق ہی مذاق میں ایک روز تنہائی میں چاندنی کو گود میں لے کر موٹر میں بٹھا دیا اور جب دیکھا کہ چاندنی نے تحمل سے کام لیا تو رات میں لغو بیانی بھی کی۔ وہ در اصل اس لائق ہی نہ تھے کہ ان سے کسی دوست کی بیوی ملے۔ در اصل ہمیں معاملات کو یہیں روک دینا چاہیے تھا مگر ہم نے غلطی کی اور عام اصول سے بھٹک کر دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اس کی وجہ بیان کر ہی چکے ہیں مگر ایک وجہ پیش آئی کیونکہ اب چاندنی دانت پیس رہی تھی کہ مزہ چکھا دوں گی۔ اور ہم بھی چاہتے تھے کہ کچھ خود اسے اور کچھ میاں کامل کو تجربہ حاصل ہو۔ ہمیں اب معلوم ہوتا ہے کہ ہم خطرناک جوا کھیل رہے تھے۔
"کل دوپہر کو جب تم کچہری ہو گے تو انہوں نے آنے کو کہا ہے۔” سر ہلا کر وہ بولی اور پھر مسکرانے لگی اور کیا دیکھتا ہوں کہ اس کی آنکھوں سے شرارت عیاں ہے اور وہ کچھ سوچ چکی تھی۔
"تو کیا کرے گی ہمیں بتا تو سہی۔” ہم نے پوچھا۔
"دیکھا جائے گا مگر تم کچہری سے ضرور بالضرور ٹھیک ڈیڑھ بجے پہنچ جانا۔ آدھے دن کی چھٹی ہی سہی۔ خود ہی انہوں نے آنے کو کہا ہے۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا مگر اتنا جانتی ہوں کہ وہ ضرور آئیں گے۔”
ہمارے دوست کامل ٹھیک ایک بجے ہمارے مکان پر پہنچے وہ آ کر ملنے کے کمرہ میں بیٹھے۔ ہماری شریر بیوی نے قصداً بیس منٹ آنے ہی میں لگا دیئے وہ سر میں ایک رو مال اس طرح باندھ کر آئی کہ جیسے سر میں درد ہے اور منہ بھی ویسا ہی بنا لیا۔ کامل نے اٹھ کر سلام علیک کے بعد مصافحہ کیا اور مزاج پوچھا۔ معلوم ہوا کہ سر میں درد ہے تو کہنے لگے کہ "لائیے میں سر دبا دوں۔” یہ کہا ہی نہیں بلکہ اٹھ کر سر دبانے کی سخت آمادگی ظاہر کی۔ چاندنی کی روح سلگ گئی، اور یہ حرکت اس کو بہت ہی بری معلوم ہوئی۔ مگر اس نے ظاہر نہ ہونے دیا اور شکریہ ادا کر کے کہا "آپ تکلیف نہ کریں۔” آخر کو کامل صاحب وہ کر گزرے جس کے لئے وہ آئے تھے۔ باتوں ہی باتوں میں چاندنی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولے۔ "کیا کہوں بغیر آپ کی رفاقت کے میرا جی ہی نہیں لگتا۔” چاندنی نے ہاتھ تو اپنا کھجانے کے بہانے چھڑا لیا اور پھر نہایت ہی سادگی سے کہا۔
"ملنے جلنے سے مناسبت ہو ہی جاتی ہے۔ مجھ کو خود آپ کے اخلاق حمیدہ بہت پسند ہیں۔”
اتنا کہنا تھا کہ کامل صاحب نے زیادہ صاف ہو کر کہا۔ "مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔”
چاندنی چونکہ ان خرافات کی منتظر ہی تھی۔ لہٰذا اس کو اس پر کچھ تعجب نہ ہوا۔ اس نے نہایت ہی سادہ لوحی سے کہا۔ "بہت کم دل ہیں۔ جن میں یہ جذبات ہوں۔ واقعی وہ دل ہی کیا جس میں خدا کی محبت نہ ہو، باپ کی محبت نہ ہو یا بہنوں کی محبت نہ ہو یا دوست کی محبت نہ ہو۔ در اصل محبت و الفت میں حسبِ مراتب سبھی کا حصہ ہے۔”
کامل میدانِ حماقت میں اس طرح گامزن ہوئے۔ "آپ غلطی پر ہیں۔ اس دل میں سوا آپ کی محبت کے اور کسی کی محبت نہیں۔”
نہ معلوم کیا غلط فہمی ہوئی ملازم کی آواز سن کر "میں ابھی حاضر ہوئی” کہہ کر باہر آئی اور نہایت ہی تصنع کے ساتھ گھبرا کر کمرہ میں واپس آئی۔ اور راز کے لہجہ میں کامل سے کہا۔ "وہ آ گئے۔ جلدی کیجیے، غسل خانہ میں۔” اس طرح گھبراہٹ اور جلدی کے لہجہ میں اس نے یہ پارٹ کیا کہ جیسے ہی کامل کا ہاتھ پکڑ کر اس نے غسل خانہ کا دروازہ باہر سے بند کر دیا۔
در اصل دیکھا جائے تو کامل کو چھپنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اور نہ ان کا خود کا ارادہ ہو گا۔ مگر چونکہ دل میں چور تھا۔ لہٰذا اسی بوکھلاہٹ میں بند ہو گئے۔
ہم کمرے میں آئے۔ موٹر باہر دیکھ ہی چکے تھے۔ اپنی شریر بیوی کو مسکراتے ہوئے پایا۔ ہم نے کوٹ اتار کر پوچھا کہ ہمارے دوست کہاں ہیں؟
چاندنی نے مسکرا کر کہا "ٹاپے میں” اور غسل خانہ کی طرف اشارہ کیا۔ اور ہمارا ہاتھ پکڑ کر ساتھ لیا۔ "ہم دونوں دبے پاؤں کونے والے کمرے سے ہو کر غسل خانہ کے پاس پہنچے۔ چاندنی نے آہستہ سے غسل خانہ کے دروازے پر انگلی ماری اور دبی آواز سے کامل کو پکارا۔ انہوں نے جواب دیا تو ان سے کہا کہ "میں نے یہ کہہ دیا ہے کہ آپ کو والدہ صاحبہ نے شوفر کو موٹر لے کر مجھے لینے بھیجا ہے۔ مگر موٹر بگڑ جانے کی وجہ سے وہ چلا گیا اور ابھی تک واپس نہیں آیا ہے۔”
کامل نے اس بہانے کو پسند کیا اور پھر ہمارے قبل از وقت چلے آنے کی وجہ دریافت کی۔ جس کا جواب چاندنی نے یہ دیا کہ "میرے درد سر کی وجہ سے چلے آئے۔” اس کے بعد انھوں نے کچھ لغویات بکنا شروع کیں تو وہ غسل خانہ میں تکلیف کی معافی مانگنے لگی۔ جس کا جواب کامل نے دیا کہ "ان کو اسی میں عین راحت ہے۔” ہم دونوں ہنستے ہوئے چلے آئے۔ اب ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ان کو بھلا کب تک رکھا جائے گا۔
۔۔ ۳ ۔۔
چاندنی نے بالتفصیل کامل کی حماقتوں کا تذکرہ کیا۔ تیسرے پہر تک ہم باتیں کیا کئے۔ چائے تیار ہوئی تو چاندنی نے ایک چائے کی پیالی کامل صاحب کو غسل خانے میں پہنچائی۔ انہوں نے شکریہ کا جب پُل باندھ دیا اور لغویات شروع کیں تو اس نے ایک کاغذ اور پنسل دے کر کہا کہ "اپنے شوفر کو لکھ دیجیے کہ آپ کے دوست کو ہوا خوری کے لیے لے جائے۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ میں آج کہیں نہ جاؤں گی۔” ظاہر ہے کہ کامل صاحب نے اس کا کیا مطلب لیا ہو گا۔
آدھ گھنٹہ بعد شوفر آ گیا اور ہم اور چاندنی کامل کو غسل خانے میں بند چھوڑ کر ان کے موٹر پر ہوا کھانے چل دیئے۔ شام کو جب واپس آئے تو سیدھے غسل خانے پر پہنچے۔ کامل کو چاندنی نے متوجہ کر کے کہا۔ "معاف کیجیے گا میں آپ کو اس قید خانہ میں چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئی۔ کیونکہ مجھے مجبوراً جانا پڑا۔”
کامل نے کہا "کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر اب میرا جی گھبرا گیا ہے۔ دوپہر سے بند ہوں۔ اچھا سچ بتائیے گا کہ آپ کو آج کی ہوا خوری میں زیادہ لطف آیا، یا میرے ساتھ زیادہ لطف آتا ہے۔”
چاندنی نے از راہِ شرارت مگر ایمانداری سے کہا۔ "خدا بہتر جانتا ہے” اور یہ کہہ کر کہا کہ "دروازہ کھولے دیتی ہوں۔ آپ چپکے سے نکل جائیے گا۔ آپ کا موٹر اس طرف کھڑا ہوا ہے۔
"اچھا اچھا۔ مگر یہ تو بتائیے کہ کیا میں کل دوپہر کو آؤں” کامل نے پوچھا۔ وہ بولی "کل شام کو تشریف لائیے گا۔ میں آپ کی بہن سے وعدہ کر چکی ہوں۔”
ہم نے کمرہ سے دیکھا کہ کامل غسل خانہ سے پھُرتی سے نکلے۔ ہم کمرہ کمرہ ہو کر پیشتر ہی سے موٹر کے پاس جا کر کھڑے ہوئے۔ ہمیں دیکھ کر وہ کچھ جھجک سے گئے۔ مگر فوراً بولے۔ "واہ تم اِدھر ہو۔ میں تو تم کو اُدھر سے دیکھ کر آ رہا ہوں۔ سیدھا ابھی ابھی کلب سے آ رہا ہوں۔ ”
ہم نے بھی چاندنی کو آواز دے کر بلایا کہ "دیکھو کامل تمہاری مزاج پُرسی کرتے ہیں۔” نئے سرے سے چاندنی سے ان سے سلام علیک ہوئی اور مزاج پرسی کی گئی۔ بمشکل ہم نے ہنسی ضبط کی۔ ہم غسل خانہ میں ہاتھ دھونے کے بہانہ سے گئے اور چائے کی پیالی کمرہ میں لائے اور چاندنی کو دکھا کر کہا۔ "آخر یہ پیالی وہاں کیونکر پہنچی۔ اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ "یہ پیالی تو وہاں کئی روز سے رکھی ہوئی ہے” اور گواہی میں کامل صاحب کو بھی پیش کر دیا کہ یہ تو روزانہ آتے ہیں اور دیکھتے ہی ہوں گے۔ ان حضرت نے فوراً جھوٹی شہادت دی۔ ہم نے تازہ چائے کی پتیوں کا چورا اور دس بیس بوندیں چائے کی دونوں کو دکھا کر کہا۔ "خوب چوروں کے گواہ گرہ کٹ۔ یہ تو آج کی معلوم ہوتی ہے۔” کامل کچھ سٹ پٹا سے گئے۔ اور ہم نے دیکھا کہ اُن کا چہرہ فق سا ہو گیا۔
چاندنی نے قصہ یوں ختم کیا کہ "آپ کو کیا۔ جس کا جی چاہے غسل خانہ میں پئے۔ جس کا جی چاہے میز پر پئے۔”
تھوڑی دیر بعد کامل چلے گئے۔ مگر اس چائے کی پیالی کے اختتام سے جتنا اطمینان انہیں ہوا۔ دیکھنے کے قابل تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے روز ہم شام کو کلب سے آئے اور کپڑے وغیرہ اتار کر چاندنی کا انتظار کرنے لگے جو کامل کی بہن سے ملنے گئی تھی۔ ہم نے اس کو بہت کچھ منع کیا تھا کہ اب تو اس طرح نہ جا۔ مگر وہ کہتی تھی کہ اب تم رہنے دو۔
اتنے میں موٹر کی آواز آئی۔ جو کمرے کے سامنے آ کر رکی۔ ہم نے دیکھا کہ بجائے انتظار کر کے کہ ہم یا کامل موٹر کی کھڑکی کھولیں۔ چاندنی فوراً کھڑکی کھول کر تیزی سے خود ہی اتر پڑی۔ کامل نے موٹر کا انجن چلتا رکھا تھا۔ انہو ںے اس کو موڑا اور ہمیں زور سے پکار کر گڈ نائٹ کہا اور موٹر یہ جا وہ جا۔
چاندنی کمرہ میں آئی اور ہم پوچھنے ہی کو تھے کہ کوئی نئی بات تو نہیں ہوئی کہ اس کا چہرہ غصہ سے لال دیکھا۔ آنکھوں میں آنسو تھے۔ ہم سمجھ گئے اور ہم نے غور سے چہرہ کو دیکھ کر ایک زور کا قہقہہ لگایا اور پھر کہا کہ "اچھا ہوا تیری شرارتوں کی یہی سزا ہے۔” یہ کہہ کر ہم نے چھیڑنے کے لئے کندھا ہلا کر پوچھا۔ "کہو دوست پھر جاؤ گے؟”
"مان جاؤ۔ یہ کہہ کر چاندنی نے ہمارا ہاتھ جھٹک دیا۔ "ہمیں بڑا غصہ آ رہا ہے۔”
ہم نے پھر ہنس کر کہا۔ "ہم نہ کہتے تھے کہ شرارتیں چھوڑو۔” یہ کہہ کر پھر کندھا ہلا کر کہا۔ "کچھ تو بتاؤ دوست آخر کیا ہوا؟”
دانت پیس کر اور مٹھی بھینچ کر اس نے جل کر کہا۔ "جب تک میں اس کمینہ سے بدلہ نہ لے لوں گی مجھے چین نہ پڑے گا۔ میں ہرگز اس سے ملنا نہ چھوڑوں گی۔”
ہم نے پھر کہا۔ "بتاؤ دوست کیسی گذری؟”
"مان جاؤ” اس نے تنک کر کہا۔ ہم نہیں بتاتے۔”
"اچھا ہم کسی نہ کہیں گے۔ تم ہمارے کان میں چپکے سے کہہ دو۔” یہ کہہ کر ہم نے اپنا کان اس کے منہ کے قریب کر دیا۔ چاندنی کا غصہ رفو چکر ہو گیا اور اسے ہنسی آ گئی۔ مگر اس نے کہا۔ "ہم نہیں بتاتے۔ جب ہم اپنے دشمن سے بدلہ لے لیں گے۔ تب بتائیں گے۔”
"تمہیں بتانا پڑے گا۔” یہ کہہ کر ہم نے بہت کھینچا اور گھسیٹا۔ مگر وہ یہی کہتی رہی کہ "ہم نہیں بتاتے۔”
ہم نے کہا "دوست تم بتاؤ یا نہ بتاؤ۔ ہم تو جان ہی گئے۔”
۔۔۴ ۔۔
بہتر ہوتا اب بھی ہم معاملات کو یہیں روک دیتے۔ مگر بیوی کی محبت سے ہم مجبور تھے۔ وہ یہی کہتی رہی کہ "تم دیکھنا میں کیسا بدلہ لیتی ہوں۔”
دوسرے روز کامل نہیں آئے۔ تیسرے روز جو آئے تو ہم بھی کلب نہ گئے۔ اور موٹر کی سیر کی۔ اب کچھ ایسا اتفاق ہوتا کہ جب بھی شام کو کامل آتے تو کسی نہ کسی وجہ سے چاندنی اور ان کا موٹر میں ساتھ نہ ہوتا۔ کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو جاتی۔ ہم سے بالکل بدستور سابق مل جُل رہے تھے۔
چاندنی خاموش تھی اور ان سے کسی قسم کی شرارت نہ کرتی تھی۔ مگر وہ منتظر تھی کہ اب کامل صاحب کچھ پھر شرارت کریں تو بدلہ لوں۔
——-
حالانکہ کامل کو اب چاندنی کے ساتھ تنہائی کا بالکل موقعہ نہ ملتا تھا مگر انہوں نے اتنا کہنے کا موقعہ آسانی سے نکال لیا کہ "کیا میں کل دوپہر کو آؤں؟” چاندنی نے کچھ نہ کہا۔ انہوں نے پھر گھبرائے ہوئے لہجہ میں کہا اور جب اس نے پھر جواب نہ دیا تو پھر کہا۔ مجبور ہو کر چاندنی نے کہا کہ "موٹر پر نہ آئیے گا۔” خوش ہو کر انہوں نے کہا کہ "میں ایک بجے آؤں گا۔” یہ باتیں کر کے وہ فوراً ہی چلے گئے گو کہ ہم نے ان کو روکا۔ مگر وہ نہ مانے۔
ہم سے چاندنی نے کہا کہ "تم کچہری سے کل ڈیڑھ بجے ضرور گھر پہنچ جانا۔” ہم نے کہا کہ "ہم تیری حماقتوں میں کہاں تک شرکت کریں۔ تو ان کو غسل خانہ میں بند کرے گی اور ہم کو خواہ مخواہ اس قسم کی باتوں سے دلچسپی نہیں۔” مگر ہم کو مجبور ہو کر پختہ وعدہ کرنا پڑا۔
دوسرے روز ہم کچہری ذرا پہلے چلے گئے۔ اب چاندنی کی کارستانی سنئے۔ ہمارے چلے جانے کے بعد نہ معلوم کہاں سے اس نے ایک زبردست گدھا منگایا۔ اس کے کان میں کیل سے سوراخ کیا گیا۔ اور اس میں ایک لمبا سا تار باندھ کر گدھے کو غسل خانہ میں لے جا کر اس طرح کھڑا کیا کہ وہ چوکی اور دیوار کے بیچ میں پھنس گیا۔ اس طرح کھڑا کر کے غسل خانہ کی موری میں سے اس تار کو نکالا جو گدھے کے کان میں بندھا تھا اور تار کے سرے کو ایک کیل گاڑ کر اس سے مضبوط باندھ دیا۔ کہ اگر گدھا ذرا بھی جنبش کرے تو اس کو سخت تکلیف ہو۔
کامل حسبِ وعدہ ہمارے مکان پر ایک بجے پہنچے۔ وہ پیدل تھے اور بجائے صدر دروازے سے آنے کے بنگلہ کی احاطہ والی کچی دیوار پھاند کر اس طرح آئے کہ ملازم وغیرہ کوئی ان کو آتا ہوا نہ دیکھ سکے۔ وہ سیدھا ملنے والے کمرے میں گھس گئے۔ انہوں نے کمرہ خالی پایا۔ اور وہ بیٹھ گئے۔
کسی نے سچ کہا ہے نیند نہ آئے تو ریشم کے گدوں پر، اور آئے تو پھانسی کے تختہ پر۔ بعض اوقات ایسی بے موقعہ نیند آتی ہے کہ تعجب ہوتا ہے۔ یہی حال چاندنی کا ہوا۔ اس کو معلوم تھا کہ کامل آتے ہوں گے اور ان کے انتظار اور اپنی کارستانی کے سوچ میں وہ اندر والے سونے کے کمرہ کے قریب والے صوفہ پر تکیہ لگا کر لیٹ گئی۔ لیٹے لیٹے اس کو نیند آ گئی اور وہ سو گئی۔
یکایک اس کی کچھ آہٹ سے جو آنکھ کھلی تو اپنے منہ کے قریب کامل کا منہ پایا۔ وہ اس پر جھکے ہوئے تھے۔ بے اختیاری کے عالم میں اس کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی اور وہ تڑپ کر اٹھی۔ کامل کچھ گھبرا گئے۔ اپنے کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوئے چاندنی نے کہا۔ "چلئے ملنے والے کمرہ میں چلئے۔ میں ابھی آتی ہوں۔”
"مگر سنئے تو۔” یہ کہہ کر کامل چاندنی کی طرف بڑھے۔
چاندنی نے بڑی پامردی اور ہمت سے کام لیا۔ وہ اس قدر گھبرا گئی تھی۔ کہ یہ سب شرارتیں بھول گئی اور اس کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے۔ تنہا کمرہ میں جہاں کوئی گھر کا ملازم تک بھی داخل نہ ہوتا ہو وہ ایک آوارہ اور بد چلن شخص کے ساتھ تھی۔ جس کو اس نے اپنی شرارت کا خود شکار بنانے کے لئے آنے کی اجازت دی تھی۔ اس نے کہا "میں منہ دھو کر ابھی حاضر ہوئی۔”
یہ کہہ کر وہ تیزی سے پردہ اٹھا کر نکل گئی۔ اس کا کلیجہ دھک دھک ہو رہا تھا۔ کامل رک گئے اور اس کے پیچھے نہ آئے۔ چاندنی نے منہ دھویا۔ وہ تولیہ سے منہ پونچھ رہی تھی۔ مگر اس کے تن بدن میں رعشہ موجود تھا اور اب تک دل قابو میں نہ آیا تھا اور وہ بے حد پریشان تھی۔ اس نے ایک گلاس سرد پانی پیا۔ جس سے اس کا دل تھما۔ دل میں وہ اپنی کمزوری پر ہنسی اور اس نے کہا کہ وہ مردود میرا کیا کر سکتا ہے۔ وہ اب بالکل ٹھیک تھی اور بغیر کسی ڈر یا پریشانی کے ملنے والے کمرے میں پہنچی۔ اس نے کمرہ کے چاروں طرف دیکھا اور سب دروازے بجائے کھلے ہونے کے بند پائے۔ کیونکہ کامل نے سب دروازے مضبوط بند کر دیئے تھے۔ یہ دیکھ کر اس کی ہمت اور جرات پھر رخصت ہوتی معلوم ہوئی۔ نہ معلوم وہ کیوں اس قدر گھبرا رہی تھی۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈیڑھ بجنے میں آٹھ منٹ تھے۔ اس کو کامل کے ساتھ اب اس کمرہ میں ڈر لگ رہا تھا۔ وہ کچھ ٹھٹکی کہ کامل نے مسکرا کر کہا۔
"آیئے۔” یہ لفظ اس وقت اس کے کانوں میں ہتھوڑے کی چوٹ بن کر لگا۔ جس کی دھمل اس کے دل تک پہنچی اور معاً اس نے کمزوری محسوس کی۔ مگر اس نے اپنے دل کو پھر مضبوط کیا اور ایک کرسی گھسیٹ کر علیحدہ بیٹھ گئی۔ کامل نے خاموشی کو توڑا اور باتیں کرتے کرتے وہ آہستہ آہستہ اور رفتہ رفتہ اس کی کرسی کی طرف بڑھنے لگے۔
اس وقت چاندنی کی عجیب حالت تھی اس جانور کی مانند تھی جو شیر کو دیکھ کر بے بس ہوا جاتا ہے کہ وقت رفتار کھو بیٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ شیر آ رہا ہے مگر جنبش نہیں کر سکتا۔ وہ خاموش تھی اور اس سے کوئی جواب ہی نہ بن پڑتا تھا۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور ہونٹ بالکل خشک تھے جب کامل بالکل ہی قریب آ گئے تو نہ معلوم کس کوشش سے اس نے کہا۔
"پانی عنایت کیجئے گا۔” اور صراحی کی طرف ہاتھ اٹھا دیا۔ کامل نے پانی دیا۔ پانی پی کر کامل کو گلاس واپس دیا۔ کامل نے دیکھا کہ چاندنی کے ہاتھ میں رعشہ ہے۔ جس کے انہوں نے شاید غلط معنی لئے اور گلاس کو میز پر رکھ کر کرسی کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ چاندنی بت کی طرح خاموش تھی اور انہوں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ چاندنی کی جو حالت ہو گی اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔
ہاتھ برف کی طرح سرد تھے۔ کامل نے اور جرات کی اور اب وہ کرسی کے سامنے گھنٹوں کے بل اس طرح کھڑے ہو گئے کہ اٹھنے کا راستہ رک گیا۔ اس نے ارادہ کیا کہ چیخ کر بھاگ جاؤں۔ مگر وہاں اب وقت گفتار یا رفتار کہاں؟ کامل کی رفتار افعال اس قدر آہستہ تھی کہ کوئی بات کیا کی پیش ہی نہ آ رہی تھی۔ جو بجلی کی طرح گر کر اس جمود کو توڑتی اور طبیعت کی رفتار کو ہیجان میں لا کر وقت پیدا کرتی جو قریب قریب مفقود تھی۔ ایسے موقع پر اگر کسی چیز کے گرنے کا دھماکہ بھی ہوتا ہے تو طبیعت کی جنبش ہو جاتی ہے اور انسان اس سحر آفریں جمود سے خلاصی پا جاتا ہے۔
ادھر تو یہ معاملہ درپیش تھا۔ ادھر ہم پندرہ منٹ سے زائد ایک بیکار آدمی سے گپوں میں ضائع کر چکے تھے۔ ہمارے پہنچنے کا وقت گذر چکا تھا اور در اصل اسی وجہ سے چاندنی کی رہی سہی قوت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
کامل نے اور جرات کی اور چاندنی کا دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وہ آہستہ آہستہ دبی زبان سے کانپتے ہوئے لہجہ میں خرافات بک رہے تھے۔ ان کو شاید نہیں معلوم تھا کہ ان کی خرافات اس کے کانوں میں بے معنی الفاظ کی طرح پہنچ رہی تھی۔ کیونکہ در اصل وہاں قوت باصرہ کے سوا شاید سب قوتیں زائل ہو چکی تھیں۔ اس کو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کہ کوئی خواب گراں دیکھ رہا ہو۔ دونوں ہاتھ کامل نے آہستہ آہستہ اپنی طرف کیے اور ان کو اپنے ہونٹوں اور آنکھوں سے لگایا۔ چاندنی پر اس وقت غشی کا سا عالم تھا اور اس کو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ کامل اس سے بہت دور بیٹھا ہوا یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ اس کے بعد کامل نے چاہا کہ اس منزل میں ایک قدم اور آگے بڑھائیں۔ چاندنی کا ہاتھ آہستہ سے چھوڑا جو بے جان ہاتھ کی طرح گر گیا۔ اپنا داہنا ہاتھ آہستہ سے چاندنی کے کندھے پر رکھا ہی تھا کہ ہم نے برابر والے کمرے میں پہنچ کر آواز دی "گل چاندنی”۔
ہماری آواز کیا تھی کہ دونوں پر بجلی گری۔ چاندنی کی طبیعت پر اس نے ایک تازیانہ کا کام کیا۔ وہ بے بسی کا عالم جاتا رہا۔ حقیقت سے اپنے کو اس قدر قریب پایا کہ اس نے زور سے ہاتھ جھٹکا دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ تعجب ہے کہ وہ چیخی نہیں اس نے آہستہ مگر کانپتی آواز میں کامل سے کہا۔ "غسل خانہ میں، غسل خانہ میں” یہ کہہ کراس نے کامل کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ کامل کے خود ہوش اڑ چکے تھے۔ لپک کر اس نے دروازہ کھولا۔ کامل تیر کی طرح غسل خانے میں گھس گئے اور چاندنی نے لپک کر کنڈی کس دی۔
ہم اس جھڑ بڑ کو سن کر آہستہ سے میدان صاف پا کر ملنے والے کمرے میں پہنچے۔ چاندنی کامل کو غسل خانے میں بند کر کے واپس آ رہی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ چہرہ کاغذ کی طرح سفید اور متوحش ہے اور صورت حیرانی کی۔ دیکھتے ہی ہماری طرف تیر کی طرح آئی اور لپٹ گئی۔ بدن کانپ رہا تھا۔ زور سے اس نے ہمیں دبایا کہ ایک دم سے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے۔ گردن لٹک گئی۔ ہم نے جو علیحدہ کیا تو بدن میں سکت ہی نہ تھی۔ آنکھیں بند تھیں اور سانس بڑی تیزی سے چل رہی تھی۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا مگر سارا چہرہ پسینے سے تر تھا۔ ہم نے اس کو غشی کی حالت میں صوفے پر لٹایا، نبض دیکھی تو بہت کمزور چل رہی تھی۔ ہم نے پورا حال جلدی سے ایک رقعہ پر مختصر لکھ کر ملازم کو ڈاکٹر کے پاس دوڑایا۔
۔۔ ۵ ۔۔
معمولی غشی تھی اور ڈاکٹر صاحب کی ایک ہی خوراک کے بعد چاندنی بالکل فٹ ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب جا چکے تھے۔ اور تھوڑی ہی دیر میں باتیں کرتے کرتے اس کا چہرہ شرارت اور اپنی کامیابی پر دمکنے لگا۔ وہ لیٹے لیٹے چپکے چپکے اب ہنس ہنس کر جو کچھ گزرا تھا، وہ سنا رہی تھی۔ ہمیں اپنی حماقت کا اندازہ ہوا اور اس کو اپنی شرارت کا خیال کر کے پھریری سی آ گئی۔ قسمت تھی کہ آج نہ جانے کس مصیبت سے بچ گئی۔ لوگوں کو چاہئے کہ اس واقعے سے نصیحت پکڑیں اور ہمیشہ اعتدال سے کام لیں۔
گھنٹے بھر کے اندر چاندنی کی تیزی اور پھرتی مع شرارت کے سب اسی طرح واپس آ گئی۔ وہ سیدھی ہمیں غسل خانے کے پاس لے گئی۔ دروازے پر انگلی ماری اور کامل صاحب اندر سے بولے "کہئے خیر تو ہے”
"خدا کا شکر ہے سب خیریت سے گذری” چاندنی نے ہنس کر کہا۔
"معاف کیجئے گا بہت دیر مجھ کو لگی”
"یہاں ایک گدھا ہے”۔ کامل نے ہنس کر کہا۔
"خدارا اتنے انکسار سے کام نہ لیجیے” چاندنی نے از راہِ شرارت ہنستے ہوئے کہا۔ اور ہم خود اس فقرے پر بمشکل ہنسی ضبط کر سکے۔
کامل بولے "آپ مذاق کر رہی ہیں اور یہاں واقعی ایک گدھا بھی کھڑا ہے”۔
"کیا واقعی سچ کہہ رہے ہیں”۔ چاندنی نے بن کر کہا۔ "خیر معاف کیجئے گا، گھس گیا ہو گا، اس کو ابھی رہنے دیجئے”
"بے چارہ بالکل غریب ہے۔ اور دیوار سے لگا ایک طرف کھڑا ہے”
"ابھی حاضر ہوئی” یہ کہہ کر چاندنی اور ہم چلے آئے۔ ہم نے کہا کہ "یہ گدھا کہاں سے آیا۔” تب اس نے قصہ بتایا کہ خاص طور پر اس نے منگایا ہے۔
شام تک اسی طرح کامل بند رہے اور کسی نے خبر تک نہ لی۔ بعد مغرب چاندنی نے غسل خانے کے پاس جا کر کہا۔ "معاف کیجئے گا، آج مجھ کو موقع ہی نہیں ملا۔ کیونکہ وہ کلب بھی نہیں گئے”
"مگر اب تو کسی نہ کسی طرح کھول دیجئے۔” کامل نے گھبرا کر کہا۔ کیونکہ گھنٹوں سے قید محض کا لطف اٹھا رہے تھے۔ اس کا جو جواب چاندنی نے دیا تو کامل سن کر خوش ہی تو ہو گئے۔ اس نے کہا "اگر آپ آج رات کو گھر نہ جائیں تو کچھ نقصان ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو رات کے دس بجے تک تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ پھر میں کھول دوں گی اور آپ چپکے سے برابر والے کمرے میں الماری کے پیچھے پردے کی آڑ میں چھپ جائیے گا۔”
کانپتی ہوئی آواز میں کامل نے کہا۔ "بہت اچھا۔ آپ جائیے۔ میں سمجھ گیا۔”
سردی کا زمانہ تھا اور رات کا کھانا کھانے کے بعد چاندنی نے بہت سی چائے بنائی۔ ہم نے اس سے کہا کہ تو نے ہمارے دوست کو نہ تو چائے دی اور نہ رات کے کھانے کی فکر کی۔ اس کا جواب اس نے مسکراتے ہوئے یہ دیا کہ یہ چائے در اصل انہی کے واسطے بن رہی ہے۔ مٹھائی، توس، مکھن، انڈے کچھ میوہ اور چائے یہ اس نے ایک کشتی میں سجائے۔ چائے دان بھر کر چائے اور دودھ دان بھی بالائی دار دودھ سے بھرا ہوا تھا۔ یہ سب چیزیں اس نے غسل خانہ میں پہنچا دیں۔ کامل بھوکے تو تھے ہی، سب صاف کر گئے۔ اس کے بعد پھر کسی نے کامل صاحب کی خبر نہ لی۔ کیونکہ ہم نے جب کہا کہ ان کو سردی لگ رہی ہو گی تو اس نے کہا کہ "مجھے اپنے مہمان کے آرام کا تم سے زیادہ خیال ہے۔ اس کا انتظام پیشتر ہی ہو چکا ہے۔”
رات کے ٹھیک ڈھائی بجے گھڑی کے الارم نے ہمیں جگا دیا۔ چاندنی سے ہم نے پوچھا "یہ گھڑی میں الارم تم نے لگایا تھا”
"ہاں”
"کیوں۔ خواہ مخواہ نیند خراب ہوئی”
وہ مسکراتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اور بولی "اصل تماشا تو ڈھائی بجے ہی شروع ہونے کو تھا۔ چلو” یہ کہہ کر اس نے اپنا کوٹ پہنا اور شال اوڑھی۔
"چلو اُٹھو۔ دیکھ کیا رہے ہو۔” اس نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا۔
"تم پاگل ہو۔ ہم خواہ مخواہ حیران نہیں ہوں گے۔ ہم سوتے ہیں۔” ہم نے کہا۔
مگر اس نے لحاف وغیرہ گھسیٹ لیا اور ہمیں کھینچ کر کھڑا کر دیا کہ "تم چلو تو دیکھو کیا ہوتا ہے”۔ باہر نکل کر ایک ملازم کو جگایا اور غسل خانے کی موری کے پاس اسے بیٹھا کر کہا کہ چپکے چپکے اس تار کو کھینچو جو گدھے کے کان میں بندھا ہوا تھا۔
ہم تو یہی سمجھے تھے کہ کامل صاحب کو محض گدھے کے ساتھ شب باش کر کے چھوڑ دیا جائے گا۔ مگر یہاں اب ہم نے یہ قصہ دیکھا۔
ملازم نے تار کو جو ڈھیل دے دے کر کھینچا تو بس غضب ہی ہو گیا۔ گدھے کے تازہ زخم میں جو درد ہوا تو پہلے اس نے اندر اچھل پھاند کی۔ اور پھر زور سے چلایا۔ تار برابر رہ رہ کر ڈھیل دے دے کر کھینچا جا رہا تھا اور جب گدھے کو زیادہ تکلیف ہوئی اور تار کو ڈھیل بھی کافی ملی تو اس نے غسل خانے میں پینترے بدلنا شروع کئے۔ اور لاتیں چلا کر بری طرح چیخنا شروع کیا۔ قصہ مختصر غسل خانے میں دھما چوکڑی مچی کہ تمام چیزیں گرنے اور الٹ پلٹ ہونے کی آواز آ رہی تھی۔ اور معلوم ہو رہا تھا کہ اندھیرے میں غسل خانے میں کامل صاحب اور گدھے سے خوب چھن رہی تھی۔ ملازم سے یہ تاکید کر دی کہ یہ کاروائی صبح تک جاری رہے۔ یہ کہہ کر ہم دونوں کمرے میں واپس چلے آئے۔ ہماری طبیعت اس وقت نہ معلوم کیوں اس تمام معاملہ پر غور کر کے مکدر اور کند ہو گئی۔ اور ہمیں یہ حرکت بے حد نا پسند آئی۔ کیونکہ کچھ بھی سہی لیکن ایک عورت کے لئے یہ حرکت ضرور سے زیادہ بھدی معلوم دی۔ اور ہم چپ تھے۔
چاندنی نے ہماری حالت کا اندازہ کر لیا۔ اور وہ لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ اور اس نے جل کر کہا "کیا انہوں نے کمینی حرکت نہیں کی۔ کیا انہوں نے مجھے اور تمہیں ذلیل کرنے کی انتہائی کوشش نہیں کی۔ کیا انہوں نے میری زندگی ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کیا انہوں نے تمام روایات دوستی اور دیرینہ تعلق کو خود پہلے شکست نہیں کیا۔ میرے دل میں ان کی طرف سے ذرہ بھر رحم نہیں۔ میرا بس چلے تو ایسے لوگوں کو زندہ دفن کرا دوں۔”
گدھے کے شوربے ہنگام نے قطعی سونے نہ دیا۔ رہ رہ کر وہ دہائی دیتا تھا کہ خدا کی پناہ۔ صبح ہوئی اور چاندنی نے کہا کہ "اب گدھے کی آواز سن کر گویا اُٹھے ہو۔ اور اگر ملازم کو لے کر تحقیق حال نہ کرو تو بہت بے جا ہے۔ یہ
تو محض اتفاق کی بات ہے کہ رات کو انہیں کھولنے کا موقع نہ ملا۔” ہم نے جانے سے انکار کیا تو پھر اس نے وہی جلی بھُنی باتیں سنانا شروع کیں کہ "جو شخص ایسی کمینی حرکتیں کرے وہ اسی ذلت کا مستحق ہے۔”
قصہ مختصر اس نے ہمیں مجبور کر دیا۔ ہم ایک ملازم کے ساتھ لالٹین لے کر پہنچے۔ کیا بتائیں کہ ہماری ہمت نہ پڑتی تھی کہ چاندنی آئی اور اس نے پھر غصہ بھری نگاہوں سے دیکھا اور خود دروازہ کی کنڈی کھول کر تیزی سے واپس چلی گئی۔ ہم نے مجبوراً کچھ تامل کے بعد دروازہ کھول کر لالٹین کی روشنی سے اندر دیکھا۔ جو نظارہ پیش نظر تھا۔ وہ قابل عبرت تھا۔ خدا ہر شخص کو اس ذلت اور مصیبت سے بچائے۔ ہمارے اور ملازم دونوں کی زبان سے نکلا۔ "ارے” ملازم حیرت میں تھا۔
نہایت ہی ریا کاری سے ہم نے کہا۔ "کامل یہ کیا معاملہ، کامل یہ کیا معاملہ” کامل بھلا اس کا کیا جواب دیتے۔ عجیب منظر پیش تھا۔ سارا غسل خانہ تعفن کے مارے سڑ رہا تھا۔ گدھا بیچ غسل خانہ میں کھڑا تھا۔ تمام چیزیں الٹی پڑی تھیں۔ جگہ جگہ لید پڑی تھی۔ اور بدبو کے مارے دماغ اُڑا جا رہا تھا۔ کامل ایک فرش کی بڑی دری میں لپٹے لپٹائے ایک کونے میں سرنگوں بیٹھے تھے۔
ہم الٹے پاؤں کمرے میں واپس آئے۔ ہماری طبیعت متعفن ہو رہی تھی اور ہم نے افسوس کے ساتھ کامل کی حالتِ زار چاندنی سے بیان کی مگر عورت کے دل میں شاید اس کی عزت و آبرو لینے کی کوشش کرنے والے کے لئے رحم نہیں آتا۔ اس نے پھر ترش رو ہو کر کامل کی سزا کو حق بجانب ٹھہرایا۔ در اصل چائے میں جمال گوٹے کا ست ملا دیا تھا جس کی وجہ سے کامل کا برا حال ہو گیا تھا۔ ہم سر پکڑ کر ایک کرسی پر بیٹھے اس مصیبت پر غور کر رہے تھے۔ حالانکہ ہمارے ساتھ کامل نے برا سلوک کیا تھا۔ اور وہ واقعی رحم کے قابل نہ تھے۔ مگر پھر بھی در اصل ہماری خطا تھی۔ جو ہم نے اتنی ڈھیل دی۔ ہم چاہتے تو یہ دن ہی نہ آتا۔ ہم اُٹھے اور ہم نے جا کر کامل سے کہا۔ "معاف کرنا مگر غلطی تمہاری بھی تھی۔ جو تم اس شریر کے چکر میں پڑے۔” کامل کچھ نہ بولے اور ہم لوٹ آئے۔
دوسرے غسل خانہ میں جلدی سے گرم پانی اور صاف کپڑے ہم نے پہنچوائے اور کامل کو وہاں بھجوایا۔ دوسرے آدمی کو ان کے گھر موٹر لینے بھیجا۔ کامل غسل خانہ سے سیدھے نہا دھو کر اُدھر سے اُدھر ہی اپنے گھر چلے گئے۔
افسوس کہ یہ راز افشا ہو گیا۔ نوکروں نے بات نہ معلوم کہاں سے کہاں پہنچائی۔ خاص خاص دوستوں کو مجبوراً تمام حالات بے کم و کاست شروع سے آخر تک سنانے پڑے اور شدہ شدہ یہ قصہ سب کو معلوم ہو گیا۔ جس کی وجہ سے سوسائٹی میں کامل کا وہ منہ کالا ہوا کہ کسی سے ملنے کے قابل نہ رہے۔ وہ ہم سے ہمیشہ کے لئے غیر ہو گئے اور ہم سے ان سے پھر کوئی تعلق نہ رہا۔ یہاں ہم ان باتوں کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتے جو بعد میں پیش آئیں۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ کامل نے ہماری بیوی سے خوفناک بدلہ لینے کی کوشش کی۔ اور مجبوراً ہم کو رخصت لے کر خود اس جگہ کو چھوڑنا پڑا۔
اس تجربہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ در اصل ہمارا اور ہماری بیوی کا اصول غلط تھا اور آزادی کی ضرور کوئی حد ہونا چاہیے اور اس حد آزادی کا ہر شخص اپنی ضروریات کے مطابق مقرر کر سکتا ہے۔
چاندنی نے پھر کبھی شرارت کو اس قسم کا رنگ نہیں دیا۔ ایک دوست کی حماقت اور بیوی کی شرارت کا یہ نتیجہ نکلا۔
فاعتبر وایا اولیٰ الابصار
٭٭٭
نواں باب : فلسفہ عصمت
ایک عورت تو وہ ہے جو اپنے شوہر کی وفا دار بیوی ہے مگر کوئی شخص جبراً اس کی عزت لیتا ہے اور وہ پھر اس ذلت کی زندگی سے موت بہتر خیال کرتی ہے۔ مگر بچ جاتی ہے۔ لیکن دوسری عورت وہ ہے جو دل سے اپنے شوہر کے بجائے کسی اور کو چاہتی ہے۔ مگر بوجہ قید و بند اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتی۔ اور اس طرح اس کا دل پاک نہیں مگر جسم پاک ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں کا درجہ عزت یا ذلت میں برابر ہے؟ کیا یہ واقعہ ہے کہ اول الذکر عورت اس طرح ناموس و عزت کھو بیٹھنے کے بعد شوہر کے کام کی نہیں رہتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں بد قسمتی سے یہ واقعہ ہے کہ عورت پھر شوہر کے کام کی نہیں رہتی۔ کیونکہ عصمت ہی ایک ایسا جوہر ہے کہ ایک مرتبہ وہ خواہ کسی طرح بھی ضائع ہو جائے۔ پھر نا ممکن ہے کہ اس کی تلافی ہو سکے۔
یہ تو یونان کے اکثر فلسفیوں کا فیصلہ ہے لیکن فلسفہ اسلام کیا کہتا ہے۔ مظلوم کا سوائے اسلام کے کوئی حامی نہیں۔ اسلام کا فیصلہ ہے کہ ایسی عورت کو دُرَہ تو بڑی چیز ہے، روٹی کا گالا تک نہیں مارا جا سکتا۔ وہ پاک ہے، اور عصمت مآب ہے۔ اور اپنے شوہر اور خدا کے سامنے نڈر ہو کر علی الاعلان اپنی معصومیت کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ وہ بغیر آنکھ جھپکائے ہوئے اپنے شوہر سے آنکھ ملا سکتی ہے ظالم کو سزا قانون دے گا ورنہ خدا۔
۔۔ ۱ ۔۔
آگرہ سے گئے ہوئے عرصہ ہو گیا تھا کہ ہم اور چاندنی الہٰ آباد سے آگرہ جا رہے تھے قسمت کی خوبی کہ آج پھر قریب دو سال کے بعد ہمارا اور اصغر صاحب کا سفر میں ساتھ ہوا۔ گھر سے تو چاندنی شرارتوں کا پورا پروگرام تیار کر کے چلی تھی مگر یہاں دوسرا ہی معاملہ درپیش تھا۔
پہلا سوال جو ہم دونوں نے اصغر صاحب سے پوچھا۔ وہ ان کی بیوی کے بارے میں تھا۔ وہ اب تک لاپتہ تھیں بلکہ اصغر صاحب لکھنؤ سے اپنی دوسری شادی کے سلسلہ میں جا کر واپس آ رہے تھے در اصل دنیا بھی عجیب جگہ ہے ان کی حالت ایسی تھی کہ کوئی نہ کہہ سکتا تھا کہ اصغر کبھی دوسری شادی کریں گے۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ دنیا کی چہل پہل اور بار دوستوں کی گھما گھمی اور خوش مذاقی میں دنیا کے تمام رنج خود بخود محو ہو جاتے ہیں۔ یہی حال اصغر کا تھا۔ مگر پھر بھی اس ذکر نے ان کا غم ایسا تازہ کر دیا کہ ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اور لطف یہ کہ چاندنی بھی محض ان کی حالت دیکھ کر رو رہی تھی۔ بات آئی گئی ہو گئی اور تھوڑی ہی دیر بعد ہم بھی بھول گئے۔ در اصل ہمیں اور چاندنی دونوں کو اصغر صاحب سے ایک قدرتی ہمدردی ہو گئی تھی۔ جس کے ظاہر کرنے کا موقع ہم کو سال بھر بعد آگرہ ہی میں مل چکا تھا۔
ٹونڈلہ کے اسٹیشن پر چاندنی تو گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی اور ہم اور اصغر صاحب باہر کھڑے تھے۔
"ذرا اس بچے کو دیکھئے” اصغر نے ایک بچہ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ یہ کوئی ڈیڑھ یا پونے دو سال کا بچہ معلوم ہوتا تھا پیاں پیاں چلنا سیکھا تھا اور بے طرح ہنسی کا گول گپا بنا ہوا ڈگمگاتا چلا آ رہا تھا۔ خوب گورا چٹا، سرخ و سفید اور تندرست تھا۔ صرف ایک کرتہ پہنے ہوئے تھا۔ پیچھے اس کا غریب دیہاتی باپ ہنستا آتا تھا۔ ایک دم سے بھاگنے میں اصغر کے قریب آ کر یہ ڈگمگایا کہ اصغر نے اسے اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ کے سامنے کیا۔ بچہ نے غور سے اصغر کو دیکھتے دیکھتے ان کے منہ پر ہاتھ مارا۔ کہ دیکھنے والوں کا ہنسی کے مارے برا حال ہو گیا۔ اصغر نے ہنستے ہوئے چھوڑ دیا اور پھر ڈگمگاتا ادھر اُدھر دوڑنے لگا۔ بار بار گرتا اور پھر ہنس کر دوڑتا پھرتا تھا۔ چاندنی نے کہا "واقعی بڑا پیارا بچہ ہے” پھر اصغر صاحب سے کہا "اصغر صاحب اس بچہ کی آنکھیں اور ما تھا ہو بہو آپ کا سا ہے۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہی تھی” اصغر صاحب ہنسنے لگے اور بچہ کو دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں اس نے پھر اسی طرف رخ کیا اور اس کا باپ اس کے پیچھے لپکا۔ تو وہ آ کر اصغر کی ٹانگوں سے لپٹ گیا اور ہنسی کے مارے اس کا برا حال ہو گیا۔ اصغر نے پھر اُٹھا لیا اور اسی طرف دیکھنے لگے۔
ہم نے غور سے دیکھا اور کہا "واقعی اصغر اس کی آنکھیں اور ماتھا تو بالکل آپ سے ملتا ہے بلکہ ناک اور دہانہ کی ساخت بھی کچھ آپ سے ملتی ہے۔”
اصغر نے ہنس کر کہا "آپ بھی عجیب آدمی ہیں یہ سب باتیں اور پھر وہ بھی اس کے باپ کے سامنے جو عجیب نہیں حرف بحرف سنتا ہو۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ میں نے آج تک ایسا پیارا بچہ کبھی نہیں دیکھا”
چاندنی نے جھانک کر اس شخص کی طرف دیکھا اور کہا "آپ بھی کیا باتیں کرتے ہیں یہ اس کا بچہ کسی طرح نہیں”
اصغر نے اس سے پوچھا "کیوں بھئی یہ تمہارا بچہ ہے۔”
"جی ہاں میرا ہی سمجھئیے” اس شخص نے کہا۔
"تمہارے کسی عزیز کا ہو گا” اصغر نے کہا۔
"جی ہاں”
"تم کون ہو اور کہاں جا رہے ہو۔”
"میں سکندرہ جا رہا ہوں اور میرے یہاں کپڑے کا کام ہوتا ہے۔” اصغر کو یہ بچہ ایسا اچھا معلوم ہو رہا تھا کہ ان کا بس نہ تھا کہ اسے لے لیں اور اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں جیسے کھائے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنے رو مال میں مٹھائی لے کر اس شخص کو دی کہ یہ بچہ کے لئے ہے اس نے کہا "واہ صاحب یہ آپ نے کیوں تکلیف کی” کہہ کر وہ مٹھائی ہاتھ میں لینے لگا کہ اتنے میں ریل نے سیٹی دی اور چلنے کو ہوئی اور اصغر نے رو مال دے دیا کہ اس کی ماں کو دے دو۔ وہ کسی برتن میں کر لے گی۔
"میں آپ کا رو مال اگلے کسی اسٹیشن پر دے جاؤں گا” یہ کہہ کر وہ بچے کو گود میں لے کر زنانہ درجہ کے پاس گیا اور مٹھائی دے کر جھٹ سے اپنے درجہ میں بیٹھ گیا۔
۔۔ ۲ ۔۔
رو مال کا کچھ خیال بھی نہ تھا کہ دوسرے اسٹیشن پر وہی شخص آیا۔ جس کا نام حسین بخش تھا۔ اصغر کو اس نے ایک سفید انگوٹھی دے کر کہا کہ "دیکھئیے یہ شاید آپ کی ہے جو رو مال میں لپٹی ہوئی چلی گئی۔ رو مال آپ کا ذرا دھو لوں تو ابھی لاتا ہوں۔” اصغر آرام سے تکیہ لگائے بیٹھے تھے انہوں نے لاپرواہی سے انگوٹھی لی اور حسین بخش رو مال دھونے گیا۔ انگوٹھی کو دیکھتے ہی اصغر صاحب اچھل پڑے اور انہوں نے کہا ” ارے” وہ ہکا بکا رہ گئے اور ان کے ہاتھ سے انگوٹھی چھوٹ پڑی۔ ہم نے اور چاندنی نے متعجب ہو کر اصغر صاحب کو دیکھا۔ جن کی حالت ہی عجیب تھی انہوں نے انگوٹھی اُٹھائی "خیر تو ہے۔” ہم نے اور چاندنی نے پوچھا اور یہ کہتے ہوئے چاندنی نے اصغر صاحب کے ہاتھ سے انگوٹھی کو لے کر دیکھا۔
یہ ایک پلاٹینیم کی قلعی کی نہایت ہی سبک مہر کی انگوٹھی تھی اور اس پر عراقی خط میں کچھ خوبصورت عبارت کندہ تھی۔ غور سے پڑھا تو نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ اس پر لفظ "معصومہ” کندہ تھا۔
"یہ کیسی انگوٹھی ہے؟” چاندنی نے پوچھا۔
اصغر صاحب نے کہا "میری گمشدہ اہلیہ کا نام۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہی انگوٹھی پہنے تھی۔”
ہم دونوں ہکا بکا رہے گئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
ہمارے کان میں چپکے سے چاندنی نے کہا۔ "کہیں یہ بچہ سچ مچ انہی کا تو نہیں ہے۔ ذرا پوچھو تو۔ کہیں خون کا جوش تو نہیں تھا۔ جو بچے کی طرف قدرتاً کھینچے جا رہے تھے۔”
ہم نے اصغر صاحب سے چپکے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ جب وہ گم ہوئیں تو دو ماہ کا حمل تھا۔ معاملہ صاف تھا اور ہم نے اصغر صاحب سے کہا "میرا قطعی خیال ہے کہ اب آپ کی گمشدہ بیوی معہ آپ کے بچہ کے اس گاڑی میں موجود ہیں۔”
اصغر صاحب عجیب چکر میں تھے اور ان کی عقل کام نہ کرتی تھی۔ وہ خاموش تھے کہ چاندنی نے پوچھا۔ ” کیا آپ کے رو مال پر کوئی ایسی نشانی تھی۔ جو آپ کی بیوی پہچان سکتیں؟ اصغر نے چونک کر کہا "آپ سچ کہتی ہیں، سچ کہتی ہیں، رو مال میں نے مدتوں کے بعد نکالا ہے اس پر انہی کے ہاتھ کا انگریزی حرف aگڑھا ہوا ہے”
ہم نے کہا "قطعی اب تو معاملہ صاف ہے۔ انہوں نے آپ کا رو مال پہچان لیا اور تحقیق کرنے کے لئے یہ انگوٹھی بھیجی ہے وہ بچہ قطعی آپ کا ہے آپ کا ہے اور بیوی بھی آپ کی موجود ہیں۔ مبارک ہو۔”
اصغر کی اس وقت عجیب ہی حالت تھی وہ سر لٹکائے ہوئے بیٹھے تھے۔ دوسرا اسٹیشن جمنا برج کا آیا۔ اصغر کو ہم نے روکا کہ کہیں کوئی غیر معمولی واقعہ نہ پیش آ جائے۔ چاندنی نے وہاں کر جا کر دیکھا تو فوراً پہچان لیا اس کے ہاتھ میں رو مال تھا اور آنکھوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ حسین بخش اب سب معاملہ سمجھ گیا اور وہ خاموش یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
آگرہ فورٹ پر پہنچ کر چاندنی نے جلدی سے معصومہ کو اُتروایا۔ برقعہ تو درکنار اس کے پاس کوئی دوسری بڑی چادر سوائے ایک گاڑھے کی چھوٹی چادر کے نہ تھی اس کو تو بند گاڑی میں بٹھایا۔ چونکہ اس کو کچھ نہ معلوم تھا۔ لہٰذا اصغر نے ہم دونوں سے کہا کہ "آپ میرے ساتھ چلیں کیونکہ سوا آپ لوگوں کے یہاں کوئی دوسرا گواہ ہی نہیں ہے۔”
۔۔ ۳ ۔۔
"میں یوں نہیں ملوں گی” معصومہ نے روتے ہوئے چاندنی سے کہا "میں نہیں ملوں گی جب تک آپ یہ نہ معلوم کر لیں کہ وہ مجھ ذلیل سے ملنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں” یہ کہہ کر اس نے گاڑی سے اترنے سے انکار کر دیا۔
چاندنی نے تعجب سے کہا "یہ آخر کیوں؟”
"میں کہہ چکی۔ میں ہر گز نہ اتروں گی اور لوٹ جاؤں گی۔ خواہ کچھ ہی ہو” اسی طرح روتے ہوئے اس مظلوم نے کہا۔
چاندنی نے مشکوک ہو کر کہا "حسین بخش۔۔۔۔۔”
"وہ میرے سگے بھائی کے برابر ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر”
خوش ہو کر چاندنی نے کہا۔ "پھر آخر کیا معاملہ ہے؟”
"آپ جا کر بس پوچھ آئیے۔” معصومہ نے کہا۔ "میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتی”۔
گو اصل واقعہ ہمیں بعد معلوم ہوا مگر اس موقعہ پر ہم معصومہ کی سرگزشت سنا کر ناظرین سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ان واقعات کو ذرا غور سے پڑھیں اور درس عبرت لیں۔ ہم اس کو بطور قصہ وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے وہ گم ہو گئی تھی۔ سلسلہ کیلئے ناظرین گذشتہ باب کو دیکھ لیں۔
۔۔ ۴ ۔۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ آگرہ سٹی اسٹیشن پر جب ہم اترے تو چلتے وقت اصغر سے رخصت ہوئے تھے۔
مگر ان کی بیوی کو دیکھنے چاندنی نہ گئیں۔ کیونکہ سفر کے دوران میں ایک مرتبہ مزاج پرسی کی نیت سے جب چاندنی نے جانے کا ارادہ کیا تو اصغر صاحب نے کہہ دیا تھا کہ "آپ تکلیف نہ کریں میں خود آپ کی طرف سے مزاج پرسی کر دوں گا۔”
معصومہ غریب پہلے شوہر کا انتظار کر رہی تھی۔ برقعہ میں سے بھیڑ بھاڑ میں اس نے یہ بھی دیکھا کہ اصغر آئے اور ڈولی منگوا کر ملازم کو ہدایت بھی کر گئے کہ "اتروا لو میں اسباب دیکھتا ہوں۔” ڈولی آ کر لگی اور چادریں تانی گئیں تو وہ آگے بڑھی کہ ایک بڑی بی نے کہ "یہ تو میری ہے میرا لڑکا لایا ہے” کیونکہ معصومہ نے برقعہ میں سے رات کے وقت نہ تو اصغر کو دیکھا تھا اور نہ اس مجمع میں ملازم کو پہچان سکتی تھی۔ وہ یہی سمجھی کہ بڑی بی سچ کہتی ہیں۔ لہٰذا وہ بیٹھ کر چلی گئیں اصغر نے جو ملازم کو ڈولی لے جاتے دیکھا تو انہوں نے بھی زنانہ درجے کی طرف پھر رخ کرنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔ کیونکہ اسباب سب مردانہ درجہ کا تھا۔
خدا بے بس عورتوں کو بد معاشوں کے پنجہ سے بجائے۔ اور خاص طور پر ایسی معصوموں کو جیسی معصومہ تھی۔ ایک ناہنجار نہ معلوم کہاں سے آ رہا تھا۔ اس نے شاید اس معصوم کو اپنے شکار کیلئے تاڑ لیا تھا وہ زنانہ ڈبے کے پاس آیا اور اس نے معصومہ سے کہا۔ "میاں نے کہا ہے آپ اگلے اسٹیشن پر اتریں کیونکہ نہ یہاں کوئی بند گاڑی ہے اور نہ ڈولی۔” معصومہ سوچنے بھی پائی تھی کہ گاڑی چل دی۔ وہ یہی سمجھی کہ گھر کا ملازم ہے اس سے کہلوا دیا ہو گا۔ اور خود بھی اگلے اسٹیشن پر اتریں گے وہ اطمینان سے بیٹھ گئی۔
راجہ منڈی کے اسٹیشن پر گاڑی جا کر رکی اور یہ شخص معصومہ کے پاس آیا اور کہا "اترئیے یہاں کوئی ڈولی وغیرہ نہیں ہے میاں اسباب لے کر وہ جا رہے ہیں۔ جلدی اترئیے۔” اس کو بھلا بھیڑ میں برقعہ اور چادر میں سے کیا دکھائی دیتا۔ وہ اتر آئی اور اس کے پیچھے پیچھے چلی آئی۔ راجہ منڈی پر بھیڑ زیادہ تو ہوتی نہیں ہے۔ دروازہ کے پاس پہنچ کر معصومہ نے اصغر کو نہ دیکھا تو پھر بھی اس کو تعجب نہ ہوا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ باہر کھڑے ہوں گے۔ وہ باہر آئی تو اس آدمی نے دور ہی سے پکار کر کہا "میاں ادھر آئیے یہ گاڑی موجود ہے۔” معصومہ سمجھی اصغر کو ملازم پکار رہا ہے۔ وہ اس میں بیٹھ گئی اور کھڑکی کا دروازہ کر لیا اتنے میں اس شخص نے کہا "بھی تم گاڑی بڑھا کر پل کے پاس نکالو وہ دیکھو قلی تو ادھر جا رہے ہیں۔”
معصومہ نے ان باتوں پر غور بھی نہ کیا اور گاڑی چل دی اور وہ بھی خوب تیز۔ معصومہ سمجھی کہ قلیوں کے پاس پہنچ کر گاڑی روکی جائے گی اور اصغر معہ اسباب کے آ کر بیٹھ جائے گا۔ وہاں گاڑی تو بے تحاشا جا رہی تھی۔ وہ بالکل نہ گھبرائی مگر یہ سوچتی تھی کہ آخر کس سے اور کیسے پوچھوں کہ اسباب کیوں نہیں۔ کیونکہ وہ نہ تو ملازم سے بات کر سکتی تھی اور نہ کوچوان سے اور نہ کھڑکی کھول کر کسی سڑک والے کو پکار سکتی تھی۔ یہ سب کیوں؟ محض اس وجہ سے کہ جس ماحول میں اس نے تربیت پائی تھی اس کے مذہب میں یہ سب منع تھا۔ وہ چاہتی بھی تو ممکن نہ تھا کیونکہ وہ اس قدر کمزور طبیعت اور معصوم تھی کہ اس سے یہ سب نا ممکن تھا۔
اب معصومہ کو نہ معلوم کیا شبہ ہو رہا تھا۔ کیونکہ گاری بجائے بازار کے سنسان راستہ پر جا رہی تھی اور اس کے اندازہ کے مطابق اب تک گاڑی کو گھر پہنچ جانا چاہیے تھا۔ اس نے سب باتوں پر یکجائی میں غور کیا۔ اور جھانک کر باہر جو دیکھا تو اس کا کلیجہ بیٹھ گیا۔ اس نے پریشان ہو کر کھڑکی پر ہاتھ مارنا شروع کیا اور جب گاڑی نہ رکی تو اس نے کھڑکی کو بلا مارا۔ گاڑی ایک دم سے رکی۔ کھڑکی کھلی اور وہی شخص یہ کہہ کر اندر داخل ہوا کہ "اگر چلائی تو جان سے مار دوں گا” اس نے کھڑکی بند کر لی اور پھر گاڑی چل دی۔ خدا کی پناہ غریب معصومہ کا اس وقت کیا ہو گا۔ کسی قلم میں طاقت نہیں کہ صحیح حالات قلمبند کر سکے۔ وہ زندہ تھی مگر مردہ سے بدتر۔ وہ سہم کر کونے میں سرک گئی۔
وہ شریف عورت معصوم اور فرشتہ سیرت جس نے کبھی کسی نامحرم سے بات تک نہیں کی ہو۔ وہ بھلا کیونکر کسی وحشی ظالم کی دھمکیوں یا دست درازیوں کی متحمل ہو سکتی تھی۔ انتہائی دہشت سے اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور وہ بے ہوش ہو گئی۔
۔۔ ۵ ۔۔
معصومہ کو ہوش جو آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک بستر پر پڑا پایا۔ چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ کیونکہ اس جگہ قید کی سی تاریکی تھی۔ ہوا میں نمی اور تعفن تھی اور بھاری معلوم ہوتی تھی۔ ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھتا تھا اور وہ یہی خیال کر رہی تھی کہ میں زندہ ہوں یا مردہ۔ ایک ہو کا عالم تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا اور معصومہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا کہ ایک دم سے ایک سمت سے کچھ کھٹکا سا ہوا۔ وہ سہم گئی اور تاریکی میں نے ایسی آہٹ سنی کہ جیسے کوئی سانپ کی طرح آ رہا ہے۔” ظالم آ پہنچا۔” اس نے اپنے دل میں کہا "ہائے معصومہ اب یہاں تیرا کوئی یار و مددگار نہیں۔”
اتنے میں ایک دیا سلائی جلی اور اس نے اس خوفناک چہرہ کو دیکھا اس کے بعد ایک کڑوے تیل کا چراغ روشن کیا۔ معصومہ نے چاروں طرف نظر ڈالی تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ شاید کسی تہہ خانہ میں ہے۔
یہ ظالم چارپائی کے پاس آ کر ایک تخت پر بیٹھ گیا۔ معصومہ سکڑ علیحدہ ہو گئی۔ اس نے معصومہ کو کچھ مٹھائی اور دودھ دیا۔ اور اس افسوس کہ اس کو اس نے مار مار کر کھلایا۔
چیونٹی تک اپنے بچنے کی کوشش میں انتہائی کوشش کرتی ہے۔ اور معصومہ نے بھی اپنے کو اس ظالم سے بچانے کے لئے سر توڑ کوشش کی۔ اپنی عمر میں پہلی مرتبہ اس نے نامحرم سے بات کی اور وہ بھی اس طرح کہ ہاتھ جوڑ کر کہا "خدا کے لئے میرے اوپر رحم کرو اور میرے گھر پہنچا دو۔” مگر توبہ کیجئے سنگدل نے غصہ میں آ کر اس کا گلا ایسا سر رگڑ رگڑ کر گھونٹا کہ وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگی اس نے اپنی جان بچانے کی آخری کوشش کی۔ پھر ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہو گئے اور وہ بے ہوش ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہوش میں آئی پھر اس کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ بے ہوش ہو گئی۔
اسی طرح وہ کئی مرتبہ ہوش میں آ کر بے ہوش ہوئی۔
نہ معلوم وہ کتنی دیر تک بے ہوشی کے عالم میں پڑی رہی کہ اس کی آنکھ کھلی اور اس کو معلوم ہوا کہ اب دن ہے۔ اس ہاتھ پیروں میں بالکل جان نہ تھی اور وہ بڑی دیر تک اسی طرح پڑی رہی۔ چاروں طرف وہ اندھیرے میں دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس کو دکھائی دینے لگا۔ وہ ایک تہہ خانہ میں تھی۔ جس کے بیچ میں تین ستون کھڑے تھے۔ بڑی دیر تک وہ اسی طرح پڑی رہی۔ پھر آخر کو اُٹھی اور اُٹھتے ہی سب سے پہلے اس نے چارپائی کی پائنتی کی رسی کھول کر ایک پھندا بنایا کہ وہ اپنی ذلیل زندگی کا جلد سے جلد خاتمہ کرے۔ اس غریب کو یہ بھی نہ معلوم تھا کہ اس طرح جان دینا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ جیسے ہی پھندا سخت ہوتا تھا، ہاتھ خود بخود ڈھیلا ہو جاتا تھا۔ جب ہر طرح اس کو اس میں ناکامی ہوئی تو اس نے ایک پتھر لے کر خوب خوب اپنا سر پھوڑا مگر اس طرح بھی وہ اپنے کو مار نہ سکی تھی۔ وہ مرنے کیلئے تڑپ رہی تھی مگر بھلا موت کہاں۔ آخر تھک ہار کر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد اُٹھی اور اس تہہ خانہ کا کونہ کونہ دیکھا۔ دروازہ اس کا کیا تھا بس آہنی تختہ تھا جو زنگ آلود تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ یہ نہیں کھلتا تو پھر تھک ہار کر چارپائی پر آ کر پڑ رہی اور اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کیا۔ روتے روتے سو گئی۔
نہ معلوم وہ کتنی دیر تک سوئی کہ ایک پریشان خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ اصغر سامنے رنجیدہ کھڑا ہے وہ دوڑی کہ اس نے نفرت سے کہا۔ "تو کس منہ سے اب میرے پاس آئی ہے۔” وہ رک گئی اور اس نے گر کر اپنے پیار سے شوہر کے پیر پکڑ لئے اس نے جھٹکا دے کر چھڑا لیا۔ اور وہ جاگ اُٹھی۔ آنکھ جو کھلی تو وہی سناٹے کا عالم تھا وہ دیوانہ وار اُٹھ اُٹھ کر سر دھنے لگی اور پاگل ہو کر اس نے اپنا سر دیوانہ وار دیوار سے ٹکرا دیا۔ وہ بے ہوش تو نہ ہوئی مگر بے جان ہو کر زمین پر گری۔ وہ اسی حالت میں بڑی دیر تک پڑی رہی۔
سناٹا اسی طرح چھایا ہوا تھا اور وہ اسی طرح بے حس و حرکت پڑی تھی۔ اس کو پہلے تو کچھ شبہ سا ہوا مگر پھر اس نے جب کان لگا کر سنا تو یقین سا ہو گیا کہ کوئی شخص دیوار کی آدھی سے زائد بلندی کے پاس سے کچھ کھود رہا ہے۔ دھماکہ زیادہ زور دار ہوتا جاتا تھا۔ اور وہ اسی طرف دیکھ رہی تھی کہ اتنے میں کچھ مٹی سی اس جگہ سے گری۔ وہ چونکی کہ اتنے میں ایک اینٹ گری۔ اس کا دل دھڑکنے لگا اور وہ ٹھٹک کر دیوار سے لگ کر گرتی ہوئی مٹی اور اینٹوں کو دیکھنے لگی۔ اینٹیں گرنا بند ہو گئیں اور تھوڑی دیر بعد دھماکے کی آواز کم ہو کر بند ہو گئی اور بدستور سناٹا ہو گیا۔ جب بڑی دیر گزر گئی تو وہ اٹھی۔ اس کو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ ظالم پھر نہ آ پہنچے۔ اس نے غور سے دیوار کو اٹھ کر دیکھا۔ جہاں سے اینٹیں اور مٹی گری تھی۔ "کیا عجب کہ میں اسی طرف سے نکل سکوں۔” یہ خیال اس کے دل میں آیا۔ اس نے پلنگ کو گھسیٹ کر دیوار کے پاس رکھا۔ مگر وہ مقام اونچا تھا۔ جہاں سے اینٹ گری تھی۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا اور پلنگ کو ہٹا کر اس کی جگہ تخت کو بڑی مشکل سے کھینچ کر لائی۔ تخت کے اوپر اس نے چارپائی کے دو پائے رکھے اور اس پر کھڑی ہو کر اس نے جہاں سے اینٹیں گری تھیں، اس مقام کا معائنہ کیا۔ ہاتھ سے اس نے مٹی اور اینٹیں ہٹانا شروع کیں۔ اور اس کام میں اس کو کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ کیونکہ وہ جگہ ابھی تازہ کھُدی ہوئی تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں اس نے ایک بڑا سوراخ کر لیا۔ اب نری مٹی ہی مٹی تھی جو اس نے ہاتھ سے ہٹا ہٹا کر گرانا شروع کی۔ لیکن جوں جوں وہ مٹی ہٹاتی جاتی تھی۔ اوپر سے مٹی اور کھسکتی آتی تھی۔ مٹی ہٹانے میں اس کا ہاتھ کسی ٹین کی صندوقچی سے لگا۔ جس کو اس نے پکڑ کر گھسیٹا۔ ساتھ ہی اس کے بہت سی مٹی کھسک آئی۔
صندوقچی چھوٹی سی تھی۔ مگر بہت وزنی تھی اس نے اس کو ہلا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ شاید اس میں روپیہ پیسہ ہے۔ اس میں تالا لگا ہوا تھا۔ ان نے تیزی سے مٹی گرانا شروع کی اور تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھوں میں دن کی چمک معلوم ہوئی۔ اس نے اور مٹی ہٹائی اور جھانک کر دیکھا تو اس کو آسمان کی بجائے شکستہ دیوار سی نظر آئی۔ اور سامنے کچھ اینٹیں اور کوڑا پڑا تھا۔ اس نے جلدی سے سوراخ کو بڑا کیا۔ اور جب کافی بڑا ہو گیا تو وہ اس میں لیٹ کر اوپر نکل آئی۔ اس نے دیکھا کہ میں ایک چھوٹے سے شکستہ مگر اینٹ اور چونے کے غار میں ہوں۔ یہ ایک تنگ جگہ تھی۔ اب وہ سوچ رہی تھی کہ اس صندوقچی کا کیا کروں۔ اگر اسی جگہ چھوڑتی تھی تو اس کو قطعی یقین تھا کہ وہ ظالم آ کر اس کو لے لے گا اور اگر ساتھ لئے جاتی تو اس کا دل گوارا نہ کرتا۔ کیونکہ اس کو پورا یقین تھا کہ ہو نہ ہو اس میں روپیہ ہے۔ جس کو کوئی کنجوس اس جگہ دفن کر کے اس کی رہائی کا باعث ہوا۔ اس نے کچھ سوچا اور آخر کار چور اور گنہگار بننا منظور کیا۔ مگر یہ نہ منظور کیا کہ اگر اس میں کچھ مال و زر ہو تو وہ اس ظالم کے ہاتھ لگے۔ جس نے اس کو زندگی سے بیزار کر دیا تھا۔ جب اس نے یہ طے کر لیا تو ڈرتے ڈرتے کہ کوئی دیکھ نہ لے اس تنگ غار کے باہر جھانک کر دیا۔ اس نے دیکھا کہ میں ایک پرانے زمانہ کے قبرستان میں ہوں۔ جہاں دور تک شکستہ قبروں کا سلسلہ چلا گیا ہے۔ سورج چھپ چکا تھا اور شام ہو گئی تھی۔
۔۔ ۶ ۔۔
جب دھندلکا سا ہو گیا اور اس جگہ اس کو خوف معلوم ہونے لگا تو وہ اس غار سے نکلی۔ وہ کچھ ڈر سی گئی کیونکہ وہ بڑی سی شکستہ قبر مین سے نکلی تھی جو اوپر سے ثابت تھی۔ چاروں طرف شکستہ اور پرانی قبریں نظر آ رہی تھیں اور عجیب خوفناک منظر تھا مگر یہ سب اس مقام سے زیادہ خوفناک نہ تھا۔ جہاں اس کو اس ظالم سے دوبارہ سابقہ پڑنے کا اندیشہ تھا۔
در اصل یہ اس ظالم کا ڈر ہی تھا جو اس جھٹپٹے وقت میں اس کو اس قبرستان میں کسی نامعلوم سمت میں لئے جا رہا تھا۔ ورنہ وہ سہم کر بے ہوش ہو گئی ہوتی۔ دور دور سناٹا تھا اور ایک متنفس بھی نظر نہ آتا تھا۔ وہ اب کچھ نڈر سی تھی۔ کیونکہ موت کی خواہاں تھی۔ وہ تیزی سے اس مقام سے دور ہونا چاہتی تھی۔ نہ اس وجہ سے کہ وہ مردوں کے مسکن میں تھی۔ بلکہ وہاں وہ خوفناک اور تاریک تہہ خانہ تھا۔ وہ اسی طرح تیزی سے چلی گئی۔ اُس کی آنکھیں کسی خاص چیز کو تلاش کر رہی تھیں اور اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے ایک بری کنویں کی چبوتری دیکھی۔ وہ تیزی سے دوڑ کر وہاں پہنچی۔ یہ پرانے زمانہ کا نہ معلوم کن وقتوں کا ایک زبردست کنواں تھا۔ اس نے جھانک کر کنویں کے اندر عمر میں پہلی مرتبہ دیکھا۔ اور اندر کی سیاہی دیکھ کر اس کا دل کانپ گیا۔ مرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اور پھر اس کے لئے جو جوان اور تندرست ہو۔ اس نے اپنے آپ کو عجیب شش و پنج میں پایا۔ اس کو اپنی جوانی کا خیال آیا اور ساتھ ہی اصغر کا خیال آیا۔ پس دل ہی تو مل کر رہ گئی۔ وہ کوشش کر کے اس سے ضرور مل سکتی تھی۔ مگر یہ کیونکہ ہو سکتا تھا۔ "نہیں نہیں میں اب کبھی اصغر کو منہ نہ دکھاؤں گی۔” تو پھر آخر کیا ہو گا۔ دنیا اس کے لئے فوراً اندھیری ہو گئی۔
اس کے لئے مرنا ہی بہتر ہے اور یہ طے کر کے اس نے صندوقچی کو کنویں میں پھینک دیا۔ اس کے گرنے کی صدائے بازگشت ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ سامنے سے کوئی آدمی اندھیرے میں آتا معلوم ہوا۔ وہ سہم سی گئی اور اس نے جلدی سے اسی طرح گریاں و بریاں اپنے کو اس خوفناک کنویں میں ڈال دیا۔
ایک دھماکہ ہوا اور وہ تہ آب تک چلی گئی۔ کہ اس کو پانی نے اوپر پھینکا۔ اس کے ہاتھ پاؤں اس کے کپڑوں میں الجھ گئے تھے۔ مگر اس نے بے اختیاری کے عالم میں زور سے چلا کر ہاتھ پاؤں مارے۔ کیونکہ اس کو در اصل اب معلوم ہوا کہ مرنا کیسا ہے۔ مگر اس کی چیخ کو پانی کے ریلے نے خاموش کر دیا۔ اور وہ تھوڑی ہی دیر کی کشمکش کے بعد ایک بے خبری کے عالم میں ڈوب گئی۔
۔۔ ۷ ۔۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے کو حسین بخش کے گھر میں ایک چارپائی پر پڑا پایا اور تیمار داری کے لئے اس کی بہن تھی۔ اس نے وہاں ہر طرح کا آرام پایا۔ حسین بخش جب سے یہ آئی تھی، چپکے سے گھر میں آتا اور اسی طرح چلا جاتا۔ سوا سات مہینہ بعد اس کے بچہ پیدا ہوا۔
حسین بخش نے جب سے اب تک اس کو اچھی طرح رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ فلک کی ستائی ہوئی ہے۔ اور مظلوم ہے۔ کیونکہ وہ ہر وقت غمگین اور اُداس رہتی اور اس کی بہن ہر طرح اس کا غم دور کرنے کی ناکام کوشش کر چکی تھی۔ لیکن پھر بھی حسین بخش کو پوری امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اس کا غم دور ہو گا اور تب یہ میری گھر والی بن کر رہے گی۔ وہ اپنی بہن کے ذریعہ سے کئی مرتبہ عندیہ لے چکا تھا اور ہر مرتبہ معصومہ کو اپنی راہ پر پختہ پایا تھا۔ کہ وہ اسی طرح زندگی بسر کر دے گی۔ وہ جانتی تھی کہ حسین بخش کے دل کی کیا حالت ہے۔ وہ غلاموں کی طرح اس کی خدمت کرتا تھا اور معصومہ کو بھی اس سے وہ محبت ہو گئی تھی۔ جس کو برادرانہ کہتے ہیں۔ اس کا منہ اس کو بھائی کہتے کہتے سوکھتا تھا اور وہ اس سے بے حد ہمدردی رکھتی تھی۔ کیونکہ اس نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس کو کنویں سے نکالا تھا۔
قصہ مختصر وہ اس وقت تک حسین بخش کے یہاں تھی اور اس وقت وہ حسین بخش کے ساتھ ریل میں اس کے کچھ عزیزوں سے مل کر آ رہی تھی۔ کیونکہ حسین بخش اس کو گھر پر بالکل تنہا چھوڑ کر کہیں باہر نہ جا سکتا تھا۔ کہ قسمت سے اصغر اور ہم مل گئے۔
۔۔ ۸ ۔۔
اصغر کمرے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ معصومہ تصویر غم بنی زمین پر بیٹھی ہے۔ وہ ایک سوسی کا پاجامہ پہنے تھی اور ایک میلا سا سفید چادرا۔ پاؤں میں جوتا تک نہ تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب جاری تھا۔ جیسے ہی اس نے اپنی آنکھیں پونچھ کر اصغر کی طرف دیکھا۔ تو اصغر کے دل پر ایک چوٹ لگی اور وہ بے تاب ہو کر اس کی طرف لپکے۔ کیونکہ واقعی اصغر کی محبت معصومہ سے عشق کا درجہ رکھتی تھی۔
"خبر دار مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ الگ الگ” معصومہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ اصغر ایک دم سے ایک غیر معمولی برتاؤ کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ کیونکہ وہ تو یہ سمجھے تھے کہ وہ مجھے دیکھتے ہی لپٹ کر بے ہوش ہو جائے گی۔ اس کے منہ سے ایک دم سے نکلا "معصومہ” اور یہ کہہ کر وہ پھر بڑھا کہ معصومہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا "الگ الگ، خبردار مجھے ہاتھ نہ لگانا۔”
اصغر نے متعجب ہو کر کہا۔ "یہ کیوں۔”
معصومہ نے ٹھنڈی سانس بھر کے اصغر کی طرف عجیب طرح دیکھا۔ اور کہا،
"افسوس میں تمہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ اور یہ محض اتفاق تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔”
"ورنہ” اصغر نے کہا۔
"میں عمر بھر تمہیں منہ نہ دکھاتی۔” معصومہ نے کہا۔ "یہ بچہ تمہارا ہے۔ تم اسے لے لو اور میرا قصہ پورا سن لو۔ اس کے بعد طے کرنا کہ میں تمہارے کام کی ہوں یا نہیں۔”
اصغر کو حقیقت کا شبہ ہونے لگا۔ اور اس رکتے رکتے کہا۔ "مگر مجھے تو کہا گیا ہے کہ حسین بخش۔ حسین بخش۔۔۔۔۔”
"وہ میرے سگے بھائی کے برابر ہے۔” معصومہ نے کہا۔
"پہلے میرا قصہ سن لو۔” معصومہ نے کہا۔ "جلدی نہ کرو۔ ”
یہ کہہ کر اس نے اپنی دل ہلا دینے والی داستان رو رو کر بیان کرنا شروع کی اور بے کم و کاست شروع سے لے کر آخر تک پورا قصہ من و عن سنا دیا۔
اصغر کے اوپر کمزوری نے غلبہ کیا ور وہ نظر نیچی کئے ہوئے سوچ رہا تھا۔ اس کے دل کا تمام جوش الفت کافور تھا۔
"میرے مالک میرے اوپر رحم کرو۔” یہ کہہ کر معصومہ اٹھ کر آئی اور اس نے اصغر کے پاؤں پکڑ لئے۔ اصغر کو مطلق جنبش نہ ہوئی۔ کہ اس نے کہا۔ "مجھ کو لونڈی کی طرح ایک کونہ میں پڑا رہنے دینا اور میں اپنی بقیہ ذلیل زندگی تمہارے قدموں میں ہی کاٹ دوں گی۔ تم کوئی دوسری شادی کر لینا۔”
اسی طرح گڑگڑا کر نہ معلوم کیا کہتی رہی کہ اصغر نے غور سے پھر معصومہ کی طرف دیکھا اور کچھ سوچ کر پوچھا۔ "تم نے پھر مجھ کو کوئی خط بھی نہ لکھا۔ اگر چاہتیں تو خط لکھ سکتی تھیں۔”
"اگر میں چاہتی تو بجائے تہہ خانہ سے نکل کر کنویں میں گرنے کے تمہارے پاس آنے کی کوشش بھی کر سکتی تھی اور عجب نہیں کہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتی اور پھر اگر چاہتی تو تم سے اپنی ذلت کو چھُپا بھی سکتی تھی اور جھوٹ بھی بول سکتی تھی۔” معصومہ نے روتے ہوئے کہا۔ اس جملے نے اصغر پر عجیب اثر کیا۔ کیا یہ واقعہ نہ تھا کہ اگر وہ اس سے کچھ نہ کہتی تو اس کو اس کی ذلت کا علم بھی نہ ہوتا۔ خدا کی قدرت کہ اصغر ایسی شخصیت میں پرانے فلسفہ پر اسلامی فلسفہ عصمت و عفت غالب آیا۔ اور اس نے کچھ غور کر کے کہا "معصومہ” وہ چپ ہو گیا اور پھر بولا۔ "تمہاری اس میں ذرہ بھر خطا نہیں۔ در اصل مجھ کو آج نہیں بلکہ ابھی معلوم ہوا کہ در اصل پاک اور معصوم وہ ہے کہ جس کا دل تمام گندگی سے پاک ہے۔ خواہ اس کا جسم گندہ ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ جس کا جسم پاک ہے مگر دل اور روح پاک نہیں وہ در اصل کسی طرح بھی پاک نہیں۔ تیرے اوپر اگر کسی ملعون نے غلاظت ڈال دی تو تو نے اس کو اپنا گلا گھونٹ کر اور کنویں میں گر کر دھو ڈالا اور اب تک دھو رہی ہے۔ اگر تو چاہتی تو تو بیشک مجھ کو اپنی مصیبت کا علم ہی نہ ہوتا۔ اور وہ در اصل بہت ہی بُرا ہوتا۔ مگر چونکہ تو پاک اور صاف ہے اور معصوم اور سچی ہے لہٰذا تو نے سچ بولا۔ میں ہرگز بغیر ایسی بیوی کے زندہ نہیں رہ سکتا۔”
جملہ مشکل سے پورا ہوا تھا کہ معصومہ کے منہ سے ایک خوشی کی چیخ نکلی اور وہ وہیں اصغر کے قدموں میں بے ہوش ہو کر گر گئی۔ اصغر نے اٹھ کر اپنی عصمت مآب اور سچی بیوی کو اپنے گلے سے لگا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہم الگ کمرہ میں بیٹھے تھے اور سمجھے تھے کہ چاندنی اندر زنان خانے میں گئی ہے کہ وہ آنکھوں سے آنسو پونچھتی ہوئی آئی۔ ہم نے کہا "ارے یہ تجھے کیا ہوا” تو اس نے اپنی چوری کا قصہ سنایا کہ وہ کس طرح بے ایمانی سے دروازہ کے ایک سوراخ سے میاں بیوی کی ملاقات دیکھ اور سن رہی تھی۔ ہم نے اس کی کمزوری اور چوری پر اس کو بہت کچھ برا بھلا کہا۔ مگر وہ تو اب سن آئی تھی اور خدا کو یہی منظور تھا کہ یہ قصہ مرتب ہو کر باعث عبرت ہو۔
۔۔ ۹ ۔۔
حسین بخش غریب اب بھی خوش تھا۔ اور در اصل اس کو حقیقی خوشی ہوئی ہو گی۔ کیونکہ وہ شریف دل تھا۔ معصومہ نے اس کو اس کی خدمت کا یہ صلہ دیا کہ جس طرح اس کو بھائی کہتی آئی تھی۔ اسی طرح اس کو اب بھی بھائی سمجھا۔ اور اس صندوقچی کا پتہ دیا۔ جو اب تک اسی کنویں کی تہہ میں پڑی تھیں۔ جس میں سے اس نے معصومہ کو اپنی جان پر کھیل کر نکالا تھا۔ اس صندوقچی کو اب تک معصومہ ایک امانت سمجھی تھی۔ لیکن اب اس کو اسی طرح پڑا رہنے دینا بیکار معلوم ہوا۔ اس میں سے ساڑھے چار ہزار کی قیمت کی جھاڑ شاہی مہریں نکلیں۔ جو حسین بخش کی محبت اور خدمت کا بہترین صلہ تھیں۔
بُرا وقت کسی پر کہہ کر نہیں آتا۔ اس دنیا کی جد و جہد میں کمزور اور بے بس ہونا کوئی قابل تعریف صفت نہیں۔ ہر مذہب و معاشرت نے شرم و حیا اور پردے کا کوئی نہ کوئی درجہ مقرر کر دیا ہے۔ اور اس میں مبالغہ کرنا ممکن ہے کہ کسی طرح مفید ہو۔ مگر خطرناک ضرور ہے۔ ایسی بے بس عورتیں در اصل نہ تو شوہر کی کچھ خدمت کر سکتی ہیں اور نہ مذہب اور قوم کی۔ کیا ضرورت کے وقت معصومہ کی سی ہی عورتیں پردے سے نکل کر تلوار چلائیں گی؟ کیا ہم ایسی ہی عورتوں کے بل بوتے پر آزادی لیں گے؟ کیا ایسی ہی عورتیں ترکی یا ردیف میں رہتی ہیں۔ جنہوں نے موقع پر مردوں سے کہا کہ جاؤ تم میدان جنگ کو سدھارو، اور دنیا کے کام ہم سنبھالتے ہیں۔ اور وقت پڑے تو ہمیں بلا لینا۔ ہم تمہارے پہلو بہ پہلو دشمن کی گولیوں کا سامنا بھی کریں گے۔ ان عورتوں نے جو کہا وہ کیا۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہماری غلامی کا سب سے بڑا یہی راز ہے۔ پردہ کرانے کو اور برقعہ پہنانے کو مانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور خدا کے علاوہ اور کوئی منع نہیں کرتا۔ مگر خدا کے واسطے عورتوں کی بے کسی اور بے بسی پر رحم کر کے ان کو ملک اور قوم کے لئے کارآمد بناؤ۔
٭٭٭
ٹائپنگ:
نایاب حسن نقوی (مرحوم)، محمد شمشاد خان (مرحوم)، ابو کاشان، جنید، عائشہ عزیز، فہیم اسلم، ذو القرنین، جاوید اقبال، سید زلفی، ذیشان حیدر، مبارز الدین کاشفی، خرم شہزاد خرم ، اعجاز عبید (اراکین اردو محفل مرحوم http://urduweb.org/mehfil)
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں