محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید کی جمع و ترتیب کردہ
تعارفِ قرآن
مرحوم و مغفور مفسرِ قرآن
ڈاکٹر اسرار احمدؒ
کے لکچرس سے ترتیب دی گئی مشہور کتاب
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
قرآن کے بارے میں ہمارا عقیدہ
تعارفِ قرآن مجید کے سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن حکیم کے بارے میں ہمارا ایمان، یا اصطلاحِ عام میں ہمارا عقیدہ کیا ہے؟
قرآن حکیم کے متعلق اپنا عقیدہ ہم تین سادہ جملوں میں بیان کر سکتے ہیں:،
۱) قرآن اللہ کا کلام ہے۔
۲) یہ محمد رسول اللہﷺ پر نازل ہوا ہے۔
۳) یہ ہر اعتبار سے محفوظ ہے، اور کُل کا کُل مِن و عن موجود ہے، اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔
یہ تین جملے ہمارے عقائد کی فہرست کے اعتبار سے، قرآن حکیم کے بارے میں ہمارے عقیدے پر کفایت کریں گے۔ لیکن انہی تین جملوں کے بارے میں اگر ذرا تفصیل سے گفتگو کی جائے اور دقّت نظر سے ان پر غور کیا جائے تو کچھ علمی حقائق سامنے آتے ہیں۔ تمہیدی گفتگو میں ان میں سے بعض کی طرف اجمالاً اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
(۱) قرآن: اللہ تعالیٰ کا کلام
سب سے پہلی بات کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے، خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ چنانچہ سورۃ التوبہ کی آیت ۶ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ سے فرمایا:
{وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّیٰ یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ}
’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دو۔‘‘
جب سورۃ التوبہ کی پہلی چھ آیات نازل ہوئیں، جن میں مشرکین عرب کو آخری الٹی میٹم دے دیا گیا کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو چار ماہ کی مدّت کے خاتمے کے بعد تمہارا قتل عام شروع ہو جائے گا، تو اس ضمن میں نبی اکرمﷺ کو ایک ہدایت یہ بھی دی گئی کہ یہ اَلٹی میٹم دیے جانے کے بعد اگر مشرکین میں سے کوئی آپؐ کی پناہ طلب کرے تو وہ آپؐ کے پاس آ کر مقیم ہو اور کلام اللہ کو سنے، جس پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دیا جائے۔ یعنی ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ وہیں اس سے مطالبہ کیا جائے کہ فیصلہ کرو کہ آیا تم ایمان لاتے ہو یا نہیں۔ اس وقت میں نے اس آیت کا حوالہ صرف ’’کلام اللہ‘‘ کے الفاظ کے لیے شہادت کے طور پر دیا ہے۔ کلام الٰہی: جملہ صفاتِ الٰہیہ کا مظہر،
قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے میں ہی اس کی اصل عظمت کا راز مضمر ہے۔ اس لیے کہ کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے اور اس میں متکلم کی پوری شخصیت ہویدا ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ کسی بھی شخص کا کلام سن کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کے علم اور فہم و شعور کی سطح کیا ہے۔ آیا وہ تعلیم یافتہ انسان ہے، مہذب ہے، متمدن ہے یا کوئی اجڈ یا گنوار ہے۔ اس اعتبار سے در حقیقت یہ کلام اللہ، اللہ تعالیٰ کی جملہ صفات کا مظہر ہے، اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا۔ ؎
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست، چیزے دیگر است
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں!
زندہ و پائندہ و گویا ست ایں!
(جو بات میرے دل میں چھپی ہوئی ہے وہ میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں کہ یہ (قرآن حکیم) کتاب نہیں ہے، کوئی اور ہی شے ہے۔ چنانچہ یہ حق تعالیٰ کی ذات کے مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی ہے۔ نیز یہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا بھی ہے اور یہ کلام بھی کرتا ہے۔)
مختلف مفاہیم و معانی کے لیے اس شعر کا حوالہ دے دیا جاتا ہے، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں اس کے ’’چیزے دیگر‘‘ ہونے کا کون سا پہلو اُجاگر کیا جا رہا ہے۔ اس میں در حقیقت سورۃ الحدید کے اس مقام کی طرف اشارہ ہو گیا ہے کہ:
{ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ}
(آیت ۳)
یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ الاوَّل بھی ہے اور الآخر بھی، وہ الظاہر بھی ہے اور الباطن بھی۔ اسی طرح علامہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کی بھی یہی شان ہے۔ نیز جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفت الحیّ القیّوم (آیت الکرسی، سورۃ البقرۃ) ہے اسی طرح یہ کلام بھی زندہ و پائندہ ہے، ہمیشہ رہنے والا ہے۔ پھر یہ صرف کلام نہیں، خود متکلم ہے۔
یہاں کلام اور متکلم کے مابین فرق کے حوالے سے متکلمین کی اس بحث کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ذاتِ حق کی صفات، ذات سے علیحدہ اور مستزاد ہیں یا عین ذات؟ علامہ اقبال نے بھی اپنی مشہور نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں اس بحث کا ذکر کیا ہے ؎
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جدا یا عینِ ذات؟
اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
یہ علم کلام کا ایک نہایت ہی پیچیدہ، غامض اور عمیق مسئلہ ہے، جس پر بڑی بحثیں ہوئیں اور بالآخر متکلمین کا اس پر تقریباً اجماع ہوا کہ ’’لَا عَیْنٌ وَلَا غَیْرٌ‘‘ یعنی اللہ کی صفات کو نہ اس کی ذات کا عین قرار دیا جا سکتا ہے نہ اس کا غیر۔ اگر اس حوالے سے غور کریں تو قرآن حکیم بھی، جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اسی کے ذیل میں آئے گا، یعنی نہ اسے اللہ کا غیر کہا جا سکتا ہے نہ اس کا عین۔ چنانچہ اس حوالے سے سورۃ الحشر کی آیت ۲۱ قرآن مجید کی فی نفسہ عظمت کے ضمن میں اہم ترین ہے:
{لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱﴾}
’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا، اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔‘‘
اس تمثیل کو سورۃ الاعراف کی آیت ۱۴۳ کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طلبی پر حضرت موسیٰؑ کے کوہِ طور پر حاضر ہونے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ یہ وہی طلبی تھی جس میں آپؑ کو توراۃ عطا کی گئی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو مخاطبہ و مکالمہ سے سرفراز فرمایا تو ان کی آتش شوق کچھ اور بھڑکی اور انہوں نے فرمائش کرتے ہوئے کہا:
{رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَؕ}
’’اے پروردگار! مجھے اپنا دیدار عطا فرما‘‘۔ مخاطبہ و مکالمہ کے شرف سے تو نے مجھے مشرف فرمایا ہے، اب ذرا مزید کرم فرما۔ اس پر جواب ملا:
{لَنۡ تَرٰىنِیۡ}
’’(موسیٰ) تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے!‘‘
{وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ}
’’لیکن ذرا اس پہاڑ کی طرف دیکھو‘‘ مَیں اس پر اپنی ایک تجلی ڈالوں گا۔
{فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡۚ}
’’چنانچہ اگر وہ پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہ جائے تو پھر تم بھی گمان کر لینا کہ تم مجھے دیکھ سکو گے‘‘۔
{فَلَمَّا تَجَلّیٰ رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسیٰ صَعِقًا ۚ}
’’پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو وہ ’’دَکًّا دَکًّا‘‘ ہو گیا اور موسیٰؑ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔‘‘
یہاں ’’دَکًّا‘‘ کے دونوں ترجمے کیے جا سکتے ہیں، یعنی ریزہ ریزہ ہو جانا، ٹوٹ پھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا، یا کوٹ کوٹ کر کسی شے کو ہموار کر دینا، برابر کر دینا۔ جیسے سورۃ الفجر کی آیت
{کَلَّاۤ اِذَا دُکَّتِ الۡاَرۡضُ دَکًّا دَکًّا ﴿ۙ۲۱﴾}
میں ان معنوں میں وارد ہوا ہے۔ وہی لفظ یہاں پہاڑ کے بارے میں آیا ہے۔ یعنی وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا یا دب گیا، زمین کے ساتھ بیٹھ گیا۔ موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کی یہ تجلی دیکھی جو بالواسطہ تھی، یعنی براہِ راست حضرت موسیٰؑ پر نہیں بلکہ پہاڑ پر تھی اور حضرت موسیٰؑ بالواسطہ اس کا نظارہ کر رہے تھے، لیکن خود حضرت موسیٰؑ کی کیفیت یہ ہوئی کہ
{خَرَّ مُوۡسیٰ صَعِقًا ۚ}
’’حضرت موسیٰؑ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔‘‘
یہاں ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کی بحث کا ایک عقدہ حل ہو جاتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی تجلی پہاڑ پر ڈالی تووہ پہاڑ دب گیا یا پھٹ گیا، ریزہ ریزہ ہو گیا، اسی طرح قرآن مجید کے متعلق فرمایا:
{لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ}
یعنی کلام اللہ کی بھی وہی کیفیت اور تاثیر ہے جو کیفیت و تاثیر تجلیِ ذاتِ الٰہی کی ہے۔ اس، کہ قرآن اللہ کا کلام اور اللہ کی صفت ہے۔ تو تجلیِ صفات اور تجلیِ ذات میں کوئی فرق نہیں۔
البتہ علامہ اقبال نے ایک جگہ اس بارے میں ذرا مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ علامہ نے حضورﷺ کی مدح فرماتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے کہ ؎
موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوۂ صفات
تو عینِ ذات می نگری و تبسمی!
علامہ حضرت محمدﷺ کا حضرت موسیٰؑ سے تقابل کر رہے ہیں کہ وہ تو تجلیِ صفات کے بالواسطہ نظارے ہی سے بے ہوش ہو کر گر گئے، لیکن اے نبیؐ! آپ نے عینِ ذات کا دیدار کیا اور تبسم کی کیفیت میں کیا۔ اس میں دو اعتبارات سے مغالطہ پایا جاتا ہے۔ اوّل تو وہ تجلی، تجلیِ صفات نہیں تجلیِ ذات تھی جو حضرت موسیٰؑ کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر ڈالی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
{فَلَمَّا تَجَلّیٰ رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ}
گویا یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے کہ وہ خود متجلی ہوا۔ دوسرے یہ کہ یہ خیال بھی مختلف فیہ ہے کہ نبی اکرم ’ﷺ نے شب معراج میں ذاتِ الٰہی کا مشاہدہ کیا۔ اگرچہ ہمارے اسلاف میں یہ رائے بھی ہے کہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، لیکن اکثر و بیشتر کی رائے اس کے برعکس ہے، اس لیے کہ وہاں بھی ’’آیات‘‘ کا ذکر ہے۔ جیسا کہ سورۃ النجم میں آیا:
{لَقَدۡ رَایٰ مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡریٰ ﴿۱۸﴾}
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ آیات، جو وہاں حضور نبی اکرمﷺ نے دیکھیں، اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین آیات میں سے ہیں۔
{ اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشیٰ ﴿ۙ۱۶﴾ مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغیٰ ﴿۱۷﴾ لَقَدۡ رَایٰ مِنۡ ایٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡریٰ ﴿۱۸﴾}
’’اُس وقت بیری پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔ نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی۔ اور اُس نے اپنے ربّ کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔
اب اُس سے زیادہ بڑی آیات اور اس سے زیادہ بڑی تجلیِ الٰہی اور کہاں ہو گی؟ لیکن دونوں اعتبار سے اس شعر میں مبالغہ ہے۔ البتہ اس آیۂ مبارکہ کے حوالے سے علامہ کے اس شعر ؎
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں!
زندہ و پائندہ و گویا ست ایں!
میں میرے نزدیک قطعاً کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ اور اس آیت مبارکہ کے حوالے سے وہ بات کہی جا سکتی ہے جو علامہ اقبال نے اس شعر میں کہی ہے۔