اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


جہان معنی کا طلسم… احمد رشید کے افسانے ۔۔۔ مرتبہ: اعجاز عبید

احمد رشید کے افسانوں پر تنقیدی نظریں

جہان معنی کا طلسم… احمد رشید کے افسانے

مرتبہ

اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

 

جہان معانی کا طلسم

احمد رشید  کے افسانے

 

 

مرتبہ: اعجاز عبید

 

 

 

فلسفۂ زیست کی کہانیاں /علی احمد فاطمی

کہانی کا فن اگر چہ کہنے سننے کا فن ہے جسے عام طور پر تفریحِ طبع کی حد تک محدود کیا جاتا رہا ہے۔ اس خیال کو لے کر آج بھی بزرگوں کی آراء میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ ادب کا مطلب شاعری اور شاعری کا مطلب غزل گوئی سے ہی لیتے ہیں۔ ادب اور تفریح کے اس تصور نے بھی خاص گمراہیاں پھیلائی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بڑے سے بڑے کہانی کار نے سنجیدہ سے سنجیدہ موضوع کے ساتھ دلکشی و دلچسپی کے عناصر قائم رکھے ہیں کہ کہانی کی پہلی شرط اس کا کہانی پن ہے جس میں پڑھائے جانے والی کیفیت کا ہونا نا گزیر ہے اور کوئی کہانی جس میں دلچسپی ہو اور سنجیدگی نہ ہو ایسا بھی ضروری نہیں لیکن ان سب کا انحصار اس پر کرتے ہیں کہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ کہانی کار یا تخلیق کار کا اصل مقصد کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کہانیاں سلانے کے لیے کہی جاتی تھیں لیکن تاریخ اور وقت کے ساتھ یہ عمل رخصت ہوا۔ تخیل کے ساتھ حقیقت کے رشتے استوار ہوئیے۔ کہانی نہ صرف سچے کو لے کر آگے بڑھی اور جگانے کا نام رکنے لگی اور اب تو ایک قدم اور آگے بڑھ کر وہ صرف سچائیوں کو ہی پیش نہیں کرتی بلکہ ایک نئی سچائی کو جنم بھی دیتی ہے اور یہیں سے کہانی کا فن فکر و نظر اور جمال و جلال سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ اب کوئی کہانی خواہ وہ بظاہر کتنی ہی آسان کیوں نہ ہو گہرائی اور گیرائی اور افہام و تفہیم کی نئی نئی پرتیں کھولتی نظر آتی ہے۔ کچھ یہ بھی ہوتا ہے کہ عمدہ اور بڑی کہانیاں کئی سطح پر اپنا کام کرتی ہیں۔

اس مختصر سی تمہید کے بعد جب میں احمد رشید کے افسانے پڑھتا ہوں تو مجھے اپنے خیالات کو تقویت ملتی ہے اس لیے کہ رشید کی یہ کہانیاں جو ان کے تازہ افسانوی مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ میں شامل ہیں صرف کہنے سننے کے عمل سے نہیں گزرتیں بلکہ ان می وہ ساری کیفیات و حسّیات موجزن ہیں جو آج کی جدید کہانیوں کے لیے ضروری ہوا کرتی ہیں۔ میں کہانی کو جدید و مابعد جدید تناظر میں دیکھنے کا عادی نہیں اس لیے کہ کہانی، کہانی ہوتی ہے البتہ وقت کے ساتھ فکر و فن کے معیار اور تعداد ضرور بدلتے رہتے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے لیکن سنجیدہ و با شعور فنکار اسے فکری عمل میں تبدیل کرنا چاہتا ہے بشرطیکہ کہانی—–کہانی ہی رہے —– اس لیے کہ کہانی لکھنے لکھانے کا بقول مصنف بننے بنانے کا عمل فنکارانہ ہے لیکن یہ اس کی ذات سے متعلق ہے لیکن افسانہ کا تعلق کائنات سے ہوتا ہے۔ ذات اور کائنات کا یہ خوبصورت امتزاج بلکہ انجذاب مختلف تجربے بھی کرتا ہے غور و فکر پر مجبور بھی کرتا ہے اس لیے کہ عمدہ اور سنجیدہ کہانی کار صرف فنکار نہیں ہوتا بلکہ مُفکر اور دانشور بھی ہوتا ہے۔ اس کا ثبوت احمد رشید کے تازہ افسانوں کے مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کی پہلی کہانی ’’کہانی بن گئی؟‘‘ سوالیہ نشان کے ساتھ —–کوئی چاہے تو سوال کر سکتا ہے کہ کہانی بنتی ہے یا ہوتی ہے یا لکھی جاتی ہے وغیرہ۔ خیر یہ الگ بحث ہے لیکن اس سوال میں جو مباحث ہیں وہ بھی افسانوی انداز کے وہ خاصے توجہ طلب ہیں۔ کئی کردار، کئی مناظر اور کئی اشارے۔ زندگی کے مختلف نظارے۔ یہ جملہ دیکھئے:

’’یہ کُتّے —یہ انسان۔ فرسٹ کلاس۔ تھرڈ کلاس—–جس کے بیچ بٹ گیا انسان—-یہ تقسیم فطرت کی—–زمین کی، ندی کی۔ پانی کی جب اپنی سوچ کو میں نے منطقی ربط دینے کی کوشش کی تو میری نظر غیر منقسم آسمان کی طرف اٹھ گئی جس کے نیچے ٹکڑے ٹکڑے زمین شرمندہ تھی۔‘‘

یہ صرف جملے نہیں ہیں بلکہ مصنف کے مضطرب جذبات و احساسات ہیں۔ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور قلم کار کے ذہن میں گونجتے ہیں۔ زندگی اور افرادِ زندگی کے مابین رشتوں کی عجیب و غریب گونج—-اس کی پُر اسراریت—پھر انسان اور انسان کے درمیان جنسی فرق اور ذہنی تفریق کہ کائنات کو سمجھنا نسبتاً آسان ہے لیکن انسان کی ذات، ذات کے پیچھے زخم، کیف و کم کو سمجھنا بے حد مشکل۔ اس لیے کہ بقول مصنف—- ’’فرد اپنی ذات میں خود ایک کائنات ہوتا ہے —‘‘ اس لیے یہ سوال بھی اہم ہو جاتا ہے کہ ’’کائنات اور حیات کے تعلق اے انسان کو سمجھنے کی کوشش کو تخلیق تجربہ نہیں کہیں گے —–؛‘‘ ایک معنی خیز سوال—–سو دل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کے ذریعہ کائنات کو سمجھا جائے یا کائنات کے ذریعہ انسان کو—–راستہ کوئی بھی ہو غزل انسان ہی ہے۔ مرکز و محور ہے حضرت انسان کہ وہ تو اپنی طاقتوں سے پوری کائنات کو مسخر کر لیتا ہے۔

سماجی ارتباط۔ تہذیبی اختلاط۔ ان کے تضادات و تصادمات کا تعلق بھی انسان سے ہی ہے۔ جملہ فنون لطیفہ۔ شعر و ادب سب کہ سب اسی کے افکار و اقدار، کردار و گفتار۔ آثار و آزاد کے ارد گرد رقص کرتے ہیں۔ ردِّ عمل تخلیق کی بنیاد ضرور ڈرتی ہے لیکن محض رد عمل سے سنجیدہ اور تہہ دار کہانیاں ہو پانے کا راستہ قدرے مشکل ہے اس لیے کہ کہانی صرف واقعہ نہیں ہوتی بلکہ ایک نظریہ اور فلسفہ ہوتی ہے بقول لارنس فکشن جب تک فلسفہ نہ بن جائے بڑا فکشن کہلائے جانے کا حقدار نہیں ہوتا۔ اس کہانی نما مضمون کے چند با معنی جملے ملاحظہ ہوں:

’’زندگی کی بد صورتی کا اظہار ہی ان کے فن کی خوبصورتی ہے۔‘‘

’’موضوعات کی کمی نہیں — مسئلہ زندگی کے ساتھ رویے اور برتاؤ کا ہے۔‘‘

’’زندگی کے رویوں کا حقیقی اظہار ہی فنّی جمال ہے۔‘‘

’’انسان کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کا بیان فن کی معراج ہے۔‘‘

آخری بیان ملاحظہ کیجئے —– اس میں انسان کا ذکر ہے مرد اور عورت کی تقسیم نہیں —-اس آخری جملہ کی بلاغت اور دیگر جملوں کی معنویت نہ صرف اس مضمون/انٹر ویو نما افسانہ میں مصنف کے نظریۂ حیات کو واضح کرتی چلتی ہے بلکہ اس کا بھی اندازہ ہوتا چلتا ہے کہ انھیں خیالات و نظریات کے تانے بانے میں پھیلا ہوا ہے اور رشید کا تخلیقی سفر اس لیے کہ اس کہانی میں یہ بلیغ جملے ملتے ضرور ہیں لیکن مختلف کہانیوں سے مستعار لے کر بس لیے گئے ہیں۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک عورت ہے لیکن با شعور انسان کی شکل میں پھر مصنف کا تو یہ بھی خیال ہے کہ —– ’’عورت خوبصورت ہو یا بد صورت بڑھاپے میں مرد ہو جاتی ہے۔‘‘ عجیب خیال ہے لیکن ہے غور طلب جیسا کہ اس مجموعہ کا نام ہی غور طلب ہے۔ ایسی کئی غور طلب اور کہیں کہیں چونکا دینے والے خیالات ان کہانیوں میں بکھرے پڑے ہیں جس کی طرف فکشن کے ممتاز ناقد پروفیسر صغیر افراہیم نے عمدہ طریقہ سے نشاندہی کی ہے جس نے مجھے بعض کہانیوں کے مطالعہ پر مجبور کر دیا۔ ایک اچھے تنقیدی مضمون کی ایک خوبی یہ بھی ہوا کرتی ہے۔ چند جملے انھیں سے مستعار لے کر گفتگو کو انجام تک پہنچاؤں گا۔ ملاحظہ کیجیے:

’’وہ اپنی ٹانگوں کے درمیان مذہب چھپا کر بھاگنے لگا۔‘‘ (سہما ہوا آدمی)

’’مجھے بس اپنی کائنات میں لے چلو جہاں عورت کو صرف عورت سمجھا جائے۔‘‘

(ایک خوبصورت عورت)

’’اب ہجڑوں کی دنیا سے تنگ آ چکی ہوں —–جہاں گؤ کُشی کی مذمت اور انسان کشی کی حمایت کی جاتی ہے۔‘‘ (ایک خوبصورت عورت)

’’جب انسان، انسان کو ستاتے ہیں تو دنیا تماشا دیکھتی ہے۔‘‘

(بھورے سید کا بھوت)

’’اگر انسان کو اس کی فطرت کے مطابق زندہ رہنے کا موقع مل جائے تو یہ زندگی کی معراج ہے۔‘‘ (فیصلے کے بعد)

’’مجھے انتظار ہے ایک ایسی قوت کا جو رات کی ظلمت کو پھاڑ کر صبح کی روشنی نمودار کر دے۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی(

اور پھر کتاب کے عنوان کے تحت یہ بامعنی جملہ بھی:

’’عورت کی بھی تخلیق ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے۔ اسے سیدھا کرنے مین سختی برتی گئی ہے تو ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔‘‘ (فیصلے کے بعد)

کتاب کے عنوان اور عورت سے متعلق ان جملوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ احمد رشید عورت کو جسم و جنس سے بالاتر ہو کر ایک انسان کے روپ میں دیکھتے ہیں اور اس انسان کو جس میں مرد عورت بچے بوڑھے سبھی شامل ہیں۔ حیات و کائنات کے سیاق و سباق میں دیکھتے ہیں اس کے وجود و عدم وجود۔ اس کے مظالم اس کی مجبوریاں اور لا چاریاں۔ یہاں میں ان کی ایک کہانی ’’حاشیہ پر‘‘ کا ذکر بطورِ خاص کرنا چاہوں گا جو بظاہر ٹرین کے سفر سے شروع ہوتی ہے جو در اصل زندگی کا سفر ہے۔ کہانی کا ابتدائی جملہ ہے —– ’’۔۔۔۔۔۔۔ ایک بے سمت مسلسل سفر ہے۔‘‘ ٹرین کا سفر بے سمتی کا نہیں ہوتا انسانی زندگی اکثر بے سمتی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ٹرین میں بے ہنگم شور—-زندگی کا شور ہے۔ مسافروں میں ایک وکیل بھی ہے اور ایک ڈاکٹر بھی۔ مکالمے میں مشاہدے اور تجربے بھی—–ٹریک کے جھٹکے کے ساتھ رکنا اور مسافروں کو چونکانا وکیل کا یہ کہنا—– ’’وکیل کا یہ کہنا—- ’’زندگی بھی اسی طرح انسان کو چونکا دیتی ہے۔‘‘ کچھ اور سماجی، سیاسی باتیں جس میں ہندوستانی سماج کی تہذیبی صورتیں ابھرتی ہیں۔ ان صورتوں کا معنی خیز پہلو وہ تضاد ہے جو وکیل، ڈاکٹر معلم کے مکالموں سے برآمد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر زندگی سے مایوس ہے وکیل انصاف سے اور معلم جو بظاہر شخصیت کا معمار ہوتا ہے لیکن وہ اس تعمیر پر زور دار قہقہہ لگاتا ہے۔ انھیں مکالموں کے درمیان چند فکر انگیز خیالات غور و فکر پر مجبور کرتے ہیں:

’’انسان جہاں ناکام ہوتا ہے وہاں سے تقدیر اور خدا کے وجود کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘

’’ہاں زندگی پر تھوڑا بہت اختیار ہے لیکن موت کے آگے ہر انسان مجبور ہے۔ اسی مجبوری کا نام خدا ہے۔‘‘

’’حیرت ہے اچھے تیراک کی موت ڈوبنے سے ہوتی ہے۔ زندگی موت کے سامنے کس قدر مجبور ہے۔‘‘

’’خوف گھر میں موت کا نہیں، غم یہ ہے کہ اپنے ہی گھر میں زندہ کیسے رہیں۔ یہ خوفناک احساس خود بخود نہیں بلکہ ہمارے اندر پیدا کیا گیا ہے۔‘‘

کہانی میں بلیغ و بالیدہ سیاسی اشارے بھی ہیں لیکن ان کا تعلق راست طور پر آج کی زندگی سے ہے۔ لاچاری سے بھی ہر چند کہ یہ موضوعات نئے نہیں ہیں۔ ابتدا سے ہی ان موضوعات پر لکھا جاتا رہا ہے۔ سوالات بھی قائم کیے جاتے رہے ہیں تاہم جب تک انسان ہے اس کے تصادمات جاری ہیں اور تصادمات ہیں تو سوالات بھی ہیں اور جوابات بھی۔ ان کشمکش اور جد و جہد کا یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کہانی کار کا کام یہ ہے کہ اس سلسلۂ کشمکش کو اپنے فکر و فن کے احاطہ میں اسیر کرے۔ سوالات اور خیالات کے مفکرانہ و فنکارانہ سلسلہ دراز کرے اور قارئین کو بیدار کرے۔

اچھی بات یہ ہے کہ احمد رشید کی کہانیاں نئے سیاق و سباق میں آج کی زندگی کی پرتیں کھولتی نظر آتی ہیں۔ متوجہ کرتی ہیں۔ غور و فکر پر مجبور کرتی ہیں۔ سب سے زیادہ یہ کہ احساس و اضطراب کی حدوں کو چھونے لگتی ہیں۔ ادب مزاحمتی ادب یا ترقی پسند ادب وغیرہ سب سے بڑا مقصد یہی ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو شریک کرے۔ سوچنے سمجھنے پر مجبور کرے۔ سماج اور دنیا کے حالات سے بے چینی اور بے اطمینانی ظاہر کرے۔ شہر یار نے یونہی نہیں کہا تھا ؎

زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے

ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے

آج کی تخلیق—-آج کا افسانہ ایک بار پھر زندگی کی شاہراہ پر آ گیا ہے۔ عام انسانوں کی زندگی کی حرکت و حرارت پر انگلیاں رکھ رہا ہے۔ گہرے سماجی شعور کا علم بلند ہو رہا ہے۔ آج غضنفر دلت کرداروں کے ذریعہ بہت سارے سوالوں کو جنم دیتے ہیں۔ پیغام آفاقی مانیائی ادب کی کرشماتی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ ذوقی فسادات کے درد و کرب دہراتے ہیں۔ شوکت حیات افغانستان کا بارودی ماحول پیش کرتے ہیں تو یہ صرف آج کی تصویر یں ہی پیش نہیں کرتے بلکہ حسن و جمال، فکر و خیال کی ایک نئی تعریف بھی کرتے ہیں۔ جب نگار عظیم کی عورت ظلم کے خلاف بندوق اٹھا لیتی ہے۔ ترنم ریاض کا بچہ کھلونوں کی جگہ پستول اٹھا لیتا ہے اور غزال ضیغم کی نیک پروین شوہر کے آگے جھکنے کے بجائے فائر فلم دیکھنے چلی جاتی ہے اور اسی طرح احمد رشید کی عورت حیات و کائنات کے اس بے ہنگم شور اور ناہموار نظام پر سوال در سوال قائم کرتی ہے تو سماجیات کی ایک نئی تصویر بھی ابھرتی ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک نیا تخلیقی و جمالیاتی تصور بھی ابھر کر سامنے آتا ہے جو گذشتہ تصورِ فکر و فن کو نہ صرف توڑتا ہے بلکہ ایک نئے تصور کو جنم بھی دیتا ہے لیکن ہمارے نقادانِ ادب تخلیق کی ان صورتوں سے بے خبر مدرسہ کی قیل و قال اور تھیوری کی اُلجھی ہوئی بحثوں میں قید ہیں جسے صرف فرار کی صورت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اب ہر ایک راست تخلیق پر باتیں ہوں۔ ان کی تخلیقات کی جن میں آج کا انسان زندہ ہے۔ اور آج کا ہندوستان اور اب تو عالمی جنگ و جدل کی بھی بت کرنی ضروری ہے کہ خون عراق میں بہے یا گجرات میں خون انسان کا ہی بہتا ہے اگر انسان اپنی عزت و حرمت کے ساتھ زندہ ہے تو کہانیاں بھی زندہ رہیں گی حضرت انسان کی سلامتی و بہبودی ہمارا اولین فرض ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ احمد رشید کی یہ کہانیاں انسان کے دکھ درد—–اس کے حالات، آج کی نفسیات کے ارد گرد بڑے سلیقہ مندی اور ہنر مندی سے اپنی بات کہتی نظر آتی ہیں۔ ان کا اثباتی و رجائی نظریہ۔ ان کی کہانیوں کو بڑے تصورات سے ہمکنار کرتا ہے۔

٭٭٭

احمد رشید کے افسانے/ شافع قدوائی

فکشن علی الخصوص افسانہ میں زندگی کا التباس اس قدر قوی ہوتا ہے کہ اسے عموماً روز مرہ کے حقائق اور مانوس تجربات کا ترجمان گردانا جاتا ہے تاہم افسانہ زندگی کا عکاس یا آئینہ نہیں بلکہ یہ خود اس عالم رنگ و بو کے متوازی کائنات کا خاکہ مرتب کرتا ہے کہ یہاں بیان کردہ تجربہ کسی خارجی توثیق کا دست نگر نہیں ہوتا۔ عصری حقائق کی تنزیہہ اچھے افسانے کی امتیازی صفت ہے۔ تمثیل اور مرکزی موتیف کے حوالے سے عام واقعات یا تجربات کو ایک لا زمانی اور ماورائی جہت عطا کرنا افسانہ نگاری کی فنی ہنر مندی کو خاطر نشاں کرتا ہے۔

زندگی کے مختلف مظاہر، اس کی رنگا رنگی، بو قلمونی اور ارتقاء و افزونی کے مختلف مراحل کو تخلیقِ کائنات کے قدیم آرکی ٹائپ سے مربوط کرنا اور تخلیق کے ازلی مِتھ کی معنویت عصری سماجی تناظر میں واضح کرنا ایک تازہ کار افسانہ نگار احمد رشید کے جن کے بعض افسانے برِ صغیر کے مقتدر جرائد مثلاً ’’جواز‘‘، ’’شاعر‘‘ اور ’’آہنگ‘‘ میں شائع ہو کر خراجِ تحسین وصول کر چکے ہیں، فن کا بنیادی رمز ہے۔

احمد رشید کے افسانے ’’وہ اور پرندہ‘‘، ’’برف تلے‘‘، ’’بن باس کے بعد‘‘، ’’صدیوں پر پھیلی کہانی‘‘ اور ’’سراب‘‘ میں تخلیقِ کائنات کے آرکی ٹائپ اور اس سے متعلق اساطیری کرداروں اور روایتی عقائد و توہمات کی معنویت عصری تناظر میں واضح کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی یہ کہانیاں ما بعد جدید تصورِ ادب ’’بین المتونیت‘‘ سے تخلیقی سطح پر استفادہ کی خبر دیتی ہیں۔ افزونی حیات کے باوجود قوتِ تخلیق سے محرومی آج کے انسان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ زندگی کرنے کے مخصوص ڈھب پر اصرار اور آزادیِ عمل کی ازلی انسانی خواہش پر معاشرتی اور مذہبی تجدید انسان کو تقلید کی سعی رائگاں پر کیسے مجبور کرتی ہے، احمد رشید کا افسانہ ’’سراب‘‘ اس اجمال کی تفصیل پر دال ہے۔ تخلیق کے مختلف مظاہر اور امکانات اپنی معنویت سے کیوں عاری ہو گئے ہیں، اس استفسار کا جواب سماجی سروکاروں میں مضمر ہے:

’’اور جب ہم لوٹیں گے تو اس جمِ غفیر میں ’’ہمیں‘‘ پسر ابن مادر فلاں سے پکارا جائے گا لیکن وہ تخلیق جو آنکھ کھلنے پر آسمان باپ اور زمین ماں کو دیکھتی ہے پھر وہ اپنی پہچان کی جستجو میں بھاگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’پاپا کل پھل لانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل میری بچی نے کہا۔‘‘

’’میں یہ کیسے کہوں کہ درخت سوکھ گئے اور اب زمین پانی کی جگہ پٹرول اگلتی ہے جو پیاس بجھانے کا سبب کم، پیاس کا سبب زیادہ بنتا ہے۔‘‘

’’سراب‘‘ میں بظاہر شناخت سے محرومی کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے جو جدیدیت کا محبوب موضوع رہا ہے، تاہم یہاں تلاش میں ایک مثبت نقطہ بھی مستتر ہے:

’’اور میں خوف زدہ ہو کر پھر اسی جمِ غفیر میں شامل ہو گیا جس میں میرے بزرگ شامل تھے، پاداش کا صراطِ مستقیم تلاش کرنے کے لیے۔‘‘

’’وہ اور پرندہ‘‘ ایک گہرے مذہبی احساس اور روحانی تجربے کی کہانی ہے جس میں مذہب یا عقیدہ اپنے آخری تجزیے میں ایک عافیت کوش تجربے میں منقلب ہو جاتا ہے۔

احمد رشید نے زندگی کے متخالف اور متضاد رویوں کی بیک وقت تفہیم اور ترسیل کی خاطر قولِ محال Paradox سے بھی استفادہ کیا ہے اور اکثر افسانوں کا Structure بھی تضاد پر استوار کیا ہے۔ ان کا ایک افسانہ ’’فول۔۔۔۔۔ پھول‘‘ کا طنز اور تضاد کی باہمی آمیزہ سے اُٹھایا گیا ہے۔ جنس جو بظاہر ایک نشاط انگیز اور بہجت افزا تجربہ ہے، شعوری طور پر سختی اور جارحانہ رویے سے بھی عبارت ہوتا ہے۔ انسان اپنے کمزور لمحوں میں اپنی سوچی سمجھی رائے کیسے چشم زدن تبدیل کر دیتا ہے، ’فول۔۔۔۔ پھول‘ کا مرکزی موضوع یہی ہے۔

افسانہ ’’پیشین گوئی‘‘ معاشرتی جبر و سیاسی استبداد کو تمثیلی پیرایہ میں ایک حکایت کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اس افسانہ میں فن کی پیش قیاسی کی–زیریں قوت کو بھی نشان زد کیا گیا ہے تاہم یہاں علامتیں بہت واضح ہو گئی ہیں۔

جنس محض تسکین کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ اس میں الوہیت اور تقدیس کا بھی ایک پہلو مستتر ہوتا ہے جنسی محرومی شخصیت میں کیسی کیسی گرہیں ڈال دیتی اور بظاہر نارمل انسان کیسے کیسے Complex کی آماجگاہ بن جاتا ہے ’’تیسری شخصیت‘‘، ’’لال تکون‘‘، ’’برف تلے‘‘ اور ’’بن باس کے بعد‘‘ وغیرہ افسانے اسی مرکزی موضوع کی تشریح سے عبارت نظر آتے ہیں۔ جنس تخلیق کا نقشِ اول اور نقشِ آخر دونوں ہے، احمد رشید نے اپنے افسانوں کی بافت میں اس نکتہ کو بھی اساسی اہمیت دی ہے جس کے باعث ان کے افسانوں پر لذتیت کے سائے لرزاں نظر نہیں آتے۔

’’وہ باریش انسان‘‘ اور ’’کرما‘‘ وغیرہ افسانے عنوان کے حوالے سے موضوع کیFore throwing کرتے ہیں۔ باریش انسان در اصل انسان کا ضمیر ہے جو بعض دوسرے افسانوں میں ’’پرندے‘‘ کے موتیف کے حوالے سے بھی متشکل ہوا ہے۔

’’بن باس کے بعد‘‘ در اصل نسائی حسیت کی مختلف جہتوں کو فنکارانہ شعور کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اس افسانہ کی ماورائی، مذہبی اور اساطیری فضا در اصل مذہبی اجارہ داری کے خلاف شعوری صدائے احتجاج کی چغلی کھاتی ہے۔ اسی طرح ’’کہانی کہتی ہے‘‘ الفاظ اور صوت و صدا کی وساطت سے تخلیق کائنات پر سوالیہ نشان قائم کیا گیا ہے اور مروجہ اخلاقی معیاروں کو آخری سچائی کے طور پر قبول کرنے سے بھی برملا انکار کیا گیا ہے۔

’’پرندے پکڑنے والا‘‘ بھی اصلاً تمثیلی کہانی ہے جو بڑے اور چھوٹے کے فرق کو ایک نیا تناظر عطا کرتی ہے۔ جسمانی ہیئت یا حجم جو ایک زر پرست اور بازارِ اساس معاشرہ میں ایک قابلِ وقعت قدر (Value) کی صورت اختیار کر جاتی ہے، کیسے بعض صورتوں میں بوجھ بن جاتا ہے، ’’پرندے پکڑنے والا‘‘ افسانہ اس اجمال کی تفصیل پر دال ہے۔

احمد رشید کے بعض افسانوں کے اختتام پر over written کا گمان ہوتا ہے مثلاً

وقت کا دیوتا کہہ رہا ہے کہ جب جب کنس پیدا ہوں گے ان کے ادّھار کے لیے کرشن آتے رہیں گے (پیشین گوئی)

’’نشہ ہرن ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں کھل چکی تھیں اس کی نگاہیں اپنے باپ کے وجود پر جم گئیں۔۔۔۔۔۔ دونوں مبہوت ہو کر ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ دونوں کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا کہ ’’تم یہاں کیوں آئے؟

جب کہ دونوں ایک دوسرے کے جواب سے بھی واقف تھے۔‘‘

(فول۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھول)

اس معمولی فروگذاشت سے قطع نظر احمد رشید کے زیرِ نظر افسانے موضوعاتی تنوع اور اسالیب اور تکنیک کے معنی خیز استعمال کی بنا پر اردو افسانہ کے نہ صرف معاصر منظر نامہ کے اُفق کو وسیع تر کرتے ہیں بلکہ افسانہ بیان کرنے اور پورے افسانہ میں Story lineکو بر قرار رکھنے کے اُن کے قابلِ رشک فنّی ہنر کا بھی ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرتے ہیں۔

احمد رشید کے افسانوں کی تحسین معاصر فکشن تنقید کے ناخن پر قرض ہے۔

٭٭٭

احمد رشید ایک منفرد افسانہ نگار/عبد الصمد

کامیابی کی راہ وہ نہیں ہوتی جو دوسروں کے نقشِ قدم پر اپنائی جاتی ہے بلکہ اصل کامیابی یہ ہے کہ آدمی اپنی راہ خود بنائے، اُس کا راستہ سب سے مختلف ہو، اس کے ذریعہ وہ دُور سے پہچانا جائے۔ احمد رشید (علیگ) اُن معدودے چند افسانہ نگاروں میں ہیں جن کی پہچان اُن کی اپنی زمین پر استادہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں افسانہ نگار اس لیے بڑا ہے چونکہ اُس کے ہاں منٹو، بیدی وغیرہ کی بو آتی ہے۔ بد قسمتی سے میں اس بڑائی کو تسلیم نہیں کرتا۔ مکھی پر مکھی مارنا بہت آسان ہوتا ہے۔ لوگوں کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ اصل اور نقل اور مختلف رنگوں کی اپنے طور پر پہچان کر سکیں۔ اس لیے یہ راستہ آسان سے آسان بنتا چلا گیا ہے۔ احمد رشید کے افسانے جیسے بھی ہیں، اُن کے اپنے ہیں اور یہ افسانے بلا شبہ غیر معمولی ہیں۔ ان میں دُور دُور تک کسی بڑے فنکار کی بو باس نظر نہیں آتی۔

ادھر پندرہ بیس برسوں میں جو افسانہ نگار سامنے آئے ہیں، اُن میں چند نے تیزی سے اپنی پہچان بنائی ہے، اُن میں احمد رشید نمایاں ہیں۔ اُنھوں نے کم لکھا ہے، مگر جو کچھ بھی لکھا ہے، اُسے ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کے سوچنے کا اپنا ڈھنگ ہے۔ اُن کے موضوعات میں تنوع ہے اور پیش کش میں جدّت۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اُس وقت قلم اُٹھاتے ہیں جب اُن کا موضوع ان کے اندرون پانی بن جاتا ہے۔ ان کے موضوع اور اسلوب میں جو ہم آہنگی ہے، وہ اُن کے افسانے کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ افسانے کا سر سری مطالعہ کرنے والوں کو شاید احمد رشید کے افسانوں میں کشش محسوس نہیں ہو، مگر فکشن کے سنجیدہ قارئین کے لیے ان کے افسانے ہمیشہ کشش کا مرکز بنے رہیں گے۔

٭٭٭

احمد رشید کی افسانہ نگاری/پروفیسر صغیر افراہیم

افسانہ حیات و ممات کا تخلیقی استعارہ ہے۔ یہ استعارہ ہے انسانی نفسیات اور جنسیات کے پیچ و خم کا، پیکارِ حیات کے نکات و رموز جاننے کا، حیات و کائنات کے مسلسل تصادم کی فتح و شکست کی روداد سُنانے کا۔ انسان کے افعال و اعمال کے پسِ پشت جو عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں ان کی تلاش کا، فرد اور اجتماع کے ذہنی اور جذباتی رشتوں کی کہانی سنانے کا، انسان کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کی تعمیر و تشکیل میں جو سماجی، نفسیاتی، تاریخی و جغرافیائی اور مذہبی عناصر کام کر رہے ہوتے ہیں ان پر غور و فکر کرنے کا رول افسانہ بخوبی ادا کرتا ہے۔ انسان کی شخصیت سنوارنے اور بگاڑنے میں بیرونی اثرات کے علاوہ خود اس کو ورثہ میں ملی جبلّت (تواتر سے یا قدرت کی جانب سے) کی تہہ داری میں پوشیدہ رموز کی نشاندہی بھی افسانہ کرتا ہے۔ فرد کی زندگی میں جو کائنات چھُپی ہوتی ہے اس کو اجاگر کرنے کے لیے افسانہ نگار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر آزادانہ طور پر شعوری کوشش کرتا ہے۔ اس کا دائرہ کائنات کی طرح وسیع ہے تبھی تو یہ عمل اور رد عمل پر غور و فکر کرتا ہے۔ انسان سے سر زد ہونے والا ہر عمل در اصل شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک رد عمل ہوتا ہے جس کے اسباب و علل کی جستجو افسانہ کرتا ہے۔ جہاں عام انسانوں کی نظر بغیر غور و فکر کے نہیں پہنچتی، افسانہ نگار اس کی تہہ کو کھنگال لیتا ہے۔ افسانہ، استعاروں اور علائم کے ذریعے (جو ردِ عمل ہے) ردِ عمل (جو بظاہر دکھائی دے) کی ایک انوکھی دنیا سے روشناس کراتا ہے۔

احمد رشید زندگی کے مختلف پہلوؤں، مظاہر فطرت، کائنات کی رنگا رنگی، حیات و کائنات کی معنویت کو عصری سماجی تناظر میں واضح کرنے کا ہُنر جانتے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہو کر دادِ تحسین حاصل کر چکا ہے۔

زیرِ نظر مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ اکیس کہانیوں پر مشتمل ہے۔ پہلی کہانی ’’کہانی بن گئی‘‘ میں افسانہ کے فن اور حیات و کائنات سے اس کے ربط و ضبط سے بحث کی گئی ہے جو اس کہانی کا موضوع بھی ہے۔ اس میں انٹر ویو کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس منطقی بحث کو کہانی کی شکل میں پیش کرنے سے ان کی تخلیقی صلاحیت اور افسانہ کے تئیں ان کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کہانی کو افسانہ نگار کا پیش لفظ خیال کیا جائے تو غلط نہ ہو گا کیوں کہ افسانہ کے فن کے تعلق سے ان کے نظریہ کی بنیاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ میں شامل افسانہ ’’کہانی کہتی ہے‘‘ میں الفاظ اور صوت و صدا کی وساطت سے تخلیق کائنات پر سوالیہ نشان قائم کیا گیا تھا۔ یہاں بظاہر کہانی کے ارتقائی سفر کی روداد بیان کی گئی ہے مگر ساتھ ہی انسان کے تمدنی اور تہذیبی سفر کی داستان بھی زیریں سطح پر واضح کی گئی ہے۔ کہانی کے تدریجی سفر اور انسان کے معاشرتی عمل کو فنکارانہ چابک دستی سے ایک ساتھ پرونا کہ کہانی پن شروع سے آخر تک بر قرار رہے از خود افسانہ نگار کا کمال ہے۔

انسان، تہذیب، اخلاق اور افسانہ در اصل اپنے آپ میں ایک مکمل اکائی ہے۔ عام طور پر ’’افسانہ‘‘ کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کو سمجھنے کی سعی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فنی اعتبار سے افسانہ جسدِ خاکی کی مانند اکائی ہوتا ہے جس طرح انسان کی جسمانی ساخت کے عناصر ترکیبی کو بکھیر کر سمجھنا مشکل ہے اُسی طرح افسانہ کے فن کی ناپ تول اور انچی ٹیپ سے پیمائش کرنا بڑا دشوار ہے۔ اس روشنی میں احمد رشید کے افسانوں کو سمجھنے اور پڑھنے کے لیے ان کے تخلیقی شعور سے واقفیت ضروری ہے۔ ’’کہانی کہتی ہے‘‘ اور ’’کہانی بن گئی‘‘ دونوں کہانیاں افسانہ کے فن پر کھری اُترتی ہیں۔ ’’کہانی کہتی ہے‘‘ میں ایک تمثیلی کہانی ہونے کا گمان اس لیے ہوتا ہے کہ کہانی متشکل ہو کر ایک کردار کی طرح اپنی کہانی بیان کرتی ہے اور جہاں کردار ہوتا ہے وہیں واقعہ، سانحہ اور کہانی کا ناطہ اس سے جُڑتا ہے۔ اس لیے دونوں کہانیاں اپنے فطری انداز میں قاری کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھتی ہیں اور ہمیں یہ احساس کراتی ہیں کہ ہمارے سماجی نظام کی ترتیب اور ارتقاء میں نہ صرف کہانی کا وجود تھا بلکہ تہذیبی سفر کے آغاز سے قبل اور خود انسان کے وجود میں آنے سے پہلے ’’کہانی‘‘ کا وجود ہو چکا تھا:

’’اور کہتی ہے دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے میرا پہلا لفظ اس شکتی نے لکھا ۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ کائنات عدم تھی۔‘‘ (کہانی کہتی ہے)

علم فلسفہ میں مرد کو ’’دائرہ‘‘ اور عورت کو ’’نقطہ‘‘ کہا گیا ہے۔ نقطہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود وہ دائرہ کی محافظت میں ہے:

’’پھر اس کے درمیان ایک نقطہ محیط ہوا۔۔۔۔۔۔ نقطہ اور دائرہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔‘‘ (کہانی کہتی ہے)

’’کہانی بن گئی!‘‘ مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے۔ اس میں کہانی خود کردار یعنی راوی ہے۔ خوبی یہ ہے کہ کہانی میں کہانی کا ارتقاء افسانوی انداز میں، تہذیبی ارتقاء کو سمیٹے ہوئے ہے۔ منظر راجستھان کا ہے۔ مرکزی کردار ایک عورت کا ہے جس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ کہانی زندگی کے حوالے سے بنتی ہے۔ وہ روی کے نام سے لکھتی ہے اور مرد بن کر ایک ایسے بڑے فنکار کا انٹرویو لیتی ہے جسے اپنی عظمت کا شدّت سے احساس ہے۔ پوری بحث اِس پر مبنی ہے کہ عمل اور اُس کا ردِّ عمل بلکہ ردِّ عمل ہی تخلیق کی بنیاد ہے کیونکہ عمل کی تلاش علوم و فنون کے ماہرین کرتے ہیں، ردِّ عمل صرف کہانی کار کرتا ہے۔ مذکورہ افسانہ میں انٹر ویو کی تکنیک اختیار کرنے کے باوجود افسانہ کے عناصر ترکیبی کا لحاظ رکھتے ہوئے فن افسانہ اور انٹر ویو کے درمیان حد امتیاز قائم کرنا افسانہ نگار کے سنجیدہ ہونے کی دلیل ہے۔ افسانہ میں مرد اور عورت دونوں ہی تخلیق کار ہیں۔۔۔۔۔ خوبصورت، چست اور با معنی مکالموں کے ذریعہ افسانہ کے تعلق سے وہ اپنے نظریات کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ نہ تو کہانی کی ساخت متاثر ہوتی ہے اور نہ ہی کہانی پن پر کوئی حرف آتا ہے:

’’منظر اور پس منظر کے درمیان فن ہے۔۔۔۔ پیش منظر ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور پسِ منظر ہم محسوس کرتے ہیں، سوچتے ہیں۔‘‘ (کہانی بن گئی!)

آگے دیکھئے۔

’’ایک خیال ہے کہ کہانی مر گئی‘‘ !

’’جب تک کرۂ ارض پر ایک انسان بھی زندہ ہے، کہانی مر نہیں سکتی۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہر زندگی کے اندر پوشیدہ کائنات کے رموز کا انکشاف اور اس کا بیان دیگر عمر کے ایک ایک لمحہ کا اظہار از خود ایک کہانی ہوتا ہے۔ نگاہ چاہیے کہانی کی تلاش کے لیے۔۔۔۔‘‘ (کہانی بن گئی!)

جن واقعات پر ہم سر سری نظر ڈال کر گزر جاتے ہیں، ان میں جب معنی کی نئی سطح ابھرتی ہے تو ہمیں سامنے کے دیکھے بھالے واقعات بھی انوکھے اور نئے نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ تو رہی بالائی سطح کی بنت، زیریں سطح پر بھی ایک اور کہانی غور و فکر کے بعد نظر آتی ہے۔ بعض کہانیوں کے آغاز سے دھندلی دھندلی فضا آخر تک قائم رہتی ہے لیکن سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر معنی آفرینی ایک برق کی مانند چمکتی ہے اور آہستہ آہستہ گرہیں کھلنے لگتی ہیں۔ اسی طرح ’’دھواں دھواں خواب‘‘، ’’چھت اُڑ گئی‘‘، ’’ویٹنگ روم‘‘، ’’مداری‘‘ اور ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی کہانیاں ما بعد جدید تصور ادب ’’بین المتونیت‘‘ سے تخلیقی سطح پر استفادہ کی خبر دیتی ہیں۔

’’دھواں دھواں خواب‘‘ میں ایک طرح سے اُن خوابوں کی منطق بیان کی گئی ہے جو سوتے میں دیکھے جاتے ہیں۔ یہ ڈراؤنے، سہمے ہوئے ہوتے ہیں اور بے حد حسین و رنگین بھی۔ پہلی شکل بُرائی کی اور دوسری نیکی کی قرار دی جا سکتی ہے۔ نفسیاتی گرہوں کو کھولنے والے خواب کو بیان کرنا مشکل مرحلہ ہے۔ ان میں کائنات اور آخرت گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ بچپن سے سُنے گئے شعوری یا لا شعوری واقعات، حادثات خواب میں نئی نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ افسانہ کی پوری فضا میں خواب کی سی کیفیت طاری ہے۔ جہاں سائے سے لے کر جنت اور جہنم تک آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ EROTIC عنصر بھی اپنی جگہ بنتا نظر آتا ہے۔ موت اور زندگی کی حرکی کیفیتیں اس افسانہ کو ایک نیا منظر نامہ عطا کرتی ہیں۔ خواب کے منطقی ربط کو قائم کرتے ہوئے کہانی پن بر قرار رکھنا اور آخر میں کہانی کا حقیقی زندگی میں لوٹنا احمد رشید کے فنّی دسترس کا غمّاز ہے۔

’’مداری‘‘ اور ’’حاشیہ پر‘‘ سیاسی موضوعات پر مبنی کہانیاں ہیں۔ ان میں سیاسی مکاریاں، فریب اور سیاست دانوں کے ڈھونگ کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ’’مداری‘‘ میں عوامی زبان کا بر محل استعمال ہے۔ بین السطور میں رتھ یاترا کا واقعہ ایک نظریے کو لیے ہوئے اس طرح در آیا ہے کہ کہانی کے اندر کہانی چلتی رہتی ہے۔ مداری کا کام اپنے کرتب دکھا کر گھر گرہستی کو چلانا اور سیاستدانوں کو اپنی بساط پر جمے رہنے کا ہے۔

’’ایک کالی داڑھی والا آگے بڑھا۔۔۔۔۔۔ مداری نے ڈانٹتے ہوئے کہا، ہمیں بکرا نہیں چاہیے جموڑا چاہیے۔۔۔۔۔ بکرا تو ہم خود بنا لیں گے۔‘‘ (مداری)

’’تماش بینوں کی بھیڑ میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ تماشہ کا یہ منظر کہ کرشن کی مرلی پر ہنومان ناچے ایک نیا اور انوکھا منظر ہے۔‘‘

’’آگے کہانی میں —–مداریوں کی ایک ایسی جماعت بنا لی تھی کہ تماش بینوں کے درمیان اس نئے منظر کو دُہرا دُہرا کر رامائن اور مہا بھارت کا ایک جُز بنا دیا تھا۔‘‘ (مداری)

دوسری کہانی (حاشیہ پر) میں تین کردار (معلم، ڈاکٹر، وکیل) ہیں جو بہت واضح یا متحرک نہیں ہیں۔ پلاٹ بھی مضبوط نہیں ہے۔ فضا، ماحول یا کسی بھی معمولی واقعہ سے شروع ہونے والے منظر اور پس منظر کے درمیان ایک ٹرین چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس میں ہوَنّقوں کی طرح بیٹھے، سہمے ہوئے کردار صورتِ حال کو اور بھی بوجھل کرتے ہیں تاہم ایک مخصوص طبقے کی ترجمانی ضرور کرتے ہیں۔

احمد رشید نے اپنے افسانوں کو ماورائی تصورات، تہذیب و ثقافت کی ابتداء اور ارتقاء کو عوامی مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں ایک طرف ماورائیت، مذہبی اور اساطیری فضا دوسری طرف زمینی مسائل سے ارتباط فنّی چابکدستی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے افسانے روایتی افسانے کی طرح صرف کہانی بیان نہیں کرتے۔ زندگی کے تلخ حقائق، اقدار کی شکست اور جبریت و استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں۔ ’’مداری‘‘ میں فسطائی طاقتوں نے جو سیاسی ڈھونگ رچایا ہے اس کو تمثیلی پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔

آزادی کے بعد اقلیتی طبقے کے ساتھ جس طرح کے ظلم و ستم ڈھائے گئے ہیں، نفسیاتی، معاشی اور سیاسی طور پر جس طرح سے اقلیت خصوصی طور سے مسلمانوں کا فسطائی طاقتوں نے استحصال کیا ہے۔ ان کو ایک خوف زدہ اور مخدوش زندگی جینے پر مجبور کر دیا ہے، ان کو مین اسٹریم (Main Stream) سے ہٹا کر احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی جو سازشیں رچی گئیں اس کا حقیقی اظہار ’’حاشیہ پر‘‘ میں ملتا ہے۔ ٹرین کے سفر میں، تین مسافر جو الگ الگ پیشے سے تعلق رکھتے ہیں مذہبی رشتہ کی بنیاد پر ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں پھر بھی ایک دوسرے پر اپنا اپنا نام ظاہر کرنے سے گُریز کرتے ہیں۔ ان کے اندازِ گفتگو اور افعال و حرکات سے خوف و ہراس اور مجبوری کا اظہار ہوتا ہے۔

’’بی بی بول‘‘، ’’ایک خوبصورت عورت‘‘ اور ’’سہما ہوا آدمی‘‘ کا بنیادی موضوع فساد ہے۔ ان افسانوں میں روایت سے بغاوت، حالات کی جبریت، عصری تناؤ، ایک مخصوص قوم کے تباہ و برباد کیے جانے کی داستان رقم کی گئی ہے۔ اقلیت کا فسادات کا شکار ہونا اور اکثریت کی سفاکی ان کہانیوں میں اس طرح ابھر کر سامنے آئی ہے کہ قاری اپنے گھر سے ہوتا ہوا، گلی، سڑک، شہر، ملک، بارود، دھماکے، دہشت، پولس کے بُوٹوں کی خوفناک آوازوں میں گھِر جاتا ہے۔

’’وہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کا مذہب چھپا کر بھاگنے لگا۔ فضا میں کالا اور سفید دھواں پھیلا ہوا تھا۔ ٹائیں ٹائیں۔۔۔۔ پٹ۔۔۔۔ پٹ۔۔۔۔ مارو۔۔۔۔۔۔ مارو کی آوازوں سے زمین دہل رہی تھی اور آسمان خاموش تھا۔ زن۔۔۔۔ زن۔۔۔۔۔۔۔ ایک کار سڑک پر دوڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ آپ لوگ اپنے اپنے گھر جائیں۔‘‘ (سہما ہوا آدمی)

افسانہ ’’سہما ہوا آدمی‘‘ کا آغاز ہی اس جملے سے ہوتا ہے ’’پورا شہر بارود کے ڈھیر پر تھا، ہر چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا تھا۔ زندگی موت کا تعاقب کر رہی تھی یا موت زندگی کا؟ تا حدِ نظر دُور اڑنے والے مکروہ پرندے سرخی مائل آسمان کو اپنے پروں سے چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔۔۔‘‘

فسادات میں عورتوں کے ساتھ جس طرح کے ہولناک ظلم و ستم ہوتے ہیں اسے دیکھ کر شیطان کی روح بھی کانپ جاتی ہو گی۔ حیوانیت کا ایسا ننگا ناچ کہ انسانیت شرمسار ہو جائے۔ عورتوں کا جنسی استحصال، ان کے ساتھ جسمانی اذیتیں اور اخلاق سوز حرکتیں اب عام ہو چکی ہیں:

’’مجھے اپنی کائنات میں لے چلو جہاں عورت کو صرف عورت سمجھا جائے۔ ان ہیجڑوں کی دنیا سے میں تنگ آ چکی ہوں۔۔۔۔ جہاں گؤ کشی کی مذمت اور انسان کشی کی حمایت کی جاتی ہے۔ جہاں مصلحت اور تقاضوں کے درمیان مرد، نامرد ہو جاتے ہیں اور عورت رنڈی بنا دی جاتی ہے۔۔۔۔۔ میرا فساد میں سب کچھ لٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (ایک خوبصورت عورت)

اسی طرح ایک اور طنزیہ لب و لہجہ جس میں سیکولرزم کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی کہ رنڈی کو سیکولرزم کی علامت قرار دیا گیا ہے:

’’وہاں صرف عورت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ بھارتیہ ناری نہیں ہوتی جس کی عزت لٹ جائے!؟ ۔۔۔۔۔ پوری دنیا اس کا گھر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ نہ کوئی سرحد، نہ بٹوارہ۔۔۔۔ برائی بھلائی سے دور۔۔۔۔ صرف ایک مقصد اور ایک منزل۔۔۔۔۔ ایک ایسی جمہوریت جہاں پائجامہ کھول کر مذہب نہیں دیکھا جاتا۔۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ کیا ہے وہ۔۔۔۔ سیکولرزم؟‘‘ (ایک خوبصورت عورت)

احمد رشید کو تخلیق کائنات کے موضوع سے بہت دلچسپی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کائنات کے آفاقی اور اسطوری کردار عصری اور سماجی تناظر سے مربوط کرنے کی ان کے یہاں بامعنی کوشش ملتی ہے۔ بقول شافع قدوائی ’’تخلیق کائنات کے قدیم آرکی ٹائپ سے مربوط کرنا اور تخلیق کے ازلی متھ کی معنویت عصری سماجی تناظر میں واضح کرنا احمد رشید کے افسانوں کے فن کا بنیادی رمز ہے۔‘‘

’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ میں استحصال کو دکھانے کا طریقہ الگ ہے۔ مکمل طور سے عورت کے گرد گھومنے والی اس کہانی میں حدیث کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ عورت آدم کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور افسانہ نگار نے یہیں یہ سوالیہ نشان بھی قائم کیا ہے کہ روزِ اول سے اُس کی سماجی حیثیت کیا رہی ہے۔ بے پناہ ترقیوں کے باوجود بھی کیا وہ آج مکمل طور سے آزاد ہے؟ عدم مساوات کے سبب ہم کو صنعتِ لف و نشر کی طرح خیال و خواب میں تحلیل کر دیا گیا ہے۔ منظر اور پس منظر دونوں کا راوی عورت ہے۔ استعاراتی انداز میں لکھے گئے اس افسانہ کی ابتدا عالمِ ارواح کے اس تاریخی مکالمہ سے ہوتی ہے جو رب العزّت اور ملائکہ کے درمیان پیش آیا۔ تخلیق کائنات سے پہلے جہاں ارض و سماویٰ اور کائنات کی ہر شے کا وجود عدم تھا کا منظر خوبصورت اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہوئے مختلف تہذیبوں میں سماج کے مختلف ادوار میں عورت کی کیا حیثیت اور مقام رہا ہے کو تاریخی شواہد کی روشنی میں واضح کرنا اور Story line کو اس طویل کہانی میں آخر تک قائم رکھنا، مصنف کا افسانہ کے تئیں تخلیقی اور اختراعی صلاحیت کی نشان دہی کرتا ہے۔ افسانہ یہ بھر پور تاثر دینے میں پوری طرح کامیاب ہے کہ روزِ ازل سے مادّی دور تک عورت اپنی آزادی اور وقار کے لیے کوشاں رہی ہے۔ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ میں تہذیبی شناخت کی تلاش کے لیے فلیش بیک تکنیک کے ذریعے مختلف ادوار کے لحاظ سے زبان و بیان اور طرزِ نگارش کا بدلتا ہوا انداز کہانی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مثلاً ولادت نبوی کا منظر، روئے ارض پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی روحِ اقدس کی آمد کے واسطے سے جو زبان اختیار کی گئی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے شایانِ شان ہے۔ پُر شکوہ لب و لہجہ، الفاظ کی شان و شوکت خوبصورت زبان و بیان سے لبریز اسلوب اپنی مثال آپ ہے۔ دوسرے ماضی کی تاریخ میں واپسی کے لیے جو استعاراتی، تمثیلی جملے استعمال ہوئے ہیں وہ دادِ تحسین کے قابل ہیں۔ مثلاً

’’روشنی کی کشتی پر سوار خلا کے اس پار‘‘ ’’روشنی کی کشتی لنگر انداز تھی‘‘ ’’اڑن طشتری پر سوار تمام عالم کی سیر‘‘ وغیرہ

ولادتِ نبوی کا منظر دیکھئے۔۔۔۔

’’پوری کائنات بقعہ نور بن گئی، چہار سمت انوار کی بارش ہونے لگی، مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب بس نور ہی نور از بس سارا عالم بحرِ نور میں ڈوب گیا ایک ابر کا ٹکڑا نورِ مجسم پر سایہ بن گیا اور وہ نورِ مجسم سارے عالم پر سایہ بن گیا۔‘‘

افسانہ ’’فیصلے کے بعد‘‘ بھی عورت کی آزادی کے تعلق سے خلق کیا گیا ہے۔ مرکزی کردار شفق آزادیِ نسواں کی لڑائی لڑتی ہے اور آفتاب کھُلا ذہن رکھنے کے باوجود صورتِ حال سے متفق نظر نہیں آتا ہے۔ دونوں حق بجانب محسوس ہوتے ہیں پھر بھی الگ ہو جاتے ہیں۔ کہیں کوئی تصادم، تناؤ نہیں۔ لگتا ہے کہ واقعات بنائے نہیں گئے ہیں بلکہ خود بخود سب کچھ ہوتا چلا گیا ہے۔ اسی طرح افسانہ ’’وہ لمحہ‘‘ میں عورت کی اہمیت اور وجود سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کائنات میں وہ برابری کی حقدار ہے۔ آسمان و زمین کی وہ آدھے کے مالک ہونے کے باوجود اپنے حقوق سے محروم رہی، ہمیشہ مردوں کے ظلم و ستم اور استحصال کا نشانہ بنتی رہی ہے اور ایک طرح سے سماج میں اس کی حیثیت دوئم درجہ کی بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وہ اسباب ہیں جن کی بنیاد پر feminism نے تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ زندگی کے ہر شعبہ میں عورت حصولِ آزادی اور کائنات میں اپنا مقام اور وقار کے لیے بے چین رہی ہے مذکورہ تینوں افسانے اس پر دال ہیں۔ یہاں تانیثیت اور نسوانیت کے فرق کو واضح کرنے کی کوشش بھی ملتی ہے۔

ما بعد جدیدیت تخلیقی آزادی کا کھلا رویہ ہے۔ ادبی جبر توڑنے کا، معنی کے چھپے ہوئے رخ کو دیکھنے دکھانے کا، ثقافتی صداقت اور تہذیبی حقیقت کو تلاش کرنے کا عمل ہے۔ ادب کو انسانی کلچر سے جوڑنے کا غالب رجحان ما بعد جدید افسانہ نگاروں کے یہاں ملتا ہے۔

احمد رشید نے اپنے افسانوں کو ماورائی تصورات، تہذیب و ثقافت کی ابتداء اور ارتقاء کو عوامی مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں ایک طرف ماورائیت ہے تو دوسری جانب زمینی مسائل سے ارتباط فنی چابک دستی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ موصوف کی کہانیاں پسِ ساختیات، ایک متن پر دوسرے متن کی تخلیقی سطح کا پتہ دیتی ہیں۔ ’’چھت اڑ گئی‘‘ میں مذہبی اعتقادات کا ایک ایسا شعور ملتا ہے۔ جس میں کائنات کو ایک خوبصورت مردہ عورت کی علامت دے کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ انسان اس خوبصورتی کے نشہ میں اس قدر بد مست ہو جاتا ہے کہ تمام احساسات ساکت ہو جاتے ہیں۔ شادی کی رات مرکزی کردار خوب نشہ کرتا ہے اور بہکتا ہوا گھر کی طرف جاتا ہے۔ تصور میں بیوی کے کمرے میں داخل ہوتا ہے مگر حقیقتاً وہ قبرستان میں پہنچ جاتا ہے اور ایک کھُلی ہوئی قبر میں جا کر لیٹ جاتا ہے۔ مُردہ عورت کو اپنی بیوی سمجھتا ہے۔ نشہ کی حالت میں اُس کے حُسن و جمال کی تعریف کرتا ہے اور اسی حالت میں سو جاتا ہے مگر آنکھ کھُلنے پر:

’’وہ سوچنے لگا شاید چھت اڑ گئی، چند لمحے بعد نظریں آسمان سے زمین پر اترنے لگیں اور اجنبی کی طرح قبروں پر گھومنے لگیں۔ وہ فوراً ہی کھڑا ہو گیا اور بغل میں پڑی ہوئی عورت کی لاش پر اس کی آنکھیں جم کر رہ گئیں۔‘‘ (چھت اڑ گئی)

یہ کائنات نہایت خوبصورت ہونے کے باوجود مُردہ عورت کی طرح ہے۔ شاید اسی کی وضاحت کے لیے پلاٹ سجایا گیا ہے۔ منظر نامہ پر دُلہن نہیں لیکن پس منظر صرف اور صرف اُسی کا ہے۔ فلیش بیک کی تکنیک اور صیغۂ واحد متکلم میں۔ حیات و کائنات کی بے ثباتی کا اظہار ’’ویٹنگ روم‘‘ میں بھی ہوا ہے۔ کائنات ویٹنگ روم اور اُس کے باہر کا منظر جنت، دوزخ کا تصور ہے۔ موضوع کو کردار سے ملانے اور ذہنی کیفیت کو اُجاگر کرنے کے لیے جزئیات کا سہارا لیا گیا ہے۔ اسٹیشن کی منظر کشی، انسانوں کی چہل پہل، ویٹنگ روم میں بیٹھ کر ٹرین کا انتظاریہ سب کچھ ریل کے سفر کی تصویر کشی ہے لیکن حقیقت میں زیریں سطح پر انسانی زندگی اور کائنات کے فنا ہونے کی آتی جاتی لہریں، انسان اور اس کی تہذیبی تاریخ کی منہ بولتی تصویریں ہیں جو مذکورہ کہانی کا جزو لازم بن جاتی ہیں:

’’جیسے تیسے ویٹنگ روم میں داخل ہوا۔ اسے ویٹنگ روم عارضی وطن محسوس ہوا اور عارضی وطن ویٹنگ روم جیسا وہ عارضی وطن اور ویٹنگ روم کے فرق کو جاننے کے لیے دماغ کھپانے لگا؟‘‘

انسان کے اندر ایک بے رحم حیوان کی موجودگی، دوسرے معاشی بد حالی ساتھ ہی لالچ خود غرضی نے اعلیٰ اقدار کی شکست کا بحران اتنا طویل کر دیا ہے کہ معاشرہ میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ رشتوں کی عظمت و اہمیت کے زوال نے انسان کو ضمیر فروشی پر مجبور کر دیا ہے تب ہی ’’ہاف بوٹل بلڈ‘‘، ’’اندھا قانون‘‘ اور ’’رینگتے کیڑے‘‘ جیسی کہانیاں تخلیق ہوتی ہیں۔ جہاں ڈاکٹر اپنا فرض منصبی اور پولیس اپنے فرائض کو چند سکوں کے عِوض بیچ دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسانوں کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔

واقعات کے نہاں خانہ میں احساسات و کیفیات کی شدت اور ان کی دھیمی دھیمی رفتار —-ساتھ ہی یہ واقعات عورت و مرد کے تصادم سے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جو جدائی۔ طلاق۔ وصل، نکاح، انتظار، بے قراری، ایذا رسانی، بے وفائی اور جنم جنم کے ساتھ اور فریب زندگی کے عمل اور ردّ عمل سے ظاہر ہوتے ہیں ’’کرب کا سمندر‘‘، ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘، ’’فیصلے کے بعد‘‘، ’’وہ لمحہ‘‘ اور ’’ہاف بوٹل بلڈ‘‘ اس کی اچھی مثال ہیں۔ خصوصاً افسانہ ’’نیلم‘‘ میں جنس کے نفسیاتی پہلو کے حوالے سے زندگی کی تہوں کو ابھارنے کی کامیاب سعی ہے۔

موضوعات کے تنوع، اظہار کی تیز ترین دھار، الفاظ کا انتخاب اور جملوں کی تخلیقی سطح کی وجہ سے احمد رشید اپنے ہم عصروں میں ما بعد جدید افسانہ نگاروں کے درمیان معتبر آواز بن گئے ہیں۔ سماجی مسائل کو سننے سے زیادہ دیکھنا، محسوس کرنا، معاشرتی ناہمواریوں سے الجھنا اور ان سے بے باک ہو کر باتیں کرنا نیز انھیں فنّی طور پر پیش کرنا اُن کا طُرۂ امتیاز ہے۔

احمد رشید نے اپنے افسانوں کو اعتدال کی راہ دی ہے جن میں بھر پور افسانویت، تخلیقی ذائقے، علامتوں اور استعاروں پر گرفت، ترسیل اور ابلاغ کی آسانیاں ملتی ہیں۔ زندگی کے خارجی مظاہر کے توسط سے انسان کے متضاد ذہنی رویوں کی تفہیم و فرد کی نفسیاتی بے چینی نے ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کے افسانوں کو بھی ’’وہ اور پرندہ‘‘ کی طرح توجہ کے قابل بنا دیا ہے۔ در اصل مصنف کے دونوں مجموعوں کے افسانے ہیئتی و تکنیکی تجربوں اور موضوعات کے تنوع کے سبب معاصر افسانوی منظر نامے کو وسیع تر کرتے ہیں اور یہ احساس دلاتے ہیں کہ اُن کا ہر افسانہ اپنا موضوع، اپنی تکنیک لے کر صفحۂ قرطاس پر فطری انداز میں وارد ہوا ہے۔

٭٭٭

احمد رشید کی افسانہ نگاری: اِک مختصر گفتگو/ڈاکٹر قطب سرشارؔ

ایک اثر انگیز افسانہ مطالعۂ حیات و کائنات کی روشنائی سے تحریر کردہ سچّا اور تخلیقی منظر نامہ جیسا لگتا ہے۔ ہر افسانہ نگار زندگی کے تمام تر موضوعات کا احاطہ نہیں کرتا یا نہیں کر سکتا۔ انتخابِ موضوع اِک ترجیحی عمل ہوتا ہے اور ترجیحات کا انحصار میلانات پر ہوتا ہے۔ اُردو کی بیشتر کہانیاں عورت اور مرد کی جنسی ترغیبات کے تجربوں پر مبنی لکھی گئی ہیں۔

پریم چند نے طبقاتی کشمکش کے تناظر میں جہالت، ظلم و تشدد اور سماجی زندگی کی غیر انسانی روایات پر مبنی منظر نامے تحریر کیے ہیں۔ ترقی پسندوں اور جدیدیوں نے بھی حرف و ہنر کے بہت سے کرشمے دکھائے ہیں۔ اِدھر علی گڑھ سے افسانہ نگاری کے حوالے سے ایک صاحب تفکر احمد رشید نے بحیثیت افسانہ نگار اپنی شبیہ کو ابھارنے کی سعی کا آغاز کر دیا ہے۔ احمد رشید اکیسویں صدی کے پہلے دہے (2002ء) میں ’’وہ اور پرندہ‘‘ (افسانوں کا مجموعہ‘‘ کی مٹھی بھر کہانیاں لئے ادبی منظر نامے میں نمو دار ہوئے۔ ان کے یہاں قلم کی ترجیحات میں کہانیوں کے تانے بانے بننے سے کہیں زیادہ موضوعات کے اعماق، کرداروں کی نفسیات اور انداز فکر کی ترجمانی اہمیت کی حامل نظر آتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر کہانیوں میں سماجی زندگی کے پس منظر میں مرد و زن کا متنازعہ موقف موضوع گفتگو ہوتا ہے۔ ان کے اکثر کردار با شعور سلجھے ہوئے اور حریت پسند ہوتے ہیں۔ اہم ترین سماجی مسائل کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کروانا ان کا اساسی نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ ان کے اساسی کردار زندگی کی الجھی ہوئی گتھیوں کے موضوع پر استدلالی اور استفہامیہ لہجوں میں گفتگو کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر احمد رشید کی کہانیوں کے دوسرے مجموعے ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ سے ماخوذ کہانی ’’ایک خوبصورت عورت‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں۔ اس کہانی میں تین اساسی کردار ہیں۔ صالح نوجوان، میںؔ(واحد متکلم) اور ایک فساد زدہ خوبصورت جوان عورت۔

پس منظر میں تماشائی(سماج) اور مذہب جو وجہ فساد ہے۔ یہ افسانہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل اور توجہ کا طلب ہے کہ قاری کو سوچنے کی تحریک دیتا ہے۔ انھوں نے اس کہانی کو ایک فساد زدہ خوبصورت جوان عورت سے معنون کیا ہے۔ عورت بجائے خود ایک خوبصورت تجسیم ہے۔ خوبصورتی اور عورت گو یا شراب دو آتشہ۔ لیکن یہاں احمد رشید عورت کی نسوانیت یا حسن کو موضوع نہیں بنا تے ہیں۔ انھوں نے عورت کے سماجی موقف کے المناک پہلوؤں کے حوالے سے نہایت اہم سوال اٹھائے ہیں۔ یہ سوال انھوں نے ایسے معاشرے میں اٹھائے ہیں جو صدیوں سے عورت کے صحیح موقف کو پہچاننے میں نا کام رہا ہے یا پھر نا کام ہی رہنا پسند کر تا ہے۔ دُنیا میں صدیوں سے عورت کے موقف کا تعین مرد سماج میں کر تا آیا ہے۔ عورت مرد کی کمزوری ضرور ہے لیکن مرد عموماً اس کمزوری سے فیض یاب ہونے کی خاطر زیادہ تر فاتح کا کردار ادا کرتا ہے اور کبھی کبھی مفتوح کی صورت اپنی شہوانی خلا کو پُر کرنے لگتا ہے۔ سماج میں اکثریت ایسی عورتوں کی ہوتی ہے جو دل سے سوچا کرتی ہیں۔ اس طرح آسانی سے مرد کے جھانسے میں آ جاتی ہیں۔ اس طرح مرد وزن کے رشتوں کی کہانی کی شروعات خوشگوار ہوتے ہوتے افسوس ناک نقطۂ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ اب اکیسویں صدی میں اس قسم کی کہانیاں دہرائی نہیں جاتی ہیں۔ لڑکے لڑکیاں سیدھے سیدھے دوستانہ ماحول میں ایک دوسرے کے کام آنے لگے ہیں۔

احمد رشید صالح نوجوان اور واحد متکلم کی زبانی جو مکالمے کہلوائے ہیں وہ خیر و شر کی کھو کھلی معنویت کا ایک حقیقت پسندانہ تبصرہ ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات، سماجی اور تہذیبی تنازعات نہیں ہیں بلکہ سیاسی مفادات حاصلہ کے شاطرانہ کھیل ہیں۔ اس کھیل کے غالب و مغلوب فریقین کو ظالم و مظلوم کی اصطلاحوں میں سمجھنے کے بجائے ’’مہرے‘‘ کہنا زیادہ درست ہو گا۔ خوبصورت عورت ہمارے سیاسی شطرنج کا پٹا ہوا مہرہ ہے۔ گو یا عوام سیاسی کھلاڑیوں کے ’’مہرے‘‘ ہوتے ہیں۔ موضوع فرقہ وارانہ فسادات نہیں بلکہ سر مایہ داری، سیاسی کرداروں کے خوں ریز کھیل ہیں۔ خوبصورت عورت کے موقف کے حوالے سے احمد رشید نے جو سوالات اُٹھائے ہیں ان کے جوابات چودہ سو (1400) سال پہلے دنیا کے سب سے عظیم ترین دانشورؐ کے وسیلے سے ایک جامع کتاب میں دئیے جا چکے ہیں۔ پھر بھی صدیوں سے نسل انسانی کتاب اور صاحبِ کتاب کو زندگی کا موضوع بنانے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ تاریک ناہموار اور خطر ناک راستوں پر چلتے ہوئے سماجی زندگی کو صحت مند معنویت سے ہمکنار کرنے کی کوشش میں کام تجربوں کو جھیلے جا رہی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ شعری اظہار کو علامہ اقبالؔ سے اور نثری اظہار کو حقیقت نگاری کے ساتھ صحت مند سمتوں کی جانب قارئین کے ذہنی سفر کو جامع دشا (سمت) دی جائے۔ اسلام کی معنویت کو مذہبی اصطلاح میں سمجھنے کے بجائے بنی آدم کے خالق کی طرف سے عطا کردہ جامع سماجی ترتیب عملPerfect Social Mechanism کے بطور سمجھا جا سکتا ہے بلکہ سمجھا جا نا چاہیے۔

زندگی کے حوالے سے احمد رشید کی آگہی صحت مند سمتوں کی جانب مائل کرتی ہے اور اپنے ساتھ اپنی کہانیوں کے قارئین کو احمد رشید ساتھ ساتھ لئے چلنے کی توانا مساعی کو روا رکھتے ہیں۔ ان کی قلم کی التہابی گرمی قاری کے ذہن میں تحریک فکر کی چنگاریاں بھر دیتی ہے۔ اس اعتبار سے احمد رشید حرف و ہنر کے سفر کی ذہین، حسّاس اور ذمہ دارانہ مسافت طے کر رہے ہیں۔ ’’وہ اور پرندہ‘‘ اور ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ دونوں تصانیف کی کُل (37) کہانیوں کے حوالے سے احمد رشید نے اپنے سیل افکار کو اس درجہ تیز کر دیا ہے کہ اس بہاؤ میں اپنے قاری کو بہا لے جانے میں وہ نا کام نظر نہیں آتی:

شریک واقعہ کرتا ہے اپنے قاری کو

عجب کمالِ ہنر واقعہ نگار میں ہے

مجھے اُمید ہے کہ احمد رشید اپنی آئندہ کہانیوں میں حقیقت نگاری اور ذہن سازی کے مابین طویل خلا کو پُر کرنے سے چُوکیں گے نہیں۔

٭٭٭

احمد رشید کی کہانیوں کا فنّی نظام/ڈاکٹر سیما صغیر

ادب لفظوں کو جوڑنے کا فن ہے اور انسان کے پاس اپنے اظہار کا سب سے وسیع وسیلہ زبان ہے۔ ادب میں زبان کا بنیادی کردار Self reflexive ہے یعنی زبان اشیاء کی نمائندگی کرنے کی بجائے خود اپنے طرزِ وجود اور متن کی تعمیر کے وسائل کو نمایاں کرتی ہے۔

انسانی احساس، فکر اور تجربہ کی وسعت اور گہرائی کا جیسا بیان ہمیں ادب میں ملتا ہے دوسرے علوم میں نظر نہیں آتا۔ شاید اس لیے کہ علوم واضح مقاصد کے تابع ہوتے ہیں۔ کہانیاں ہمیں ایک ہی زندگی میں ایک سے زیادہ زندگیاں جینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ ان میں ہم زندگی کی وہ شکلیں دیکھتے ہیں جو شاید کسی اور طرح سے ہمارے تجربے میں نہیں آتیں۔ تخلیق نگار اپنے ایجاد کیے ہوئے تناظر میں زندگی کے نئے معنی دریافت کرتا ہے۔ ایک فرد کی سچائی انسانی سچائی میں ڈھل جاتی ہے اور یہ سچائی کسی تہذیبی، سماجی، تاریخی اور سیاسی حوالے کے بغیر بھی ہم سے اپنا اثبات کراتی ہے اور ایک باطنی رشتہ استوار کر لیتی ہے۔ یوں ادب انسانی احساس کو پرت در پرت کھولنے کی آرزو کا سفر ہے۔ نئے جہانِ معنی کی ہمہ وقت جستجو کا استعارہ ہے۔ حیات و کائنات کے مخفی گوشوں کو کھولنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ ادب میں سوال بھی ہوتے ہیں اور جواب بھی لیکن کسی مسئلہ کا حتمی حل یا کوئی مربوط نظریہ پیش کرنا ادب کے لیے ضروری نہیں ہے۔ ادب کی کشش اُس کی آزاد روی میں ہے۔

زندگی کی رنگا رنگی، مظاہر کائنات، جلوہ ہائے کون و مکاں، تہذیبِ انساں کے بنیادی مسائل کو قدیم تاریخی Time Frameمیں رکھ کر افسانہ کی تخلیق کرنا احمد رشید کی افسانہ نگاری کا بنیادی رمز ہے۔ ’’ٹوٹی زمیں بکھرے مکیں‘‘ کے حوالے سے مہدی جعفر کا یہ بیان:

’’مصنف نے پورس اور سکندر کے نام استعمال کر کے قدیم تاریخی Time Frame کو نئے ’Time Frame‘ کے بالمقابل رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح ہم اپنے عہدِ رواں کو سکندر اور پورس کے زاویے سے سمجھنے یا زاویوں کے تصادم سے بھی work out کر سکتے ہیں۔‘‘

تمدنی بنیادوں سے سماجی اور معاشرتی سروکاروں کو جوڑنا اور عصری مسائل کو دیو مالاؤں، اساطیر اور تمثیلوں کے حوالے سے کہانی کہنے کی سعی کرنا ان کے افسانوں کا انفراد ہے۔ یہاں ایڈگر ایلن پو کا نظریہ وحدت تاثر بے معنی ہو جاتا ہے جب حیات و کائنات کی مختلف پرتوں کو کھولنا جو احمد رشید کے افسانوی نظامِ فن کا ہنر ہے یوں ان کے افسانوں میں ترفع (Multi Dimensional) با معنی اور تہہ دار ہونے کے وسیع امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔

کہانی ’’پیشین گوئی‘‘ تمثیلی انداز میں سیاسی مکاریوں کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ افسانہ میں ’’قابوس‘‘ فرعون کی تمثیل ہے اور قینان حضرت موسیٰ کی تمثیل ہے دونوں کے تصادم سے جو کہانی اُبھر کر آتی ہے وہ بظاہر مذہبی تاریخ کا افسانہ ہے جس میں اقلیتی، اکثریتی فرقوں کے درمیان سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی کشمکش کا فنّی اظہار ہے۔ موجودہ کائنات میں اقلیتی فرقہ کی تہذیبی شناخت اور سیاسی تشخص کے مسائل کرۂ ارض کے ہر خطہ میں پیچیدگی اختیار کر چکے ہیں اس کو بحسن و خوبی تخلیق کار نے پیش کیا ہے۔ کہانی کہنے کے لیے داستانوی اسلوب اختیار کیا گیا ہے یہی اسلوب ’’ٹوٹی زمیں بکھرے مکیں‘‘ میں بھی برتا گیا ہے۔ مذکورہ کہانیوں میں اسے اسلوب نہ کہہ کر تکنیک بھی کہہ سکتے ہیں جو کسی ذہنی دباؤ یا سیاسی مصلحت کو شی کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ سیاسی مکاریوں کا ذکر:

’’تو قبطی قوم کو کھلا چھوڑ دو کہ وہ غلام گر وہ پر موت بن کر چھا جائے۔۔۔۔۔ اور ملک کے محافظوں سے کہو کہ وہ انھیں اس قدر ماریں کہ غلام گروہ کے آنسو نکل پڑیں اور راعیانِ حکومت سے کہو کہ وہ بعد میں ان آنسوؤں کو اس طرح پونچھیں کہ ان کی خود کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی ہوں۔‘‘ (پیشین گوئی، ص ۶۰، وہ اور پرندہ)

منجم کی پیشین گوئی اس طرح سچ ثابت ہوئی کہ وقت جو ایک بہت بڑا منصف ہے، نے فیصلہ دیا:

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ قابوس نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا۔ لیکن اس نے ہمیشہ لوگوں کو قتل کرنے کے لیے اکسایا ہے۔ اس لیے اس کو سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے۔‘‘

(ص، ۶۴)

’’مداری‘‘ اور ’’حاشیہ پر‘‘ بھی سیاسی موضوعات پر مبنی کہانیاں ہیں۔ پیش نظر کہانیاں مذکورہ کہانیوں سے اس لیے مختلف ہو جاتی ہیں کہ سامنے کی حقیقت کو Objectبنایا گیا ہے۔ تکنیکی سطح اور تمثیلی بنیاد پر تہہ دار ہونے کے ساتھ تاریخی شواہد اپنا رول ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سرِ دست دونوں کہانیاں سماجی ڈھونگ اور سیاسی فریب کے ردِّ عمل کا اظہار ہیں۔ سیاست دانوں کے ڈھونگ کو مداری کی تمثیل دی ہے جس کی کرتب بازی کو زبان کے بر محل استعمال کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ پسِ منظر میں رتھ یاترا کا واقعہ ایک نظریے کو لیے ہوئے اس طرح در آیا ہے کہ کہانی کے اندر کہانی چلتی رہتی ہے۔ بقول صغیر افراہیم:

’’مداری کا کام اپنے کرتب دکھا کر گھر گرہستی کو چلانا اور سیاستدانوں کو اپنی بساط پر جمے رہنے کا ہے۔‘‘

بین السطور کہانی کے اندر کہانی چلنے کے عمل میں ’’کرما‘‘، ’’بن باس کے بعد‘‘، ’’چھت اُڑ گئی‘‘ اور ’’ویٹنگ روم‘‘ وغیرہ بطور مثال پیش کی جا سکتی ہیں۔

’’ہاتھ جوڑ کر ہندوؤں کو رادھے شیام، مسلمان بولیں جے سیا رام۔۔۔ بچہ لوگ تالی بجائیں۔‘‘ (مداری، ص ۸۸، بائیں پہلو کی پسلی)

’’۔۔۔۔ مداری ڈگڈگی بجا تا رہا۔۔۔۔ دھرتی آنسوؤں اور خون سے گیلی ہوتی رہی تماش بینوں کی جیبیں خالی ہوتی رہیں، گلے کٹتے رہے۔۔۔۔ جان بچانے کے لیے جانوں کی بازیاں لگاتے رہے۔‘‘ (مداری، ص ۸۹)

آگے دیکھیے۔

’’تماش بینوں کو سبق سکھانا ہے، جب تک جموڑے نہیں بنیں گے۔۔۔۔۔ ہیجڑے آتنک پھیلاتے رہیں گے۔‘‘ (مداری، ص ۸۹)

پیشہ کا انسان کے مزاج، طبیعت، شخصیت اور زندگی کے تعلق سے اندازِ فکر پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ کہانی ’’حاشیہ پر‘‘ میں اہم بات یہ ہے کہ تین انجان مسافر کمپارٹمنٹ میں مذہب کی بنیاد پر ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں۔ زندگی اور موت کے تعلق سے بیتے ہوئے واقعات بیان کرتے ہیں۔ اپنی پہچان چھپانے کے لیے وہ اس طرح مصروف رکھنے کی سعی یا اپنے خوف اور دہشت کو دبانے کے لیے ایسا کرتے ہیں یہ صورتِ حال ہمارے ملک کی فسطائی طاقتوں، متعصب سیاست دانوں نے اقلیتی طبقہ میں پیدا کی ہے۔ آج ذہنی طور پر مخدوش، اقلیتی طبقہ اپنے ہی وطن میں حاشیہ پر آ گیا ہے۔ مین اسٹریم میں لانے سے پہلے اسے حاشیہ سے نکالنا ہو گا۔۔۔۔۔

فساد کے موضوع پر ’’بن باس کے بعد‘‘، ’’کرما‘‘، ’’ایک خوبصورت عورت‘‘، ’’سہما ہوا آدمی‘‘ اور ’’بی بی بول‘‘ بہت اہم افسانے ہیں۔ بیان کی نوعیت اور ٹریٹمنٹ کی بنیاد پر ہر کہانی اپنا الگ تاثر رکھتی ہے۔ ان افسانوں میں حالات کی جبریت، عصری تناؤ، منصوبہ بند فسادات، ایک مخصوص قوم کے تباہ و برباد کیے جانے کی داستان رقم کی گئی ہے۔

بقول صغیر افراہیم:

’’اقلیت کا فسادات کا شکار ہونا اور اکثریت کی سفاکی ان کہانیوں میں اس طرح اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ قاری اپنے گھر سے ہوتا ہوا، گلی، سڑک، شہر، ملک، بارود، دھماکے، دہشت، پولیس کے بوٹوں کی خوفناک آوازوں میں گھِر جاتا ہے۔‘‘ (ص، ۱۴)

’’وہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کا مذہب چھپا کر بھاگنے لگا۔ فضا میں کالا اور سفید دھواں پھیلا ہوا تھا۔ ٹائیں ٹائیں۔۔۔۔ پٹ۔۔۔۔ پٹ۔۔۔۔ مارو۔۔۔۔ مارو کی آوازوں سے زمین دہل رہی تھی اور آسمان خاموش تھا۔ زن۔۔۔۔ زن۔۔۔۔ ایک کار سڑک پر دوڑ رہی۔۔۔۔ لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔۔۔۔ کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ آپ لوگ اپنے گھر جائیں۔‘‘

(سہما ہوا آدمی، ص ۱۲۲، بائیں پہلو کی پسلی)

افسانہ ’’سہما ہوا آدمی‘‘ کا آغاز ہی اس جملے سے ہوتا ہے:

’’پورا شہر بارود کے ڈھیر پر تھا، ہر چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا تھا۔ زندگی موت کا تعاقب کر رہی تھی یا موت زندگی کا؟‘‘ (سہما ہوا آدمی، ص ۱۲۱)

مذکورہ افسانہ پولیس کی اطلاع پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

’’ایک لاش ایسی بھی پائی گئی ہے۔ جس کا منہ جھلسا ہوا تھا۔۔۔۔ اور عضو تناسل بھی غائب تھا۔ اس لیے صحیح پہچان نہیں ہو سکی کہ وہ کون تھا؟‘‘ (ص ۱۲۳)

کہانی کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے ’’پورا شہر بارود کے ڈھیر پر تھا‘‘ ۔۔۔۔ دہشت کی وجہ سے وہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کا مذہب چھپا کر بھاگتا ہے۔ مصنف نے کہانی کا اختتام نہایت تخلیقی انداز میں ’’عضو تناسل غائب کر کے مذہبی پہچان مٹا کر سوالیہ نشان قائم کیا ہے اور اس حقیقی سچائی کا اظہار کرتے ہوئے ’’انسان‘‘ کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ ادھر فسادات کی اس حقیقت کو اُجاگر کر کے ایک مخصوص ذہنیت کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔

کہانی ’’بن باس کے بعد‘‘ میں جانکی نام کی عورت جو مرکزی کردار بھی ہے، فرقہ وارانہ فساد میں گھر جاتی ہے۔ امن ہونے پر چودہ دن کے بعد وہ گھر لوٹتی ہے تو اس کی زندگی میں عزت و ناموس کے نام پر ایک دوسرا وبال کھڑا ہو جاتا ہے جو فساد میں گھرنے سے زیادہ اذیت ناک اور خوفناک ہے۔ اپنوں میں پہنچ کر اسے پنچایت کے سامنے اپنی پاکیزگی کو ثابت کرنے کے لیے اگنی پریکشا سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے شوہر راگھویندر اور جانکی کی روحانی اذیت اور دلی کیفیت کو مصنف نے اس طرح بیان کیا ہے کہ پسِ منظر میں رامائن کا واقعہ سیتا ہرن اُبھرتا ہے کہ جب سیتا جی چودہ سال کے بعد گھر لوٹ کر آتی ہیں، اگنی پریکشا کی آزمائش میں کامیابی ملنے کے باوجود بھگوان رام نے اس دیوی کو تنِ تنہا جنگل میں چھڑوا دیا تھا۔ احمد رشید کی کہانی اسی نکتہ سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں کہانی کے آخر میں توتے کا پنجرے سے یہ کہہ کر آزاد کرنا ’’اب یہ رٹے ہوئے الفاظ نہیں بولے گا‘‘ روایت شکنی کی طرف ایک اشارہ ہے۔

’’راگھویندر نے جانکی کے آنسو پونچھے‘‘ اسے قریب کیا۔ ’’اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا تم کو مجھ سے چھین لے، میں تم کو تم سے چھین لینا چاہتا ہوں۔‘‘

(بن باس کے بعد، ص ۷۵)

اس کہانی میں فیمینزم کا یہ تصور بھی اُبھر کر آتا ہے کہ عورت کو ہی ہر امتحان اور آزمائش سے گزر کر اپنی پاکیزگی ثابت کرنی ہوتی ہے جبکہ مرد اس کسوٹی پر بھی بالکل آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ممتاز دانشور پروفیسر شافع قدوائی لکھتے ہیں:

’’بن باس کے بعد، در اصل نسائی حسیت کی مختلف جہتوں کو فنکارانہ شعور کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اس افسانہ کی ماورائی، مذہبی اور اساطیری فضا در اصل مذہبی اجارہ داری کے خلاف شعوری صدائے احتجاج کی چغلی کھاتی ہے۔‘‘ (وہ اور پرندہ، ص، ۷)

افسانہ ’’کرما‘‘ میں ایک دیہات کی منظر کشی میں ہندوستان کا تصور اُبھر کر آتا ہے جہاں ہر ذات اور برادری کے لوگ میل و محبت سے رہتے ہیں لیکن ایک مسجد کے تنازع کو لے کر دونوں فرقوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کا جذبہ پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت کرما جو افسانہ کا مرکزی کردار بھی ہے جس ذہنی کشمکش سے گزرتا ہے اس کا بیان نہایت حقیقی انداز میں کیا گیا ہے۔ کرما کون ہے کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے یہ کسی کو پتہ نہیں ہے لیکن گاؤں کے ایک مولوی کے یہاں اس کی پرورش ہوتی ہے اس کے اخلاق و کردار کی تعمیر اس طرح ہوتی ہے کہ وہ انسانی اقدار اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی پیدائش کو بھی شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں سماجی پس منظر میں کبیر داس جی کی پیدائش اور ان کی پرورش کا خاکہ ذہن میں ابھرتا ہے جن کا دھرم انسانیت تھا جنھوں نے اپنے دوہوں کے وسیلے سے قومی اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیا ہے وہ کام کرما اپنے گاؤں میں انجام دیتا ہے مگر اس کے باوجود اس کی حادثاتی موت خود فرقہ وارانہ فساد کی بنیاد بن جاتی ہے۔ یہ سماج پر ایک طنز بھی ہے کہ ہم شخصیت کی پوجا تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل کر اس کو خراجِ عقیدت پیش کرنے میں قاصر نظر آتے ہیں۔

’’۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ آزادی ملی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ آزادی کا لطف اٹھانے سے پہلے گاندھی جی کے گولی لگی۔۔۔۔۔۔۔مندر بھی مکمل ہوا، مورتی بنانے والوں کو پوجا کرنے کا حق نہیں ملا۔‘‘

(کرما، ص ۱۰۵، وہ اور پرندہ)

کہانی کے آخر میں جگبیر ٹھاکر۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی جانب مڑا کرما کہا کرتا تھا ’’کرم کرو بغیر پھل کی خواہش کے‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر ہاتھ میں لٹھ سنبھالا، جے بجرنگ بلی کا نعرہ لگایا اور خود بھی فساد میں شامل ہو گیا۔

’’ایک خوبصورت عورت‘‘ میں گجرات میں ہوئے بھیانک فسادات کا بیان نہایت درد انگیز انداز میں ملتا ہے۔ خصوصی طور سے عورتوں پر ہونے والی غیر انسانی حرکتوں اور اخلاق سوز وارداتوں کا ایسا ذکر کہ شیطان بھی شرمندہ ہو جائے۔ عورتوں پر ہونے والے مظالم کا حقیقی بیان جنھیں دیکھ کر اور سن کر جانوروں کی بھی روح کانپ جائے۔ عورتیں زیادہ تر فسادات کا شکار ہوتی ہیں اور جب وہ سماج میں اپنا وقار اور مقام تلاش کرتی ہیں تو اپنی اس عظمت اور عزت کو بھی کھو دیتی ہیں جس پر وہ پہلے فائز تھیں۔ ایک بے نام خوبصورت عورت کا ایسی ہی دشواریوں اور پریشانیوں سے واسطہ پڑتا ہے جس کی مدد سماج کا ایک بُرا آدمی جو ہر عیب میں ملوث ہے کرتا ہے۔ یہاں ’صالح‘ نام کا کردار بھی ہے جس کا سماج میں عزت دار لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس سے مکالمہ ہوتا ہے۔

’’ایک دن ہوا یوں ایک عورت شرفاء کے مجمع میں شرمسار کھڑی تھی۔۔۔۔۔ آنکھوں میں آنسوؤں کا طوفان تھا۔ میں اس طوفان میں ڈوب گیا۔ شرفاء صرف قدرتی طوفان میں ڈوبتے ہیں۔۔۔۔ پھر ان کے لیے راحتیں آتی ہیں۔۔۔۔ امداد آتی ہیں۔۔۔۔ قدرت سے مقابلہ کرنے کے لیے کسرت ہوتی ہے۔‘‘

(ایک خوبصورت عورت، ص ۶۰)

بقول پروفیسر صغیر افراہیم:

’’عورتوں کا جنسی استحصال، ان کے ساتھ جسمانی اذیتیں اور اخلاق سوز حرکتیں اب عام ہو چکی ہیں۔‘‘ (ص ۱۴، بائیں پہلو کی پسلی)

’’مجھے اپنی کائنات میں لے چلو جہاں عورت کو صرف عورت سمجھا جائے۔ ان ہیجڑوں کی دنیا سے میں تنگ آ چکی ہوں۔۔۔۔ جہاں گاؤ کشی کی مذمت اور انسان کشی کی حمایت کی جاتی ہے۔ جہاں مصلحت اور تقاضوں کے درمیان مرد، نامرد ہو جاتے ہیں اور عورت رنڈی بنا دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ۔‘‘ (ایک خوبصورت عورت، ص ۶۴، بائیں پہلو کی پسلی)

مصنف سیکولرزم کو رنڈی کی علامت قرار دیتے ہوئے کہتا ہے:

’’برائی بھلائی سے دور۔۔۔۔۔۔ صرف ایک مقصد اور ایک منزل۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ایک ایسی جمہوریت جہاں پائجامہ کھول کر مذہب نہیں دیکھا جاتا۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ کیا ہے وہ۔۔۔۔۔ سیکولرزم؟‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، ص ۶۳)

اسی طرح افسانہ ’’بی بی بول‘‘ میں فساد سے متاثر عورت دہشت اور خوف کی وجہ سے سکتہ میں آ جاتی ہے۔ یہاں منٹو کی کہانی ’’کھول دو‘‘ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ موضوع کی یکسانیت کے باوجود ٹریٹمنٹ کی بنیاد پر کہانی بالکل مختلف ہو جاتی ہے:

’’کان ہیں مگر سنتی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں ہیں مگر دیکھتی نہیں۔۔۔۔۔۔۔زبان ہے مگر بولتی نہیں۔۔۔۔۔۔ خدا کے کان نہیں ہوتے مگر وہ سنتا ہے۔ آنکھیں نہیں مگر دیکھتا ہے۔ ہر چیز دیکھتا ہے مگر بولتا نہیں ہے۔۔۔۔۔ لے۔۔۔۔ کن۔۔۔۔ لیکن بولتی تو یہ بھی نہیں۔‘‘

(بی بی بول، ص ۱۴۰، بائیں پہلو کی پسلی)

عصری منظر نامہ میں احمد رشید موضوعاتی سطح، اسلوبیاتی بنیاد پر ارضیت سے جوڑ کر اپنے افسانوں کا تانا بانا بنتے ہیں۔ بیانیہ کی خوبصورتی، لفظ و معنی کی استواری ان کی کہانیوں کی بنیاد ہے۔ تازہ مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ جو اکیس کہانیوں پر مشتمل ہے، دس سال قبل ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ اردو ادب کے افق پر طلوع آفتاب کی طرح نمودار ہو کر تاریکی اور سناٹے میں بیداری کا اشاریہ بنا اور ادبی حلقہ کو چونکا دیا۔ مجموعہ میں سولہ کہانیاں شامل ہیں جن کی ادب میں کافی پذیرائی ہوئی اور داد تحسین پائی۔ مجموعہ کی پہلی کہانی ’’کہانی کہتی ہے‘‘ میں افسانے کا ارتقائی سفر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ بین السطور میں تہذیبی اور معاشرتی ارتقاء کی کہانی کا سفر بن جاتا ہے کہ افسانے میں کہانی پن کی بنیاد اور افسانہ کے فن پر مصنف کی گرفت کا غماز ہے جس میں آغاز سے اختتام تک قاری کے تجسّس کا باعث بنتا ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی کی رائے ہے:

’’الفاظ اور صوت و صدا کی وساطت سے تخلیق کائنات پر سوالیہ نشان قائم کیا گیا ہے اور مروجہ اخلاقی معیاروں کی آخری سچائی کے طور پر قبول کرنے سے بھی برملا انکار کیا گیا ہے۔‘‘ (وہ اور پرندہ، ص ۷)

’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کا پہلا افسانہ ’’کہانی بن گئی‘‘ میں افسانہ کے فن اور حیات و کائنات سے اس کے ربط و ضبط سے بحث کی گئی ہے جو اس کہانی کا موضوع بھی ہے۔ اس میں انٹرویو کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ فکشن کے ممتاز نقاد پروفیسر صغیر افراہیم اس مجموعے کے تعلق سے لکھتے ہیں:

’’بڑی بات یہ ہے کہ اس منطقی بحث کو کہانی کی شکل میں پیش کرنے سے ان کی تخلیقی صلاحیت اور افسانہ کے تئیں ان کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کہانی کو افسانہ نگار کا پیش لفظ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، ص ۱۰)

دونوں کہانیاں فنّی نقطۂ نظر سے کھری اترتی ہیں۔ اول کہانی میں تہذیب کا ارتقائی سفر اور دوسری میں انسان کے معاشرتی عمل کو فنکارانہ چابک دستی سے بیان کرنا کہ افسانہ میں کہانی پن شروع سے آخر تک قائم رہے از خود افسانہ نگار کا کمال ہے۔

’’اور کہتی ہے دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے میرا پہلا لفظ اس شکتی نے لکھا۔۔۔۔۔ جب کائنات عدم تھی۔‘‘ (کہانی کہتی ہے، ص ۹، وہ اور پرندہ)

جس زمانہ میں ’’جواز‘‘ مالیگاؤں میں افسانہ ’’بن باس کے بعد‘‘ شائع ہوا اسے ادبی حلقہ میں بے حد پسند کیا گیا۔ اسی دوران شاعر ماہنامہ میں افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ چھپا۔ سنجیدہ قارئین نے نہ صرف تعریف کی بلکہ اردو ادب کی نمائندہ کہانیوں میں ذکر ہوا۔ بانو سرتاج اور مشرف عالم ذوقی جو خود بھی افسانہ نگار ہیں نے ’’وہ اور پرندہ‘‘ کو خوبصورت تخلیق کہہ کر دادِ تحسین دی۔ عبد الخالق انگریزی ادب دوست نے فرانسیسی مفکر گسٹ کامٹے (August Comte) کے فکر و فلسفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پذیرائی کی۔

افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ تخلیق کار کے ذہنی انتشار کا آئینہ دار ہے جو داخلی زندگی کے انتہائی کرب سے تخلیق ہو کر فنکارانہ صلاحیتوں کے اظہار کا نمونہ بن گیا۔

افسانہ میں ’’پرندہ‘‘ آزادی کا علامتی کردار بن کر اُبھرتا ہے در اصل یہاں انسان کا آزادی سے زندہ رہنے کا دعویٰ ایک فریب ثابت ہو جاتا ہے جب اسے زندگی جینے سے واسطہ پڑتا ہے تو معاشرے کا جبر، سماجی اور مذہبی دباؤ آزاد زندگی جینے کی اجازت نہیں دیتا جسے وہ جینا چاہتا ہے۔ زندگی کے تضادات اور تصادمات اسے اذیت ناک زندگی جینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہی وہ روحانی کرب ہے جس کے توسط سے ’’وہ اور پرندہ‘‘ جیسی کہانی تخلیق ہوتی ہے۔ وہ اور پرندہ بظاہر دو کردار نظر آتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی شخصیت کے دو متضاد پہلو ہیں اس طرح یہ افسانہ تکنیکی سطح پر بھی منفرد بن جاتا ہے۔ اس کہانی کے سلسلے میں پروفیسر شافع قدوائی کی رائے ہے:

’’وہ اور پرندہ، ایک گہرے مذہبی احساس اور روحانی تجربے کی کہانی ہے جس میں مذہب یا عقیدہ اپنے آخری تجزیے میں ایک عافیت کوش تجربے میں منقلب ہو جاتا ہے۔‘‘ (وہ اور پرندہ، ص ۶)

افسانہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ دوسرے مجموعے کا سرنامہ ہے۔ فنّی اور موضوعی نقطۂ نظر سے بہت اہم کہانی ہے۔ مذکورہ کہانی میں عورت کے استحصال دکھانے کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔ موضوع کے ساتھ جو ٹریٹمنٹ اختیار کیا گیا ہے وہ بہت ہی نرالا اور انوکھا ہے۔

روئے زمین پر رہنے والے انسانی گروہ میں عورت آدھی آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود مرد اساس سماج میں اپنے وجود کی اہمیت، وقار و عظمت کی تلاش میں کوشاں ہے۔

جب عورت کو اپنی برتری اور عزتِ نفس کا احساس ہوا تو اس جدید رجحان نے تحریک کی شکل اختیار کر لی جو انگریزی زبان میں Feminism اور اردو ادب میں تانیثیت کی اصطلاح کے طور پر رائج ہے جس کے اثرات عصر حاضر کے تخلیق نگاروں میں شدت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

احمد رشید کا افسانہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کے علاوہ دیگر افسانے ’’فیصلے کے بعد‘‘، ’’دو سال بعد‘‘، ’’وہ اور پرندہ‘‘، ’’برف تلے‘‘، ’’بن باس کے بعد‘‘ اور ’’تیسری شخصیت‘‘ میں تانیثیت کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اگر ہم مذکورہ پہلی تینوں کہانیاں اسی ترتیب سے مطالعہ کریں تو تاریخی شواہد کی روشنی میں عورت کا استحصال، مرد کی بالا دستی سے انکار، حقوق کی حصولیابی کے لیے مزاحمتی رویہ اختیار کرنا جیسے موضوعات پر فیمینزم کے حوالے سے منطقی بحث اس طرح کی ہے کہ افسانوں کی دلچسپی اور تجسّس آخر تک بر قرار رہتا ہے اور اسٹوری لائن کہیں بھی فوت ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ یہ مصنف کی افسانے کے فن پر مشاقی کی دلیل ہے۔

افسانہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ میں اقوام قدیمہ، دور یونان سے انفرا اسٹرکچر جدید زمانہ تک عورت کے استحصال اور اس کی حیثیت کا بتدریج جائزہ لیا ہے۔ اس مختصر کہانی میں تین ہزار سالہ تہذیبی اور تاریخی نشیب و فراز میں عورت کی مسلسل داستان بیان کی گئی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ لطیف پیرائے میں افسانہ کے تسلسل اور تجسّس کو بھی قائم رکھا گیا ہے۔ یہ اس افسانہ کی فنّی معراج ہے۔ یہاں عورت کی بے کسی، بے بسی اور مجبوری کا اظہار ہے اور خاموش احتجاج بھی۔ ’’فیصلے کے بعد‘‘ میں مزاحمتی انداز میں عورت ہمارے سامنے اُبھر کر آتی ہے۔ افسانہ ’’دو سال بعد‘‘ میں عورت Radical فورم میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ان کے افسانوں میں عورت مزاحم تو ہے لیکن مرد بیزاری کا اظہار کہیں نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی مرد کرداروں میں عورت بیزاری کا تصور دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ ہر کہانی میں ایک توازن کا احساس قائم رہتا ہے جو افسانہ نگار کی متوازن سوچ کا نتیجہ ہے۔

’’سراب‘‘ میں بظاہر شناخت کے گم ہونے کا المیہ بیان کیا گیا ہے جو جدیدیت کا محبوب موضوع رہا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ زندگی کے تعلق سے مثبت نقطۂ نظر کی وضاحت ہوتی ہے۔ یہاں محرومی، نامرادی اور مایوسی کے بجائے زندگی جینے کا ایک حوصلہ ملتا ہے کہ انسان کو پاداش کا صراطِ مستقیم تلاش کرنے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ ویسے بھی تمام کہانیوں کے مطالعہ سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف زندگی کے بارے میں مثبت مطمح نظر رکھتا ہے۔

ہمیں مذہبی حوالوں سے میدانِ حشر کے معاملات کی جو معلومات دریافت ہوئی ہیں، ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو جدید دور کا منظر نامہ، میدانِ حشر کے منظر نامہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ جہاں انسانی اقدار اور تمدنی وراثتیں ٹوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ انسان اشرف ہونے کا ڈھونگ کر رہا ہے اور غیر اخلاقی حرکتیں، خباثتیں اس کے باطن میں پوشیدہ ہیں۔ اس دور میں رشتے ناطے، تعلقات، ملاقاتیں سب ہی ٹوٹ گئی ہیں۔ بھائی بھائی نہیں رہا، والدین کی عظمت گھٹ گئی۔ دوستی، رفاقتیں سب ہی بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں۔ ہر آدمی صرف اپنی زندگی جی رہا ہے۔ اس گہما گہمی کے دور میں انسان بچوں کی معصوم کلکاریاں، نازنینوں کی حسین نزاکتیں، قدرتی مناظر کے لطف سے محروم ہو گیا ہے، یہاں تک کہ اپنے وجود کی اہمیت کا احساس تک مٹ گیا ہے۔

’’اور جب ہم لوٹیں گے تو اس جمِ غفیر میں ’’ہمیں‘‘ پسر ابن مادر فلاں سے پکارا جائے گا۔ لیکن وہ تخلیق جو آنکھ کھلنے پر آسمان باپ اور زمین ماں کو دیکھتی ہے۔ پھر وہ اپنی پہچان کی جستجو میں بھاگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

’’پاپا کل پھل لانا۔۔۔۔۔۔ کل میری بچی نے کہا۔

’’میں یہ کیسے کہوں کہ درخت سوکھ گئے اور اب زمین پانی کی جگہ پٹرول اگلتی ہے جو پیاس بجھانے کا سبب کم، پیاس کا سبب زیادہ بنتا ہے۔‘‘ (سراب)

مذکورہ کہانی میں ’’میں‘‘ کا المیہ علامتی اسلوب میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ اشکال اور مہملیت کا کہیں بھی احساس نہیں ہوتا۔

تکنیکی اعتبار سے افسانہ ’’ٹوٹی زمیں بکھرے مکیں‘‘ بہت اہم ہے۔ جب زمین ٹوٹتی ہے تو خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات میں سرحدیں قائم ہوتی ہیں، جغرافیائی اور سیاسی لکیریں کھینچی جاتی ہیں اور جب اس ’’اکائی‘‘ پر خط تنسیخ کھینچی جائے گی تو مکیں بکھرتے ہیں اور تباہی و بربادی آتی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت کا بیانیہ ہے جس کو بیان کرنے کے لیے داستانوی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ سکندر اور پورس کی تمثیل کے حوالے سے کہانی مکالماتی انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ سکندر اور پورس دونوں دوست ہیں۔ جنگ بندی کے بعد ایک محاذ پر فاتح اور مفتوح سپہ سالاروں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو دونوں پتھر کے ہو جاتے ہیں اور یہ پیچھے مڑنے کا عمل ہے:

’’وہ دونوں بے پرواہ ہو کر ایک ہی زمین کی سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو ایک دوسرے کے اندر تلاش کرنے میں مصروف ہو گئے۔‘‘ (ٹوٹی زمیں بکھرے مکیں)

دونوں پیچھے مڑ تے، ہیں کہانی فلیش بیک میں چلی جاتی ہے۔ ماضی کے بیتے ہوئے تلخ و شیریں لمحات جو ایک ساتھ گزارے تھے، یاد کرتے ہیں۔ اپنی اپنی معشوقائیں بھی یاد کرتے ہیں۔ گاؤں کی عورت کو تتلی اور شہر کی عورت کو پتنگ کی علامت دی گئی ہے۔ پسِ منظر میں دیہات اور شہر کی زندگی کے فرق کی وضاحت بھی ملتی ہے۔

یہاں محسوس ہوتا ہے ۱۹۷۱ء کے جنگ کے بعد کا منظر بیان کیا گیا ہے جس میں جنرل ارورہ اور کرنل نیازی اس محاذ پر آمنے سامنے تھے۔ انسانی نقطۂ نظر سے دوستی کی بنیاد پر خود سپردگی کے بعد لاکھوں انسانوں کو ہلاک ہونے سے بچا لیا، اس شرط پر کہ سرینڈر ہونے کے بعد ہمارے فوجیوں کی جان بخش دی جائے گی۔ جنرل ارورہ انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے ۹۰ ہزار فوجی قیدیوں کو پکڑ کر لے آئے۔ یہی انسانی عمل ان کے لیے وبالِ جان بن گیا کہ انھوں نے دشمن ملک کی طاقت کمزور کرنے کے بجائے انسانی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ہندوستانی معیشت پر ان قیدیوں کو بوجھ بنا دیا۔ تاریخ نے جنرل ارورہ کو بھلا دیا ادھر کرنل نیازی کو بھی فراموش کر دیا گیا:

’’لیکن ہوا یوں اس قدر بھیانک طوفان آیا کہ وہ دونوں خون آلود ہو گئے۔۔۔۔ اور شدید زخمی ہو کر نیچے گر گئے۔۔۔۔۔۔۔اس سے۔۔۔۔۔۔۔پہلے۔۔۔۔۔۔۔کہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔ان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان بنتے وہیں ڈھیر ہو گئے۔‘‘

(ٹوٹی زمیں، بکھرے مکیں، ص ۱۰۱، وہ اور پرندہ)

ملکی قانون کے مطابق طاقت کو کمزور کرنے کے طریقے کو انسانیت کی خاطر اپنے اس خوفناک عمل اور غیر انسانی فعل سے پرہیز کرنا انسانیت کا پیغام ہے۔ دوسرے دشمن کا سرنگوں ہے اور وہ پناہ چاہتا ہے تو پھر تلوار اٹھانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی!؟

احمد رشید کی کہانیوں میں افسانے کے عناصر ترکیبی اکائی کی طرح ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں، ان کا الگ الگ تجزیہ کرنا محال ہوتا ہے۔ یہاں ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘، ’’وہ اور پرندہ‘‘، ’’ہاف بوٹل بلڈ‘‘، ’’لال تکون‘‘ اور ’’فول۔۔۔۔ پھول‘‘ واضح مثالیں ہیں جن کا تجزیاتی مطالعہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔

جنسی بھوک ہو یا پیٹ کی بھوک، زندگی میں کیسے کیسے Complexes پیدا کرتی ہے۔ انسان مجبور ہو کر اخلاقی حدود پار کر کے بے راہ وی کا شکار ہو جاتا ہے۔ افسانہ ’’رینگتے کیڑے‘‘ میں ایک بیمار شخص جس کے کاندھے پر گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے، موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے —– کیسے کیسے کربناک خیالات اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں —– اس سے اس کی روحانی بے چینی اور ذہنی بے سکونی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

’’دو بہنیں جن کے جوان ہونے کا احساس مجھے اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب میری عیادت کے لیے آنے والے ہر مرد کا ہاتھ میری جیب کو گرم کرتا ہے لیکن وہ اپنی آنکھوں کو میری بہنوں کے جوبن سے سینکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ۔‘‘

زندگی کی ٹھوس حقیقتوں اور سفاک سچائیوں کا اندازہ مندرجہ ذیل جملوں سے کیجیے:

’’ڈاکٹر کہتے ہیں کہ زیادہ محنت کرنے سے پھیپھڑے خراب ہو جاتے ہیں۔ اب بھلا ڈاکٹروں کو یہ کون سمجھائے۔۔۔۔ کہ پھیپھڑے تو زیادہ بھوکے رہنے سے بھی خراب ہو جاتے ہیں، پھیپھڑے تو بہنوں کی شادی کی فکر میں بھی خراب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ (رینگتے کیڑے)

آگے غریبی کی منظر کشی کا یہ پہلو بھی دیکھیں:

’’۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ کسی جھونپڑے کو پولیو ہو جاتا ہے، کسی جھونپڑے کو کالرا۔۔۔۔ اور کسی جھونپڑے کے منہ سے خون آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (رینگتے کیڑے)

’’ٹوٹا ہوا آدمی‘‘ میں ایک کم تنخواہ پانے والے ٹیچر کی کسمپرسی کا ذکر کیا گیا ہے جو افسانہ کے فن پر مکمل کھرا اُترتا ہے۔ بزرگ افسانہ نگار رتن سنگھ نے اس افسانے کے سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے:

’’کہانی ’’ٹوٹا ہوا آدمی‘‘ بہت زیادہ بہتر کہانی ہے آج تو کہانی کا اکال ہے اس کہانی کار کے ہاں تو بہت اچھا کہانی کار بننے کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔‘‘

’’لال تکون‘‘ میں مفلسی اور جنسی مجبوریوں کا اظہار بھی بڑے ہی خوبصورت انداز میں ہوا ہے۔ کہانی کا اسلوب بڑا ہی متحرک، پُر کشش اور مزاح سے بھر پور ہے، جس نے مذکورہ افسانہ کو اہم بنا دیا ہے۔ اسلوب کا نمونہ دیکھیں:

’’چودھری صاحب کرسی سے چپکے رہے ان کے گھر کا چولھا بھی گرم رہا۔ مرغ ہانڈی میں اصلی گھی پیتے رہے، مچھلیاں سرسوں کے تیل میں تیرتی رہیں، بریانی کی خوشبو سے نتھنے پھولتے رہے اور جب ان کا جسم پھولا تو پیٹ میں مچھلیاں اُچھل اُچھل کر جسم کی رگ رگ میں گدگدی کرنے لگیں اور ایک دن مرغ نے کان پر بانگ لگائی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور آنکھیں مسلتے ہوئے انھوں نے انگوری کو دیکھا اور مسکرا گئے پھر کیا تھا؟ ۔۔۔۔۔۔‘‘

غریبی کے موضوع پر ’’ہاف بوٹل بلڈ‘‘ ایک الگ ہی پس منظر کو پیش کرتی ہے جسے استعاراتی انداز میں ابھارا گیا ہے اور ایک عجیب و غریب دنیا سے روشناس کراتا ہے۔ مفلسی انسان کو کس موڑ پر لا کر کھڑا کرتی ہے، جہاں تہذیب کی اعلیٰ اقدار ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔ انسان ذہنی طور سے نہ چاہتے ہوئے ایسے کمزور لمحوں کو Adjust کر لیتا ہے اور تمام اخلاقی رموز سے انکار کر دیتا ہے۔ پیٹ کے سامنے صحت، عزت اور مذہب سب بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔

’’دوکان دار کہہ رہا تھا ’’پچھلا چکتا کرو، اگلا کھاتہ تب کھلے گا۔‘‘ اس نے کہا۔

’’اب نیا کھاتہ کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے قدرے زور دے کر کہا، آواز آنگن میں گونجی اور خاموشی ٹوٹ کر بکھر گئی۔‘‘

عورت اور مرد کے بیچ رشتہ میں عجیب عجیب کڑواہٹیں اور تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ وصل، انتظار، شادی، بیاہ، طلاق جذبات کی ایسی کیفیتیں ہیں جن سے انسان کی زندگی کا دامن بھرا ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر تعلق مستحکم اور بر قرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا مخالف لمحات میں صبر آزما رہنا ضروری ہوتا ہے یہاں زندگی کی کوتاہیاں جن کا انسان کمزور لمحوں میں مرتکب ہو جاتا ہے تو وہ ذہن کی پٹاری میں سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ جاتا ہے اور قلب کا سکون ڈستا رہتا ہے اس سے چھٹکارا پانے کی ایک ہی صورت ہے کہ انسان ایک دوسرے کو معاف کرتا رہے:

’’ا۔۔۔۔ و۔۔۔۔ ر اور وہ راز ایک سانپ بن کر میرے ذہن میں کنڈلی جمائے بیٹھ گیا۔۔۔۔ اب اس کا زہر پورے جسم میں سرایت کر گیا ہے۔

آگے کہانی میں ’’رشتہ کی عظمت اعتماد پر قائم ہوتی ہے اور اس کو جلا نظر اندازی سے ملتی ہے۔‘‘ اس نے پورے وثوق اور بے خوف و خطر یہ بات کہی۔‘‘

(وہ لمحہ، ص ۱۱۶، بائیں پہلو کی پسلی)

اسی احساس کو افسانہ ’’کرب کا سمندر‘‘ میں دوسری صورت میں پیش کیا گیا ہے جب اویناش اپنی بیوی انجلی سے بد گمان ہوتا ہے اور بے یقینی کی صورتِ حال سے نجات پانے کے لیے وہ خود کشی کر لیتی ہے اور اویناش کو ایک خط چھوڑتی ہے:

’’شوہر اور بیوی کے رشتہ کی بنیاد اعتماد اور یقین پر ہوتی ہے اور جب اعتماد کی بنیادیں ہلنے لگیں اور یقین کی چولیں ڈھیلی ہو جائیں تو عمارت گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

افسانہ ’’دھوئیں کی چادر‘‘ میں دوستی کے رشتہ کی صراحت کی گئی ہے۔ دوستی کے بیچ اگر دولت آ جائے تو غریبی اور امیری کے تعلق میں کڑواہٹ آ جاتی ہے کچھ اسی طرح کی کیفیت کا خوبصورت اظہار اس کہانی میں ملے گا۔ افسانے میں کرداروں کی نفسیات کا حقیقی عکس نظر آتا ہے۔

’’اگر ہندوستان میں پانی کا قحط پڑ جائے تو ان حالات میں ایک گلاس پانی کی قیمت تمہاری کل جائداد ہو تو تم کیا کرو گے؟‘‘

’’خرید لیں گے‘‘ دونوں نے یک زبان ہو کر کہا اور میری بیوقوفی پر مسکرانے لگے۔

آگے کہانی میں ایک برجستہ طنز سے بھر پور مکالمہ ہے:

’’جس جائداد کی قیمت پانی کا ایک گلاس کے برابر بھی نہ ہو اس پر اتنا غرور کیوں؟‘‘

انسان فطری طور پر طاقت جیسی شے کا مرید ہوا ہے۔ آج اس سائنسی اور تعلیمی دور میں بھی وہ ضعیف الاعتقادی کا شکار ہے۔ بھوت پریت، چڑیل، جھاڑ پھونک، تعویذ گنڈوں پر یقین کرتا ہے۔ ڈھونگی مولوی ملا، تانترک دھرم اور مذہب کی آڑ میں کیسے کیسے ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اس موضوع پر ’’بھورے سید کا بھوت‘‘ بڑی ہی دلچسپ کہانی ہے۔ اسلوب اور پلاٹ کی ترتیب کی بنیاد پر افسانہ تحیّر آمیز بھی ہے۔

جب طاقت کا توازن بگڑتا ہے اور چیک اینڈ بیلنس (Check and Balance) کی پوزیشن خراب ہوتی ہے تو دنیا کا بھی توازن بگڑ جاتا ہے۔ آج عالمی طاقتوں نے کمزور ممالک کی صورتِ حال بگاڑ رکھی ہے خصوصی طور سے اس کا ذمہ دار امریکہ اور اس کے حلیف ممالک ہیں۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے ڈھونگ میں بد امنی پھیلا کر رکھ دی ہے تاکہ اس کی چودھراہٹ بر قرار رہے۔ افسانہ ’’ناخدا‘‘ اسی موضوع کا غماز ہے۔ سماجی پسِ منظر کو ابھار کر کہانی کو تخلیق کیا گیا ہے جس میں نہ کوئی کردار ہے اور نہ مکالمے۔۔۔۔ بس پلاٹ کو منطقی ترتیب دی گئی ہے۔ دنیا میں ہر طاقت کا تنزل ہے۔ تاریخ شاہد ہے جس قوم کا عروج ہوا ہے اس کا زوال بھی یقینی ہے۔ کلائمکس پر کہانی کا خاتمہ بھی عبرت ناک انجام پر ہوا ہے:

’’اس گرم ریت پر ہیرے موتی چمک رہے تھے۔ سیم و زر سمندر کے کنارے بکھرا پڑا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔ لے۔۔۔۔ کن۔۔۔۔ پوری کی پوری مخلوق، مچھلیوں پر ٹوٹ پڑی اور ٹوٹنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو خدائی دعویدار تھے۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی)

افسانہ ’’سفید لباس سیاہ راتیں‘‘ میں جوان بیوہ عورت کی جذباتی کیفیت کا بڑا ہی درد ناک بیان کیا گیا ہے کہ سفید لباس کو رات کی سیاہی میں بے داغ رکھنا کسی آزمائش سے کم نہیں جو زندگی کی اس بیچارگی اور مجبوری کا استعارہ بن گیا ہے۔ نکاح ثانی ہونا انسان کی فطرت کا تقاضہ ہے۔ یہی افسانہ کا اختتام بھی ہے۔

’’خواب ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘ اسی معمہ کو پلاٹ کے منطقی ربط میں پرو کر کہانی کو تخلیق کرنا کمالِ فن ہے۔ خواب کی نفسیاتی گرہوں کو کھولنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن افسانہ میں خواب کی کیفیت کی پوری فضا ہموار کرنا جس میں جنت و جہنم بھی سامنے ہوتے ہیں اور موت و زندگی کی حرکی کیفیتیں بھی۔ پھر کہانی پن کو بر قرار رکھنا۔ احمد رشید کے فنّی دسترس کا کارنامہ ’’دھواں دھواں خواب‘‘ میں دکھائی دیتا ہے۔

’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ ایک تمثیلی افسانہ ہے جو بڑے اور چھوٹے کے فرق کو بیان کرتا ہے کہ اگر بڑا آدمی، کمزور اور ناتواں انسانوں کے کام نہ آئے تو اس کا بڑا ہونا بے معنی ہو جاتا ہے:

’’اس کے اوپر ہذیانی سی کیفیت طاری ہو گئی۔۔۔۔۔ وہ مٹی ڈالتا رہا۔۔۔۔۔ لعنت ایسے بڑے ہونے پر جو دوسروں کے کام نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اس پر خاک ڈالی۔۔۔۔۔۔ میں نے اس پر خاک ڈالی۔۔۔۔۔ لعنت خاک۔۔۔۔ لعنت خاک کی آوازیں۔۔۔۔۔۔۔ اس کے گلے میں گھٹنے لگیں۔‘‘

’’ویٹنگ روم‘‘ اور ’’چھت اڑ گئی‘‘ دونوں کہانیاں دنیا کی بے ثباتی کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ پہلی کہانی میں اس کائنات کی پلیٹ فارم کے ویٹنگ روم سے مماثلت قائم کر کے اس کے عارضی ہونے کا اظہار ملتا ہے۔ بظاہر کہانی میں اسٹیشن کی گہما گہمی، دوڑ بھاگ، سفر کرنے کی عجلت، منزل پر صحیح سلامت پہنچنے کی بیتابی کا ذکر ہے۔ اس کائنات میں انسان کی حیثیت بھی ایک مسافر کی سی ہے۔ ایک نہ ایک دن اس کو واپس ہونا ہے جس سفر سے وہ آیا ہے لیکن اس کائنات کی زیب و زینت اور زندگی کی آرائش میں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اسے اس کائنات کو چھوڑنا بھی ہے۔ احمد رشید کو کہانی در کہانی کہنے کا فن آتا ہے۔ زیادہ تر کہانیاں اس کی مثال ہیں۔ مذکورہ کہانی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پینٹنگ کے حوالے سے نظامِ حکومت کی تاریخ کی صراحت بھی ملتی ہے جو اس کے ترفع ہونے کی نشان دہی بھی ہوتی ہے۔

’’چھت اُڑ گئی‘‘ میں کائنات کو مردہ خوبصورت عورت کہا گیا ہے۔ افسانہ میں اس کے عارضی ہونے کا اظہار ملتا ہے۔ انسان کائنات کی بے ثباتی، زندگی کے غیر مستقل ہونے سے اچھی طرح واقف ہے پھر بھی اس کائنات کی خوبصورتی کے دامِ فریب میں آ جاتا ہے جس کی حیثیت مردہ لاش جیسی ہے۔

’’اندھا قانون‘‘ کے عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ قانون اور انصاف کی گاڑی گواہوں پر چلتی ہے۔ سامنے کی سچائی بھی جھوٹ ثابت ہو جاتی ہے اگر شہادتیں مضبوطی سے نہ رکھی جائیں۔ یہاں پولیس کی کار گزاریوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

محبت کا جذبہ انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ ازل سے یہ سلسلہ اپنی تمام تر مخالفتوں کے باوجود آج تک جاری ہے۔ اس کے مخالفین اس جذبہ کے کیف و سرور سے آشنا ہو کر بھی اس کے وجود، اہمیت اور فطرت سے انکار کریں تو حیرت ہوتی ہے۔ مشہور ہے ایسا کوئی درخت نہیں جس کو ہوا نہ لگے۔ جذبۂ محبت کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا؟ کسی بھی عمر میں انسان دامِ محبت میں گرفتار ہو سکتا ہے۔ یہ تو رہی ضمنی بات، ہر زمانہ میں اس کے معنی بدلے ہیں، انداز بدلے ہیں۔ تہذیبی اقدار ٹوٹتی ہیں، بکھرتی ہیں، اس کے مفاہیم بدلتے ہیں، تعریفیں بدلتی ہیں۔ افسانہ ’’صدیوں پر پھیلی کہانی‘‘ میں جذبۂ محبت کے بدلتے معنی اور تصور کی نشاندہی اس طرح کی ہے کہ مختلف زمانوں سے چنے کرداروں کی حرکات و سکنات اور ان کی سوچ کو کہانی کی منطقی ترتیب کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے۔ تکنیک کی بنیاد پر وقت کی زنجیر کو کڑیوں کی اصطلاح میں پرویا گیا ہے۔

’’وہ با ریش انسان‘‘ افسانہ عنوان کے حوالے سے موضوع کی پیش بینی کرتا ہے اور بر وقت متنبہ کرتا ہے کہ برائیوں سے بھری زندگی کا کیا انجام ہوتا ہے؟ باریش انسان در اصل انسان کا ضمیر ہے۔

زندگی بھر کے گناہ اژدہے میں متشکل ہو کر اسے دہشت زدہ کرتے ہیں تو نیکیاں بشکل باریش انسان نمودار ہو کر اس کی مدد کرتی ہیں لیکن برائیوں کی زیادتی کے سبب وہ بزرگ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد نہیں کر پاتا۔ اچانک معصوم بچوں کی فوج جس میں اس کی بیٹی ہادیہ جو کم سنی میں انتقال کر گئی تھی اس کی مدد کے لیے آگے آتی ہے اور اژدہے کے خوف سے نجات دلاتی ہے۔ یہ اسلامی فکر بھی ہے کہ معصوم بچے مرنے کے بعد والدین کے لیے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بنیں گے۔

احمد رشید نے زندگی اور کائنات کے موافق اور مخالف رویوں کی بیک وقت تفسیر اور ابلاغ کے لیے ظاہری طور پر متناقض (Paradoxical) بیانیہ سے استفادہ کیا ہے جو موضوع کی سطح پر ہی اکتفا نہیں ہے بلکہ الفاظ اور جملوں کی ساخت میں بھی ایسی مثالیں مل جائیں گی۔ ان کا افسانہ ’’فول۔۔۔۔ پھول‘‘ عنوان کی حد سے آگے اس کا structure طنز اور تضاد کی باہمی آمیزش سے بُنا گیا ہے۔ جنس کے تعلق سے اس افسانہ میں جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ کہانی ایک ایسے موڑ پر اختتام پذیر ہوتی ہے جہاں قاری تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہاں کہانی کا انجامMultifold ہو جاتا ہے۔

’’نشہ ہرن ہو چکا تھا۔ آنکھیں کھل چکی تھیں اس کی نگاہیں اپنے باپ کے وجود پر جم گئیں۔۔۔۔۔ دونوں مبہوت ہو کر ایک دوسرے کو گھوٗر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ دونوں کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا کہ ’’تم یہاں کیوں آئے‘‘ ؟

جب کہ دونوں ایک دوسرے کے جواب سے اچھی طرح واقف تھے۔‘‘

(وہ اور پرندہ)

منظر میں ایک بچہ بھیک مانگ رہا ہے مسافر نے اپنی جھوٹن اس کی طرف پھینکی:

’’کتّا لپک کر اس دونے کو اٹھا کر لے گیا۔ بچے کی بھیگی ہوئی مایوس آنکھیں اسٹیشن کی دیوار پر اشتہار پر ٹک گئیں ’’میرا بھارت مہان‘‘ ۔

Paradoxical بیانیہ کی چند مثالیں دیکھیں:

’’۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ زندگی کے بوجھ میں دھنسا بچہ زور زور سے آواز لگا رہا تھا ’’آج کی تازہ خبر بچوں سے مزدوری کرانا اپرادھ ہے‘‘ (کہانی بن گئی، بائیں پہلو کی پسلی)

’’ٹیوب لائٹ کی ٹھنڈی روشنی ہوٹل میں بیٹھے لوگوں کو گرما رہی تھی۔ ٹیبل اور چیرس کے درمیانی گیلریوں میں نیتا ادھر ادھر اسٹرپ کر رہی تھی۔‘‘

(دو سال بعد، وہ اور پرندہ)

احمد رشید کے افسانوں کے اختتام زیادہ تر Unexpected ہوتے ہیں جو نہ صرف ہمیں چونکاتے ہیں بلکہ دل و دماغ پر اپنا دیر پا نقش چھوڑتے ہیں۔

جنس بظاہر ایک نشاط انگیز تجربہ ہے انسان اپنی زندگی کے کمزور لمحوں میں اس جذبہ کی آسودگی کے لیے کس قدر جارحانہ اور ظالمانہ رویے اختیار کرتا ہے کہ حیوان بھی حیرت زدہ ہو جائے۔ فسادات پر مبنی کہانیوں میں ہی یہ مناظر دکھائی نہیں دیتے بلکہ ہمارے روزانہ اور گھریلو زندگی میں بھی ایسے مزاحمتی واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ کہیں بالرضا کہیں جبریہ!

در اصل جنس جسمانی تسکین کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس میں تقدیس کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ جنسی جذبہ کی تشنگی پوری نہ ہو تو کیسے کیسے Complexes اس کی فطرت میں پیدا ہوتے ہیں کہ بظاہر نارمل دکھائی دینے والا انسان اندرون میں بے سکونی اور گھٹن کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ان باطنی مسائل کا اظہار ’’نیلم‘‘، ’’برف تلے‘‘ اور ’’تیسری شخصیت‘‘ میں ہوا ہے۔

عام طور پر انسان کی شخصیت دوہری ہوتی ہے۔ ایک باطنی، ایک خارجی مصنف نے تیسری شخصیت کا خلاصہ کرتے ہوئے اسے فطری شخصیت کا عنوان دیا ہے جو اسے قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔ افسانہ ’’تیسری شخصیت‘‘ میں ’’بھابی‘‘ کا کردار اپنی خواہش کی آسودگی کے لیے غیر اخلاقی راستہ اختیار کرتا ہے پھر بھی وہ ہمیں فطری اور نارمل دکھائی دیتا ہے۔ یہی صورتِ حال ’’نیلم‘‘ اور ’’برف تلے‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ لیکن یہاں لذّت پسندی کے اسباب نظر نہیں آتے۔ بقول پروفیسر شافع قدوائی:

’’احمد رشید نے اپنے افسانوں کی بافت میں اس نکتہ کو بھی اساسی اہمیت دی ہے جس کے باعث ان کے افسانوں پر لذتیت کے سائے لرزاں نظر نہیں آتے۔‘‘

تیسری شخصیت کا اختتام دیکھیں:

’’میرے ناراض ہونے سے آپ کی صحت پر کیا اثر پڑے گا؟‘‘

’’پڑے گا، کیوں کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے‘‘ بھابی نے زور دے کر کہا۔

’’مگر کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ میں ایک گرم مرد کی بیوی ہوں اور میں جلنا نہیں پگھلنا چاہتی ہوں۔‘‘

افسانہ ’’برف تلے‘‘ میں دو انٹلیکچول (Intellectual) کرداروں کی نفسیات پر روشنی ملتی ہے جن کے درمیان میز اور اس پر کتابوں کا بوجھ ہے جو ان کی جذباتی ہم آہنگی کے بیچ دیوار بن جاتی ہے۔ پوری کہانی کا منظر نامہ ڈرائنگ روم کی اشیاء ( Objects) سے حسّی کیفیات کو جوڑ کر تخلیق کیا گیا ہے جو علامت نگاری کی بھی مثال بن گیا ہے جہاں ابہام اور اشکال کا کہیں احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس کی دوسری شکل افسانہ ’’نیلم‘‘ میں نظر آتی ہے کہ قدرتی مناظر کو کرداروں کی حسّی کیفیات سے جوڑ کر بہت عمدہ افسانہ تخلیق کیا گیا ہے۔

’’میز پر رکھی کتابوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا ’’یہ بوجھ ہیں ہمارے سروں کا‘‘

’’وہ مسکرائی ’’اب اس کو بجھا دیجئے ورنہ انگلیاں جل جائیں گی۔‘‘

(برف تلے)

’’۔۔۔۔۔ بے ہنگم سانسوں کا سلسلہ تھما۔ ہاتھوں کے تنگ دائرہ کو ڈھیلا کیا۔۔۔۔۔۔ اس کی نظریں بستر پر پڑے اس کے بے سدہ برہنہ جسم پر جم گئیں جو اس کی نوکرانی تھی۔

جھٹکے کے ساتھ وہ بستر سے اتر کر زمین پر کھڑا ہو گیا ’’فیروزہ باہر نکل جاؤ میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘ اس کی نظر نیلم پر گئی وہ چٹخ چکا تھا!!‘‘ (نیلم، بائیں پہلو کی پسلی)

عصرِ حاضر عدیم الفرصتی کا دور ہے۔ حصولِ شہرت کی عجلت میں نہ زبان و بیان کا خیال رکھا جاتا ہے نہ ہی اسلوب پر توجہ دی جاتی ہے۔ منظر نگاری سے جو افسانہ کا اہم جز ہے، بے توجہی برتی جاتی ہے اور جزئیات نگاری افسانہ سے سرے سے ندارد ہو گئی ہے۔ کلّی توجہ افسانہ کی ساخت اور کہانی پن ہونے پر دی جاتی ہے جبکہ ارضیت سے رشتہ استوار کرنے کے لیے یہ ترکیبی عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

احمد رشید کے افسانوی نظام میں منظر نگاری کا جو عکس دکھائی دیتا ہے وہ ان کے کرداروں کی جذباتی کیفیتوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔ شام و سحر، دھوپ چھاؤں، شب و روز کے مناظر کے علاوہ موسموں کی منظر کشی کے لیے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ اکثر منظر کشی اور جزئیات نگاری علامتی طرز بیان کا نمونہ بن جاتی ہے۔

’’اس نے سمندر میں جھانکا، وہ کنارے پر مجسمہ بن گئی، سوچتی ہے سمندر کے شفاف نیلے اور گہرے پانی میں سورج طلوع سے غروب ہونے تک ڈوبا رہتا ہے۔ اس نے دیکھا اور اپنا وجود دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئی۔‘‘ (کہانی کہتی ہے، وہ اور پرندہ)

علامتی منظر نگاری:

’’تھکے ماندہ سورج نے پرندے کی طرح اپنے پر سمیٹ لیے اور وہ کائنات جو کچھ دیر پہلے ست رنگی تھی، یک رنگی ہو گئی ہے۔‘‘ (وہ اور پرندہ)

واقعاتی منظر نگاری کی مثال:

’’ایک بجلی سی اس کے ذہن کے آسمان پر کوندی اور کالے کالے بادلوں میں روشنی دکھائی دی، ہوا کے دوش پر رم جھم رم جھم بارش کی بوندیں ناچتی ہوئی محسوس ہوئیں اور وہ لیلا جو اس کی بیوی کے شِکم میں پل رہی تھی، مرلی بجاتی ہوئی سنائی دی، اس کی گونج میں وہ مست ہو گیا‘‘ (پیشین گوئی)

’’فیصلے کے بعد‘‘ افسانے کے آغاز کو منظر سے جوڑ کر فضا میں رنگ بھرا ہے۔ ’’آفتاب‘‘ اور ’’شفق‘‘ دونوں کرداروں کے نام کے معنوں سے فائدہ اٹھا کر ان کی ذہنی کیفیت کا بیانیہ بن گیا ہے۔

’’آفتاب زوال کی طرف مائل ہو کر درِ خاور میں روشنی سمیت سمٹ گیا۔ باہر شفق رہ گئی بالکل تنہا سوگ میں ڈوبی ہوئی شفق ہلکی سیاہی اور پھر گہری سیاہی میں تبدیل ہو کر کائنات پر لپٹ گئی۔ رِدائے آسمان پر ستارے ٹنک گئے۔‘‘

متحرک فضا بندی:

’’رفتہ رفتہ ہونٹوں پر مسکراہٹ ایسے پھیلنے لگی جیسے خاموش سمندر پہ کوئی معمولی سی لہر کروٹ لیتی ہے۔‘‘ (دو سال بعد، وہ اور پرندہ)

متحرک منظر نگاری:

’’جنوری کا مہینہ تھا، گذشتہ پندرہ روز سے سورج نہ نکلنے کی وجہ سے سردی شدید تھی۔ اسٹیشن کی جگ مگ روشنی اس گنوار خوبصورت عورت کی طرح ٹھٹر رہی تھی جو پلیٹ فارم پر بیٹھی اپنے گندے آنچل میں بچہ کو چھپائے دودھ پلا رہی تھی۔‘‘

(کہانی بن گئی)

’’۔۔۔۔۔۔۔ سڑک کے دوسرے کنارے پر ایک بڑا سا میدان تھا اس وقت اندھیرے کی کمر پر خاموشی کا سانپ بے حس و حرکت بیٹھا ہوا تھا۔ میری دستک نے اس سانپ کو حرکت دی۔‘‘ (کہانی بن گئی، بائیں پہلو کی پسلی)

اشیاء (Objects) کے توسط سے منظر ابھارا ہے:

’’اچانک کمرے میں اندھیرا ہو گیا، سفید دیواریں، سبز پردے، نیلی کھڑکیاں سب کے سب کالے رنگ میں ڈوب گئیں۔ اب ان کے درمیان کی میز غائب تھی۔۔۔۔ درمیان سے کتابوں، رسالوں کی دیواریں ٹوٹ سی گئی تھیں۔ وہ اس کے آغوش میں ڈوب گئی تھی۔ لفظوں کی طرح خاموش آنکھیں بول رہی تھیں۔‘‘ (برف تلے، وہ اور پرندہ)

معنی خیز منظر کشی:

’’بحرِ افق کے مغربی ساحل پر خون میں ڈوبی ہوئی شفق بکھر گئی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا رنگ پھیکا ہو گیا اور چمپئی اندھیرا فضا میں پھیلنے لگا۔ تب ان دونوں کو احساس ہوا کہ آسمان رنگ بدلتا ہے۔ اس سے پہلے کہ سیاہ قبا دو سائے اپنے اندر لپیٹتی۔۔۔۔۔۔۔ ۔‘‘

(نیلم، بائیں پہلو کی پسلی)

منظر کو کردار کے حرکات و سکنات سے جوڑ کر معنی آفرینی کا بیانیہ:

’’وہ رات بہت خوبصورت تھی، چاند میرے ساتھ تھا۔ چاندنی سبز مخمل پر چٹک رہی تھی۔ نکہتؔ کی سبک خرامی سے فضا معطر ہو گئی تھی۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ رکی اور زمین اپنے محور پر رک گئی۔‘‘ (وہ لمحہ، بائیں پہلو کی پسلی)

افسانے کی ناپ تول کرنا افسانوی تنقید کا وطیرہ ہے جبکہ غیر متعین پیمائش کی گردان زبان زد رہتی ہے کہ ہر اہم افسانہ اپنے تخلیقی پیمانے لے کر نازل ہوتا ہے لیکن عموماً نقد و نظر کا طریقہ کار وہی روایتی (Traditional) ہے۔ یہاں یہ اصرار بے معنی ہو جاتا ہے کہ افسانہ کی پرکھ کے لیے افسانہ نگار کے موضوعِ زندگی کے ساتھ رویہ (treatment) کی بنیاد پر وہ منفرد اور ممتاز ہوتا ہے۔ افسانہ کو صرف کہانی سمجھ کر پڑھنے کے عمل میں کہانی پن ہونے کی بنیاد پر افسانہ تو ہو جائے گا لیکن تخلیق کار جس طرح ہمیں زندگی کی آگہی اور باریک بینی سے روشناس کرانا چاہتا ہے، وہاں تک رسائی مشکل ترین مرحلہ ہے۔ قارئین افسانہ کو جس طرح پڑھنے کے عادی ہیں، اس سے مختلف انداز میں احمد رشید کے افسانے پڑھے جانے کا تقاضہ کرتے ہیں۔

روایتی انداز میں مطالعہ کرنے والوں کو شاید احمد رشید کے افسانوں میں کشش محسوس نہیں ہو، مگر افسانہ کے سنجیدہ قارئین کے لیے ان کے افسانے دلچسپی کا مرکز بنے رہیں گے!

٭٭٭

بائیں پہلو کی پسلی ۔۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعہ/ڈاکٹر ریاض توحیدیؔ

تخلیق، تخلیق کار کی تخلیقی حسّیت کی پہچان ہوتی ہے اور تخلیقی حسّیت کی تشکیل میں عصری حسّیت کا احساس بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ عصری حسّیت کے شعور سے ہی نئی تخلیق میں تازگی نمو پاتی ہے۔ اس تناظر میں جناب احمد رشید کی تصنیف ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کے افسانوں کی قرات کے بعد یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ احمد رشید (علیگ) ایک ایسے با شعور تخلیق کار ہیں، جن کے بیشتر افسانوں میں تخلیقی حسّیت کا احساس بھی موجود ہے اور عصری حسّیت کا شعور بھی نظر آتا ہے۔ زیر نظر مجموعہ کا پہلا افسانہ ’’کہانی بن گئی‘‘ میں تخلیق کار کی تخلیقی فکر، موضوعات کی فراوانی اور معاصر زندگی میں کہانی کی ضرورت اور قاری کے میلانات وغیرہ موضوعات کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے۔ افسانے کی کہانی تجزیاتی فکر کے استفہامیہ بیانیہ پر تخلیق ہوئی ہے۔ تجزیاتی فکر کا یہ استفہامیہ انداز مرکزی کردار کے لب و لہجہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ افسانے کی کہانی ریلوے اسٹیشن کے منظر سے شروع ہوتی ہے اور بعد میں استفہامیہ انداز سے ایک انٹرویو کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اس طرح افسانے کے بیشتر پلاٹ میں انٹرویو کی تکنیک اپنائی گئی ہے۔ افسانے کے فرضی کردار بصورت راوی وغیرہ کے جذبات و احساسات کا بیان دلچسپ فنی برتاؤ کی عکاسی کر رہا ہے۔ جس میں طنز ملیح بھی نظر آتا ہے اور تخلیقی سروکار کے اتار چڑھاؤ کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ افسانے کی ابتدا ریلوے اسٹیشن کے سین سے ہوتی ہے جہاں پر مرکزی کردار بڑی بے چینی سے ٹرین کا انتظار کرتا ہے۔ ٹرین کی آواز سنتے ہی لوگ اپنا سامان لے کر ادھر ادھر دوڑنے میں لگ جاتے ہیں لیکن اس ہلچل میں مرکزی کردار کی مشاہداتی حِس بیدار ہو جاتی ہے اور وہ اسٹیشن پر موجود ایک کتّے کے شرم پسند فعل کا موازنہ اخلاقی طور پر مریض دماغوں کے ایک بے شرم قانون سے کرتے ہوئے تجزیاتی انداز سے طنز کرتا ہے:

’’قریب ہی ایک کتّا جو کچھ دیر پہلے اپنی ٹانگوں میں دم دبکائے امریکہ کے ہم جنسی قانون کا مذاق اڑا رہا تھا۔ میں

سوچ رہا تھا انڈین ڈوگس کتنے کلچرڈ ہیں کہ اپنا ننگ پن دم سے چھپاتے ہیں۔‘‘

(کہانی بن گئی۔ ص ۲۱)

۱۲جون کو عالمی سطح پر چائلڈ لیبر ڈے منایا جاتا ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بچہ مزدوری کو روکنے کے لئے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر جگہ بچے مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔ فاضل افسانہ نگار نے بھی اس اہم انسانی مسئلے کی طرف افسانے میں اشارہ کیا ہے اور ریلوے اسٹیشن پر ایک بچے کو اخبار بیچتے ہوئے بچہ مزدوری روکنے کے قانون پر طنز کا تیر یوں چلا یا ہے:

’’زندگی کے بوجھ میں دھنسا بچہ زور زور سے آواز لگا رہا تھا۔ آج کی تازہ خبر بچوں سے مزدوری کرانا اپرادھ ہے۔‘‘

(کہانی بن گئی۔ ص ۲۱)

اس افسانے کا بنیادی موضوع فن کار کا تخلیقی تجربہ ہے اور اسی تخلیقی تجربے کی مختلف جہات کو مکالماتی انداز سے موضوع بحث بنایا گیا۔ یہ مکالمہ دو تخلیق کاروں کے مابین ہوتا ہے جو افسانے کی مرکزی کردار عورت اور دوسرے مرد کردار کے باہمی احساسات اور تجربات کی تخلیقی فکر کا اظہاریہ بن جاتا ہے۔ عورت کی سوچ پر فلسفیانہ اثر نمایاں ہے اور مرد بھی تجزیاتی نقط نگاہ سے ہر سوال کا جواب فلسفیانہ اور تخلیقی تجربے کے احساس سے دیتا ہے۔ مرکزی کردار جب حیات و کائنات کے تناظر میں انسان کو سمجھنے کی کوشش تخلیقی تجربہ سے جوڑتی ہے تو مرد کردار کسی بھی تجربے کے اظہار کو فن کار کی سوچ کا زائدہ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے:

’’زندگی کا کوئی تجربہ ہو یا احساس، فن کار اپنی ذات میں انگیز کرتا ہے، اپنے ہی حوالے سے اپنی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔‘‘

(کہانی بن گئی۔ ص ۲۴)

تخلیقی تجربے کے تعلق سے یہ بات صحیح ہے کہ کوئی بھی فنکار کسی بھی تجربے کو اپنی سوچ کے مطابق ہی تخلیق میں پیش کرتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہر جگہ یکسانیت کا غلبہ نظر آ جاتا۔ اسی طرح سماجی ارتباط اور تہذیبی اختلاط کے مابین تصادم کو فنی کارگزاری کے عمل اور رد عمل کے استفہام پر مرد کردار اظہار خیال کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’جی ہاں، رد عمل ہی تخلیق کی بنیاد ہے۔ عمل کی کھوج میں، قانون داں، صحافت داں اور دیگر علوم کے ماہرین کرتے ہیں۔‘‘

(کہانی بن گئی۔ ص ۲۴)

افسانے میں کہانی کی عصری معنویت اور موضوعات کے مسئلے پر دلچسپ مکالمہ ہوا ہے اور افسانہ نگار نے عمدہ خیالات سے نئے لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ کہانی کی معنویت اور موضوعات کی فراوانی کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ انسان کی زندگی کے ساتھ کہانی بھی زندہ رہے گی اور کہانی کے موضوعات کا معاملہ زندگی کے تئیں رویے اور برتاؤ سے منسلک ہے کیونکہ ’’زندگی کے رویّوں کا حقیقی اظہار ہی فنی جمال ہے۔‘‘ اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں افسانویت کے ساتھ ساتھ کہانی پن بھی موجود ہے اور کرداروں کی سوچ اور زبان و بیان کا مناسب خیال رکھا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود افسانے میں چند دعویٰ نما خیالات سے اختلاف رائے کی گنجائش بھی نکلتی ہے۔ انسان کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کے بیان کو فن کی معراج قرار دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’’زندگی کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کا اظہار عورت ہی کر سکتی ہے، ورنہ زندگی کی پستی اور ادنیٰ کیفیتیں، فن کا موضوع بنانے کے لئے میرے جیسا فن کار چاہئے۔‘‘ اگر چہ یہ مکالمہ فرضی کرداروں کے درمیان ہو رہا ہے لیکن یہاں پر افسانہ نگار کا نقطہ نظر بھی سامنے آ رہا ہے۔ در اصل، زندگی کی اعلیٰ و ارفع یا پستی اور ادنی کیفیات کے فنی اظہار کے لئے قوت تخیل یا تخلیقی توانائی کا جواز نکلتا ہے، جو مرد یا عورت کے قوت تخیل کے مابین امتیاز کرنے سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا ہے۔ دونوں جنس کی تخلیقی نگارشات میں زندگی کی متنوع کیفیات کا اعلیٰ تخلیقی بیان ظاہر ہو سکتا ہے۔

امتیاز جنس فکشن کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اس موضوع میں عام طور پر مرد کی حاکمیت اور عورت کی محکومیت کو ڈسکورس بنایا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کے تناظر میں دیکھیں تو نسائی تحریکوں کا اثر کسی نہ کسی صورت میں شعر و ادب پر بھی پڑتا رہا اور نسائی مسائل و موضوعات کا مکالمہ تانیثی تھیوری کی صورت اختیار کر گیا۔ زیر نظر مجموعے میں افسانہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کی کہانی بھی تانیثی ڈسکورس پر تخلیق ہوئی ہے۔ افسانے کی کہانی نسائی مسائل و موضوعات کا ایک ایسا تخلیقی منظر نامہ ہے جس میں عورت کی تخلیق سے لے کر عصری عہد تک کے زمانے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ افسانے کا پلاٹ ایک عورت کی ذہنی کیفیات اور نفسیاتی الجھنوں پر تشکیل ہوا ہے۔ کہانی میں چونکہ ایک عورت ہی مرکزی کردار کی حیثیت سے موجود ہے، اس لئے کہانی کی ابتدا مرکزی کردار کی احساس کمتری سے شروع ہو کر مختلف ادوار کے معاشرتی، عائلی اور مذہبی معاملات اور مسائل کا احاطہ کرتی ہوئی اختتام کو پہنچتی ہے۔ ایک طرح سے یہ افسانہ تانیثی موضوعات کا ایسا فنکارانہ اظہار ہے جس میں فلیش بیک تکنیک کے توسط سے قدیم دور سے لے کر جدید دور کے بنیادی نسائی مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور تواریخی انداز سے کئی ادوار کے منفی اور مثبت اپروچ کی دلچسپ افسانوی عکاسی کی گئی ہے۔ افسانے کا بنیادی موضوع عورت کا وہ نفسی تناؤ (Psychic Tension) ہے جو تواریخی طور پر ہر دور کی عورت کی نفسیاتی جبریت (Psychological Determinism) کا افسانوی احاطہ کر رہا ہے۔ افسانے میں عورت کے اس نفسی تناؤ کی شروعات شجر ممنوعہ جو کہ مذہبی قصہ ہے، سے کی گئی ہے اور مرکزی کردار کی زبان سے تناؤ کے اس ابتدائی مرحلے کی عکاسی یوں کی گئی ہے:

’’مجھ کم عقل کی مت ماری گئی۔ لالچ اور خواہش میں آ گئی۔۔۔۔ ایک عجیب تذبذب کا عالم تھا۔۔۔۔ ہاں یا نا کی کشمکش تھی۔۔۔۔

صبر اور خواہش کی اس جنگ میں صبر ہار گیا۔ شجر ممنوعہ کے کھانے کا انجام یہ ہوا کہ ستر کھل گئے۔ الزام میرے سر گیا۔

(بائیں پہلو کی پسلی۔ ص ۳۶)

افسانے میں عورت کی داستان کو منطقی انداز سے بیان کیا گیا ہے اور کہانی کو تواریخی نقطہ نگاہ سے ہندو سماج، عیسائیت وغیرہ کے منفی رسم و رواج اور اسلام کی مثبت تعلیم کے ساتھ ساتھ دور جدید کے حقوق نسواں کی تحریکوں کے پس منظر میں موجودہ دور کی تعلیم یافتہ عورت کی استحصال احساس سوچ اور فکری الجھاؤ کے دائرے میں مکمل کیا گیا ہے۔ اس افسانے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ افسانے کا بیانیہ مابعد جدید افسانے کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس میں صرف ایک کردار کا واقعہ ہی بیان نہیں ہوا ہے بلکہ آزادانہ طور پر ایک جنس کی تواریخی روداد بھی پیش ہوئی ہے۔ اب افسانے کے پلاٹ کی بات کریں تو کئی جگہوں پر کہانی میں صحافتی اسلوب کے زیر اثر سنسنی خیز ماحول بنانے کی کوشش نظر آتی ہے جو کچھ حد تک کہانی کے تسلسل کو متاثر کر رہا ہے۔ مثلاً:

’’ڈاکٹری زندگی کو موت کے منہ سے چھیننے کا پیشہ ہے لیکن ڈاکٹر موت کا دوسرا نام ہے۔‘‘

’’عرب بہاریہ‘‘ جلی خبر۔۔۔۔ لبنان میں انقلاب۔۔۔۔ شام میں انقلاب کی دھمک۔۔۔۔۔۔۔‘‘

بہرحال، مجموعی طور پر یہ افسانہ تانیثی فکشن کی عمدہ مثال قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کی کہانی میں تانیثی مسائل و موضوعات کی بہترین افسانوی عکاسی کی گئی ہے۔

پیش نظر کتاب کا ایک افسانہ ’’بھورے سید کا بھوت‘‘ ہارر فکشن (Horror Fiction) کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ افسانے میں ایک خوف انگیز سماجی توہم پرستی کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ مرکزی کردار کی نفسیات پر بچپن میں بھورے سید کے بھوت کا خوف اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی نفسیات پر تا عمر توہم پرستی کا یہ خوف چھایا رہتا ہے۔ لیکن افسانے کے کلائمکس میں توہم ترستی پر طنز آمیز نشتر چلانے سے کہانی دلچسپ موڈ لیتی ہے اور اس کے منفی اثرات سے بچنے کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ رات کے سناٹے میں جب مرکزی کردار قبرستان کے راستے سے گھر لوٹتا ہے تووہ معمولی آہٹ سن کر بھی خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ چلتے چلتے اس کی نظر ایک کالے سائے پر پڑتی ہے اور سایہ کے سکڑتے ہی اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ایسے بھیانک منظر سے حافظہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور وہ بڑی مشکل سے معوذتین کا ورد شروع کر دیتا ہے تاکہ خوف سے نجات پا سکے۔ اس کے بعد افسانہ نگار نے کلائمکس میں نہ صرف کردار کے خوف بلکہ بین المتن توہم پرست افراد کی مریضانہ سوچ کو ڈرامائی انداز سے یوں بے نقاب کیا ہے:

’’بشیر صاحب! اتنی رات گئے کہاں سے آ رہے ہیں۔‘‘ فضا میں ایک آواز گونجی۔ خوف کی وجہ سے میری گھِی گھِی بن گئی۔

چاروں طرف نظر دوڑائی، جواب دینے کے بجائے میرے اوپر سکتہ طاری ہو گیا۔

وہ سایہ دو قدم آگے بڑھا۔۔۔۔ میرے شانہ کو زور سے حرکت دی۔ ’’کہاں کھو گئے میں آپ ہی سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘

’’ہوں‘‘ میں نے چونک کر دیکھا ’’ارے سعید صاحب آپ ہیں۔‘‘

’’ہاں، پیشاب کرنے آیا تھا۔۔۔۔ آپ کو دیکھ کر رُک گیا۔‘‘

ایک ہی لمحہ وہ خوفناک منظر میری نگاہوں سے غائب ہو گیا۔۔۔‘‘

(بھورے سید کا بھوت۔ ص ۵۶)

افسانہ ’’سہما ہوا آدمی‘‘ ایک ایسے سماجی موضوع پر تخلیق ہوا ہے جو فساد کی آگ کے انسانیت سوز نتائج کو قاری کے سامنے لاتا ہے۔ فسادات پر اگرچہ پارٹشن کے وقت بھی دل دوز افسانے تحریر ہوئے ہیں لیکن آج بھی یہ خوفناک آگ کسی نہ کسی صورت میں ضرور بھڑکتی رہتی ہے۔ یہ افسانہ بھی اسی آگ کی تباہ کاریوں کا افسانوی منظر پیش کر رہا ہے۔ افسانہ ایک فرضی کردار یعنی سہما ہوا آدمی کے گرد گھومتا ہے اور افسانہ نگار نے اس کردار کی مذہبی شناخت کو پوشیدہ رکھا ہے تاکہ قاری کو یہ مثبت پیغام مل سکے کہ فساد کی آگ کسی کے بھی گھر کو جلا سکتی ہے۔ افسانے کی ابتداء فساد کی وجہ سے شہر میں پھیلے ہوئے خوف و ہراس کے منظر سے کی گئی ہے اور مرکزی کردار کو غیرجانبدار رول میں دکھایا گیا ہے، کیونکہ وہ جب پہلے ایک لاش کو دیکھتا ہے تو اس کی کے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے کہ ’’ارے یہ تو رحیم کی لاش ہے۔‘‘ اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح وہ دوسرے شخص کی لاش دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے کہ ’’رام کا خون بھی رحیم کی طرح لال ہے، مگر یہ کیوں مارے گئے۔‘‘ غیر جاندار ہونے کے باوجود بھی وہ نفرت کی آگ کا شکار ہو جاتا ہے اور فسادیوں کے بے رحم ہاتھ اس کی پیٹ میں خنجر پیوست کر دیتے ہیں۔ اس طرح سے افسانہ نگار نے بڑی بڑی ہنر مندی سے یہ پیغام دیا ہے کہ فساد پسند لوگ کسی مذہب یا نسل کی پروا نہیں کرتے ہیں، وہ صرف حیوانیت کے اسیر ہوتے ہیں، کیونکہ افسانے کا اختتام ایک اخباری خبر کو بنیاد بنا کر یوں ہوتا ہے:

’’پولیس کی اطلاع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین بتائی جاتی ہے لیکن ان میں ایک لاش ایسی بھی پائی گئی جس کا

منہ جھلسا ہوا تھا۔۔۔۔ اور عضو تناسل بھی غائب تھا، اس لئے صحیح پہچان نہیں ہو سکی کہ وہ کون تھا؟‘‘

زیر نظر افسانوی مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کے افسانوں میں ایک بات قابل ستائش ہے کہ فنی طور پر یہ ایک صاحب شعور افسانہ نگار

کی فنی ہنر مندی کا بین ثبوت فراہم کر رہے ہیں، کیونکہ ان افسانوں کی ساخت میں افسانویت کے ساتھ ساتھ کہانی پن بھی موجود ہے اور فنی لوازمات کا تخلیقی برتاؤ بھی ٹھیک طرح سے نظر آتا ہے جو کہ فن افسانہ نگاری کے لئے لازمی ہے۔ ان خوبیوں کی جانب پروفیسر صغیر افراہیم صاحب پیش لفظ میں اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’احمد رشید نے اپنے افسانوں کو اعتدال کی راہ دی ہے جن میں بھر پور افسانویت، تخلیقی ذائقے، علامتوں اور استعاروں پر گرفت، ترسیل اور ابلاغ کی آسانیاں ملتی ہیں۔‘‘

(احمد رشید کی افسانہ نگاری۔ ص ۹)

ان خوبیوں کے باوجود چند باتوں کا ذکر شاید بے جا نہ ہو گا کہ اس مجموعہ کے بیشتر افسانے تانیثی موضوعات پر تخلیق ہوئے ہیں جو کہ اپنی جگہ اہمیت تو رکھتے ہیں لیکن یہ روایتی موضوعات سبھی قارئین کے ذوق مطالعہ کی تازگی میں کوئی اضافہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور کئی افسانوں میں کہانی کی غیر ضروری طوالت نے پلاٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔ جیسے افسانہ ’’فیصلے کے بعد‘‘ وغیرہ۔

بہرحال، احمد رشید(علیگ) کا یہ افسانوی مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس (دہلی)سے ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا ہے۔ مجموعے کا پیش لفظ معروف افسانہ نگار جناب پروفیسر صغیر افراہیم نے لکھا ہے۔ ۱۶۴صفحات پر مشتمل مذکورہ مجموعے میں درجہ ذیل اکیس افسانے شامل ہیں:

’’کہانی بن گئی‘‘، ’’ویٹنگ روم‘‘، ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘، ’’بھورے سید کا بھوت‘‘، ’’ایک خوبصورت عورت‘‘، ’’فیصلے کے بعد‘‘، ’’نیلم‘‘، ’’مداری‘‘، ’’دھواں دھواں خواب‘‘، ’’دھوئیں کی چادر‘‘، ’’حاشیہ پر‘‘، ’’وہ لمحہ‘‘، ’’چھت اڑ گئی‘‘، ’’سہما ہوا آدمی‘‘، ’’ہاف بوٹل بلڈ‘‘، ’’اندھا قانون‘‘، ’’بی بی بولی‘‘، ’’رینگتے کیڑے‘‘، ’’کرب کا سمندر‘‘، ’’ناخدا‘‘، ’’سفید لباس، سیاہ راتیں‘‘۔

٭٭٭

’کھوکھلی کگر‘ پر تبصرہ/ڈاکٹر ریاض توحیدی

کتاب: کھوکھلی کگر (افسانے)

افسانہ نگار: احمد رشید (علیگ)

مبصر: ڈاکٹر ریاض توحیدی (کشمیر)

چند برس قبل احمد رشید کا افسانوی مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اُس مجموعے کے معیاری افسانے پڑھ کر دل باغ باغ ہوا تھا اور ایک تنقیدی مضمون لکھ کر حق قرأت بھی ادا کیا تھا۔ اس کے بعد احمد رشید کے ساتھ دوستی گڑ گئی۔ اب تو گاہے گاہے فون پر بھی رابطہ رہتا ہے۔ احمد رشید فنِ افسانہ پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ افسانے میں اشاروں کنایوں میں بات کرنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔ ان کے بیشتر افسانوں میں مشاہدات کا سطحی پن نظر نہیں آتا ہے بلکہ ان میں گہرے مشاہدے کے زیر اثر علم و فکر کا وسیع جہان بھی موجود ہوتا ہے۔ جس کا اندازہ ان کے پہلے اور دوسرے افسانوی مجموعے ’’وہ اور پرندہ‘‘ اور ’’بائیں پہلو کی پسلی کے علاوہ پیش نظر کتاب ’’کھولی کگر‘‘ کے درجہ ذیل افسانوں سے لگایا سکتا ہے:

’’ابتدا کی طرف واپسی‘‘ ’’بھورے سید کا بھوت‘‘ ’’دو سال بعد‘‘ ’’ویٹنگ روم‘‘ ’’بجوٹ‘‘ ’’مداری‘‘ ’’بن باس کے بعد‘‘ ’’وہ اور پرندہ‘‘ ’’کھولی کگر‘‘ ’’حصار‘‘ ’’پیشین گوئی‘‘ ’’صدیوں پر پھیلی کہانی‘‘ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘

کتاب کی ابتدا میں محمد غالب نشتر کا ایک اہم مضمون ’’نئی علامت نگاری اور احمد رشید کے افسانے‘‘ شامل ہے۔ اس مضمون میں احمد رشید کے افسانوی سفر، اسلوب، موضوعات اور کہانیوں کا دلچسپ جائزہ پیش ہوا ہے۔ احمد رشید کی افسانہ نگاری کا احاطہ کرتے ہوئے محمد غالب نشتر لکھتے ہیں:

’’احمد رشید کے فکشن کا ایک خاص ڈکشن ہے اور موضوع کے ساتھ ٹریٹمنت کا اپنا ایک خاص انداز ہے جسے وہ علامات، استعارات

اور تشبیہات کے ذریعے بیان کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں اور بہت حد تک کامیاب بھی ہیں۔ ان کی کہانی ایک ہی

قرأت میں ختم کرنے کا تقاضا کرتی ہے، ورنہ کہانی کا سرا ذہن سے پھسل جاتا ہے اور قاری، کہانی میں استعمال شدہ علائم سے

پوری طرح واقف نہیں ہو سکتا۔ یہی ان کے افسانوں کا فنی اختصاص ہے۔‘‘

(کھوکھلی کگر: ص ۳۴)

اس مجموعے کے کئی افسانے دلچسپ موضوعات اور لطف انگیز مطالعہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ افسانہ ’’ابتدا کی طرف واپسی‘‘ کا بنیادی موضوع روحانی سکون کی تلاش ہے جس کو متصوفانہ افکار کے ساتھ ختم کیا گیا ہے۔ افسانے کی کہانی میں ایک طرح سے فینٹسی کا تجربہ برتا گیا ہے جو کہانی کی دلچسپی میں اضافہ کر رہا ہے۔ افسانے میں مرکزی کردار کی روحانی بے چینی کو بڑی ہنر مندی سے ٹریٹ کیا گیا ہے اور آخر پر اسلامی تصوف کے حقیقی وسیلے اور مقصد کو یوں ظاہر کیا گیا ہے:

’’جنگل میں رہنے کے بجائے مخلوق خدا کے درمیان میں رہ۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے نیک بخت بنائے۔ ان شاء اللہ

تم ایسا درخت ہو گے جس کے سایہ میں مخلوق خدا آرام پائے گی اور فیض پائے گی۔ تم مجاہدہ برابر کرتے رہنا، اس سے غافل

نہ ہونا۔‘‘ باریش بزرگ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس نے گھر واپسی کے لئے قصد سفر باندھا۔ نئی صبح کا سورج اندھیرے

کی چادر بھاڑ کر طلوع ہو رہا تھا ہے اور سارا منظر انوارِ الٰہی میں ڈوب رہا ہے۔‘‘

پیش نظر کتاب کا ایک افسانہ ’’بھورے سید کا بھوت‘‘ ہارر فکشن (Horror Fiction) کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ افسانے میں ایک خوف انگیز سماجی توہم پرستی کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ مرکزی کردار کی نفسیات پر بچپن میں بھورے سید کے بھوت کا خوف اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی نفسیات پر تا عمر توہم پرستی کا یہ خوف چھایا رہتا ہے۔ لیکن افسانے کے کلائمکس میں توہم ترستی پر طنز آمیز نشتر چلانے سے کہانی دلچسپ موڈ لیتی ہے اور اس کے منفی اثرات سے بچنے کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ رات کے سناٹے میں جب مرکزی کردار قبرستان کے راستے سے گھر لوٹتا ہے تووہ معمولی آہٹ سن کر بھی خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ چلتے چلتے اس کی نظر ایک کالے سائے پر پڑتی ہے اور سایہ کے سکڑتے ہی اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ایسے بھیانک منظر سے حافظہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور وہ بڑی مشکل سے معوذتین کا ورد شروع کر دیتا ہے تاکہ خوف سے نجات پا سکے۔ اس کے بعد افسانہ نگار نے کلائمکس میں نہ صرف کردار کے خوف بلکہ بین المتن توہم پرست افراد کی مریضانہ سوچ کو ڈرامائی انداز سے یوں بے نقاب کیا ہے:

’’بشیر صاحب! اتنی رات گئے کہاں سے آ رہے ہیں۔‘‘ فضا میں ایک آواز گونجی۔ خوف کی وجہ سے میری گھِی گھِی بن گئی۔

چاروں طرف نظر دوڑائی، جواب دینے کے بجائے میرے اوپر سکتہ طاری ہو گیا۔

وہ سایہ دو قدم آگے بڑھا۔۔۔۔ میرے شانہ کو زور سے حرکت دی۔ ’’کہاں کھو گئے میں آپ ہی سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘

’’ہوں‘‘ میں نے چونک کر دیکھا ’’ارے سعید صاحب آپ ہیں۔‘‘

’’ہاں، پیشاب کرنے آیا تھا۔۔۔۔ آپ کو دیکھ کر رُک گیا۔‘‘

ایک ہی لمحہ وہ خوفناک منظر میری نگاہوں سے غائب ہو گیا۔۔۔‘‘

امتیاز جنس فکشن کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اس موضوع میں عام طور پر مرد کی حاکمیت اور عورت کی محکومیت کو ڈسکورس بنایا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کے تناظر میں دیکھیں تو نسائی تحریکوں کا اثر کسی نہ کسی صورت میں شعر و ادب پر بھی پڑتا رہا اور نسائی مسائل و موضوعات کا مکالمہ تانیثی تھیوری کی صورت اختیار کر گیا۔ زیر نظر مجموعے میں افسانہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کی کہانی بھی تانیثی ڈسکورس پر تخلیق ہوئی ہے۔ افسانے کی کہانی نسائی مسائل و موضوعات کا ایک ایسا تخلیقی منظر نامہ ہے جس میں عورت کی تخلیق سے لے کر عصری عہد تک کے زمانے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ افسانے کا پلاٹ ایک عورت کی ذہنی کیفیات اور نفسیاتی الجھنوں پر تشکیل ہوا ہے۔ کہانی میں چونکہ ایک عورت ہی مرکزی کردار کی حیثیت سے موجود ہے، اس لئے کہانی کی ابتدا مرکزی کردار کی احساس کمتری سے شروع ہو کر مختلف ادوار کے معاشرتی، عائلی اور مذہبی معاملات اور مسائل کا احاطہ کرتی ہوئی اختتام کو پہنچتی ہے۔ ایک طرح سے یہ افسانہ تانیثی موضوعات کا ایسا فنکارانہ اظہار ہے جس میں فلیش بیک تکنیک کے توسط سے قدیم دور سے لے کر جدید دور کے بنیادی نسائی مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور تواریخی انداز سے کئی ادوار کے منفی اور مثبت اپروچ کی دلچسپ افسانوی عکاسی کی گئی ہے۔ افسانے کا بنیادی موضوع عورت کا وہ نفسی تناؤ (Psychic Tension) ہے جو تواریخی طور پر ہر دور کی عورت کی نفسیاتی جبریت(Psychological Determinism) کا افسانوی احاطہ کر رہا ہے۔ افسانے میں عورت کے اس نفسی تناؤ کی شروعات شجر ممنوعہ جو کہ ایک مذہبی قصہ ہے، سے کی گئی ہے اور مرکزی کردار کی زبان سے تناؤ کے اس ابتدائی مرحلے کی عکاسی یوں کی گئی ہے:

’’مجھ کم عقل کی مت ماری گئی۔ لالچ اور خواہش میں آ گئی۔۔۔۔ ایک عجیب تذبذب کا عالم تھا۔۔۔۔ ہاں یا نا کی کشمکش تھی۔۔۔۔

صبر اور خواہش کی اس جنگ میں صبر ہار گیا۔ شجر ممنوعہ کے کھانے کا انجام یہ ہوا کہ ستر کھل گئے۔ الزام میرے سر گیا۔‘‘ ۔

افسانے میں عورت کی داستان کو منطقی انداز سے بیان کیا گیا ہے اور کہانی کو تواریخی نقطہ نگاہ سے ہندو سماج، عیسائیت وغیرہ کے منفی رسم و رواج اور اسلام کی مثبت تعلیم کے ساتھ ساتھ دور جدید کے حقوق نسواں کی تحریکوں کے پس منظر میں موجودہ دور کی تعلیم یافتہ عورت کی استحصال احساس سوچ اور فکری الجھاؤ کے دائرے میں مکمل کیا گیا ہے۔ اس افسانے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ افسانے کا بیانیہ مابعد جدید افسانے کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس میں صرف ایک کردار کا واقعہ بیان نہیں ہوا ہے بلکہ آزادانہ طور پر ایک جنس کی تواریخی روداد بھی پیش ہوئی ہے۔ اب افسانے کے پلاٹ کی بات کریں تو کئی جگہوں پر کہانی میں صحافتی اسلوب کے زیر اثر سنسی خیز ماحول بنانی کی کوشش نظر آتی ہے جو کچھ حد تک کہانی کے تسلسل کو متاثر کر رہا ہے۔ مثلاً:

’’ڈاکٹری زندگی کو موت کے منہ سے چھیننے کا پیشہ ہے لیکن ڈاکٹر موت کا دوسرا نام ہے۔‘‘

’’عرب بہاریہ‘‘ جلی خبر۔۔۔۔ لبنان میں انقلاب۔۔۔۔ شام میں انقلاب کی دھمک۔۔۔۔۔۔۔‘‘

مجموعی طور پر یہ افسانہ تانیثی فکشن کی عمدہ مثال قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کی کہانی میں تانیثی مسائل و موضوعات کی بہترین افسانوی عکاسی کی گئی ہے۔

اس طرح سے شامل کتاب افسانے کسی نہ کسی سماجی، عائلی اور سیاسی مسئلے کو موضوع گفتگو بناتے نظر آتے ہیں۔ افسانہ ’’بجوٹ‘‘ سماج کے ایک اہم مسئلے یعنی بانجھ پن کو موضوع بحث بنا رہا ہے۔ در اصل عورت پر بچہ نہ جننے کی وجہ سے بانجھ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے جو کہ با کردار ہوتی ہے لیکن اصل میں مرد ہی جنسی کمزوری کا شکار ہوتا ہے اور میڈیکل چیک اپ کرنے کے باوجود وہ عورت کو ہی قصوروار ٹھہراتا ہے اور اسے طلاق دیتا ہے۔ چند برسوں کے بعد ڈاکٹر کی زبان سے ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے جس کو کلائمکس میں دلچسپ انداز سے اجاگر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید جب عارف کو ساتھ لائے ہوئے بچے سے متعلق پوچھتا ہے کہ بچہ آپ کا ہے تو عارف اثبات میں جواب دیتا ہے اور الٹا سوال کرتا ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ میں باپ نہیں بن سکتا۔ اس کے بعد جب ڈاکٹر اسے پہلی بیوی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو عارف کی زبان سے طلاق کا سن کر ڈاکٹر کا جواب عارف کے ضمیر پر کوڑے مارنے سے کم نہیں ہوتا ہے:

’’آپ نے برا کیا‘‘ ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا۔

’’کیوں؟‘‘ عارف نے بے زاری کا اظہار کیا۔

’’کیوں کہ تمہاری پہلی بیوی ایک صابر، محتاط اور خود محفوظ عورت تھی۔‘‘

میز پر رکھی ہوئی الحیاتین سیرپ کی بوتل پر بچے کا ہاتھ لگنے سے نیچے گر گئی۔ اچانک چھناک کی آواز ہوئی، ڈسپنسری کی خاموشی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئی۔۔۔ بچہ سہم گیا‘ ’’پاپا چلئے‘‘ بے ساختہ اس کے منھ سے نکلا۔‘‘

مجموعے کے دیگر افسانوں میں افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ ایک ماہرانہ علامتی تخلیق ہے۔ اس میں تخلیق کائنات سے لے کر تخلیق آدم، حیات و کائنات کے مسائل، وقت اور تہذیب وغیرہ موضوعات کو اساطیری اور مذہبی فکر، اسلوب اور کرداروں کے توسط سے شاندار کہانی کا روپ دیا گیا ہے۔ بہرحال، کتاب کے سبھی افسانے احمد رشید کی ماہرانہ صلاحیت اور عمدہ اسلوب کی قابل ستائش عکاسی کرتے ہیں۔ البتہ جو تخلیقی رچاؤ مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کے افسانوں میں نظر آتا ہے وہ اس مجموعے کی چند ہی کہانیوں میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ ہے کہ اس کے کئی افسانوں میں تصوف اور اخلاقی فکر و نظر کا مقصد غالب رہا ہے جس کی وجہ سے فن کے اوپر ناصحانہ انداز (Didacticism)غلبہ پا گیا ہے اور افسانے کا پلاٹ فنی چابکدستی کے برعکس پیام کی ترسیل تک ہی محدود رہا ہے۔

٭٭٭

احمد رشید –معاصر اردو افسانے کا ایک اہم نام / مشتاق وانی

("بائیں پہلو کی پسلی” کے تناظر میں)

مجھ سے اگر کوئی یہ کہے کہ افسانے کی تعریف ایک جملے میں کیجئے۔ تو میں بے ساختہ طور پر یہ کہہ دوں گا کہ افسانہ سچ کو جھوٹ کا لباس پہنانے کا نام ہے۔ ادبی دنیا کا تخلیق کار بنیادی طور پر سچ کی تلاش میں رہتا ہے۔ سماج و معاشرے میں وقوع پذیر حالات و واقعات ذاتی و اجتماعی جذبات و احساسات تجربات و مشاہدات جب ایک ادیب کے ذہن و دل کو متحرک کرتے ہیں تو تب وہ شعور و بصیرت اور صالح اقدار و روایات کی ترسیل کے لیے فنکارانہ رویہ اختیار کرتا ہے۔ جو بہت حد تک اس اعتبار سے خیالی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تخلیق کار کی مجبوری ہوتی ہے۔ چنانچہ کسی تخلیقی فن پارے کا اعجاز یہ ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کو ممکنات کی دنیا کی سیر کرواتا ہے اور اسے ذہنی حظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ شعور و ادراک سے بھی سرفراز کرتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر مبنی بر حقیقت معلوم ہوتا ہے کہ خیالات کی پاکیزگی اور اسلوب بیان کی رنگا رنگی ایک ادیب کی کامیابی اور مقبولیت کے ضامن ہوتے ہیں۔ تحقیق و تنقید ادب کی یہ دو اکائیاں اپنی اپنی جگہ نہایت اہم ہیں۔ ان کا اپنا اپنا ایک اعتبار و معیار ہے اور اصول و ضابطے ہیں۔ لیکن تخلیق ان دونوں اصناف ادب کے مقابلے میں ایک بلند مقام رکھتی ہے۔

اردو افسانہ مختلف ادوار سے گزرنے کے بعد آج زندگی کے بہت قریب تر آ گیا ہے۔ بھلے ہی اسے اپنے ارتقائی مراحل کے دوران رومانیت، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسے ادبی رجحانات اور تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کہیں اسے رومانی فضاؤں میں رکھا گیا، کہیں پروپیگنڈے کے طور پر اسے استعمال کیا گیا اور کہیں اسے پہیلی بنایا گیا لیکن اب یہ تمام حصاروں کو توڑنے کے بعد زندگی کی تلخیوں اور حقیقتوں کی وادی میں آ گیا ہے۔ آج کا افسانہ نگار بہت دور تک دیکھنے اور سوچنے لگا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے اس کے سامنے معلومات کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں۔ چنانچہ اس کا ذہن بہت حد تک تکنیکی نوعیت کا ہو گیا ہے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے، تغیر کا عمل اگرچہ قانون فطرت میں شامل ہے۔ لیکن انسان کو انسانی اقدار کی ضرورت کل بھی تھی آج بھی ہے اورکل بھی رہے گی۔ اسی طرح افسانے کو چیستاں نہیں بنایا جا سکتا۔ کہانی پن اس کی روح ہے۔ الفاظ اپنے اندر ایک طرح کا جادو رکھتے ہیں۔ معاصر افسانہ نگار کی اب یہ ضرورت بن گئی ہے کہ وہ کسی ایک زبان تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھے بلکہ اسے دوسری زبانوں کی بھی واقفیت ہونی چاہیئے۔ گوناگوں الفاظ کا ایک ایسا بھنڈار اس کے ذہن میں ہر وقت موجود رہنا چاہیئے کہ جو اس کی تخلیقی اپج میں معاون ثابت ہوں اور اس کی اظہاری قوت کو مہمیز کر سکیں۔ افسانے کے فنی لوازمات کا التزام و اہتمام نہایت ضروری ہے۔ ایک اچھا فنکارانہ ذہن کہانی میں جھول پیدا ہونے نہیں دیتا۔

احمد رشید اس اعتبار سے قابل توجہ ہیں کہ ان میں افسانہ نگاری کا جوہر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ جسے نکھارنے، سنوارنے میں انھوں نے خاصی محنت اور لگن سے کام لیا ہے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "وہ اور پرندہ” چند برس پہلے شائع ہوا تھا۔ "بائیں پہلو کی پسلی” ان کا تازہ افسانوی مجموعہ ہے۔ جو 2014 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی نے شائع کیا ہے۔ اس مجموعے میں احمد رشید کی 21 کہانیاں شامل ہیں۔ جن کے عنوانات اس طرح ہیں۔ "کہانی بن گئی”، "ویٹنگ روم”، "بائیں پہلو کی پسلی”، "بھورے سید کا بھوت”، "ایک خوب صورت عورت”، "فیصلے کے بعد”، "نیلم”، "مداری”، "دھواں دھواں خواب”، "دھوئیں کی چادر”، "حاشیہ پر”، "وہ لمحہ”، "چھت اڑ گئی”، "سہما ہوا آدمی”، "ہاف بولڈ بلڈ”، "اندھا قانون”، "بی بی بولی”، "رینگتے کیڑے”، "کرب کا سمندر”، "ناخدا” اور "سفید لباس سیاہ راتیں”۔ یہ تمام افسانے زندگی کی تلخیوں اور وقت کے گزران میں عصری سماج کی بہت سی خباثتوں کو فوکس کرتے ہیں۔ احمد رشید کے پاس ایک ایسا تخلیقی شعور ہے جو انھیں اپنے ہمعصر افسانہ نگاروں سے الگ حیثیت عطا کرتا ہے۔ عورت کی بے بسی کا اظہار ان کے یہاں بھی ملتا ہے لیکن ایک نئے انداز میں۔ ان کے افسانوں کی قرات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اقدار کی شکست اور جبریت و استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ بقول پروفیسر صغیر افراہیم

’’احمد رشید نے اپنے افسانوں کو ماورائی تصورات، تہذیب و ثقافت کی ابتدا اور ارتقا کو عوامی مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں ایک طرف ماورائی، مذہبی اور اساطیری فضا دوسری طرف زمینی مسائل سے ارتباط فنی چابکدستی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے افسانے روایتی افسانے کی طرح صرف کہانی بیان نہیں کرتے۔ زندگی کے تلخ حقائق، اقدار کی شکست اور جبریت و استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں‘‘

("احمد رشید کی افسانہ نگاری” مشمولہ "بائیں پہلو کی پسلی” ص 9)

زیر نظر مجموعے میں شامل پہلا افسانہ "کہانی بن گئی” ہے جس میں ایک راجستھانی عورت کا کردار حزن ویاس کی صورت میں ہما رے سامنے آتا ہے۔ عورت کو خوب صورت دکھایا گیا ہے لیکن مجموعی تاثر یہ ظاہر کرتا ہے کہ مرد غالب معاشرے میں عورت مظلومیت اور استحصال کی شکار ہے۔ کیونکہ پوری کہانی عورت کی زبانی جس انداز میں بیان کی گئی ہے وہ اظہار تاسف سے تعلق رکھتی ہے۔ واقعات کی ترتیب اور ربط و تسلسل میں عورت اپنا حال زار بیان کرتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا کہ مرد کی آہنی گرفت میں وہ چھٹپٹا رہی ہے۔ اسی کہانی میں افسانہ نگار نے مرد وزن کے حوالے سے کچھ فلسفیانہ باتوں کا بھی انکشاف کیا ہے مثلاً

’’عورت خوب صورت ہو یا بد صورت بڑھاپے میں مرد ہو جاتی ہے اور بوڑھا مرد جوان عورت کی طرح مجبور اور معز ور ہو جاتا ہے‘‘ ("کہانی بن گئی”)

احمد رشید کے بہت سے افسانوں میں اضطراب زندگی اور ماحول و معاشرے کے کرب کا احساس ہوتا ہے۔ در اصل وہ اپنے داخلی رنج و الم اور ظلم و زیادتیوں کو کہانی کے پیرائے میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وقت اور ناخوشگوار حالات کی عکاسی کے دوران وہ منظر در منظر اور فلسفہ در فلسفہ ایک ایسی کیفیت قاری کے ذہن پہ مرتسم کرتے ہیں جس میں تحیر و تجسس کی قوس قزح بنتی چلی جاتی ہے۔ کسی بیان کو عمدہ بیانیہ کے ساتھ بیان کرنا بذات خود ایک ہنر مندانہ کام ہے۔ ان کے کئی افسانوں میں جہاں عورت کا ایک آدرش روپ ملتا ہے تو وہیں وہ نسائی شعور اور مرد ظالمانہ سماج میں عورت کے ان تمام مایوس کن حالات کی تصویریں بھی دکھاتے چلے جاتے ہیں جو افسانہ نگار کے پیش نظر رہی ہیں۔ اس حوالے سے احمد رشید کے افسانے مثلاً "بائیں پہلو کی پسلی”، "ویٹنگ روم”، "ایک خوبصورت عورت”، "فیصلے کے بعد” اور "وہ لمحہ” میں عورت مختلف روپ دھارن کرتی نظر آتی ہے۔ آیئے ان افسانوں کے کچھ اقتباسات پر دھیان دیتے ہیں۔

’’”لو از لائف” بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ شبنم کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو میرے دل کی کلی پر ایسے گری کہ پھول کی طرح کھل گیا۔ وہ اپنے آپ میں سمٹی سرخ جوڑے میں۔ ملبوس میرے گھر میں گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح برسی۔ میرا گھر ہرا بھرا ہو گیا۔ زندگی کا ہر درد انگیز لمحہ اس کی ایک مسکراہٹ سے نشاط انگیز ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے پھول سے بچوں میں ایسی مست ہوئی کہ میں فاضل اور فضول شے بن گیا۔ محبت کا سفر جب ممتا پر رکتا ہے تو وہی شریک حیات کی منزل ہوتا ہے‘‘ (1 "ویٹینگ روم”)

’’خبر کے تجزیہ کے دوران اسے یاد آیا چند سال پہلے اسی زمین پر مجھے بصورت چترا چتا میں زندہ جلا کر دھرم ادھیکاروں نے اپنی تہذیبی عظمت میں چار چاند لگائے تھے۔ میرا قصور یہ یہ تھا کہ میرا پتی مرگیا جیسے میں اپنی مرضی سے بیوہ ہو گئی میرے پتی کو جینے کی تمنا بہت زیادہ تھی—–میں سوچتی ہوں وہ بھگوان تھا تو پھر مرا کیوں؟ میرا پتی مرا اور سزا بھی مجھے ہی ملی۔ چلو اچھا ہوا پل پل جلنے سے ایک بار جل گئی قصہ ختم ہوا۔ لیکن معاملہ جیون پریم کا ہے۔ میں تو پتی کے پریم میں جل گئی۔ کیا میرا پتی، میرا سوامی، میری چتا میں جلتا؟ نہیں نہیں پتی دیو–نہیں —نہیں میرا سوامی—-میں تو داسی ہوں —داسی بننا گوارہ–لیکن دیو داسی؟ —بچپن میں باپ کی ملکیت، جوانی میں شوہر کی، بیو گی میں اولاد کی مملوکہ—-جب کہ آدھی زمین کی میں مالک اور آدھا آسمان میرا ہے پھر بھی کنگال‘‘ (2 "بائیں پہلو کی پسلی”)

’’وہاں صرف عورت ہوتی ہے —-بھارتیہ ناری نہیں ہوتی جس کی عزت لٹ جائے؟ —- پوری دنیا اس کا گھر ہوتا ہے —— نہ کوئی سرحد نہ بٹوارہ—– برائی بھلائی سے دور—– صرف ایک مقصد اور ایک منزل—–ایک ایسی جمہوریت جہاں پائجامہ کھول کر مذہب نہیں دیکھا جاتا—کیا—کیا ہے وہ—– سیکولر ازم؟‘‘

(3 "ایک خوبصورت عورت” ص 63)

’’”تم نے مجھے قبول کیا تھا—-"

آفتاب نے قطع کلامی کی "کیا برا کیا” عورت کی تخلیق ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے —–اسے سیدھا کرنے میں سختی برتی گئی تو ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے —–ا—-و—-ر— اور میں ٹوٹ گئی ہوں —- قید ہو گئی ہوں۔ آزادی کی جد و جہد میں مارچ کی خوشگوار رات تھی۔ سبک خرام ہوا کی چلت پھرت سے گلابی سردی کا احساس جاگ رہا تھا۔ پلنگ صحن میں نکل آئے تھے۔ قریب ہی آفتاب میرے دائیں طرف دراز تھا۔ میری نگاہ آسمان کی اونچائی پر مرکوز تھی۔ ستارے اپنی بلندی پر مدھم روشنی سے تابندہ تھے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ سیڑھیوں پر چڑھ کر آسمان کو چھولوں اور ستارے آسمان میں بھر لوں‘‘ (4 "فیصلے کے بعد ” ص 71)

’’میری شریک حیات کا "وہ لمحہ” جو اس کے لیے کبھی خوبصورت رہا ہو گا اس نے میرے کان میں تیزاب کی طرح انڈیل کر دل و دماغ میں آگ سی بھر دی تھی۔ کہتے ہیں عورت کبھی راز دار نہیں ہو سکتی۔ راز رکھنے کے لیے جو تحمل اور جرات چاہیئے یہ مرد ہی کی فطرت ہے وہ مرد بڑا ہی کمزور ہوتا ہے جو راز کو راز نہ رکھ سکے۔ میرا تجربہ ہے کہ عورت مرجائے گی لیکن نجی راز اندھے کنویں کی طرح اپنے سینہ میں محفوظ کر لیتی ہے۔ لیکن مرد کو اس فن پر ملکہ حاصل ہے کہ وہ عورت کی سب سے بڑی کمزوری جسے محبت کہتے ہیں اور تعریف کہ جس کی وہ دلدادہ ہوتی ہے سے فائدہ اٹھا کر اپنی چالاکی اور مکاری سے اس کی زندگی کے تعلق سے بڑے سے بڑاراز اگلوا ہی لیتا ہے جسے محفوظ رکھنے کی وہ ماہر سمجھی جاتی ہے۔‘‘ (5 "وہ لمحہ” ص 111)

مندرجہ بالا اقتباسات میں عورت ذات کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے اور مرد ذات یہاں حاشیے پر ہے۔ پہلے اقتباس میں شبنم ایک ایسا نسوانی کردار ہے جس سے وابستہ جنس مخالف کا ایک ایسا حسیں لمحہ ہے جسے وہ فراموش نہیں کر پاتا ہے۔ عورت ذات کا ایک خوب صورت پہلو یہ ہے کہ وہ دلہن روپ میں زندگی کے ایک اسٹیج پر اس طرح سامنے آتی ہے لیکن جب وہ اولاد کو جنم دیتی ہے تو شوہر کے بدلے بچے اس کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ یہ عورت کا دوسرا روپ ہے۔ دوسرے اقتباس میں عورت کے استحصال اور اس کے اوپر ہو رہے ظلم و زیادتیوں کو تاریخی اور سماجی پس منظر کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے کہ ظلم و زیادتی کا یہ سلسلہ اس دھرتی پہ بہت پرانا ہے۔ تیسرے اقتباس میں افسانہ نگار ہمیں ایک عورت کی زبانی اپنے ملک میں پھیلی بدامنی اور اور دوسرے ملکوں میں عورت کی بہتر حالت پر طنزیہ لہجے سے متعارف کرواتا ہے اور چوتھے اقتباس میں عورت کی کچھ فطری کمزوریوں کی طرف بلیغ اشارے کیے گئے ہیں۔ اس طرح احمد رشید نے نسائی شعور سے اپنی دلچسپی کا اظہار بڑے سلجھے ہوئے انداز میں کیا ہے۔

ہمارے ملک کی بدنصیبی میں یہ بات شامل ہے کہ یہاں فرقہ پرستی، ذات پات، امیر وغریب، علاقائیت اور دین دھرم کی بنیاد پہ تصادم اور آگ و خون کی وارداتیں آئے دن دیکھنے، سننے اور پڑھنے میں آتی ہیں۔ احمد رشید کا ایک مختصر افسانہ "سہما ہوا آدمی” ہمارے ملک میں پھیلی لاعلمی، جہالت اور آدمی کی صورت میں درندگی کو درشاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سماجی برائیوں کو نظر انداز کر کے یہاں کے کچھ شرپسند اور انسانیت کے دشمن عوامی امن و ماحول کو غارت کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ "سہما ہوا آدمی” لرزہ خیز افسانہ ہے۔ ایک ہولناک شہری ماحول میں کس طرح ایک بے گناہ شخص کہ جس کا تعلق نہ سیاست سے ہے اور نہ کسی سماجی تنظیم سے لیکن جب وہ انتہا پسند وں کے ہتھے چڑھتا ہے تو کس طرح اس کو رسوا کیا جاتا ہے۔ اس مجبور و مقہور شخص کا حال لمحۂ فکریہ سے تعلق رکھتا ہے۔

’’اچانک چار پانچ آدمی اس کو ایک کونے میں گھسیٹ کر لے گئے وہ چاقوؤں اور نیزوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی پتلون اتاری گئی۔ ایک خونخوار قہقہہ فضا میں گونجا اور اسے چھوڑ دیا گیا۔ وہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کا مذہب چھپا کر بھاگنے لگا فضا میں کالا اور سفید دھواں پھیلا ہوا تھا۔ ٹائیں —-ٹائیں —–پٹ مارو—–مارو کی آوازوں سے زمین دہل رہی تھی—-اور آسمان خاموش تھا۔ زن—-زن—-ایک کار سڑک پر دوڑ رہی تھی—–لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے "کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ آپ لوگ اپنے اپنے گھر جائیں”‘‘

احمد رشید کے افسانوں کا ایک اختصاصی پہلو یہ ہے کہ وہ فنی لوازمات اور کہانی پن کی خوشبو کو دل و دماغ سے رخصت ہونے نہیں دیتے۔ ان کے افسانوں کے کردار ہم سے مکالمہ کرتے ہیں۔ عصری سماج کے یہ کردار کہیں ہمیں ہنساتے اور کہیں رولاتے ہیں۔ ان کے دکھ سکھ کو ہم اپنا دکھ سکھ سمجھنے لگتے ہیں۔ ماحول و منظر نگاری میں افسانہ نگار کو خاصی مہارت ہے۔ سماجی، سیاسی اور جنسی مسائل پر ان کے افسانے ہمیں غور وتدبر کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ احمد رشید کے افسانے ہمیں ایک نئی سوسائٹی سے واقف کرواتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ ان کے سامنے تہذیب و ثقافت اور وراثت بزگاں کا معدوم ہوتا ہوا ایک سلسلہ ہے جس کا قلق و افسوس انھیں بے کل کر دیتا ہے۔

افسانے کی اپنی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے۔ جب کسی افسانے میں زبان کا خاص پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے اور پھر چست درست بیان میں کہانی اور کہانی کے اجزائے ترکیبی فنی ترتیب میں اختتام کو پہنچتے ہیں تو افسانہ یا کہانی دلچسپ، سبق آموذ اور معیاری کہلاتی ہے۔

احمد رشید کے افسانوں کی زبان و بیان دلکش اور معنی آفرینی کی حامل معلوم ہوتی ہے۔ میرے نزدیک افسانہ یا کہانی میں طوالت کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ افسانہ ہر اعتبار سے افسانہ ہو جو اپنے اندر قاری کے لیے دلچسپی، تحیر و تجسس اور بصیرت کا سامان رکھتا ہو۔ احمد رشید کے افسانے حیات و کائنات میں تغیر پذیر عمل میں ایک نئے جہان معانی کے باب کھولتے ہیں۔ مجھے ان میں ایک اچھا افسانہ نگار نظر آ رہا ہے۔ خدا کرے علم و ادب کا یہ رسیا دور اور دیر تک علم و ادب کے موتی بانٹتا رہے۔ آمین

***

بن باس کے بعد: ایک تجزیہ/ڈاکٹر غضنفر اقبال

کہانی: بن باس کے بعد، احمد رشید

صوتی گونج …جو اپنے وجود کے لیے پریشان تھی۔ یکایک ماحول صداؤں سے مرتعش ہو گیا … کہ ضرور بناؤں گا۔ زمین پر ایک نائب، جمیل پری زاد اپنی برتری کے لیے بے چین ہوئے … کیا آپ پیدا کریں گے زمین پر ایسے لوگوں کو جو فساد کریں گے اور خون ریزیاں کریں گے۔ جبکہ ہمارے وجود کے سب موسم حمد و ثناء کے سر تال ہیں۔ اسم اعظم کی صدا گونجی کہ میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے اور علم دے دیا اسم اعظم نے اپنے حکم سے اپنی تخلیق کو کل اسماء کا۔ اس طرح خاک وجود کے افق پر چھا گئی، لیکن خاک! خاک جو اس کی ماں تھی، خون آلود ہو رہی تھی۔ وسیع و عریض نیلے آسمان کو گدھوں نے اپنے مکروہ سیاہی مائل پروں سے ڈھک لیا تھا گو کہ زمین پر اندھیرا پھیل گیا تھا اس کے باوجود اگی ہوئی سرخ فصلیں پھر بھی نظر آ رہی تھیں۔ خشک، زرد، ٹنڈ منڈ، شاخوں پر الو دیکھے گئے جو اپنی خوفناک آوازوں سے ٹرٹرا رہے تھے۔ سرخ برہنہ شاخوں میں ہوا کے خنجر پیوست ہو گئے تھے۔ سائے سایوں سے ڈر کر پناہ گاہیں تلاش کر رہے تھے۔ جب اندھیرا مختصر ہوا اور گدھوں کی تعداد میں تقلیل ہوئی تو سورج کی کرنیں زمین پر کانپتی ہوئی دیکھی گئیں اور آسمانوں پر روشنی کے آثار نمایاں ہوئے اس وقت لوگ پناہ گاہوں سے نکل کر اپنی اپنی رہائش گاہوں کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر ہر اس کی سطریں پڑھی جا سکتی تھیں۔ جن کی روشنائی گہری تھی اور آنکھوں میں بیچارگی کی لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔ قینچی کی مانند تیز قدم سانپ کی طرح پھٹکارتی ہوئی کالی سڑک پر چل رہے تھے … نہیں … نہیں دوڑرہے تھے۔ ان قدموں کے درمیان دوقدم اس کے بھی تھے جس کی آنکھیں پتھر کی ہو گئی تھیں پھر بھی بیچارگی کی نمائندہ تھیں۔ چہرہ جو سیاہ ہو چکا تھا، مریم کی سی پاکیزگی پسینہ کی صورت ٹپک رہی تھی۔ وہ تیزی سے اس مختصر سفر کو طے کر رہی تھی۔ جس کا اختتام ہونہیں پارہا تھا۔ بلکہ لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔ بڑی کوشش کے بعد ہانپتی، کانپتی وہ اپنوں میں پہنچی۔

پنج جو پرمیشور ہیں۔ ایک دو فٹ اونچی مٹی کے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ اسی لیے انہیں نیچے کی ہر شے چیونٹی نظر آ رہی تھی۔ اس چبوترے پر ایک پرانا برگد کا پیڑ لگا تھا۔ جس کے اوپر سورج ٹنگ رہا تھا۔ اس میں سے چھن چھن کر روشنی چبوترے پر گر رہی تھی۔ چبوترے کے چاروں طرف بیٹھے اور کھڑے آدمیوں کے سرپر کڑی دھوپ لدی تھی۔ جسے ناتواں لوگ اپنے سرکنڈوں جیسی ٹانگوں پر سنبھالے ہواؤں کی زد پر کھڑے تھے کہ ذرا بھی ہواؤں میں تیزی آئی تو وہ گر جائیں گے … یا ٹوٹ جائیں گے ان کو گرنے کا اتنا غم نہیں تھا چونکہ گرنا تو ان کا مقدر تھا خطرہ تو ٹوٹنے کا تھا۔ پھر پنچ تو بھگوان کے سمان ہوتے ہیں اور بھگوان تو ایک ہوتا ہے اور یہ پانچ یعنی بھگوان سے زیادہ شکتی شالی… دو گائیں ایک بیل گاڑی کی آڑ میں مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہی تھیں … اپنے چہروں پر گھونگھٹ کاڑھے مگر اپنے سینے پر رکھے ہوئے کالے کالے نقطوں سے بے خبر، اور نوجوانوں کی آنکھوں کے خنجروں کی نوک پر غیر محفوظ … نہیں … نہیں … نہیں محفوظ غیروں کی ناپاک نظروں کے سائے سے بھی۔ جانکی اپنے گھونگھٹ کی آر سے پرمیشور کو جھانک رہی تھی یا جھانکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جو حقہ گُڑگُڑا رہے تھے۔

’’چودہ دن کسی غیر مرد کے یہاں گزارنے سے بہتر تھا کہ وِش پی لیا ہو گا۔‘‘ درمیان میں بیٹھا پنچ اپنی بلّی جیسی مونچھوں پر لیموں رکھ رہا تھا۔

جانکی کے ہونٹ پھیل گئے۔ وہ بڑبڑائی۔ ’’ہوں غیر‘‘ … وہ غیر اور اپنوں کا فرق سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی… میں … میں پاروتی ہوں … شکتی ہوں شنکر کی … خود شنکر نہیں ہوں … اور شنکر تو یہ لوگ بھی نہیں ہیں پھر کیوں یہ میرے سروناش پر تُلے ہیں؟ وہ اپنی جگہ کسمسا کر رہ گئی۔

’’بھئی مرنا تو سب کو ہے‘‘ دائیں ہاتھ پر بیٹھے ہوئے پنچ نے تیر پھینکا۔

جانکی نے تیر کی کاٹ کو برداشت کیا۔ ’’ہاں‘‘ میرا قصور یہ ہے کہ میں موت سے ڈر گئی … کیوں ڈر گئی…؟ کیوں نا نیل کنٹھ کی طرح زہر اپنے گلے میں انڈیل لیا… لیکن اگر موت شکتی پر قابض ہو جاتی تو …؟ کیا کوئی موت سے نہیں ڈرتا؟ جب جھیر سا گر منتھن ہوا تو دیوتاؤں نے وِش پینے سے کیوں انکار کر دیا؟‘‘

’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ جانکی پوتر ہے؟‘‘ تیسرے نمبر کے پنچ نے کہا۔

’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ میں آپوتر ہوں‘‘ جانکی نے اپنے آپ سے کہا اور اس کے منہ میں کونین کی گولی آ گئی ہو۔ اس نے زمین پر حقارت سے تھوک دیا۔

پنچ پرمیشوروں کے فیصلے کے مطابق ’’جانکی کو پاکیزگی ثابت کرنے کے لیے اگنی پریکشا دینی ہو گی‘‘

جانکی کو محسوس ہوا کہ دریودھن نے بھری سبھا میں دروپدی کو ننگا کر دیا ہو، وہ سوچتی ہے مردوں نے عورت کو جنم ہی سے دھورو کیڑا میں ہارا ہوا دھن کی طرح استعمال کیا ہے۔ لیکن میرا مرد، میرا دیوتا، میرا راگھویندر گوتم رشی کیوں نہ ہوا جس کے شاپ سے اہلّیا کی طرح میں یہاں آنے سے پہلے پتھر کی ہو جاتی، پھر میں بھگوان کی طرح، نہ بولتی، نہ سنتی، نہ محسوس کرتی اور نہ روتی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

مردوں کے درمیان راگھویندر کھڑا سوچ رہا تھا اگر جانکی اگنی پریکشا میں اسپھل ہو گئی تو کیا ہوا؟ وہ تو آگ میں جل کر جیون مکت ہو جائے گی… لیکن میں زندگی بھر اپنی ہی آگ میں جلوں گا کیا میں جانکی کے بغیر زندہ رہ سکوں گا؟ وہ آگ جو جانکی کو جلا کر پاپن ثابت کرے گی، پاپن تو مر جائے گی کیوں کہ بھگوان کی طرح وہ پتھر نہیں ہے، لیکن کیا پاپ اس کائنات سے مٹ جائے گا؟ … نہیں … نہیں قتل کی روایت کا وہ سلسلہ راون پر ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ آج تک جاری ہے۔ … راون ابھی مرا نہیں ہے؟ پھر اس فیصلہ اور سزا کا مطب؟ … پنچ پرمیشور اور یہ سنسار تسلیم کر لے کہ جانکی کی جان سلامت تو سب کچھ سلامت ہے، عزت و ذلت، احساس شرم و ندامت سب بے معنی ہو جائیں گے۔ وہ سوچتا ہے میں یدھشٹر کیوں نہ ہوا؟ … مگر ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے کہ انسان سوچے کہ انار کے پیڑ میں آم نکلیں، آدمی کے سرپر ایک پتھر کی سل رکھی ہے بس وہ اسی کے نیچے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے نکل جانے کی ناکام کوشش ہی کہانی کو جنم دیتی ہے۔

فیصلے کے بعد لوگ اٹھنے لگے اور اپنے اپنے گھر آہستہ آہستہ واپس جانے لگے۔ دن سمٹ رہا تھا۔ سورج کی روشنی ہلکی ہو رہی تھی۔ دور مغرب میں شفق پھیل رہی تھی۔ آسمان پر پرند قطار میں اڑ رہے تھے۔ اور ایک پرند ڈار سے بچھڑ گیا تھا۔ جو پرندوں کے جھنڈ کو پکڑنے کی کوشش میں تیز رفتار سے اڑنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ راگھویندر تنہا اس برگد کے درخت کے تنے لگا کھڑا تھا۔ سوچتا ہے اس اگنی پریکشا اور جانکی کی پاکیزگی کا کیا تعلق ہے؟ اور پھر کیا پاکیزگی اور ناپاکی میں صرف چودہ دن کا فرق ہے۔ چودہ دن گھر سے غائب رہی تو جانکی ناپاک ہو گئی … بہتر تھا مر گئی ہوتی … رہا میرے غم کرنے کاتو فرق ہی کیا پڑتا ہے؟ دنیا کے کاروبار میں کمی تھوڑی آتی۔ معمول کے مطابق سورج طلوع ہوتا۔ کاروبارِ زندگی بدستور چلتا، سورج غروب ہوتا لوگ سوتے، لوگ جاگتے، پنچ پرمیشور کے فیصلے سب میری طرح قبول کرتے؟ انسان کی شرافت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ارجن کی طرح کرشن کے کہے ہوئے پر عمل کر لے اور اپنوں ہی کے خلاف برسرِ پیکار ہو جائے اور میں نے بھی فیصلہ قبول کر لیا اپنی شرافت کی دلیل کے طور پر… کل جانکی وہی عروسی جوڑا پہنے گی جو میرے گھر پہن کر آئی تھی اور اگنی کو شاکچھی مان کر قسم کھائی تھی کہ اس دہلیز سے سفید جوڑا پہن کر ہی نکلوں گی۔ لیکن یہ کیسی بغاوت ہے۔ کیا ریت، روایت، پریت سب ہی کچھ بھول گئی؟ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسے سب ہی کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دینے لگا۔ اس نے آستین سے آنکھیں صاف کیں، اندھیرا پھیل چکا تھا۔ وہ برگد کی شاخ پکڑے کھڑا تھا اس نے اپنے آپ سے کہا ’’رفاقت اور فرقت میں صرف ایک رات کی تفاوت ہے۔ اس رات کے بعد، میں بالکل تنہا رہ جاؤں گا … جانکی ان کالے کالے بادلوں میں ڈوب جائے گی پھر اندھیرا اور سیاہ راتیں میرے حواس پر سوار رہیں گی۔ راتیں سانپ بن کر ڈسیں گی۔ میری رگوں میں زہر گھولیں گی۔ وہی لوگ رہیں گے۔ پنچ پرمیشور رہیں گے۔ قریب بہنے والی ندی اسی طرح بہے گی۔ آموں کے پیڑوں پر بور آئے گا۔ فصلیں اُگیں گی، سب کچھ یوں ہی باقی رہے گا‘‘ اس نے ایک نگاہ آسمان پر دوڑ آئی۔ رات بالکل ویسے ہی ہے جیسی چودہ دن پہلے تھی۔ جانکی بالکل ویسی تھی جیسی چودہ دن پہلے تھی۔ پھر تبدیلی کس بات میں آئی؟ ہاں جانکی کا قصور یہ ہے کہ اس نے جان بچائی۔ لیکن کیا جان بچانے کا مطلب اگنی پریکشا ہے؟ اس نے جھٹکے سے اس شاخ کو توڑ لیا جسے پکڑے کھڑا تھا اور پنچ پرمیشور کی جاہ نشست پر پڑے پتھر پر اس زور سے ٹھوکر لگائی کہ وہ دو گز دور جا پڑا۔ پنجہ میں چوٹ لگنے سے وہ کراہ اٹھا اسے لگا جیسے پتھر نے پنچ پرمیشوروں کی کمروں کو توڑ دیا ہو بالکل اسی طرح جیسے دروپدی کے اپمان پر بھیم نے دریودھن کی جانگ کو توڑ دیا تھا۔ اس کو سکون ہوا … رات کے اندھیرے میں ہر چیز صفر نظر آ رہی تھی اس نے سوچا زندگی میں بھی تو ہر چیز تقسیم ہو گئی ہے اور باقی صرف صفر ہی رہ گیا ہے حالانکہ گوتم بدھ کو گرہست سنسار تیاگ کرنے پر روشنی پراپت ہوئی تھی مگر مجھے جیون تیاگ کرنے پر اندھیرا؟ چاروں طرف اندھیرا پھیل چکا تھا ایک خوفناک پُر اسرار اندھیرا۔

وہ آہستہ آہستہ قدموں سے گھر پہنچا۔ گھر میں چودہ دنوں سے چراغ نہیں جلا تھا۔ آج پندرہواں دن تھا۔ جبکہ چودہ دن بن باس کے بعد گھر میں چراغاں ہونا چاہئے تھا۔ مہالکشمی کی پوجا ہونی چاہئے۔ اسے اچھی طرح یاد ہے۔ جانکی کے غائب ہونے سے پہلے اس رات آسمان پورا چاند تھا اور چکور اس کے گرد گھوم رہا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا؟ کل چاند پھر ابھرے گا۔ ہر شئے ابھرنے کے لیے ڈوبتی ہے اور پُنر جنم کا یہ سلسلہ دائروں کی طرح کائنات کے اس سمندر میں پھیلتا رہتا ہے۔ … میرا چاند بھی ابھرے گا۔ مگرا سکی پہچان کیا ہو گی؟ چاند جب ڈوب کر ابھرتا ہے تو کتنا باریک ہوتا ہے! کتنا فرق ہوتا ہے ڈوبنے کے بعد ابھرنے میں! اس نے دائیں ہاتھ بچھی چار پائی پر نظر اٹھائی جو خالی تھی۔ جس رات جانکی غائب ہوئی تھی، اس رات گھر شمشان ہو گیا تھا۔ چاروں طرح خاموشی کے درمیان صرف میں تھا اکیلا، تنہا ایک بھوت کی طرح۔ ہر شئے مجھ ہی سے شروع ہو کر مجھ ہی پر ختم ہو رہی تھی اور اب چودہ دن بعد خط مستقیم کا وہ دوسرا نقطہ ملا بھی تو اس کی سمت خط منحنی کی طرح مُڑ گئی۔ نہیں … نہیں … موڑ دی گئی۔ میں نے کب انصاف مانگا تھا؟ پھر کیوں انصاف دیا جا رہا ہے؟ جانکی بُری ہے بھلی ہے میرے لیے ہے پھر دنیا میں کون اچھا ہے؟ اور کون برا ہے؟ گناہوں کی صلیب آدم سے لے کر جانکی تک ہر ایک اپنے کاندھے پر لیے گھوم رہا ہے۔ پھر ہابیل اور قابیل جو ایک ہی پیٹ کے تھے عورت کی خاطر ایک نے دوسرے کا قتل کر دیا۔ اس کا علم انہوں نے دو کوؤں کی جنگ سے لیا۔ ایک کوا لہولہان ہو کر مر گیا تو دوسرے نے پنجوں سے زمین کھود کر اسے دبا دیا۔ کوے نے بھی اتنا ہی کیا جتنا اس کو علم دیا گیا تھا۔ پھر قصور کس کا ہے؟ سامنے بائیں جانب ایک کونے میں ایک کنکر کے نیچے کوکروچ پھڑپھڑا رہا ہے پھر جس گناہ کی پاداش میں وہ آگ میں جلے گی تو کیا جلنے سے اس کی عزت واپس آ جائے گی؟ … نہیں … کتنے پاگل ہیں یہ لوگ، جان ہے تو عزت ذلت ہے۔ ایمان ہے جہان ہے اور اگر جان نہیں تو ایمان کا کیا مطلب؟ پھر اس میں جان کا کیا قصور؟ قصور ان کا ہے جنہوں نے جانکی کا ایمان غصب کیا؟ … نہیں …نہیں اندر، آج بھی اندر ہے، دیوتاؤں کا راجہ۔ قصور تو اہلّیا ہی کا ہے۔۔۔؟

’’بے شک … بے شک‘‘ پنجرے میں قید طوطے نے کہا۔

راگھویندر کی نظر پنجرے پر گئی جو جھونپڑی میں لگے ڈنڈے پر لٹک رہا تھا اور طوطا ادھر سے ادھر ٹیں ٹیں مٹھا بیٹا … مٹھو بیٹا کر رہا تھا۔

’’ہاں تو ہی میرا ہمدرد ہے‘‘ اس نے کہا …وہ یہ بھول گیا تھا، طوطا مٹھو بیٹا کے علاوہ کہہ کیا سکتا ہے؟ طوطا اتنا ہی جانتا ہے جتنا اس کو علم ہے، اتنے ہی اسماء جانتا ہے کہ جتنے اس کو بتائے گئے ہیں، وہ مفاہیم اور معنی سے بے خبر ہے۔ راگھویندر کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں سوچتا ہے کتنی عجیب سی بات ہے۔ انسان جان بچا کر بھاگنا بھی چاہتا ہے، پھر بھی عزت و ایمان کو جان سے بڑا گردانتا ہے‘‘

’’بے شک … بے شک‘‘ طوطے نے سر ہلایا

’’ہاں … ہاں‘‘ راگھویندر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا

’’بے شک … بے شک … مٹھو بیٹا‘‘ طوطے نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

کل سورج نکلے گا اس کی پہلی کرن جانکی کی موت کا پیغام ہو گی۔ اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے ہیں اور رات کی سیاہی آہستہ آہستہ گھل گھل کر ہلکی ہو رہی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں نیلے آسمان کا مشرقی ٹکڑا سرخ آلود ہو گیا۔ لوہے کے ایک تار پر جانکی نٹ کا تماشہ کرے گی۔ جائے مقتل پر تماش بین جمع ہو رہے تھے پنچ پرمیشور برگد کے نیچے حقّہ گڑگڑا رہے تھے۔ ہونٹوں پر بے رحم ہنسی کے نقوش صاف دکھائی دے رہے تھے۔ دور کھڑی جانکی اس آگ کے منظر کو دیکھ رہی تھی جس کا وہ خود ایندھن بنے گی۔ چند لوگ اگنی کے چاروں طرف روایت کے مطابق لہک لہک کر ناچ رہے تھے اور اپنی مخصوص آوازوں میں مذہبی گیت گا رہے تھے جن کے الفاظ جاہ و جلال اور عبرت ناک معنی دے رہے تھے۔ آگ کے بلند شعلے آسمان کو چھو رہے تھے۔ آگ جلتی رہی … رقص ہوتا رہا … ڈھولک پر پڑنے والی ضرب تیز ہوتی رہی … اگنی پریکشا ہوتی رہی … ناچ … تھاپ … اگنی پریکشا … سپھلتا … کامیابی … کامرانی دیکھنے والوں نے تالیاں بجا دیں تماش بین خوش ہو گئے … پنچ پرمیشوروں کے چہرے اتر گئے جیسے مہابھارت میں کورووں کے جب بڑے بڑے ویرمارے گئے … اور یدھشٹر کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی ٹھیک اسی وقت بھیشم پتا مانے کہا یدھشٹر تمہاری وجئے اس لیے ہوئی کہ ’’تیودھرم تتوجے‘‘ ( جہاں دھرم ہوتا ہے وہیں وجئے ہوتی ہے) راگھویندر چونک گیا اس کی آنکھوں میں سپھلتا کے آنسو آ گئے … اس نے تیزی سے بڑھ کر جانکی کو باہوں میں بر لیا۔ جانکی اس کی باہوں میں اس طرح گر گئی جیسے بیشم پتاما شر شیا پر پڑے ہوں۔ راگھویندر جانکی کو لے کر گھر چلا گیا۔ برگد کا پیڑ سنسان ہو گیا۔ چبوترے کے سامنے نمرود کی لگائی ہوئی آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ آسمان پر بادل شیر کی طرح دہاڑنے لگے، بجلی کڑکی، خوب بارش ہوئی، لوگ مست ہو گئے اہلّیا دوبارہ پتھر سے انسانی گوشت و پوست میں تبدیل ہو گئی۔ چاروں طرف خوشیوں کے سنکھ بجنے لگے۔

جانکی کا دوبارہ جنم ہوا جیسے انسان پرانے کپڑے تیاگ کر نئے کپڑے پہن لیتا ہے۔ ہر روز نیا دن آتا ہے۔ آنے لگا۔ زندگی پھر لوٹ آئی تھی جیسے یم راج نے ساوتری کی تپسیا سے خوش ہو کر ستیہ وان کو لوٹا دیا تھا۔ حالانکہ تماشہ ختم ہو گیا مگر زندگی کا تماشہ جاری تھا کائنات کی اسٹیج پر … ہر دن اس ڈرامہ کا نیا سین ہوتا ہ، ڈراپ ہوتا ہے اور اس طرح قبائے حیات شب و روز کی چھڑی پر لپٹ رہی تھی اچانک اس لباس پر سکڑن آ گئی جب بھری چوپال میں کلوانے اپنی بیوی کو ڈانتا تھا۔ ’’بتا سالی ایک رات تو کہاں غائب رہی؟ یہ نہ سمجھنا کہ سب لوگ راگھویندر کی طرح عورت کے بھگت ہو گئے ہیں‘‘

راگھویندر کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اس کے کانوں کی لوئیں جلنے لگیں، پیشانی پر بل پڑ گئے۔ چہرہ سرخ ہو گیا۔ مگر وہ کر کیا سکتا تھا۔ بے بسی کے عالم میں جب اس رات وہ گھر لوٹا… جانکی بے خبر سو رہی تھی … اس کا جی چاہا کہ وہ جانکی کو اس قدر مارے کہ چودہ دن کا بدلہ لے لے جو آسیب کی طرح اس کی زندگی سے چپک گئے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ چودہ دن زندگی سے خارج کر دئیے جائیں؟ … لیکن ایسا ہو نہیں سکتا! اس کا جی چاہا کہ جانکی کو اپنی زندگی سے نفی کر دے تو سب ہی جھگڑا ختم ہو جائے پھر نہ کوئی زندگی کا حساب لے گا اور نہ ہی چودہ دن کی ضرب و تقسیم کرے گا۔ وہ آہستہ آہستہ جانکی کی طرف بڑھا …

’’ٹیں … ٹیں … مٹھو بیٹے‘‘

وہ چونک گیا۔ جانکی کی آنکھیں کھل گئیں اس نے راگھویندر کو اپنے قریب کھڑا دیکھا۔

’’کیوں، کیا بات ہے‘‘ ؟ جانکی بستر پر لیٹی تھی۔

راگھویندر اپنی چارپائی پر آ کر بیٹھ گیا اور کچھ نہیں کہا۔ اس کا جی چاہا کہ کلوا کا سر توڑ دے … مگر وہ ایسا بھی نہ کر سکا۔

’’دل چاہتا ہے کہ آگ لگا دوں اس انصاف کو، اخلاق کی دھجیاں اڑا دوں، سماجی قدروں کو توڑ دوں‘‘ اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا … اس کی آواز جھونپڑی میں پھیل گئی۔

جانکی فوراً بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی ’’کیا ہوا … میں نے کیا کیا‘‘ ؟ اس نے چونکتے ہوئے کہا۔

’’کچھ نہیں …کچھ نہیں‘‘

’‘’ بے شک … بے شک‘‘ … طوطے نے کہا

’’پچ پچھ مٹھو بیٹے تم ابھی تک سوئے نہیں‘‘ جانکی نے کہا

’’بے شک … بے شک … مٹھو بیٹے ٹیں ٹیں … مٹھو بیٹے‘‘ طوطے نے کہا

راگھویندر کی نظر پنجرے کی سیخ چوں پر گئی جو سنہری رنگ میں رنگے تھے جس میں طوطا ادھر ادھر پھڑپھڑا رہا تھا۔ اچانک بجلی کی سرعت کے ساتھ وہ چارپائی سے اٹھا اور پنجرے کا دروازہ کھولنے لگا… جانکی پنجرے کی طرف دوڑی اے … رے … رے … طوطا آزاد ہو چکا تھا اور دور آسمان کی وسعت میں ڈوب گیا۔ جانکی کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا‘‘ یہ کیا کیا آپ نے؟

’’میں نے طوطے کو آزاد کر دیا۔ اب یہ رٹے ہوئے الفاظ نہیں بولے گا … اب یہ اپنے فطری انداز میں زندہ رہے گا۔ جہاں چاہے گا بیٹھے … جہاں چاہے گا اڑے گا …‘‘ جانکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

راگھویندر نے جانکی کے آنسو پونچھے، اسے قریب کیا‘‘ اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا تم کو مجھ سے چھین لے، میں تم کو تم سے چھین لینا چاہتا ہوں‘‘

رنگ بدلتے آسمان تلے، اندھیرے کا کالا رنگ پھیکا ہو رہا تھا اور نئی روشنی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔

( بہ شکریہ: کتاب: وہ اور پرندہ … احمد رشید علیگ2002)

تجزیہ

احمد رشید، ایسے افسانہ گو ہیں جن کے افسانے، بن باس کے بعد، میں اساطیری ادب عالیہ کی پرورش ہوئی ہے۔ افسانہ کا پورا کا پورا ماحول اساطیری فضا میں سانس لیتا ہوا ہے۔ شعبہ اردو افسانہ کا یہ ایسا موضوع ہے جس پر چند افسانہ نگاروں نے توجہ دی ہے۔ احمد رشید نے قدیم ترین ہندستانی قصہ کو اس افسانے میں نئی جہت دی ہے۔ جس کے ڈانڈے رامائن کی بن باس والی کہانی سے ملتے ہیں۔ رامائن کے وہ قصے کہانیاں انفرادی ہوتے ہوئے اجتماعی شعور کو اپنے دامن میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ افسانہ پوری طرح سے دیومالائی فکر و فلسفہ کی جانب رواں نظر آتا ہے۔ افسانہ نگار نے زندگی کو گھٹا ٹوپ اندھیرے کی صورت میں دیکھا ہے جس کو سیاسی نظام نے پیدا کیا ہے۔ ملک کی حکمرانی گدھ کر رہے ہیں اور ملک کا ملک ان کے کارناموں کی تاریکی کی نذر ہو گیا اور گدھ کی بڑھتی تعداد نے ملک کی قسمت تلپٹ کر کے رکھ دی ہے۔ جس کے باعث عام، شہری کی حالت دگرگوں ہوئی ہے:

’’ان کے چہرے پر لہر اس کی سطریں پڑھی جا سکتی تھیں جن کی روشنائی گہری تھی اور آنکھوں میں بیچارگی کی لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔ قینچی کی مانند، تیز قدم سانپ کی طرح پھنکارتی ہوئی کالی سڑک پر چل رہے تھے‘‘

افسانہ کی ہیروئین، جانکی ہے۔ جانکی کو ہی ’بن باس کے بعد‘ میں مرکزیت حاصل ہے۔ اور اس کا شوہر راگھویندر ہے۔ لیکن جانکی اچانک کہیں چودہ دن کے لیے غائب ہو جاتی ہے۔ اور پھر اس کی گھر واپسی ہوتی ہے۔ گاؤں کا ماحول ہے۔ پنچ، کے حوالے فیصلہ کیا جاتا ہے، پنچ کے فیصلے مختلف ہوتے ہیں لیکن راگھویندر اپنی جانکی کو اپنا لیتا ہے۔ یہ افسانے کی کہانی ہے۔ لیکن پردہ درپردہ افسانہ نگار نے اس فلسفہ کو افسانے میں پیش کیا ہے جس میں اساطیری شعور کی کارفرمائی ہے۔ افسانہ کے ان جملوں پر غور و فکر کریں تو احساس جاگتا ہے کہ افسانہ نگار کے یہاں اساطیری بیداری کس حد تک ہے:

مریم کی سی پاکیزگی پسینہ کی صورت ٹپک رہی تھی۔ وہ تیزی سے اس مختصر سفر کو طے کر رہی تھی۔

گوتم بدھ کو گرہست سنسار تیاگ کرنے پر روشنی پراپت ہوئی تھی مگر مجھے جیون تیاگ کرنے پر اندھیرا؟ چاروں طرف اندھیرا پھیل چکا تھا ایک خوف ناک پراسرار اندھیرا۔

ہابیل اور قابیل جو ایک ہی پیٹ کے تھے عورت کی خاطر ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اس کا علم انھوں نے دو کوؤں کی جنگ سے لیا۔

چبوترے کے سامنے نمرود کی لگائی ہوئی آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ آسمان پر بادل شیر کی طرح دہاڑنے لگے بجلی کڑکی خوب بارش ہوئی۔

افسانہ نگار نے افسانے کے موضوع کو افسانے کی شعور کی دہلیز پر رکھا اور موضوع کی دھوپ چھاؤں کی سیر کرتے ہوئے افسانے کی طنابیں اس قدر لمبی کر دی کہ افسانہ اپنا محور فکر خود قائم کرنے لگتا ہے۔ اور اس کے مرکز بیان سے روشنی پھوٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ’’بن باس کے بعد‘‘ ایسا بھی لگتا ہے کہ جیسے کوئی خواب میں افسانے کی ہیروئین کوئی سپنا دیکھ رہی ہے وہ افسانہ نگار خواب کی تعبیر بیان کر رہا ہو۔ ایک اسراریت کی کیفیت بھی افسانے کے عکس باطن میں محو گفتگو ہے۔ افسانے میں گدھ اور طوطا وغیرہ کی پیش کش اساطیر علامت کا تصور دیتے ہیں۔ افسانہ نگار نے افسانہ میں بے حد معیاری زبان کا استعمال کیا ہے جس سے زیادہ و بیان میں تہہ داری اور معنویت پیدا ہو گئی ہے۔ زبان کی ساخت بے حد توانا، کھردرے پن کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ زبان و بیان میں خلاقیت پائی جاتی ہے۔:

’’سورج کی روشنی ہلکی ہو رہی تھی، دور مغرب میں شفیق پھیل رہی تھی آسمان پر پرند قطار میں اڑ رہے تھے اور ایک پرند ڈار سے بچھڑ گیا تھا۔ جو پرندوں کے جھنڈ کو پکڑنے کی کوشش میں تیز رفتار سے اڑنے کی تگ و دو کر رہا تھا‘‘ ۔

’’رات کے اندھیر میں ہر چیز صفر نظر آ رہی تھی اس نے سوچا زندگی میں بھی توہر چیز تقسیم ہو گئی ہے اور باقی صرف صفر ہی رہ گیا ہے‘‘

’’ہر شئے ابھرنے کے لیے ڈوبتی ہے اور پنر جنم کا یہ سلسلہ دائروں کی طرح کائنات کے اس سمندر میں پھیلتا رہتا ہے‘‘

افسانہ کی قرأت کے بعد افسانہ رام کا بن باس لگتا ہے۔ اور محبت کا سہارا بے بسی کی انتہا ہے۔ افسانہ نگار نے اساطیری تخلیق کے ذریعے اساطیری افسانہ کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ افسانے میں تاریک ماحول کو پیش کیا ہے۔ تاریکی سے ہی تابناکی جنم لیتی ہے۔ ’’بن باس کے بعد‘‘ کا جہان، جہانِ دیگر ہے اس کا جہان حیرت خیز ضرور ہے۔ اس میں افسانہ نگار کی تخلیقی توانائی اپنے ارتفاع پر ہے۔ افسانہ نگار کی بیانیہ اساطیر نے افسانے میں کار جہاں بینی سے چشم دل میں ایک نظر پیدا کی ہے اور ایک لامتناہی سلسلہ پیدا کیا ہے جس سے ہزار چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہ باتیں احمد رشید کے افسانے کی پائندہ تر خوبیاں ہیں اور زندگی زندہ تر اگنی پریکشا۔

٭٭٭

وہ اور پرندہ: فنی محاسبہ/محمد غالب نشتر

احمد رشید کی کہانیاں اِدھر چند متعدد رسائل میں یکے بعد دیگرے پڑھنے کو ملیں تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ان کی کہانیوں سے حصار سے نکلا ہی تھا کہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ نے آ دبوچا۔ یہ افسانہ نگار کا دوسرا مجموعہ ہے جو ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا تھا۔ واضح رہے کہ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ کے عنوان سے اشاعت سے ہمکنار ہو کر داد تحسین وصول کر چکا تھا۔ عام خیال ہے کہ احمد رشید کے قارئین کا حلقہ وسیع ہے لیکن ان کے افسانوی فن پر لوگوں نے بہت کم توجہ دی ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ احمد رشید کے افسانوں کے علائم و استعارات کی تفہیم کے لیے جس بارک بینی، وسیع القلبی اور مطالعۂ کائنات کی ضرورت ہے، اس سے آج کا قاری تقریباً عاری ہے۔ احمد رشید نے بلا ضرورت یا علمیت بگھارنے کے لیے علائم کا استعمال نہیں کیا ہے اور نہ ہی انہوں نے اندھیرے میں استعارات کی تیر چلائی ہے بلکہ مناسب و موزوں علائم کا استعمال کر کے فن پارے کو تہہ دار بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری کی نظر دونوں مجموعوں کے افسانوں پر جاتی ہے تو علائم کی گرہ کھولنے کی نا کام کوشش کرتا ہے اور تھوڑی بہت کام یابی ہاتھ لگتی ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ اسی خوش فہمی کو ظاہر کرنے کے لیے افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ اس علامتی افسانے کی حتیٰ المقدور تفہیم ممکن ہو سکے۔ اس افسانے کا فنی محاسبہ کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر شافع قدوائی کے مضمون ’’احمد رشید کے افسانے‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا جائے۔ ان کے خیال میں:

’’زندگی کے مختلف مظاہر، اس کی رنگا رنگی، بو قلمونی اور ارتقا و افزونی کے مختلف مراحل کو تخلیق کائنات کے قدیم آرکی ٹائپ سے مربوط کرنا اور تخلیق کے ازلی متھ کی معنویت عصری تناظر میں واضح کرنا ایک تازہ کار افسانہ نگار احمد رشید کے جن بعض افسانے بر صغیر کے مقتدر جرائد مثلاً ’’جواز‘‘، ’’شاعر‘‘ اور ’’آہنگ‘‘ میں شائع ہو کر خراجِ تحسین وصول کر چکے ہیں، فن کار کا بنیادی رمز ہے۔‘‘

افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ تخلیق کائنات اور تخلیق انسان سے متعلق اساطیری اور مذہبی کرداروں کی معنویت کو عصری تناظر میں واضح کرتے ہوئے کہانی کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے:

’’یہ کہانی ’’وہ‘‘ کی ہے۔ ’’وہ‘‘ کی تخلیق ایک قطرے میں پوشیدہ تھی۔ جس نے قطرے سے سمندر تک کے سفر میں نہ جانے کتنے سورجوں کو چڑھتے دیکھا اور پھر اُن کو اُترتے دیکھا۔ یہ سفر جو یگوں پر مشتمل ہے، آج بھی جاری ہے۔ اس سورج کو پانے کی جستجو میں جو اس تنگ و تاریک مقام سے شروع ہوا تھا، جہاں اس کی خوراک گندہ خون تھی اور برہنگی اس کا لباس۔۔۔۔۔‘‘

حضرت آدمؑ کی پسلی سے حوّاؑ کی تخلیق کے بعد انسانیت اور کائنات کا یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ تہذیب و تمدن کا یہ ارتقائی سفر بہ تدریج جاری ہے۔ ’’وہ‘‘ کی تخلیق قطرے سے سمندر تک سفر میں اس نے قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ دیکھی اور انسان کے رحم مادر سے ولادت کے عمل تک کی داستان کا ذکر کرتے ہوئے تہذیبی ارتقا کی طرف رمز ہے۔ ساتھ ہی تہذیبی ارتقا دائروی شکل میں اس طرح کہ انسان کا یہ سفر جو بے لباسی اور بے شعوری سے شروع ہوا تھا جو اَب اپنی ابتدا کی جانب لوٹ رہا ہے اور اس بے منزل سفر کو اندھا سفر کا استعارہ کہا ہے۔ یہاں بھی دیگر کہانیوں جیسے ’’کہانی کہتی ہے‘‘، ’’صدیوں پر پھیلی کہانی‘‘ کی طرح سمندر وقت کی علامت ہے۔ کہانی کا متذکرہ اقتباس ایجاز و اختصار کی بہترین مثال ہے۔ تمام یگوں کی تاریخ اس میں سمٹ گئی ہے۔ حیات و کائنات کے وسیع و عریض حدود اربعہ میں ’’وہ‘‘ زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے تھک گیا ہے۔ جس طرح سورج پورے آب و تاب کے ساتھ دن کی مسافت بے کر کے تھکا ماندہ پرند کی مانند اپنے پر سمیٹ لیتا ہے۔ سورج وقت کا پیمانہ، روز و شب، عمر کا حساب و کتاب، سمندر وقت کی علامت۔۔۔ ان سب ہی علائم کا با معنی امتزاج افسانہ کو گہرائی اور گیرائی بخشتا ہے۔ مثال ملاحظہ ہو:

’’تھکا ماندہ سورج نے پرند کی طرح اپنے پر سمیٹ لیے اور کائنات جو کچھ دیر پہلے ست رنگ تھی، یک رنگی ہو گئی۔‘‘

مذکورہ کہانی کی علامتیں ’’سورج‘‘، ’’پرند‘‘، ’’ست رنگی‘‘ اور ’’یک رنگی‘‘ ایک دوسرے میں اس طرح مدغم گئی ہیں کہ معنی خیزی میں شعریت کی کیفیت تخلیق ہو گئی ہے۔ ایسی مثالیں افسانہ کی تمہید سے ہی نظر آتی ہیں۔ جیسے ’’ابھی بے لباسی، بے شعوری سے اس کا رشتہ نہیں ٹوٹا ہے بلکہ دائروں کی طرح یہ سفر، مسلسل سفر، قطرے سے سمندر کا سفر، بے کراں لہروں کا سفر، بے پایاں طوفانوں کا سفر، یگوں کا سفر، قرنوں کا سفر، ابھی مسلسل جاری ہے۔ رنگ بدلتے اس آسمان کے نیچے۔‘‘

انسان کا بہ وقت ولادت بے لباس اور بے شعور ہونا انسان کے تہذیبی ارتقا کی بنیاد بے لباسی اور بے شعوری اور آج کے جدید دور میں انسان کا جسمانی اور تہذیبی طور پر ننگا ہونا، اس کا اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے زوال پذیر ہونا، وقت کے سمندر میں دائروی صورت اختیار کرنے کی علامت ہے۔ یہ انسانی تہذیب کا اندھا سفر مسلسل جاری ہے ___ ’’وہ‘‘ یعنی انسان کی زندگی ایک قطرہ میں پوشیدہ ہے۔ اسے سمندر ہونے تک ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ انسانی کی تہذیب کا عہد طفل سے پیران سال تک یگوں اور قرنوں کا سفر جھیلنا پڑا۔ جس میں اس نے نہ جانے کتنے طوفانوں اور پریشانیوں کو برداشت کیا۔ رنگ بدلتے اس آسمان کے نیچے اس کا اندھا سفر اب بھی جاری ہے۔ آسمان کا رنگ بدلنا، ستاروں کا گردش میں آنا، خود تقدیر کے خوش رنگ اور بد رنگ ہونے کا استعارہ ہے۔ انسان کے اس تہذیبی سفر سے گریز کرتے ہوئے افسانہ نگار نے کردار کے ظاہری عوامل سے اس چلنے کو جوڑ دیا ہے ___ ’’وہ چل رہا۔۔۔۔۔‘‘ یہیں سے افسانہ کا بنیادی کردار فلمی اسکرین کے فارم پر متحرک اور فعال نظر آنے لگتا ہے۔

کہانی کا عنوان ’’وہ اور پرندہ‘‘ ایک بامعنی عنوان ہے۔ ’’وہ‘‘ اور ’’پرندہ‘‘ در اصل ایک ہی کردار ہے۔ وہ کی تکمیل پرندہ کے بغیر نامکمل ہے۔ پرندہ انسان کے ضمیر اور اس کے نفس کا موتیف ہے جو انسان کی رہ نمائی بھی کرتا ہے اور اس کو برائی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ پرندہ آزادی کا Symbolبھی ہے۔ کہانی تکنیکی سطح سے بھی عجیب و غریب ہے۔ اردو افسانہ کی تاریخ میں پہلی بار یہ تکنیک متعارف ہوئی، جو مصنف نے اختیار کی ہے۔ مذکورہ کہانی میں زماں و مکاں کی قیود ٹوٹ گئی ہیں۔ جس طرح ’’شعور کی رو‘‘ میں وقت کی تقسیم اور حدود بکھرتی نظر آتی ہیں۔ ایک نئی تکنیک کے حوالے سے کہانی کہنے کا یہ انداز نرالا اور انوکھا ہے۔ اردو ادب میں ایسی کہانیاں بہت کم لکھی گئی ہیں جو کردار کے مختلف پہلوؤں کو ایک ساتھ مجموعی طور پر اُجاگر کرے۔ فنِ افسانہ میں اس کی گنجائش بھی کم ہے، حیات و کائنات اور زماں و مکاں کے متعدد گوشوں کو پیش کرنے کے لیے ناول درکار ہے۔ عام طور پر زندگی کے کسی ایک پہلو یا ایک احساس کو موضوع بنا کر افسانہ تخلیق ہوتا ہے اور افسانہ نگار کو کردار کے اسی پہلو کو پیش کرنے میں ہمدردی اور دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر وہی جذبہ یا احساس افسانہ کے دوسرے کردار میں بھی موجود ہو تو اُسے قطعاً ہمدردی نہیں ہوتی۔ اس کے جذباتی پہلوؤں کو نظر انداز کرنا افسانہ کے فن کا تقاضا بھی ہے لیکن ’’وہ اور پرندہ‘‘ میں افسانہ کے کردار کے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے اس انوکھی تکنیک کا استعمال آخر تک کامیابی سے برتا گیا ہے کہ افسانہ نگار کے کمالِ فن کی داد دینی پڑتی ہے۔ فنی اعتبار سے یہ کہانی اس قدر چست اور مکمل ہے کہ افسانہ نگار نے دوسری کوئی کہانی نہ لکھی ہوتی تو افسانہ نگار کو زندہ رکھنے کے لیے یہ کہانی کافی تھی۔

جیسا کہ مذکور ہوا کہ ’’پرندہ‘‘ آزادی کی علامت بھی ہے۔ افسانہ میں بنیادی کردار مذہبی پابندیوں، رسم و رواج کے ڈھکوسلوں، تہذیبی سختیوں اور دیگر سماجی ممانعتوں کے خلاف صدائے احتجاج زیرِ لب بلند کرتا ہوا نظر آتا ہے جو انسان کی فطری آزادی میں مخل ہیں۔ خود انسان باہری یا بیرونی دباؤ سے انکار کر بھی دے تب بھی اس کا باطن اور اندرون تہذیبی، سماجی اور مذہبی اقدار کا اسیر ہے۔ اس سے رہائی کس طرح حاصل کرے۔ ان بیرونی اور اندرونی دباؤ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے وہ کوشاں نظر آتا ہے۔

انسان کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں جو تہذیبی، مذہبی، جغرافیائی اور سماجی عناصر کام کر رہے ہوتے ہیں، انسان چاہتے ہوئے بھی ان سے نجات حاصل نہیں کر پاتا۔ بہ قول روسو ’’آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔‘‘ فلسفۂ وجودیت کے سب سے بڑے حامی سارتر کے مقلد البرٹ کامو کے ناول ’’بیگانہ‘‘ کا کردار مرسال Reasoning کا قائل ہے اور زندگی کے حوالے سے ہر جگہ بے حس نظر آتا ہے۔ جذباتیت کا قطعاً منکر ہے۔ مگر ناول کے آخری حصہ میں قتل کے جرم میں جب وہ جیل پہنچ جاتا ہے تو اس کی تمام معشوقائیں اس کے خواب و خیال میں آتی ہیں اور ان کی اس کو یادیں ستاتی ہیں۔ باوجود اس کو سزائے موت کا حکم ہو جاتا ہے۔ انسانی کردار کا یہ پہلو جذبہ و احساس سے تعلق رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر انسان کی شخصیت کی تکمیل عقلیت اور جذباتیت کی آمیزش سے ہوئی ہے نہ تو وہ نرا Reasoning ہو سکتا ہے اور نہ ہی Sentimental۔

اس افسانہ میں کردار کے ساتھ زندگی کے مختلف واقعات جڑے ہیں۔ جہاں ’’وہ‘‘ کے ساتھ پلنے والا پرندہ ’’وہ‘‘ کی رہ نمائی بھی کرتا ہے۔ کبھی کبھی صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ کہیں سفاک اور بے رحم، کہیں نرم طبیعت اور رحم دل نظر آتا ہے۔ بعض مواقع پر Reasonable اور کبھی کبھی Sentimental دکھائی دیتا ہے۔

اس کہانی کا بنیادی موضوع بہ قول پروفیسر شافع قدوائی ’’وہ اور پرندہ ایک گہرے مذہبی احساس اور روحانی تجربے کی کہانی ہے جس میں مذہب یا عقیدہ اپنے آخری تجزیے میں ایک عافیت کوش تجربے میں متقلب ہو جاتا ہے۔‘‘ مطلب ظاہر ہوا کہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ گہرے مذہبی احساس اور روحانی کرب پر مبنی افسانہ ہے۔ انسان کی ذہنی نشو و نما اور اس کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں مذہبی تعلیمات، سیاسی رجحانات، سماجی اقدار، معاشرتی بود و باش، معاشی فراوانی، تنگیِ معاش اور تعلیمی اثرات کا مکمل دخل ہوتا ہے جو زندگی کرنے کے مخصوص انداز میں اور گزارنے میں ہر پل شعوری اور غیر شعوری طور سے انسان کے قول و عمل اور افعال و کردار میں نمایاں نقوش چھوڑتے ہیں، جہاں انسان کہیں بے بس اور مجبور نظر آتا ہے، جو اس کی جبلی خواہشات اور فطری آزادی پر دباؤ بنائے رکھتی ہیں اور احساسِ محرومی کو شدید تر کر دیتی ہیں اور اس افسانہ میں ہمیں لمحہ بہ لمحہ نظر آتی ہیں۔ مثال ملاحظہ ہو:

’’وہ‘‘ بار میں بلیک نائٹ کے شغل میں مصروف ہے کہ پرندہ احساس دلاتا ہے ’’نہیں۔۔۔۔ نہیں یہ بُری ہے، اس کی ممانعت ہے۔‘‘

نشہ کی حالت میں بار کے اندھیرے میں تنگ و تاریک گڑھا ہونے کا احساس، مرنے کے بعد زمین کو زبان مل جانا، زمین پر اکڑ کر نہ چلنے کا حکم، قبر میں منکر نکیر کے سوالات، قبر کے عذابات کا خیال اور وہ تمام کیفیات جو مذہب کے حوالے سے ہمیں ملی ہیں، اس کے احساس و ادراک میں عود کر آ جاتی ہیں مگر یہی پرندہ نفس امّارہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور ’’وہ‘‘ کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ’’اگر بھاگتی ہوئی زندگی سے چند لمحات مسرتوں کے چرا لیے جائیں تو پوری زندگی پر بھاری ہوتے ہیں۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ پھر تم۔۔۔۔ تم تھکے ہوئے بھی تو ہو۔۔۔۔ آخر اس کا علاج کیا ہے؟‘‘ جب کہ یہی پرندہ تھوڑی دیر پہلے ضمیر کی متشکل میں شراب کی ممانعت پر زور دیتا ہے اور قبر کے عذاب کا احساس کراتا ہے۔ یہاں فطرتِ انسانی کے اس گوشہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ارتکابِ گناہ سے پہلے ضمیر صراطِ مستقیم کے لیے رہ نمائی کرتا ہے لیکن اگر اس لمحہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے تو وہی ضمیر نفس امارہ کی شکل اختیار کر کے احساس گناہ کو دبا دیتا ہے۔

شراب پینے کے بعد جب ’’وہ‘‘ سڑک پر ڈگمگاتے قدموں کے سہارے چلتا ہے تو اس منظر کو افسانہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ’’جیسے سڑک بال سے زیادہ باریک ہو اور تلوار سے زیادہ تیز دھار رکھتی ہو۔‘‘ آگے افسانہ نگار اس طرح پیش کرتا ہے ___ ’’اور سڑک پر اس طرح چلنے لگا جیسے نٹ تار پر چل رہا ہو۔ ہر قدم کو ناپ تول کر رکھ رہا ہو کہ غلط قدم رکھا اور نیچے گرا۔‘‘ ___ا س بیانیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شراب پینے کے بعد سڑک پر احتیاط سے چلنے کے پیچھے دنیا کی نظروں سے اپنے آپ کو چھپانا مقصد ہے کیوں کہ پتا چلنے پر بدنامی اور بے عزتی ہو جائے گی۔ اقتباسات ملاحظہ ہوں:

’’کیوں کہ پان کی دوکان پر ابھی تو ایک آدمی ملا ہے۔۔۔۔ ا۔۔۔۔ و۔۔۔۔ ر۔۔ راستا ابھی بہت طویل ہے۔ ناک سکیڑنے والوں کی کمی نہیں۔ پھر اس خوشبو کے پان کا کیا مطلب؟‘‘

بین الالفاظ میں پل صراط کے منظر کا ذکر ہے جس پر ہر قدم کو ناپ تول کر رکھنے کی وجہ دوزخ کا لقمہ بننے کا خوف پوشیدہ ہے۔ چوں کہ پل صراط کا راستا دوزخ کے اوپر سے گزرتا ہے لہٰذا پورے افسانے میں اسی طرح کے مذہبی تصورات ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

’’پڑوس کی عورتیں چار پائی کے ارد گرد بیٹھی تھیں۔ رشتہ کی عورتیں رو رہی تھیں، لیکن تمہاری ماں کا مردد ور دوٗر خاموش نظر آ رہا تھا۔‘‘

مذہبی نقطۂ نظر سے شوہر اور بیوی کا رشتہ دائمی نہیں ہوتا۔ نکاح کا رشتہ زندگی تک ہی قائم رہتا ہے۔ موت آنے کے بعد یہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ موت کا منظر کس قدر اندوہ ناک، کرب انگیز اور مذہبی ماحول میں رچا ہوا ہے۔

’’میں سورہ یٰسین کی تلاوت کر رہا تھا، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، ہچکیوں کا طویل سلسلہ۔۔ غیں۔۔۔ غیں۔۔ اچانک سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی۔ ’’لا اِلہ الا اللہ‘‘ ایک بلند آواز گونجی اور پھر رونے کا ایک شور۔۔ ہاں ہا۔۔۔۔ ایں۔۔۔ ایں۔۔۔۔ آں۔۔۔۔ آں۔‘‘

قرآن حکیم کی ایک مختصر آیت میں حیات و ممات کی حقیقت کا ذکر ہے اور یہاں افسانہ نگار ایک سوالیہ نشان قائم کرتا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھر کیوں لوگوں کو اپنی زندگی سے اتنا پیار کیوں ہے؟ آگے چل کر افسانہ میں موت کے بارے میں ایک ٹھوس حقیقت کی طرف اشارہ بھی موجود ہے:

’’اچھا خاموش ہو جاؤ۔ جتنا زندگی سے انسان کو پیار ہو گا۔ آدمی موت سے اتنا ہی ڈرے گا۔ اور پھر زندگی کیوں کر حسین ہو سکتی ہے جب کہ اس کے دامن پر موت جیسا بھیانک دھبّہ لگا ہے۔‘‘

فلسفۂ زندگی و موت کے حوالے سے افسانہ نگار نے اور بھی کئی مقامات پر وضاحت کی ہے اور افسانے میں مذہبی عناصر کا بیان شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ غیر شعوری طور پر اس کا اظہار اس طرح ہوا ہے کہ جیسے وہ زندگی کا ایک نا قابلِ تقسیم جز ہو۔ اس ضمن میں ایک اور مثال ملاحظہ ہو:

’’پل صراط جیسی سڑک کو عبور کر لیا تھا اور اس کمرے میں اپنے بوجھل قدم کو رکھا جس میں گورستان جیسی خاموشی طاری تھی۔ جو اسرافیل علیہ السلام کی دوسری صور کا انتظار کر رہی تھی۔‘‘

اسلامی نقطۂ نظر سے حضرت اسرافیل علیہ السلام کی پہلی صور کے خوف سے پوری کائنات نیست و نابود ہو جائے گی۔ آسمان روئی کے گالوں کی طرح اُڑنے لگے گا۔ زمین پھٹ جائے گی۔ سورج سوا نیزہ پر آ جائے گا۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ روئے کائنات میں بسنے والے تمام جان دار مر جائیں گے۔ دوسری صور پر پوری کائنات زندہ ہو جائے گی۔ چاروں طرف نفسا نفسی کا عالم ہو گا۔ انسانوں کا جم غفیر بھاگنا شروع کر دے گا۔ قیامت کا منظر بڑا ہی ہولناک ہو گا۔ قیامت اور روزِ حشر کے اس منظر کو افسانہ نگار نے اپنی ایک دوسری کہانی ’’سراب‘‘ میں موضوع بنایا ہے اور اس کائنات کو قیامت کا استعارہ بنا دیا ہے۔

افسانہ کی شروعات شام کے جھٹ پٹے کے وقت سے ہوتی ہے۔ پوری رات کہانی چلتی ہے۔ کردار کی پوری زندگی ایک رات میں سمٹ گئی ہے۔ اسی لیے رات روزِ محشر کی طرح سخت اور طویل ہو گئی ہے۔ روزِ محشر کو سب ہی پیدا ہونے والے انسان اللہ کے دربار میں حاضر ہوں گے۔ وہ یوم دین ہو گا۔ اس کو یومِ میزان بھی کہا جاتا ہے۔ ہر شخص کے اعمال کا حساب و کتاب ہو گا۔ ہر شخص اللہ کی پکڑ سے ہراساں اور پریشان حال ہو گا۔ تمام رشتے ناطے بکھر جائیں گے۔ کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں ہو گا۔ ایک عجیب و غریب منظر ہو گا۔ __ ’’ذرا سا غور کرو، یہ کائنات کی تخلیق بھی ارتکابِ جرم کا سبب ہے۔ جس میں مشیت ایزدی بھی شامل تھی اور پھر یہ گناہ و سزا کا نہ ختم ہونے کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔‘‘

افسانہ کا فن غزل کی طرح نازک فن ہے۔ زائد الفاظ کا بوجھ برداشت نہیں کرتا۔ ایجاز و اختصار، کفایت لفظی، علائم نگاری، زبان و بیان، میں استعارات و تمثیلات کے ذریعہ افسانہ کی ساخت میں معنی خیزی پیدا کی جاتی ہے۔ مابعد جدید تصور ادب میں جہاں کہانی، کہانی کے جوہر کی طرف لوٹی ہے وہیں پیچیدہ علامت نگاری، خود فراریت ’’میں‘‘ کی پر اسراریت اور اندرون میں اپنے وجود کی تلاش سے بھی نجات ملی اور سماجی سروکاروں سے ربط و ضبط ہموار ہوا۔ افسانہ نگار objects سے جوڑ کر ذہنی کیفیات اور دلی جذبات کو بیان کرنے میں کمال کا درجہ رکھتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

’’فضا اس لیے رنگین ہوئی کیوں کہ تمہاری پھولی ہوئی جیب سکڑی اور اگر لوگوں کی ناک سکڑی ہے تو یہ ان کی جیب خالی ہونے کا رد عمل ہے۔‘‘

’’اچانک اس کی بائیں آنکھ میں کیڑا آ کر گرا اور وہ تلملا گیا اور جلدی جلدی آنکھ میڑنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں پانی آ گیا۔‘‘

’’اس کی نگاہیں چھت پر لگے کنڈے پر ٹنگ گئیں۔‘‘

’’روشنی پر پھیلائے تھی مگر اس کے ذہن میں سمندر کے طوفان جیسا شور تھا اور کمرے میں سمندر تہہ جیسی خاموشی تھی۔‘‘

افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ مجموعہ کا نمائندہ افسانہ ہے۔ یہ ایک ایسے کردار کہانی ہے جو مذہب کا گہرا احساس رکھنے کے ساتھ ساتھ روحانی کرب، نفسیاتی اذیت اور ذہنی انتشار سے اس قدر دوچار ہے کہ اسے ہر قدم پر روحانی محرومی اور جذباتی تشنگی کا سامنا کرنا پڑ تا ہے، وہ اپنی توقعات و خواہشات کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے لیکن سماجی و مذہبی بندشیں اس کی آسودگی کا ہر اقدام ناکارہ بنا دیتی ہیں۔ رنج و فرحت کے ممزوج پرچھائیاں، حیات و موت کی تلخ ترین سچائیاں مہیب سایوں کی طرح ہر آن اس کا تعاقب کرتی ہیں۔ پرندہ در اصل اس کا ضمیر یا نفس ہے جو اس کی زندگی میں ’’دخل در معقولات‘‘ کا مرتکب ہو کر طرح طرح سے دِق کرتا ہے۔ کہیں تو اعمال ممنوعہ کو مزین و آراستہ کر کے نفس امارہ (گناہ کا حکم کرنے کرنے والا نفس) کا مصداق ہے۔ پرندہ کا ’’وہ‘‘ کی زندگی میں داخلہ ایک الگ کردار کی حیثیت سے ہوتا ہے جب کہ وہ ’’وہ‘‘ کی شخصیت کا ایک عنصر ہے۔ یہ افسانہ کی تکنیک میں خود ایک نیا اور کام یاب تجربہ ہے۔ افسانہ نگار اس کی موجودگی اور توانائی کا احساس علامتی انداز میں اس طرح کراتا ہے:

’’اور اس پرندے کی اڑان کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب میں نے عذرہ کو فطری حالت میں اچانک نہاتے ہوئے دیکھا تو میرے جسم میں چیونٹیوں نے اپنے ڈنک گاڑ دیے پھر تو میں نے اس کے مکان اور اپنے مکان کا فاصلہ اس قدر تیزی سے طے کیا کہ گھر آتے آتے ہانپ گیا۔‘‘

افسانہ کے اختتام تک پرندہ اپنی شمولیت کا احساس کراتا ہے۔ افسانہ نگار نے ایک غیر مرئی تصور کو پرندے کے حوالے سے کہانی کو بیان کرتا ہے۔ افسانہ کے آخر میں پرند کی تمثیل، حقیقی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اچانک پرندہ اس طرح نمودار ہوتا ہے کہ جیسے وہ ایک تصور یا خیال نہ ہو بلکہ حقیقت ہو۔

’’اچانک اس کے بستر کے سرہانے بنے روشن دان کے گھونسلے سے چڑیا کا ایک جوڑا۔۔۔۔ باہر نکلا۔۔۔۔ پھڑ پھڑ پھڑ۔۔۔۔‘‘

یہاں موتیف کو حقیقی شکل دینے سے افسانہ فطرت اور حقیقت کے قریب ہو گیا ہے۔ مذکورہ افسانہ فنی نقطۂ نظر سے کامیاب اور اہم افسانہ ہے۔ افسانہ کی منظر کشی اور فضا بندی کو علامتی زبان و بیان دے کر واقعیت سے جوڑنے میں افسانہ نگار کے کمالِ فن کی داد دینی پڑتی ہے۔ مکالمہ نگاری میں برجستگی اور موزونیت، قاری کو چونکاتی ہے۔ معنی آفرینی، گہرائی اور گیرائی مکالموں کی جان ہے۔ اندازِ گفتگو میں طنز اور نشتر کی کاٹ ملتی ہے۔ کرداروں کے ناموں کو معنی خیز بنانے میں پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے اور ان ناموں کو موضوع سے ہم آہنگ کر کے افسانہ کی ساخت کا ایک ناقابل تقسیم جز بنایا ہے۔ مذکورہ افسانہ میں ’’سمن‘‘ پھول کے معنی میں ’’نکہت‘‘ خوشبو کے معنی میں ’’رضیہ‘‘ تسلیم و رضا کے معنی میں اپنی مخصوص معنویت کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔

افسانہ نگار نے کرداروں کے ناموں کے مفاہیم سے نہ صرف فائدہ اٹھا یا بلکہ اپنی علامتی لب و لہجہ اور زبان و بیان کے وسیلے سے افسانہ نگار میں معنی خیزی پیدا کی ہے لیکن افسانہ کی واقعیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مندرجہ اقتباس میں نکہت کا ورود ملاحظہ ہو:

’’تم نے نکہت کو مشت میں قید کرنا چاہا لیکن باد صبا کا جھونکا اُسے اڑا کر لے گیا۔۔۔۔ یکایک دروازہ کی کنڈی کی آواز ہوئی۔ وہ چونک گئی۔ نہیں۔۔۔۔ نہیں۔ کہہ کر نکہت پیچھے ہٹ گئی۔۔۔۔ اور پھر وہ اپنے ہی خول میں قید ہو گئی۔ میز درمیان میں رکھی تھی۔ اس پر کتابوں کا بوجھ تھا۔۔۔۔ رضیہ کی معصومیت تم نے نکہت کے اندر تلاش کرنی چاہی۔۔۔۔ اور نکہت تمہیں کتابوں میں تلاش کرتی رہی۔۔۔۔۔ حقیقت ’’زندگی‘‘ میں ملتی ہے، کتابوں میں نہیں۔۔۔۔‘‘ پرندہ نے یاد دلایا۔‘‘

طویل افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ میں مختلف واقعاتی تاثرات کو منطقی ربط اور شعوری طور سے وحدت قائم کرنے کی کوشش ملتی ہے۔ اس کہانی میں خارجی کردار نگاری اور ان کے افعال و اعمال کے ساتھ ساتھ داخلی کرب اور باطنی عمل پر زیادہ زور ملتا ہے۔ افسانہ نگار نے اندرون میں داخل ہو کر ہمیں اس کے ذہنی رویوں اور روحانی کوائف کی سیر کرائی ہے۔ عمومی طور پر موضوع کی مناسبت سے مرکزی کردار کے رویے ظاہر کیے جاتے ہیں لیکن کردار کے کسی فعل و عمل کا ضمنی کرداروں کا کیا ردّ عمل ہوا، اس پہلو پر افسانہ نگاروں کی کم ہی توجہ جاتی ہے چوں کہ فنِ افسانہ کا موضوعی احاطہ اور افسانہ نگار کے دائرۂ اختیار کے یہ بس سے باہر ہے۔ چوں کہ کہانی کار کو کردار کے مخصوص رویہ اور جذبہ سے غرض ہوتی ہے۔ اس جذبہ اور رویہ کا ضمنی کردار پر کیا تأثر قائم ہے، اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہاں اس گوشہ کو اجاگر کرنے میں افسانہ نگار نے ایک نئی تکنیکی، ہیئتی اور اسلوبیاتی تجربہ کے حوالے سے بہت ہی کام یاب افسانہ تخلیق کیا ہے۔

افسانہ حیات و ممات کا تخلیقی استعارہ ہے۔ یہ استعارہ انسانی نفسیات، جنسیات کے پیچ و خم کا، پیکار حیات کے نکات و رموز جاننے کا، حیات و کائنات کے مسلسل تصادم کی فتح و شکست کی روداد سنانے کا، انسان کے افعال و اعمال کے پس پشت جو عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں، ان کی تلاش کا، فرد اور اجتماع کے ذہنی او جذباتی رشتوں کی کہانی سنانے کا، انسان کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کی تعمیر و تشکیل میں جو سماجی، نفسیاتی، تاریخی و جغرافیائی اور مذہبی عناصر کام کر رہے ہوتے ہیں، ان پر غور و فکر کرنے کا رول افسانہ ادا کرتا ہے اور اسی روشنی میں احمد رشید (علیگ) نے افسانے لکھے ہیں۔

افسانہ نگار کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا ادب کے کسی رجحان، انفرادی یا اجتماعی نقطۂ نظر سے جڑنا نا گزیر ہو۔ اس طور پر احمد شید کی کہانیاں زمانی قیود سے آزاد ہیں۔ اس لیے انہیں کسی مخصوص نقطۂ نظر سے جوڑ کر سمجھنا مناسب نہیں ہو گا۔ ان کے افسانوں میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ سامنے نظر آنے والے واقعات کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ اس میں تخلیق مکرّر جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور ان میں معنی کی نئی سطح ابھر کر سامنے آتی ہے کہ سامنے کے دیکھے بھالے واقعات بھی انوکھے اور نئے نظر آنے لگتے ہیں۔ زیریں سطح پر ایک اور کہانی غور و فکر کے بعد دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح ان کی کہانیاں مابعد جدید تصور ادب ’’بین المتونیت‘‘ سے تخلیقی سطح پر استفادے کی خبر دیتی ہیں۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مابعد جدیدیت تخلیقی آزادی کا کھلا رویّہ ہے، ادبی جبر توڑنے کا، معنی کے چھپے ہوئے رخ کو دیکھنے اور دکھانے کا، ثقافتی صداقت اور تہذیبی حقیقت کو تلاش کرنے کا۔ ادب کو انسانی کلچر سے جوڑنے کا رجحان ان کہانیوں میں ملتا ہے۔ احمد رشید نے بھی اپنے افسانوں کو ماورائی تصورات و ثقافت کی ابتدا اور ارتقا کو عوامی مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ہاں ایک طرف ماورائیت، دوسری طرف زمینی مسائل سے ارتباط فنی چابک دستی کی نشان دہی کرتا ہے۔ ان کی کہانیاں پس ساختیات، ایک متن پر دوسرے متن کی تخلیقی سطح پر پتا دیتی ہیں۔ افسانہ نگار نے انسان اور کائنات کے رشتے کو تخلیقی سطح پر جوڑ کر کہانیاں لکھی ہیں، ان کے افسانوں میں تہذیب و شعور کی جڑوں کی تلاش، اس تلاش کی لا محدودیت ہمیں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے معنی کی مرکزیت سے انحراف کرتے ہوئے معنی کی تہہ داری موضوعاتی سطح کے علاوہ مکالموں اور جملوں کی ساخت تک میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے اسلوب و زبان، تکنیک، موضوع اور کرداروں کو فنی وحدت میں اس طرح مدغم کیا ہے کہ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے نئے ذائقے کا احساس ہوتا ہے اور افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ ان کی تخلیقیت کی عمدہ مثال ہے۔

٭٭٭

لا محدود کینواس کا جہان معانی میں ڈوبا ہوا احمد رشید کا مجموعہ: ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘/معین الدین عثمانی

دنیا کے کسی زبان کے افسانے کی جب بات ہو گی تو اس کا سروکار ہمیں کسی واقعے سے جڑا نظر آئے گا۔  اردو ادب میں تو قصہ نویسی یا داستان کی بڑی جاندار روایت رہی ہے۔  یہ سلسلہ حوادث زمانہ کے سرد گرم حالات کے تحت جب آگے بڑھا تو افسانے کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔  افسانے کی بنیاد ہی واقعہ سے عبارت ہے۔  ادب کے پیش رووں نے اسے اس انداز سے برتا ہے کہ آج یہ عالمی ادب سے آنکھیں چار کر سکتا ہے۔  انسانی فطرت سے عین مطابق ہونے کے سبب اس میں دلچسپی اور انسانی فلاح کا پیغام بھی دیا گیا۔  یہی سبب ہے کہ قاری کا رشتہ آج بھی برقرار ہے۔  حالانکہ درمیان میں ایک وقفہ ایسا بھی گزرا جب مغرب کی اندھی تقلید میں قلم کاروں نے اپنی بے جا خود کلامی، فرد کی شکست و ریخت، عجیب و غریب غیر فطری مبہم علامتوں اور استعاروں کے توسط سے افسانے کو قسطوں میں قتل کر کے برہنہ کیا،  اس کی شناخت کو پامال کیا۔  بے سر و پیر کی باتیں عام کیں۔  مگر مقام مسرت ہے کہ بے جا چیزوں کو دوام نہیں ملتا۔  اس لئے جدیدیت کے نام سے کی گئی اس یلغار کا بھی خاتمہ ہو گیا۔  آج ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ افسانہ اپنے اصل کی طرف لوٹ آیا ہے۔  آج افسانے میں قصے کہانیاں اور واقعات بیان ہونے لگے ہیں۔  احمد رشید کے افسانوں کا مجموعہ ’بائیں پہلو کی پسلی‘ اس اعلامیہ کا بین ثبوت ہے۔  یہ ان کا دوسرا مجموعہ ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔  اکیس افسانوں پر مشتمل یہ مجموعہ ۴۶۱ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔  پیش لفظ کے طور پر صغیر افراہیم موصوف کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں۔

’’موضوعات کے تنوع اظہار کی تیز دھار، الفاظ کا انتخاب اور جملوں کی تخلیقی صلح کی وجہ سے احمد رشید اپنے ہم عصروں میں مابعد جدید افسانہ نگاروں کے درمیان معتبر آواز بن گئے ہیں۔ سماجی مسائل کو سننے سے زیادہ دیکھنا محسوس کرتا، معاشرتی ناہمواریوں سے الجھتا اور ان سے بے پاک ہو کر باتیں کرنا نیز انھیں فنی طور پر پیش کرنا ان کا طرۂ امتیاز ہے۔‘‘

احمد رشید کی کہانیاں بظاہر استعاراتی زبان میں نظر آتی ہیں، مگر بنظر غائر مطالعہ سے اس کے ماجراتی وصف وا ہوتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ بعض کہانیوں میں واقعات کی بھرمار ہے جس سے قاری کے بھٹکنے کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے۔ مگر میری نظر میں یہ کوئی معیوب بات نہیں کہ آج کی معاشرتی زندگی ہی اس قدر پیچیدہ اور گنجلک ہو گئی ہے کہ بظاہر سیدھا سادہ نظر آنے والا شخص بھگی اپنے اندرون میں حوادث کے انبار لئے زندگی جی رہا ہے۔ تو ظاہر زندگی جس طرح ہو گی، اس کا عکس ادب کے آئینے میں اسی طرح دکھائی دے گا۔ ادب کو زندگی کا عکاس اسی تناظر میں تو کہا گیا ہے۔ اب افسانوں میں گل و بلبل کی حکایتیں ملتی ہیں نہ ہی رومانی طرز کی طویل ترین تحریریں۔ اور یہ بات ان صرف افسانے تک ہی محدود نہیں ہے، دیگر اصنافِ سخن بھی زندگی کا المیہ بیان کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی کے بدلتے روپ کے لئے نو آبادیاتی نظام، صنعتی انقلابات کے علاوہ بطور خاص اقدار کی پامالی اور مادہ پرستی کی طرف بڑھتے رجحان کو ذمہ دار گردانا جائے تو   بے جا نہ ہو گا۔ در اصل یہ ایسے لوازمات ہیں جنھوں نے انسانی فطری زندگی کو روند کر عیش پرستی اور مطلب براری کی طرف مائل کر دیا ہے۔ اس میں ترقی یافتہ ملکوں کی عوام ہی نہیں پس ماندہ ممالک کے لوگ بلکہ عالم انسانیت ملوث نظر آتی ہے۔ جس کی بنا پر انسانوں سے انسانیت روٹھ گئی ہے۔ ہر طرف آدم زاد کا جم غفیر ہے مگر ان میں انسان کا وجود خال خال ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اس تناظر میں جب ہم احمد رشید کی کہانیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو جو بات اہمیت کے ساتھ ہر کہانی میں ابھر کر سامنے آتی ہے وہ ہے حیات انسانی کا فلسفہ۔  جسے مقصد حیات ہونا چاہیے تھا خود غرضی اور دیگر وجوہات کے سبب پس پشت ڈال دیا گیا ہے جس کے سبب زندگی کی جو کریہہ اور درد ناک شبیہ ابھری ہے، اس نے کائنات کے مختلف رنگوں کو اور حیات انسانی کو گنجلک کر دیا ہے۔  اس کے سبب تصور اقدار میں تبدیلی آ گئی ہے۔  برائی نے اچھائی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور اس گمرہی کے بیاباں میں کیا خاص اور کیا عام، سبھی اپنے اچھے برے افعال کے بوجھ کاندھوں پر اٹھائے ادھر سے ادھر بے مقصد بھٹک رہے ہیں۔  اور منزل ہے کہ نظروں سے اوجھل ہے۔

اس مختصر سے جائزے میں تمام افسانوں کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں ہے۔  پھر بھی چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔  مجموعہ کی پہلی کہانی ’’کہانی بن گئی‘‘ کی یہ چند سطریں دیکھیں۔

’’”آپ تنہا رہتے ہیں۔”

"کتابیں ہیں۔  قلم ہے۔  میرا ڈرائنگ روم ہے۔”

"کیا کتابوں کے حوالے سے حیات و کائنات سمجھی جا سکتی ہے۔”

"فرد اپنی ذات میں خود ایک کائنات ہوتا ہے۔  اور اس کی پر اسراریت کتب بینی سے منکشف ہوتی ہے۔”‘‘

درج بالا مکالمے اپنے اندر دنیا جہان کے معانی نما سمندر لیے ہوئے ہیں۔  اس بات کی فہمائش کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔  عام فہم رکھنے والا قاری بھی ان سطور سے سرسری نہیں گزر سکتا۔

احمد رشید کی کہانیاں بظاہر استعاراتی زبان میں نظر آتی ہیں۔  مگر بنظر غائر مطالعہ سے اس کے ماجراتی وصف وا ہوتے ہیں۔  یہ الگ بات ہے کہ بعض کہانیوں میں واقعات کی بھر مار ہے جس سے قاری کے بھٹکنے کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے۔  مگر میری نظر میں یہ کوئی معیوب بات نہیں کہ آج کی معاشرتی زندگی ہی اس قدر پے چیدہ اور گنجلک ہو گئی ہے کہ بظاہر سیدھا سادہ نظر آنے والا شخص بھی اپنے اندرون میں حوادث کے انبار لیے زندگی کو جی رہا ہے۔  تو ظاہر زندگی جس طرح ہو گی اس کا عکس ادب کے آئینے میں اس طرح دکھائی دے گا۔  ادب کو زندگی کا عکاس اسی تناظر میں تو کہا گیا ہے۔  اب افسانوں میں گل و بلبل کی حکایتیں ملتی ہیں نہ ہی رومانی طرز کی طویل ترین تحریریں۔  اور یہ بات اب صرف افسانے تک ہی محدود نہیں ہے، دیگر اصناف سخن میں بھی زندگی کا المیہ بیان کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔  زندگی کے بدلتے روپ کے لیے نو آبادیاتی نظام صنعتی انقلابات، کے علاوہ بطور خاص اقدار کی پامالی اور مادہ پرستی کی طرف بڑھتا رجحان کو ذمہ دار گردانا جائے تو بے جا نہ  ہو گا۔

اس کہانی میں عورت کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔  اس میں انسانی نفسیات اور جذباتی فکر کو جس فی بصیرت سے پیش کیا گیا ہے اس کی نظیر بہت مشکل سے ملے گی۔  وجود زن سے کائنات میں رنگ ہے یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم مگر حضرت انسان نے اپنی مطلب براری نیز خود غرضی کے چکر میں کی جو درگت بنا رکھی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔  ہمارے ادب کے شہ پارے میں ملا کر اس کی حرمت کی پامالی کی داستانوں کو سمیٹے ہوئے انسانی ترقی پر تازیانے کا کام کر رہے ہیں۔  کبھی عزت و ناموس کے نام پر اسے زندہ درگور کیا گیا تو کبھی ستی کے نام پر زندہ آگ کے حوالے کیا گیا تفریح کے نام پر جوئے میں داؤ پر لگایا گیا تو موجودہ عہد میں شکم مادر میں قتل کرنے کا سلسلہ جاری کر دیا گیا ہے۔  جب کہ اس کو کھ سے جتھے انسان کو جو ماں بہن اور بیوی کے پیار سے سرشار کرتی آئی ہے۔

"بائیں پہلو کی پسلی” مذکورہ مجموعے کی ٹائٹل کہانی ہے۔ جو عورت کے ارتقا کی داستان بیان کرتی ہے۔  کہانی تفصیل سے جو مقدمہ قارئین کے روبرو پیش کرتی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان شروع ہی سے خود غرض اور مطلب پرست واقع ہوا ہے۔  اس نے دستور حیات کو پس پشت ڈال دیا  جس کی بنا پر اس طرح کے حالات کا رونما ہونا غیر فطری قطعی نہیں ہو سکتا۔  اس کے لیے آج کے اس ترقی یافتہ انسان کو پیچھے کی طرف مراجعت کرنی ہو گی۔

یہاں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا کہ کرشن چندر کی طرح کہانی کو درمیان ہی میں روک کر اپنے مخصوص نظریات کی تبلیغ کے لیے بیانیہ کی غیر ضروری گھس پیٹھ کہانی کے حسن کو غارت کر دیتی ہے۔  جتنی چیزیں بہاؤ کے ساتھ آ جائے انھیں برداشت کیا جا سکتا ہے مگر محض مخصوص نظریے کو لادنا کہانی کے فن سے نا انصافی کے مترادف ہے۔  بہر حال احمد رشید نے یہ ٹیکنیک بہت ہی ہلکے انداز میں اپنائی ضرور ہے مگر وہ کہانی کا اختتام بڑے منصفانہ انداز میں کرتے نظر آتے ہیں۔  ملاحظہ ہو:

"یہ سزا کا سلسلہ کب تک چلے گا، پیچھے ہٹتے ہوئے نہیں… نہیں…. شاہین، مجھے معاف کر دو. معاف اب مجھے کوئی سزا نہیں چاہیے۔  مجھے رہائی چاہئے۔  مجھے انتظار ہے ایک ایسی قوت کا جورات کی ظلمت کو پھاڑ کر صبح کی روشنی نمودار کر دے۔”

"فیصلے کے بعد” کہانی بھی آزادی نسواں کا موضوع بیان کرتی ہے۔  کہانی کا آخری پیرا گراف آزادی نسواں کی تلخ حقیقت یوں بیان کیا ہے۔

"اس دن بھی میں بہت خوش تھی۔  وہ خوشی جبریہ نہ تھی۔  بلکہ دل سے خوش تھی۔  جیسے کوئی پرند ہو۔  جس کے کٹے ہوئے پر پھر سے اگ آئے ہوں۔  لیکن یہ احساس صرف چند لمحے کا تھا۔  میں اس لمحہ کو کبھی نہیں بھول سکتی۔  جب عرفان نے گرم گرم پگھلا سیسہ میرے کانوں میں انڈیل دیا۔

’’تم ایک کی ہو کر نہیں رہی تو دوسرے مرد کی کیسے ہو کر رہ سکتی ہو۔‘‘

اس جملے کے تیر نے مجھے اندر تک گھائل کر دیا۔  مجھے لگا میرے بدن کے بال و پر نوچ دیے گئے ہوں۔  اور میں بے بس زخمی پرندے کی طرح زمین پر تڑپ رہی ہوں۔”

اسی طرح "ایک خوبصورت عورت” میں فساد میں برباد عورت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔  فسادات جو اس ملک کا مقدر بن گئے ہیں، ہر دفعہ ایک نیا قصہ لے کر اپنے نقوش مرتسم کرتے ہیں۔  احمد رشید نے بھی عورت کے حوالے سے بڑا حساس واقعہ قلم بند کیا ہے۔

مجموعہ میں شامل بیشتر افسانے عورتوں کے مسائل سے متعلق ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی معاشرے میں عورت کا کلیدی رول رہا ہے۔  اس لیے تو کہا گیا ہے کہ اس کے وجود سے کائنات میں رنگ ہے۔  یہ انسانی جذبات کی شکل میں پیار محبت کا عظیم خزانہ لٹا کر اپنی حرمت اور تقدس کی بلندی کا احساس دلاتی ہے۔  اس کے کئی روپ میں یہ انسان کی ضرورت ہے۔  مگر جسمانی طور پر صنف نازک ہے۔  اس لیے تو انسانوں نے ظلم و زیادتی کے لیے اسے تختہ مشق بنا دیا ہے۔

مجموعہ میں شامل دیگر کہانیاں نیلم، مداری، دھواں دھواں خواب، دھویں کی چادر، حاشیہ پر، وہ لمحہ، چھت اڑ گنی، سہما ہوا آدمی، ہاف بوٹل بلڈ، اندھا قانون، بی بی بول، رینگتے کیڑے، کرب کا سمندر، نا خدا، سفید لباس سیاہ راتیں وغیرہ بھی مجموعہ کے معیار و وقار میں اضافے کی ضمانت دیتی ہیں۔  آپ کوئی بھی کہانی پڑھیے فلسفہ حیات کا راز پوشیدہ نظر آئے گا۔

بعض لوگ مقصدی تحریروں سے پرہیز کرتے ہیں۔  مگر ان سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ کائنات کی کون سی نئے بے معنی اور بے مقصد پیدا کی گئی ہے تو ان کے پاس جواب نہیں ہوتا۔  تو پھر خالق کائنات کی عطا کر دو یہ تحریر کی صلاحیت محض تفریح طبع کے لیے کیونکر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

احمد رشید نے اپنی اس صلاحیت کو فن کی باریکیوں سے متصف کر کے کہانی کو ایک نئے جہان سے روشناس کروایا ہے۔  جس کے سبب فن افسانہ نگاری کے ساتھ فکشن کی دنیا میں انھیں ایک منفرد مقام حاصل ہو گیا ہے۔  جزئیات نگاری کے تحت چھوٹے چھوٹے جملوں کے توسط سے وہ کس طرح کام کی باتیں کہہ جاتے ہیں، کہانی "ویٹنگ روم” کے جملے شاہد ہیں:

"اسٹیشن پر مسافروں کا ہجوم۔  سب ہی مسافر انجان منزل کی طرف بھاگے جا رہے ہیں۔  حواس باختہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔

اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی اپنا مل جائے، بوجھ اٹھانے میں مدد ہو جائے گی۔  سب ہی مسافر اپنے اپنے بوجھ میں دبے ہوئے۔۔۔ کوئی کسی کا مددگار نہیں۔  اس نے اپنا بوجھ اٹھایا جیسے تیسے ویٹنگ روم میں داخل ہوا۔  اسے ویٹنگ روم عارضی وطن محسوس ہوا۔‘‘

یہ اور اس قبیل کے بے شمار جملے ہر کہانی میں پھیلے ہوئے ہیں۔  جو کہانی کے محدود کینواس کے باوجود اپنے آپ میں ایک طویل کہانی کا جہان معانی لیے ہوئے ہیں۔  ایسے جملے قلم کی نوک پر تب ہی بکھرتے ہیں جب فن کار کے اندر ایک آگ ہوتی ہے۔  جو اسے جلا کر کندن کر دیتی ہے۔  احمد رشید نے اپنی پیشانی کی تیسری آنکھ سے قارئین کو محض انھیں بھولا ہوا سبق ہی نہیں یاد دلایا ہے بلکہ زندگی سے قارئین کی براہ راست ملاقات کرا کے اپنے قلمی فریضے کو احسن طریقے سے ادا کیا ہے۔  ایسی زندہ تحریروں کے سبب فکشن کے متوالوں میں انھیں ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

٭٭٭

احمد رشید کی افسانہ نگاری کے چند مخفی پہلو/ڈاکٹر محمد مستمر

احمد رشید علیگ افسانے کی دنیا میں اب کوئی نئی آواز یا نیا چہرہ نہیں ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے منظرِ عام پر آ کر مشاہیرِ ادب سے دادو تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ’’وہ اور پرندہ‘‘ اور ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ مجموعوں میں موصوف کی افسانہ نویسی کو دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ ان کا اپنا ایک الگ انداز ہے جو قاری کو چونکا تا ہے اور ندرت و جدت کا بھی احساس دلاتا ہے۔ اپنے معاصرین میں احمد رشید دور سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں جس کا بنیادی پہلو ان کا اسلوبِ تحریر ہے۔ ان کا اسلوب قاری کو صرف تجدد کا ہی احساس نہیں کراتا بلکہ قاری کے دل و دماغ پر وہ سحر بن کر چھا جانے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب اسلوب سے دل و دماغ پر سحر انگیزی کی کیفیت قائم ہو اور قاری دورانِ قرأت حظ و انبساط حاصل کرے تو سمجھئے کہ وہ فنکار کی کامیابی کی ضمانت بھی ہے اور اس کی انفرادیت بھی۔

اکیسویں صدی میں جتنے بھی افسانہ نگار افقِ ادب پر اپنی تابانیاں بکھیر رہے ہیں، اُن سب میں احمد رشید کا اسلوب جدا اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اپنے استعاراتی، کنایتی تلمیحاتی اور اساطیری عناصر سے ایک ایسی فطری سحر انگیز فضا تخلیق کرتے ہیں کہ بالکل نئے اسلوب کی اختراع ہوتی ہے۔ جیسے انتظار حسین اپنے داستانی اسلوب سے دور سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح احمد رشید کا استعاراتی و کنایتی اسلوب ان کو الگ تشخص کا حامل بنا دیتا ہے۔ احمد رشید کے یہاں بیانیہ کا انداز ہو یا مکالماتی انداز، ہر پہلو میں وہ افسانے کی بنت میں مستثنیٰ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے زبان و بیان کا اظہار معاصرین سے کسی بھی طرح مماثلت و مطابقت نہیں رکھتا۔ زبان و بیان کے معاملے میں ان کے یہاں مہندی سا رچاؤ اور گلِ صد برگ کی طرح گتھاؤ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں انشا پردازی کا وصف بھی کہیں کہیں در آیا ہے۔ تفحص الفاظ کے معاملے میں احمد رشید کافی توانائی صرف کرتے ہیں۔ جس طرح وہ الفاظ کا برجستہ و بر محل استعمال کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ کسی کینوس پر موتی سے ٹانک دیے ہوں اور ایسی نقش و نگارش قائم کر دی ہے کہ عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اگر الفاظ کا یہ استنباطی عمل مرصع سازی کو جنم دیتا ہے تو دوسری جانب الفاظ کا انتخاب فن پارہ کو ابہام کے زمرے میں بھی لے آتا ہے مگر احمد رشید افسانے کو چیستاں ہونے سے بچا لیتے ہیں۔

احمد رشید کا دوسرا بڑا کمال یہ بھی ہے کہ جہاں وہ انشا پردازی کے ذریعہ اپنے افسانوں میں شاعرانہ حسن پیدا کرتے ہیں تو وہیں وہ بات میں سے بات پیدا کرنا بھی جانتے ہیں جس باعث ان کے افسانوں میں زندگی کا فلسفہ جنم لیتا ہوا نمودار ہوتا ہے۔ شاید ہی ان کا کوئی افسانہ ایسا ہو جس میں زندگی کا فلسفہ پیدا نہ ہوتا ہو لیکن اس ہنر میں ان کے یہاں تکرار نظر نہیں آتی ہے۔ ہر افسانے میں زندگی کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرنے کا ہنر احمد رشید کو بہ خوبی آتا ہے۔ مگر سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ زندگی کے رموز و نکات میں فلسفہ پیدا کرنے کے دوران ادبیت کے حسن کو مجروح ہونے نہیں دیتے بلکہ ادب اور فلسفہ میں توازن و تناسب بر قائم رکھتے ہیں اور جب فلسفہ و ادب میں توازن بر قرار رہتا ہے تو انہی کروٹوں میں شعور کی رو (Stream Of Consciousness) بھی اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ رشید احمد کے افسانے ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ میں شعور کی رو کی کار فرمائی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار کی بہت سی افسانوی خوبیاں ایک محور پر آ کر مر کوز ہو گئی ہیں اس افسانے میں احمد رشید نے الفاظ کو نگینہ کی طرح جڑ دیا ہے۔ تفحصِ الفاظ اس قدر جامع اور جاندار ہے کہ ان کے ذخیرۂ الفاظ پر داد دینی پڑتی ہے۔ اس میں انشا پردازی بھی ہے، افسانویت بھی ہے، شاعرانہ حسن بھی ہے اور شعور کی رو بھی ہے۔ افسانہ قدم قدم پر اساطیری خصوصیات بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ افسانہ کو پڑھ کر افسانہ نویس کا قائل ہونا پڑتا کہ کس قدر خوبصورت انداز میں عورت کی روداد، کسمپرسی، بے بسی اور زمانہ بہ زمانہ ہونے والے جنسی استحصال (Sex Exploitation) اور عورت پر ہونے والے جرم و جبر کو بڑی فنکاری، سنجیدگی، ژرف نگاہی اور متانت کے ساتھ پیش کیا ہے۔

احمد رشید کی افسانہ نویسی کا پیرایہ بیان انوکھا بھی ہے اور اچھوتا بھی۔ وہ سادہ اسلوب و بیان کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا قلم ایک ایسے نہج کا ارتکاب کرتا ہے جو پیچیدہ بھی ہے اور سنجیدہ بھی۔ کیونکہ جب وہ ادب میں فلسفہ پیدا کرنے کی اور استعاروں و تمثیلوں کے سہارے اپنی بات کو پُر اثر، سحر انگیز اور معنی خیز بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا فنی اظہار پیچیدہ ہو جاتا ہے لیکن ساتھ جب اسی پیچیدگی میں ماضی و حال کی کشمکش اور فنکار کی داخلی کیفیت اجاگر ہوتی ہے تو فن پارہ سنجیدگی و متانت کا حامل ہو جاتا ہے۔ نیز اسی سنجیدگی اور پیچیدگی میں فنکار کی نفسی درون بینی (Psycho Introvert) اور داخلی کیفیت بھی پنہاں رہتی ہے۔ ان کی افسانہ نگاری میں اجتماعی لا شعور کا بھی احساس ہوتا ہے جس کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ احمد رشید دیو مالائی عناصر، اساطیری پہلو، اسلامی تلمیحات، کیتھولک متھ، سر ریلزم وغیرہ خصوصیات کو اپنے افسانوں میں اس طرح پرو دیتے ہیں کہ وہ افسانے کا ہی جز محسوس ہوتے ہیں جس باعث کینوس وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور جس کے Dimension کا اندازہ آسانی سے نہیں لگایا جا سکتا لہٰذا جب فن کا معاملہ Dimension والی صفت پر محمول ہو جاتا ہے تو فن پارے میں معنویت کی تلاش شروع ہو جاتی نیز فن اور فنکار کے تئیں ستر ستر کنویں جھانکنے کی کہاوت صادق آ جاتی ہے۔ احمد رشید کا فن انہی خصوصیات کا حامل ہے۔

احمد رشید کے افسانے سنجیدہ اور غائر مطالعہ کے متقاضی ہیں۔ جن میں گہرائی اور گیرائی موجود رہتی ہے لیکن کبھی کبھی یہ گہرائی اور گیرائی کہانی پن کو کہیں پسِ پشت چھوڑ دیتی ہے نیز ایک بے ربطی کا احساس مزاج کو گراں گزرتا ہے جس کی وجہ، وہ الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھ کر رہ جاتے ہیں لیکن جیسے بات آگے بڑھتی ہے تو کہانی پن کو کہانی سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بے ربطی میں ہم آہنگی پیدا کر لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے یہاں افسانہ بافی کا فن بڑا ہی سنگلاخ اور ٹیڑھا میڑھا ہے اور جب فن کی کیفیت اس طرح کی ہو تو عام قاری کو ترسیل و ابلاغ میں بھی دشواری آتی ہے۔ لیکن میَں سمجھتا ہوں کہ احمد رشید کے لئے یہی مشکل اسلوب موزوں ہے اور یہی ان کے قلم کو راس بھی آتا ہے شاید جیسے اقبال اپنی مشکل پسندی کو ترک نہیں کر سکے تھے ٹھیک یہی معاملہ احمد رشید کے ساتھ بھی ہے۔ یہی مشکل پسندی ان کا امتیاز بھی ہے، شناخت بھی ہے اور انفرادیت بھی۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی فنکار کی شناخت اس کے اپنے خول میں ہی ہوتی ہے اگر وہ خول تبدیل کرے گا تو یقیناً اپنی پہچان کھو دے گا۔ احمد رشید کسی بھی موضوع پر اپنی تپتی ہوئی انگلیاں رکھتے ہوں مگر ان کا استعاراتی انداز جو مشکل پسندی کے نہج کا مرتکب ہوتا ہے، کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں اور اسی مشکل پسندی میں ایسی افسانہ بافی کرتے ہیں کہ پرانے موضوع کو بھی نئی جلا مل جاتی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ پرانے یا متروک فیشن کو بھی اپنی فنی بصیرت و شعور سے مقتضائے وقت اور نفسیاتی پہلو سے اس طرح ہم آہنگ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے تکنیکی دور کا حصہ معلوم ہونے لگتے ہیں نیز قاری نئے ذائقہ کا احساس کرتا ہے اور افسانویت میں عصری حسیت تحلیل ہو جاتی ہے۔

اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ احمد رشید جس طرح افسانے کا تارو پود تیار کرتے ہیں اور اسے اپنے احساسِ تناسب، منضبط قوتِ مشاہدہ، زندگی کے گہرے تجربے اور احساس، ادراک اور توجہ کے مثلث زاویے سے نیا سانچہ عطا کرتے ہیں، یہ انہی کا خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں معنی آفرینی کے ساتھ نکتہ آفرینی بھی جلوہ گر ہوتی نقطہ سے نکتہ اور نکتہ سے نقطہ بنتا ہوا نئے جہان کو جنم دیتا ہے۔ احمد رشید کی دور رس نگاہیں اپنے گرد و نواح کا باریکی کے ساتھ جائزہ لیتی ہیں تبھی تو وہ جملوں کی اوٹ میں ایسے پتے کی باتیں کہہ جاتے ہیں جو افسانے کے لوازمات سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ وہ فلسفہ کے معانی و مفاہیم سے بھی مطابقت پیدا کر لیتی ہیں۔ حیات و ممات اور سلسلۂ روز و شب کے نازک فاصلوں سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے حیات و ممات کے پیچیدہ رازوں کو منکشف کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانوں سے چیدہ چیدہ ٹکڑے یہاں پیش کئے جاتے ہیں تاکہ آپ کو احمد رشید کی نبض شناسی، سماجی شعور اور گہرے تجربے کا احساس ہو سکے:

’’زندگی کی بدصورتی کا اظہار ہی ان کے فن کی خوب صورتی ہے۔‘‘

’’فرد اپنی ذات میں خود ایک کائنات ہوتا ہے۔‘‘

’’عورت خوبصورت ہو یا بد صورت بڑھاپے میں مرد ہو جاتی ہے اور بوڑھا مرد جوان عورت کی طرح مجبور اور معذور ہو جاتا ہے۔‘‘

’’خاموش منظر ہے اور شور پس منظر۔۔۔ پیش منظر ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور پس منظر ہم محسوس کرتے ہیں۔ (افسانہ: کہانی بن گئی)

’’حسن فطرت بولتا ہے اور قدرت خاموش رہتی ہے۔‘‘ ( افسانہ: نیلم)

’’میری مخدوش زندگی کائناتِ حشر میں اندھیری رات کے ستاروں کی مانند اس طرح گم ہو گئی تھی جیسے خاکستر میں دبی چنگاریاں کریدنے پر سلگنے لگتی ہیں۔ (افسانہ: دھوئیں کی چادر)

’’عشق اور موت، حیات و کائنات کی ایسی روایت ہے کہ جب بھی دہرائی جاتی ہے نئی سی لگتی ہے۔ ( افسانہ: حاشیہ پر)

’’اگر شراب نہ ہوتی تو دنیا کی ہر عورت بد صورت ہوتی۔‘‘ ( افسانہ: وہ لمحہ)

احمد رشید کے افسانوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کے لا شعوری خلیات میں بے پناہ مواد جمع ہے جس کو فنکار نے بچپن سے دبائے رکھا ہے۔ جس کی کیفیت لا وے کی سی ہو گئی ہے۔ بچپن کے یہ دبائے ہوئے فاسد اور غیر فاسد خیالات احمد رشید کو ہمیشہ مضطرب رکھتے ہیں جنھیں مخصوص ماحول کے تحت وہ افسانے کی ہیئت میں صفحۂ قرطاس پر مرتسم کرتے رہتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی تکنیک، پلاٹ اور کردار، قاری کے دل و دماغ پر چھا جانے کی سکت رکھتے ہیں، جس میں احمد رشید کی تخلیقی توانائی، زیریں لہریں نفسی پیچ و خم، اجتماعی لا شعور، نسوانی احتیاجی تناؤ (Feminism Need Tension) باغیانہ تیور، حسی عمل، فہم و ادراک، مانیائی ردِ عمل (Menic Reaction) وغیرہ اوصاف محلل رہتے ہیں۔ یہ ایسے عناصر ہیں کہ جن کا براہِ راست تعلق انسانی تعاملیت (Interactionism) سے ہوتا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ احمد رشید کا مطالعہ بہت عمیق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں موضوع عام ہوتے ہوئے بھی معنی خیز ہو جاتے ہیں اپنی طرزِ نگارش میں احمد رشید کا مقصد علمیت بگھارنا نہیں ہوتا بلکہ وہ نکتہ آفرینی کے لئے اپنا خونِ جگر صرف کر دیتے ہیں۔ لہٰذا فن پارہ سیاسی، سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی لوازمات سے منطبق ہوتا چلا جاتا ہے اور زندگی کے راز ہائے سر بستہ کو منکشف کرنے لگ جاتا ہے۔

’’کہانی بن گئی‘‘ افسانہ میں احمد رشید نے عورت کی زبانی عورت کی داخلی نفسی کیفیتوں کو بڑے ایمائی اور استعاراتی انداز میں پیش کیا ہے۔ کہانی کا آغاز ریلوے اسٹیشن سے ہوتا ہے اور جیسا کہ احمد رشید کا طرۂ امتیاز ہے کہ وہ جملوں کی ساخت اور پس ساختیات میں ایسی متحیر کن فضا پیدا کرتے ہیں کہ جس میں ان کا عمیق تجربہ شامل ہوتا ہے جو فلسفہ کو جنم دیتا ہے بلکہ بعض وقت تو وہ افسانے کے بین السطور میں ایسی باتیں اور نکات بیان کر جاتے ہیں کہ تہذیب اور معاشرے پر مکمل چوٹ ہوتی ہے۔ اس ضمن میں آغازِ افسانہ کے کچھ جملے ملاحظہ کیجئے:

’’اسٹیشن کی جگ مگ روشنی اس گنوار خوبصورت عورت کی طرح ٹھٹھر رہی تھی جو پلیٹ فارم پر بیٹھی اپنے گندے آنچل میں بچہ کو چھپائے دودھ پلا رہی تھی۔‘‘

’’قریب ہی ایک کتا جو کچھ دیر پہلے اپنی ٹانگوں میں دبکائے امریکہ کے ہم جنسی قانون کا مذاق اُڑا رہا تھا۔‘‘

افسانے کا کردار متکلمہ ہے جو ایک کہانی کار ہے اور بڑھاپے میں قدم رکھ چکی ہے وہ روی کمار کے نام سے کہانی اور ناول لکھتی ہے۔ جس شخص سے وہ راجستھان ملنے آئی ہے وہ ایک ادب شناس شخصیت ہے اور روی کمار کے ناولوں کو بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہے۔ وہ ریلوے اسٹیشن پر متکلمہ کو رسیو کرتا ہے اور اپنے گھر لے آتا ہے۔ جہاں وہ تنِ تنہا کتابوں اور قلم کے سہارے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ دونوں کے درمیان مکالماتی گفتگو ہوتی ہے۔ دورانِ گفتگو دونوں اپنے اپنے نظریات پیش کرتے ہیں۔ گفتگو کے مابین روی کمار کے فن سے متعلق عمل اور ردِ عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آپ بھی ذرا ان جملوں پر غور فرما لیں اور دیکھیں کہ احمد رشید کا رشحاتِ قلم کس قدر توانائی، گہرائی اور گیرائی لیے ہوئے ہے:

’’فرد اپنی ذات میں خود ایک کائنات ہوتا ہے۔۔۔ اور اُس کی پُر اسراریت کتب بینی سے منکشف ہوتی ہے۔‘‘

’’روی کمار کے نئے ناول ’’شعلۂ احساس‘‘ کا بہت چرچہ ہے۔ اس میں فن کا علامتی اور رمزیاتی اظہار۔۔۔‘‘

’’زندگی کی بد صورتی کا اظہار ہی ان کے فن کی خوب صورتی ہے۔‘‘

’’عورت جو اس کرۂ ارض کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس کے کوائف، احساسات اور جذبات کا فنی اظہار کسی مرد کے بس سے باہر ہے۔‘‘

نیز افسانے اور مکالمے کا نچوڑ یہ ہے کہ متکلمہ مرد کی قائل ہو جاتی ہے جو اس سے عمر میں کم و بیش چار یا پانچ سال بڑا ہے۔ اور وہ اس کی ادب شناسی و ادب فہمی سے اس قدر متأثر ہوتی ہے کہ اس کی دبی ہوئی نفسی خواہشات اور فطری و جبلی تقاضے چند لمحات کے لئے سر اُٹھانے لگ جاتے ہیں۔ اور وہ یہ بھی سوچنے لگتی ہے کہ یہ شخص فن کا کس قدر جوہری ہے کہ اس نے یہ بھی بتا دیا کہ اس طرح کے جذبات کی ترجمانی ایک عورت کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا۔ لیکن جلد ہی وہ ان الفاظ کے ساتھ اپنے اوپر قابو پا لیتی ہے ’’اچانک منہ سے نکلا بہت دیر ہو گئی‘‘ آنکھیں آنسوؤں میں بھیگ گئیں اور مرد ہونے کا خول پگھل کر عورت ہونے کے سانچے میں ڈھل گیا۔‘‘ احمد رشید شاید یہی بتانا چاہتے ہیں کہ عورت ہو یا مرد، وہ اپنے جبلی و فطری نفسیاتی و جنسیاتی تقاضوں سے کسی طرح فرار اختیار نہیں کر سکتا جو حیوان اور حیواں ناطق کا بنیادی خاصہ ہے جو اس کے خمیر میں ہمہ طور پر پیوست ہے۔

’’ویٹنگ روم‘‘ افسانہ بیانیہ پر مشتمل افسانہ ہے۔ اس افسانے میں تمثیلات بھی ہیں اور استعارات بھی۔ ان تمثیلات اور استعارات کے سہارے افسانہ نگار نے ایک بوڑھے شخص کے توسل سے زندگی کا فلسفہ بیان کیا ہے بلکہ یوں کہئے کہ دنیا و آخرت کے رموز و نکات کو بڑے تناسب و توازن کے ساتھ صفحۂ کاغذ پر اہباط کیا ہے۔ نیز قاری کو ویٹنگ روم میں آویزاں تصاویر کے ذریعہ جہاں بوڑھا ریل گاڑی کا منتظر ہے کیوں کہ ایک زمانے کے بعد وہ اپنے گانو جا رہا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی، ناپائیداری اور پل میں سب کچھ فنا ہونے کے بارے میں بتانے کی سعی کی ہے جس میں احمد رشید کی افسانہ نگاری پر داد دینی پڑتی ہے کہ انھوں نے اپنے باریک عمیق اور منضبط مشاہدہ (Observation Controlled) سے ایسی پیکر تراشی کی ہے کہ حقیقی زندگی کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔ بوڑھا مسافر جو سامانِ سفر باندھ کر اپنے گانو کی طرف جا رہا ہے۔ اور وہ ویٹنگ روم میں بیٹھا ایک ایک تصاویر، ایک ایک چیز کا جائزہ لینے لگتا ہے نیز ان تصاویر اور اشیا کو دیکھ کر وہ دینا و آخرت کی مابین توازن قائم کرنے اور اپنی ذات کا تجزیہ و محاسبہ کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ سوچنے لگتا ہے کہ جو سامانِ سفر اس نے باندھا ہے، اس کا اپنا، اس میں کیا ہے؟ اور وہ سوچ سوچ کر تصویروں اور ویٹنگ روم میں خالی جگہوں کا جائزہ لے لے کر پاگل سا ہوا جاتا ہے۔ گو اپنے آپ سے خود کلامی کرتا رہتا ہے اور بقول کہانی کار:

’’وہ سوچنے لگا ویٹنگ روم کی دیواروں پر لگی ہوئی یہ تصویریں زندگی کی تمام بد صورتوں کے ساتھ کتنی حسین و جمیل اور خوبصورت ہیں۔ پوری کائنات ویٹنگ روم ہے اور ویٹنگ روم کائنات بن گیا ہے۔‘‘

ایسا لگتا ہے کہ احمد رشید خود اپنی ذات کا محاسبہ کر رہے ہیں اور افسانے کے حوالے سے بتانا چاہتے ہیں کہ یہ زندگی ایک ویٹنگ روم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ویٹنگ روم کا استعارہ افسانہ میں بڑی معنویت، وسعت اور گہرائی لئے ہوئے ہے۔ ویٹنگ روم میں آویزاں تصویروں کے ذریعہ احمد رشید نے پیغام رسائی کا ایسا کام کیا ہے جس میں افسانے کا کردار ضعیف شخص کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ضعیفوں کے لئے سبق ہے۔ ان سطروں کو ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

’’کئی چھڑیوں کا ایک بنڈل: اتحاد میں قوت ہے۔‘‘

’’ٹوٹی ہوئی زنجیر: غلامی سے نجات، آزادی کی علامت۔‘‘

’’سانپ اپنی دم کاٹتے ہوئے ایک حلقے کی صورت میں: ہمیشگی کی علامت کیونکہ کسی حلقہ کی نہ تو ابتدا اور نہ انتہا۔‘‘

’’پنکھ دار عورت: قانون کی تمثیل۔‘‘

’’قانون کی تختی: قانون سب کے لئے ایک ہی جیسا، اس کے سامنے سب برابر ہیں۔‘‘

آخر میں ضعیف شخص متاعِ سفر میں سے ایک بہت پرانی تصویر نکالتا ہے جس میں جمِ غفیر کو فریضۂ حج کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا اس تصویر کو وہ ویٹنگ روم کے خالی مقام پر لگا دیتا ہے لیکن یہ کیا ہوتا ہے کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو دیتا ہے نیز اس پر ہسٹیریائی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وہ بے ہوش ہو کر صوفہ پر گر جاتا ہے۔ ٹرین آتی ہے اور لوگ اسے اسی حالت میں اُسے ٹرین میں ڈال دیتے ہیں۔ انسان کی زندگی بھی بالکل ایسی ہی ہے کہ آخر میں اس کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہتا۔ احمد رشید نے انسان کی بے ثبات زندگی کو متصوفانہ پیکر میں خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔

’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ ایک ایسا علامتی اور اساطیری افسانہ ہے جو تخلیقِ اول سے لے کر اکیسویں صدی تک کے زمانہ پر محیط ہے۔ اس افسانہ میں احمد رشید کی تخلیقی توانائی، لا شعوری مواد، عمیق مطالعہ، تاریخ پر گہری گرفت، ہمہ جہت علمیت، فنی شعور و بصیرت، باریک نگاہی نیز متانت و سنجیدگی، انشا پردازی، شاعرانہ حسن، نفسیاتی پہلو اور ان سب کے ساتھ جدت و ندرت، فصاحت و بلاغت جیسے عناصر و اوصاف بکھرے پڑے ہیں جو قدم قدم پر افسانے کی افسانویت میں چار چاند ہی نہیں لگاتے بلکہ افسانے میں ایسے متحیر کن اور معنی خیز فنی Twists پیدا کرتے ہیں کہ عورت کی پیدائش سے لے کر دورِ حاضر کی خود کفیل نسوانی آواز کے گڈ مڈ ہوتے مقتضیاتِ نفسی پہلو ایک محور پر آ کر مرکوز ہو جاتے ہیں۔ نیز ہزارہا سال کی تواریخ کے اوراق قاری کے سطحِ ذہن پر اُلٹ پلٹ ہونے لگتے ہیں جس میں احمد رشید فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ایک عورت جو بستر پر دراز امیدو یاس کے مابین معلق ہے۔ جس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور ہے۔ رات ہو چکی ہے اور وہ کروٹیں بدل بدل کر ’’وجودِ زن‘‘ کا ماں حوا سے لے کر اکیسویں صدی کی ناری یعنی اپنی ذات کا محاسبہ و تجزیہ کر رہی ہے۔ تاریخ کی روشنی میں اپنی گزری ہوئی زندگانی کے نشیب و فراز کا جائزہ لے رہی ہے، کی زبانی بلکہ خود کلامی کے ذریعہ ہزارہا سال کی اس تاریخ کو صفحۂ کاغذ پر متشکل کر دیا جس میں عورت ظلم و جبر کا شکار رہی اور اس کے ’وجودِ زن‘ کو مرد ہمیشہ کچلتا رہا اور وہ کمزور ہونے کے سبب یا مجبوری کے باعث یا مصلحت کے تحت کوش بنی رہی۔ کچھ اقتباسات آپ بھی ملاحظہ کریں جس سے اندازہ ہو کہ احمد رشید کو تانیثیت اور عورت کی نفسیات پر کس قدر گرفت حاصل ہے:

’’جب وہ بے قرار اور بے سکون ہوئے، عالمِ تنہائی سے خوف زدہ ہوئے تو ان کو خواب میں ڈالا گیا وہ ایسے سوئے کہ نہ نیند آئی نہ بیدار ہوئے اس صورت میں ایک ہڈی بائیں پہلو سے اس طرح نکلوائی کہ اس سے اس کو درد و الم نہ پہنچا۔‘‘

’’مجھ کج عقل کی مت ماری گئی لالچ اور خواہش میں آ گئی۔۔۔ ایک عجیب تذبذب کا عالم تھا۔۔۔ ہاں اور نا کی کشمکش تھی۔۔۔ صبر اور خواہش کی اس جنگ میں صبر ہار گیا۔۔۔ شجرِ ممنوعہ کے کھانے کا انجام یہ ہوا کہ ستر کھل گئے۔ الزام میرے سر گیا۔‘‘

’’جب مَیں حسن و جمال بصورت اقلیما خلق ہوئی تو قابیل کے ہاتھوں بابیل کا پہلا قتل روئے ارض پر رونما ہوا۔۔۔ وجۂ قتل میرا جمال ہوا، الزام میرے سر ہوا۔‘‘

’’مجھے بصورت پانڈورہ (Pandora) تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا۔ اور جب ایفروڈایٹ (Aphrodite) یعنی کام دیو کا روپ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تو میری پرستش کا آغاز ہو گیا۔ ایک دیوتا کی بیوی ہوتے ہوئے تین مزید دیوتاؤں سے آشنائی کا چرچہ عام ہوا میرے بطن سے کیوپڈ پیدا ہوا۔ کہا جا تا ہے کہ وہ غیر قانونی دوست کی لگاوٹ کا نتیجہ ہے۔‘‘

’’پتھر پڑ جائیں ان عقلوں پر میری (Mary) کو ایشور کا روپ دے کر عبادت کرتے ہیں اور اسے بیٹے کو صلیب پر لٹکا کر آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں۔‘‘

اور اس طرح احمد رشید دیو مالائی عناصر اور متھ لوجی کا سہارا لیتے ہوئے ’وجودِ زن‘ کے سوتے اکیسویں صدی سے ملاتے ہوئے تانیثیت کے سنجیدہ مسائل پر ضرب کاری لگاتے ہیں اور جس میں عصری حسیت شامل ہو جاتی ہے جو افسانہ نگار کے گہرے سماجی شعور اور انسانی نفسیات کا بھی پتا دیتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مطلقہ عورت یا متکلمہ حوّا سے لے کر اکیسویں صدی تک کا سفر ظلم و جبر سہتے ہوئے طے کر رہی ہے۔ پہلے اس کو پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دیا جاتا تھا اب پیدا بھی ہونے نہیں دیا جاتا۔ اس فعل میں متکلمہ سب سے بڑی قصوروار خود ذات کو ہی ٹھہراتی ہے۔ افسانے کے چند جملوں پر غور کریں:

’’رحمِ مادر میں قتل کرنے کی خواہش ماؤں میں زیادہ دیکھی جا رہی ہے۔ آج جدید دور میں رحمِ مادر میں اولاد کی جنس معلوم کر لی جاتی ہے۔ کلینک میں جنس معلوم کرنے کی اصل وجہ اسے ضائع کرنا ہے۔‘‘

اپنی اس داخلی خود کلامی کے مابین متکلمہ نفسیاتی اعتبار سے معلق نظر آتی ہے۔ وہ خود ہی سوال اٹھاتی ہے اور خود ہی اس کا جواز پیش کرتی ہے۔ اس کے اعصابی نظام میں ایک تناؤ ہے۔ وہ نفسی کشمکش (Psycho Conflict) میں مبتلا ہے۔ اسے صدیوں سے ریزہ ریزہ ہوتی عزت کا بے حد افسوس اور دُکھ ہے۔ وہ اپنے اوپر ہونے والے استحصال پر منطقی فوکس کراتی ہے۔ ہمیں متکلمہ کے اندر احساسِ کمتری کے ساتھ بر تری اور انا کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی میں عورت نے جو ارتقائی منزل طے کی ہے اس کی وجہ وہ ذیل کے الفاظ میں بتاتی ہے:

’’وہ سوچتی ہے لیکن حقیقی عورت کو کیا ملا؟ اگر ملا تو مرد بن کر ملا،، عورت کی حیثیت سے آج بھی وہ ذلیل ہے۔ عزت اگر ہے تو اس مردِ مؤنث یا زنِ مذکر کے لئے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو۔‘‘

مطلقہ عورت فیصلہ نہیں کر پاتی ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ وہ مختلف قسم کے نفسیاتی پہلوؤں میں گرفتار اپنی ذات سے ہم کلام ہوتی رہتی ہے۔ اس کے شعوری و لاشعوری نظام میں مجادلوں (Polemics) کا سلسلہ بدستور قائم رہتا ہے جیسا کہ بقول کہانی کار:

’’پتہ نہیں ایک سفر ہے، بے منزل سفر۔۔۔ کبھی اندھیرا، کبھی روشنی۔۔۔ اندھیرے کا سفر۔۔۔ اندھیرے سے اندھیرے تک کا سفر۔۔۔ ماں کے پیٹ سے زمین کے پیٹ تک کا سفر۔۔۔ وہ ماں اور زمین کے فرق کو جاننے میں مصروف ہو گئی۔‘‘

اپنے ہی سوالات و جوابات کی کشمکش اور مجادلوں (Polemics) کے مابین مطلقہ عورت رہ رہ کر اپنی ازدواجی زندگی اور شوہر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا محاسبہ و تجزیہ کرتی رہتی ہے۔ اس خود کلامی اور گفتگو میں اس کی انا اور نرگسیت بھی شامل رہتی ہے اور یہی دونوں چیزیں اسے علاحدگی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں البتہ ایک وقت گزر جانے پر وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتی کہ طلاق سے متعلق اُٹھائے گئے اقدام صحیح تھے یا غلط۔ اور صحیح اور غلط کی نفسی کشمکش کے مابین وہ حوّا سے لے کر دورِ حاضر تک کی عورت کی کیفیت اور اس پر سدا سے ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالتی رہتی ہے بقول مطلقہ عورت ’’کبھی روشنی کبھی اندھیرا۔۔۔ مجھے کس کا انتظار ہے؟ پھر وہی رہائی اور قید کا سلسلہ۔۔۔‘‘ مطلقہ عورت کو اس کے والد نکاحِ ثانی کے لئے تیار کر لیتے ہیں اور وہ تیار بھی ہو جاتی ہے مگر پھر اچانک ہی وہ گھبرا جاتی ہے اور اپنے ہونے والے شریک حیات سے ان الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوتی ہے:

’’یہ سزا کا سلسلہ کب تک چلے گا؟ پیچھے ہٹتے ہوئے۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں شاہین مجھے معاف کر دو۔۔۔ معاف۔۔۔ اب مجھے کوئی سزا نہیں چاہئے۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے رہائی چاہئے۔ مجھے انتظار ہے ایک ایسی قوت کا جو رات کی ظلمات کو پھاڑ کر صبح کی روشنی نمودار کر دے۔‘‘

یہاں افسانہ ختم ہو جاتا ہے۔ احمد رشید نے اس جملے میں کہ ’’مجھے انتظار ہے ایک ایسی قوت کا جو رات کی ظلمات کو پھاڑ کر صبح کی روشنی نمودار کر دے۔‘‘ سوال چھوڑ دیا ہے کہ واقعی عورت کے لئے ایسا لمحہ بھی آئے گا یا ایسی قوت بھی پیدا ہو گی جو رات کی ظلمات کو پھاڑ کر صبح کی روشنی نمودار کرے گی۔ یہاں فنکار کی فنکاری پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جب عورت عزت کی زندگی گزارے گی اور ہزاروں برسوں سے ہونے والے جنسی استحصال سے بری ہو گی۔

’’فیصلہ کے بعد‘‘ افسانہ کا عنوان خود اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ افسانہ بھی ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کہانی کی طرح ہی ہے یعنی دونوں افسانوں کا موضوع ایک ہی ہے۔ ’’فیصلہ کے بعد‘‘ افسانہ میں بھی مطلقہ عورت مرکزی کردار میں ہے جو متکلمہ کے طور پر کہانی میں نمودار ہوئی ہے۔ لیکن احمد رشید کا سب سے بڑا فنی کمال اور شعور و بصیرت یہی ہے کہ کہانی کو پڑھتے وقت آپ کو بالکل بھی یہ محسوس نہیں ہو گا کہ ہم ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ افسانہ پڑھ رہے ہیں بلکہ کہانی آپ کو ایک نئے انداز نئے ذائقہ نیز نئے انبساط سے رو شناس کرائے گی جبکہ دونوں کہانیوں کا موضوع ایک ہی ہے۔ اب فیصلہ کے بعد کیا ہوتا ہے؟ مطلقہ عورت کیا واقعی طلاق سے مطمئن ہے۔ انہی سوالات کے مابین الجھی ہوئی ہے متکلمہ جو رات کی تاریکی میں اپنے کمرے میں تنہا ہے۔ سامنے فریم میں فٹ اس کے شوہر کی تصویر رکھی ہوئی ہے۔ جس کا نام آفتاب ہے اور مطلقہ عورت کا نام شفق ہے۔ یہاں افسانہ نگار نے آفتاب اور شفق کو ذو معنی میں استعمال کیا ہے جس سے صرف افسانہ کا حسن ہی دو بالا نہیں ہوتا بلکہ ان دو لفظوں کے توسل سے احمد رشید نے افسانویت قائم کرتے ہوئے فلسفہ کے عناصر بھی بین السطور میں پیدا کر دئے ہیں۔ آپ بھی ذرا چند جملوں پر غور فرمائیں:

’’آفتاب اور شفق کے بیچ روشنی کا رشتہ ہے۔‘‘

’’آفتاب تم بھی میری طرح بوڑھے ہو گئے ہو۔‘‘

’’آفتاب کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔‘‘

’’اور شفق۔۔۔؟‘‘

’’کبھی گہری، کبھی ہلکی اور کبھی غائب۔‘‘

مگر دونوں متذکرہ افسانوں میں بنیادی تفاوت یہ ہے کہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کی عورت آخری دم تک نکاحِ ثانی کے لئے تیار نہیں ہوتی ہے جبکہ ’’فیصلہ کے بعد‘‘ کی عورت، طلاق کے بعد بری طرح ٹوٹ چکی ہوتی ہے جو آزادی چاہتی تھی، حقوقِ نسواں کے لئے تحریک چلاتی تھی، جو چار مردوں کے ساتھ ایک وقت میں رہنے کو اچھا سمجھتی تھی، جس نے اپنے مرد سے زبر دستی طلاق لی تھی اور عرفان نام کے مرد کے ساتھ رہنے لگی تھی اور عرفان نے اسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا ’’تم ایک کی ہو کر نہیں رہی تو دوسرے مرد کی کیسے ہو کر رہ سکتی ہو۔۔۔؟‘‘ آج پھر اسے اپنے شوہر کا انتظار ہے۔ فریم میں جڑی آفتاب کی تصویر کو دیکھ دیکھ کر وہ اپنے آپ سے ہم کلام ہے۔ اپنی گزری ہوئی سابقہ زندگی کا محاسبہ و تجزیہ کر رہی ہے۔ حال اور ماضی کا تجزیہ کر رہی ہے۔ ماضی کی دنیا میں لوٹ کر اُن لمحوں کو یاد کر رہی ہے جو آفتاب کے ساتھ اس نے بتائے تھے۔ ان جملوں پر غور کر رہی ہے جن کی وجہ سے ان کے بیچ طلاق ہوئی تھی۔ آفتاب تو بالکل بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ اسے طلاق دے۔

شفق ہمہ طور پر ٹوٹی ہوئی عورت ہے۔ وہی آزادی اس کے لئے آج قید بن گئی ہے۔ اس کے اعصابی نظام (Nervous System) میں شکست و ریخت کا سلسلہ بتدریج جاری ہے۔ وہ ذہنی خلفشار کا شکار ہے۔ اس کے پاس مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کی حق پسندی اور انتہا پسندی جس میں اس کا نرگسی وصف کار فرما تھا، اس کی انا شامل تھی نے، اسے ایک طرح کا نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ وہ سوچ سوچ کر اور تنہائی کی زندگی سے تنگ آ کر فکری مالیخولیا (Anxiety Hysteria) میں گرفتار ہو گئی ہے اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اور آج وہ بڑھاپے میں قدم رکھنے جا رہی ہے، اس کا فکری مالیخولیا، معکوسی مالیخولیا (Conversion Hysteria) کا روپ اختیار کر رہا ہے۔ وہ اندر سے بالکل کھوکھلی ہو چکی ہے۔ اسے ایک ساتھی کی ضرورت ہے۔ ذرا افسانہ کے یہ جملے ملاحظہ کریں:

’’زندگی کا اکیلا پن کتنا سنگین ہوتا ہے۔۔۔ کوئی مجھ سے پو چھے۔۔۔ مگر کون پوچھے۔۔۔؟‘‘

’’وہ سوچتی ہے حقوق کی جنگ میں زندگی ہار گئی ہوں اور تنہائی ملی ہے آزادی کی جد و جہد میں۔۔۔ جہاں سے شروع وہیں ختم سی! جیسے آفتاب نصف النہار پر رک گیا ہو۔۔۔ وہ اُلٹے پاؤں چلنے لگی بہت دور پیچھے کی طرف۔۔۔‘‘

احمد رشید کا یہ افسانہ ان عورتوں کے لئے عبرت ہے جو مغرب کی دیکھا دیکھی قانونِ قدرت کے بر عکس اپنی آزادی کی بات کرتی ہیں جبکہ وہ آزادی نہیں بربادی کی راہ ہے۔ اللہ نے تمام جیو جنتوؤں کے جوڑے بنائے ہیں ایک کی زندگی دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی اور پھر انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے شعور بخشا تاکہ ایک بہتر زندگی گزارے۔

’’دھواں دھواں خواب‘‘ افسانہ یونگ کے نظریہ پر منحصر ہے کیونکہ یونگ کے مطابق انسان کی زندگی میں خوابوں کا بڑا دخل ہے۔ یونگ خوابوں میں رونما ہونے والے واقعات کو مستقبل کا نقیب گردانتا ہے جبکہ فرائڈ کے نزدیک خواب ہماری دبی ہوئی خواہشات نیز بچپن سے دبے ہوئے فاسد اور غیر فاسد خیالات کا نتیجہ ہوتے ہیں جو ہمارے لاشعور کے نہاں خانوں میں پیوست ہوتے ہیں۔ احمد رشید کا یہ افسانہ یونگ سے زیادہ فرائڈ کے نظریات پر منحصر ہے جسے احمد رشید نے اپنے گہرے شعور و بصیرت سے سنسی خیز اور متحیر انگیز بنا دیا ہے۔ جس میں ایک ساتھ بہت سے نفسیاتی عناصر تحلیل ہو گئے ہیں۔ جن کا تعلق افسانے کے متکلم کردار سے بہت گہرا ہے۔ متکلم تیسرے دور کے خواب میں مبتلا ہے۔ وہ جیسے ہی نیند کی آغوش میں جاتا ہے اس کے خارجی حسی محرکات (External Sensory Motives) خوابوں میں رونما ہونے لگتے ہیں۔ اس کا ہمزاد متکلم کا تعاقب کر رہا ہے۔ متکلم مختلف خوفوں جیسے اندھیرے کا خوف (Nyctophobia)، بھوت پریت کا خوف (Demonophobia)، سانپوں کا خوف (Ophidiphobia)، میں گھرا ہوا ہے۔ ہمزاد متکلم کا لگاتار تعاقب کر رہا ہے جو کبھی ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی غائب۔ متکلم کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ وہ بہت تیز بھاگتا رہتا ہے۔ ہمزاد اس کا پیچھا کر تا رہتا ہے۔ وہ بہت ڈرا اور سہما ہوا ہے۔

احمد رشید نے اس افسانے میں جنت اور دوزخ کا نقشہ بھی کھینچا ہے جو نیکی و بدی کی طرف اشارہ ہے۔ خوف و ہراس، امیدی و نا امیدی، مسرت و پژمردگی کی آمیزش کے آثار متکلم کے چہرے پر نمودار ہیں۔ احمد رشید نے اس افسانے میں جہاں بہت سے نفسیاتی عناصر متکلم کی ذات سے پیوست کر دئے ہیں وہیں متکلم کے ذریعہ احمد رشید نے جنسی تلذذ کا بھی احساس کرایا ہے اور یہ جنسی تلذذ دبی ہوئی خواہش کا نتیجہ ہے احمد رشید نے اس جنسی جذبہ کو بڑے فنکارانہ انداز اور متانت کے ساتھ افسانویت میں ڈھال دیا ہے۔ افسانے کا وہ حصہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

’’مَیں نے اس کے چہرے کو اپنی ہتھیلیوں میں بھر کر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں پر رکھ لیا۔ وہ میرے پورے جسم میں سما گئی اور مَیں سر تاپا اس کے اندر ڈوب گیا۔‘‘

متکلم خواب کے دوران التباس (Illusion) یا فریبِ نظر میں بھی مبتلا ہے۔ اس کا ہمزاد جو ایک بد ہیئت ہیولا کی شکل میں دکھائی دے رہا ہے اس کے سر تاپا پر مسلط ہے۔ متکلم پر بہت زیادہ خوف طاری ہے۔ وہ جنت سے نکل کر دوزخ میں داخل ہوتا ہے اور پھر جنت کی حسین وادی میں داخل ہو جاتا جہاں پر متکلم کا جنسی جذبہ (Sexual Sentiment) پھر مشتعل ہو جاتا ہے اور تبھی اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ بہت گھبرایا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی بیوی اس کے پاس لیٹی ہوئی ہے۔ وہ بُری طرح بڑ بڑا تا رہتا ہے۔ اس کی بیوی اسے یقین دلاتی ہے کہ میں ہی تمھاری بیوی ہوں لیکن اسے یقین ہی نہیں آتا۔

احمد رشید نے بہت ہی عمدہ انداز اور فنی تکنیک کے ساتھ خواب کے الجھاؤ والی کیفیت کو صفحۂ قرطاس پر اہباط کر دیا ہے جس کا تعلق بچپن کے دبائے ہوئے خیالات و واقعات سے ہے جس میں نفسی ذرائع کے ساتھ جنس کی بھی کارفرمائی تحلیل رہتی ہے۔

’’دھوئیں کی چادر‘‘ افسانہ ایک مختصر افسانہ ہے۔ اس میں کہانی کار متکلم کے طور سے نمودار ہوا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جب تک انسان کے پاس دولت ہوتی ہے لوگ اس کی عزت کرتے ہیں، اسے دانشور و عقلمند سمجھتے ہیں، اس کی باتوں کو دھیان سے سُنتے ہیں۔ اس کی کہی ہوئی بات ملفوظات سے کم نہیں ہوتی۔ اس کے بر عکس غریب آدمی کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا، وہ چاہے کتنی ہی قیمتی بات بتائے، لوگ اس کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ کہانی کار ایسے ہی سوالوں کے مابین نفسی کشمکش کا شکار ہے۔ اس کے ذہن میں مختلف خیالات کا تصادم ہوتا رہتا ہے۔ یہ تصادم کہانی کار کو احساسِ کمتری (Inferiority) کی طرف لے جا رہا ہے۔ وہ ریسٹورینٹ میں بیٹھا اپنے دوست رینو سے مخاطب ہے۔ ساتھ میں دوسرا دوست بھی ہے دونوں باری باری کہانی کار کے ساتھ مختلف نوعیت سے ریمارکس اور بذلہ سنجی بھی کرتے رہتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ کہانی کار سے مختلف پہلوؤں سے گفتگو کرتے ہیں، کہانی کار کے ذہن میں فوراً تنقیدی نظریہ قبل شعور سے داخل ہو جاتا ہے جو کہانی کار کو احساسِ کمتری، مایوسی، بے زاری افسردگی (Depression) اور بے چینی (Malaise) میں مبتلا کر دیتا ہے نیز کہانی کار کے ذہن میں نفسی تذبذب (Psycho Indecision) اور حسی پیچیدگی (Sensory Complication) کے باعث زندگی کا فلسفہ جنم لینے لگتا ہے جس میں وہ زندگی کے رُخوں میں توازن قائم کرنے لگ جاتا ہے۔ ذرا آپ بھی ان جملوں پر غور فرمائیں:

’’زندگی کا یہ راز کہ دولت زندگی ہوتی ہے نہ کہ زندگی کے لئے دولت ہوتی ہے۔‘‘

’’سنجیدگی ازل سے ملتی ہے اور نازک مزاجی حالات کی دین ہوتی ہے۔‘‘

’’مَیں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا ہر کامیابی شکست کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘

’’عقل اور حسن مانگے کا اجالا ہے اور گھمنڈ پرسنل اچیومنٹ پر ہونا چاہئے۔‘‘

’’عقل جب جاتی ہے تو ہاتھ میں پتھر دے جاتی ہے اور جب حسن جاتا ہے تو منہ کو گالی دے جاتا ہے۔‘‘

’’غریبی اور بد صورتی ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں۔‘‘

’’جب دولت تھی تو بے معنی تھی۔۔۔ اور اب دولت نہیں رہی تو اس کے معنی پیدا ہو گئے۔ اس دور میں اگر دولت ہے تو عورت کیا چیز ہے، عزت اور شہرت بھی کوچۂ بازار ہوتی ہے۔‘‘

اب ذرا ان متذکرہ جملوں پر غور فرمائیں کہ احمد رشید نے اپنے منضبط قوتِ مشاہدہ، فہم و ادراک اور توجہ و احساس سے زندگی کے فلسفہ کو اس طرح توازن و تناسب کے ساتھ پیش کر دیا کہ لفظوں کی تہہ میں معنویت کی تلاش تقاضہ کرتی ہے اور قاری احمد رشید کی افسانویت، ادبیت اور فلسفہ کے بین السطور میں بہت سے مخفی نفسیاتی پہلوؤں پر غور و خوض کرنے لگ جاتا ہے۔

’’حاشیہ پر‘‘ نامی افسانہ ایک ایسا افسانہ ہے جو علامتی ہو تے ہوئے اپنے ساتھ کئی سوال پیدا بھی کرتا ہے اور سوال کھڑے بھی کرتا ہے، اس قوم کے تعلق سے جو ہندوستان جیسے ملک میں اقلیت کے طور سے جانی جاتی ہے۔ لفظ ’حاشیہ‘ علامتی ہوتے ہوئے معنی خیز بن گیا ہے اور مشارٌ الیہ کا کام کر رہا ہے اور یہ لفظ جز کے ساتھ کل اور نقطہ کے ساتھ سمندر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اگر چہ اس لفظ کا پورے افسانے میں استعمال نہیں ہوا ہے مگر پورے افسانے کو پڑھ کر بات واضح ہو جاتی ہے۔ افسانے میں احمد رشید نے بڑی ژرف نگاہی اور نکتہ آفرینی سے کام لیا ہے۔ بات میں سے بات نکالنا انھیں بہ خوبی آتا ہے۔

افسانے میں ٹرین کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر، وکیل اور معلم تین لوگوں کی باہمی گفتگو کو مکالمے کی شکل میں افسانے کے فارم میں ڈھال دیا ہے۔ پورے افسانے کو پڑھنے کے بعد قاری چند لمحوں کے لئے نہیں بلکہ ایک لمبے وقت تک احمد رشید کی افسانہ بافی پر متحیر ہوتا رہتا ہے۔ احمد رشید نے تین اشخاص کی باہمی گفتگو کے توسل سے ہندوستان میں اقلیت طبقہ کا اس وقت کیا وجود ہے؟ اس کو ہر کوئی شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اس کی حب الوطنی بھی شک کے دائرے میں آ گئی ہے بالخصوص با ریش شخص کے لئے۔ ایسے ہی مسائل و حالات کو پیش کیا ہے احمد رشید نے اس افسانے میں۔ پورا افسانہ دال پر منحصر ہے۔ ڈاکٹر، وکیل، اور معلم تینوں افراد آپس میں تبادلۂ خیالات کرتے رہتے ہیں۔ ریل گاڑی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ مذکورہ مسائل کے ساتھ ہی گفتگو کے مابین یا ساتھ ساتھ تینوں حضرات ذاتی اور زندگی سے متعلق بھی بات چیت کرتے ہیں۔ ایک شخص دوسرے کی بات سے اور دوسرا شخص تیسرے کی بات سے جلدی سے متفق نہیں ہوتا بلکہ فوراً برہان و دلیل پیش کرتا ہے۔ اب یہ احمد رشید کی چابک دستی، قلم کی توانائی اور فنی شعور و بصیرت کا کمال ہے کہ انھوں نے تینوں افراد کی گفتگو میں توازن و تناسب قائم رکھا اور افسانے میں ایک ایسی فضا قائم کی ہے کہ جو محض افسانویت کو ہی ہمارے سامنے پیش نہیں کرتی بلکہ زندگی اور زندگی سے متعلق بہت سے عناصر اس طرح تحلیل ہو گئے ہیں کہ انھیں افسانے کے زمرے میں اوصافِ حمیدیہ ہی کہنا پڑے گا جو فن پارے کے حسن کو نہ زائل ہونے دیتے ہیں اور نہ فن پارے کو چیستاں بننے دیتے ہیں۔

ان تین اشخاص کی گفتگو جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے تو قاری کے سامنے جہاں مختلف قسم کے فوبیاز ابھرتے ہیں وہیں دوسری جانب گفتگو کے مابین تجزیاتی، معاصر، انتقادی سماجی اور سیاسی فلسفے (Analytic, Contemporary, Critical, Social And Political Philosophy) بھی جنم لیتے رہتے ہیں اور ان سب کے ساتھ کام کرتی ہے افسانہ نگار کی شعور کی رو، جس باعث نفسیاتی پہلو بھی اجاگر ہوتے ہیں۔ اب ذرا ملاحظہ کیجئے افسانہ کے وہ جملے جن کے بطن سے مختلف فلسفوں کا جنم ہوتا ہے اور نفسیاتی پہلو اجاگر ہوتے ہیں:

’’موت بے منزل سفر کا پڑاؤ ہے۔‘‘

’’زندگی سفر کی مانند دلچسپ نہیں ہو تی۔‘‘

’’انسان جہاں ناکام ہوتا ہے وہاں تقدیر اور خدا کے وجود کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘

’’عشق اور موت، حیات و کائنات کی ایک ایسی روایت ہے کہ جب بھی دہرائی جاتی ہے نئی سی لگتی ہے۔‘‘

’’در اصل کچھ سچ ہم اس لئے نہیں بولتے کہ ہم بُزدل ہو گئے ہیں۔‘‘

افسانے میں جگہ جگہ افسانہ نگار نے ریل گاڑی کے ذریعہ پیدا ہونے والے سماعی پیکر کا بھی اچھا نقشہ کھینچا ہے نیز سمعی تحسیس (Auditory Sensation) کے ساتھ افسانے میں ابھرنے والی بصری تحسیس (Visual Sensation) بھی اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ اسی بصری تحسیس کی ذریعہ تینوں اشخاص کے درمیان ایک مسئلہ جنم لیتا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ وہ افسانے کا مرکزی خیال بھی ہے یعنی تحفظِ نفس (Self Preservation) کا مسئلہ۔ اس ضمن میں افسانے کے یہ جملے غور طلب ہیں:

’’کثرت میں وحدت کا تصور۔۔۔ لیکن اب فرسودہ ہو گیا ہے۔‘‘

’’در اصل ہم لوگ اس ملک میں مخدوش اور مجبور زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

’’سب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی الگ تھلگ سے ہو گئے ہیں۔۔۔ یہاں سے ’کیوں اور کیا‘ کی تلاش شروع ہوتی ہے۔‘‘

اور پھر افسانے کے اختتامیہ جملہ پر بھی غور فرما لیں:

’’معلم اور وکیل سوچ میں غرق انسانوں کی اس بھیڑ میں بالکل الگ تھلگ سہمے ہوئے سے بیٹھے ہیں۔‘‘

’’سہما ہوا آدمی‘‘ افسانہ فسادات کے موضوع پر بُنا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس موضوع پر افسانے نہیں لکھے گئے بلکہ لاتعداد افسانے لکھے گئے ہیں لیکن افسانے کو پڑھ کر قاری بالکل نئے پن کا احساس کرتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قاری افسانے میں نئے پن کا احساس کرتا ہے۔ جبکہ تمام موضوع وہی ہے کہ ایک آدمی ہے جو مختلف النوع فوبیاز میں گرفتار، سہما ہوا، ڈرا ہوا ہے۔ جس کے پورے وجود پر ارتعاش طاری ہے۔ دنگائیوں اور بلوائیوں کی ملی جلی آوازوں سے وہ سمعی تحسیس (Auditory Sensation) سے دو چار ہو رہا ہے۔ ساتھ میں بصری تحسیس (Visual Sensation) بھی اسے مزید خوف میں مبتلا کر رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب لوازمات تو اس کے ساتھ پیش آنے ہی والے جہاں پر جان کے لالے پڑے ہوں۔ پھر آخر کون سی وجہ ہے کہ ہمیں افسانہ کو پڑھ کر جدت و ندرت کا احساس ہوتا ہے۔ افسانہ کو پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ اس جدت و ندرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ احمد رشید نے اپنے اسلوب اور ساختیات سے افسانہ کا تارو پود اس فنی تکنیک سے تیار کیا ہے اور کردار کو اس طرح پیش کیا ہے کہ آخر تک قاری کو یہ پتا نہیں چلتا کہ مرنے والا کس مذہب کا ہے اور مارنے والے ہندو ہیں یا مسلمان۔۔۔ اور قاری افسانہ نویس کی افسانہ بافی، متوازن فنی رویے، شعوری دور اندیشی اور متناسب مذہبی رواداری کا قائل ہو جاتا ہے نیز احمد رشید کہانی کو یک رُخی اور مذہبی رنگ میں محلل ہونے سے بچا لیتے ہیں اور افسانہ بلندی کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ افسانے کے یہ جملے غور کریں:

’’اچانک کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا اور وہ چند درندوں کے درمیان کھڑا تھا‘‘

’’پولس اطلاع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین بتائی جاتی ہے لیکن ان میں ایک لاش ایسی بھی پائی گئی ہے جس کا منہ جھلسا ہوا تھا۔۔۔ اور عضوِ تناسل بھی غائب تھا۔ اس لئے صحیح پہچان نہیں ہو سکی کہ وہ کون تھا۔۔۔؟

اور احمد رشید نے قاری پر ایک سوال چھوڑ دیا کہ وہ کوئی بھی تھا۔ وہ ایک انسان تھا اور انسانوں نے درندے بن کر ایک انسان کو مار دیا تھا۔ جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں کہ احمد رشید افسانے کے توسل سے انسان اور انسانیت پر ارتکاز کرانا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر مجھے رامانند ساگر کا ناول ’’اور انسان مر گیا‘‘ کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔

’’ہاف بوٹل بلڈ‘‘ افسانہ میں احمد رشید نے جزئیات سے کام لے کر معاشی و معاشرتی، سماجی و اقتصادی نفسیات کو پیش کیا ہے۔ احمد رشید کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ عام موضوع و مسائل کو بھی اپنی فنکاری، ہنر مندی، اور چابک دستی سے اسے مؤثر، دلکش، معنی خیز، اور سحر انگیز بنا دیتے ہیں۔ اور جب افسانہ ان جیسے عناصر سے متصف ہوتا ہے تو وہ جدت و ندرت کا بھی حامل بن جاتا ہے جس میں احمد رشید کا اسلوب، تفحص الفاظ اور بات میں سے بات نکالنے کا خاصہ ہمیشہ شاملِ حال رہتا ہے۔ ’ہاف بوٹل بلڈ‘ افسانے میں افسانہ نگار نے حالانکہ غریبی و مفلسی اور ان کے مابین ابھرنے والی بے بسی و لا چاری کو بھی متشکل کیا ہے۔ لہٰذا یہ موضوع عام سا دکھائی دیتا ہے اور مفلسی و بھکمری جیسا مسئلہ ہمارے گرد و نواح میں بکھرا پڑا ہے مگر افسانہ نویس کے فنی نقطۂ زاویہ، باریک بینی، قوتِ مشاہدہ اور احساسِ تناسب نے افسانہ کی افسانویت و ادبیت میں چار چاند لگا دئے ہیں۔ افسانہ کا مرکزی کردار ایک شادی شدہ مرد اور اس کی بیوی ہے۔ افسانہ نویس نے دونوں کے درمیان ہونے والی باہمی گفتگو سے ان کے حرکات و سکنات، اعمال و افعال کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ بہت سے نفسیاتی پہلو جیسے نا امیدی، قنوطیت، بے زاری، بے بسی ایک محور پر آ کر مر کوز ہو گئے ہیں۔ انہی اوصاف سے مزین افسانہ نگار نے مفلسی سے متعلق دونوں میاں بیوی کی باہمی بات چیت سے زندگی کی معنویت کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ کہ زندگی تلخ و شیریں جذبات و عناصر کا ایسا مرکب و معجون ہے جسے ہر سماجی پرانی کو اس کا مزہ چکھنا پڑتا ہے اور جب زندگی میں تلخی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے تو وہیں سے شروع ہو جاتا ہے مفلسی اور دشواریوں کا سفر۔ انہی خصوصیات کا متحمل ہے یہ ’ ہاف بوٹل بلڈ‘ افسانہ۔ اب افسانہ کے کچھ جملوں پر بھی غور کرتے چلیں:

’’آنگن کے پلاسٹر پر باریک باریک آڑی ترچھی لکیریں معاشی بحران کا شکار یوپی کا نقشہ بنا رہی ہیں۔‘‘

’’کاش آسمان تھم جائے، زمین پانی نگل جائے اور زندگی کی کشتی کے لئے کوئی جودی پہاڑ جیسی پناہ گاہ مل جائے۔‘‘

’’اُلٹے پاؤں چلنے والی زندگی خود ایک طنز ہے۔‘‘

‘‘ تمھاری سوچ میں کڑواہٹ ہے اسی لئے میرے استفہام کو طنز سمجھ رہی ہو۔‘‘

’’بات کو اُلٹ پھیر کر رہے ہیں آپ، یہ گندی بات ہے۔‘‘ بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا۔‘‘

’’در اصل گندگی کا زندگی سے اور زندگی کا بیماری سے رشتہ، چولی دامن کا ہے۔‘‘

ایسے ہی اور بہت سے جملے آپ افسانے میں ملاحظہ کریں گے کہ جن کی تہوں میں زندگی کا فلسفہ اور معنویت پوشیدہ ہے اور یہ فلسفہ و معنویت بیان کرتی ہے اُن تلخ اور کسیلے تجربات کو جن سے انسان مفلسی کے دوران دو چار ہوتا ہے اور زندگی اسے اجیرن بنتی دکھائی دیتی ہے۔ اور جب زندگی اجیرن بن جاتی ہے نیز انسان کو تاریکی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا اور پیٹ کی بھوک شانت نہیں ہوتی ہے تو وہ حالات سے سمجھوتا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور بعض وقت اسے جنسی کجروی (Sexual Aberration) کے سوا کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ یہی اس افسانے کی ہیروئن کے ساتھ بھی ہوتا ہے جس کا شوہر سب کچھ جانتے ہوئے انجان بنا رہتا ہے اور اس کے شوہر کے پاس بے بسی و لا چاری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ معاشی بحران میں مبتلا زندگی کے اُفق پر معلق ہو جاتا ہے اور جب انسان کی ایسی کیفیت ہو گی تو وہ یقینی طور پر فکری مالیخولیا( Anxiety Hysteria) میں مبتلا ہو جائے گا اور اس کے اعصابی نظام (Nervous System) بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہیں گے۔ ایسی ہی نفسی کیفیت سے دو چار نظر آتا ہے ’ہاف بوٹل بلڈ‘ افسانے کا ہیرو جو ضمیر غائب کے روپ میں افسانے میں ظاہر ہوا ہے۔

علاوہ ازیں بھی احمد رشید کی بہت سی کہانیوں کا تجزیہ کر کے جب آپ دیکھیں گے اور اُن میں غوطہ لگانے کی کوشش کریں گے چاہے وہ کہانی کسی بھی موضوع کا احاطہ کرتی ہو، آپ ان کی افسانہ بافی میں پیدا ہونے والی سحر انگیزی، متحیر اساطیری پہلو، جزئیات نگاری، تفحصِ الفاظ اور فلسفیت کا قائل ہو نا ہی پڑے گا۔ حالانکہ اُن کے زیادہ تر افسانے پہلی قرأت میں ترسیل و ابلاغ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے جیسا کہ انتظار حسین کے زیادہ تر افسانوں کا بھی یہی حال ہے۔ یہی وجہ ہے ان کے افسانے قاری سے وقت کے طالب ہوتے ہیں جنھیں سمجھنا ایک قرأت میں ممکن نہیں ہو پاتا۔ بر عکس ازیں وہ اپنے افسانوں کو چیستاں ہونے سے بچا لیتے ہیں اور جب قاری انہماک کے ساتھ ان کے افسانوں کو کھنگالنے کی کوشش کرتا ہے تو جملوں کی ساخت میں ایک نئے جہان کا جنم ہوتا ہے جس میں صرف لفاظیت ہی نہیں ہوتی بلکہ معنویت و مقصدیت بھی پنہاں ہوتی ہے۔ بہت سے حضرات کو ان کے افسانوں کو پڑھ کر یہ بھی اعتراض ہو کہ وہ موضوع سے بھٹک جاتے ہیں مگر جب آپ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں گے تو یہ احساس بہ خوبی ہو جائے گا کہ جہاں آپ کو بے ربطی اور Uncompact کا پہلو دکھائی دیتا ہے تو جملوں کی زیریں تہوں میں قدم قدم پر شعور کی رو کی آواز بھی سنائی دیتی ہے نیز جلد ہی قاری کو احساس ہو جاتا ہے کہ احمد رشید کا بے ربط اور Uncompact پہلو منضبط قوتِ مشاہدہ میں مجتمع ہو رہا ہے اور جب بے ربط اور Uncompact فنی رویے منضبط قوتِ مشاہدہ میں مجتمع ہونا شروع ہو جائے تو شعور کی رو (ٖStream Of Consciousness) کا جنم ہوتا ہے اور اگر ایسا وصف پیدا کرنے میں فنکار کامیاب نہیں تو نہ اچھا فن پارہ جنم لے گا، نہ ہی افسانویت پیدا ہو گی اور نہ ہی فلسفہ معرضِ وجود میں آئے گا۔ احمد رشید کی کہانیوں میں یہ مذکورہ اوصاف جا بجا بکھرے پڑے ہیں جن میں زندگی کی رمز بھی ہے، تفکرات و خیالات کا بہاؤ بھی ہے اور افسانوی رچاؤ بھی پیوست ہے۔

احمد رشید کی افسانہ نویسی میں جنم لینے والے فنی اوصاف پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ بس ضرورت ہے، ناقدین کی دوربینی کی کہ کیسے وہ احمد رشید کی افسانہ نویسی میں جواہر پاروں کی تلاش کرتا ہے۔ احمد رشید بات میں سے بات پیدا کرنے کا ہنر تو جانتے ہی ہیں ساتھ ہی وہ موضوعات کو نیا پیراہن بھی عطا کرنے کے ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں۔ جبکہ آپ ان کے کئی افسانوں کے موضوعات دیکھیں گے کہ وہی ہیں جن سے آپ روبرو ہوتے رہتے ہیں یا پڑھ چکے ہو تے ہیں تاہم جب ان کے افسانوں کو پڑھیں گے تو پڑھتے ہوئے موضوعات میں جدت و ندرت کا احساس بہ خوبی ہو گا اور اس کا پیرایہ اظہار یقیناً آپ کو متأثر کرے گا جس کا اساسی پہلو یہی ہے کہ فنکار کے پاس ایسی تخلیقی توانائی اور شعور و ادراک ہے کہ وہ نئے اسلوب کی اختراع کرنے میں مکمل دسترس رکھتا ہے۔ احمد رشید جس طرح کہانی کو اُٹھاتے ہیں اور پھر ختم کرتے ہیں نیز درمیان میں ملی جلی حقیقی و ماورائی دنیا خلق کرتے ہیں وہ ان کا طرۂ امتیاز بھی ہے اور ملکہ بھی۔ لہٰذا ان کی افسانہ بافی متحیر بھی کرتی ہے اور مسحور بھی۔ حالانکہ ان کے اس اسلوب کے باعث فن میں الجھاؤ کی Situation پیدا ہو جاتی ہے مگر افسانویت ہمیشہ باقی رہتی ہے جس میں رمزیت بھی ہوتی ہے اور اس رمزیت میں زندگی سے متعلق وہ پہلو بھی مخفی ہوتے ہیں جنھیں ایک باصر کی بصیرت، ناقد کی پرکھ اور فنکار کا شعور ہی تلاش کر سکتا ہے۔

٭٭٭

احمد رشید کی افسانہ نگاری/عبد الرازق

ہم عصر اردو فکشن کی ایک طویل فہرست میں احمد رشید کا نام کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ نئی علامت نگاری کا ذکر ہو یا لفظیات کو نئے معنی پہنانے کا ہنر، ہر صورت میں احمد رشید نے افسانے کے ضمن میں کئی اضافے کیے ہیں۔ احمد رشید کا تعلق شہرِ علم و فن علی گڑھ سے ہے۔ اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پہلا ’’وہ اور پرندہ‘‘ ۲۰۰۲ء میں اور دوسرا ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔ ’’وہ اور پرندہ‘‘ میں سولہ کہانیاں شامل ہیں جبکہ مجموعہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ ۲۱؍ چھوٹی بڑی مختلف النوع کہانیوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مجموعے پر دور حاضر کے اہم نقاد پروفیسر شافع قدوائی نے ’’احمد رشید کے افسانے‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ لکھا ہے اور دوسرے مجموعے میں پروفیسر صغیر افراہیم کا ایک دیباچہ شامل ہے یہ دونوں ہی تحریریں احمد رشید کو ہم عصر افسانہ نگاروں میں اعتبار عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں کے اسلوب کے سلسلے میں تعارف کی حیثیت رکھتی ہیں۔ زیر نظر میں احمد رشید کے بعض افسانوں کو موضوع بحث بناتے ہوئے ان کے افسانوی اسلوب پر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

’’کہانی بن گئی‘‘ اس کتاب کا پہلا افسانہ ہے۔ کہانی کا عنوان پڑھ کر اولاً یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید کہانی کار نے اس میں کہانی کے حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کو بیان کیا ہو گا، لیکن اس عنوان کے زیر عنوان کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کہانی کے حوالے سے کہانی کار کا کوئی مینی فیسٹو نہیں ہے بلکہ ایک کہانی ہے جس میں کہانی کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ کہانی کا راوی ایک عورت ہے۔ کہانی کی ابتدا ایک اسٹیشن سے ہوتی ہے جہاں کہانی کا مرکزی کردار اپنی ٹرین کا انتظار کر رہا ہے۔ اس دوران وہ اسٹیشن کا مختلف زاویوں سے نقشہ بھی کھینچتا ہے۔ اس کے بعد راوی کی ٹرین آ جاتی ہے اور وہ اپنی منزل پر روانہ ہو جاتا ہے جو کہ کسی ریگستانی شہر میں ایک دانش ور کا بنگلہ ہے۔ جہاں پہنچ کر ان دونوں کے درمیان کہانی کے حوالے سے تبادلۂ خیال ہوتا ہے۔ کہانی کا اختتام بہت متاثر کن انداز میں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہاں ایک عورت کہانی کار ایک عورت کے ہاتھوں ہار جاتی ہے۔ اس کہانی کو سمجھنے کے لیے ہم چاہیں تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا حصہ وہ ہے جہاں راوی اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار اور سفر کے دوران مختلف چیزوں کا نقشہ کھینچتا ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس میں راوی اور کہانی کے دوسرے مرکزی کردار دانشور سے کہانی کے موضوع پر تبادلۂ خیال کرتا ہے۔ اس کے دونوں حصے ہی اہم ہیں۔ کیونکہ پہلے حصے میں جن چیزوں کو بیان کیا گیا ہے وہ ایسی چیزیں ہیں جو ایک تخلیق کار اس بات کی طرف راغب کرتی ہیں کہ وہ ان کو اپنے آرٹ کے ذریعے سے سماج کے سامنے لائے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’اسٹیشن کی جگ مگ روشنی اس گنوار خوب صورت عورت کی طرح ٹھٹھر رہی تھی جو پلیٹ فارم پر بیٹھی اپنے گندے آنچل میں بچہ کو چھپائے دودھ پلا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ قریب ہی ایک کتّا جو کچھ دیر پہلے اپنی ٹانگوں میں دم دبکائے امریکہ کے ہم جنسی قانون کا مذاق اڑا رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا انڈین ڈوگس کتنے کلچرڈ ہیں کہ اپنا ننگ پن دم سے چپاتے ہیں۔ کتا اچانک ڈبہ کی جانب لپکا جس کی کھڑکی میں سے ایک مسافر نے اپنی جھوٹن اس کی طرف پھینکی جو غلیظ کپڑے پہلے، بھیک مانگ رہا تھا۔ کتا لپک کراس دونے کو اٹھا کر لے گیا۔ بچے کی بھیگی ہوئی مایوس آنکھیں اسٹیشن کی دیوار پر اشتہار پر ٹنگ گئیں ’’میرا بھارت مہان ہے‘‘ ۔۔۔۔ زندگی کے بوجھ میں دھنسا بچہ زور زور سے آواز لگا رہا تھا ’’آج کی تازہ خبر بچوں سے مزدوری کرانا اپرادھ ہے۔‘‘ ۔۔۔۔ ’’معصوم بچی سے ایک مرد نے منہ کالا کیا‘‘، ’’کمیشن نے گھٹالے میں ملوث چیف منسٹر کا منہ صاف کیا‘‘ ۔۔۔۔، ’’فساد میں ایک ہی فرقہ کے پولس کی گولی سے چار افراد ہلاک‘‘ ۔۔۔۔‘‘

غربت، عدمِ رواداری، عورت کا تحفظ اور عدم تحفظ، کرپشن اور فساد، یہ تمام وہ مسائل ہیں جن کے اوپر پہلے بھی کہانیاں لکھی جاچکی ہیں اور حال میں بھی لکھی جا رہی ہیں کہانی کار کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان تمام مسائل کو منظر نگاری کے ذریعے صرف چند جملوں میں بیان کر دیا ہے۔ چونکہ یہ افسانہ کہانی کے موضوع پر ہی لکھا جا رہا ہے اور کہانی کے دوسرے حصے میں جہاں مختلف زاویوں سے جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کہانی ازل سے تا حال زندہ ہے۔ گویا شعوری یا غیر شعوری طور پر کہانی کار نے ابتدائے کہانی میں ان موضوعات کی طرف اشارہ کر کے کہانی کے موجود ہونے کی راہ ہموار کی ہے جب کہ دوسرے حصے میں اس کو حتمی شکل دیتے ہوئے اس کے وجود پر مہر ثبت کر دی ہے۔

کہانی کے اس پہلو سے قطع نظر ہمیں اس کہانی میں بعض بے ربط جملے بھی نظر آتے ہیں بعض دفعہ اس کو پڑھتے ہوئے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی عبارت کا اردو ترجمہ پڑھ رہے ہیں۔ اوپر کی گئی گفتگو سے کہانی کے مربوط ہونے کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ افسانے میں چونکہ وقت کم ہوتا ہے اس لیے توجہ کا مرکز کہانی رہتی ہے اس لیے ہم یہ سوال نہیں کر سکتے کہ وہ لڑکی جو کہانی سنا رہی ہے کون ہے، کیا کرتی ہے اور وہ ہندوستانی ہے یا غیر ملکی۔ اس کہانی میں یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں وضاحت نہیں ملتی۔ کہانی کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ علامتی ہونے کے باوجود خشک نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں موقع بہ موقع عورت کی ذات، اس کے حوالے سے ان باتوں کا بھی ذکر آتا رہا ہے جوان کا گوشۂ نرم ہے۔ مثلاً اس کا شباب، اس کے خط و خال وغیرہ۔ پھر اخیر میں بحث کے دوران بوڑھے کا یہ جملہ کہ کہانی بن گئی اور رات کے ایک بجے کا وقت بتانا یہ وہ پہلو ہیں جن سے رومانس کا پہلو بھی نکلتا ہے۔

کتاب کا دوسری کہانی ’’ویٹنگ روم‘‘ ہے۔ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد بادی النظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہانی ایک ایسے شخص کی سوچ پر مشتمل ہے جو کہ اپنے آبائی وطن کے سفر کے ارادے سے رختِ سفر باندھ رہا ہے اور وہ اپنے سامنے کو پیک کر کے ٹرین پکڑنے کی غرض سے اسٹیشن پہنچ جاتا ہے۔ اسٹیشن پہنچ کر ٹرین کے انتظار میں وہ ویٹنگ روم میں داخل ہوتا ہے اور ایک نشست پر بیٹھ جاتا ہے، اپنے سامان کو ایک کونے میں حفاظت سے رکھ دیتا ہے۔ اس دوران وہ مختلف خیالوں کے درمیان گھر جاتا ہے۔ مثلاً کبھی وہ ویٹنگ روم کے در و دیوار کو دیکھتا ہے اور وہاں کی اشیا کا جائزہ لیتا ہے۔ کبھی وہ سوچتا ہے کہ اس کے آباء و اجداد نے اپنے آبائی وطن کو خیرباد کیوں کہا تھا۔ شاید کوئی مجبوری رہی ہو گی۔ کبھی وہ یہ سوچتا ہے کہ اب وہ بوڑھا ہو گیا ہے اور اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر سفر پر روانہ ہو رہا ہے، اس دوران کوئی بیماری نہ ہو جائے کیونکہ پیرانہ سالی میں چھوٹی بیماری بھی بڑی ہو جاتی ہے۔ کبھی وہ دنیا کے حالات، مسائل اور مصائب کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ کبھی وہ ویٹنگ روم کے در و دیوار پر نظر دوڑاتا ہے۔ دیواروں پر لگی تصاویر کو بغور دیکھتا ہے ان سے مختلف نتائج برآمد کرتا ہے۔ مثلاً کسی تصویر کو دیکھ کر اس کو اپنی بیوی کی یاد آتی ہے، کسی تصویر سے سچ بولنے کا دردناک انجام عیاں ہوتا ہے۔ کوئی تصویر اتحاد، آزادی، قانون اور سیاست داں کی طاقت جیسی علامت بن کر سامنے آتی ہے، کوئی تصویر دنیا کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں یعنی اس کی رونق، ترقی اور رنگارنگی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر موجود مصائب و معائب کی نشان دہی کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔ ان تصویروں کو دیکھنے کے ساتھ ہی کہانی کا راوی یہ بھی سوچتا ہے کہ تصویریں اگرچہ دنیا مافیہا کی مختلف اچھے اور برے گوشوں کو نمایاں کرتی ہیں اس کے باوجود بحیثیتِ تصویر اور پینٹنگ کتنی خوب صورت نظر آ رہی ہیں۔ پھر اچانک وہ سوچتا ہے میں تو ایک مسافر ہوں مجھے ان تصویروں سے اور ویٹنگ روم کی زیب و زینت سے کیا لینا دینا مجھ تو چند لمحے یہاں قیام کرنا ہے اور جب ٹرین آ جائے گی تو اس پر سوار ہو کر سفر پر روانہ ہو جانا ہے۔ اخیر میں مختلف خیالات اور وساوس کے درمیان الجھ کر بوڑھا مسافر جو کہ اس کہانی کا راوی بھی ہے اتنا تھک جاتا ہے کہ ٹرین آنے پر وہ از خود سوار نہیں ہو پاتا ہے بلکہ دوسرے لوگ اس کو سہارا دے کر سوار کراتے ہیں۔

یہ کہانی کا وہ مفہوم ہے جو ہمیں کہانی کو پڑھنے کے بعد بادی النظر میں سمجھ میں آتا ہے۔ اگرچہ افسانے کا یہ مفہوم اور اس کا موضوع بذاتِ خود اہم ہے اور لائقِ توجہ ہے لیکن اس افسانے کو ذرا غور سے پڑھنے سے ایک دوسرا مفہوم بھی سامنے آتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہو گی کہ راوی تو اپنی جگہ وہی ایک بوڑھا شخص رہے گا۔ لیکن ویٹنگ روم، ٹرین، سامانِ سفر وغیرہ کا مفہوم بدل جائے گا۔ چنانچہ اس زاویے سے اگر افسانے کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بوڑھا شخص جو کہ اپنے آبائی وطن کے سفر کی تیاری کر رہا ہے وہ در اصل سفرِ آخرت کی تیاری کر رہا ہے کیونکہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ بات مسلّم ہے کہ دنیا میں آنے والے تمام لوگوں کا اصل مکان آخرت ہے جہاں ان کو ان کے اعمال کے اعتبار ٹھکانہ دیا جائے گا۔ وہ دنیا میں کچھ لمحوں کے لیے آتے ہیں اس کے بعد وہیں لوٹ جاتے ہیں۔ الغرض یہ کہ یہ بوڑھا شخص سفرِ آخرت کی تیاری کر رہا ہے اور جو سامانِ سفر وہ باندھ رہا ہے جس کو وہ بار بار چیک کرتا ہے کہ اس میں کون سی چیز ضروری ہے اور کون سی غیر ضروری وہ در اصل اس کے اعمال ہیں۔ چنانچہ اسے تلاش کرنے پر ایسے اعمال کی کمی نظر آتی ہے جن کی وہاں ضرورت پڑتی ہے۔ ویٹنگ روم جہاں بیٹھ کر وہ ٹرین کا انتظار کر رہا ہے وہ در اصل دنیا ہے۔ وہ بار بار وٹینگ روم کی زیب و زینت کی فکر میں لگا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان دنیا کی زیب و زینت میں کھو کر اپنے اصل مقصد سے غافل ہو جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ یہ اس کا عارضی قیام ہے۔ ٹرین موت کی علامت ہے۔ یعنی وہ شخص اپنی موت کا انتظار کر رہا ہے کہ اب وہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے اب اس کی موت کسی بھی وقت آ سکی ہے لہٰذا مرنے سے پہلے ایسے اعمال جمع کر لینے چاہیں جو موت کے بعد کام آئیں۔ اسی لیے وہ شخص اپنے سامان کو بار بار چیک کرتا ہے اس میں کتنے اعمال ایسے ہیں جو مرنے کے بعد کام آئیں گے۔ وہ خانۂ کعبہ کی جس تصویر کو تلاش کرتا ہے اور وہ نہیں ملتی ہے در اصل اشارہ ہے اچھے اعمال کی کمی کی طرف۔

کہانی کو اگر ظاہری معنی میں ہی رکھا جائے تو یہ بھی ایک اہم موضوع ہے۔ جو گذشتہ نصف صدی سے کہانی کاروں کے یہاں بطور موضوع مختلف زاویوں سے آتا رہا ہے۔ کیونکہ موجودہ دور میں اپنے آبائی وطن سے دوری ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ اپنے آبائی وطن سے دور ہو کر اپنی اصل سے دورہو گئے ہیں۔ کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتاکہ اس کا ذکر بھی کیا جائے۔ کسی کو فرصت ہی نہیں اس مکان کی طرف دیکھنے کی جس کو ان کے آباء و اجداد نے خون پسینہ لگا کر بنایا تھا۔ جہاں ان کا بچپن گزرا تھا۔ جب خود ان کو اس کے دیکھنے کی اور حفاظت کرنے کی فکر نہیں ہے تو پھر ان کے بچّے کیوں اس کی فکر کریں۔ اس کے ذکر کے وقت بچوں کے چہروں سے بے دلی ظاہر ہونا یقینی بات ہے۔ اس سلسلے کہانی سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’جد امجد نے اپنا وطن خیرباد کیا۔ محل نما رہائش گاہ کو چھوڑنے میں بڑا ہی دکھ ہوا کافی عرصہ تک زبان در زبان اس کا چرچہ ہوا۔۔۔۔ اب تو کبھی یاد آئی تو آپس میں ذکر ہو گیا۔ نسل کے بوڑھے اپنا وطن یاد کرتے، یاد کر کے آہیں بھرتے ان کی آواز میں بڑا درد اور لہجہ رقت آمیز ہوتا۔ نوجوان اور بچّے کبھی اس ذکر میں شامل ہوتے تو بے دلی ان کے رویّے سے ظاہر ہوتی نہ تو کبھی توجہ دیتے اور سنجیدگی کا ہمیشہ فقدان ہوتا۔ جب وہی بچّے سنِ پیرانِ سالی کو پہنچتے تو ذکر ان کی دلچسپی کا سبب بن جاتا اور وہ بھی اپنی غریب الوطنی کا شدت سے احساس کرنے لگتے اس کا ذکر کرتے وقت ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں یہ سلسلہ دیرینہ وقتوں سے اسی طرح جاری ہے۔ اپنا وطن واپسی کے لیے دلی یا بے دلی سے تیاریوں میں مصروف دکھائی دینے لگتے۔‘‘

درجِ بالا اقتباس سے سطورِ بالا میں بیان کیے گئے راقم کے نقطۂ نظر کی بخوبی تائید ہوتی ہے کہ زندگی بھر روزی روٹی اور دوسرے مسائل میں اس قدر الجھ جاتا ہے کہ اس کو اپنے مرجع و ماویٰ کی طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی خواہ وہ اس کا وطنِ حقیقی ہو یا وطنِ جدّی۔

خلاصہ یہ کہ یہ افسانہ اپنے ظاہری اور علامتی دونوں معنوں کے اعتبار سے اہم ہے اور اس کا موضوع موجودہ دور کا اہم موضوع ہے۔

افسانہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ کو اگر ہم عورت کی جنس کی روئداد کہیں تو غلط نہ ہو گا۔ اس میں اس کی پیدائش سے لے کراس کی زندگی گزارنے اور جینے تک کے واقعات بیان کیے گئے ہیں کہ کس طرح خدا نے پہلے آدم کو بنایا پھر حوّا کی شکل میں اس صنف کا وجود ہوا۔ اس کے بعد کیا واقعات رونما ہوئے کس طرح وہ دونوں دنیا میں آئے، کس طرح وہ دونوں دنیا میں آئے، کس طرح وہ فساد کی جڑ بنی، کس طرح اس کی وجہ سے دنیا میں پہلا قتل ہوا۔ کس طرح اس کو استعمال کیا گیا، اس کا استحصال کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ مدعا یہ ہے کہ عورت کو کمزور اور استعمال کی چیز سمجھا گیا۔ اس کا جواب افسانے میں واضح طور پر دو ٹوک انداز میں تو نہیں دیا گیا ہے لیکن اگر مکمل افسانے کو پڑھنے کے بعد محاسبہ کیا جائے تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ کہانی کار عورت کی حمایت میں لکھ رہا ہے، اس کے دکھ درد کو بیان کر رہا ہے، اس کی داستان کو اس کی زبانی بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کہانی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں عورت کی روداد بیان ہونے کے ساتھ ساتھ ان اسباب و علل کی نشان دہی بھی ہوتی ہے جن کی وجہ سے عورت اور مرد کے درمیان یہ جھگڑا اور فساد پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ ابتدائے کہانی میں جہاں وہ اس صنف کی پیدائش کی غرض و غایت بیان کر رہے ہیں وہیں پر اس کی خصوصیات اور مرد کی خصوصیات بھی بیان کرتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’۔۔۔ بے جفت بے حاجت ہی کی مرضی تھی کہ اُن کا جفت و ہمسر پیدا کرے جب وہ بے قرار اور بے سکون ہوئے، عالمِ تنہائی سے خوف زدہ ہوئے تو ان کو خواب میں ڈالا گیا وہ ایسے سوئے کہ نہ نیند آئی نہ بیدار ہوئے اس صورت میں ایک ہڈی بائیں پہلو سے اس طرح نکلوائی کہ اس سے اس کو دردو الم نہ پہنچا اگر پہنچتا محبت عورتوں کی دل مردوں کے نہ ہوتی خیر ہوئی یہ دردِ تخلیق میرے سر جاتا۔۔۔ اس ہڈی سے مجھے بنایا۔ مجھ کو بنایا نیک روئی و ملاحت اور حسن و جمال۔ اس کو بخشیں زیرکی و شرم اور شفقت و کمال۔‘‘

اگر اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد آج کے جھگڑے اور فساد کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ کیونکہ مرد و عورت ہر دو کی تخلیق ایک ہی خدا نے کی ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے۔ جھگڑا اورفساد جب شروع ہوتا ہے جب قانونِ فطرت کے خلاف دونوں میں سے کوئی قدم اٹھاتا ہے، تب ہی وہ خلفشار اور بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے جو اس کہانی میں بیان ہوا ہے۔ اس کی تائید اس کہانی کے ایک اور اقتباس سے ہوتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’۔۔۔۔ میں نے نوکری کے ساتھ ساتھ ایک ہاؤس وائف کی تقریباً سب ہی ذمہ داریاں اوڑھ لی تھیں۔۔۔ حالات اور مصروفیات میں، میری پوری حصّہ داری تھی۔۔۔۔ لیکن میں مختار کی حصہ داری ڈھونڈنے لگی۔ یہیں سے عورت کی زندگی میں انتشار شروع ہوتا ہے اور بگاڑ تک نوبت آ جاتی ہے۔ کچھ دن کے بعد زندگی کے معمولات میں فرق پڑنے لگا جو میری امیدوں کے خلاف تھا۔۔۔۔ زندگی سکڑ کر بہت مختصر ہو گئی تھی۔ نوکری کے بعد مجھے صرف گھر دیکھنا تھا اور مختار آزاد تھا، گھریلو زندگی سے اسے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔‘‘ (ص ۴۳۔ ۴۴)

چونکہ اس افسانے میں مِتھ (Myth) کا حوالہ بار بار دیا گیا ہے اس لیے یہاں پراس کے حوالے سے بھی بات کی جا سکتی ہے۔ مِتھ یہ پابندی نہیں لگاتی کہ عورتیں یا لڑکیاں تعلیم حاصل نہ کریں بلکہ ان کوتعلیم یافتہ اور با شعور ہونا از حد اس لیے ضروری ہے کیونکہ گھرکی تعمیر اور تخریب بہت حد تک اس پر منحصر ہے۔ وہ چاہے تو گھر کو جہنم بنادے اور چاہے تو بقعۂ نور بنادے۔ لہٰذا اگر وہ تعلیم یافتہ ہو گی تو وہ تمام مسائل کو بخوبی حل کرنے میں کیامیاب ہو سکے گی اور تمام لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں دشواری پیش نہیں آئے گی۔ بگاڑ در اصل جب پیدا ہوتا ہے جب اوپر پیش کیے گئے اقتباس میں بیان کردہ حالات پیدا ہو جائیں۔ جیسا کہ اوپر بھی کہا گیا تھا کہ جب کبھی کوئی شخص قانونِ فطرت کے خلاف کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہیں سے بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض دفعہ از حد زیادتی اور ظلم و تشدد کا شکار خواتین ہوتی ہیں لیکن وہاں بھی مسئلہ قانونِ فطرت کی خلاف ورزی کاہی ہے۔ فطرت نے جس کو جس مقصد کے لیے بنایا ہے وہ اگر اس کام کو تن دہی سے انجام دیتا رہے تو یقیناً یہ صورت حال پیدا نہ ہو۔ ہر ایک کی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ اگر کوئی ان ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے کوئی اضافی ذمہ داری بھی ادا کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہے لیکن اس صورت میں چونکہ یہ اس کی اپنی پسند ہے اور اس نے یہ ذمہ داری خود لی ہے اس لیے اس میں آپ کسی کو ذمہ دار یا قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ اس کی جو ذمہ داری ہے وہ ادا کر رہا ہے۔ اگر نہیں ادا کر پاتا ہے آپ مضبوطی کے ساتھ اس سے اپنے حق کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ یہ کہانی میتھولوجی اور سماجی و معاشرتی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے صنفِ نازک کے مسائل کے بیان میں کامیاب رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کہانی کا عنوان ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ ہے اور اس کا موضوع عورت ہے جو کہ بائیں پہلو کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ اس سے بھی کہانی کار کی دو رویہ سوچ ہمارے سامنے آتی ہے۔

افسانہ ’’دھواں دھواں خواب‘‘ اچھائی اور برائی کے درمیان کشمکش کی بہترین مثال ہے۔ پورا افسانہ خواب پر مشتمل ہے جس میں راوی ایک ریگ زار میں گھوم رہا ہے اور ایک خوف ناک سایہ اس کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ جب کبھی راوی کسی سایہ دار درخت کی آڑ میں بیٹھتا ہے تووہ سایہ غائب ہو جاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ وہاں سے چلتا ہے وہ سایہ دوبارہ اس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک درخت کی آڑ میں سستانے کے لیے رکتا ہے تو درخت میں سے ایک سانپ پھن نکال کر اس کے سامنے آ جاتا ہے۔ پھر وہ سانپ سے بچنے کے لیے وہاں سے بھاگتا ہے اور وہ سانپ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ بھاگتے ہوئے وہ شخص ایک ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں دائیں طرف باغات ہیں جب کہ بائیں طرف خوف ناک منظر ہے جہاں ہر طرف چیخ و پکار اور آہ و بکا مچی ہوئی ہے۔ اسی اثنا میں سانپ اس کی گردن کو جکڑ لیتا ہے اور اس کی پیشانی پر ڈس لیتا ہے جس سے وہ بے اختیار چیخ پڑتا ہے کہ ’’میں مرگیا‘‘اس کی چیخ سن کراس کی شریکِ حیات پوچھتی ہے کیا ہوا اس کی آواز سن کر وہ بیدار ہو جاتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ حقیقت ہے تو پھر وہ کیا تھاجس میں میں اپنی موت کو قریب سے دیکھ رہا تھا۔

جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا ہے کہ یہ کہانی اچھائی اور برائی کے درمیان کشمکش کی بہترین مثال ہے۔ چنانچہ کہانی کو بغور پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا ہے کہ یہ کہانی در اصل علامتی انداز میں حسنات و سیئات، جنت اور جہنم کا بہترین نقشہ کھینچتی ہے۔ اس کے لیے خواب کی تکنیک اختیار کی گئی ہے اور اخیر میں بالکل فطری انداز میں کہانی کار راوی کو خواب کی دنیا سے مادّی دنیا میں واپس لے آ تا ہے۔ اگر اس کی وضاحت کی جائے تو وہ خوف ناک سایہ اس کے اعمالِ بد ہیں جو ہمہ وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ سایہ دار درخت جن کی آڑ میں اس کو سکون اور آرام محسوس ہوتا ہے وہ اس کی نیکیاں ہیں جو خوش گوار احساس دیتی ہیں اور انجامِ بد سے محفوظ کرتی ہیں۔ وہ پگڈنڈی جس پروہ دوڑ رہ ہے وہ پل صراط ہے جس کے دائیں جانب باغات اور انواع و اقسام کے پھلوں کے درخت ہیں۔ وہ اس راستہ کو عبور کرنے سے پہلے ہی گر جاتا ہے یہ در اصل اس اسلامی نظریہ کا بیانیہ ہے جس کے مطابق جس شخص پاس برائیاں زیادہ اور نیکیاں کم ہوں گی وہ پل صراط کو عبور نہیں کر پائے گا اور درمیان میں ہی گر پڑے گا۔

’’نیلم‘‘ تین صفحات پر مشتمل ایک مختصر سی کہانی ہے۔ لیکن کہانی کار نے اس مختصر کہانی میں اپنے فنی کمالات کا بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ مظاہرہ کیا ہے۔ اس کہانی کو عشقیہ کہانی کہا جا سکتا ہے۔ اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ مصنف نے اس میں ہوس اور جذبۂ عشق کے درمیان فرق کو بہ خوبی بیان کیا ہے کہ عشق ایک روحانی جذبہ ہے جس میں ہوس کا دخل نہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ کہانی میں بھی جب تک دونوں کردار اس جذبہ کو محسوس کرتے ہوئے ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے ہیں ایک عجب لطف اور سرور حاصل ہوتا ہے جو کہ روح میں اترتا جاتا ہے اور جیسے ہی اس میں ہوس کی آمیزش ہوتی ہے وہ پُر مسرّت جذبہ ختم ہو جاتا ہے اس کی جگہ نفرت لے لیتی ہے۔

اس کہانی میں مصنف کی منظر نگاری اور استعارہ و تشبیہ کا استعمال فن کارانہ انداز میں کیا ہے۔ بطور نمونہ اقتباس پیش ملاحظہ ہو:

’’بحر افق کے مغربی ساحل پر خون میں ڈوبی ہوئی شفق بکھر گئی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا رنگ پھیکا ہو گیا اور چمپئی اندھیرا فضا میں پھیلنے لگا۔ تب ان دونوں کو احساس ہوا کہ آسمان رنگ بدلتا ہے۔ اس سے پہلے کہ سیاہ قبا دو سائے اپنے اندر لپیٹتی

’’اف کتنی دیر ہو گئی‘‘ نیلم اپنی ساڑھی سنبھالتی ہوئی ایک دم کھڑی ہو گئی جیسے خواب سے بیدار ہو گئی ہو

اس نے جھٹ سے ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب بیٹھا لیا اور گھوٗرنے لگا۔

’’کیا دیکھ رہے ہو‘‘؟

’’جلوۂ کائنات۔۔۔ بار بار دیکھنے پربھی نظر کی تشنگی دور نہیں ہوتی۔‘‘

نیلم رنگ بحر سائبان میں ملبوس جسم کے بالائی حصے پر بادلوں کو لپیٹے ہوئے تھی۔ گہرے کٹے گلے کی گولائی سے اس کی دوشیزگی جھانک رہی تھی۔ کمر پر کھلے بال بے ترتیبی سے ہلکی ہوا پر رقص کر رہے تھے۔ فضا ساکت تھی۔ کائنات کی نبض رکی ہوئی تھی۔ دلوں کی دھڑکنیں ماحول میں رس گھول رہی تھیں۔‘‘

درج بالا طویل اقتباس میں ’’حسنِ فطرت بولتا ہے اور قدرت ہمیشہ خاموش رہتی ہے‘‘، ’’سیاہ قبا دو سائے اپنے اندر لپیٹتی‘‘، ’’جلوۂ کائنات۔۔۔ بار بار دیکھنے پربھی نظر کی تشنگی دور نہیں ہوتی‘‘ خوبصورت استعاراتی جملے ہیں۔ ابتدائی سطور میں اس کہانی کے حوالے سے جو رائے پیش کی گئی تھی اس کی تائید بھی اس اقتباس کے بعض جملوں سے ہو جاتی ہے کہ عشق ایک ایسا روحانی جذبہ ہے جس میں ہوس کی کوئی گنجائش نہیں۔ عشق روح سے ہونا چاہیے جسم سے نہیں، گوشت پوست سے نہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں:

’’دور افق پر زمین اور اسمان ایک ہو جاتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ نظر کا دھوکا ہے۔‘‘

………

’’اس کائنات میں فاصلہ حقیقت ہے اور تربیت نظر کا فریب ہے۔‘‘

اس کے برخلاف اگر عشق میں ہوس شامل ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہو گا اس کا اظہار بھی کہانی کار نے بیان کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جب وہ باہر نکلا اس کا پورا بدن نیلاہو چکا تھا۔ بستر کی نیلی چادر پر کالے رنگ کی سلوٹیں بن گئی تھیں۔ اس کے نیلے لباس پر سیاہ دھبّے بدنما لگ رہے تھے۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں آنکھوں میں قید تمام مناظر بکھر گئے۔ بے ہنگم سانسوں کا سلسلہ تھما۔ ہاتھوں کے تنگ دائرہ کو ڈھیلا کیا۔۔۔ اس کی نظر میں بستر پر پڑے بے سدھ برہنہ جسم پر جم گئیں جو اُس کی نوکرانی تھی۔

جھٹکے کے ساتھ وہ بستر سے اتر کر زمین پر کھڑا ہو گیا ’’فیروزہ باہر نکل جاؤ میں تم سے نفرت کرتا ہوں‘‘ اس کی نظر نیلم پر گئی وہ چٹخ چکا تھا۔‘‘

یہیں پر کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اس میں جذبۂ روحانی اور وصلِ جسمانی کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے ساتھ دھوکا فریب اور خیانت کی طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے۔

ان کہانیوں کے تفصیلی مطالعے سے احمد رشید کی جو خصوصیات سامنے آتی ہیں ان میں اہم اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان کہانیوں میں علامتوں کے بیان ساتھ ساتھ ان میں کہانی پن بھی برقرار ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے اوپر افسانے کی وہ تعریف مکمل طور پر صادق آتی ہے کہ ’’افسانہ وہ مختصر کہانی ہے جو ایک بیٹھک میں پڑھ لیا جائے۔‘‘ اس وجہ سے ان کہانیوں کو پڑھنے سے اکتاہٹ نہیں ہوتی ہے۔ ساتھ ہی وہ قاری کی دلچسپیوں کا خاص خیال رکھتے ہیں جیسے کہ جملے کیسے تراشے جائیں، کہانی میں مزاحیہ عناصر کا استعمال کب اور کیسے کیا جائے، کن موضوعات پر قلم اٹھایا جائے اور کن سے گریز کیا جائے، یہ ایسے عناصر ہیں جن پر ہر فن کار کی نگاہ ہونی چاہیے۔ احمد رشید نے اپنے افسانوں میں کئی اہم موضوعات کی طرف نشاندہی کی ہے جن میں عدم مساوات، جنسی میلانات، سماجی ناہمواری اور سیاسی استحصال وغیرہ کافی اہم ہیں۔

٭٭٭

کتاب "کھوکھلی کگر”: احمد رشید علیگ، تنقیدی مطالعہ/ تفصیلی جائزہ/ڈاکٹر فریدہ تبسم

چند دن قبل پوسٹ سے محترم احمد رشید علیگ صاحب کی تیسری کتاب "کھوکھلی کگر” افسانوں کا مجموعہ موصول ہوئی۔ سب سے پہلے صاحب کتاب کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ آپ نے ناچیز طالبہ کو یہ پر خلوص تحفہ عنایت فرمایا۔ دل کی گہرائیوں سے ہم شکریہ ادا کرتے ہیں۔

زندگی کی منافقت نے رشتوں کو ایسا بے توقیر کر دیا ہے کہ ہر کوئی اپنی محدود دنیا میں محصور ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے ناسازگار حالات میں قلم کے ذریعے معاشرہ کو پیغام دینا اور درس دینا تخلیق کار کا فریضہ ہے۔ ایسے میں بہترین تخلیقات انسان کو کچھ پل سکون میسر کرتے ہیں اور کچھ حد تک عمل کی طرف راغب کرتے ہیں۔ غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ایسے دور میں یہ کتابیں ہمارے بہترین ساتھی بن جاتے ہیں۔

"کھوکھلی کگر” احمد رشید علیگ کا افسانوی مجموعہ ہے اس میں من جملہ 13 افسانے ہیں۔

اس کتاب کا، انتساب۔۔ ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔۔ کہ۔۔

"پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر قدوائی اور پروفیسر مولا بخش کے نام”

شعر غالب۔۔

زمانہ سخت کم آزاد ہے، بہ جان اسد

وگر نہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں

(غالب)

فنکار در اصل معاشرہ کا نباض ہوتا ہے۔ معاشرہ کی ان کہی باتوں کی نہ صرف عکاسی کرتا ہے بلکہ اس کا ترجمان ہوتا ہے۔ اور کئی دفعہ فنکار خود کو اجاگر کرتا ہے اس کی داخلی کرب زندگی و معاشرہ سے بیزار ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ ایسا ماحول و معاشرتی نظام نہیں چاہتا اس میں تبدل و تغیر چاہتا ہے۔

اس کتاب کی تخلیقات میں تلازم خیال کو تخلیقی بصائر کے ساتھ برتنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ ان کے بیشتر افسانے عصری مسائل اور فکری رجحانات کے ترجمان ہیں۔ سطحیت کے بجائے کہیں کہیں بین السطور میں معنویت پوشیدہ ہے۔

"پیشین گوئی” افسانہ سے یہ اقتباس۔۔۔

’’مجھے یاد ہے آسمان پر ستارے چمک رہے تھے اور ستارے میرے جسم میں چیونٹیاں بن کر داخل ہو گئے تھے اور وہ چیونٹیاں میری رگوں میں رینگ رہی تھی میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے یہ رونگٹے کسی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک نامعلوم جذبہ کے اثر سے کھڑے ہو گئے تھے اور قابوس بستر پر سو رہا تھا تھا نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ جاگ رہا تھا تھا کہ میں اس کی حفاظت کروں لطف کی بات یہ ہے کہ اس کا مقام "خدا” کا تھا تھا۔ پھر بھی اسے یہ ڈر تھا غلام گروپ میں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جو اس کی سلطنت پر طوفان بن کر چھا جائے گا‘‘

حکمران پر طنز اور خدا بن بیٹھے حکمران کو آگاہ کیا گیا ہے۔

ان کے افسانوں میں سیاسی، سماجی، مذہبی، مسائل کی عکاسی کی گئی ہے اور تہذیبی اقدار کو مادیت پرستی کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے۔

اور بالخصوص عورت کا استحصال تانیثی تناظر میں۔ عورت کی عظمت اس کا وقار مرد اساس معاشرہ میں درد و کرب کے ساتھ بیان کیا ہے اور اسلامی اساطیر، ہندو میتھالوجی، انسانی نفسیات، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی مختلف جہات۔ عرفان ذات، داخلی کرب میں مبتلا مسائل کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ خوبصورت دلکش مناظر قاری کو آخر تک باندھے رکھتے ہیں تجسس ایسا ہے کہ قاری کی جستجو بڑھتی جاتی ہے۔۔۔

"کھوکھلی کگر” سے یہ دلکش منظر پیش ہے۔۔۔

’’چند لمحوں کے لئے سکوت طاری ہو گیا کائنات چپ تھی فطرت بول رہی تھی دھوپ چٹک رہی تھی ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی آسمان صاف اور شفاف تھا دھنک خوشنما رنگوں کے ساتھ کمان کی طرح ایک کنارے پھیلی ہوئی تھی۔

اس نے نظر اٹھا کر منظر کو دیکھا۔ وہ سوچتی ہے تخلیق کے حوالے سے کیا خالق کو نہیں پہچانا جا سکتا فن کے حوالے سے فنکار کو سمجھنا مشکل ہے لیکن فنکار کے حوالے سے فن کو سمجھنا آسان ہے۔۔‘‘

کھوکھلی کگر کی سراپا نگاری ملاحظہ ہو۔

’’تمہاری نرگسی آنکھیں مہ نوش کے سرور کو بھلا دیں گلاب پنکھڑی ہونٹ فضا کو مہکا دیں۔ سیاہ زلفیں جہاں بکھر جائیں پریم ورشا سے منظر خوش رنگ ہو جائے‘‘

مجھے معلوم ہے شراب کا نشہ عارضی۔ پھولوں کی خوشبو قلیل وقتی، سیاہ زلفوں کی ورشا کبھی کبھی۔۔۔۔‘‘

دور حاضر کے حالات پر گہرا طنز ہے کہ۔۔۔

’’بزرگوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ انسانوں سے خطرات بڑھنے کے امکانات قوی ہیں جب بھی خوف کا ذکر ہوا تو انہوں نے سورج طلوع و غروب ہونے سورج کے نصف النہار ہونے اور نصف رات کے بعد بھورے سید والی گلی سے گزرنے پر پابندی لگا دی چونکہ وہاں بد روحیں رہتی ہیں‘‘

اس کتاب کے افسانوں کا مطالعہ سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان افسانوں کا اسلوب سادہ رواں بیانیہ بھی ہے اور کہیں فلیش بیک تیکنیک تو کہیں نیم علامتی اور استعاراتی عناصر سے مملو ہیں۔۔ اور کہیں کوزے میں سمندر کو بند کیا گیا ہے۔ ان متون میں جو تجربات پوشیدہ ہیں وہ مابعد جدیدیت کی عکاسی کرتے ہیں۔

لاشعور کو شعور کی حد میں لانے کی سعی پیہم کی گئی ہے۔ کچھ علامتی اشارے۔۔۔ وہ، سمندر، روشنی، رنگ، وقت، سورج، پرندہ، بجوٹ، مداری،، بھوت، بن باس، وغیرہ ہیں

رموز حیات و کائنات، زندگی کے نشیب و فراز کا سفر اور شکست و ریخت۔ فتح و کامیابی، ناکامی و نامرادی، افسردگی و نا امید ی۔۔ زندگی کے حقائق اور تہذیب و ثقافت کی تہہ میں انسانیت کی تلاش وغیرہ کو فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ رومانی و جنسی، نفسیاتی کیفیت، نئی نسل کے فکرو خیال کو بہت عمدگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

ہندوستانی سیاست اور معیشت کو مختلف النوع زاویہ نگاہ سے روشنی ڈالی گئی ہے

"بجوٹ” افسانہ سے یہ اقتباس:

’’ارے بھئ ہوتا ہے۔ کائنات کو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے سورج کو نہیں پھر بھی سورج چمکتا ہے‘‘

افسانہ۔۔ "ابتداء کی طرف واپسی”۔۔ میں در اصل تصوفانہ طرز تحریر بزرگ اور راوی کے درمیان فلسفیانہ گفتگو کے ذریعے تصوف کی معلومات فراہم کرتا مکالماتی بیان ہے۔ زیست، دنیا، ترک الدنیا، تذکیہ نفس، سلوک کے مرحلے، سمجھائے گئے ہیں۔ لیکن اس افسانہ میں افسانوی کیفیت کا رنگ گہرا نہیں قاری فلسفیانہ الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ مگر تصوفانہ رنگ گہرا ہے۔ کچھ مکالمے تارک الدنیا سے زندگی کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتے ہیں۔۔

یہ جملے۔۔۔

’’میزان حقوق العباد پر بنے گی۔ اور تمہاری آزمائش حقوق اللہ میں ہے۔ خدمت خلق کائنات کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ کتاب و سنت کی اتباع میں اللہ کی رضا ہے۔ ہر باطن، جس کا ظاہر مخالف ہے باطل ہے۔ ذکر و فکر اور شکر فضل کو وصل میں بدلنے کا راستہ ہے۔‘‘

’’تارک الدنیا ہونا۔۔ روحانیت اختیار کرنا۔ دوسرے ادیان کی پیروی ہے۔ ورنہ اسی دنیا میں تقویٰ کے ساتھ رہ کر دنیا سے بے رغبت رہنا اصل صوفی کا مسلک ہے۔

جنگل میں رہنے کے بجائے مخلوق خدا کے درمیان میں رہ۔۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے نیک بخت بنائے‘‘

اسی طرح ایک اور افسانہ۔۔ "دو سال بعد”۔۔

’’راوی مغربی کلچر وہاں کی آزاد فضا میں دو سال گزار نے کے بعد۔۔۔ اپنے وطن لوٹنے اپنے دیش کی سوندھی سوندھی مٹی کی سگندھ کے احساس سے اس کا ذہن ایک عجیب طرح کی فرحت و تازگی محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔‘‘

اس میں عورت کی نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔۔ ماں کا یہ احساس۔۔۔

’’عورت مرد کے بغیر بڑی کمزور ہوتی ہے۔۔۔۔ اب جبکہ تم اب پورے مرد ہو گئے ہو۔۔ تو میں تم کو اپنی طاقت سمجھتی ہوں‘‘

’’۔۔۔۔ یہ بات ماں کو کیسے سمجھاؤں عورت کمزور نہیں ہوتی بلکہ مرد کی شکتی ہوتی ہے۔۔۔۔ برما کی شکتی سچی، وشنو کی طاقت، لکشمی کی قوت پاروتی۔۔۔‘‘

"ویٹینگ روم”۔۔۔ اس افسانہ نے کافی ویٹ کروایا۔۔۔ فضا بندی اس قدر طویل تھی کہ سفر نامہ کی یاد آئی۔

پھر ویٹنگ روم کی تصاویر کے ذریعے زندگی کی بد صورتی کے ساتھ خوبصورتی بیان کر رہی ہیں۔۔ پوری کائنات ویٹنگ روم نظر آتی ہے اور کائنات ویٹنگ روم۔۔ تجریدی انداز میں تاریخ و تہذیب اور نظام کائنات اور مقصد حیات اور موت کی عکاسی کی گئی ہے۔۔

اس ویٹنگ روم میں تصاویر کے درمیان ایک جگہ خالی ہے۔۔۔ راوی کو خیال آیا کہ

’’۔۔۔۔ میرے متاع سفر میں میرا کچھ ہو نہ ہو لیکن برس ہا برس سے ایک تصویر رکھی ہوئی ہے جسے بڑی حفاظت سے لپیٹ کر میں نے رکھ رکھی ہے شاید آج کام آ جائے اس کے استعمال کا یہی مناسب وقت ہے اسے نکالا جائے اور اس خالی جگہ میں لگا دیا جائے‘‘

اس افسانہ میں سفر اور مسافر دنیا، معاشرہ، زندگی، متاع سفر۔ خود احتسابی تجریدی انداز میں بیانیہ میں آئی ہیں۔۔ مگر حسن بیانیہ منتشر خیالات کا اظہاریہ بن گیا ہے۔ کہیں کہیں قاری کو الجھن پیدا کر رہا ہے۔

"بجوٹ” افسانہ میں اولاد کی محرومی کا سبب عورت کو گردانا جاتا ہے اور اسے طلاق دے دیتا ہے جبکہ مرد خود اس کا سبب ہوتا ہے۔ دوسری شادی کے بعد بچہ کو دیکھ کر ڈاکٹر جاوید کا طنز ایک احساس جگاتا ہے۔۔ معاشرہ کے ان مردوں کے لئے ہے جو اولاد کی خواہش کے چکر میں دھوکہ کھاتے ہیں۔۔۔

’’”بچہ آپ ہی کا ہے۔۔؟؟ آپ کی پہلی بیوی کا کیا ہوا؟؟” ڈاکٹر نے کریدتے ہوئے پوچھا۔

"ضروری نہیں ہے بنجر زمین کی آبیاری کی جائے۔۔۔ میں نے طلاق دے دی۔۔۔” عارف نے کہا۔

"آپ نے بڑا کیا۔۔۔ کیوں۔۔۔؟؟”

"کیونکہ تمہاری پہلی بیوی ایک صابر، محتاط اور خود محفوظ عورت تھی۔۔”‘‘

اس افسانہ میں معاشرے کے اہم مسئلہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے کہ آج کل اولاد نہیں ہونے پر بابا کے چکر میں پڑتے ہیں۔ اور عورت ہی کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ نیک عورت کی قدر نہیں ہوتی۔۔۔ یہ کہانی اپنا پیغام پہنچا نے میں کامیاب ہے۔۔

"مداری” افسانہ۔ فسطائی طاقتوں جبر کی انتہا اور استحصال کے خلاف احتجاج ہے۔ ہندوستان کے متعصب حالات کی عکاسی کرتا ہے۔۔ کسی اور قوم پر اتنک وادی کہہ کر کس قدر ظلم و ستم کیا جا رہا ہے۔۔ یہ جملے۔۔

’’جموڑے نہ بننا خود آتنک کو بڑھاوا دینا ہے۔ جو جمہوڑا نہیں وہی اتنک وادی ہے۔ مداری کی آواز گونجی۔۔‘‘

’’ہیجڑوں کے تانڈو ناچ نے وقت کے قدم موڑ دیئے تھے مداریوں کی محفلیں جموڑوں میں بدل گئی تھی۔۔۔۔ ل۔۔۔ کن۔۔۔ لیکن۔ تماشائی بین کل بھی مظلوم تھے اور آج بھی مظلوم ہیں۔۔۔۔‘‘

ان کا افسانہ "بن باس کے بعد” ہندو متھیالوجی کے پس پردہ عورت کی نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔ معاشرے میں اس کا مقام اور اس کی عزت کے بارے میں نیم علامتی تجریدی انداز میں تانیثی تناظر میں لکھا گیا افسانہ ہے۔۔ جس میں عورت کا استحصال کی تلاش کرتا مبہم انداز ہے۔

’’پنچ پرمیشور کے فیصلہ کے مطابق۔۔ جان کی کو پاکیزگی ثابت کرنے کے لیے اگنی پر یکجا دینی ہو گی‘‘

’’جانکی کو محسوس ہوا کہ دریودھن نے بھری سبھا میں دروپدی کو ننگا کر دیا ہو۔ وہ سوچتی ہے۔ مردوں نے عورت کو جنم ہی سے دھورو کیڑا میں ہارا ہوا، دھن کی طرح استعمال کیا ہے۔ لیکن میرا مرد، میرا دیوتا، میرا راگھویندر گوتم رشی کیوں نہ ہوا۔ جس کے شاپ سے ایلیا کی طرح میں یہاں آنے سے پہلے پتھر کی طرح ہو جاتی، پھر میں بھگوان کی طرح نہ بولتی، نہ سنتی، نہ محسوس کرتی اور نہ روتی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔‘‘

افسانہ "وہ اور پرندہ”۔۔۔

اس افسانہ میں متفرق مسائل مختلف خیالات کے ذریعے زیر بحث بنایا گیا ہے۔ منتشر خیالات کا اظہار ایک علامتی استعارہ "پرندہ” کے ذریعے "وہ” کی تفہیم و توضیح اور ترسیل پیش کی گئی ہے۔

بجوٹ، پرندہ اور وہ، بن باس کے بعد، کھوکھلی کگر، وغیرہ میں انسان کی نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔ نفسیات فرد کے کردار یعنی ذہنی اعمال اور جسمانی اعمال حرکات کا سائنسی مطالعہ اس کے ماحول کی روشنی میں کرتی ہے۔ شعوری، لاشعوری، تحت شعور اعمال سے آگہی۔ جس میں حیاتیاتی، سماجی، نفسیاتی عوامل ہیں اس افسانہ میں بھی کردار کی ذہنی کیفیات کو ماضی کی بازگشت سے حال کی کیفیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ لیکن کہیں کہیں قاری الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ جملوں کی ساخت کا لطف خیالات کے اژدحام میں گم ہوتا نظر آتا ہے قاری یہ سوچتا ہے کہ یہی اگر ربط و تسلسل برقرار رکھ کر لکھا جائے تو اس میں ایک افسانوی دلچسپی کا عنصر نمایاں ہو جائے۔

ان کے افسانوں میں کہانی پن کا عنصر مفقود ہے۔ احمد رشید کردار کی نفسیات کے ذریعے مختلف جہات پیدا کرتے ہیں اور ان مسائل کے حل کی الجھن کو سلجھانے میں سرگرداں رہتے ہیں نقطۂ آغاز کو لے کر بالآخر نقطۂ اختتام میں یعنی کلائمکس میں اصل مقصد کا اشارہ مل جاتا ہے۔

ان کی کہانیاں تہذیبی و ثقافتی۔ اساطیری و توہماتی، فسطائی، تانیثی تناظر سیاسی معاشرہ کے بے ہنگم شور میں نفسیاتی کشمکش اعصاب پر حاوی کرب و انتشار کو عصری معنویت کے تناظر میں بیان کی گئی ہیں۔

"پرندہ اور وہ” کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں

’’یہ حقیقت تمہاری فطرت میں داخل ہو چکی ہے اور میں انسان کی فطرت سے انکار نہیں کرتا مگر میں ان فرسودہ روایتوں کا قائل نہیں ہوں ہو۔ جن کی وجہ سے انسان، انسان نہ بن کر کچھ درمیانی سی چیز ہو کر رہ گیا ہے انسان اپنی فطرت کے مطابق زندہ رہے۔ تب ہی حقیقی مسرت پا سکتا ہے در اصل تمہاری سوسائٹی نے جو روایتیں بنائی ہیں۔ مجھے ان سے انکار نہیں۔ میں محبت کا مخالف بھی نہیں ہوں جانتے ہو نکہت جسے تم اب دل کی گہرائیوں سے چاہنے لگے ہو وہ بھی اس روایت کی شکار ہے کہ محبت کی کامیابی یہ ہے کہ شادی ہو جائے لیکن محبت کی منزل شادی نہیں ہے۔۔۔ محبت ایک تمنا کا نام ہے۔۔۔ جس کی تکمیل کی کوئی گنجائش نہیں۔۔۔۔۔ یہ تو ایک راستہ کا نام ہے۔۔۔۔‘‘

محبت کی ناکامی میں انسان کی نفسیاتی کشمکش اعصاب پر حاوی ہو جاتی ہے۔ لاحاصل کا دکھ زندگی میں بار بار سامنے آ جاتا ہے۔ جس سے ذہنی الجھن بڑھ جاتی ہے۔

"پرندہ” انسانی ضمیر ہے اور کبھی یہ "انا” بن کر سامنے اتا ہے۔ اس لئے پھڑپھڑاتا ہے۔۔

افسانہ "بائیں پہلو کی پسلی” میں تلمیح علامتیں ہیں۔

یہ اقتباس عالم جہالت میں نور انوار کا طلوع ہونا یہ منظر۔۔

’’پوری کائنات بقعہ نور بن گئی چہار سمت انوار کی بارش ہونے لگی مشرق تا مغرب شمال تا جنوب بس نور ہی نور از بس سارا عالم بحر نور میں ڈوب گیا ایک ابر کا ٹکڑا نور مجسم پر سایہ بن گیا اور وہ نور مجسم سارے عالم پر سایہ بن گیا جب نورانی آنکھوں نے سارے عالم پر طائرانہ نظر ڈالیں تو آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں ہر جانب افراتفری کا عالم تھا ظلم و ستم کی آندھی زوروں پر تھی۔۔۔ زمین خاک و خون سے آلودہ ہو رہی تھی۔۔۔ آسمان سسک رہا تھا‘‘

یہ کتاب منفرد غیر مانوس اسلوب و رنگ کے ساتھ۔ قاری کو ایک الگ جہاں کی سیر کے مطالعہ کی دعوت دیتی ہے۔

اس کا بیانیہ۔۔۔ بین المتونیت میں انسان کی زندگی، خواب و سراب، دنیا و آخرت کے مخفی پہلوؤں کی عکاسی درون معنی پوشیدہ ہیں۔ کبھی یہ خوش رنگ و خوبصورتی میں ڈوبے ہوئے ہیں تو کبھی رنج و الم کا پیکر بن گئے ہیں۔۔ کہیں یہ گہرائی میں ڈوبے ہوئے ہیں تو کہیں سطحی انداز میں در آئے ہیں۔ عرفان ذات سے کائنات تک ماضی و حال زماں و مکاں کے اشارہ و کنایہ ابہام کی شکل میں اپنی تہذیبی اقدار پیش کرتے ہیں۔ ان کی زبان کہیں تخلیقی ہے تو کہیں بہت سادہ سطحی ہے۔

ان کے موضوعات میں کہیں کوئی مسئلہ درپیش ہے تو کہیں کوئی واقعہ ہے کہیں کوئی تلمیح اچانک سامنے آتی ہے تو کہیں زندگی کی رمق چھڑ جاتی ہے کہیں شب و روز کی الجھن ہے تو کہیں زندگی کے حقائق کی عقدہ کشائی ہے۔

ان کے افسانوں میں ایک کمزور پہلو کہیں کہیں نصیحتِ کا پہلو واعظانہ و خطیبانہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اور مسلسل واقعات ایک بعد دیگر پلاٹ میں بکھراؤ کی صورت پیدا کرتے ہیں۔

وعظ و نصیحت کے یہ جملے۔۔۔

’’پرندے میں قطع کلامی کرتے ہوئے کہا کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا لوگ مرنے والوں کو بھول جاتے ہیں ایک جان ہزاروں غم کس کس کو یاد رکھے۔۔۔ کیا وہ پاگل نہیں ہو جائے گا۔۔۔۔ اور پھر یاد رکھنے یا بھولنے سے اس کائنات میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا کوئی پیدا ہو جائے یا مر جائے تو کائنات کا نظام جس طرح چل رہا ہے چلے گا۔۔۔‘‘

ان کی منظر نگاری خوب ہوتی ہے اس کی فضا سے ماحول کی کیفیت کی عکاسی اس انداز میں کی گئی ہے کہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔

’’گرمی سخت ہے اس کی شدت سے پسینہ میں شرابور وہ جانب منزل گامزن ہے۔ نئی توانائی کے ساتھ نہ تکان، نہ تھکن بس لگن اور جب لگاؤ ہوتا ہے تو تو کانٹے دار کمل کی طرح

دھوپ مخملی چادر میں بدل جاتی ہے وہ تیز قدموں سے سڑک پر چل رہا ہے سامنے سے لال مٹی کی آندھی تیز رفتاری سے اس کے اوپر پر سخت دباؤ بنا رہی ہے اس میں دھکا سا لگتا، کپڑوں کو سمیٹتا ہوا سنسان راستے سے گزر رہا ہے ہے۔۔۔۔ دائیں ہاتھ پر قبرستان میں ہو کا سا عالم ہے اس کے آخری سرے پر پیاؤ کے برابر سے پہاڑ کی اونچائی کے لیے ایک چوڑا راستہ لال پتھروں سے پختہ کر دیا گیا ہے جو پہاڑ بابا کے نام سے مشہور ہیں کے مزار شریف پر زائرین کی بھیڑ جمعرات کی فاتحہ خوانی کے لئے جمع ہے باہر دروازے سے پانچ گز دور پیاؤ کے قریب آنے پر لوگ ٹھنڈا پانی پی رہے ہیں وضو کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔‘‘

ان کا رنگ اسلوب نیم علامتی، تمثیلی، استعاراتی۔ رمز و ابہام کے پس حجاب تخلیقی بیانیہ ہے۔

ابتدائی چند افسانوں میں قاری کو یہ احساس لاحق ہوتا ہے کہ اس افسانہ میں تشنگی کا احساس رہا۔ کہ یہ واقعہ ادھورا ہے یہ کہانی نامکمل ہے یہ خلش بے چین کئے ہے۔۔ پھر آخری چند افسانوں میں ربط و تسلسل کو منضبط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

احمد رشید کے افسانوں میں لاحاصل کی جنگ اور لا شعور کو شعور آگہی میں لانے کی سعی پیہم ہے۔ جدیدیت سے مابعد جدیدیت کے درمیان لکھے گئے افسانے گہرے مطالعہ کے متقاضی ہیں۔ بین المتونیت میں مختلف الجہات معنویت پوشیدہ ہے۔ زندگی کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کھوکھلی کگر یعنی زندگی کا کنارا۔ یعنی زندگی جس کگار پر آ گئی ہے۔ یہ زندگی کھوکھلی ہے۔ جس کا کوئی حاصل نہیں۔ کوئی کنارا نہیں۔

کھوکھلی کگر کے یہ جملے۔۔

’’بے شک جسد آب و گل ماں کی طرح طاہر، ممتا کی طرح پاکیزہ ہے۔ لیکن سطح آب سے تہ آب کا سفر کرو تو کائنات کے اندھیرے سے واقف ہو جاؤ گے جو طوفان کی مانند سیاہ اور تباہ کن ہے۔‘‘

وہ زندگی سے بیزار بھی نہیں راہ فرار اختیار نہیں کرتے بلکہ اس کی اہمیت کا اندازہ اس کا حسی ادراک۔۔ یہ جملہ۔۔

’’”زندگی بڑی حسین شئے ہے۔ انسان کو اس کی قدر کرنی چاہئے”۔۔ پرندہ نے گفتگو جاری رکھی۔‘‘

ہم اس افسانوی مجموعہ کے لئے افسانہ نگار احمد رشید صاحب کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہم پر امید ہیں کہ اگلا افسانوی مجموعہ قاری کے لئے مزید دلچسپی کا باعث ہو گا۔

٭٭٭

احمد رشید کی افسانوی کائنات/ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ

اردو شاعری میں غزل کاجو مرتبہ ہے نثر میں افسانہ کو وہی مقام حاصل ہے۔ یہ دو اصناف ہمارے فنکاروں کو کچھ زیادہ ہی عزیز ہیں۔ یہ بات مشہور ہے کہ جب بھی کوئی چیز یا صنف حد سے زیادہ مقبول ہو جاتی ہے تو وہ بسا اوقات بوالہوس کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کی آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ہمارے بعض فنکاروں نے ان دونوں اصناف کی آبرو سے کھیلنے کی کوششیں کیں لیکن بعض با شعور قلم کاروں نے ان کی نہ صرف آبرو بچانے کی کوشش کی بلکہ ان کے تقدس کو برقرار رکھا اور ان کو ایک شان عطا کی۔ احمد رشید کا شمار دوسری صف کے فن کاروں میں ہوتا ہے۔

افسانوی دنیا میں احمد رشید ایک مقبول نام ہے۔ جن کا تعلق سر سید احمد خان کے شہر علی گڑھ سے ہے، انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہی یم اے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ ایک زمانہ میں یہ بات مشہور تھی کہ علی گڑھ کا ہر دوسرا آدمی شاعر ہوتا ہے۔ زمانے کے ساتھ حالات کروٹ لیتے ہیں، زندگی کے تقاضے اور مانگیں بدل جاتی ہیں اور بسا اوقات وہ ما نگیں اور ضرورتیں انسان کو حالات اور زندگی سے سمجھوتہ کر لینے پر آمادہ کر لیتی ہیں اور اس کی لپیٹ میں ادب اور ادیب بھی آ جاتے ہیں۔

علی گڑھ جو علم کا گڑھ ہے وہاں سے اٹھنے والے احمد رشید ایک ایسے با شعور، بالغ نظر، پختہ فکر اور سنجیدہ افسانہ نگار ہیں جنہوں نے افسانے کے فن کو ایک معیار بخشا۔ جن کے یہاں پریم چند، بیدی، منٹو اور آزادی کے بعد جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا علامتی و تجریدی انداز بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیانیہ افسانوں کے انتہائی معنی خیز اور لایعنی فنّی تجربے، اس کے صدہا رنگ، اس بتِ ہزار شیوہ کی انوکھی ادائیں اور صد شیوہ جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ہر فنکار کا سفر زندگی کی نشو و نما کی طرح پروان چڑھتا ہے اور اپنا راستہ طے کرتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سسکتی بلکتی، ٹوٹتی بکھرتی غربت و افلاس کی زندگی کی تصوراتی و تخیلاتی کہانیاں تمام سہولیات سے پُر، ہوا دار کمروں میں آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر لکھتے ہیں جن کا راست تعلق زندگی کی کرب ناکیوں سے نہیں ہوتا۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی کو قریب سے نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ زندگی کا زہر پی جاتے ہیں۔ ان کا سروکار اپنی زمین، مٹی، آب و ہوا اور تہذیب سے ہوتا ہے۔ ان کے یہاں مجبوریاں، محرومیاں، نامرادیاں، رشتے ناطے، دکھ درد اور محبتیں گردش کرتی رہتی ہیں۔ ایسے فن کار زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرتے ہوئے تخلیقی تخم بوتے ہیں اور اپنے فن کی آبیاری کرتے ہیں۔ بقول شاعر

تو نے دیکھی ہی نہیں گرمیِ رخسارِ حیات

میں نے اس آگ میں جلتے ہوئے دل دیکھے ہیں

احمد رشید اسی قبیل کے افسانہ نگار ہیں۔ ایک عرصہ سے ان کے افسانے ملک و بیرونِ ملک کے مقتدر رسائل و جرائد میں مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں۔ تا دمِ تحریر ان کے دو افسانوی مجموعے ’’وہ اور پرندہ‘‘ اور ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ منصۂ شہود پر آ کر کافی شہرت پا چکے ہیں۔

احمد رشید نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے بھی پیار کیا، روایت کا بھی احترام کیا، علامت اور تجریدیت سے بھی گزرتے ہوئے اپنی کہانیوں کی فضا تیار کی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں قدیم اور جدید تہذیب کو نئی سوچ، نئی حسّیت، نئی تخلیقی حسّیت کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی پیش کش میں تشبیہیں، علامتیں،

تمثیلیں، اشارے کنائے اور استعارے درآئے ہیں۔ احمد رشید کو علامتوں اور استعاروں سے کچھ زیادہ ہی پیار اور لگاؤ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عصر جدید میں بعض فن کار کہانی کی واپسی کی گردان سے انکار کرتے ہوئے اسی کو افسانہ کی روح قرار دیتے ہوئے تہذیبی اور مذہبی عناصر کو بیانیہ میں شامل کر کے افسانہ کے محدود کینواس کو وسیع تر اور تہہ دار بنانے کے لیے مصر ہیں لیکن احمد رشید نے کہانی کے تقدس کو برقرار رکھا ہے۔

’’اسمِ اعظم کی صدا گونجی کہ میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے اور علم دے دیا اسم اعظم نے اپنے حکم سے اپنی تخلیق کو کل اسماء کا۔ اس طرح خاک وجود کے افق پر چھا گئی، لیکن خاک! خاک جو اس کی ماں تھی، خون آلود ہو رہی تھی۔‘‘ (وہ اور پرندہ۔ ص۔ ۶۶)

’’اس حیرت انگیز سفر کی بھاگ دوڑ میں ایک حیران کن تبدیلی کا مجھے احساس ہوا کہ اچانک میرے بال و پر اُگ آئے۔ میں نے اپنے پر پھڑپھڑائے ایک ماہر تیراک کی طرح سوئمنگ پول کی تہہ میں دونوں پاؤں مارے اور بازوؤں کو اپر نیچے کیا اور اس طرح ہواؤں میں اڑنے لگا جیسے پانی میں تیر رہا ہوں۔ کبھی بجلی کے تاروں پر، کبھی پول لائٹ پر کبھی مکانوں کی منڈیروں پر بیٹھ جاتا۔ زمینی مخلوق مجھے حیرت و استعجاب میں ڈوبی دیکھ رہی تھی۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی۔۔۔۔ ص۔ ۹۲، ۹۱)

’’انیمیا کا خیال آتے ہی، خوف جسم میں سما گیا۔ بچپن سے جوانی تک پانی خون بنتا ہے اور جوانی ڈھلنے خون پانی ہونے لگتا ہے۔۔۔۔ موت سے زیادہ بھیانک عمر کا آخری پڑاؤ میں سب کچھ پانی پانی ہونے لگتا ہے۔ اس نے خوف کو دبانے کے لیے بدن پر پانی الیچنا شروع کر دیا۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔ آسمان کے دہانے کھل گئے۔ زمین سے پانی ابلنے لگا۔۔۔۔ سیارے ٹھٹک کر مشرق سے مغرب کی نور جانب الٹے پاؤں چلنے لگے۔ بے نور تقدیر کے ستارے ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگے۔۔۔۔ آسمان کی میخیں اکھڑنے لگیں شعاعیں سمٹ گئیں۔ آفتاب بے نور ہو گیا۔ کاش آسمان تھم جائے، زمین پانی نگل جائے اور زندگی کی کشتی کے لیے کوئی جودی پہاڑ جیسی پناہ گاہ مل جائے۔ (بائیں پہلو کی پسلی۔۔۔۔ ص۔ ۱۲۷)

ان کے افسانے نہ تو خارجیت اور مقصدیت سے بوجھل نظر آئیں گے اور نہ باطنی بھول بھلیوں میں قاری کو گم کر دیں گے کیونکہ انہوں نے افسانوں کے لیے ایک درمیانی راہ اختیار کی ہے۔ ہم ان میں ایک طرف بیانیہ افسانوی رنگ محسوس کریں گے تو دوسری طرف علامتیں بکھری ہوئی دیکھیں گے۔

’’مجھے اپنے وجود کی اہمیت کا احساس ہوا جیسے سمندر کی بے پایاں وسعت میں سے ایک بوند نکل آئی ہو جو کچھ لمحے پہلے ناقابل پیمائش گہرائی میں کھوئی ہوئی تھی اور جب اس قطرہ نے وجودی شکل اختیار کی تو اس ہوٹل میں وہ تنہا بیٹھی تھی اور بوڑھا جا چکا تھا۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی۔۔۔۔ ص۔ ۲۳)

’’شبنم کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو وہ میرے دل کی کلی پر ایسے گری کہ پھول کی طرح کھل گیا۔ وہ اپنے آپ میں سمٹی سرخ جوڑے میں ملبوس، میرے گھر میں گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح برسی۔ میرا گھرا ہرا بھرا ہو گیا۔ زندگی کا ہر درد انگیز لمحہ اس کی ایک مسکراہٹ سے نشاط انگیز ہو جاتا۔ پھر وہ اپنے پھول سے بچوں میں ایسی مست ہوئی کہ میں فاضل اور فضول شئے بن گیا۔ محبت کا سفر جب ممتا پر رکتا ہے تو وہی شریک حیات کی منزل ہوتا ہے۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی۔۔۔۔ ص۔ ۳۲)

’’وہاں صرف عورت تھی۔۔۔۔ بھارتی ناری نہیں ہوتی جس کی عزت لٹ جائے!؟ ۔۔۔۔ پوری دنیا اس کا گھر ہوتا ہے۔۔۔۔ نہ کوئی سرحد نہ کوئی بٹوارہ۔۔۔۔ برائی بھلائی سے دور۔۔۔۔ صرف ایک مقصد اور ایک منزل۔۔۔۔ ایک ایسی جمہوریت جہاں پائجامہ کھول کر مذہب نہیں دیکھا جاتا۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔ کیا ہے وہ۔۔۔۔ سکیولرزم؟‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی۔۔۔۔ ص۔ ۶۳)

احمد رشید کے افسانوں کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ افسانہ نگار کا مطالعہ نہایت وسیع ہے۔ وہ مطالعہ کائنات کا بھی ہے، مختلف مذاہب کا بھی ہے، سماجی، تہذیبی، معاشرتی، سیاسی اور انسانی تاریخ کا بھی ہے۔ انہوں نے زندگی کی دھوپ چھاؤں کو دیکھا ہے، زندگی کے نشیب و فراز سے گزرا ہے، درد کی چبھن کو محسوس کیا ہے، زندگی اور اس کی تنہائی کے تلخ گھونٹ کو پیا ہے، ماضی و حال کی کرب ناکیوں کو سہا ہے، بدلتے سماج، بدلتے اقدار، بدلتی تہذیب، بدلتے معاشرے، بدلتے دلوں اور بدلتے ذہنوں کو دیکھا ہے، تہذیبی جڑوں کو اکھڑتے، رشتوں کو کھوکھلے ہوتے ہوئے محسوس کیا ہے، انسانی عظمت کی شکست و ریخت کا مشاہدہ کیا ہے، عورت کی عظمت و تقدس کی پامالی دیکھی ہے، نئے معاشرے میں نسوانیت کو مردانیت پر حاوی ہوتے ہوئے بھی محسوس کیا ہے اور اپنے ملک، اپنے شہر کی عظمت اور اسے عصبیت کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں اس بات کی آگہی ہے کہ کلچر کی موجودہ صورتِ حال دنیا کی بدلتی تصویر ہے جہاں ہر چیز کی خواہش نے انسان کو متعصب اور کنگال بنا دیا ہے۔ جہاں انسان ماڈرن اور فیشنیبل لائف کے نام پر نمائشی، فینسی، فنٹیسی اور انسٹنٹ لائف گزار رہا ہے اور خود کو سہما سہما محسوس کر رہا ہے۔ اس لیے افسانہ نگار نے ماضی کی تہذیبی و تمدنی زندگی کو موجودہ تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ موجودہ زندگی کی گہری بصیرت، زندگی کی بھرپور معنویت، زندگی کے تلخ تجربات، مشاہدے کی وسعت، تصورات کی سحر افروزی اور فنی لوازم کو سلیقے سے برتنے کے شعور کی بدولت ان کا حوصلہ جوان ہوا ہے۔ اس لیے ان کی کہانیاں کئی سوالات اٹھاتی ہیں۔ ان سوالات میں حقیقتوں و صداقتوں، ماضی کی داستانوں اور اساطیری کیفیتوں کے ساتھ ساتھ دکھ درد، احساس اور جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے، درد کی ایک چبھن اور ٹیس ہے اور ایک ایسی بے حسی ہے جو ہمارے ذہنوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ان کہانیوں کو پڑھنے کے بعد کچھ دیر رک کر کبھی ہم سنجیدہ ہو جاتے ہیں اور کبھی رنجیدہ، کبھی ماضی کو یاد کرتے ہیں تو کبھی حالاتِ حاضرہ میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ متحرک زندگی کی رنگارنگی، مظاہرِ کائنات، جلوہ ہائے کون و مکاں، تہذیبِ انساں کے بنیادی مسائل کو قدیم تاریخی اور مذہبی time frame میں رکھ کر افسانہ کی تخلیق کرنا احمد رشید کی افسانہ نگاری

کا بنیادی رمز ہے۔ علاوہ ازیں عصری منظر نامہ میں موضوعاتی سطح اور اسلوبیاتی بنیاد پر افسانہ کی بافت کرنا، بیانیہ کی تہ داری، لفظ و معنی کی استواری سے افسانوی نظام قائم کرنا ان کی بیدار مغزی کا اشاریہ ہے۔ تمدنی، ثقافتی بنیادوں سے سماجی اور معاشرتی سروکاروں کو جوڑنا اور عصری مسائل کو دیومالاؤں، تمثیلوں اور اساطیر کو بالمقابل افسانہ رکھنے کی کوشش کرنا ان کے افسانوں کا انفراد ہے۔

’’سرخی مائل جب شام سرمئی فام ہو گئی حسب معمول وہ گھر واپس ہوا۔ جدید طرز کی عمارتوں کے بیچ، کچی دیواروں پر رکھا اس کا جھونپڑا ہنستے ہوئے گلاب چہرے پر غلیظ دانتوں کی مانند تھا۔ اس نے اپنا جال اور لاٹھی کو ان داتا کی طرح بڑی احتیاط اور اہتمام کے ساتھ رکھ کر کوئی فلمی گیت گنگنانے لگا جیسے کوئی پجاری پتھر کے دیوتاؤں پر دودھ چڑھاتے سمے کوئی دھارمک گیت گنگناتا ہے۔ اس نے چراغ کی بتی درست کی جو تیل کم ہونے کی وجہ سے بجھی بجھی سی تھی۔‘‘ ( وہ اور پرندہ۔ ص۔ ۱۲۳)

’’اس نے رات کروٹ میں کاٹ دی اور معمول سے پہلے چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس لیے بیلوں کی گھنٹیوں کی سریلی ٹن ٹن، نہ کسانوں کے ہانکنے کی آواز سنی۔ ایک پر اسرار سناٹا اس کے دماغ میں سائیں سائیں کر رہا تھا۔‘‘ ( وہ اور پرندہ۔ ص۔ ۱۰۲)

افسانے کے لیے موضوعات اور کرداروں کا انتخاب بڑی معنویت رکھتا ہے۔ ایک اچھا اور کامیاب افسانہ نگار انہیں موضوعات اور کرداروں کو اٹھاتا ہے جن کے ذریعے وہ زندگی کی حقیقت اور معنویت کو پیش کر سکے۔ اس اعتبار سے احمد رشید کے موضوعات اور کرداروں کا انتخاب نہایت معنی خیز ہے۔ ان کی کوئی بھی کہانی پڑھی جائے قاری، کہانی میں گم ہو کر کرداروں کے ساتھ چلنے لگتا ہے اور اس میں ایک تجسس برقرار رہتا ہے۔ آخر میں وہ یہ سوچنے پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ یہ تو ہمارے ماضی و حالی زندگی کی داستان ہے اور یہ کردار ہمارے معاشرے کے جیتے جاگتے، چلتے پھرتے لوگ ہیں جو اپنے وجود کے باوجود کس قدر لاچار، بے بس اور مجبور ہیں۔ ان کا استحصال اس حد تک ہو رہا ہے کہ انہیں اپنے عمل کی آزادی ہے اور نہ ہی وہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکتے ہیں، بعض ایسے کردار ہیں جن کو ہم ایک زمانے سے جانتے، پہچانتے ہیں، سنتے اور پڑھتے آئے ہیں لیکن افسانہ نگار نے ایک منفرد انداز میں ان کی تفہیم پیش کی ہے اور وہ موضوعات ہیں جو ہم محسوس کرتے ہیں، ہمارے نہاں خانے میں ایک عرصہ سے موجود ہیں تاہم احمد رشید نے ان موضوعات کو چھو کر انہیں از سر نو زندگی عطا کی ہے۔

احمد رشید کے افسانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے موضوعات انوکھے اور دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا ڈکشن منفرد اور وژن معنی خیز ہے۔ ان کے دونوں افسانوی مجموعوں میں جو بھی افسانہ آپ پڑھ لیں ہر افسانہ ایک الگ نوعیت اور انفرادیت کا حامل ہے ساتھ ہی ہر کردار الگ ملے گا، پیش کش کا طریقۂ کار مخصوص ہو گا۔ احمد رشید کو ان کے موضوعات، ڈکشن اور وژن دور حاضر کے افسانہ نگاروں میں ایک ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔ لال تکون، ویٹنگ روم اور بائیں پہلو کی پسلی میں اسلوب، ڈکشن اور وژن تینوں کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

’’وجہ قتل میرا جمال ہوا، الزام میرے سر ہوا۔۔۔۔ میں سوچتی ہوں اس میں میرا کیا قصور؟ ۔۔۔۔ میرا ’’غازہ‘‘ کی طرح با جمال ہونا بھی میرے لیے وبال۔ میرا حسن و جمال شر کا استعارہ۔ میرا بے جمال ہونا باعثِ اذیت اور حقارت جبکہ نہ جمال میرا نہ بے جمال ہونے میں دخل میرا۔۔۔۔ میری تخلیق، گناہ اور بہکاوے کی دلیل جبکہ یہ سب کرشمۂ کاتب تقدیر، کمالِ عزّ و جل۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی۔۔۔۔ ص۔ ۳۷)

انگوری گھر آئی۔ دیگیں چڑھیں جن کی بھینی بھینی خوشبو چودھری صاحب کی پہلی بیوی کو سانپ بن کر سونگھنے لگی وہ بیچاری چیخیں، نہ چلّائیں بس آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہنے لگے وہ اکیلے کمرے میں سسکتی رہیں۔ اندھیرے میں اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ ایک طرف پورا خاندان کباب سینکتا رہا، دوسری طرف وہ انگاروں پر کروٹیں بدلتی رہیں۔‘‘ (وہ اور پرندہ۔ ص۔ ۱۱۰)

احمد رشید کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ زندگی کے کوئی ایک پہلو، ایک رخ اور ایک ہی کیفیت کے تعلق سے ممکنہ بیشتر پہلوؤں کو اجاگر کرنا اور حیات و کائنات کی مختلف پرتوں کے اجاگر کرنے کے تخلیقی اظہار کا نام افسانہ ہے۔ لیکن افسانہ کی اس تفہیم کا ہونا بھی مشروط نہیں کیونکہ حیات و کائنات کی کوئی بھی تعریف روز ازل تا روز امروز متعین نہیں ہے۔ افسانوی نظامِ فن کی بنیاد ترقیم کرنے میں روایتی تصورات کو توڑنے کا عمل احمد رشید کے یہاں خصوصی طور پر نظر آتا ہے۔ اسی لیے ان کے افسانے ترفع (Multi dimensional) ہونے کے وسیع امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔

افسانہ ’’ٹوٹی زمیں بکھرے مکیں‘‘ میں داستانوی اسلوب اپنانے کے باوجود اس کی زبان استعاراتی اور انداز علامتی ہے۔ ’’پیشین گوئی‘‘ میں سیاسی مکاریوں کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ حالانکہ کہانی ظاہری طور پر مذہبی تاریخ معلوم ہوتی ہے جہاں اقلیتی اور اکثریتی فرقوں کے درمیان سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی کشمکش کا فنّی اظہار ہے۔ لیکن علامتی انداز نے افسانے کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ ’’پرندے پکڑنے والا‘‘ بھی ایک تمثیلی کہانی ہے جو اونچ نیچ کے فرق کو ایک نیا تناظر پیش کرتی ہے۔

’’وہ اور پرندہ‘‘ ’’وہ‘‘ کی کہانی ہے۔ جس میں زمانے کی ترتیب کا Treatment ہے، تہذیبی تاریخ کا بیانیہ ہے۔ عمر وقت کا نام ہے اور عمر زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ سورج کا نکلنا اور غروب ہونا ماہ و سال کا شمار ہے۔ افسانہ ’’ویٹنگ روم‘‘ ایک ایسی کہانی ہے جس میں سفر کو علامتی طور پر موضوع بنایا گیا ہے۔ جب بھی سفر مقصود ہوتا ہے تو آدمی رخت سفر باندھتا ہے لیکن انسان کی زندگی خود ایک سفر ہے اور مرنے کے بعد بھی ایک سفر شروع ہوتا ہے۔ زندگی کی کوئی کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ چاہے وہ سفر زندگی کا ہو یا کائنات کا۔

احمد رشید کو اپنی کہانیوں میں سوالات قائم کرنے کا سلیقہ آتا ہے اور پھر کرداروں کے ذریعے اس کا جواب دینے کا ہنر بھی۔ ’’بن باس کے بعد‘‘ میں ہندو میتھالوجی اور اسلامی فکر کا امتزاج خوب ہے۔ ’’سراب‘‘ میں استعاروں سے کام لیتے ہوئے ظاہری شناخت سے محرومی کا مسئلہ پیش کیا گیا ہے جو جدیدیوں کا اہم موضوع رہا ہے لیکن مثبت پہلو اپنایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تشبیہیں، استعارے، علامتیں اور تمثیلیں جیسے فنّی وسائل ان کے افسانوں کو گنجلک نہیں بناتے اور قاری کو کنفیوژن میں نہیں ڈالتے بلکہ وہ اپنے ڈھنگ سے بیانیہ انداز اختیار کر لیتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ احمد رشید نے علامتی اور تجریدی رویہ اختیار کرنے کے باوجود بیانیہ کے وقار کو بحال کیا ہے اور بہترین ترسیل کے ذریعے قاری سے قریب ہونے کی کوشش کی ہے۔ یہ راست اندازِ اظہار ان کی کہانیوں کے بیانیہ حصّہ کو مضبوط کر دیتا ہے جس کی بدولت کہانیوں میں واقعات ابھر کر سامنے آتے ہیں اور اصل مقصد علامتی، تشبیہاتی اور استعاراتی زبان میں دب کر نہیں رہ جاتا ہے۔

احمد رشید جانتے ہیں کہ افسانہ محض قصّہ یا کہانی نہیں بلکہ ایک غیر محسوس طریقہ سے لکھی جانے والی تاریخ بھی ہے۔ جس میں بڑی بڑی شخصیات کے قصیدے اور کارنامے نہیں بلکہ اپنے عہد میں جینے والے، اپنی نظروں کے سامنے حقیقی زندگی بھوگنے والے، حالات سے جوجھنے والے، درد و کرب میں مبتلا افراد کی ہیبت نا کیاں اور مسائل، انسانوں کے کھوکھلے چہرے، ان کا ظاہر و باطن، بے بسی و بے حسی کے قصّے خوبصورت پیرائے میں بیان کیے جاتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال ’’وہ اور پرندہ‘‘ افسانہ ہے جو داخلی زندگی کے کرب کی پیداوار ہے۔

احمد رشید کی کہانیاں تجسس پیدا کرتے ہوئے ہمارے ضمیر کو جھنجوڑنے والی ہوتی ہیں۔ ’’کہانی کہتی ہے‘‘ اور ’’کہانی بن گئی‘‘ دو ایسی کہانیاں ہیں جو فطری انداز میں قاری کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھتی ہیں۔ ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ انسانی تہذیب سے پہلے کہانی کا وجود ہو چکا تھا۔ ’کہانی کہتی ہے‘‘ ایک تمثیلی کہانی ہے اور تخلیق کائنات پر سوالیہ نشان قائم کرتی ہے۔ ’ ’کہانی بن گئی‘‘ تہذیبی ارتقاء سمیٹے ہوئے ہے۔ کہانی کا کردار ’’عورت‘‘ ہے اور مرد بن کر ایک ایسے بڑے آدمی کا انٹرویو لیتی ہے جسے اپنی عظمت کا شدت سے احساس ہے۔

’’مداری‘‘ اور ’’حاشیہ پر‘‘ سیاسی موضوعات پر مشتمل کہانیاں ہیں۔ دورِ حاضر میں سیاست میں جو مکاریاں، عیاریاں، چالبازیاں، فریب اور دھوکہ بازیاں پائی جاتی ہیں یہاں ان کا مکروہ چہرہ تمثیلی انداز میں پیش ہوا ہے۔ ان کہانیوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں کئی کہانیاں موجود ہیں۔ ’’مداری‘‘ عوامی زبان میں لکھی گئی کہانی ہے جس کے پس پردہ یاترا کا واقعہ ایک مخصوص نظریہ لیے اس انداز سے در آیا ہے کہ کہانی کے اندر کہانی چلتی رہتی ہے جس طرح ایک مداری کا کام کرتب دکھا کر اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنا ہوتا ہے اسی طرح سیاست دان کرتب بازیوں اور مکاریوں کے ذریعے عوام کو لوٹتے ہوئے عیش و آرام کی زندگی جی رہے ہیں اور عوام تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔ ’’حاشیہ پر‘‘ افسانہ میں حقیقی زندگی کو ہمارے ملک کے موجودہ تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ جب ہم ٹرین میں جنرل کمپارٹمنٹ میں سفر کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے سیٹ کی تلاش ہوتی ہے اگر دھکا دھکی کے بعد سیٹ مل جاتی ہے تو ہمیں مانوس چہروں کی خواہش ہوتی ہے کہ اجنبیوں کی بہ نسبت اپنے مل جائیں تو سفر بآسانی گزر پائے گا۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک مسافر اپنے کی تلاش کرتے ہوئے جا کر داڑھی والے کے پاس بیٹھتا ہے تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آ کر ان کے بازو بیٹھ جاتا ہے۔ جن میں ایک ڈاکٹر، دوسرا معلم اور تیسرا وکیل ہے۔ تینوں اپنی اپنی کہانیاں پیشہ ورانہ زبان اور لہجے میں سناتے ہیں لیکن ان کا مذہب ظاہر نہیں کر پاتے۔ ٹرین میں جب جئے رام کے نعرے لگتے ہیں تو سہم جاتے ہیں کیونکہ وہ تینوں مسلمان تھے لیکن سفر میں ڈر کے مارے اپنے مذہب کو چھپا رہے تھے۔

احمد رشید نے اپنے عہد کے دیگر شعبہ جات کے عوام کا بڑی سنجیدگی سے مشاہدہ کیا ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ آج کے ہوس پرست انسان میں ایک حیوان بھی موجود ہے۔ اس لیے اس کے اندر انسانی صفات کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ترحم، ایثار، ہمدردی، خلوصیت، مروت، محبت، بھائی چارگی انسان دوستی جیسی صفات اور اعلیٰ اقدار سے وہ محروم ہوتا جا رہا ہے۔ معاشی بدحالی کی بدولت اس کے اندر لالچ اور خود غرضی پیدا ہو گئی ہے اور انسان ضمیر فروش بن گیا ہے۔ زندگی کے اہم شعبوں کے ذمہ داران، عوام کی پرواہ کیے بغیر، اپنے فرائض انجام دینے کے بجائے چند پیسوں کی خاطر اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں۔ ان کیفیات کو ہم ان کی ’ہاف بوٹل بلڈ‘، ’ اندھا قانون‘ اور ’رینگتے کیڑے‘ کہانیوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

احمد رشید تخلیق کائنات، مذہبی، روایتی اور تاریخی موضوعات کے علاوہ عورت، سیاست اور فسادات والے موضوعات سے آگہی اور دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں کائنات کے سفر سے گہری وابستگی ہے۔ وہ اور پرندہ، برف تلے، بن باس کے بعد صدیوں پر پھیلی کہانی اور سراب جیسی کہانیوں میں تخلیقِ کائنات اور اس سے متعلق اساطیری کرداروں اور روایتی

عقائد و توہمات کی معنویت عصری تناظر میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ان کہانیوں کی روشنی میں ہم احمد رشید کو مابعد جدیدیت کے علمبرداروں میں شمار کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ جدیدیوں کی طرح مذہب بیزار نہیں ہیں۔ وہ مذہب کے پاسدار ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہماری جڑیں مذہب سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کی بیشتر کہانیاں اسلامی تفکرات و تصورات کے علاوہ ہندو میتھالوجی پر مبنی ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ کہ وہ اسلامی عظمت و تقدس کو بھی برقرار رکھتے ہیں اور دیومالائی کرداروں اور اساطیری و داستانوی پہلوؤں کی پیش کش میں ہندو تہذیب کو بھی مجروح نہیں ہونے دیتے۔ انہیں کہانیوں سے پیار ہے، ان کے یہاں کہانیاں بنتی ہیں، کہانیاں کہتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اصل کہانی اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب آدم ؑ کی تخلیق ہوئی تھی۔ اس میں اسی وقت موڑ آ گیا تھا جب حضرت آدمؑ کی بائیں پسلی سے ماں حوا ؑکا وجود ہوا تھا۔ انہیں اس بات کا دکھ بھی ہے کہ آدم کی پسلی سے جنمی عورت کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی آدمی کے اندر اس کے تقدس کا شعور پیدا ہوا ہے۔ اس موضوع کو جس انداز سے احمد رشید نے ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ میں افسانے کا روپ دیا ہے اور موضوع کو برت کر انصاف کیا ہے۔ وہ ایک اچھے افسانہ نگار ہونے کا بین ثبوت ہے۔

احمد رشید نے افسانے کی تکنیک پر تجربے بھی کیے ہیں جس میں افسانہ کا جلال اور جمال دونوں ہی موجود ہیں۔ جس کی بہترین مثال ان کا افسانہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ ہے جو انٹرویو اور فلیش بیک کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ جس میں کئی ادوار موجود ہیں۔ ’’عورت‘‘ بھی چونکہ احمد رشید کا ایک خاص موضوع ہے۔ افسانہ ’’فیصلے‘‘ عورت کی آزادی سے تعلق رکھتا ہے۔ ’’وہ لمحہ‘‘ میں بھی عورت کے وجود اور اہمیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر کہانیوں میں عورت اور مرد کا تصادم ہم دیکھ سکتے ہیں۔ احمد رشید کا ایک اہم موضوع ’’فساد‘‘ بھی ہے۔ بی بی بول، ایک خوبصورت عورت اور سہما ہوا آدمی کا بنیادی موضوع فساد ہے۔

احمد رشید کے افسانوں میں تکنیک کی کارفرمائی اور موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ اسلوب کی انفرادیت ان کی علمیت کا ثبوت پیش کرتی ہے۔ ان کی بیانیہ پر گرفت، مکالمے چست اور کردار کی زبان زمانے اور ماحول کے مطابق ہے۔ زبان اور اسلوب بے جا مرصع کاری اور ضرورت سے زیادہ سادہ بیانی دونوں سے پاک ہے۔ لفظوں کے صحیح اور

برمحل استعمال سے عبارت میں سلاست موجود ہے۔ لفظوں کے انتخاب اور صحیح ڈھنگ سے برتنے سے زبان علامتی ہوتے ہوئے بھی بیانیہ اور سلیس ہے۔ حالانکہ ان کے پاس خوبصورت، علامتی، تمثیلی و استعاراتی زبان ہے لیکن صاف لب و لہجہ، معنویت سے بھرپور الفاظ، چست اور جامع مکالمے ہونے کی وجہ سے اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ ان کے افسانے مکالموں کے ذریعے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ کرداروں کو ان کے اپنے ماحول میں جینے کی آزادی دیتے ہیں اور ان کی اپنی زبان میں بولنے کا موقع دیتے ہیں۔ اس طرح احمد رشید کے افسانے مقصدیت، وحدت تاثر اور ترسیل کے اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ احمد رشید کے یہاں تاریخی واقعات، ہندو میتھالوجی، اسلامی روایات اشارہ بن کر، کبھی حوالہ بن کر، کبھی تشبیہ بن، کبھی علامت بن کر اور کبھی مکمل واقعہ عصری ماحول میں ڈھل کر کہانی کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ احمد رشید کا رومانی حس عام روش سے ہٹ کر ہے۔ ان کا جمالیاتی حس انہیں رومانی افسانے لکھنے پر آمادہ نہیں کرتا۔ ان کے یہاں محبت کا جذبہ اور عشق کی تڑپ زماں و مکاں کی قید سے آزاد اور منفرد ہے۔ ان میں سرور و انبساط کی انوکھی دنیا آباد نہیں بلکہ حقیقی اور جیتی جاگتی دنیا موجود ہے۔ اس طرح ان کی کہانیاں حالات حاضرہ کی منہ بولتی تصویر، انسان اور تہذیبی تاریخ کا مرقع معلوم ہوتی ہیں۔

احمد رشید اپنے افسانوں میں انسان کی خارجی اور باطنی سطحوں کا رشتہ ہموار کرتے ہیں چونکہ وہ تخلیقی اور فنّی رموز سے روشناس کرانے کے عمل سے واقف کار ہیں اسی لیے ان کا ہر افسانہ ہر عصر کا افسانہ ہو جاتا ہے۔ ان کا ہر افسانہ اپنی لفظیات خود تلاش کرتا ہے۔ اسی لیے طرزِ نگارش اور اسلوبی سطح پر ان کی شناخت قائم کرنا ممکن نہیں کیونکہ ان کا ہر افسانہ موضوع کی سطح پر اپنا ڈکشن اور تکنیک خود تلاش کرتا ہے۔ اس لیے افسانہ ان کے یہاں شعوری کوشش ہوتے ہوئے بھی غیر شعوری طور پر ترقیم ہوتا ہے۔ یہی وصف احمد رشید کو دور حاضر افسانہ نگاروں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔

٭٭٭

احمد رشید کے افسانے —–مذہبی تناظر میں /ڈاکٹر محمد الیاس قاسمی تائب خیر آبادی

(وہ اور پرندہ کے حوالے سے)

احمد رشید نے عام طور پر ماورائی تصورات کو زمینی مسائل سے جوڑ کر کہانیاں لکھی ہیں۔ بقول شافع قدوائی:

’’تخلیقِ کائنات کے قدیم آرکی ٹائپ سے مربوط کرنا اور تخلیق کے ازلی متھ کی معنویت عصری سماجی تناظر میں واضح کرنا احمد رشید کے افسانوں کے فن کا بنیادی رمز ہے۔‘‘

افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ فنّی چابک دستی کا بہترین نمونہ ہے۔ اک ایسے کردار کی کہانی جو مذہب کا گہرا احساس رکھنے کے ساتھ ساتھ روحانی کرب، نفسیاتی اذیت اور ذہنی انتشار سے اس قدر دو چار ہے کہ اسے ہر قدم پر روحانی محرومی اور جذباتی تشنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی توقعات و خواہشات کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے لیکن سماجی و مذہبی بندشیں اس کی آسودگی کا ہر اقدام ناکارہ بنا دیتی ہیں۔ رنج و فرحت سے ممزوج پرچھائیاں، حیات و موت کی تلخ ترین سچائیاں مہیب سایوں کی طرح ہر آن اس کا تعاقب کرتی ہیں۔ پرندہ در اصل اس کا ضمیر یا نفس ہے جو اس کی نجی زندگی میں ’’دخل در معقولات‘‘ کا مرتکب ہو کر طرح طرح سے دِق کرتا ہے۔ کہیں تو اعمال ممنوعہ کو مزین و آراستہ کر کے نفس امارہ (گناہ کا حکم کرنے والا نفس) کا مصداق بنتا ہے۔ ’’یار ممانعت تو اس بات کی بھی ہے کہ سڑک پر تیز نہ چلو چونکہ اس سے دھمک ہوتی ہے۔‘‘ گویا پرند اک فعل قبیح (شراب نوشی) پر اکتاتا اور اس کا جواز پیش کرتا ہے اسی طرح

’’اگر بھاگتی ہوئی زندگی سے چند لمحات مسرتوں کے چرا لیے جائیں تو وہ پوری زندگی پر بھاری ہوتے ہیں اور تم تو تھکے ہوئے بھی ہو‘‘ پرند نے اصرار کیا۔

اور کہیں یہی پرند اقدام گناہ سے باز کر کے برائیوں پر ملامت کرتا نفس لوامہ کا روپ دھار لیتا ہے۔

’’غلط، بلکہ اس لیے تاکہ تمہارا ذہنی سکون بر قرار رہے۔‘‘

’’خودکشی جرأت مندانہ عمل ہوتے ہوئے بھی حرام ہے۔‘‘

کہانی میں محاکاتی انداز کے بجائے مکالماتی اسلوب نگارش نے فنی حسن و جمال میں جان ڈال دی ہے۔ کہانی کار کے ذہن پر مذہبی عناصر غیر ارادی طور پر کار فرما نظر آتے ہیں۔

’’سڑک بال سے زیادہ باریک تلوار سے زیادہ تیز‘‘ (پُل صراط کا اسلامی تصور)

’’قہقہہ تم بھی لگا سکتے ہو لیکن نہیں لگا سکتے کیونکہ زیادہ زور سے ہنسنا گناہ ہے۔‘‘

اگر تم لذتوں کو توڑ نے والی چیز موت کو یاد کرتے تو بجائے قہقہہ لگانے کے غم میں رو رہے ہوتے۔ (حدیث)

دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں پسلیاں دائیں میں پیوست ہو گئیں ۷۰ گز کے کالے ناگ نے گردن پکڑ لی۔‘‘

’’چھوٹی بہن پلنگ کے قریب تھی، میں سورہ یٓس تلاوت کر رہا تھا۔‘‘ (جاں کنی کے وقت سورہ یٰسین کی تلاوت سے روح نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔)

کہانی کے بارے میں جو ان کا نقطۂ نظر ابھر کے آیا وہ ’’کہانی کہتی ہے‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے جس میں اگر ایک طرف کائنات کے ارتقائی مراحل پر روشنی پڑتی ہے تو دوسری طرف انسانی شعور و ادراک کے عروج و ارتقاء کی بھی نقاب کشائی ہوتی ہے۔ کہانی بذات خود کہانی کی کہانی ہے کہ کہانی کیسے اور کس کس موڑ سے گزری اس کے ارتقا پذیر سفر میں کیا کیا نشیب و فراز آئے مثلاً یک دور وہ بھی آیا جب کہانی سے کردار غائب ہو گیا تھا۔

’’میں بے کردار ہو گئی ہوں میں بے حادثہ ہو گئی ہوں۔‘‘

’’کون ہے جو مجھ سے کٹ گیا ہے۔‘‘

کہانی کی تخلیق میں مذہبی پہلو بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔

’’برہنہ تو ہم اس سمے بھی نہیں ہوتے کیونکہ رات ہمارا لباس ہوتی ہے۔‘‘

(قرآنی زبان اور ہم نے رات کو لباس بنایا)

بہشت شداد کے متعلق سے

’’عذرائیل علیہ السلام آئے اور انھوں نے اس عورت کی روح قبض کر لی۔‘‘

یہ عورت کوئی اور نہیں شداد کی ماں تھی جس وقت وہ طِفل شیر خوار تھا جو بڑا ہو کر مسند جلالت پر فائز ہوا اور خدا کی ہمسری کرتے ہوئے زمین پر جنت بنائی۔

’’پھر اس نے آسمانی بہشت ہوتے ہوئے خاکی بہشت تعمیر کی خدا کو خدا کا ثانی برداشت نہ ہوا اور اس کو سزائے موت کا حکم سنایا۔‘‘

دائرہ اور نقطہ سے مرد و زن کا کردار مراد ہے

’’اور چونکہ میرا وجود دائرے اور نقطہ کی وجہ سے بر قرار ہے۔‘‘

’’دائرے جوق در جوق بھاگ رہے ہیں تانبے کی سڑک پر سر پر دھواں لادے شاید انھوں نے نئے عہد نامہ کی سوغات صور کو پڑھ لیا ہے۔‘‘

(وقوع قیامت کا عین اسلامی تصور)

’’سراب‘‘ میں کہانی کی ابتدا عالم ارواح کے اس تاریخی مکالمہ سے ہوتی ہے جس میں خداوند قدوس نے انسان اول سے لے کر قیامت تک آنے والے لوگوں کی روحوں سے اک عہد لیا تھا جس کو عہد الست اور اس تاریخی دن کو یوم الست کا نام دیا گیا ہے۔ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلیٰ (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں سب نے بیک زبان اقرار کیا، کیوں نہیں)۔

خالق و مخلوق کے مابین ہونے والا پہلا عہد نامہ دلفریب و خوبصورت قید خانہ میں آنے کے بعد انسانی سطوح ذہن سے حرف غلط کے مانند مٹ تو ضرور جاتا ہے لیکن اس کی اسیری و بے بسی بدستور عمر قید با مشقت کی طرح جاری و ساری رہتی ہے۔ دنیا کی طوفانی نقل و حرکت، ہر جگہ جم غفیر کا سیل رواں سماجی و مذہبی قیود و رسوم کے اژدہے ہر آن اس کی فطرتِ آزادی کو ڈستے اور چاٹتے رہتے ہیں اور اسے قیامت سے قبل ہی قیامت کا منظر نامہ دکھائی پڑتا ہے مادی دنیا کی اسی مشینی دوڑ بھاگ میں وہ منزلِ مقصود سے اس قدر دور نکل جاتا ہے کہ اسے اپنے سامنے صرف ٹانگیں ہی ٹانگیں دکھائی پڑتی ہیں کیوں کہ اس کا ذہن و ضمیر روحانی برق سے یکسر خالی ہو چکا ہوتا ہے۔ تب ہی ایک روحانی بزرگ کی ٹوپی سر پہ آتے ہی اس کے لیے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں اور اس کارزار میں یک بیک قلب و ذہن اچانک بینا ہو جاتے ہیں اور وہ کھلی آنکھوں سے دنیا کا حقیقی روپ اور انسانوں کی ٹانگوں پر کتّا، بلّی اور خنزیر کے ناچتے چہرے دیکھ لیتا ہے اور خوفزدہ ہو کر پھر صراط مستقیم کی تلاش میں نکل پڑتا ہے کہ یہ دنیا تو معین دھوکہ اور سراب ہے۔

’’پیشین گوئی‘‘ تمثیلی زبان میں اقلیت و اکثریت کے درمیان سیاسی کشمکش کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ جس میں عصر حاضر کی اقلیت کے سیاسی تحفظ و تہذیبی شناخت کے پیچیدہ مسائل کو بحسن و خوبی اُجاگر کیا گیا ہے۔ وقت کا ربِّ اعلیٰ کہلانے والا ظالم حکمراں اپنی بقا و تحفظ کے لیے لاکھوں بے گناہوں کے خون سے اک انجانے مگر متوقع خون کی آگ سرد کرنا چاہتا ہے لیکن مشیت کس طرح اس کی تمام تر مکاریوں اور سیاسی چالوں کا مذاق اڑاتی ہے کہ محکوم قوم کے جس فرزند کے ہاتھوں اس کے اقتدار کا شیرازہ بکھیرتا اسی کی پرورش اس کے شاہی محل میں پورے ناز و نعم کے ساتھ کروا کے اسے مزید خوف و دہشت کے انگاروں پہ لیٹنے پر مجبور کر دیتی ہے سچ ہے ’’التقدیر یضحک علیٰ اللہ بیر (تقدیر تدبیر کا مذاق اڑاتی ہے)۔

کہانی قرآنی واقعہ ’’فرعون و موسیٰ‘‘ سے مستعار ہے جو ہندو مائتھولوجی کے بھی عین مطابق ہے۔

’’جب جب کنس پیدا ہوں گے ان کے ادھار کے لیے کرشن آتے رہیں گے۔‘‘

کہانی ’’بن باس کے بعد‘‘ ہندو مائتھولوجی کے کرداروں پر مبنی نہایت خوبصورت تخلیق ہے۔ جس مین جگہ جگہ اسلامی فکر کا حسین امتزاج ہے۔ کہانی کو نیا رنگ و آہنگ عطا کرتا ہے۔ آغاز قرآن کریم کی سورہ بقرہ کی آیات کے مترجمہ سے کیا گیا ہے۔ جو تخلیق آدم کے موضوع پر باری تعالیٰ اور اس کے مقدّس فرشتوں کے درمیان اک دلچسپ مکالمہ یہ۔ جب خداوند قدوس نے زمین پر اپنا نائب و خلیفہ مقرر کرنے کا اعلان فرمایا تو فرشتوں نے روئے زمین پر فساد و خونریزی کا اندیشہ ظاہر کر کے تخلیق انسان کے فیصلہ پر نظر ثانی کی عرضی دی ارشاد عالی ہوا جو میں جانتا ہوں اس کو تم نہیں جانتے۔

کہانی کے اندر طوطے کا علامتی کردار اس بات کا غماز ہے کہ ساری کائنات کا علم باری تعالیٰ کے سامنے اس طوطے کے مانند ہے جو چند رٹے رٹائے جملوں کے سوا نہ کچھ جانتا ہے نہ ہی رٹائے گئے الفاظ و اسماء کے حقائق سے باخبر ہے۔

’’راگھویندر نے جانکی کے آنسو پوچھے اسے قریب کیا اس سے پہلے کہ کوئی مجھ سے چھین لے میں تم کو تم سے چھین لینا چاہتا ہوں۔‘‘

رنگ بدلتے آسمان پر اندھیرا پھیکا ہو رہا تھا اور نئی روشنی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ ’’صدیوں پر پھیلی کہانی‘‘ ایک نئی تکنیک پر مبنی کہانی ہے۔ عشق و محبت کا فطری طائر ابتدا کے آفرینش سے تا ہنوز کتنے رنگ و روپ کے بال و پر سے پرواز کر رہا ہے کہانی تین مختلف زمانوں کی اقدارِ عشق سے پردہ اٹھاتی ہے۔ آخری کڑی سے مراد ہمارا آج کا روشن خیال آزاد دماغ عشق ہے جو اپنے اوپر کسی طرح کی لگام کسنے کو تیار نہیں بلکہ ذہنی آزادی کے ساتھ ساتھ جنسی اور جسمانی آزادی کا بھی دلدادہ ہے۔ کہانی کی پہلی کڑی بالکل ابتدائی دور کی نمائندگی کرتی ہے جس میں متاع الفت چھن تسکین اور طمانیت روح کا سامان تھی چنانچہ آدم کی پیدائش کے بعد جنت میں ان کی دلجوئی اور تنہائی دور کرنے کی خاطر انھیں کی بائیں پسلی سے حوّا کا وجود عمل پذیر ہوا۔ جنت جس میں ہر طرح کے سامان عیش و مطرب خوشیوں کے خزانے لذیذ ترین میوہ جات دودھ و شہد کی نہریں حور و غلمان جیسے خدام آسائش طبع کے لیے مہیا مگر جنسی آسودگی تو کجا لمس حوا بھی جائز نہ ٹھہرا اور جب فطرتِ آدم مئے عشق میں حدود مقر رہ سے بہک کر تجاوز کر گئی تو جنت النعیم سے دور دنیا کی تنگ و تاریک سنگلاخ وادیوں میں پھینک دیا گیا اور وہاں افزائشِ نسل کا یہی عمل نگاہ معبود میں معتوب و مغضوب ہونے کے بجائے مطلوب و مقصود ٹھہرا۔ درمیانی کڑی اس دور کی عکاسی ہے جب انسان غلطی تو کرتا تھا مگر اپنے ضمیر و معیار سے نہیں گرتا تھا۔ کہانی کا کردار پری پیکر دوشیزہ کو لے کر بھاگ تو جاتا ہے لیکن جب اسی شرابِ حسن کو ہونٹوں سے لگانے کا مرحلہ آتا ہے تو اس کا ضمیر زخمی پرندہ کے مانند پھڑپھڑانے لگتا ہے اور اقدام گناہ سے نہ صرف یہ کہ روک دیتا ہے بلکہ ہمیشہ کے لیے اک لا متناہی سلسلۂ گناہ کا خاتمہ بھی کر دیتا ہے اور دربار قاضی میں بلا جھجھک اقبال جرم کرتا ہے کہ میں نے گناہ نہیں بلکہ نیکی کی ہے۔ ’’میں قاتل ہوں مگر اس کی عصمت کا قاتل نہیں میں نے عفت اور مال دونوں کی حفاظت کی ہے۔‘‘

’’وہ باریش انسان‘‘ افسانوی انداز میں نہایت فکر انگیز تخلیق جو اصلاحِ نفس اور احتساب ذات کا مکمل آئینہ ہے اک ایسا کردار جو ساری زندگی عیش و مستی لہو و لعب اور شباب و شراب کی محفلوں میں رقص و سرور کا دلدادہ رہتا ہے گر اچانک اسے اپنے اعمال سیئی کا سامنا اس انداز میں کرنا پڑتا ہے کہ اس کی جام و مینا سے لبریز جوانی کا نشہ ہی کافور ہو جاتا ہے اور اس کی ہستی میں اک ایسا انقلاب آتا ہے کہ گناہوں کے خوفناک بادل اس کی آسمان حیات سے خود بخود چھٹ جاتے ہیں اور وہ توبہ نصوحہ سے ایسا سرفراز ہو کر اٹھتا ہے کہ اپنی ضیا پاش کرنوں سے بے شمار لوگوں کی نورانی ہدایت و روحانی تربیت کا سبب بنتا ہے۔ باریش انسان در اصل اس کے نیک اعمال ہیں جو کیفیت و کمیت میں کم ہو جانے کی بنا پر بوڑھے نحیف انسان کی شکل میں متشکل ہوئے۔

خوفناک اژدہا اس کے گناہوں کی صورت جسمیہ ہے۔ ہادیہ اس کی اپنی بیٹی ہے جو سن بلوغ سے قبل وفات پا جانے کی وجہ سے اسلامی فکر کے مطابق باپ کے لیے ذریعہ نجات بنتی ہے۔

ہندو ازم کے فلسفے کے مطابق عورت مرد کی شکتی ہوتی ہے برہما کی شکتی سجی وشنو کی طاقت لکشمی اور شِو کی شکتی پاروتی لیکن افسانہ نگار نے کہانی دو سال بعد سے یہ ثابت کیا ہے کہ عورت بذات خود کوئی شکتی نہیں بلکہ اس کی طاقت مرد کی شکتی کا پرتو ہے۔ ’’ماں بیٹے عورت مرد کے بغیر بڑی کمزور ہوتی ہے اب جب کہ تم پورے مرد ہو گئے ہو تو میں تم کو اپنی طاقت سمجھتی ہوں۔‘‘

مصنف کے یہاں مکالموں کی برجستگی، مضمون پر گرفت اور مافی الضمیر کی شائستہ ادائیگی جیسی تمام فنکارانہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں خوبصورت جملوں کا معنی خیز استعمال رمز و ایما سے بھرپور انفرادی لہجہ اور لفظوں کے اتار چڑھاؤ میں چھپا ہوا گہرا اور تیکھا طنز کہانی کو ممتاز و نمایاں مقام عطا کرتے ہیں۔

افسانہ ’’دو سال بعد‘‘ کی چند مثالیں پیش ہیں:

’’ٹھنڈی روشنی ہوٹل میں بیٹھے لوگوں کو فرما رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی ٹیوب لائٹ اور بلبوں نے اپنے چہروں پر نقاب ڈالے، ہوٹل میں سب نے کہا ’’کم آج ایوری باڈی‘‘۔

’’مجھے بزرگوں سے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے کہ زندگی بھر طوائفوں جیسی زندگی گزارتے ہیں اور بڑھاپے میں رامائن کا پاٹھ پڑھتے ہیں‘‘ لڑکی نے کہا۔

’’اپنے آپ کو دہراتے ہیں‘‘ نوجوان نے گردن ہلائی۔‘‘

آج نئی نسل روایتی عشق کے خول میں کس قدر گھٹن و بیزاری کا احساس کرتی ہے۔ مغربی رومان کا چڑھتا جنون، رنگ و پے میں سرایت کرتا جنسی آزادی کا رجحان کو مذکورہ افسانہ میں خوبصورت مکالمات، لطیف حرکات و سکنات کے ذریعہ اظہار کیا گیا ہے:

’’وہ لوگ جو سمندر کے کنارے بیٹھ کر لہروں کا کھیل صرف آنکھوں سے دیکھتے ہیں مجھے اچھے نہیں لگتے۔‘‘

’’میرے باپ کہتے ہیں زندگی تمہاری مگر سانس ہماری۔۔۔۔۔۔۔ اگر بٹوارہ ہوا تو میرا جسم تو میرا ہی ہوا نا، تم سمجھ رہے ہونا۔‘‘

———

’’ہاں اچاریہ رجنیش نے کچھ اسی انداز میں دوسری بات کہی ہے کہ انسان جسموں سے گزر کر ہی ابدی حسن تک پہنچ سکتا ہے تب ہی انسان اور بھگوان کے درمیان کوئی انتر نہیں رہتا۔‘‘

———

میں ان آنسوؤں کا مطلب نہیں سمجھ پایا تھا اور نہ ہی اس دو سال کے عرصے میں مجھے اس بارے میں کوئی خیال آیا۔ میں نے دو سال کے عرصہ میں ہندوستان کی تیس سالہ زندگی سے کہیں زیادہ عیش کیے ہیں۔

———

یہ مختصر جائزہ مذہبی تناظر میں کیا گیا ہے۔ ان کہانیوں میں زندگی کے اور بھی پہلو نکل سکتے ہیں۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید