تاریخی اہمیت کی تنقیدی کتاب
سر سید کی علمی / ادبی تحریک کے سندھ اور سندھی ادب پر اثرات
از قلم
ڈاکٹر محمد یوسف خشک
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
اقتباس
شخصیات ہوں یا تحاریک، زیادہ مقبولیت اور طویل تاریخی زندگی انہیں مل پاتی ہے جن کے اندر دوسروں کی خدمت کا عملی جذبہ زیادہ موجود ہو جب کہ سر سید کی شخصیت اور تحریک کے اندر یہ خصوصیت باقاعدہ موجود تھی۔ تاریخ کی کتب گواہ ہیں کہ اورنگزیب کے جانشینوں میں نہ وہ کام کرنے کی لگن رہی تھی اور نہ رعایا اور حکومت کی سرپرستی کا جذبہ تھا، اس لئے ایک سو پچاس سال کے اندر یعنی ۱۸۵۷ء میں سلطنت مغلیہ کا دَور ختم ہوا اور ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں سے چلی گئی۔ حکومت اسلامیہ کا نام و نشان بھی ختم ہو گیا، اب معاشی طور پر مسلمان اس حد تک پست ہو چکے تھے کہ ان کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی بھی میسر نہیں آتی تھی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں کا تمام جاہ و جلال یکسر ختم ہو چکا تھا۔
ایسی صورتحال میں سر سید نے زمانے کا رنگ دیکھ کر خود کو اور مسلم قوم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ مسلمانوں کی بقا اور ترقی کے لئے نئے شعور پیدا کیے جائیں اور زمانے کے اس نبض شناس نے اپنی ذہانت سے وقت کی رفتار اور تقاضوں کو سمجھنے کے بعد نہ صرف دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کی بلکہ اس کے لئے ایک باقاعدہ ایسا مضبوط عملی پروگرام بنایا جو آج بھی ترقی کی راہ کے لئے قابل عمل ہے۔
سر سید کی تحریک سیاسی تھی لیکن قومی تحریک ہونے کے ناطے ان کی توجہ تعلیم کی طرف زیادہ تھی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ تعلیم قوموں کی زندگی میں اہمیت رکھتی ہے اس لئے انہوں نے اس سلسلے میں درسگاہ اور ایک سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کا اس تحریک پر بہت گہرا اثر ہوا اور مسلمانوں میں ذہنی انقلاب آیا۔ اس سوچ کی بدولت اس دَور میں مشہور ادبی ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنے زمانے کے رائج ادبی انداز بھول کر سر سید کی اصلاحی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سلسلے میں ہمت و حوصلے کو لئے سر سید کے ہم خیالوں میں نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، حالی، نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ، مولوی چراغ علی وغیرہ نمایاں تھے۔ سر سید احمد خان کی نظر میں مسلمانوں کی ترقی کے لئے جدید تعلیم ہی بنیادی ضرورت تھی کیونکہ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ جب تک ہندوستان کے مسلمان مغربی علوم و فنون سے ناآشنا رہیں گے اور مغربی معاشرت سے نابلد رہیں گے اس وقت تک مسلمان نہ تو انگریزوں میں گھل مل سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا اثر انگریزوں پر قائم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے لئے انہوں نے مدرسہ غازی پور میں قائم کیا، جس کو انہوں نے بعد میں علی گڑھ میں تبدیل کر دیا۔ (۱)
سر سید کی اس تعلیمی تحریک نے خوب اثر پیدا کیا اور برصغیر کے تمام صوبوں کے مسلمانوں میں بیداری کی روح پھونک دی تھی، اس میں سندھ نہ صرف شامل تھا بلکہ عملی طور پر سر سید کی اس تعلیمی تحریک کے زیر اثر یہاں جو کاوشیں ہوئیں انہوں نے سندھ کے علم و ادب کو کئی نئے مستقل خوبصورت رنگ دئیے۔ سر سید کی اس تعلیمی تحریک کے زیرِ اثر جس بیدار مغز اور دانش مند رہنما نے سندھ کے مسلمانوں کو جدید تعلیم اور انگریزی تعلیم کی طرف راغب کیا، وہ خان بہادر حسن علی آفندی تھے (۲)۔ حسن علی آفندی نے علی گڑھ میں سر سید اور ان کے رفقا سے تبادلہ خیال کیا، دارالعلوم علی گڑھ کو دیکھا اور اس کی روشنی میں اپنی اسکیم مرتب کی (۳)۔ مرحوم آفندی نے سندھ کے مسلمانوں کی پست اور بے حس و بے حرکت زندگی میں تحرک پیدا کرنے کے لئے سندھ مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی۔ ۱۴ اگست ۱۸۸۵ء کو اس مدرسے کا افتتاح ہوا اس وقت کراچی کی آبادی ایک لاکھ ۷۰ ہزار سے زیادہ نہیں تھی (۴)۔ اس طرح آپ ’’سر سید سندھ‘‘ کے لقب سے زندہ جاوید ہو گئے۔ جس طرح سر سید کے ساتھی مولانا حالی نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لے ’’مسدس حالی‘‘ تحریر کی اور نذیر احمد نے معاشرے کی اصلاح کے لئے نثر میں قلمی جوہر دکھائے، اس طرح حسن علی آفندی کے ساتھی مولانا اللہ بخش ابوجھو نے ’’مسدس ابوجھو‘‘ تحریر کی اور رئیس شمس الدین بلبل نے ’’رحیم الطیف‘‘ تحریر کی۔ سر سید احمد خان کے دیگر رفقاء کار علامہ شبلی نعمانی، نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، مولوی ذکاء اللہ اور مولوی چراغ علی وغیرہ کی طرح سندھ کے سر سید، حسن علی آفندی کے مشن کو کامیاب و کامران بنانے کی خاطر اسی انداز میں سندھ کے جن ارباب علم و دانش نے مسلسل محنت و کاوش اور پیہم جد و جہد کی، ان میں مخدوم الشعرا الحاج محمود خادم لاڑکانوی، مرزا قلیچ بیگ، میر عبد الحسین سانگی اور شمس الدین بلبل کے اسمائے گرامی ہماری قومی تاریخ میں روشن میناروں کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ سندھ مدرسہ کو تو یہ بھی فخر حاصل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح جیسے طالب علم بھی یہاں سے مستفید ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں محمدیوسف عطا لکھتے ہیں کہ
’’سندھ مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر ایس ناصر حسین نے فخر سے مجھے اسکول کا ریکارڈ پڑھ کر سنایا جس سے معلوم ہوا کہ جناح کے نام سے ایک لڑکا جسے قدرت نے منفرد قوم کا معمار بنانے کا فیصلہ کیا تھا وہ تین دفعہ اس اسکول میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے ۴ جون ۱۸۸۷ء میں داخل ہوئے، بعد میں اسکول چھوڑ گئے، دوسری بار ۷ جنوری ۱۸۸۸ء میں داخل ہوئے اور ۷ جولائی ۱۸۸۸ء کو اسکول چھوڑ گئے اور تیسری دفعہ ۹ فروری ۱۸۹۱ء میں اسکول میں داخل ہوئے اور ۳۰ جنوری ۱۸۹۲ء کو اسکول چھوڑا۔ سندھ مسلم کالج کی حیثیت سے قائد اعظم نے ہی اس ادارے کا افتتاح کیا۔ قائد اعظم کی اس ادارے کے ساتھ آخر تک اتنی محبت رہی کہ اپنی ملکیت کا بڑا حصہ سندھ مدرسہ کو وصیت میں دے گئے۔ ‘‘ (۵)
سر سید احمد خان نے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی تو اس کے زیر اثر حسن علی آفندی نے سندھ محمد ایسوسی ایشن کی داغ بیل ڈالی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب اس انجمن کی معرفت سندھ مدرسہ کے لئے چندہ اکٹھا ہونا شروع ہوا تو جس طرح سر سید کے مخالفین نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اسی طرح یہاں پر بھی آفندی کی مولویوں نے خوب مخالفت کی۔ اس حد تک کہ گالیاں بھی خطوط میں بھیجی گئیں۔ ایک شخص نے آپ کو ایک خط میں لکھا:
’’اي حسن علی وکیل توکی خدا ذلیل کري‘‘ (۶)
سخت مخالفت کے باوجود آپ سر سید کی طرح اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مستقل جد و جہد کرتے رہے۔ حسن علی آفندی نے سندھ مدرسۃ الاسلام شروع کر کے سندھ کے مسلمانوں میں مغربی تعلیم کے توسط سے بیداری پیدا کی اور ان کے ہم خیالوں، سید الہند و شاہ نے نوشہرو فیروز میں انگریزی مدرسہ کی بنیاد رکھی، جہاں سے شمس العلماء داؤد پوتہ جیسے لوگ بھی فیض یاب ہوئے (آپ کے فرزند سال ۲۰۰۰ء میں صوبہ سندھ کے گورنر تھے۔ ) اب یہ مدرسہ ہائی اسکول نوشہرو فیروز کی صورت میں موجود ہے۔ تیسرا اسی طرح کا اسکول پتھورو میں جناب غلام نبی شاہ نے بھی کھولا جو پتھورو میں کامیاب نہ ہوسکا جس کی وجہ سے اسے میرپور خاص منتقل کیا گیا۔ اسی طرح لاڑکانہ میں وہاں کے زمینداروں کی کوشش سے اور مسٹر پیٹر آئی۔ سی۔ ایس کلکٹر لاڑکانہ کی خاص توجہ سے ایک مدرسہ قائم کیا گیا (۷)۔ (یہ مدرسہ انگریزی پانچویں جماعت تک کی تعلیم کے لئے قائم کیا گیا) ۱۹۰۶ء میں شمس الدین بلبل نے میہڑ میں مدرسۃ الاسلام قائم کیا جو بعد میں مدرسہ ہائی اسکول بن گیا۔
سر سید نے رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا تو سندھ میں حسن علی آفندی نے ۱۸۹۹ء میں ہفت روزہ اخبار ’’معاون‘‘ کراچی کا اجراء کیا اور اس کی ادارت کے فرائض شمس الدین بلبل کے سپردکیے۔ بلبل ’’معاون‘‘ کے علاوہ مختلف اخبارات ’’کراچی گزیٹ‘‘، ’’خیرخواہ‘‘ لاڑکانہ، ’’مسافر‘‘حیدرآباد، ’’الحق‘‘ اور ’’آفتاب‘‘ سکھر کے بھی مدیر رہے۔ ان اخبارات نے جد و جہد آزادی جاری رکھنے اور سندھی مسلمانوں میں سیاسی شعور اور علمی و تعلیمی رجحانات پیدا کرنے میں خاص حصہ لیا۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ اس تحریک کی لہر کا اثر تھا کہ اپنے مقصد کی حاصلات کے لئے یہاں کے لکھاریوں نے بھی اپنے قلم کی جولانیاں پیش کیں جیسے ۱۸۹۹ء میں ’’باقرانی اسٹیشن‘‘ کے نزدیک گاؤں ٹھلہ سے پیر ابو القاسم مظہر الدین نے ماہنامہ ’’الاخوان المسلمون‘‘ جاری کیا، سنہ ۱۹۰۰ء میں مولانا تاج محمد امروٹی نے ماہنامہ ’’ہدایت الاخوان‘‘ جاری کیا، سنہ ۱۹۰۴ء میں محمد ہاشم مخلص نے ماہنامہ ’’تحفہ احباب‘‘ جاری کیا۔ ۱۹۰۵ء میں محمد اسماعیل جان سرہندی نے ٹکھڑ سے مذہبی رسالہ ’’بہار اخلاق‘‘ جاری کیا۔ سنہ ۱۹۱۰ء میں محمد ہاشم مخلص نے ماہنامہ ’’جعفر زٹلی‘‘ جاری کیا، ۱۹۱۳ء میں محمد صالح بھٹی اور حکیم فتح محمد سیوہانی کی سرپرستی میں کراچی سے ماہنامہ ’’الاسلام‘‘ شروع ہوا، ۱۹۱۶ء میں حکیم محمد صادق رانی پوری نے رانی پور سے ’’صحیفہ قادریہ‘‘ جاری کیا جس میں طبی معلومات کے ساتھ اسلام اور اخلاق کے متعلق مضامین ہوتے تھے اور ان ماہناموں میں شائع ہونے والی تحریروں کو پڑھنے کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان تمام کاوشوں کی منزل ایک ہی تھی۔
سندھ میں مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی اور معاشی زوال کا سب سے پہلے ذکر آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سولہویں اجلاس میں ہوا تھا۔ یہ اجلاس دہلی میں ۱۹۰۲ء میں ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت کے فرائض ہزہائینس سر آغا خان نے سر انجام دئیے تھے۔ اس اجلاس میں محمد علی خان دہلوی بیرسٹر کراچی (جو بعد میں کونسل کے ممبر ہوئے اور انہیں ’’سر‘‘ کا خطاب ملا) سندھ کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی تھی، اس کی اس کوشش اور نواب محسن الملک کی تائید سے اس وقت مندرجہ ذیل تجویز منظور ہوئی:
’’اس کانفرنس کے لئے لازم ہے کہ اپنے تعلیمی اور اصلاحی کام کے دائرے کو وسیع کرے اور سندھ کے ان مسلمانوں سے شرکت کرے جو سندھ میں تعلیم کی اصلاح کے لے جدوجہد میں مصروف ہیں کیونکہ صوبہ سندھ کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے۔ ‘‘ (۸)
اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے کانفرنس کے رہنماؤں نے سندھ کے دورے کیے اور حالات کی رپورٹ کانفرنس میں پیش کی اور بالآخر جب آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا بیسواں اجلاس ۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ میں ہوا تو اس وقت سردار محمد یعقوب وزیر خیرپور میرس، سندھ کے مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال پر دردناک رپورٹ پیش کی اور سینٹرل اسٹینڈنگ کمیٹی کو درخواست کی کہ آئندہ اجلاس سندھ میں کیا جائے، اس وقت تک سندھ کی آبادی ۳۲ لاکھ ۱۰ ہزار ۹ سو ۱۰ افراد پر محدود تھی اور اس میں ساڑھے ۲۴ لاکھ مسلمان تھے (۹) جس کی وجہ سے ڈھاکہ کانفرنس میں نواب محسن الملک نے فیصلہ کیا کہ ۱۹۰۷ء کا اجلاس سندھ کے دار الحکومت کراچی میں منعقد کیا جائے (۱۰)۔
دسمبر کے آخر میں یہ اہم اجلاس بلایا گیا، ۲۲ دسمبر سے مہمانوں نے آنا شروع کر دیا تھا۔ اس کانفرنس کے سارے اخراجات والی ریاست خیرپور میر فیض محمد خان کی طرف سے ان کے وزیر شیخ صادق علی نے ادا کیے تھے (۱۱) اور اسی اجلاس میں علی گڑھ کالج کو مسلم یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے قرارداد بھی خیرپور ریاست کے وزیر شیخ صادق علی خان نے ہی پیش کی تھی جو کہ بہاولپور کے وزیر مولوی رحیم بخش کی پُر زور تائید کے بعد منظور کر لی گئی تھی (۱۲)۔
اس اجلاس میں جو قراردادیں منظور ہوئیں ان کو پیش کرنے میں اور تائید کرنے والوں میں شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ ڈپٹی کلکٹر، شیخ صادق علی وزیر خیرپور، علی محمد خان دہلوی بیرسٹر (جو بعد میں انڈیا کونسل کے ممبر بنے، آپ کے فرزند منظور قادر پاکستان کے وزیر قانون رہے) ڈاکٹر ایس جی حاجی، منشی محبوب عالم مدیر ’’پئسہ‘‘ اخبار لاہور، شیخ عبد اللہ وکیل علی گڑھ، محمد شفیع بیرسٹر لاہور، سیٹھ طیب علی بھائی کراچی، میر اللہ بخش، حاجی عبداللہ ہارون (پاکستان تحریک کے علمبردار تھے) عبدالسلام رفیقی، خان بہادر شیخ صادق علی رئیس اعظم امرتسر، خان بہادر مولوی رحیم بخش وزیر اعظم ریاست بہاولپور، میجر سیّدحسن بلگرامی، سیّد نواب علی چودھری رئیس کلکتہ وغیرہ شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو تقریباً صدی پہلے بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تعلیمی اصلاح کے لئے جد و جہد کرتے رہے (۱۳) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ’’تاریخ آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس‘‘۔
٭٭٭