احتجاجی نظموں کا مجموعہ
احتجاج لفظوں کا
از قلم
دلشادؔ نظمی
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
احتجاج لفظوں کا
(نظمیں)
دلشاد نظمی
نام: عبدالرشید دلشاد
قلمی نام: دلشاد ؔ نظمی
پیدائش: ۵ جنوری انیس سو پینسٹھ
مقام پیدائش: جمشید پور
والد کا نام: فضل کریم
تعلیم: بی اے
رابطہ: ہاتھی خانہ، ڈورنڈہ، رانچی، 834002
موبائل نمبر: 1 870996632
UPI :
8703366321@ybl
ای میل: nazmi.dilshad@gmail.com
پیش لفظ
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے، کئی رویوں کی خاک چھانی
( عزم بہزاد)
مرحوم عزم بہزاد کا یہ شعر میری نظموں اور غزلوں کے حوالے سے مجھ پر صادق آتا ہے۔ بنیادی طور پر ابتدا ء ہی سے غزلوں کا رجحان بنا ہوا تھا، ادھرچند ایک برسوں سے طبیعت نظمیں کہنے پر مائل ہوئی، بدلتے ہوئے سماجی، معا شرتی، سیاسی اور عالمی حالات نے میری شعر گوئی کو بھی متاثر کیا، چند ایک افسانچے اور واقعات نظروں سے گزرے، وہیں سے نظم کے شوق نے راہ پکڑی۔ پھر رفتہ رفتہ تجربات و مشاہدات کا عکس میری نظموں میں در آنے لگا، نثر پڑھتے ہوئے کبھی کبھی کوئی جملہ، خیال، کہانی یا ناول کے درمیان سے نکلا کوئی اقتباس میری نظم کا محرک بنتا گیا، مشہور و معروف افسانہ نگار جناب اختر آزاد نے کبھی کہا تھا کہ شعراء اور نثر نگاروں کی مخلوط ورکشاپ نئے نئے موضوعات کا باعث ہوتی ہے لیکن موجودہ ادبی منظر نامے پر ایسی فضا نظر نہیں آتی، جو لوگوں کو ایک دوسرے سے استفادہ کرنے میں معاون ثابت ہو سکے، میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا کہ شعراء کو مختلف ادبی سماجی ثقافتی محفلوں کا حصہ بننا چاہئے، جہاں سے اُنہیں نئے نئے موضوعات کی فراہمی ہو یہ اصول ادباء پر بھی لاگو ہوتا ہے، مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ نظم کا کینوس بہت وسیع ہے اور میں نظم کے ذریعہ اپنی بات احسن طریقے سے کہہ سکتا ہوں، بے جا لفاظی سے پرہیز کرتے ہوئے میں نے ہمیشہ نظم کے پلاٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے کینوس پر اپنی دانست سے شعری پینٹنگ کرنے کی سعی کی ہے، تقریباً نظمیں ایک ہی نشست میں مکمل ہوئی ہیں۔
جب میں اپنا شعری مجموعہ ’کوئی ایک لمحہ رقم نہیں‘ ترتیب دے چکا تو سوچا کہ لگے ہاتھوں نظمیں بھی یکجا کر لوں لہٰذا نظموں کا مجموعہ ’احتجاج لفظوں کا‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
انسانی زندگی آتی جاتی سانسوں کے ساتھ تا عمر مختلف طرح کے تجربات و مشاہدات سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔ فنکار کا تخئیل اسی سے اپنا خام مال اکھٹا کرتا ہے، خواہ وہ مثبت پہلو کا غماز ہو یا منفی.. میں نے کوشش کی ہے کہ بالکل سادہ لفظوں کے سہارے اپنے جذبات، تخیلات، احساسات مشاہدات و تجربات نظم صورت پیش کروں۔
بدلتے ہوئے سماجی، سیاسی، اور معاشرتی رویوں اور اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثات نے کھرے کھوٹے کی پہچان کرائی اور زندگی کا سبق سکھایا، چند ایک معتبر دوستوں ( بالخصوص ابرار مجیب) نے میری بہت حوصلہ افزائی کی، اور مجھے مزید کہتے رہنے کی صلاح دی، جن کا میں مشکور ہوں، میرے دوست ڈاکٹر قاسم خورشید کا میں احسان مند ہوں کہ انہوں نے مجھے نظموں کا مجموعہ ترتیب دینے کے لیے بہت اصرار کیا.. پتہ نہیں کس قابل ہیں، مجھے اہل نظر قارئین کے احتساب کا انتظار ہے، مجھے اُمید ہے کہ میری نظموں کا مجموعہ ’احتجاج لفظوں کا‘ آپ کے ذوقِ مطالعہ سے گزر کر مجھے آپ کی دعاؤں سے نوازے گا۔
شکریہ،
آپ کے نیک مشوروں کا منتظر
دلشاد نظمی
منٹو کے تعاقب میں
مجھے منٹو سے ملنا ہے
وہی منٹو جو اپنی مختصر باتوں سے افسانے بناتا ہے
جو ہر موضوع سے انصاف کرتا ہے
جو ہر بہروپیئے کے چہرے پر آئے پسینے سے
سماجی آئینے کو صاف کرتا ہے
خلالی اُنگلیاں جب داڑھیوں میں سرسراتی ہیں
کبھی تسبیح کے دانے گھماتی ہیں
وہ ساری اسکرپٹ ازبر ہے منٹو کو
مرا منٹو کبھی ہلتے لبوں کو دیکھ کر دھوکا نہیں کھاتا
ہر اک ٹوپی ہر اک دستار پیشانی کے قشقے پر نظر ڈالے
فریب و مکر، شہوت کے مناظر ڈھونڈ لیتا ہے
فحش کہتی ہے یہ دنیا، اُسے آوارہ لفظوں کا سخنور بھی سمجھتی ہے
مرا منٹو فقط جراح ہے شرفاء کا غرباء کا
وہ بس انصاف کرتا ہے ہر اک ناسور کا یکساں
چھری الفاظ کی لے کر.. جواں لہجے کے چاپڑ سے
ہر اک فاسد عقیدے، رسم اور سفلی خیالوں کی
فقط کھالیں اُدھیڑے
جسم کو پہچان دیتا ہے
وہ تب کہتا ہے دنیا سے…. بہت کچھ ہو کے بھی انسان بس اِتنے کا مالک ہے
یہ شرفاء جو مہذب بن کے پھرتے ہیں، فقط منٹو سے ڈرتے ہیں
کہ اس کے ہارڈ ڈسک پر ہر کسی کے کارنامے سیو رہتے ہیں
مرے منٹو کی نظریں تو کسی بھی ہائی پکسل کیمرے سے بھی ہیں طاقتور
سماجی اکسرے کے فن میں ماہر ہے مرا منٹو
کسے ہے ایڈز کس کے ذریعہ آیا ہے، سبب کیا ہے
بہت اچھی طرح سے جانتا ہے سب مرا منٹو
مرا منٹو معلم ہے معالج ہے مفکر ہے مدبر ہے مصور ہے سبھی کچھ ہے
بہت منھ پھٹ بھی ہے کیونکہ
مرض کی کر کے جب تشخیص پرچی کاٹتا ہے تو
ہمیشہ سستے لوگوں کو علاج اس کا بہت مہنگا ہی لگتا ہے
میرے منٹو کو گندہ کہنے والے خود ہی گندے ہیں
مری منٹو کو حاصل یہ سعادت ہے
وہ ٹھنڈے گوشت کی بُو کو بہت اچھی طرح پہچان لیتا ہے
بلاوز میں یا برقع میں کوئی بھی ہو
ہو سرکنڈوں کے پیچھے یا دھواں بارش کی زد میں ہو
وہ ہر موذیل کو پہچان لیتا ہے
کوئی کہہ کر تو دیکھے کھول دو پھر دیکھنا منٹو
اِنہیں دو لفظوں کے بل پر
مکمل شجرہ اس کا کھول دے گا ایک جھٹکے میں
مرے منٹو کو ہیں دونوں طرف کی گالیاں ازبر
اگلواتا ہے وہ کردار کے منھ سے
سیاسی گندھ کو لفظوں کی کھرپی سے کھرچتا ہے
پروفائل ہے اس کے ذہن میں اچھی بری ہر ایک عورت کی
ہر اک عورت کو اپنے زاوئیے سے وہ پرکھتا ہے
اگرچہ ان دنوں ہے اک زمانے سے کہیں غائب
میں اس کو ڈھونڈنے نکلا ہوں عرصے سے
مجھے لکھوانے ہیں افسانے چند ایک خاص لوگوں پر
سیاست داں، پروفیسرز، بیروکریٹس، ملّا پر
ہر اک مذہب، حکومت پر منافق پر
ہیں موضوعات سارے منتظر لیکن
مجھے منٹو تو مل جائے
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔
بھوگ
آٹھ برس کی چنچل کملا
اس دن بھی تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی
اور تتلی کہ
اس کے ہاتھ نہیں آتی تھی۔
تتلی کی لالچ میں نہ جانے
اُونچی سیڑھیاں کب چڑھ بیٹھی
ماں درگا مندر کے آنگن میں وہ تتلی جا بیٹھی تھی
ہاتھ بڑھا کے پکڑا تھا کہ
بڑے زور کی گرج نے اس کو اندر تک دہلا کے رکھ دیا
دشٹ… ہریجن، نیچ، کمینی…
تُو مندر میں؟
سہم گئی اک لمحے میں معصوم سی کملا
گھونسے، لاتوں کی زد میں معصوم سی بچی چیخ رہی تھی
سمجھ نہ پائی ایسا کیوں ہے
کچھ ہی چھنوں کے بعد اچانک
کام دیو میں
بھوگ لگانے کی اِچھائیں جاگ گئی تو
پنڈے نے چیلوں کی نگرانی میں اپنا بھوگ لگایا
پھر پرشاد انہیں بھی بانٹا
لیکن جاتے جاتے کہہ گیا
بچہ۔۔۔
جھوٹھا پتّل۔ مندر کی پچھلی کھائی میں اُلٹا دینا
گدھ جناور موج کریں گے
گھر کے باہر، اک کونے میں
گھڑے کا سارا پانی اپنے سر پہ الٹ کر
ہری اوم کا جاپ کیا اور
دبی زبان سے کہتا گیا
دھت….
بھرسٹ کر دیا دھرم ہمارا
نیچ، کمینی۔ پاپی ہریجن، کلموہی نے….
انصاف
اک مفلوک الحال دیہاتی
بدھوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھانے کی سیڑھی پر اپنے سر کو جھکائے
ہاتھوں کو جوڑے
پڑا ہوا ہے
صاحب نکلیں تو اپنی بپتا بتلائے
صاحب جی آفس کے اندر
جانے کب سے
کن لوگوں میں الجھے ہوئے ہیں
کتنے گھنٹے بیت چکے ہیں
بدھوا کے آنسو بہہ بہہ کر
سوکھ چکے ہیں
لو بھوجن کا سمئے ہوا
اب صاحب نکلے
ایک نظر بدھوا کو دیکھا
جھٹ سے کھڑے ہوتے بدھوا کو
دیکھ۔۔۔ حقارت سے یہ پوچھا
: کابے بوڑھوا،….. کاہے آیا۔۔۔؟؟؟
ان کے پیچھے۔۔۔ کیسری پٹے والے نکلے
چونک گیا یکبارگی بدھوا۔۔۔۔
یہی تو تھے کملا کے پاپی
اٹھا لے گئے میری۔۔۔ بٹیا….
بدھوا کے اندر نفرت کی لہر اٹھی
اور کچھ کہتا پر اس سے پہلے
پیچھے سے صاحب کے کان میں
کیسری پٹے والے نے کچھ کھسر پھسر کی
صاحب جی کی ہونہہ سے تیور بدل گئے تھے
بدھوا اشارہ کرنے لگا پیچھے کی جانب
لیکن بول نہیں پایا کچھ
صاحب جی منشی کو اشارہ کرتے ہوئے چل دئیے تھے باہر
اس کے بعد کے دھکے۔۔۔ طمانچے اور گالیاں۔۔
لے کر بدھوا باہر نکلا.. روتا روتا
تبھی وہاں پر شور مچاتے لوگ آئے اور چیخ چیخ کر
گؤ ہتھیا کی خبر سنائی۔۔۔
آن کی آن میں سارا عملہ
جیپ میں بیٹھا
نکل چکا تھا۔۔۔۔
گؤ ماتا کے ہتھیاروں کو سبق سکھانے۔۔۔
بدھوا تو اک دلت ہے بس…. انسان کہاں ہے!
………………………………….
اینٹی رومیو ایکشن
بہت اچھا کیا
پابندیاں بیحد ضروری تھیں
یہ کیا کہ
درس گاہوں… سڑکوں بازاروں میں
ہر جانب
کہیں بھی عشق فرما لے کوئی بھی
کھیل ہے کیا یہ؟؟
مقدس بھاگوت.. وشنو پرانوں میں لکھی باتیں
وہ تحریریں….. کہ جن پر
بھوگ اور سمبھوگ کا اتہاس قائم ہے
کنواری گوپیاں، وہ جمنا تٹ۔۔۔ اور راس لیِلائیں
وہ سنت، ورندا ون کی سب پہ تو لاگو نہیں ہوتی
تمہیں تقلید کرنے کا یہ حق کس نے دیا آخر
اجنتا اور الورا دیکھنے کی چیز ہے لیکن
ضروری تو نہیں چوراسی آسن سب کو آ جائیں
ضروری تو نہیں کامکھیا کا ہر کوئی منظر
تم اپنی آنکھ سے دیکھو
عمل میں بھی انہیں لاؤ
ضروری تو نہیں ویدوں میں لکھی باتوں کو
اپنے ہی مطلب کی سمجھ لینا
وہ سارے کام تو مختص ہیں اعلیٰ ذات کی خاطر
صحیفے تو فقط مخصوص طبقے کی امانت ہیں
تمہارا حق نہیں ان پر
سمجھنے کا نہ پڑھنے کا
تم اپنی شردھا اپنے تک رکھو
بس نعرے ہی مارو
زیادہ کیوں اچھلتے ہو
عبادت گاہوں کی تم سیڑھیاں تو چڑھ نہیں سکتے
تمہیں دھوکا ہوا پھر سے
کہ تم سب ایک ہی تو ہو
ذرا ٹھہرو۔۔۔ دراوڑ نام کی نفرت
مقابل کھل کے آئے گی
تمہیں کچھ دوسرے جنگل دکھائے گی
غلاموں کی طرح پھر داسیوں سے عشق کر لینا
مگر وہ داسیاں جھوٹھی ہی نکلیں گی….
رنگ
رنگ ریزوں کی منڈی میں اب
دوسرا کوئی رنگ نہیں ہے
ڈوبنا ہو گا بڑی کڑھائی کی گہرائی میں اب پورا
اب سفید اور ہرے رنگ کی خیر نہیں ہے
کچھ کہہ نہیں سکتے
اک رنگریز ہے جو ڈنڈے سے گھما رہا ہے
سارے کپڑے
اپنے جیسے رنگ ریزوں کا بنا ہے مکھیا
لہو رنگ سے رنگے گئے تھے پہلے کپڑے
ان کپڑوں کے داغ ابھی تک دھلے نہیں ہیں
شاید اس نے اپنے جیسے رنگ ریزوں کو
من کی بات بتا رکھی ہے
اسی لئے تو… قریہ قریہ… شہر شہر اور گاؤں گاؤں میں
لگنے لگیں ہیں روز بھٹیاں
اور کڑھائیاں چڑھنے لگی ہیں
آگ بھی اب سلگائی جا چکی کہیں کہیں پر
بلدیہ عدلیہ ایک اک کر کے سارے محکمے
رنگ وہی اپنانے لگے ہیں
گانے لگے ہیں راگ انہیں کے
جانتے ہو وہ کون سا رنگ ہے؟۔۔۔۔۔ کیسریا ہے۔۔۔۔
بانس کا بارڈر
عائشہ کے گھر والے اس کو
نہیں بھیجتے بِملا کے گھر
روتی ہے معصوم عائشہ
چیختی ہے بِملا اپنے گھر
رام نومی سے لگا محرم ایک ہی ساتھ چلا آیا ہے
بانس کا بارڈر ہے رستے کے دونوں جانب
ہندو اور مسلم کی بستی بانٹ رہا ہے
بند دکانیں، سونی بستی، ہو کا عالم
شام کا رات کی گود میں اپنا سر رکھتے ہی
ڈھول، نگاڑے، تاشے یکدم بجنے لگے ہیں
گونجتے ہیں کچھ ایسے فقرے، ایسے نعرے
جو بس سال کے اس موسم میں لگتا ہے کہ
پھر زندہ ہیں
مٹھی بھر لوگوں نے شہر میں تہواروں کو
عجب سیاسی رنگ دیا ہے
ہفتے دس دن تک ہر اک دن ملنے والے
مل نہیں پاتے
طاہر اپنے گھر میں مقید
کرشنا اپنے گھر میں بندی
لیکن میں نے اکثر دیکھا….
خوف بھرے ماحول کے ہوتے بھی بستی میں کچھ لوگوں نے
کچھ گلیوں کے پار سے آ کر
دستک دی ہے دروازوں پر
کچھ سامان دیا، کچھ چیزیں لے کر لوٹے۔
مذہب اور جنون ہے ذہن و دل پر حاوی
لیکن پیٹ کو دانہ پانی تو لازم ہے….
طلسم امروز
بچپن کا اک بھولا تماشہ
اب یاد آیا…
الکھ نرنجن۔۔۔۔ ۔ جئے مہا کالی۔۔۔ تیرا وچن نہ جائے خالی
نعرہ مارتے جادو گر نے
لاش نما کالے کپڑے سے
ڈھکے جمورا کی چھاتی پر۔۔۔ پھر گردن پر
پَے در پَے چاقو سے کتنے وار کئے تھے
جگہ جگہ سے بھیگ گئی تھی خون سے چادر
لال لال اور تازہ تازہ فوارے کی صورت نکلا
سڑک پہ پھیلا
خوف سے چیخیں نکل گئیں تھیں
ڈر کے کئی پیچھے بھاگے تھے
عورتیں ہاتھ رکھے سینے پر
بند کئے آنکھوں کے دریچے، کانپ گئی تھی
بچے ماوں کے قدموں سے چمٹ گئے تھے خوف کے مارے
لیکن وہ تو کھیل محض تھا
کچھ لمحوں میں، مردہ جمورا پھر زندہ تھا
اور کانسے کا برتن پکڑے
مانگ رہا تھا بھیڑ سے پیسے…
پٹتے ڈھول کی لئے پہ گھوم کر
لیکن اب تو کئی جمورے
پہنے ہوئے بارودی جیکٹ
گھوم رہے ہیں بھیڑ کے اندر
اور ریموٹ لئے جادو گر، ڈھونڈ رہا ہے اچھا موقع
زندہ…. جمورا اب نہیں ہوتا
بھیڑ بھی ساتھ ہی مر جاتی ہے
دیکھتی ہے پھر دنیا تماشہ……………
عالمی یوم خواتین
آج کی شام
پوش علاقے کے کمیونیٹی ہال کے اندر
اک تقریب کی تیاری ہے
ہال کے اندر دیواروں پر
عورتوں کی تصویریں لگی ہیں
کئی طرح کی عورتیں ہیں یہ
ہر خطے کی، ہر صوبے کی
جھلک نمایاں کرتی ثقافت کی جو اپنی
آنچل، گھونگھٹ، کھلا ہوا سر
نیم عریاں پستان، کہیں پر ناف کا فوکس
ابھرے کولہے، مڑے ہوئے چہروں کے زاوئیے
بھوک علامت بن کے کسی چہرے پر روشن
کھیتوں کے اندر کا منظر،
پگڈنڈی، گاگر اور ہنسوا
ہوا پھونکتی پائپ سے لکڑی کے چولہے پر
چنگاری اور دھوئیں کا منظر
فیکٹری اور اسکول کا منظر،
دفتر کے اندر کی عورت
سب تصویریں ایک سے بڑھ کر ایک لگی ہیں
عالمی یوم نسواں کی تیاری مکمل
مہمانوں کی آمد آمد ہونے لگی ہے
اب دیکھو
ان سجی سجائی عورتوں کے پہلو میں بیٹھے
بوڑھے وزیر کو
اس کے بغل میں تلک لگائے گھنی مونچھوں والے پنڈت کو
بڑی بڑی اور سرخ ڈورے والی آنکھوں کا، اک ملّا بھی
کلین شیو میں الجھی جنس کا مالک بھی ہے
آنکھیں نچا نچا کے جو سب دیکھ رہا ہے
سینے پر تقریب کا بلا لٹکائے اس ہال کے اندر
کسرتی جسم کے گیگلو لڑکے چہک رہے ہیں
ایسا لگنے لگا ہے ہال کی ہر کرسی پر
جسم نمائش پر بیٹھا ہے
آنکھوں کی دعوت پر ہونٹ تبسم ریز ہیں
الجھی سانسیں بھی تخمینہ لگا رہی ہیں
نظر، نظر سے الجھی ہوئی ہے
یہ جو مائک پہ اعلیٰ سوسائٹی کی عورت ہے
ڈھلتی عمر کی جاذب عورت
اسے کہیں دیکھا ہے میں نے
ارے ارے، ہاں اب یاد آیا
کچی بستی کے چکلے کی بائی تھی پہلے
اففف یہ عورت۔
اور جو ہیں اسٹیج پہ بیٹھے لوگ…. یہ سارے
ہوس زدہ، عصمت کے مجرم۔ آبروریزی کرنے والے
کئی مقدمے جھیل کے آج یہاں بیٹھے ہیں
عالمی یوم نسواں میں تقریب کے اندر
کچھ گاہک اور کچھ دلال ہیں
اور بہت ساری ماڈلز ہیں
لیکن میں تو
ان میں حوّا ڈھونڈ رہا ہوں….
ہومو سیکس
تھا سامنے ہی۔۔
بہت ہی تکلیف میں وہ بچہ
جو دس سے بارہ کی عمر کا تھا
دبائے پہلو میں ایک گٹھری
سڑک کے اس پار
گیلی آنکھوں سے منتظر تھا
بسیں یہاں رکتی ہیں کچھ اک پل
کئی بسوں کے گزرنے کے بعد بھی وہ اپنی
جگہ پہ ہی تھا
نجانے کس بس کا منتظر تھا
میں چائے خانے سے اٹھ کے اس کے قریب پہنچا
بڑی ہی شفقت سے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا
وہ لمس سے میرے چونک اٹھا
جھجھک کے دو اک قدم کو پیچھے ہوا اچانک
کیا نام ہے؟ اور کہاں سے آئے ہو
جاؤ گے کہاں تم
بہت پریشان لگ رہے ہو، بتاؤ بیٹا..
ڈرو نہیں، میں مدد کروں گا
مری تسلّی نے تھوری ہمت عطا کی اس کو
تھی گیلی آنکھیں مگر اچانک چھلک پڑی تھیں
اور ہچکیوں نے بھی زور پکڑا
پھر اس نے رک رک کے سر جھکائے بتایا جو کچھ
بیاں نہیں کر سکوں گا شاید کبھی کسی سے
خلاصہ یہ ہے کہ مدرسوں میں کئی مدرس
جو صبح سے شام تک ہر اک دن
بقائے انساں کا علم ہر لمحہ بانٹتے ہیں
شکار ہیں قوم لوط کی وہ خباثتوں کے
تبھی تو ان درس گاہوں سے اب
نہیں نکلتا ہے کوئی جوہر، نہ کوئی حسرت
نکل رہے ہیں بہت سے فرقے، بہت سے مسلک اور ایسے بچے۔
اسلام نگر
میں کیسی بستی میں آ گیا ہوں
گلی سڑک ساری پُر تعفن
کھلی جگہوں پر بھی حبس سا ہے
یہ سرخ پچکاریوں کی چھینٹیں
ہر ایک دیوار سرخیوں سے
بیان تہذیب کر رہی ہے
بجھی، جلی بیڑیاں ہیں بکھری
ہیں خالی سگریٹ کے ہی ڈبے، ہیں بکھرے فلٹر
مہک رہی ہے بھری پلاسٹک
جو نالیوں میں اٹی پڑی ہیں
سیاہ پانی سڑاند والا اُبل رہا ہے
گھروں کا کچرا ہے راستوں پر پہاڑ صورت
ہر ایک دیوار چھو رہی ہے سڑک کے ہر حاشئیے کو جبراً
بہت سی ہیں مسجدیں یہاں پر
جو فرقے مسلک کی ترجماں ہیں
لکھا ہوا ہے فلاں ہی آئے فلاں نہ آئے
اذانیں رہ رہ کے گونجتی ہیں
مگر نمازی کہاں؟ کہاں ہیں؟؟
یتیم بچے رسیدیں تھامے ٹہل رہے ہیں
ہیں مدرسوں میں بڑی بڑی توندوں کے مدرس
سنا ہے کہ قوم لوط کی ان خباثتوں کے امین بھی ہیں
کھلی ہوئی گوشت کی دکانیں
مہک ہر اک سو بکھیرتی ہیں
سڑک پہ بے وجہ لوگ سارے
جگہ جگہ کیوں کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔۔ بکھر بکھر کر
مناظرے والے چائے خانے۔ غلیظ ہوٹل
سیاسی بینچیں، دلالی ٹیبل، زمینی سودے، عجیب جھگڑے
ہے بد زبانی کا دور دورہ
ہر ایک جملے پہ چسپاں گالی
عجب طرح گھورتی ہیں آنکھیں گزرتی عورت
نقاب میں بھی ٹٹول لیتی ہو جسم جیسے
سخی ولی عرس کا ہے چندہ
پکڑ کے چادر کے چاروں کونے
ہر اک سے امداد مانگتے ہیں
لگا کے رکشے پہ ساؤنڈ سسٹم۔ بجا کے قوالیوں کی سی ڈی
گلی محلوں کو جام کرتے بھٹک رہے ہیں
نشے کے عادی کیوں لگ رہے ہیں
عجب سے حلیوں میں لوگ مجھ کو
زبانیں املا سے عاری۔۔۔۔ ساری
اور اس پہ نا واقف تلفظ
کسی کسی گھر سے تیز آوازیں بد زبانی کی آ رہی ہیں
یہ لونڈے بالے چبائے گٹکا بھٹک رہے ہیں
کہیں پہ رستوں پہ شامیانے تنے ہوئے ہیں
قنات رستے کی ناکہ بندی پہ تل گئے ہیں
عجیب چیخ و پکار ہر سو
کرائے کا اک مکان تو مجھ کو چاہیئے۔۔۔۔۔ پر
کیا ایسی بستی میں چند گھنٹے بھی رہ سکوں گا؟؟؟؟
دیوار
آنگن میں اٹھتی دیار کو دیکھ رہے تھے
دونوں طرف کے گھورتے چہرے
چہروں پر رشتوں کی کوئی رمق نہیں تھی
بجھے ہوئے بے رنگ سے چہرے
ویسے تھے سب خون کے رشتے
بچوں کے ذہنوں پر پہلے
بڑوں نے شاید، الگ کہانی ڈال رکھی تھی
بڑا سا آنگن چھوٹا ہوتا دیکھ رہے تھے
اونچی ہوتی لال اینٹ کی اس دیوار نے
ہر سمبندھ کو کاٹ دیا تھا
دو چولہے .. دو آنگن
شاید دو دو کر کے،
اک گھر کی ساری چیزوں۔۔۔۔ کو آدھا آدھا بانٹ دیا تھا
کاٹ دیا تھا ہر بندھن کو
بیچ آنگن میں چھاؤں بانٹتا تنہا برگد
سوچ رہا تھا
بڑھتی ہوئی دیوار کے رستے پر میں کھڑا ہوں
دونوں طرف نفرت سے بھری آنکھوں میں اب کہ
میری رکاوٹ چبھنے لگی ہے
کاٹ دیا جاؤں میں شاید
لیکن گھر کے بوڑھے مالی
ماں اور بابا
جن کے ہاتھوں نے سینچا تھا میرے بدن کو
ان کو یہ دو آنگن والے
کہاں رکھیں گے؟؟؟؟؟
پسنجر ٹرین
آمنے سامنے بیٹھے ہیں ملّا اور پنڈت
ٹرین بہت تیزی سے رستہ کاٹ رہی ہے
اجنبی ہیں دونوں ہی لیکن….
نا جانے کیوں
غیر ارادی طور پہ دل میں بغض بھرا ہے
آنکھوں سے نفرت کا شائبہ جھلک رہا ہے
کیوں نہ ہو۔۔۔ حالات ہی کچھ بن گئے ہیں ایسے
جئے شری رام کا ہنکارہ ہے ایک طرف تو
دبی زباں لاحول ولا قوۃ میں مگن ہے
کچھ نے ماں بہنوں کو بحث میں کھینچ لیا ہے
اور سیاست حاملہ ہوتی لگنے لگی ہے
جھال مڑی… چائے اور پانی۔۔۔ دوسری چیزیں
بیچنے والے لاپروا نظر آتے ہیں
بیچ بیچ میں بھیک مانگنے والے بھی ہیں
اسٹیشن پر کچھ پل رک کر چلی ہے گاڑی
اور ایک ٹولہ تالیاں پیٹتا چڑھا اچانک
ناز و ادا اور نخرے دکھا کر مانگنے والا
کچھ کی بلائیں لے کر ان کو چھیڑ رہا ہے
ہنسی قہقہوں کی تصویر یں بن گئے سارے
ذہنی تناؤ سے باہر ہے ہر ایک مسافر
بو گی کا ماحول بدل گیا کچھ لمحوں میں
لوگوں کے ذہنوں سے کثافت دھلنے لگی ہے
ٹرین ابھی کچھ دیر میں منزل پر پہنچے گی
سب کچھ بھول کے سارے مسافر کھو جائیں گے
ہجڑے دوسری ٹرین کی رونق ہو جائیں گے…
اور جب میں اپنا شعری مجموعہ اور جب
آفس گرل
اک دن آفس گرل سے ہنس کر
میں نے کہا کہ
سنو شوبھنا!!!
آج کی چائے بناؤں گا میں
حیرت سے یکبارگی مجھ کو شوبھنا نے جھٹکے سے دیکھا
لیکن زندہ دل لڑکی ہے
مجھ سے بہت مانوس بھی ہے وہ
کچھ نہیں بولی
ہنستی ہوئی باہر کو بھاگی
دس پیالوں میں چائے بھر کر، ٹرے سنبھالے
باہر آیا
اک اک میز پہ پیالی رکھی
چونک رہا تھا اک اک بندہ
کھلے ہوئے منھ حیرت کی تصویر بنے تھے
آنکھوں میں تھا عکس تشکّر
چائے بہت اچھی بنتی ہے اکثر مجھ سے
پیتے پیتے ہر اک نے تعریف کی میری
لیکن مسز شبانہ رفعت… چائے کی پیالی سامنے رکھے
سر کو جھکائے۔۔۔
کھوئی کھوئی سی تھی شاید
چہرہ اٹھا تو میں نے دیکھا، پلکوں میں کچھ نمی نمی سی
شبنم جیسی… جگنو جیسی
ہلکی چمک ہے
پلکیں جھکیں اور نم پلکوں سے
شکریہ میرا ادا کیا پھر
لیکن میں اس نمی کی تہہ میں ڈوب چکا تھا
سوچ رہا تھا
چائے کی اک پیالی نے عورت۔ کی وہ کہانی کھول کے رکھ دی
کبھی سنائی نہیں تھی اس نے کسی کو۔۔ شاید
تنہا کمانے والی عورت
آفس سے آنے سے پہلے
لوٹ کے گھر جانے کے بعد بھی
بیوی بہو ماں ہوتے ہوئے بھی
گھر میں آ یا جیسی ہو گی…. ….
بانجھ مراد
ٹھک ٹھکا ٹھک
کون
شبنم
اوہ ٹھہرو…
آ رہا ہوں۔۔ گر گئی کنڈی
کھلا دروازہ
پھر بند ہو گیا
نیم تاریکی میں ڈوبا کمرہ اور ہے
ہر طرف لوبان کی خو شبو، دھواں
اک طرف مٹی کی ہانڈی چاولوں سے ہے بھری
جس میں مٹھی بھر اگربتی کو ہے کھونسا گیا
گاؤ تکیئے… سرخ مسند۔۔۔ مورچھل
اور شیشی میں ہے گیلا زعفران
دو قلم سرکنڈے کے
اک طرف کافور کی ٹکیاں کے شامل
ڈھیر سے تعویذ کے کھوکھے پڑے
کالے دھاگے… موم جامے۔۔۔ زائچے کاغذ پہ پھیلے
لال پیلی جھنڈیوں کے درمیاں
لانبی لانبی زلفیں… بے ترتیب داڑھی درمیاں۔۔۔۔
سرخ ڈوروں والی آنکھیں۔ پان والے سرخ ہونٹ
بعد چہرے کے بہت موٹی سی گردن
کوڑیوں اور رودر کی مالائیں جن پر ہیں پھنسی
انگلیوں میں پتھروں کی قیمتی انگوٹھیاں
جسم ہے بے ڈول سا
سرخ کُرتا عطر میں ڈوبا ہوا
گھٹنوں سے نیچے ذرا تہبند ہے
کتنا پُر اسرار سا ماحول افف…. ..
ڈیڑھ گھنٹے کے عمل کے دور سے ہو کر ابھی
بکھری بکھری بانجھ عورت نکلی ہے
ٹھک ٹھکا ٹھک
کون؟
پیر صاحب…… راگنی
اوہ، ٹھہرو.. آ رہا ہوں……………..!!!!!!!!!!!
چوراہا
چورا ہے سے تھوڑی دور سرک کے بائیں
زیبرا کراس کے پیچھے بمپ سے تھورا پہلے
ٹین کا شیڈ ہے۔۔۔۔
نمبر والی بسیں یہاں کچھ پل رکتی ہیں
آفس، کالج، اور اسکول کے سارے پسینجر
یہاں اترتے اور چڑھتے ہیں
پان کی گمٹی سے ہی لگا ہے چائے کا کھوکھہ
بھیڑ جمع رہتی ہے یہاں پر
سارے دھندے والوں کا سنٹر پوائنٹ ہے
گٹکا کھا کر تھوکتے… بیڑی سگریٹ پیتے
لوگوں کا مجمع لگتا ہے
کھینی ٹھونک کے چھینکیں بھی بانٹی جاتی ہیں
انتظار کی گھڑیاں بھی کاٹی جاتی ہیں
عاشق ریلنگ پکڑے ہوئے تکتے ملتے ہیں
لڑکیاں عورتیں، مرد.. جواں اور ٹھرکی بڈھے
سب ہوتے ہیں
شام ڈھلے فٹ پاتھ پہ اکثر دھندھے والیاں
سج کے سنور کے آ جاتی ہیں
خواہشیں جسم کی، تشنہ مرادیں پا جاتی ہیں
گاڑیاں رکتے ہی سگنل پہ مانگنے والے
فوراً حرکت میں آتے ہیں
صبح سے شام تلک بس شور بپا رہتا ہے
آمد و رفت کے اس سیلاب کے ایک سرے پر
چھوٹی سی دکان ہے میری اک کونے میں
بابا کے وقتوں سے ہو کر مجھے ملی ہے
سکینڈ ہینڈ کی ساری کتابیں بیچتا ہوں میں
اخبارات توتقریبآّ بک ہی جاتے ہیں
اور کتابیں کورس کی کوئی لے جاتا ہے
بس ہیجان بپا کرنے والی وہ کتابیں
دگنے دام پہ
ردّی کے پیپر میں لپیٹ کے دیتا ہوں میں
مذہبی اور اخلاقی کتابیں پڑی ہوئی ہیں
ان کو کوئی لیتا نہیں اب
ریزہ ریزہ ہونے لگی ہیں
کچھ مجموعے شعر و سخن اور افسانوں کے
دیمک دیمک ہونے لگے ہیں
بورک ایسڈ کا پاؤڈر بس ڈال ڈال کر رکھتا ہوں اب
ان کے مصنف ہفتے دس دن میں رہ رہ کر
آ جاتے ہیں
اپنی کتابیں دیکھ کے بس آہیں بھرتے ہیں
سوچ رہا ہوں اب کہ ان کو
سوری کہہ کر لوٹا دوں گا ان کی کتابیں
بند کروں گا اب یہ دھندہ
کھینی گٹکا اور ری چارج کا کام کروں تو
آنے لگ جائیں گے پیسے
گھر کی ذمہ داری ہے نا!!!!!
چھکے
بس اسٹاپ پہ کچھ شہدے
معصوم سی سہمی اک لڑکی کو
چھیڑ رہے تھے
بھیڑ لگی تھی۔۔۔۔ ۔ لیکن تنہا تھی وہ لڑکی
گندے ہاتھوں کے ہر وار سے بدک رہی تھی
ڈری ہوئی ہرنی کے جیسی
گالوں پر آنسو کی دھارا
ڈر سے چہرہ پیلا پیلا
بھاگ رہی تھی.. لیکن دائرہ تنگ بہت تھا
لوگ سبھی چپ چاپ کھڑے تھے
سب کچھ ہوتا دیکھ رہے تھے
کوئی بھی آگے نہیں آیا
پھر یکلخت۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔
بھیڑ چیرتے کچھ چہروں نے گھیرا توڑا
لہنگا… چولی.. سرخی پاؤڈر۔ کاجل، ٹیکہ، نتھنی، چوڑی
سب کچھ تھا…. .. پر ذات الگ تھی
ایک ایک کو پکڑ پکڑ کر مار رہے تھے
بھاگ گئے نا مرد وہ سارے، کچھ لمحوں میں
پھر ان میں سے
ایک نے گھٹنوں سے کچھ اوپر لہنگا اٹھا کر
اس کا سرا کہنی سے دبایا
بھیڑ کو دیکھا
زور زور سے تالیاں پیٹی اور چلّایا
ہم ہی نہیں
تم سب چھکّے ہو!!!!!!!!
منجری
منجری نام کی آدی باسی لڑکی تھی وہ
سندر، سانولی، چنچل مکھ۔ ہنستی آنکھوں کی
بہت ہی بھولی اور معصوم سی
کڑیا گاؤں کے ہاٹ میں آ کر
بانس کے چھلکوں کے سامان کو بیچ رہی تھی
ٹوکریاں، سوپ اور ہاتھ کے پنکھے
قربانی کا خصی لینے گیا ہوا تھا
سیزن تھا سو بہت ہی مہنگا ہاٹ ہوا تھا
منجری نے چپکے سے کہا پھر
ہے بابو
ہمرے گھر چلبھیں۔۔۔۔ کچھ ہی دُور ہے
اوہاں جناور ملے گا تم کو
شام سے پہلے مال سمیٹے
منجری مجھے اپنے گھر لائی
گھر کیا تھا، بس سجی ہوئی جنگل جھاڑی۔۔۔ دیوار بنی تھی
چھت پہ پوال کا چھپر ڈالے سایہ سا تھا
اور اک کونہ مٹی کے ٹھنڈے چولہے کا
گھر سے عسرت ٹپک رہی تھی
گھر کے پیچھے اک خصی تھا
دام کا پوچھا تو اس کے بابا نے کہا کہ
بابو۔۔ ای کا دس ۱۰۰۰۰ ہم چاہیں
میری جیب میں دس سے زیادہ رقم پڑی تھی
دل بھر آیا ان کے حال کو دیکھ دیکھ کے
دس سے زیادہ دے کر لوٹ رہا ہوں گھر میں
جاتے ہوئے مڑ کر نہیں دیکھا
ورنہ شاید
ان آنکھوں میں شکر کے آنسو اور رلاتے
اے اللہ
فقط مومن کا رب ہی نہیں تُو
تُو تو ہے رب سارے عالم کا!!!!!
سرگم
سانسوں کے سرگم کی مالا الجھ گئی ہے
دھڑکن کتنی تیز ہے میری
دیکھ سکھی
لا ہاتھ تو رکھ سینے پہ میرے
دھک دھک کی آواز پہ جیون بھید چھپا ہے
گڈ مڈ ہوتی آوازیں بے چین بہت ہیں
چین نہیں ہے
پور پور میں کیسی تھکن نے اپنا آسن جما لیا ہے
ہرنی جیسی چال کو بندی بنا لیا ہے
برہا رُت کے اس جنگل کا چھور کہاں ہے؟
ندی بھی ریت بھری بیٹھی ہے
بس میری آنکھوں میں جَل ہے
وہ بھی سارا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ کھارا کھارا
ہونٹ کی پپڑی.. پت جھڑ رُت کی بنی نشانی
میں دیوانی
بولائی بولائی بن بن
پھروں ہوں کب سے
اک دن اس جنگل کی کسی پگڈنڈی پر میں
اپنے پیا کے سنگ آئی تھی
آنکھیں بند ہوئیں، کس نے ٹھوکر کھائی تھی؟
پتہ نہیں…… پر
ہوش آیا تو۔ برہا رین تھی چار دشا میں
من کے اندر آگ جلا کر
تن کی لکڑی کاٹے… کب سے جلتی رہی ہوں
دیکھ سکھی تُو آج ملی ہے
مجھ بھٹکی کو
لے چل اپنے گاؤں
کسے لکڑ ہارے سے کہہ دے
کاٹے میرے پاؤں
میں تھک گئی جیون پتھ سے!!!!!!
گم صم
عجیب گم صم ہو
کچھ تو بولو
لبوں کو کھولو
اٹھاؤ چہرہ۔۔۔۔ ۔ نظر ملاؤ… قریب آؤ
میں دھڑکنوں کو قرار دے دوں
نکھار دوں اس اداس رخ کو
گلے لگا کر تمہارے سینے کا
بوجھ خود میں اتار لوں میں
حسین چہرے کو تھام کر ان ہتھیلیوں کی گرفت میں۔۔۔۔ ۔۔۔ میں
تمہاری آنکھوں میں جھانک کر صرف اتنا پوچھوں
وہ سارے قصّے
وہ تلخ لمحے
وہ پچھلے وقتوں کا کرب سارا
میری محبت کی نذر کر دو
تمہارے ہونٹوں پہ رکھ کے پیاسے لبوں کو اپنے
میں چوس لوں تم سے زہر سارا
رگوں میں پھر دوڑنے لگے گا لہو وفا کا
نشان ذد۔۔۔ زاویوں کو اپنی نظر سے کر دوں
سبھی نشیب و فراز پر اپنا لمس بھر دوں
گواہ کر دوں
اک ایک ساعت کو بے خودی سے
تمہاری آنکھوں میں ثبت کر دوں لبوں کی مہریں
تمہارے رخسار سرخ ہو جائیں رفتہ رفتہ
لرزتے ہونٹوں کی کلیوں پر میں سجا دوں بوسہ۔۔۔۔۔ طویل بوسہ
خمار کی لمس کی نمی کو اتار لو تم
خود اپنے تن میں
بکھرتی جاؤ۔۔۔ پگھلتی جاؤ۔۔۔۔ سنبھلتی جاؤ….. مچلتی جاؤ
پھر آنکھیں کھولو
خمار آلود لہجے میں مسکرا کے بولو
میں ہو چکی آج سے تمہاری!!!!!!!
کینوس
سنو اس کینوس کا ایک گوشہ
اب بھی خالی ہے
یہ جو میں نے اتارا ہے
حسیں پیکر
فقط پیکر نہیں ہے یہ
ہے اس میں دھڑکنیں اور گرم سانسیں۔ آہیں سسکاری
کچھ اک ہیں ان کہے سے شبد مبہم سے
خود اپنے آپ سے کچھ کی گئی خاموش باتیں ہیں
ہیں ٹوٹے خواب کے منظر، جھکی پلکوں کے نیچے سرخ ڈوروں پر
یہ جو خاموش لب ہیں پیاسے پیاسے سے
گلابی رنگ کے اندر سے ابھری ہیں
زباں پھیری ہوئی کچھ پپڑیاں
کیا کہنے والی ہیں؟
کتابی چہرے پہ بکھری سیہ زلفیں
تمہارے حسن کو دو آتشہ کر کے
بہت مغرور لگتی ہیں
ابھی رخسار پر کچھ سرخ سی حدت سلامت ہے
یہاں گردن پہ کچھ نیلی رگیں شاید
تمہاری دھڑکنوں کی ترجماں بن کر
بڑی شدت سے ابھری ہیں
ذرا سا خم کئے چہرہ.. تمہاری دھڑکنوں کے زیر و بم کو
گن رہی شاید
تمہاری جھیل سی آنکھیں
گھنیری پلکوں پہ بیٹھے ہوئے کچھ ہجر کے جگنو
ادھورے شبنمی لمحے
بہت روئی ہو تم تصویر میں آنے سے پہلے نا؟؟؟
یہ میرے قرب کے لمحے
ہر اک آنسو… سبھی آہیں… سبھی سسکاریاں
ضم کرنے والے ہیں
ابھی خود میں
زرا سا وقت دو جاناں
سکوں بھرنے میں تھورا وقت لگتا ہے
برش بھی منہمک ہے خواہشوں کے رنگ بھرنے میں
مگر پہلو بدلنے سے
برش کے زاوئیے تبدیل ہوتے ہیں
ابھی اک آخری ٹچ مجھ کو دینا ہے
یہ جو کونے پہ، نیچے
خالی گوشہ ہے
میں اپنا نام لکھ دوں کیا
یا پھر خالی ہی رہنے دوں
بتاؤ نا!!!!!!!
تشنگی
ہونٹوں کی جنبش پہ قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے
حلق کا سوکھا پن چبھتا ہے
آنکھوں میں جب کھنچ جاتی ہے ساری حدت
تنہائی کی
روم روم پھر بدن کا سارا کھل جاتا ہے
بھیگتا ہے اپنے ہی اندر کے نم تٹ سے
لہو نسوں میں جھاگ کی صورت ہر کروٹ پر
پاگل پاگل ہو جاتا ہے
جانے کیسی آگ بدن کو چاٹنا چاہے
یہ پھیلاؤ.. سمٹنا… جکڑن۔۔ بندھن گانٹھیں
کیا ہے آخر؟
خود کو کئی آکار میں ڈھالے من کا وحشی
مست ہے اپنے رقص میں
دھن میں باولی خواہش
ناچ ناچ کر تھک جائے گی
بے سدھ ہو کر.. اپنا ٹھنڈا جسم تکے گی
چیخے گی، ہذیان بکے گی
کچھ نہیں ہو گا حاصل
ایسی تنہائی سے!!!!!
رُوداد
جب ہوش سنبھلے تو میں نے جانا
کہ جسم لذت طلب ہے میرا
بدن کا ٹکراؤ چاہتا ہے
عجب تھے اسرار و رمز پنہاں
میں ذات کی الجھی گتھیوں میں الجھ گیا تھا
معاشرے سے چھپا خود کو
خود اپنی تہذیب کو کچل کر
کچھ ایک برسوں کے بعد اک دن
پرائے زینے سے ہو کے لوٹا
تو تشنگی اور بڑھ چکی تھی
عجیب لاوا سا پھوٹتا تھا بدن کے اندر
طلب تھی ایسی کہ روز بڑھتی ہی جا رہی تھی
جو مجھ کو اندر مزید اندر سے کھا رہی تھی
کئی رتیں مجھ سے ہو کے گزریں
پھر ایک دن اجنبی بدن کو میں نام اپنا دئیے
میں اپنا بنا چکا تھا
وہ رت عجب تھی
وہ روز و شب ہفتے اور مہینے عجیب سے تھے
سرور اور انبساط کا سلسلہ تھا سارا
مگر میں اب تشنگی سنبھالے
خود اپنے اندر بکھر رہا ہوں
سوال میں خود سے پوچھتا ہوں
وہ پہلی لڑکی کے بعد کی عورتیں وہ ساری
کیا میں کسی کو سمجھ سکا ہوں؟
کوئی مجھے بھی سمجھ سکا ہے؟
منافرت میں گزار دی عمر تشنگی نے
عجیب پاگل ہوں یار میں بھی!!!!!
تم سے مل کر
پیاسی آنکھیں، پیاسے لب، پیاسا لہجہ
تم سے مل کر اکثر میں نے سوچا ہے
جھیل سی گہری آنکھوں کے اسرار
کتابی چہرے پر چھا جاتے ہیں
کس کی یاد دلاتے ہیں
آنکھوں کا کاجل دھل دھل کر
کن زخموں پر
امید کے مرہم رکھتا ہے
زخمی صبحوں کو تکتا ہے
کیوں شامیں بوجھل بوجھل سی ہو جاتی ہیں
چھپ چھپ کر اشک بہاتی ہیں
تم خالی خالی نظروں سے
ان دھندلے دھندلے لمحوں کو
کیا تکتے ہو
جو دور بہت ہی دور غموں کی وادی منڈلاتے ہیں
کچھ تصویریں دکھلاتے ہیں
لمحہ لمحہ تڑپاتے ہیں
یہ تنہائی، یہ کرب، یہ آنسو رہنے دو
آؤ کہ اپنی ذات کے سارے غم ساری خوشیاں
آپس میں بانٹ کے جی لیں
شاید حالات پلٹ جائیں
یہ بوجھل رستے کٹ جائیں
تم سے مل کر اکثر…..!!!!
اب تمہاری ضرورت نہیں ہے ہمیں
اب تمہاری ضرورت نہیں ہے ہمیں
بھیڑیں گلّے میں رہتی ہیں جس طرح سے
بھیڑ بن کر رہو..
اور کچھ نہ کہو
منمناتے رہو
نِت نئے فرقے ہر دن بنا کر جیو
سنگ باری کرو۔ آہ و زاری کرو
مسجدوں میں رہو مسلکی شان سے
ٹوپیاں، پگڑیاں، صافے سب مختلف
انفرادی لگو دوسرے لوگوں سے
فرقۂ ناجیہ والے بس ایک تم
باقی سب
سارے کافر ہیں، گستاخ ہیں، بے ادب
بن کے سنی وہابی و اہلِ حدیث
پارہ پارہ کرو قوم کا اتحاد
ذات میں اور علاقوں میں بھی بانٹ کر
اُونچ اور نیچ کی کھائی چوڑی کرو
بات بے بات پکڑو گریبان تم
قتل بھائی کا کر دو یا خود ہی مرو
خوب جلسے کرو اور نکالو جلوس
اور جی بھر کے دو گالیاں ہر گھڑی
مال رکھو مگر دو نہ ہرگز زکاۃ
در گزر صلۂ رحمی سے کیا واسطہ
ہر خباثت سے لپٹو لگاؤ گلے
ہاں زمیں کو کھسکنے دو پیروں تلے
شرک اور بدعتوں کے پجاری بنو
تم مداری بنو اپنے ہی قوم کے
اتنے تقسیم ہو جاؤ کہ ایک دن
تنہا دشمن کہے: رک ابھی آتا ہوں:
لوٹ کر آئے اور قتل کر دے تمہیں
بھاگنے کے بھی قابل نہ چھوڑے کہیں
یہ فروعی مسائل یہ بحثیں سبھی
فتوے بازی یہ تکراریں اور حجتیں
سب دھری رہنے والی ہیں تم دیکھنا
ان گنت اب ہلاکو ہیں ہر شہر میں
اب لپیٹے نہیں جاؤ گے نمدوں میں
گلیوں چوراہوں پہ قتل ہو جاؤ گے
قتل ہونے سے پہلے صدا آئے گی
اب تمہاری ضرورت نہیں ہے ہمیں….. ….
نصف شب
عجب سی ہے نصف شب کی ساعت
ؓ بدن پسینے میں بھیگا بھیگا
کھلی ہیں آنکھیں
ہے حلق تشنہ… تو پیاس کانٹے چبھو رہی ہے
تشنج کی کیفیت سے گزرا ہے جسم سارا
تھکی ہوئی سانسیں پوچھتی ہیں
دھڑکتے سینے کی سر زمیں سے
وہ اجنبی.. جو ادھوری لذت کا ہمسفر تھا
کہاں گیا وہ؟
بڑھا گیا پیاس اور زیادہ
زمین گیلی نہیں ہوئی ہے
ہے اب بھی بنجر
وہ خواب چھڑکاؤ بھر محض تھا
جنوں تو دلدل بنا کے زرخیزی چاہتا ہے
ہے شب کا پچھلا پہر سحر تک ہے پیاس میری…..
بہروپ
سب بہروپ بھرے چہروں نے
آئینہ سامنے رکھا ہے
اندر سے بے چین ہیں لیکن
عکس تسلی دیتا ہے
جھوٹ غازہ، مکر کا کاجل
اور فریب کی سرخی سے
خود کو سنوارے جاتے ہیں
جیت رہے ہیں عکس کو اپنے
آتما ہارے جاتے ہیں
خود کو کھوکھلا کرنے کا یہ عمل
انہیں معلوم نہیں
اپنا پن جو بچا ہوا ہے
وہ ان سے چھن جائے گا
پھر کون انہیں اپنائے گا…..
پراکرتی
پراکرتی کی یہ ریکھائیں
جن پر میرا انوبھو چل کر
اپنی دشائیں طے کرتا ہے
پل پل میرے آگے پیچھے
سمئے کا گھنگھرو باندھے موسم ناچ رہا ہے
میرے من کو جانچ رہا ہے
گھومتی چاک پہ گیلی مٹی
میرے کرموں کے اسپرش سے
روز نیا آکار بنا کر پوچھ رہی ہے
گڑیا، بیوی، بہنا، بھابھی، مائیں
سب ہیں ان میں
چاک سے کاٹ کے کن ہاتھوں یا کس گھر میں
یا کس بازار میں لے جاؤ گے
ٹوٹ گئی تو پچھتاؤ گے
یا پھر
بھسم کرو گے کوکھ میں ان کو
زندہ قبر میں دفناؤ گے
گھر آنگن کی شوبھا ہیں یہ
دیکھو، سمجھو، جانو۔
کیوں کہ
ہڈی مانس کے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ مانَو۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تم بھی تو ہو!!!!!
رشتہ
بس اک بے نام رشتے کی تڑپ
آہٹ و سرگوشی
بہت مدھم، بہت خاموش سی
دبے قدموں… حریم جاں میں در آئی
گماں… امکاں، خبر
کچھ بھی نہیں
لیکن ہے استقبال.. جیسے آنکھیں شاید منتظر تھی
کتنے برسوں سے
کوئی تو ہے جو رگ رگ میں
خود اپنے پاک جذبوں کی حرارت کر رہا ہے منتقل
چپکے سے دھیرے سے
کوئی چہرہ نہ کوئی جسم کی صورت ہے وہ لیکن
مجھے سرشار کرتا جا رہا ہے
اپنے ہونے سے
تصّور ہفت رنگی ہو رہا منظر بہ منظر کیوں
ٹھکانہ ریگزار دل پہ شاید کر چکا ہے وہ
طنابیں کھینچ کر خیمہ لگایا ہے محبت کا
یہ میری شام
اس کی یاد کی شمع سے روشن ہے
مری شب خواب اس کا دیکھنے کی آرزو لے کر
ابھی آنکھیں کریں گی بند
مگر اک دن سحر ہو جائے تو پھر وہ ملے
تعبیر کی صورت
وہ اک چہرہ جو ہے بے نام سے رشتے کی چلمن میں
دکھا بھی دے کسی دن خود رخ روشن
مجھے تعبیر کی صورت….. کسی تصویر کی صورت
تمہیں دیکھا نہیں میں نے
تمہیں دیکھا نہیں میں نے
نہیں میں جانتا تم کو
کہ کیسی ہو
بہت ہی خوبصورت ہو یا ہو معمولی صورت کی
تمہارے روز و شب کیسے گزرتے ہیں
ہو جن کے ساتھ تم، ان کے لئے کتنی اہم ہو تم
مجھے اس جانکاری سے نہیں مطلب
مجھے معصومیت نے قید کر ڈالا
تمہاری ذات کے اندر
مجھے کیا چاہیئے؟ کچھ بھی نہیں، کیا تم سے لینا ہے؟
یہ سچ ہے پر
اچانک ایسا رشتہ جڑ گیا تم سے
جو ہر رشتے پہ بھاری ہے
تمہیں معلوم بھی ہے کون ہو تم؟
چلو میں آج یہ تم کو بتاتا ہوں
بہت بھولی بہت معصوم سی ہو تم
ابھی دنیا کے پیچیدہ مسائل سے الجھنے کا ہنر آیا نہیں تم کو
تم اپنی ذات کی خاموش دنیا میں
بہت چپ چاپ بیٹھی ہو
تمہارے سامنے یکساں سے موسم ہیں
مگر اندر
دھنک رنگوں کی رت انگڑائی لیتی ہے
لبوں کو سی دیا ہے صبر نے شاید
تحمل ہی ہر اک لمحے پہ حاوی ہے
شکایت ہے مگر الفاظ سے عاری
یوں تم سر کو جھکائے زندگی کی رہگزر پہ ہو
کہ جانا ہے کہاں۔۔۔ شاید ابھی تک نا بلد ہو تم
جمے رہتے ہیں آنسو کیوں گھنیری پلکوں پہ ہر دم
کیوں بوجھل سانسوں کی سرگم
الجھ جاتی ہے آہوں سے
دبی سی سسکیاں خلوت میں کیوں دم توڑ دیتی ہیں
ہمیشہ تنہا تم کو چھوڑ دیتی ہیں
جو خاکہ میں نے کھینچا ہے ابھی وہ نامکمل ہے
مجھے تو زندگی کے کینوس پر اب
بہت سے رنگ بھرنے ہیں ہیں
ہیں سارے مرحلے باقی
برش ہے انگلیوں میں میرے۔ تم کہہ دو
پسند ہے کون سا رنگ
منتظر ہوں میں
تمہاری زندگی میں رنگ بھرنے ہیں
اب اپنی دوستی کے……….
شاہزادی
آئینے کے سامنے ٹھہرا ہوا چہرہ تمہارا
ہلکا میک اپ
ریشمی کالے گھنیرے بالوں کی چوٹی بنائے
تک رہا ہے آپ اپنا
میں کہیں یوں ہی تمہیں
اپنے تصوّر کی نظر سے
پیچھے آ کر دیکھتا ہوں
الجھی بیلوں کی طرح چوٹی گندھی ہے
اک زرا گردن کے پیچھے
نرم اور سیڈول شانے پر بہت نزدیک آ کر
بے خودی میں
رکھ دیا اک ہاتھ میں نے اس جگہ پر
تم سہر کر یک بیک پیچھے مڑی
اور پوچھ بیٹھی
اف یہ کیا ہے؟
خوف اندر تک اتر آیا ہے مجھ میں
چپ ہوں میں نظریں جھکائے
کیا کہوں خاموش ہوں
اور تم بالکل مرے نزدیک آ کر
کہہ اٹھی
دیکھو مجھ کو۔۔۔۔
ہاں ادھر… نظریں ملاؤ
کیا کیا تم نے ابھی؟
کہہ نہیں پایا میں کچھ بھی
تم ہی بولی
خواب کو بس خواب تک رکھو
انہیں لانا نہیں تعبیر تک ہرگز
شاہزادی ہوں میں خوابوں کی
صرف خوابوں میں ہی پاؤ گے
اور حقیقت میں گنوا دو گے
تنہا رہنے دو، اکیلی تھی اکیلی ہوں…..
سنو
سنو اک بات کہنی ہے
مگر ناراض مت ہونا
یہ جو جادو بھری نظروں سے مجھ کو دیکھتی ہو تم
میں اپنا آپ کھو دیتا ہوں
کچھ بھی کر نہیں پاتا
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب
جو بھی کہو گی تم
مجھے بس ماننا ہو گا
کبھی پلکیں اُٹھا کر دیکھتا ہوں پھر جھکاتا ہوں
مناتا ہوں میں اپنے دل کو پھر سو سو بہانوں سے
میں ٹھہرا عام سا بندہ
بھلا قابل کہاں ہوں میں
تمہیں چھو بھی نہیں سکتا
کہ تم میلی نہ ہو جاؤ
یہ کومل پن، گلابی ہونٹ تیکھے نین اور اس پر
تمہارا خوبصورت سچا اور معصوم سا چہرہ
میں اپنی آنکھوں میں بھر کر دعائیں مانگ لیتا ہوں
خدا تصویر کے اندر کی یہ اک سانولی لڑکی
بہت سندر، بہت جاذب نظر معصوم سی لڑکی
کسی دن کام آ جاوں میں اس کے، یوں ہی بھولے سے
اسے ہنستا ہوا دیکھوں تو مجھ کو یوں لگے اک پل
مجھے وہ مسکرا کر کہہ دے
اف
تم کتنے اچھے ہو
تم ہی اک دوست سچے ہو….
آگ تماشہ
اک رت کہنے لگی جنگل سے
رات جو چل کر پگڈنڈی سے
روتی بلکتی سر کو جھکائے
آنچل کاڑھے
اک دلہن کی گزری تھی ڈولی
نہ جانے کس حال میں ہو گی
اس جنگل کے پار کسی چھوٹے گاؤں میں
ہرے بھرے اور سب سے اُونچے پیڑ نے اپنے سر کو اُٹھایا
دور بہت ہی دور ندی کے پار یہ دیکھا
آگ کی لپٹوں میں لپٹا اک بدن
ندی کی تٹ کی جانب دوڑ رہا تھا
گاؤں کے واسی
بس چوپال سے
دیکھ رہے تھے
آگ تماشہ…..
ہم جنس
اس بڑے گھر میں فقط دو عورتیں؟
ساری کالونی
قیاس آرائیوں میں غرق ہے
تیس کے اُوپر کی اک اور دوسری
ہاں یہی چھبّیس کی ہو گی کوئی
جاب والی ہیں یہ دونوں اک جگہ
ساتھ آنا، ساتھ جانا، ساتھ رہنا ہر گھڑی
یہ کنواری ہیں یا ہیں شادی شدہ
جانتا کوئی نہیں
ان سے ملنے بھی کوئی آتا نہیں
روز سامان ضرورت
خود ہی دروازے پہ پہنچاتے ہیں لوگ
دودھ والا۔ دھوبی۔ سبزی والا اور اخبار تک
ہیں عمل پیرا سبھی روٹین پر
ماسی آ جاتی ہے روزانہ سویرے وقت پر
پچھلے دروازے کی اک چابی ہے اس کے پاس بھی
نو بجے سے قبل نپٹا دیتی ہے ہر کام وہ
پوچھتی رہتی ہیں کالونی کی ساری عورتیں
ماسی سب کو ٹال دیتی ہیں یوں ہی
کیا بتاتی سب کو
ان دونوں میں کتنا پیار ہے
ہیں سگی بہنوں سے بڑھ کر ایک دوجے کے لئے
آج سنڈے ہے
چلی آئی ہے ماسی پَو پھٹے
چائے لے کر ادھ کھلے بیڈ روم میں جیوں ہی گھسی
چیخ ابھری….. .. ماسی تم…..؟
چھ پھٹی آنکھوں کی خاموشی میں اک طوفان تھا
ہر کوئی حیران تھا
تھم گیا تھا وقت جیسے
اور پھر
چند لمحوں بعد بیوہ ماسی نے
جھٹ سے سب کپڑے اتارے جسم سے
یک بیک کودی برہنہ عورتوں کے درمیاں
اف ہے بے معنیٰ کشش جنس کیا
کس نہج پر ہے مساواتی عمل
مرد چاہے مرد
اور
عورت کو عورت چاہئیے….
جنگل
برگد چھاؤں میں بیٹھا بوڑھا
اُلٹی بیڑی منھ میں ڈالے
دھواں نکالے
تاک رہا تھا نیل گگن کو
بہت جٹِل سوچوں میں ڈوبا
آہ بھری، پھر سر کو جھکایا
کچھ پل مجھ کو تاک کے بولا
ہے بِٹوا….
ہمری آنکھوں کے سامنے جنگل
کٹا تھا سارا
سیر سیار جناور سارے بھاگ گئے تھے
اور منش جاتی سے نگر یہ بس گیا سارا
لیکن اب تو
بھاگے ہوئے جناور کی ساری اِچھائیں
منش کے تن من میں چھائی ہیں
اس کل یگ میں ہے انسان جناور جیسا
پچھلے جنگل سے بھی ہے اب
خونخوار یہ جنگل۔
بزدل
میں اتنا بزدل نہیں تھا پہلے
کبھی نہیں تھا
مگر ادھر کچھ دنوں سے مجھ کو
عجب سا ڈر کھائے جا رہا ہے
فضا اچانک بدل گئی ہے
ٹفن میں ہم ساتھ کھانے والے
بس ایک سگریٹ میں
باری باری
دھوئیں بھرے کش لگانے والے
جگن کی اک چائے پر ہم ہی
چسکیاں
مزے سے لگانے والے
ہر ایک تقریب پر خوشی سے
بنا بلائے ہی جانے والے
علاقے کے ہم جنازے…. ار تھی کو
بڑھ کے کاندھا لگانے والے
وہ راکھی ہو عید ہو دسہرہ
گلال رنگت میں چھانے والے
نہیں ہیں ہم آج پہلے جیسے
بدل گئے ہیں
نکل گئے ہیں روایتوں کے حصار سے ہم
یہ کس نے گیٹو میں قید رہنا سکھا دیا ہے
سکھا دیا ہے دفاع کے دائرے میں رہنا
بلا ضرورت نہیں نکلنا
بہت دنوں بعد آج نندو
ملا تھا رستے میں سہما سمٹا سا
اور میں بھی
بس ایک پھیکی سی مسکراہٹ
کے ساتھ کے سر کو ہلا کے آگے
نکل گیا تھا
تھا ایک گھنٹے کے بعد ہی
کرفیو لگنے والا…..۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔!!!!
آگ کا دریا
آگ کا دریا بہتے بہتے سوکھ گیا
سرحد بن کر کھڑا ہوا ہے
اڑا ہوا ہے
اپنی حد میں
لیکن یوں لگتا ہے پھر سے
راکھ تلے سمٹی چنگاریاں
نفرت کی پھونکوں سے
شعلہ بننے لگی ہیں
جننے لگی ہیں بد ہئیت بچوں کو ہر دن
یوں بھی چکلے والیاں خود اپنے بچوں سے
باپ کا نام چھپا لیتی ہیں
کوٹھے کی بدنام سیاست
آنے جانے والوں کا شجرہ نہیں رکھتی
لیکن نطفے کی جڑ حافظے میں رکھتی ہے
دلّالوں کی دیکھ ریکھ میں رہنے والی
خوابوں کو ناسور کئے مر جاتی ہے اک دن
ایسے ہی مذہب کو چکلہ بنانے والے
دلّالوں کی فوج لئے
بازار سیاست چلا رہے ہیں
الگ الگ پٹوں کو ڈالے
اپنے گلوں پر…. …. …!!!!!!!!
بلقیس
نہیں۔۔۔۔ حجاج کا قاسم… بھلا اب کیسے آئے گا
نہ میں بلقیس ہوں کہ تخت کو جس کے
کیا تھا منتقل اک جِن نے پل بھر میں
کہ میں اور میرے جیسے تو
فقط مہرے تھے، ہیں اب بھی
بساط بادشاہ وقت میں جن کو ہمیشہ مات ملتی ہے
اذیت سے بھرے لمبے سفر کو طے کیا میں نے
نہیں میں رام کی سیتا
جسے اغوا کیا راون نے… پر عزت سے رکھا تھا
نہ پانڈوؤں کی دروپدی
مدد کو آ گیا تھا کرشن جس کے… عین موقع پر
میں اپنی ذات کے بن باس میں ہوں در بدر اب تک
میں چودہ سو برس کے بعد کی اک
اقلیتی عورت
تمہیں معلوم تو ہو گا… میں کلمہ گو…. عورت ہوں
ہوا تھا ساتھ کیا میرے،
چلو جانے دو رہنے دو
مرے جیسی کروڑوں عورتیں ہیں ادھ مری اب بھی
دراوڑ…. …. …. .. آریائی جنگ جاری ہے
بہت پہلے دراو دو دھڑوں میں بٹ گئے تھے
پر
کئی اک ٹکڑیوں میں بٹ گئے ہیں اب
کئی جنگوں میں پسپا ہو کے ہم تو شدر کہلائے
مگر کچھ مصلحت والے
جو ہم میں ہی تھے
ہم سے ہو گئے اُونچے
سبھی باتیں پرانی ہیں….. …. .. بھلا اب کون سنتا ہے
وہ سارے مُول واسی…
آریائی جبر کے آگے
نئے فرعون کے احکام سنتے ہیں
نیا فرعون من کی بات کہتا ہے
ملا تو ہے مجھے انصاف پر اب بھی ادھورا ہے
خبر پہچانے والے سب ذرائع چپ ہیں گم صم ہیں
ہر اک دلال کو معلوم ہی ہے بھاؤ منڈی کا
مگر میں خونی رستے کی مسافر..
بڑی ہی شان سے ملتی ہوں اپنا خون چھاتی پر
اٹھا کر سر ہمیشہ دیکھتی ہوں میں
زمیں سے تا افق لاشیں ہی لاشیں ہیں
نہ اب کوفہ سے چل کر کوئی قاسم ہم میں آئے گا
کوئی کردش۔۔۔ صلاح الدین ایوبی۔ نہیں
کوئی
یوں ہی جینا ہے تو اپنی لڑائی
خود ہی لڑنی ہے کہ جیسے لڑ رہی ہوں میں….. …. …. …. ..
آخر کیوں
تمہارے کہنے پہ کیوں ہمیشہ یقین کر لوں
کیا تم نے ثابت کیا ہے خود کو
شروع دن سے ابھی تلک تم مجھے بتاؤ
عجیب بہروپ ہے تمہارا
بدل بدل کر ملے ہو مجھ سے
ضرورتوں سے، غرض سے اور اپنی خواہشوں سے
تمام قسمیں، تمام وعدے، وہ عہد و پیماں وہ خواب سارے
بدلتی رُت کا مزاج بن کر ملے ہیں مجھ سے
مگر ہمیشہ ہر ایک موسم میں تم سے یکساں
ملا ہوں میں ہی
شروع دن سے ہوں آج تک
ویسے کا ہی ویسا
میں کیا کروں کہ مری جبلت بدلنے دیتی نہیں ہے مجھ کو
مگر میں اب تھک چکا ہوں شاید
تمہاری خود غرض خواہشوں سے
تمہاری وقتی لگاوٹوں سے
مجھے ضرورت بنانے والے
میں منہمک ہوں
خود آج اپنی ضرورتوں میں۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔!!!!!
ماتا کا آسیب…..
پالتو گائے گرم ہو گئی
کیسے لے کر نکلوں باہر
بھیڑ کے ہتھے چڑھ جاؤں گا
بھیڑ نہیں پوچھے گی رام کرشنا ہوں میں
لوگ قصائی ہی سمجھیں گے
یا بیوپاری گؤ ماتا کا
بدک بھی سکتی ہے رستے میں سانڈ دیکھ کر
رسی چھڑا کر بھگدڑ برپا کر سکتی ہے
کیسریا گمچھے والوں میں پھنس جاؤں گا
پٹتے پٹتے بچ جاؤں یا مر جاؤں گا
اتنا رسک نہیں لے سکتا
اچھا ٹھیک ہے
رسی کھول کے ہانک رہا ہوں
مطلب پورا کر کے گھر آئی تو تھیک ہے
ورنہ
کوئی بات نہیں….. .. پھر
آوارہ گھومے گے گؤ رکھشک کے جیسی…..!!!!!!!!!!!!!!!
ریلی
ہم سب بھیڑ میں پھنسے ہوئے ہیں
سر ہی سر ہیں چاروں جانب
رنگ برنگی پگڑیاں، صافے، ٹوپیاں ہر سُو
ریلی کی صورت رک رک کر
سامنے والی پشت پکڑ کر سرک رہے ہیں
پیاسے اور پسینے میں تر
دور کہیں نا فہم سی چیخیں
آوازوں کے بیچ میں نعرے گونج رہے ہیں
لاؤڈ اسپیکر کی ترسیل سے
رستہ نہیں…. یہ بنجر کھیتوں کی وادی ہے
اس سے آگے اک بستی ہے
اور بستی کے آگے اک میدان میں شاید
آیا ہوا ہے نجات دہندہ
سنا ہے دیش کی کایا پلٹنے کو آیا ہے
بنجر کو زرخیز کرے گا
اور
ترقی تیز کرے گا
مگر ہمیں کیا؟؟؟؟
دو سو روپیہ کی لالچ میں یہ بھیڑ جٹی ہے
شام تلک پیسے مل جائیں تو گھر جا کر
پیٹ بھریں گے
اپنا اور اپنے بچوں کا
بہت دنوں سے بے کاری ہے!!!!!
قصور کی معصوم زینب کے نام۔۔۔۔ ۔
بتاؤ نا مجھے زینب،
بتا سکتی ہو کیا مجھ کو
تمہاری عمر سے ایسی توقع تو نہیں رکھتا
کوئی پاگل ہی ہو گا جو غلط انداز سے سوچے
تمہیں دیکھا غلط نظروں سے آخر کن درندوں نے
بتاؤ نا کہ
وہ ماں باپ اور بھائی بہنوں بچوں والے ہی۔ کچھ تھے،
مسلماں تھے؟
وہ شیعہ تھے کہ سنّی، یا وہابی
کچھ تو بولو،
کون تھے آخر؟
وڈیرے تھے؟ جو رکھتے ہیں رعیت کی ہر اک شئے پر
ہمیشہ مالکانہ حق
مگر تم شئے نہ تھی کوئی،
بہت معصوم… ننھی سی پری تھی تم،
ابھی ننھے سے پودے کی تھی بس کونپل
ہری تھی تم
تمہیں پھر سرخ اور خوں رنگ موسم کی
ردا کس نے اُڑھائی ہے،
دہائی ہے، دہائی ہے، دہائی ہے،
سمجھنے سے میں قاصر ہوں،
تمہارا ملک تو کلمے کی بنیادوں پہ قائم ہے،
وہاں تحریکیں چلتی ہیں تحفظ کی
وہاں شریعت اسلامیہ کے ہیں علمبردار
ہری، کالی، گلابی، تِرچھی، اونچی ٹوپیوں والے
خضابی، لمبی، چھوٹی، ہر قسم کی داڑھیوں والے
وہی جبّے، عمامے، شیروانی، پگڑیوں والے،
بتا بھی دو،
کہ غیرت جاگنے کی رُت نہیں آئی ابھی ان پر
جنازے پر ہزاروں احتجاجاً جٹ گئے
لیکن
تمہارے قاتلوں کو ڈھونڈھنے کیا کوئی نکلے گا
بتاؤ نا مجھے زینب…..؟؟؟؟؟؟ً!!!!!!!
آوازیں
تم کیا جانو،
روح کے تہہ خانوں سے نکلتی آوازیں ہیں،
آوازیں ہیں اپنی دھن میں
روز و شب بہتے جھرنوں کی،
اُن شفاف ابلتے ہوئے گم صم چشموں کی
جھیل کی خاموشی میں ڈوبی
ہوا کے جھونکوں سے رہ رہ کر
دائرے بُنتی… نہیں سنائی دینے والی آوازیں ہیں۔
تم کیا جانو؟
شور میں ڈھلتی صبح سویرے
جاگے پرندوں کی پیڑوں پر
الگ الگ سُر میں ڈھلتی وہ آوازیں ہیں
تم کیا جانو؟
جنگل رُت کے چُپ موسم میں
ٹوٹتے پتوں کی سرگوشی۔۔۔ سے جب ٹوٹتا ہے سناٹا
پیاسی آنکھوں میں سمٹے کچھ نمی کے قطرے
گالوں پر بِرہا کی لکیریں کھینچ رہے ہوں
ہونٹوں سے جب پھنسی۔۔ گھٹی کچھ آہیں نکلیں
وہ آوازیں،
رہٹ کی… ڈھیکی کی، پن چکّی کی آوازیں
پائل، جھانجھر، چوڑیوں، کنگن کی آوازیں،
بانسری، کوئل اور پپیہے کی آوازیں،
ٹرین کی چھُک چھُک رِدم کے جیسی رہ سفر میں
کچے رستے،
بیلوں کے گردن پر بجتی…. گھنٹی کی ٹن ٹن آوازیں،
گھیرا باندھے آگ تاپتے جھنڈ کے اندر
لوک گیت کا راگ الاپتی… وہ آوازیں
چولہے پر کوئی چڑھی دیگچی میں چمچ سے
ہولے ہولے چلا کے گاتی وہ آوازیں
بچھڑن اور ملن رُت کی کھٹ مٹھ آوازیں
سسکیاں، ہچکیاں۔۔ ہنسی، قہقہوں والے موسم کی آوازیں
یہ سارے احساس جہاں بھی جمع ہوئے تو
لفظوں کو آکار ملے گا،
نظم، غزل.. گیتوں کے لئے…. سنسار ملے گا
اپنی ذات میں قید کرو ان آوازوں کو
لفظ ملیں گے، بھاؤ بنے گا، سُر کا سِرا بھی مل سکتا ہے
راگ بنے گا۔
تم کیا جانو،
یوں ہی جنم نہیں لیتی ہیں یہ آوازیں……!
می لارڈ
آڈر آڈر کرنے والی آوازوں کا قتل ہوا ہے
قتل ہوا می لارڈ
تمہاری ہیبت اور انصاف کا شاید
عدلیہ کے انصاف کی دیوی کس کونے میں
منھ کو چھپائے سسک رہی ہے
کالی پٹی اور ترازو کہاں ہے دیکھو
دیکھو نا
ان سیڑھیوں پر قانون کی دھجیاں بکھری پڑی ہیں
کالی زہر آلود صدائیں، کان پھاڑتے گندے نعرے
دیواروں پہ تھوک کے کوئی بھیڑ ہے گزری
گنبد کے اوپر کا جھنڈا…… بدل گیا کیا؟
باہر آ کر دیکھ بھی لو اب
بھیڑ تو واپس لوٹ چکی ہے
ڈر لگتا ہے؟؟؟؟؟؟ْ
دوسری بھیڑ چلی نہ آئے
لیکن کب تک چھپے رہو گے؟
نہیں نہیں ایسا مت کرنا
اپنے قلم کی نوک اپنی ہی شہہ رگ کے نزدیک نہ لانا
نئی عدالت سجا کے کوئی فیصلہ لکھ دو
لکھ دو قانونی دھارا کے عین مطابق
حق کو حق…. …. …. …. …. باطل کو باطل۔۔۔۔!
ان شاء اللہ
دیکھتے ہیں کل کیا ہوتا ہے،
میز پہ ہے اخبار… ہاتھ میں چائے کی پیالی،
صفحے بدلتی انگلیوں میں اب بیزاری ہے،
پھٹی پھٹی آنکھیں تو نہیں، بے حس ہیں پتلیاں
لہو لہو ہیں روز ہی خبریں
جن کو پڑھ کر
دل نہ دھڑ کتا اور نہ کڑھتا ہے اب ویسا
پہلے جیسا
لوکل ٹرین یا بس کے اندر
آتے جاتے اکثر ہر دن
طرح طرح کے طنز سے سامنا ہو جاتا ہے
بھیڑ کے اندر داڑھی، ٹوپی.. گیروا گمچھا
سب مشکوک نظر آتے ہیں
ایک سے ایک سیاسی فقرے
ہچکولے کھاتے ہیں سفر میں۔
مذہب کو دھکے لگتے ہیں،
بند ہونٹوں کے اندر اندر.. ماں اور بہن کی گالی دبائے
غصے کو کھڑکی کے باہر کے منظر پہ ڈالے
بوجھل بوجھل، تھکے تھکائے
بس اپنے اسٹاپ کے آنے کی امید میں گم صم، گم صم
ہر اک آنکھ میں شک کی سوئی گھوم رہی ہے
بھیڑ میں بھی تنہائی کا احساس ہے شامل
آبادی میں رہ کر تنہا ہو جانے کا درد
بہت تکلیف زدہ ہے
دنیا کے نقشے پر سرخ لکیروں کا بس جال بچھا ہے!!!!
بائسکوپ… صندل اور سانپ
بائسکوپ ہے آؤ دیکھو،
فری پھکٹ ہے، بِنا ٹکٹ ہے، ڈھکن کھولو، چہرہ لگاؤ
فلم کی گھِرنی گھما رہا ہوں، سب کو سب کچھ بتا رہا ہوں
یہ دیکھو یہ صبح کا منظر
جامعیہ ہے یہ بہت پرانا
شور شرابا، ہلّہ گلہ
سیڑھیاں چڑھتے اترتے چہرے
کچھ کو سلامیاں ٹھونک رہے ہیں آتے جاتے
بڑی عمر کے بچیاں، بچے
ڈھلے ڈھلے اور تھکے تھکے استادِ محترم
پتہ نہیں کس وقت نکل جائے ان کا دم
نام کے آگے پروفیسر ہے
ادباً ان کو مخاطب کرنا ہو تو.. سر.. ہے
وایوا لیتے ہیں ہوٹل میں
ریٹ بتا دیتے ہیں پل میں
لڑکوں کا تو فکس ریٹ ہے، اور لڑکیاں۔۔!!!
کچھ کچھ، فیس.. یا کچھ بھی نہیں…. آخر کو ڈیٹ ہے
اس کی بھی فہرست بنا رکھی ہے انہوں نے اپنے ذہن میں
آگے دیکھو
سندر چہرہ۔ جسم سڈول اور تیکھے نینوں والی سندری
بِچھ جاتے ہیں ہونٹوں کی مسکان پہ سر جی….
فیس کا کیا ہے… لیں یا نہ لیں۔۔۔ یہ ان کی مرضی
خود ہی تھیسس بھی لکھ دیں گے
تھوڑی خدمت مل جائے تو سب کچھ چنگا
تم بھی نہاو، ہم بھی نہائیں… مل کر گنگا
جسم ہو کالا۔ بدن ہو بھاری…. بھلے کنواری
ٹھیک ہے…. تھورا کم کر دیں گے۔۔۔ با با جی ہیں دم کر دیں گے
سوکھی مٹی نم کر دیں گے
رکو رکو…. آگے تو دیکھو۔
فلم ابھی باقی ہے بھیا
اصلی شارٹ ابھی آئے گا، دیکھ کے ما تھا چکرائے گا
یہ دیکھو یہ شام سہانی۔ رُت مستانی، رم رم ہلکا ہلکا پانی
کوریڈور میں سنّاٹا ہے، دروازے سارے ہیں مقفل
لیکن اندر، مدھم روشنی ہانپ رہی ہے
جھریوں کے اندر کا منظر بڑا کروں کیا؟؟؟؟
یہ دیکھو
سائے سے لپٹی ہوئی ضرورت کانپ رہی ہے
گود میں بیٹھی، کانپتی انگلیوں سے تھیسس لکھتی مجبوری
دُوری بنانے میں ناکام ہوئی ہے دُوری
چند اک صفحے ہی رک رک کر لکھے گئے ہیں
ابھی کہاں
باقی ہے تھیسس… لکھنی ہے پوری
وقت لگے گا۔ دھیرے دھیرے، رک رک کر اور رفتہ رفتہ
دیکھ لیا نا، آگے دیکھو
ہانپتے سائے کے کمرے کی ریک کو دیکھو
سجی ہوئی ہیں چند بوتلیں
تیل ہے سانڈے کا، طاقت کی گولیاں بھی ہیں
اک پیکٹ کنڈوم کا بھی ہے
مجبوری نے خود کو ڈھانک لیا دوبارہ
سر پہ دوپٹہ ڈال کے نم آنکھوں کو پونچھا
کل پھر آنے کے وعدے پہ سر کو ہلایا
سر جی نے ہاتھوں سے بھونڈا سین بنایا
اور اپنے خبیث سے چہرے پر شیطانی ہنسی بکھیری
ختم ہوا یہ سین یہاں پر
اب آؤ آگے بڑھتے ہیں
ابھی حال میں اک افسانہ: لنگی: پڑھا تھا
اس کی بھی اک فلم بنائی تھی میں نے ہی
لیکن اس کے بعد یہ سوچا
یار یہ لنگی بہت قریب ہے سچائی سے
ایک مقدس پیشے والوں کے کرتوت جو سامنے آئے
سارے مجرم ڈرنے لگے ہیں رسوائی سے
اب دیکھو یہ بوڑھی عمارتیں، الگ الگ سب
خستہ حال ہیں برسوں سے سب بند پڑی ہیں
قوم کے سرمائے سے بن کر کبھی نئی تھیں
تہمتیں ان پر خرد برد کی کئی جڑی ہیں
اُردو کا سرمایہ کھا کر غائب ہیں سب
حج، عمرے کرنے کے بعد سے تائب ہیں سب
یہ بھی دیکھو، اپنے مدارس کا اب حال برا ہی نکلا
لمبی ڈکاریں پھولی ہوئی توندوں سے آئیں
بہت سے سین تھے، میں نے قصداً کاٹ دئیے ہیں
ٹھوکر کھا جاؤ گے، گڈھے پاٹ دئیے ہیں
کیا کیا دکھاؤں کیا نہ دکھاؤ سوچ رہا ہوں
جانے بھی دو، چہرہ ہٹاؤ، ڈھکن بند کروں گا اب میں
جان رہا ہوں، فلم پہ سنسر والوں کا نزلہ اترے گا
بائسکوپ کا ڈبہ سر پر رکھے مجھ کو جانے دو
اگلی فلم بنانے دو
اچھا جی اک خاص بات بھی سنتے جاؤ
بائسکوپ یہ پچھلی بار جنہوں نے دیکھا
اک بد خواب آیا تھا ان کو
کچی نیند سے جاگ گئے تھے
انہوں نے دیکھا
لپٹ رہے ہیں ناگ کئی صندل پیڑوں سے،!!!
ندی ہوں میں
ندی سے پہلے کیا تھی میں؟
معلوم بھی ہے کچھ
کن کن رستوں سے چل پہنچی ہوں یہاں تک
کوئی کیا جانے، انجانے انجانے سارے
مجھ سے اپنی پیاس بجھا کر
گم ہو جاتے ہیں دنیا کی بھیڑ میں یوں ہی
جھرنے سے لے کر، نالے رستوں سے چل کے
یہاں تلک کا سفر نہیں معلوم کسی کو
اونچی نیچی اوبڑ کھابڑ پگڈنڈی میں خود کو ڈھالے
راہ نکالے
کتنے جتن سے یہاں ہوں پہنچی
چٹانوں سے ٹکرائی مٹی سے الجھی
جنگل جنگل ہو کر گزری،
کئی گاؤں کے چکر کاٹے، خود کو جوڑے خود کو بانٹے
آئی یہاں تک
پتواروں سے کھینے والے، اپنی کشتی
میری چھاتی روندھ کے دوسرے تٹ پر جانے والے مسافر
کیا سمجھیں گے میری پیڑا
میٹھا پانی بانٹنے والی میں اک ندّی…. آگے چل کر
کھاری کھاری ہو جاوں گی
ہاں!!! ساگر میں کھو جاوں گی
اک دن پھر میں بھاپ بنوں گی..
دُور گگن میں میگھا بن کر کالی اور سفید سی چادر جیسی تن کر
دھرتی بھوک اور پیاس کی ماری جب بِلکے گی
ساون رُت کے آنگن میں برسوں گی چھم چھم
پرکرتی کے چکر میں کب سے گھوم رہی صدیوں سے یوں ہی
ندی….. بھاپ…. اور ورشا کے تِرکون میں یوں ہی!!!!!
ہجرت
ہجرت کرنے والوں نے کیا سوچ لیا تھا؟
یہاں سے بہتر وہاں کوئی ماحول ملے گا
سوچا نہیں تھا فاقہ یا کشکول ملے گا
بستی ملبہ زار ہوئی جب آگ لگی تھی
دھواں اٹھا تھا
آنکھیں دیکھ رہی تھی لاشیں… جلتی لاشیں
اندھے اور گونگے رستوں پر ہانپتا سینہ، کھلا کھلا منھ اور
لرزتے جسم کو لے کر
بھاگ رہی تھیں زندہ لاشیں
مائیں گٹھری پھینک کے، بچوں کو اپنے سینوں پہ بھینچے
اپنے سہاگ کی سرخ اور گرم سی لالی دیکھ کے
چیخیں خود کے اندر گھونٹے… بھاگ رہی تھی
بہنوں کی چنری کی حفاظت میں بھیا کے ہاتھ کٹے پھر جسم کٹا تھا
گہرے کنویں میں کود رہی تھی عصمتیں ساری
بوڑھے چیخ نہیں پائے تھے
ایک ہی وار نے سانس کا بندھن توڑ دیا تھا
جوڑ دیا تھا خاک کو خاک سے
ٹھیلے، خچر، بیل، ٹرک، لاری اور ریل پہ
اپنی سکت سے اور زیادہ لادا گیا تھا
ہانپ رہے تھے بوجھ سے رستے، کھیت، زمینیں، باغ، بھرے کھلیان سبھی کچھ
لہو لہو زخمی تلوں سے لپٹ لپٹ کر ہر اک منظر چھوٹ رہا تھا
پیچھے پیچھے سب کچھ پیچھے چھوٹ رہا تھا
تار کی باڑ کی دوسری جانب کی دنیا میں
آنے والے زخمی ہاتھوں کے پٹوں پر
نئی زمینوں کی مہریں جب ثبت ہوئیں تھیں
کس نے سوچا تھا اک ہجرت،
، اپنے آگے ایک نئی ہجرت کی سرحد کھڑی کرے گی
نئی شہریت کئی دہائیاں کاٹ کے کہلائیں گی مہاجر…..!!!
کجری
کجری نے ساڑی کا پلّو کمر میں کھونسا
بیٹھا سر پہ جمائے ٹوکری اُوپر رکھی
تن کا پسینہ پونچھے پھر منڈی سے نکلی
ہوس زدہ سب آنکھیں جسم کو چاٹ رہی تھیں
بانٹ رہی تھی اپنے پسندیدہ حصوں کو
کولہے پر اک ساہوکار نے نظر جمائی
ڈھلکے آنچل پر منشی نے رال گرائی
نکڑ پہ پنڈت جانگھوں کو کھجا رہا تھا
ایک ہاتھ سے گھنٹہ مسلسل بجا رہا تھا
ناف سے لے کر سینہ
سامنے کا منظر تھا
سب کے تصور میں عریانی کا پیکر تھا
تن کے پسینے سے چپکا تھا سوتی آنچل
شہوانی خواہش سے کتنے ہو گئے جل تھل
کسی نے تاکنے کا موقع ہرگز نہ گنوایا
آنکھیں سیکنے میں مذہب آڑے نہ آیا
کجری رستہ چلتے سب کچھ جان رہی تھی
اپنے ظالم جوبن کے گُن مان رہی تھی
بھیڑ کو کاٹ رہی تھی اپنا جسم چرائے
ہونٹوں کے اندر ماں بہن کی گالی دبائے
رکشہ لے کر منڈی کے باہر رگھوا تھا
ڈیڑھ برس کا ہاتھوں میں سندر ببوا تھا
ٹوکری پٹکی رکشہ پر… ببوا کو اُٹھایا
کجری نے اپنے للا پر پیار لُٹایا
منڈی کو نفرت سے دیکھا اور یہ سوچا
دلت نہیں ہو گا تو ببوا۔۔۔۔ بڑا تو ہو جا…………
وحشی جھنڈ
ہر خطے میں، ہر بستی، ہر کوچے میں
قاتل بھیڑ ہے
کتوں کا اک غول ہے ہر سُو
بھونکنے والا، کاٹنے والا، دہشت پیدا کرنے والا
ٹولی در ٹولی رستوں کو گھیرنے والا
تھوتھنوں سے ہے رال ٹپکتی
لال لال آنکھوں سے ہر دم جھانکتی وحشت
وحشی جھنڈ سے اب رستے محفوظ نہیں ہیں
سب کے گلے میں بندھا ہوا ہے ایک سا پٹہ
نسلوں کی پہچان ہے گڈ مڈ
وعدوں کی ہڈی کا خواب دکھایا گیا ہے
بھیڑ بنا کر لایا گیا ہے
نسلی تفرقہ ہوتے ہوئے بھی سارے کتے
ایک مشن پر نکلے ہوئے ہیں
کتے پکڑنے والی گاڑیاں ساتھ ساتھ ہی
بن کے تماشائی چلتی ہیں
یوں لگتا ہے
آنے والا دَور عجب منظر دیکھے گا
کتوں….. .. انسانوں کی لڑائی
دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے
متحد ہوتے ہیں اب لوگ فسادات کے بعد
سال دو سال یا پھر۔۔۔ چند مہینوں کے لیے
پھر وہی اپنی روش، پھر وہی اپنے تیور
منسلک ذات کے ہے ساتھ یہاں ذاتی انا
چوک چورا ہے ہیں غیبت کے پرانے اڈے
مسلکی، مذہبی، لسانی، علاقائی سنک
ڈھونڈتے رہتے ہیں ہر بار سیاسی خیمے
جس کے سائے کو پناہ گاہ تصور کر کے
جان اور مال پہ احسان سمجھ لیتے ہیں
جو بھی آئندہ کی سازش سے ڈراتا ہے اِنہیں
دھمکی آمیزی کو فرمان سمجھ لیتے ہیں
ہر گلی کوچے میں پھرتے ہوئے دلال صفت
متحد ہونے نہیں دیتے کسی کو بھی یہاں
کوئی تھانے کا ہے مخبر.. تو کسی پار ٹی کا
اور علماء کو ان سب سے سروکار نہیں
اپنے مسلک کی ہی تبلیغ ہے واجب ان پر
دوسرے فرقے کو کہہ دیتے ہیں جھٹ سے کافر
مسجدیں۔۔۔ مسلکی دکھ جاتی ہیں دروازوں سے
ہم وطن ان کو بساتے تھے محلوں میں کبھی
خیر و برکت کے لیے… امن کی خواہش لے کر
در بدر ہونے لگے ان کی ہی نفرت سے اب
اپنی اس خام خیالی کو لیے سوچتا ہوں
آپسی پھوٹ کی کھائی سے نکلنے کے لیے
زخم تازہ کی ضرورت ہے ضروری کیوں کہ
متحد ہوتے ہیں اب لوگ فسادات کے بعد……….
فاصلہ
یہی اک فاصلہ حدِ ادب میں مجھ کو رکھتا ہے
نہیں میں چاہتا خود بھی
کبھی اس بزم میں جاؤں
جہاں نظروں کے ملتے ہی۔۔۔ ہمیشہ مصلحت والی
کدورت سے بھرے چہرے کی پھیکی مسکراہٹ پیش آتی ہو
گماں ہر ایک کو اہل زباں ہونے کا جس جا ہو
محافل میں جہاں اپنی انا کو سامنے رکھ کر
جو منوانے کے ہوں درپے
مری مسند نمایاں ہو…. مری صورت نمایاں ہو… مری شہرت نمایاں ہو
مجھے معلوم ہے گہرائی، گیرائی..
بہت سے ایسے لوگوں کی
جوبرسوں کی ریاضت کر کے بھی با وزن مصرعے تک نہیں کہتے
نہ ہی مصرعوں میں کوئی ربط ہوتا ہے
بہت سے ہیں جو مانگے کے اُجالے سے نمایاں خود کو کرتے ہیں
ہمیشہ زعم میں رہ کر… بڑے شاعر کا دم
شعر و ادب کی ہر کسی محفل میں بھرتے ہیں
اگر تُک بندیاں سننے لگوں تو ذائقہ بگڑے گا خود میرا
سمجھنے دو اُنہیں تالاب کو تا عمر اک دریا
میں دریا سی روانی چاہتا ہوں عمر بھر… اور آخری دم تک
روایت اور سبھی عصری تقاضے ساتھ لے کر مجھ کو چلنا ہے
میں تنہا تھا، میں تنہا ہوں، مجھے تنہا ہی رہنا ہے
اُف ہجڑوں کی وہی سیاست
سوچ رہا ہوں کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں
ادب، سماج، سیاست سب کا حال ایک سا
خصیہ برداروں کا لشکر ہر شعبے میں
ہیں کچھ اور نظر کچھ آنا چاہ رہے ہیں
ہر نکڑ پہ کوئی منافق دوست نما ہے
اس ماحول کو دیکھ اب ایسا لگتا ہے
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تختیاں اُونچی کر کے
مانع حمل کی گولیاں ہجڑے بانٹ رہے ہیں
گدھ…..
جا بیٹھا اک اُونچے برج پہ گدھ
مخاطب ہوا یوں سب سے
غور سے سن لو
جنگل کے قانون میں اب ترمیم ہوئی ہے
آزادی کا دن ہے ہمارا….. جشن مناؤ… ناچو گاؤ
ڈھول منجیرا جھال بجاؤ، تالی تھالی جم کر پیٹو
جے جے کار کرو بس میری
راج محل کے نیچے جو کنکال ہیں بکھرے
اُنہیں ہٹاؤ… دوسرے لا ؤ
پھول اور پتی کھیت چراگاہیں اور ندیاں
چھین لیے جاتے ہیں سب سے
مزدوروں کا حق ہی نہیں بھر پیٹ وہ کھائیں
خوشی منائیں
اُس کے سُر میں سُر کو ملائے
لومڑیاں ساری چیخ رہی ہیں
ریا کاری کا گلے میں اپنے پٹہ ڈالے
ٹھوتھنا اپنے دھڑ سے نکالے جے جے کار میں الگ مگن
نر بھک چھوں کی ٹولی
خون لگے ہونٹوں سے نکل رہی ہے بولی
خبریں اکٹھا کرنے والے گیدڑ سارے
اپنے مچانوں پہ بیٹھے مسلسل چیخ رہے ہیں
چراگاہیں نیلام ہوئیں اور بیچ دیے گئے رستے سارے
کوئی مسافر چیخے کوئی انصاف پکارے
اپنا جرگہ، اپنی کھاپ ہے پنچ ہیں اپنے
بکھر گئی انصاف کے سپنے
ہرنوں کی شامت آئی ہے
موت سے پہلے رسوائی ہے
ہانکا لگا کر ان کا ریپ کیا جاتا ہے
جی بھرتے ہی… تازہ کون پیا جاتا ہے
ذات برادری والا مسئلہ جانوروں میں در آیا ہے
نسب دیکھ کر منصب سارے بانٹ رہے ہیں
وہ شدروں کو چھانٹ رہے ہیں
شدروں کی ہے تعداد زیادہ
کیسی افیم پلائی ہے ان کو، ان سے کیا ہے کیسا وعدہ
شدر جانور خود کو سمجھتے ہیں ان سا ہی
گدھ بڑا دشٹ پَرانی، بوڑھے پر آئی ہے جوانی
گدھ کا ہے اپنا پس منظر
اس کے پیچھے چھپا ہے اجگر
بہت پہلے جب دوسرے دیش کے جانوروں نے حملہ کیا تھا
گدھ قوم کے مکاروں نے بڑھ کر ان کا ساتھ دیا تھا
ان کے معافی نامے اور وظیفوں کی فہرست ہے لمبی
آج بھی ان کی اولادیں ہیں جے چندو سی
جو جنگل میں کھیل رہی ہے خون کی ہولی
صدیوں پرانے اس جنگل میں ایک نیا قانون مسلط ہونے لگا ہے
گدھ کے ساتھ ہی اس کا جتھا وحشی، پاگل ہونے لگا ہے……..
منی پور
ننگی، بے بس، روتی بلکتی
آدی واسی لڑکی چھو کر تم نے کیا محسوس کیا تھا
مجھے بتاؤ… سچ سچ کہنا… مت شرماؤ
ڈر اور شرم سے کانپ رہی تھی…. دوڑتے دوڑتے ہانپ رہی تھی
کُوکی لڑکی
تمنے گھیرا ڈال دیا تھا ننگے تن کے چاروں جانب
کہاں چھوا تھا… بولو بولو مت شرماؤ
جہاں سے تم نے دودھ پیا تھا اپنی ماں کا
یا پھر اُس سے تھوڑا نیچے
جس کے اندر خود تم بھی نو ماس رہے ہو
اُس سے اور زرا سا نیچے
بیج جہاں روپا تھا تمہارے باپ نے اک دن
مل کے تمہاری ماں کے تن سے
لیکن مجھ کو یہ بھی بتاؤ… جہاں تہاں چھونے سے پہلے
اپنے گھر کی عورتیں یاد نہیں آئی تھیں
بولو بولو… شرماؤ مت
اُن کا ننگا تن آنکھوں میں لہرایا
یا
بھول گئے تھے
ہوس بھری اُس بھیڑ میں رہ کر شرم نہیں آئی چھونے سے
جنگل میں رہنے والے ہر ایک پرانی یہ کُو کرم نہیں کرتے ہیں
آدمی ہو کر جو کچھ بھی تم کر گزرے ہو……..
وصیت… حیبا ابو ندا
مری بتیس سالہ زندگی کا آخری لمحہ
وصیت چھوڑے جاتا ہے
شہید ہوتے ہوئے اس پل کے کچھ الفاظ ہیں میرے
اِنہیں پہنچا دو دنیا تک
زمیں کی ان ہزاروں عورتوں کے ساتھ ہی میں بھی
خود اپنے آپ میں ہوں مطمئن
ثابت قدم تھی میں مری ماں…. میرے بچے اور
سارے لوگ ہر لمحہ
وطن کی آبرو…. القدس کی عظمت پہ قرباں ہیں
ہمیں جھکنا نہیں آتا
نہ ہم میں مصلحت کوشی کا ہے کوئی مرض اب تک
کسی کے ساتھ دینے یا نہ دینے سے
غرض رکھتے نہیں ہیں ہم
ہمیشہ حق کی خاطر یہ ہماری جنگ ہے جاری
مرے اشعار۔۔۔۔ ۔۔۔۔ میری نثر…. …
میری فکر میں ڈھل کر
کسی ملبے کے نیچے دب گئے ہوں گے
عَلم جب مسجدِ اقصیٰ پہ لہرائے دبارا تو سمجھ لینا
میں زندہ ہوں
شہادت رائیگاں ہرگز نہیں میری…….. ….
انا کونڈا
انا کونڈا کی آنکھیں چاروں جانب گھومتی ہیں
کھلا میدان ہے آگے
کہیں ہیں بھربھرے ٹیلے
کنارے جھاڑیوں کے بعد جنگل بھی
ندی…. نالے کی صورت بہہ رہی ہے اور
کوئی پانی بھی پینے اب نہیں آتا
نہ کوئی شیر نہ خرگوش نہ گیدڑ
یہاں اب ہاتھیوں کے جھنڈ بھی گردش نہیں کرتے
سبھوں نے مصلحت آمیز وعدہ کر لیا خود سے
جنہوں نے سر کشی کی تھی
انا کونڈا انہیں کھا بھی چکا کب کا
انا کونڈا نے گڑھ رکھا ہے خود قانون جنگل کا
وہ جو چاہے کرے
اب کون بولے گا
زباں اب کون کھولے گا
پہاڑی کھوہ میں جا کر چھپی ہیں چند لومڑیاں
بڑی خوش فہمیاں پالے
بہت نادان ہیں کیوں کہ
وہاں اک روز پہنچے کا انا کونڈا
بہت پہلے کبھی صحرائے سینا سے نکل کر اس طرف آیا
یہاں سر سبز جنگل تھے
گھنیرے جنگلوں میں شانتی کے دُوت رہتے تھے
انا کونڈا کی ہر پھنکار سے شعلے نکلتے تھے
اخوت شانتی کے دُوت اس پھنکار سے ڈر کر
بکھر کر اور بھی آگے
کسی گمنام بستی میں دراوڑ نام سے رہنے لگے تھے
اسی گنجان بستی میں انا کونڈا نے سنگھاسن لگایا ہے
بلی دینے کی باری سب کی آئے گی
مگر یہ بھی حقیقت ہے
ثبات حاصل نہیں اک شئے کو بھی اس دارِ فانی میں
انا کونڈا بھی اک دن موت اپنی مرنے والا ہے
کتا پکڑنے والی گاڑی کب آئے گی
راجہ جی مالک بن بیٹھے ہیں کتوں کے
پال رہے ہیں ہر جاتی کے لاکھوں کتے
کالے، پیلے، نیلے، لال اور
کئی طرح کے
بھونکنے والے، کاٹنے والے، دوڑنے والے، سونگھنے والے، چاٹنے والے
گلے میں پٹہ ڈالے شور مچانے والے
چین نہیں ہے… بس پٹہ ہے
ایک ہی رنگ کا
کوئی پنجرہ… کوئی ڈڑبہ… کوئی ڈربہ
کچھ بھی نہیں ہے
گلی، محلوں، گا ؤں، شہروں، چوراہوں پر گھوم رہے ہیں
مالک کی پُچکار کو سن کر.. جھوم رہے ہیں
دُم کو ہِلائے…. آگے پیچھے گھوم رہے ہیں
چھُو کہنے کی دیر ہے دوڑ لگا دیتے ہیں
پھر آتنک مچا دیتے ہیں
آوارہ کتوں کے کارن
انسانوں کا جینا مشکل ہونے لگا ہے
ان کے لیے ڈنڈا ہے ضروری
کب نکلے گی کتا پکڑنے والی گاڑی…….
پُر نور بستی کا منظر نامہ
کبھی سدھرے نہ سدھریں گے
جمالوُ… پھیکوُ… لنگڑا۔۔۔ رابو خالہ اور بُوا چھِنکی
علا وہ اور بھی سارے
کوئی موضوع ہو، ہر وقت کھل کر بات کرتے ہیں
گلی میں پان کھاتے…… تھُوکتے… کھینی رگڑتے رہتے ہیں اکثر
بفاتی حاجی صاحب کا بھی دل گھر میں نہیں لگتا
کرونا کی وبا ہو، رام نومی یا محرم ہو
چکن گونیا کا سیزن یا کوئی لفڑا
مقامی حادثہ یا ملک کے حالات پر ڈسکس
کوئی پیچھے نہیں رہتا
یہاں ہر شخص پیشن گوئیاں اسٹاک رکھتا ہے
انہیں معلوم ہے شاید
کہ آنے والے وقتوں میں بھلا کیا ہونے والا ہے
جنم پتری ہر اک نیتا کی ان کے پاس ہوتی ہیں
وزیر اعظم سے لے کر پارشد کا کچا چٹھا ان کو ازبر ہے
محلے سے نکلتی لڑکیوں کی ہسڑی محفوظ رکھتے ہیں
ہمیشہ کانا پھوسی اور سرگوشی میں جن کا ذکر لازم ہے
مگر اک بات ہے
کٹّر ہیں مسلک میں
یہاں کچھ لوگوں کا مسجد پہ قبضہ ہے
جماعت آدھی صف کی ہوتی ہے لیکن کسے پروا
کوئی بھی دوسرے مسلک کا فولوور نمازیں پڑھ نہیں سکتا
بھلا کافر کوئی مسجد میں کیوں آئے؟
کوئی گھر ہو…. …. .. پڑوسی اپنے ہمسائے سے نالاں ہے
مگر اک بات ہے، تیوہار کا لنگر و کھچڑا لُوٹتے سب ہیں
سبیلیں بھی لگاتے ہیں سبھی مل کر
یہاں پر ایک ہی گھر کے مکیں
بیعت ہیں اپنے اپنے پیروں سے
کئی لڑ جاتے ہیں اکثر
کہ میرا پیر ہی پہنچا ہوا ہے تیرے مرشد سے
محلے میں غریبوں کی خبر کوئی نہیں لیتا
مگر قوالیوں، جلسوں میں، میلادوں میں حاتم طائی ہیں سارے
اُچھل کر کُود کر اور ناچ کر سب چھُوٹ دیتے ہیں
دبا کر مٹھی میں گڈّی بلائیں ان کی لیتے ہیں
انہیں نعرے لگانے کی عجب لت ہے
یہ گندی گالیاں دیتے ہوئے غصہ دکھاتے ہیں
ہر جملے کے، آگے… پیچھے کرنا ماں بہن معمول ہے ان کا
سبھوں کے ہاتھوں میں ہے آن موبائل
خود ان کے سامنے ہی تھوکتے ہیں گٹکا کھا کر ان کے ہی لونڈے
انہیں کیا فرق پڑتا ہے
کہ ان کو پان کھانے کا قدیمی تجربہ ہے خود لڑکپن سے
انہیں ٹھسّہ بہت ہے ذات کا اپنی
پرایا رشتہ ان کو باعثِ توہین لگتا ہے
کنواری لڑکیاں گھر بیٹھ کے بوڑھی بھی ہو جائیں
مگر اپنی انا، اپنی شرائط پر یہ سمجھوتہ نہیں کرتے
مگر پکّے مسلماں ہیں، کوئی شک کر کے تو دیکھے
ملیں گے پان کی گمٹی میں، ہر دم چائے خانوں پر
کبھی چوراہوں پر
چھ چار دس کے جھنڈ کی صورت
انہیں سب لوگوں سے
بستی کی رونق آدھی شب تک زندہ رہتی ہے…….
عبدل
آئیے ملیے اک عبدل سے
سڑک کنارے پنکچر والا
بہت سے کام اسے آتے ہیں
موسم کے جیسے بھاتے ہیں
کھینچتا ہے عبدل ٹھیلا بھی
دھوپ میں بیچتا ہے کیلا بھی
عبدل تو رکشہ بھی چلائے
گمٹی اور فٹ پاتھ سجائے
بہت نہیں ہے پڑھا لکھا پر
اتنا تو ہے… محنت سے کمائے
عبدل ہے بازار کا بندہ
کر لیتا ہے کچھ بھی دھندہ
عبدل کو جینا آتا ہے
پان اور گٹکا بھی کھاتا ہے
جمعہ جمعہ مسجد جاتا ہے
شوق سے بریانی کھاتا ہے
عبدل کا سیزن دیوالی
عید اور ہولی ہے خوشحالی
عبدل کو ہر رُت ہے پیاری
ہر موقع اس کا تیوہاری
پوجا کا سامان بھی بیچے
سیویاں… لوبان بھی بیچے
ماں کا وستر بھی سیتا عبدل
شردھا پُوروک جیتا عبدل
عبدل پرچم لہراتا ہے
جن۔۔۔۔ گن۔۔۔ من۔ دل سے گاتا ہے
عبدل پتھر باز نہیں ہے
عبدل کوئی راز نہیں ہے
آنچ اگر ایمان پہ آئے
کوئی روکے یا سمجھائے
عبدل طیش میں آ جاتا ہے
منٹوں میں پگلا جاتا ہے
غیرت سے سمجھوتہ نہیں ہے
عبدل غیرت کھوتا نہیں ہے
عبدل میزائل بھی بنائے
آئی ٹی میں نمبر بھی لائے
جینے کا سامان کرے ہے
عبدل خون بھی دان کرے ہے
لنگر اور شربت بانٹے گا
دوسروں کا دکھ خود کاٹے گا
عبدل پتھر باز نہیں ہے
عبدل کوئی راز نہیں ہے
عبدل دیش دروہی… نا نا
عبدل جیسا کوئی….. نا نا
آزادی کی جنگ لڑی تھی
ہر سو اس کی لاش پڑی تھی
انڈیا گیٹ پہ نام لکھا ہے
عبدل نے بلیدان دیا ہے
ویر حمید سی شان ہے عبدل
اشفاق اُللہ مان ہے عبدل
بسم اللہ خاں کی شہنائی
ذاکر کا طبلہ۔۔۔ چوپائی
ولیوں کا بھی مان ہے عبدل
خواجہ کا گُن گان ہے عبدل
عبدل قبرستان میں بھی ہے
عبدل تو شمشان میں بھی ہے
کھانا پانی بانٹنے والا
دھکیارے انسان میں بھی ہے
عبدل اس مٹی کا کَن ہے
عبدل تو بھارت کا من ہے
عبدل ہے اس دیش کا حصہ
جھوٹا نہیں عبدل کا قصہ
اپنا سمویدھان سلامت
عبدل کی پہچان سلامت…. …. …. ….
شبد وائرس
نظم لکھو گے؟
کاغذ پر یا کمپیوٹر یا موبائل پر
لکھنے سے پہلے تھوڑا سا سوچ بھی لینا
بھاشا کا پریوگ بہت معنی رکھتا ہے
اندر کے فنکار کو باہر لے آتا ہے
اب تم پر نربھر ہے دنیا کس صورت میں تم کو دیکھے
جھنڈا ڈھونے والی کویتا مت لکھ دینا
تعریفوں کے پل کو باندھنے والا قصیدہ بھی مت لکھنا
جاتی کے آدھار پہ تو ہرگز مت لکھنا
لفظوں میں مسلک کو قید نہ کرنا بالکل
داڑھی ٹوپی گمچھا لنگی دھوتی کا
عنوان یا شِرشک کبھی نہ دینا
ہوا کی کوئی ذات نہیں، نہ پانی کا کوئی مذہب ہے
کھیتوں کی فصلیں قوموں میں کب بٹتی ہیں
رستے بوجھ اُٹھاتے ہیں سب کا ہر موسم میں
تم ساہیتہ کے وید.. حکیم ہو جوسماج کی
نبض پہ انگلیاں رکھے خود ہی طے کرتا ہے
کس کو کون سی دوا ہے لکھنی
ایسی کویتا… ایسی نظمیں مت لکھ دینا
وائرس شبد میں بھی ہوتے ہیں
پھیل گئے تو جانوں کو خطرہ ہوتا ہے
ملی جھلی تہذیب، سبھیتہ آن کی آن میں مٹ جاتی ہے
کاپی پیسٹ سے بچتے رہنا
خود کی نمک روٹی ہر حال میں بہتر ہو گی
وہ طے کریں گے
وہ طے کریں گے
تمہیں کیا کھانا ہے کیا پہننا ہے کیسے جینا
وہ طے کریں گے
تمہارا ماضی کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے
روایتوں کے اثاثے نیلام ہو رہے ہیں
زمینیں قدموں تلے سبھی کھینچی جا رہی ہیں
غلام گردش میں کھو چکی ساری جاہ و حشمت
نہ تھاپ طبلے۔۔۔ نہ گھنگھروؤں کی ہے آج چھن چھن
کنیزیں حصہ سمیٹ کر کب کی جا چکی ہیں
قلمرو سے سب غلام غائب
حرم کے خواجہ سرا کے جیسے بھی اب نہیں تم
زباں سے محروم کرنے کی سازشیں ہیں اب کہ
کبھی بھی شب خون کا ہے خدشہ
نئے شہنشاہ کی بھی فہرست میں نہیں ہو رعایا جیسے
تمہیں تو سانسوں کے بدلے دینا ہے جزیہ اپنا
آزان پر وحشیوں کی چیخیں ہیں حملہ آور
نظر قیام و سجود پر حاسدین کی ہیں
فضائے آلودہ تم کو مشکوک کر رہی ہے
سفر حضر تم کہیں بھی محفوظ اب نہیں ہو
بٹے رہو گے کیا اب بھی تم مسلکوں پہ اپنے
برادری کی خلیج گہری کرو گے اب بھی
علاقوں میں اپنے اپنے جھنڈے لیے پھِرو گے
یا اپنا حق ہر کسی جماعت کو سونپ دو گے
قبیح رسموں سے خود کو آزاد کب کرو گے
وہ جس نے پیدا کیا ہے وہ خود ہی رزق دے گا
تمہیں بس علم و ہنر سے ہے با شعور ہونا
غیور ہونا ہے اپنے کلمے کی روشنی میں
یہ یاد رکھو
جو قومیں غیرت سے عاری ہوں گی
زمانہ ان کو بھلا کے ہو جائے گا روانہ
نئے سفر میں…..
مجدورن
مجدورن ہے مجدورن
جلتی دوپہریا کھیت کے بیچوں بیچ کھڑی ہے
فصل کاٹتی، ہنسوا لے کر
ورشوں سے بس فصل ہی کاٹتی آئی ہو نا
گہرے کھیت کے مینڈھ کی اوٹ میں
جس تِس نے بویا تھا بیج
تیری نابھی کے نیچے جب چاہے جبراً
بھولی تو بالکل نہیں ہو گی پیٹ نکالے فصل کاٹتی روتے روتے عمر بِتائی
اب ایسا کر
یہ جو چھوٹی بھولی بھالی الہڑ اور نو خیز لڑکیاں ہنسوا لے کر
مزدوری کرنے آئی ہیں
ان کو سکھا دے، ان کو بتا دے
ہنسوے سے بس فصل نہیں کاٹی جاتی ہے
اور بہت کچھ بھی کٹتا ہے
اُونچے مینڈھ تلے اب کوئی وستر جو کھولے
بیج روپنے والا ڈنٹھل کاٹ کے رکھ دیں
ہے مجدورن
تم جو ساری عمر نہیں کر پائی
کرے گی
اب ہر اک چھوٹی مجدورن
پانچویں سال کی آخری مجلس
پان کی گمٹی، چائے کا ٹھیلا
بغل میں مسجد… شام کی بیلا
لنگی دھاری جمع ہوئے ہیں
گٹکے پان کی پچکاری رستے میں بکھری
بیچ سڑک پر کھڑے ہوئے کچھ لونڈے بالے
رستہ تنگ ہوا جاتا ہے
عورتیں بچ کر نکل رہی ہیں
نالی کے بج بج پانی سے خود کو بچاتی اُچھل رہی ہیں
گرما گرم بحث ہے جاری
بیچ بیچ میں اس کی ماں کی… اس کی بہن کی آوازیں ہیں
کے جیتے گا بول بے کلوا؟
پنجہ چھاپ یا کمل چھاپ یا ہنسوا بالی
رمضو جانگھ کھجا کر بولا
کا جانے ہم، ہمرے کھیال سے ایگو مسلم بھی دینا تھا
سب سالا کھڑ مُوت دیا ہے
ایگو اویسی جیسا ہوتا
یا ساعر عمران کے جیسا
پھاڑ کے رکھ دیتا ہے سالا
سنا ہے جاپھر کے گھر میں کل پارٹی کا کچھ لوگ گیا تھا
کانا مولبی ساتھ میں ہی تھا
اُوہی بے۔۔۔ اعلی حجرت والا
جسے وہابی مولانا نے جمہ میں جم کر کوسا تھا
سارا چکر مال کا بس
جس کو ملے۔۔۔ جھنڈا ڈھوئے گا
اپنے کو کیا لینا دینا
ہمرا بِٹوا واہٹس اپ کل دکھا رہا تھا
ای وی ایم کے ٹرک کو پبلک نے پکڑا ہے
دھُت سلا ہم کو کا لینا
ووٹ تو ہم سب دے ہی چکے ہیں
جو ہو گا دیکھا جائے گا
اے بے چھوٹو۔۔۔ چار کٹنگ چائے تو دینا
بیڑی ہے بے، ایگو دے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ہے بے… کھینی کھائے گا؟
بغل بینچ سے چچا بفاتی نے پھر چھوڑا،
اینگل ترچھا کئے ہوئے بدبوُ کا جھونکا
دبی دبی آواز میں گالیاں گونج اُٹھی ہیں
سلام علیکم ماسٹر صاحب، اہاں آیئے
پولنگ بوتھ میں آپ بھی تھے نا
کہیئے بہومت کس کی ہو گی
ماسٹر جی نے نظریں گھمائی
جیسے کلاس میں ہر چہرے کو تاڑ رہے ہوں
کہنے لگے اس بار کنہیا آئے گا.. پر…..
اپنے ہی لوگوں میں بہت سے دل بدلوُ ہیں
پیسہ بتا ہے جانتے ہو کچھ؟
مسلم ایکتا منچ کے ممبر بانٹ رہے تھے
فوراً کچھ لوگوں نے اپنی بغلیں جھانکیں
ایک نے موبائل پر اپنی نظر جمائی
ارے باپ رے…… گیارہ بج گئے
چھل بے جمالو۔۔۔
صبح ٹرک خالی کرنا ہے۔ ورنہ مالک گالی دے گا
پان کی گمٹی، چائے کا کھوکھا اور دکانیں بند ہوئی جاتی ہیں ساری
لنگی جھاڑ کے لوگ گھروں کی سمت رواں ہیں………………..
یہ نظم منظر
میں ایک منظر کو نظم کرنے لگا ہوں شاید
یہ ایک چھوٹی سی بالکونی ہے اور نیچے
سڑک پہ محوِ سفر ہیں ہر سُو ہزاروں چہرے
کہ کاروبارِ جہاں میں مصروف ہر بشر ہے
ہیں چائے خانے تو پان گٹکے کی ہیں دکانیں
ہیں لاٹری والے، ریڑھی والے ادھر اُدھر سب
سڑک کی پرلی طرف ہے مندر
وہاں سے کچھ دُور ایک مسجد
اسی علاقے میں گرو دوارہ ہے چرچ بھی ہے
دکانوں اور بلڈنگوں کی پیشانیاں سجی اشتہاروں سے ہے
ملی جھلی رنگوں والی تہذیب ہے یہاں کی
مگر دھر چند ایک برسوں سے دیکھتا ہوں
کئی ہری نیلی گیروا جھنڈیاں ہیں ہر سُو
عجب کہانی چھپائے آنکھیں ہیں دوستوں کی
جو تین کپ چائے پانچ لوگوں میں بانٹتے تھے
بس ایک سگریٹ گھومتی تھی لبوں کو چھوُ کر
بس اک ہتھیلی پہ رگڑی کھینی ہر اک کا حصہ نکالتی تھی
نہ تھی شکایت ہمارے ملنے سے مولوی اور پجاری کو بھی
تھے ہر محرم میں ہم ہی شامل، شریک تھے رام نومی میں بھی
سبھی کی عیدیں، دسہرہ ہوتا تھا ہم سبھوں کا
ہمیشہ کھاتے تھے گرودوارے کا ہم بھی لنگر
گلے لگاتے تھے ہر دسمبر میں دوستوں کو
مگر اب حالات کروٹیں یوں بدل رہے ہیں
وہ سبز موسم، لہو کے منظر میں ڈھل رہے ہیں
برین واشنگ کی کارخانوں میں نسلِ نو کا ہجوم ہے اب
سیاسی بازی گروں نے مہرہ بنا لیا ہے پڑھے لکھوں کو
گلے میں اسّی روپیہ کا گمچھا لپیٹ کر اب
کوئی بھی قانون اپنے ہاتھوں میں لے رہا ہے
سیاسی بازی گروں کی ہیں آلہ کار نسلیں
جو مسئلے ہیں ضروری وہ التوا گزیں ہیں
ہر قدم قومی دھارا سے آج کٹ رہا ہے
سماج پھر آرین…. دراوڑ میں بٹ رہا ہے
ہمارا دن منایا جا رہا ہے
ندی جنگل پہاڑوں کھیتوں کھلیانوں کا دن ہے یہ
زمیں کی کوکھ میں پلتے خزانوں کا سنہرا دن
بلیدانوں، کئی قربانیوں سے ملنے والا دن
رُوپہلے دھان کی فصلوں پہ صدیوں کی گواہی ہے
ہرے پیڑوں، ہری سبزی، نوکیلی جھاڑیوں، چٹانوں سے گھِر کر
ہر اک دن لکھتے ہیں اتہاس آدی واسی کلچر کا
ہمارے جسم اب بھی آدھے کپڑوں کے ہی عادی ہیں
ہماری بھوک اب بھی پیٹ میں آدھی ہی رہتی ہے
دئیے کی لَو سے روشن ہوتا ہے مٹی کا گھر اب بھی
ہمارے غھم ابھی تک داروُ، ہڑیا کے ہی عادی ہیں
ہمارے نام سے بنتے ہیں لاتعداد منصوبے
مگر کاغذ پہ…. نقشوں پر
ہمارے پاؤں کے نیچے جو ماٹی ہے ہم ہی زرخیز کرتے ہیں
خود اپنی ہی مشقّت سے
ہمیں بارش کا موسم راس آتا ہے،
یہ ہے امداد ایشور کی غریبوں پر
ہماری بیٹیاں، بہنیں، کبھی مائیں
بہت مجبور ہو جاتی ہیں تو پردیس جاتی ہیں
جہاں ذلت بھرے دن رات ہوتے ہیں بسر ان کے
پہاروں جنگلوں کے اس طرف کچھ لوگ رہتے ہیں
سنا ہے اس طرف آباد ہے ان کی الگ دنیا
وسائل کی کمی، بیروزگاری کھینچ لیتی ہے
زمیں کیوں سمٹتی جا رہی ہیں کارخانوں سے
ہمارے گاؤ میں شہری کنارا حملہ آور ہے
سمٹتی جا رہی ہیں سبھیتہ، تہذیب آئے دن
ترقی کی ہر اک رفتار ہم سے کوسوں پیچھے ہے
ہمارے تیر زنگ آلود ہوتے جا رہے ہیں اب
کمانیں توڑنے کی سازشیں ہر دن پنپتی ہیں
ہماری بولیاں، بھاشائیں کیوں تکنے لگی ہیں منھ
وراثت… سبھیتہ کو چاہئیے مظبوط سن رکشن
پہاڑوں، ندیوں، تالابوں، جھیلوں اور کھیتوں سے ہمیں پہچان ملتی ہے
ترقی یافتہ شہروں کا دھوکا اب نہیں دینا
ہمیں جنگل میں رہنے دو…. …. …. … ہم اپنا دن منا لیں گے
فاصلہ
یہی اک فاصلہ حدِ ادب میں مجھ کو رکھتا ہے
نہیں میں چاہتا خود بھی کبھی اس بزم میں جاؤں
جہاں نظروں کے ملتے ہی، ہمیشہ مصلحت والی
کدورت سے بھرے چہرے کی پھیکی مسکراہٹ پیش آتی ہو
گماں ہر ایک کو اہلِ زباں ہونے کا جس جا ہو
محافل میں جہاں اپنی انا کو سامنے رکھ کر جو منوانے کے ہوں درپے
مری مسند نمایاں ہو، میری صورت نمایاں ہو، مری شہرت نمایاں ہو
مجھے معلوم ہے گہرائی، گیرائی… بہت سے ایسے لوگوں کی
جو برسوں کی ریاضت کر کے بھی با وزن مصرعے تک نہیں کہتے
نہ ہی مصرعوں میں کوئی ربط ہوتا ہے
بہت سے ہیں جو مانگے کے اُجالے سے نمایاں خود کو کرتے ہیں
ہمیشہ زعم میں رہ کر، بڑے شاعر کا دم، شعر و ادب کی ہر کسی محفل میں بھرتے ہیں
اگر تُک بندیاں سننے لگوں تو زائقہ بگڑے گا خود میرا
سمجھنے دو انہیں تالاب کو تا عمر اک دریا
میں دریا سی روانی چاہتا ہوں عمر بھر اور آخری دم تک
میں تنہا تھا، میں تنہا ہوں، مجھے تنہا ہی رہنا ہے
دیکھتے ہیں کل کیا ہوتا ہے
میز پہ ہے اخبار.. ہاتھ میں چائے کی پیالی
صفحے بدلتی انگلیوں میں اب بیزاری ہے
پھٹی پھٹی آنکھیں تو نہیں بے حس ہیں پتلیاں
لہو لہو ہیں روز ہی خبریں جن کو پڑھ کر
دل بھی دھڑکتا اور نہ کڑھتا ہے اب ویسا… پہلے جیسا
لوکل ٹرین یا بس کے اندر…. آتے جاتے، اکثر ہر دن
طرح طرح کے طنز سے سامنا ہو جاتا ہے
بھیڑ کے اندر داڑھی، ٹوپی، گیروا گمچھا۔ سب مشکوک نظر آتے ہیں،
ایک سے ایک سیاسی فقرے ہچکولے کھاتے ہیں سفر میں
مذہب کو دھکّے لگتے ہیں، بند ہونٹوں کے اندر اندر
ماں اور بہن کی گالی دبائے، غصے کو کھڑکی کے باہر کے منظر پہ ڈالے
بس اپنے اسٹاپ کے آنے کی اُمید میں گم صم گم صم
سارے مسافر
ہر اک آنکھ میں شک کی سوئی گھوم رہی ہے
بھیڑ میں بھی تنہائی کا احساس ہے شامل
آبادی میں رہ کر تنہا ہو جانے کا درد بہت تکلیف زدہ ہے
دنیا کے نقشے پر اب بس سرخ کا ہی ھر سو جال بچھا ہے
دیکھتے ہیں کل کیا ہوتا ہے؟
دیکھتے ہیں کل کیا ہوتا ہے
میز پہ ہے اخبار.. ہاتھ میں چائے کی پیالی
صفحے بدلتی انگلیوں میں اب بیزاری ہے
پھٹی پھٹی آنکھیں تو نہیں بے حس ہیں پتلیاں
لہو لہو ہیں روز ہی خبریں جن کو پڑھ کر
دل بھی دھڑکتا اور نہ کڑھتا ہے اب ویسا… پہلے جیسا
لوکل ٹرین یا بس کے اندر…. آتے جاتے، اکثر ہر دن
طرح طرح کے طنز سے سامنا ہو جاتا ہے
بھیڑ کے اندر داڑھی، ٹوپی، گیروا گمچھا۔ سب مشکوک نظر آتے ہیں،
ایک سے ایک سیاسی فقرے ہچکولے کھاتے ہیں سفر میں
مذہب کو دھکّے لگتے ہیں، بند ہونٹوں کے اندر اندر
ماں اور بہن کی گالی دبائے، غصے کو کھڑکی کے باہر کے منظر پہ ڈالے
بس اپنے اسٹاپ کے آنے کی اُمید میں گم صم گم صم
سارے مسافر
ہر اک آنکھ میں شک کی سوئی گھوم رہی ہے
بھیڑ میں بھی تنہائی کا احساس ہے شامل
آبادی میں رہ کر تنہا ہو جانے کا درد بہت تکلیف زدہ ہے
دنیا کے نقشے پر اب بس سرخ کا ہی ہر سو جال بچھا ہے
دیکھتے ہیں کل کیا ہوتا ہے؟
گاندھی جی تم مرے نہیں ہو
گاندھی جی تم مرے نہیں ہو
تم تو ایک وچار ہو سب میں
اک آدرش ہو، اک سنکلپ ہو
پیڑھی در پیڑھی وشواس کی دیوڑھی پر جلتی باتی ہو
ویسے تو چلتی ہیں ہوائیں
دھیمی، تیز، کبھی آندھی سی
لیکن جو سدھّانت ہیں سونپے،
وہ تو ہتھیلی کا آکار لیے بیٹھے ہیں
اس باتی کی رکچھا کرنے
جسم پہ گولی موت بنی تھی
لیکن آتما بھارت ورش میں گھوم رہی ہے
گاندھی…. .. تم مر ہی نہیں سکتے
گنگا جمنی اس تہذیب کے تم ہو محافظ
ہر مذہب اور ہر ملت میں آج بھی تم سب کے باپو ہو
اور تمہارا قاتل گوڈ سے
جس پر تھوک رہی ہے دنیا…. …. ….. رہتی دنیا تک تھوکے گی…..
خانقاہ فیس بک پر حاضری
خانقاہِ فیس بک پر حاضری کیجئے قبول
پیر و مرشد
کاپی کر کے پیسٹ کرنے کا تبرک دیجئے
جی حضوری کی اگربتی دھواں دینے لگی
خصیہ برداری کی گانٹھیں باندھ کر چھُو کیجیے
موم جامے سے مقفل کیجیے سرقے کا در
لائیک کے ہر آپشن پر پھونک اپنی ماریئے
کیجیئے کمنٹس ایسا.. رقص میں کرنے لگوں
شیئر کرنے کے لیے عامل مقرر کیجیے
لیجیئے نہ مجھ سے در پردہ کبھی بھی خدمتیں
کیجیے نہ مجھ کو فکشن میں برا…. لکھ دیجئے
آپ تو لکھتے ہی آئے اپنے لوگوں کے لیے
میں بھی تو ہوں آپ کا بندہ غریب
اب تو لگتا ہے عجیب
دوسرے لوگوں کو پڑھتا ہوں اگر
بس کھجاتا رہتا ہوں میں اپنا سر
سب مدیرانِ رسالہ… کیا کہوں
ایک نمبر کے ہیں سارے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔
کیا کہوں
اس لیے تو فیس بک پر ہوں ڈٹا
ٹھرکیوں کی موج ہے اس فیلڈ میں، سمجھا کریں
بس تعارف ہی مرا لکھ دیجئے
آپ تو لکھتے ہی ہیں
آن لائین غزلیں پڑھنی ہیں مجھے، اب نشستوں میں، کھلے اسٹیج پر
پڑھنے کا موقع تو ملتا ہی نہیں
اینٹھتا ہوں گھر میں بیٹھا رات دن
وہ جو میرا دوست، ابراری مجیبی ہے وہاں
اس کا ہی ہے مشورہ مختلف تنظیموں سے جڑ جاؤ بے
کیا کرو گے ایسی بیکاری میں اب
پیر و مرشد
(مصرع کوئی دیجیے
یا پھر غزل مجھ کو عنایت کیجیے
وجد میں آ جائیں سن کر خاص و عام
آؤں جمعرات کو کرنے سلام
آزادی کی تیسری جہت
گونج اُٹھی پُر زور تالیاں چورا ہے پر
کملا، بندو، رانی شکیلا سب آئیں ہیں
لہنگا چولی جینس میں ساڑی میں جمپر میں
لپ اسٹک سے ہونٹ بھرے ہیں، گالوں پر سرخی کی تہہ ہے
آنکھوں میں کاجل کونوں تک پھیلا ہوا ہے
زلفیں لہرا لہرا کر سب پیٹ رہی ہیں تالیاں اپنی
اور ڈھولک کی تھاپ پہ نِرتکی بنی ہوئی ہیں
ٹھمک رہی ہیں یک سُر ہو کر
حالانکہ سُر کچھ بھونڈا ہے
لیکن مصرعے نپے تُلے ہیں
بھڑوا، رنڈرا، جنم جلا، اور پاپی، حرامی
احتجاج کے اس ٹولے کو چاروں طرف سے شہر کی بھیڑ نے گھیر لیا ہے
ہجڑوں کی آواز میں سب آوازیں ملائے
مل کر نعرہ مار رہے ہیں
لے کے رہیں گے آزادی…. …. ….. یہ حق ہے ہمارا…. ….
میری بھی سن لو
کوئی نجومی، کوئی کاہن، جیوتشی ہرگز نہیں ہوں میں
میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں آنے والے وقت کی آنکھوں کے وہ منظر
آبادی کے جنگل میں افواہ کا ہانکا
مذہب کو گھیرا جائے گا گلی گلی میں
شور مچے گا،
کان پڑی آواز سنائی بھی نہ دے گی
دہشت کے مخصوص وہ کچھ مانوس سے نعرے
گونجتے ہوں کے
جن کی ریہرسل ہو بھی رہی ہے
قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی
لوگ تو اب پڑھتے بھی نہیں ہیں پچھلے قصے
ایک زرا ہسپانیہ کی تاریخ ہی پڑھ لیں، کبھی کہ تا کہ
اس کا عروج اور اس کا زوال سمجھ میں آئے
اپنی زمیں بھی اس زوال کے نرغے میں ہے
دور نہیں وہ دن اب شاید
اور سیاسی سارے شکاری
اپنے اونچے مچانوں پر جم کر بیٹھیں گے
گھیرا تنگ کیا جائے گا
ہم جیسے ہی چارہ ہوں گے
آنے والا وقت شکار کرے گا ہم کو
اُردو گلی…. …. ….. غوغائے سگاں
ہیلو….. ہیلو…. …. …. ہیلو
اوہ ہو
السلام و علیکم بھائی صدقے جاؤں
آپ نے مجھ کو یاد کیا، دل شاد کیا
کہیے کیسے یاد کیا
ایک ذرا سا وقفہ…. …. ….
آ ہا… حاضر ہوں سرکار.. مہرباں
ائیر ٹکٹ بھجوا دیں صاحب
جی ہاں جی ہاں
اس ہوٹل میں، بہت مناسب، شکریہ شکریہ
اچھا اچھا بہتر ہے جی
اگلے ماہ بلاؤں گا میں پوری ٹیم کو
سوچ رکھا ہے
چند اک کو ایوارڈ دئے جائیں گے… جی جی
ہاں ہاں… ہا ہا
فنڈ کا سارا ذمہ ان کا
خشک کنویں میں ڈول نہیں ڈالا ہے میں نے
آئیں نا.. پھر اس کے بعد کا کچھ کرتے ہیں
اُردو کی خاطر تو کچھ کرنا ہی ہو گا
اللہ حافظ………..
مجھے اک نظم لکھنی ہے (سانحہ پشاور)
مجھے اک نظم لکھنی ہے، مگر کیسے لکھوں گا میں
قلم کی روشنائی سرخ ہوتی جا رہی ہے کیوں
ہر اک ساعت مری تخلیق سے شرما رہی ہے کیوں
شریعت کا حوالہ دے کے جھوٹے ہوں گے کیا سچے
یہ کس فتوے کی ذد میں آ گئے معصوم سے بچے
ضعیفوں، عورتوں، بچوں کے بارے میں پڑھا ہے کیا؟
صحابہ سے کبھی کچھ ایسا ظلم بھی سرزد ہوا ہے کیا
تمہاری خارجیت خلق کو دہلا رہی ہے کیوں
قلم کی روشنائی سرخ ہوتی جا رہی ہے کیوں
مجھے اک نظم لکھنی ہے….. …. .. مگر…. ..
یہ دہشت گرد باہر کے بھی ہیں اور اپنے گھر کے بھی
بصیرت سے ہیں عاری اور کورے ہیں نظر کے بھی
سیا سی، مذہبی ہر چور دروازے سے آتے ہیں
تمہارے درمیاں ہی رہ کے یہ فتنہ جگاتے ہیں
فضا ارض وطن کی ان سے دھوکہ کھا رہی ہے کیوں
قلم کی روشنائی سرخ ہوتی جا رہی ہے کیوں…
مجھے اک نظم لکھنی ہے….. …. …. .. مگر…. …. …
بتاؤ ایک سو بتیس بچوں کا قصور آخر
کیا کس جرم نے ماؤں سے ان کی، ان کو دور آخر
مجاہد ہو تو پہلے قبلۂ ا ول بچانا تھا
مگر تم میں یہودی سازشوں کا تانا بانا تھا
کہاں اقوام متحدہ؟
نہیں فرما رہی ہے کچھ
قلم کی روشنائی سرخ ہوتی جا رہی ہے کیوں….. …. …. …..
مجھے اک نظم لکھنی ہے… مگر کیسے لکھوں گا میں؟۔۔۔۔۔۔۔۔
اہرام کا خدا
وقت کا فرعونی لشکر
گامزن ہے نیل کی جانب ابھی
دائیں بائیں ایستادہ ہیں کئی اونچے کھنڈر
آگے بھی اہرام کی بنیادیں کھودی جا رہی ہیں
وقت کا فرعون طاقت کے نشے میں چُور ہے
کہہ رہا ہے ہر کسی سے شان سے
من ربکم
آ… ادھر جھوٹے خدا
اب بھی ہے تیرا منتظر
اک نیا دریائے نیل
خاموش بھیڑوں کی آخری منزل
غار کا منھ اب چوڑا کر دو
اور زیادہ بھیڑیں شام تلک آئیں گی
گلوں کے آگے اور پیچھے… چاروں طرف سے
بھونکیں گے اب ریوڑ ہانکنے والے کتے
زعفرانی رنگت کی گھانس ہوئی جاتی ہے
سبزے کو بد نظر لگ گئی
آسمان پر کالے بادل چھائے ہیں لیکن
دھرتی کا منھ کھلا ہوا ہے
پیاسی زبانیں محو دعا ہیں
ایسی دعائیں… جن کے معانی سے ہے عاری مانگنے والا
سوکھی زبانیں لے کر بھیڑیں ہانپ رہی ہیں
اُونچی چٹانوں پہ بیٹھے شکاری سارا تماشہ دیکھ رہے ہیں
غار کا منھ پتھر سے ڈھکے گا کوئی نہیں اب
سہمی بھوکی اور مظلوم ڈری ہوئی بھیڑیں
اندھیارے میں ورد کریں گی
یا اللہ…. بچا لے مولا
چٹانوں سے چیخیں۔۔۔ آہیں ٹکرائیں گی
اور لرزتے لفظ دعا کے جب گونجیں گے
بھکریں گے قہقہے فضا میں
رہ رہ کر گونجیں گی صدائیں
اب تو علی با با بھی نہیں ہے، کوئی علی با با ہی نہیں ہے، اس خطے میں
علقمہ شبلی
ہاں بہت پہلے کا ہے یہ واقعہ
علقمہ شبلی کو پہلی بار دیکھا تو لگا
گرم تپتی ریت کے دامن اک چھتنار پیڑ
موسموں کے زور کے آگے کھڑا سینہ سپپنے دامن میں سمیٹے نرم ٹھنڈی چھاؤں کو
دے رہا تھا علم وفن کے ہر مسافر کو پناہ
میں نے دیکھا تھا وہ منظر… ٹہنیوں پہ ہر طرف
جا بجا شعر و سخن کے تھے پرند
وہ ثمر آور شجر گم ہو گیا
روشنی کا استعارہ وہ چراغ
اُف اچانک کھو گیا
عظمت بنگال کا بیدار ماضی سو گیا
ہمارے ہاتھ کے پتھر
ہمارے ہاتھ کے پتھر
ہدف پہچانتے ہیں سب
غلیلوں کو نشانہ سادھنا بھی خوب آتا ہے
تمہاری گولیوں کے درمیاں ہر دم
یہی بے خوف پتھر اُڑتے پھرتے ہیں
ہمارے جسم لاشوں میں بدلنے کے ہنر سے خوب واقف ہیں
لہو کا سب سے پہلا قطرہ گرنے کا بدل معلوم ہے ہم کو
ہمیں معذور مت سمجھو
یہی جذبہ ہمیں آمادہ رکھتا ہے
شہادت کے لیے ہر دم
ہے فانی جسم لیکن، روح تو لافانی ہوتی ہے
شہیدوں کو کبھی کیا موت آئے گی؟
ننگی عورت
ننگی عورت دوڑ رہی ہے بیچ سڑک پر
وحشی بھیڑ ہے پیچھے پیچھے
لوگ اچھلتے پستانوں کو دیکھ رہے ہیں
سینک رہے ہیں اپنی آنکھیں
بوڑھے، جوانوں کی آنکھیں کتوں کی جیبھ میں بدل گئی ہے
پھٹی ہوئی شہوت کے آب میں ڈب ڈب کرتی
جیسے ہوس کی رال میں لت پت میلا، زخمی جسم بھی تو تسکین کا منظر دے سکتا ہے
شرم کے مارے عورتیں دروازوں کی پیچھے دبک گئی ہیں
خود کے ننگے پن کاخوف ذدہ احساس ہے حاوی ان پر
کھڑکی کی جھریوں سے یک ٹک دیکھ رہی ہیں
کچھ لمحوں کا دوڑتا منظر
بچے تعجب سے اس بھیڑ کو تاک رہے ہیں
ننگے جسم کے آگے جانا چاہ رہا ہے ہر اک بندہ
اپنی اپنی گالیوں، گھونسوں کی سوغات لیے خود شاید
بھیڑ بذات خود کرتی ہے فیصلہ اب تو
دکھ تو یہ ہے
کرشن نام کا ایک بھی ہاتھ نہیں اُبھرا اس بھیڑ میں کوئی
بدن دروپدی کا ڈھکنے کو
ماں کے نام پہ اپنی سیاست کرنے والے ماں کی عظمت بھول چکے ہیں
بیچ سڑک پہ ماں جیسی اک ننگی عورت دوڑ رہی ہے
ہجرت
ہجرت کرنے والوں نے کیا سوچ لیا تھا
یہاں سے بہتر وہاں کوئی ماحول ملے گا
سوچا نہیں تھا فاقہ یا کشکول ملے گا
بستی ملبہ زار ہوئی جب آگ لگی تھی، دھواں اُٹھا تھا
جلتی آنکھیں لاشیں دیکھتی، اندھے اور گونگے رستوں پر
ہانپتا سینہ، کھلا کھلا منھ اور لرزتے جسم کو لے کر بھاگ رہی تھی
مائیں گٹھری پھینک کے بچوں کو اپنے سینوں میں دبائے
اپنے سہاگ کی سرخ اور گرم سی لالی دیکھ کے
چیخیں اپنے اندر گھونٹے بھاگ رہی تھیں
بہنوں کی چنری کی حفاظت میں بھیا کے ہاتھ کٹے پھر جسم کٹا تھا
بوڑھے چیخ نہیں پائے تھے
ایک ہی وار نے سانس کا بندھن توڑ دیا تھا
جوڑ دیا تھا خاک کو خاک سے
ٹھیلے، خچر، بیل، ٹرک، لاری اور ریل پہ اپنی سکت سے اور زیادہ لادا گیا تھا
ہانپ رہے تھے بوجھ سے رستے
کھیت، زمینیں، باغ، بھرے کھلیان سبھی کچھ
لہو لہو منظر زخمی تلووں سے لپٹ لپٹ کرہر اک منظر چھوٹ رہا تھا
تار کی باڑھ کی دوسری جانب کی دنیا میں
آنے والے زخمی ہاتھوں کے پٹّوں پر
نئی زمینوں کی مہریں جب ثبت ہوئی تھیں
کس نے سوچا تھا اک ہجرت
اپنے آگے ایک نئی ہجرت کی سرحد کھڑی کرے گی
نئی شہریت کئی دہائیاں کاٹ کے کہلائیں گی مہاجر
کلمہ گو مشرک
کلمہ گو مشرک ہے تجھ سے اک سوال
ترجمہ پڑھ اور پھر تفسیر پڑھ
سورۃ الفاتحہ کے باب میں
کیا کہا اللہ نے کر غور کر
بر ملا بندے کا یہ اقرار ہے
کرتے ہیں تیری عبادت ہی فقط
چاہتے ہیں بس تُجھی سے ہم مدد
پھر دعائیں مانگتے ہیں لوگ جب
کیوں صدائیں دیتے غیر اللہ کو
کون ہے مشکل کشا اور دستگیر
کون ہے حاجت روا اور کون پیر
میں تو جاہل ہوں مجھے سمجھائیے
مانگنا کس ہے یہ بتلایئے
قلم کی موت
خط لکھنا میں چھوڑ چکا ہوں
قلم کی سیاہی سوکھ چکی ہے
حسب ضرورت اب تو ڈھونڈتا ہوں کاغذ بھی
یاد نہیں ہے پچھلی دفعہ کب خط لکھا تھا
قلمی دوستی کی تھی میں نے برسوں پہلے
شعر کہے تھے رف کاغذ کے پنّوں پر بھی
پوسٹ کارڈ پیلا سا، انتردیشی سبز سا
کبھی مراسلے بھی بھیجے تھے اخباروں کو
چھٹیاں گاؤں سے آتی تھیں، میں بھی جوابی خط لکھتا تھا
اب تو انٹر نیٹ کا دَور ہے
بھول چکا ہوں قلم دوات و سادہ کاغذ
اپنی لکھاوٹ بھی بدلی بدلی لگتی ہے اب تو
عمر کے اس حصے میں پہنچ کر
سوچ رہا ہوں پھر خط لکھوں
برسوں سے صندوق میں رکھا سر کنڈے کا سِرا چھیل کر نکل پڑا ہوں
لاٹھی، ڈنڈے، چیخ و پکار اور وحشی بھیڑ جہاں پاؤں گا
بکھرے لہو میں سرکنڈے کی نوک ڈبو کر
وحشت کا منظر نامہ میں بھی لکھوں گا
نوکیا کا موبائل پرانا پاس ہے میرے
کیمرہ اس میں نہیں ہے کوئی
میں ڈیجیٹل نہیں ہوا ہوں اب تک شاید
اپنی باتیں ڈاک سے، مجھ کو بھیجنی ہوں گی
پتہ امیر شہر کا ہو گا
خط لکھنے کی آزادی محفوظ ہے اب تک
دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے؟
سکھچا کے مندر کے باپو
رُوُدر کی منکاؤں کو گھمائے پوچھ رہے ہیں
اگلا ہَون کہاں ہے بھکتوں؟
بھکت بڑی شردھا سے جھکائے اپنے سر کو
ڈنڈوت کی مُدرا میں ہو کر بول رہے ہیں
ہے پربھو!
اب کہ ایک نئی نگری میں
بہت وشال سماروہ میں پروچن رکھا ہے
پوجا کی ساری تیاری کر لی گئی ہے
منتر جاپ اک دن دوجے دن بھجن بھی ہو گا
بہت ہی مہنگے ہوٹل میں کمرے بھی بک ہیں
اُس نگری کی داسیاں بھی سیوا میں ہوں گی
رام کلی اِٹھلا کر بولی
نہیں… نہیں میں ہی کافی ہوں
پربھو نے اشلوک کی پُستک پیچھے رکھ دی
رام کلی کو گھُور کے دیکھا
اور ہنکارہ بھر کر بولے
دھرم اور بھاشا کی سیوا کرنی ہے پگلی
اُن کی شردھا کا بھی تو کچھ مان ہے رکھنا
پھر بھکتوں سے پوچھا۔۔۔ دکشِنا ٹھیک ہی ہے ناَ
کان میں اپنے، منھ کو سٹائے، ایک بھکت چپکے سے بولا
چالیس۔۔۔۔ ساٹھ کے آنکڑے پر ہی بات ہوئی ہے
بہت بڑے پروہت کے کہنے پر ہی گرو جی
طے ہے سب کچھ
رُوُدر کی منکاؤں کو گھمائے
چمک گئیں باپو کی آنکھیں
رام کلی کو کیا اشارہ
کل کی فلائٹ کو بُک کرنے کا
سکچھا دیوس کی پاون بیلا، نئے نگر میں
جئے ہو پربھو!!!!!!!!!!!!!!!!!
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں