کلامِ اقبال کی شرح اور ترجمے کی مولانا مہرؔ کی اور وصی اللہ کھوکھر کی ٹائپنگ کی زبردست کاوش
مطالبِ بال جبریل
ترجمہ و شرح بال جبریل
از قلم
مولانا غلام رسول مہرؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں….
(۱۹)
کمالِ ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمالِ ترک ہے تسخیر خاکی و نوری
میں ایسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا
تمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
نہ فقر کے لیے موزوں، نہ سلطنت کے لیے
وہ قوم جس نے گنوایا متاعِ تیموری
سنے نہ ساقی مہ وَش تو اور بھی اچھا
عیارِ گرمی صحبت ہے حرفِ معذوری
حکیم و عارف و صوفی تمام مست ظہور
کسے خبر کہ تجلی ہے عین مستوری
وہ ملتفت ہوں تو کنجِ قفس بھی آزادی
نہ ہوں تو صحن چمن بھی مقامِ مجبوری
برا نہ مان، ذرا آزما کے دیکھ اسے
فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری
معانی
مہجوری: جدائی۔ علیحدگی۔ اہل حلقہ: یہ تصوف والوں کی اصطلاح ہے اس لیے کہ وہ کسب فیض کی غرض سے پیرو مرشد کے سامنے حلقہ بنا کر بیٹھتے ہیں۔ ملتفت: متوجہ، مہربان۔
ترجمہ و تشریح
۱۔ آب و گل یعنی دنیا سے علیحدگی اختیار کر لینا ترک کا انتہائی مقام نہیں۔ انتہائی مقام یہ ہے کہ خاکی یا نوری جو کچھ بھی اس کائنات میں نظر آتا ہے اسے مسخر کر لیا جائے۔
عام لوگوں کے نزدیک اسی کو کمال سمجھا جاتا ہے کہ دُنیاسے علیحدہ ہو کر انسان بنوں اور جنگلوں میں ڈیرے ڈال دے۔ اسے ترک نہیں کہ سکتے۔ اس لیے کہ ترک عزم چاہتا ہے یہ تو دُنیاسے شکست کھا کر پیچھے ہٹ جانا ہوا۔ اس میں کمال کون سا ہے؟ ترکِ حقیقت میں یہ ہے کہ خدا نے خاکی اور نوری جتنی چیزیں بنائی ہیں، انسان ان کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے۔ انھیں اپنے قبضے میں کر لے۔ بایں ہمہ ان سے کوئی تعلق اور سرو کار نہ رکھے۔ اس کا حقیقی مقصود صرف وہ پاک ذات ہو، جو تمام محبوبیتوں کا مرکز ہے۔
۲۔ اے تصوف والو! میں ایسی درویشی سے دُور ہی اچھا، جیسی تم لوگوں نے اختیار کر رکھی ہے۔ اس درویشی کی حیثیت کیا ہے؟ یہ کہ اس میں کسی قسم کی برکت نہیں۔ پیسوں کے لیے دوسروں کی محتاج ہے اوراس کی عام کیفیت ایک بیماری کی سی ہے۔
۳۔ وہ قوم نہ درویشی کی اہل سمجھتی جا سکتی ہے۔ نہ بادشاہی کی، جس نے اپنی نالائقی سے وہ بیش بہا سرمایہ ضائع کر دیا۔ جو تیمور کے جانشینوں نے چھ پشتوں میں حاصل کیا تھا۔
تیموری متاع سے یہاں وہ سلطنت مراد نہیں، جو خود تیمور نے حاصل کی تھی۔ یہ اشارہ مغلیہ سلطنت کی طرف ہے، جو کابل و قندھار سے ارکان تک اور تبت سے راس کماری تک پھیلی ہوئی تھی اور جس کے ماتحت ہندوستان نے پہلی مرتبہ ایک جغرافیائی وحدت کی صورت اختیار کی۔ اس سلطنت کی تعمیر کے لیے بابر سے عالمگیر تک تیموریوں کی چھ پشتیں لگاتار جد و جہد کرتی رہیں۔ ۱۷۰۷ء میں عالمگیر کی آنکھیں بند ہوئیں تو دس پندرہ سال میں اس سلطنت کی بنیادیں بے طرح ہلنے لگی تھیں۔ مزید دس پندرہ سال گزرنے پر یہ عملاً ختم ہو گئی تھی۔ اقبال کہتے ہیں کہ جس قوم نے یہ عظیم الشان متاع اس آسانی سے ضائع کر دی۔ قدرت کی کار گاہ میں وہ قوم کس بنا پر بادشاہی یا درویشی کی اہل سمجھی جا سکتی ہے؟ اس لیے کہ نہ اس میں زورِ بازو رہا جو سلطنت کی حفاظت کے لیے لازم تھا اور نہ اسے دِلوں پر تسلط حاصل رہا جو درویشی کا خاصہ ہے۔
۴۔ اگر چاند جیسے چہرے والے ساقی کے کانوں تک یہ بات نہ پہنچے تو اور بھی اچھا۔ میں نے شراب پینے سے معذرت کا جو اظہار کیا وہ در اصل گرمی محفل کی ایک کسوٹی تھا۔
مراد یہ ہے کہ ساقی نے مجھ پر اتنی نوازشیں فرمائیں اور اتنی مہربانیاں کیں کہ میرے ذوق کی انتہائی تسکین ہو گئی، یہاں تک کہ مجھے مجلس میں جام شراب پیش کیا تو میں نے معذوری کا اظہار کر دیا۔ یہ معذوری کم ذوقی یا بے کیفی کا ثبوت نہ تھی۔ بلکہ ساقی کی انتہائی نوازشوں کی دستاویز تھی۔ حقیقت یہی ہے لیکن ساقی کے کان تک یہ بات پہنچے تو اور بھی اچھا ہے تاکہ اس کی نوازشیں بددستور جاری رہیں۔
۵۔ اہل فلسفہ، اہل معرفت اور اہل تصوف سب اس کوشش میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ ذات پاک کو جلوہ انہیں نظر آئے، لیکن اس میں سے کسی کو خبر نہیں کہ جسے وہ تجلی سمجھتے ہیں، وہ تو بجائے خود مستوری ہے۔
مراد یہ ہے کہ ذات پاک کو کوئی بے حجاب نہیں دیکھ سکتا۔ جسے جلوہ سمجھا جاتا ہے، وہ بھی ایک طرح کا پردہ ہی ہے۔
۶۔ اگر محبوب مہرباں ہو تو پنجرے کا گوشہ بھی میرے لیے قید نہیں، آزادی ہے۔ اگر محبوب کی نظر عنایت نہ ہو تو پھر پنجرے کو چھوڑ کر باغ بھی مجبوری کا ایک مقام ہو گا جیسا کہ قید خانہ ہوتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ محبوب کی مہربانی ہو تو انتہائی مشکلات کی زندگی بھی عین راحت و آسائش بن جاتی ہے، مہربانی نہ ہو تو راحت و آسائش بھی مصیبت سے کم نہیں۔
۷۔ بے شک میں کہتا ہوں کہ مغربی علوم سے اگرچہ دماغوں میں اک گونہ روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور ان سے عقل میں تیزی آ جاتی ہے، لیکن دل نورِ ایمان سے خالی ہو جاتا ہے اور یہ سراسر ویرانہ بن جاتا ہے۔ تو میرے اس قول کو سوچے سمجھے بغیر نظر انداز نہ کر اور برا نہ مان۔ تجربہ کر کے خود اس کی سچائی کو آزما کر دیکھ۔
(۲۰)
عقل گو آستاں سے دُور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں
علم میں بھی سُرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سُرور نہیں
اک جنوں ہے کہ با شعور بھی ہے
اک جنوں ہے کہ با شعور نہیں
نا صبوری ہے زندگی دل کی
آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں
بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تُو تو بے حضور نہیں
ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا
تو ہی آمادۂ ظہور نہیں
’اَرِنی‘ میں بھی کہہ رہا ہوں، مگر
یہ حدیث کلیم و طور نہیں
ترجمہ و تشریح
۱۔ عقل اگرچہ محبوب کے آستانے سے قریب ہی ہے، دُور نہیں، لیکن حقیقت یہ کہ اے محبوب کی بارگاہ میں حضوری کا درجہ نہیں مل سکتا۔ اس نوازش سے اس کی تقدیر کا خانہ خالی ہے۔
شعر میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ اقبال کا مدعا یہ ہے کہ دلیلوں سے بھی کام لے کر انسان منزل محبوب کا پتا لگا لیتا ہے اور اس کے قریب پہنچ سکتا ہے، لیکن اس طرح حضوری کا مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔
۲۔ میں نے مانا کہ تیری آنکھ میں بصیرت کا نور ہے لیکن چاہیے کہ خدا سے نورانی دِل بھی طلب کرے، جو حقائق کو دیکھ سکے۔ محض آنکھ کا نور دل کا نور نہیں بن سکتا۔
۳۔ علم میں بھی اک گونہ ذوق و شوق کی کیفیت موجود ہے، لیکن یہ ذوق و شوق صرف دماغ تک محدود رہتا ہے دل تک نہیں پہنچتا۔ گویا علم ایسی بہشت ہے جو حور سے خالی ہے۔
مراد یہ ہے کہ جو بہشت حور سے خالی ہو اسے حقیقی معنی میں بہشت نہیں سمجھا جا سکتا۔
۴۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ موجودہ زمانے میں ایک بھی شخص ایسا نظر نہیں آتا، جس صاحب ذوق و شوق کہا جا سکے۔
۵۔ ایک دیوانگی ایسی بھی ہے، جس میں عقل و شعور اور ہوش و حواس قائم رہتے ہیں اور دیوانگی کے باوجود اسے منزل مقصود پر پہنچا دیتے ہیں۔ ایک دیوانگی ایسی ہے جس میں انسان ہوش و حواس اور عقل و شعور کو کھو بیٹھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک اصل دیوانگی وہ ہے جس میں ہوش و حواس قائم رہیں اور یہ عشق حق سے پیدا ہوتی ہے۔
۶۔ بے صبری اور بے قراری در حقیقت دل کے زندہ ہونے کی دستاویز ہے۔ افسوس اس دل پر جو بے صبر و بے قرار نہیں۔
۷۔ اے مخاطب! محبوب کے حضور میں باریابی سے محروم رہنا موت کے مرادف ہے، اگر تو زندہ ہوتا تو نا ممکن ہے کہ محبوب کی بار گاہ میں حاضری سے محروم رہے۔
۸۔ ہر موتی سیپی کو توڑ کر باہر نکل آیا اے مخاطب! صرف تو ہے جس نے اپنے حقیقی جوہر نمایاں نہ کیے۔
اِس (شعر) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شے نے اپنی حقیقت نمایاں کر دی۔ انسان یہ فریضہ انجام نہ دے سکا۔ دوسرا یہ کہ ہر قوم اپنی زندگی کی متاع لے کر کائنات کے بازار میں پہنچ گئی۔ مسلمان اس زمانے میں اپنی برتری کے لیے کچھ نہ کر سکے۔
۹۔ میں بھی ’اَرِنی‘ کہہ رہا ہوں۔ یعنی یہ کہ اے خدا! تو مجھے اپنا جلوہ دکھا، لیکن اسے حضرت موسیٰؑ اور خود طور کا قصہ نہ سمجھنا چاہیے۔ یعنی یہ نہیں چاہتا کہ جلوہ دیکھوں اور بے ہوش ہو کر گر جاؤں۔ میری آرزوؤں یہ ہے کہ جلوہ بھی نظر آئے اور اس کے دیکھنے کی تاب بھی بار گاہ الٰہی سے عطا ہو۔
(۲۱)
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تُو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
طلسم گنبد گردُوں کو توڑ سکتے ہیں
زُجاج کی یہ عمارت ہے، سنگ خارہ نہیں
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر اُبھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کارہ نہیں
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے تو، تابع ستارہ نہیں
یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہے
تری نگہ میں ابھی شوخیِ نظارہ نہیں
مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں
غضب ہے، عین کرم میں بخیل ہے فطرت
کہ لعل ناب میں آتش تو ہے، شرارہ نہیں
معانی
زجاج: شیشہ۔
ترجمہ و تشریح
۱۔ خودی ایک ایسا بے پایاں سمندر ہے، جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ اگر تو نے اسے اپنی کم نظری اور کم ہمتی سے ایک معمولی ندی سمجھ لیا تو اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟
مراد یہ ہے کہ انسان کو خدا نے جو بے اندازہ قوتیں عطا کی ہیں ان کا حساب نہیں ہو سکتا، لیکن انسان خود ان قوتوں کو محدود کر لے تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے۔
۲۔ ہم پھرنے والے گنبد یعنی آسمان کا طلسم توڑ سکتے ہیں۔ یہ شیشے کی عمارت ہے، سخت پتھر کی نہیں ظاہر ہے کہ شیشے کی عمارت آسانی سے توڑی جا سکتی ہے، لہٰذا سنگ خارا کے قلعوں کو توڑنا آسان نہیں۔
۳۔ ہمت والے لوگ خودی میں ڈوبتے بھی ہیں اور اس کی تہہ سے اُبھر بھی آتے ہیں، لیکن ناکارہ اور نکمے آدمیوں سے ایسے حوصلے کی اُمید نہ رکھنی چاہیے۔
۴۔ ستاروں کو پہچاننے والا یعنی نجومی تیرے مقام اور مرتبے کے مرتبے کی متعلق کچھ نہیں جان سکتا۔ تُو تو ایک زندہ ہستی ہے اور ستاروں کے زیر اثر نہیں۔ جب ستاروں کے زیر اثر نہیں تو وہ شخص تیرے متعلق کیا جان سکتا ہے، جس کا علم ستاروں تک محدود ہے؟
۵۔ اس دنیا میں بہشت بھی ہے، حوریں اور جبریلؑ بھی ہیں، لیکن تجھے ابھی تک منظر کی وہ شوخی اور دُور بینی نصیب نہیں ہوئی جو ان حقیقتوں تک پہنچ سکے۔
مراد یہ ہے کہ انسان حسن عمل سے اس دُنیا میں جنت اور اس کی نعمتوں کے علاوہ خدا کا خاص قرب بھی حاصل کر سکتا ہے۔ کاش اس حسن عمل کا یہ بلند مقام نصیب ہو سکے اور وہ اس کے نتائج و برکات کا اندازہ کر سکے۔
۶۔ میرے جنون نے زمانے کے مذاق کو خوب پہچان لیا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے وہ لباس عطا ہوا، جو پھٹا ہوا اور تار تار نہیں۔ یعنی میں واقعی جنون عشق میں مبتلا ہوں۔ اگرچہ میرے ظاہری طور طریقے پرانے زمانے کے دیوانوں اور جنونیوں جیسے نہیں۔ وجہ یہ کہ میرے زمانے کا مذاق بالکل بدلا ہوا ہے۔
۷۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ فطرت بخشش کے اوج کمال پر پہنچ کر بھی بخل سے کام لیتی ہے۔ مثال کے طور پر لعل خالص کو دیکھو۔ سرخی کی شدت کے باعث وہ انگارہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے چنگاری کوئی نہیں اُٹھتی۔
(۲۲)
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے، تیری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُو سیاہی
نہ دیا نشانِ منزل مجھے اے حکیم تُو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کج کلاہی
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو، تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مرغ و ماہی
تو عرب ہو یا عجم ہو تیرا ’لا اِلٰہ اِلّا‘
لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی
ترجمہ و تشریح
۱۔ صبح کی ہوا مجھے یہ پیغام دے گئی ہے جن لوگوں کو خودی کی معرفت کا مرتبہ حاصل ہے۔ یعنی جو اپنی ذات اور حقیقت کو بخوبی پہچانتے ہیں وہ دنیا میں بادشاہی کرتے ہیں۔
۲۔ خودی کی معرفت سے تیری زندگی ہے۔ اسی سے تیری عزت ہے۔ خودی قائم رہے تو سمجھنا چاہیے کہ تجھے بادشاہی مل گئی۔ قائم نہ رہے تو تیرے حصے میں رو سیاہی، نامرادی اور ذلت کے سوا کچھ نہ آئے گا۔
۳۔ اے فلسفی! تو نے مجھے منزل مقصود کا پتا تو نہ بتایا۔ ہاں بھائی! تجھ سے کیا گلہ ہو۔ نہ تو اُس راہ میں بیٹھنے والا ہے، نہ چلنے والا۔
مقصد یہ ہے کہ فلسفی حقیقی منزل مقصود کے لیے کوشاں ہی نہیں ہوتا۔ اس راستے پر چلتا ہی نہیں۔ جو منزل مقصود تک لے جائے ورنہ سمجھ لیا جاتا تاکہ چلتے چلتے تھک کر بیٹھ گیا ہے۔ تاکہ سستا لے یا چلا جا رہا ہے۔
۴۔ میری شعر و شاعری کے حلقے میں وہ درویش موجود ہیں، جنھیں بادشاہی کے طور طریقوں سے آگاہی ہے۔ لیکن وہ ابھی تربیت پا رہے ہیں اور ان کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی۔
۵۔ اے مسلمان! تو نے خانقاہوں کے طور طریقے پسند کر رکھے ہیں حالانکہ ان میں صحیح اسلامی روح موجود نہیں، میں کیا کہوں۔ یہ بڑی نازک باتیں ہیں۔ مجھے تو یہ طریقے اچھے معلوم نہ ہوئے۔ تو اگر انہیں پسندیدہ سمجھتا ہے تو جو کچھ تیرے جی میں آتا ہے کر دیکھ۔
۶۔ تیرا نصب العین یہ ہے کہ ’ہما‘ کو شکار کرے جو ایک روایتی پرندہ ہے اور بہت مبارک خیال کیا جاتا ہے لیکن ابھی ابتدائی دَور میں ہے۔ خدا نے پرندوں اور مچھلی کے اس جہان کو بھی جسے ہم دُنیا کہتے ہیں یونہی پیدا نہیں کیا۔ اس میں بھی ایک مصلحت ہے تو بھی اس جہاں کو اپنے قبضے میں لے آ، تا کہ اصل نصب العین تک پہنچنے کے لیے خوب مشاق بن جائے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کو اُونچے مقاصد کے لیے جد و جہد شروع کرنے سے پہلے وہ مقاصد تو پورے کر لینے چاہئیں جو خدا نے اس کے گرد و پیش مہیا کر رکھے ہیں اور جنھیں پورے کیے بغیر وہ اُونچے مقاصد کی صلاحیت پیدا نہیں کر سکتا۔
۷۔ تو عرب کا رہنے والا ہو یا عجم کا۔ تیرا ایک ہی پیغام ہے وہ ہے لا اِلٰہ الا اللّٰہ (خدا کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں)۔ یہی پیغام توحید تیرا اصل مقصد ہے، لیکن لا الہ الا اللہ زبان سے کہہ دینا کافی نہیں۔ اگر تیرا دل اس کی گواہی کے لیے تیار نہ ہو اور تو سراپا عمل بن کر اس کی حقیقی تصدیق نہ کرے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اجنبی زبان کا ایک کلمہ ہے جس کا مطلب نہ تو سمجھتا ہے نہ کسی کو سمجھا سکتا ہے۔
(۲۳)
تری نگاہ فرومایہ، ہاتھ ہے کوتاہ
تیرا گنہ کہ نخیلِ بلند کا ہے گناہ
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا ’لا الہ الا اللہ‘
خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل!
یہی ہے تیرے لیے اب صلاحِ کار کی راہ
حدیث دل کسی درویش بے گلیم سے پوچھ
خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ
برہنہ سر ہے تو عزمِ بلند پیدا کر
یہاں فقط سر شاہیں کے واسطے ہے کُلاہ
نہ ہے ستارے کی گردش، نہ بازیِ افلاک
خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت و جاہ
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ!
معانی
نخیل: کھجور کا درخت۔
ترجمہ و تشریح
۱۔ تیری نظر اتنی بے حیثیت ہے کہ دُور تک نہیں جا سکتی۔ تیرا ہاتھ اتنا چھوٹا ہے کہ بلندی تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگر تو کھجور کے اُونچے درخت سے پھل نہیں توڑ سکتا تو کیا درخت کا قصور ہے؟ یہ تو تیری وضع و ہیئت کا قصور ہے۔ شعر کا مدعا یہ ہے کہ بلند مقاصد کے لیے اِرادے اور ہمتیں بھی بلند ہونی چاہئیں۔
۲۔ مدرسے والوں نے تو تیر اگلا گھونٹ کر رکھ دیا۔ پھر لا الٰہ الا اللّٰہ یعنی توحید کی صدا کہاں سے آئے۔
۳۔ اے غافل! خدائی خودی میں چھپی ہوئی ہے۔ تو اُسے وہیں ڈھونڈ اور تیرے کاروبار کی درستی کا یہی طریقہ ہے۔
۴۔ دل کی باتیں کسی ایسے درویش سے پوچھ جو درویشی کی حقیقت سے آگاہ ہو اور عام درویشوں کی طرح اس نے نمائش کے لیے گدڑی نہ پہن رکھی ہو۔ میری دعا ہے کہ خدا تجھے تیرے اصل مقام اور مرتبے سے آگاہی عطا کرے۔
درویش بے گلیم سے اشارہ نظر بظاہر اپنی طرف ہے۔ یقیناً اقبال حقیقت شناس درویش تھے۔ اگرچہ انھوں نے عام درویشوں کی طرح گدڑی کبھی نہیں پہنی تھی، لیکن انھوں نے عام مسلمانوں کو دل کی باتوں سے آگاہ کیا اور صحیح مقام انھیں بتایا۔
۵۔ اگر تیرا سر ننگا ہے اور تُو اس پر حکمرانی کا تاج رکھنے کا خواہاں ہے تو اپنے ارادے اور ہمتیں بلند کر۔ اِس دنیا میں تاج صرف شاہین کے سر کے لیے زیبا ہے جو بلند ہمت ہوتا ہے۔
۶۔ اے مسلمان! کیا کبھی تو نے سوچا کہ تو نعمت و جاہ سے کیوں محروم ہوا۔ شان و شوکت اور حکومت کیوں تجھ سے چھن گئی؟ تو سمجھ رہا ہے کہ تیرا ستارہ گردش میں آ گیا یا آسمان نے تجھ سے دغا کی۔ یہ بالکل غلط ہے۔ ستارے اور آسماں کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ تیری تمام مصیبتوں کا اصل سبب یہ ہے کہ تیری خودی پر موت طاری ہو گئی تو اس عزم و حوصلہ سے خالی ہو گیا جو نعمتوں اور جاہ و جلال کی حفاظت کے لیے ضروری تھا۔
۷۔ میں مدرسے اور خانقاہ و دونوں سے غم اور افسوس لے کر اُٹھا۔ نہ ان میں زندگی کی کوئی روح نظر آئی، نہ عشق حق کی حرارت ملی، نہ خدا کی پہچان حاصل ہوئی، نہ ایسی نگاہ میسر آئی جو حقیقتوں کو دیکھ سکتی۔
مدرسے سے مراد ظاہری علوم کے ادارے ہیں اور خانقاہ سے مراد باطنی علوم کے ادارے۔ اقبال کے نزدیک یہ دونوں ادارے اپنی اصل روح سے خالی رہ گئے۔
(۲۴)
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سو کچھ اور نہیں
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ
گہر میں آبِ گہر کے سوا کچھ اور نہیں
رگوں میں گردش خوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوزِ جگر کے سوا کچھ اور نہیں
عروس لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
بڑا کریم ہے اقبالِ بے نوا لیکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا اور نہیں
معانی
کساد: بے رواجی۔ کھوٹ۔
۱۔ عقل یعنی فلسفے کے پاس سنی سنائی باتوں کے سوا کیا رکھا ہے؟ اور تو ضعف یقین کی جس بیماری میں مبتلا ہے۔ اس کا علاج صاحب دل کی نظر ہی سے ہو سکتا ہے۔
۲۔ تیرا مقام ہر مقام سے آگے ہے۔ زندگی کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان لگاتار چلتا جائے اور کہیں نہ رُکے۔
مراد یہ ہے کہ جس طرح دُنیوی زندگی کی مسلسل جد و جہد کا دوسرا نام ہے، اسی طرح روحانی زندگی بھی لگاتار ترقیات پر موقوف ہے، جو مقام سامنے آتا جائے۔ انسان کو چاہیے کہ اس سے آگے ہی آگے بڑھتا جائے۔
۳۔ تیری گراں قدری خودی کی حفاظت پر موقوف ہے تو خود سوچ کہ موتی میں آب و تاب کے سوا کیا رکھا ہے؟ جس طرح موتی کی قدر و قیمت آب و تاب سے ہے اسی طرح انسان کی قدر و قیمت خودی سے ہے۔
۴۔ زندگی اس کا نام نہیں کہ خون رگوں میں رواں دواں ہے۔ ایسی زندگی کس کام کی؟ اصل زندگی تو یہ ہے کہ انسان کا جگر سوز و گداز سے لبریز ہو۔
۵۔ اے گل لالہ! جو اپنے حسن و جمال کی وجہ کشش معلوم ہوتا ہے مجھ سے کیوں پردہ کر رہا ہے؟ میں تو صبح کی نسیم کے سوا کچھ نہیں۔ ظاہر ہے کہ نسیم سحر پھولوں کی شادابی اور تازگی بڑھا دیتی ہے۔ گل لال کے لیے نسیم سے پردہ کرنا تو مناسب نہیں۔
۶۔ یورپ کے بیوپاری جس شے کو کھوٹا سمجھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے تجارت مندی پڑ جائے گی، وہ ہنر کے سوا کیا ہے؟
مطلب یہ کہ یورپ نمائشی ہنر کی بنا پر دولت کما رہے ہیں۔ اصلی اور حقیقی ہنر کی قدرو قیمت نہیں پہچانتے۔ سمجھ رہے ہیں کہ اس سے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچے گا۔ وہ غلط مقاصد و افکار شائع کر رہے ہیں اور جو چیزیں عالم انسانیت کے لیے مفید ہیں۔
۷۔ اقبال اگرچہ غریب و بے نوا ہے۔ اس کے باوجود بڑا سخی ہے، لیکن اس کی حیثیت شعلے کی ہے اور شعلہ چنگاریوں کے سوا کیا دے سکتا ہے؟
مراد یہ ہے اقبال کے پاس عشق حق کی حرارت کے سوا کچھ نہیں۔ جو بھی اس کے پاس آ جائے اس کے دل میں وہ بھی حرارت بھر دیتا چاہتا ہے۔
(۲۵)
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے!
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآلِ سکندری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری، لیکن
خودی کی موت ہے جس میں وہ سروری کیا ہے
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!
معانی
عتاب: غصہ: ناراضی۔ مآل: انجام۔ نتیجہ۔
ترجمہ و تشریح
۱۔ درویشی کی نگاہ میں سکندر جیسے شہرہ آفاق بادشاہ کی شان کیا حقیقت رکھتی ہے؟ بھلا وہ بادشاہی بھی کوئی بادشاہی ہے، جو خراج کے لیے گدا گری کی محتاج ہو؟
مطلب یہ ہے کہ جتنے بھی بادشاہ گزرے ہیں، وہ رعایا سے خراج لے کر خزانے بھرتے اور اپنا خرچ چلاتے رہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ جو بادشاہی و دولت کے لیے رعایا کے سامنے ہاتھ پھیلائے وہ کس کام کی بادشاہی ہے؟ اور خدامست و درویش اسے کب قابل توجہ سمجھ سکتے ہیں؟
۲۔ تو بتوں سے اُمیدیں لگائے بیٹھا ہے اور خدا کی رحمت سے مایوس نظر آتا ہے۔ ذرا یہ تو بتا کہ کافری اور کس چیز کو کہتے ہیں؟ کفر تو یہی ہے کہ جو سب کے دامن بھر نے والا ہے، اُسے انسان بھلا دے اور جو خود دوسروں کے محتاج ہوں، ان سے اپنی بہتری کی اُمیدیں وابستہ کرے۔
۳۔ آسمان نے ان لوگوں کو آقائی کے رتبے پر بٹھا دیا ہے جنھیں وابستگان دولت کی پرورش کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔ یعنی جو لوگ اتنے نالائق ہیں کہ آقائی کے عام طور طریقے بھی نہیں جانتے، وہ بر سر اقتدار ہیں اور جو قابل ہیں ان کے جوہروں کی قیمت و قدر پہچاننے والا کوئی نہیں۔
۴۔ دل کا فیصلہ تو ایک نگاہ پر موقوف ہے، جس نگاہ میں شوخی نہ پائی جائے اسے دلبر کی نگاہ کیونکر کہہ سکتے ہیں۔
۵۔ بادشاہوں نے مجھے صرف اس خطا پر خفگی اور ناراضی، غصے کا نشانہ بنا رکھا ہے کہ مجھے بادشاہی کا انجام معلوم ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بادشاہی کے طور طریقے زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے۔ یہ ڈھانچہ بہت جلد ٹوٹنے اور محو ہونے والا ہے۔ بادشاہوں کو چاہیے کہ خود اس انجام کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کریں۔ لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ مجھے قصور وار قرار دے کر عتاب کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
۶۔ کون نہیں چاہتا کہ اُسے سرداری کا مرتبہ حاصل ہو؟ لیکن جس سرداری میں خودی پر موت طاری ہو جائے وہ کس کام کی ہے؟ حقیقی سرداری وہی ہے، جس میں انسان کی خودی پر کوئی زد نہ پڑے۔
۷۔ دنیا کو میری خدا مستی اور درویشی پسند آ گئی ہے۔ اسی لیے میری شاعری کو سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ورنہ میرا شعر کیا ہے اور میری شاعری میں کیا رکھا ہے؟
یہ انکسار ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اقبال کی شاعری ہی ان کی عظمت و رفعت کا ذریعہ بنی اور اسی کو انھوں نے اپنی حقانی تعلیم اور حیات آموز پیغام کا وسیلہ بنایا۔
(۲۶)
نہ تو زمیں کے لیے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
یہ عقل و دل ہیں شرر شعلۂ محبت کے
وہ خار و خس کے لیے ہے، یہ نیستاں کے لیے
مقام پرورشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے
رہے گا راوی و نیل فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
ذرا سی بات تھی، اندیشۂ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے
مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لا مکاں کے لیے
ترجمہ و تشریح
۱۔ تو نہ زمین کے لیے پیدا ہوا ہے۔ نہ آسمان کے لیے۔ یہ دُنیا تیرے لیے پیدا کی گئی ہے تو دُنیا کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ بظاہر یہ شعر بہت سادہ ہے، لیکن اس میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ اتنی اہم ہے کہ تنہا یہی حقیقت عالم انسانیت کا نقطۂ نگاہ بدل ڈالنے کے لیے کافی ہے اور انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی سب سے بڑی دستاویز ہے۔ یعنی انسان اس دُنیا کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ یہ دُنیا انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لہٰذا دنیا کی ہر شے انسان کے تابع ہے اور اسے اپنی ہمت و تدبیر سے ہر شے کو تسخیر کرنا چاہیے۔ نہ کہ خود دنیا کا تابع ہو کر رہ جائے، جو اس کی پستی کی آخری منزل ہے۔
۲۔ عقل اور دل دونوں محبت کے شعلے کی چنگاریاں ہیں۔ عقل کی چنگاری کا کام یہ ہے کہ گھاس پھوس کو جلائے۔ دل کی چنگاری کا کام یہ ہے کہ جنگل کو آگ لگائے۔ یعنی عقل سے شکوک و شبہات کے دُور کرنے کا کام لینا چاہیے اور دل سے تسخیر عالم کا۔
۳۔ یہ چمن آہ و فریاد کی تربیت کا مقام ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ پھولوں سے دل بہلایا جائے یا گھونسلا بنایا جائے۔
مراد یہ ہے کہ دنیا عشق حق کی صلاحیت پیدا کرنے اور اسے ترقی دینے کا مقام ہے یہاں کی نیرنگیوں میں دل نہ لگایا چاہیے۔
۴۔ تیری کشتی تو بے کنارہ سمندر کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ کب تک راوی، نیل اور فرات کے دریاؤں میں چکر لگاتی رہے گی؟
مطلب یہ ہے کہ مسلمان! تو نے اپنے مقصد و مدعا کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں محدود کر لیا ہے، حالانکہ تو جن مقاصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وہ بہت بلند اور بہت وسیع ہیں۔
۵۔ جو لوگ ستاروں کو راستے کا پتا بتاتے تھے، وہ آج اس درجہ بے بس ہیں کہ راستہ دکھانے والے کسی آدمی کے لیے بیٹھے ترس رہے ہیں۔
یہ مسلمانوں کے سابقہ اوج و عظمت اور موجودہ زوال و پستی کا مضمون ہے۔
۶۔ قافلے کے سردار کو سفر کے لیے کیا سامان درکار ہے؟ کہ اس کی نگاہ بلند ہو، اس باتیں دلوں میں گھر کر لیں اس کی جان سوز و گداز سے معمور ہو۔
نگاہ کی بلندی سے مقصود یہ ہے کہ اس کے پیش نظر بلند مقاصد ہوں۔ سخن کی دل نوازی کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اس کی زبان پر آئے وہ سننے والوں کے دلوں میں اُترتا جائے اور انھیں قافلہ سالار سے مستحکم طور پر وابستہ کر دے۔
ہم پہلے بتا چکے ہیں ہمارے آقا و مولا (خاتم الانبیاء) حضرت محمدﷺ کی ایک یگانہ خصوصیت کہ آپﷺ دل کے نرم تھے اور خدا نے اس خصوصیت کو قرآن مجید میں اپنی رحمت قرار دیا۔ مسلمانوں کے ہر قافلہ سالار میں بھی یہی خوبی منعکس ہونی چاہیے قافلہ سالار کے تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ اہل قافلہ کی بہتری اور بہبود کا زیادہ سے زیادہ والہ و شیفتہ ہو۔
۷۔ ذرا سی بات تھی لیکن عجم والوں نے قصے کی آرائش کے لیے اسے بڑھا چڑھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔
۸۔ میرے گلے میں ایک نغمہ ایسا بھی ہے جسے سن کر حضرت جبریلؑ بھی تڑپ اُٹھیں۔ میں ابھی اِس دنیا میں ہوں اس نغمے کو میں نے لا مکاں کے لیے سنبھال کر رکھ چھوڑا ہے۔
(۲۷)
تو اے اسیر مکاں! لا مکاں سے دُور نہیں
وہ جلوہ گاہ تیرے خاک داں سے دُور نہیں
وہ مرغزار کہ بیمِ خزاں نہیں جس میں
غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دُور نہیں
یہ ہے خلاصۂ علم قلندری، کہ حیات
خدنگ جستہ ہے لیکن کماں سے دُور نہیں
فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے
قدم اُٹھا یہ مقام آسماں سے دُور نہیں
کہے نہ راہنما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو!
یہ بات راہروِ نکتہ داں سے دُور نہیں
معانی
خدنگ جستہ: کمان سے نکلا ہوا تیر۔
۱۔ اے مکان کے قیدی! اگر تو حقیقت حال پر غور کرے تو جان لے کہ لا مکاں سے دُور نہیں، وہ مقام جسے نور مطلق کی خاص جلوہ گاہ کہا جاتا ہے اس دنیا سے زیادہ فاصلے پر نہیں، جسے خاک کی دنیا کہا جاتا ہے۔
۲۔ تو غمگین نہ ہو کہ جو ہری بھری چراگاہ خزاں کے خوف سے پاک ہے اور جو ہمیشہ ہری بھری رہے گی تیرے گھونسلے سے دُور نہیں۔
۳۔ قلندری کے علم کا نچوڑ یہ ہے کہ زندگی کماں سے نکلا ہوا تیر ہے، لیکن وہ کمان سے دور نہیں گیا۔
اس شعر میں حیات سے مراد اس کائنات کی زندگی سے اور کمان سے نظر بظاہر اشارہ اس نور مطلق کی طرف ہے، جس سے زندگی کا ظہور ہوا۔ گویا فرماتے ہیں کہ زندگی اگرچہ اپنے اصل چشمے سے الگ ہو گئی ہے، اس کے باوجود سر چشمے سے اس کا تعلق باقی ہے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے دُور چلی گئی۔
۴۔ وہ فضا جو تیری پرواز کے لیے ساز گار ہے، چاند اور ستاروں سے ذرا آگے ہے۔ تو قدم آگے بڑھائے جا۔ یہ مقام اس آسمان سے زیادہ دُور نہیں، جو چاند اور ستاروں کے موتیوں سے آراستہ ہے۔
۵۔ جومسافر یا سالک حقیقتوں سے آگاہ ہے اور منزل کے بھیدوں کو جانتا ہے، اس سے یہ بعید نہیں کہ اپنے رہنما سے چھوڑ دینے کے لیے کبھی نہ کہے یعنی نہ کہے کہ تو مجھے چھوڑ جا۔ میں خود ہی آگے چلا جاؤں گا۔
اس شعر کا انداز بیان ذرا پیچیدہ ہے۔ غالباً ردیف کی پابندی کے باعث یہ پیچیدگی ناگزیر ہو گئی۔ مضمون ایسا ہے جو چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ یعنی ایسے رہرو بے شمار ہیں جو خاص مقام تک رہنما کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، پھر اس سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو منزلوں پر منزلیں طے کر جانے کے باوجود رہنما سے یہ نہیں کہتے کہ اب اگلی منزلیں ہم خود ہی طے کر لیں گے۔ آپ تکلیف نہ فرمائیں حالانکہ ان کی نکتہ دانی میں کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کے متعلق قاعدے اور ضابطے بنانا خارج از بحث ہے۔
(۲۸)
اقبال نے خود فرمایا ہے کہ یہ شعر یورپ میں لکھے گئے
خرد نے مجھے عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
نہ بادہ ہے، نہ صراحی، نہ دَورِ پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگین ہے بزم جانانہ
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز دُرونِ میخانہ
کلی کو دیکھ، کہ ہے تشنۂ نسیم سحر
اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ
کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور
سب آشنا ہیں یہاں، ایک میں ہوں بیگانہ
فرنگ میں کوئی دن اور بھی ٹھہر جاؤں
مرے جنون کو سنبھالے اگر یہ ویرانہ
مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبالؔ
مقام شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ
ترجمہ و تشریح
۱۔ عقل نے مجھے فلسفیانہ نظر عطا کی۔ عشق نے مجھے رندوں کے طور طریقے سکھا دیے۔ یعنی میں نے عقل و عشق دونوں سے فیض حاصل کیا۔
۲۔ محبوب کی محفل صرف اس کی نگاہ کی برکت سے رنگین و مست ہے، حالانکہ نہ اس محفل میں شراب ہے نہ صراحی اور نہ پیالہ گردش کر رہا ہے۔
۳۔ میرے پریشان سے نغموں کو شاعری نہ سمجھ، خیال کی رنگ آرائیاں نہ قرار دے، میں شراب خانے کے اندرونی بھیدوں سے واقف ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں، یہ میرے ذاتی علم کا نتیجہ ہے۔ افسانہ طرازی نہیں۔
۴۔ تو کلی کو دیکھ کہ وہ نسیم صبح کی کتنی پیاسی ہے۔ کسی شوق سے انتظار کر رہی ہے کہ ہوا چلے اور وہ کھل کر پھول بنے۔ اسی سے میرے دل کی پوری کیفیت آشکارا ہو سکتی ہے۔ یعنی جس طرح کلی کو نسیم سحر کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مجھے محبوب کی نگاہِ لطف درکار ہے۔ نسیم کے بغیر کلی پھول نہیں بن سکتی۔ نسیم کے بغیر کلی پھول نہیں بن سکتی۔ میرا دل بھی التفات محبوب کے بغیر شگفتہ نہیں ہو سکتا۔
۵۔ بزم محبوب میں جتنے لوگ موجود ہیں وہ سب لطف و کرم سے فیض یاب ہیں۔ صرف میں اس التفات سے محروم ہوں۔ گویا باقی سب آشنا ہیں اور صرف میں بیگانہ ہوں۔ اب مجھے بتایا جائے کہ اس حالت کو محبوب کی بارگاہ سے محرومی سمجھا جائے یا محبوب کی حضوری قرار دیا جائے؟ یہ سوال کرنے کی نوبت اس لیے پیش آئی کہ نظر بظاہر حضوری ہے لیکن اگر حضوری کے اصل مقصد یعنی التفات محبوب کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسے حضوری قرار دینا ممکن ہی نہیں۔
۶۔ میں یورپ میں کچھ دن اور بھی ٹھہر جاؤں لیکن کیا کروں، یہ ویرانہ میرے جنون کو سنبھالنے کا اہل نظر نہیں آتا۔
مراد یہ ہے کہ یورپ میری باتوں کی تاب نہیں لا سکتا۔ اس لیے یہاں کیا ٹھہروں۔
۷۔ اقبال عقل کے مقام سے تو بہ آسانی گزر گئے۔ اس منزل میں تو کوئی شے اُن کے لیے رکاوٹ نہ بن سکی اور اُن کی دامن گیر نہ ہو سکی۔ لیکن عشق کے مقام میں وہ عقل مند سنبھلے نہ رہ سکے اور کھو گئے۔
مطلب یہ ہے کہ اکثر آدمیوں کو عقل کے مقام میں چکر آئے ہیں اور جا بجا اُلجھتے جاتے ہیں لیکن اقبال کواس مقام سے گزر جانے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ وہ کہیں نہ رکے۔ مگر عشق کے مقام میں پہنچ کر اُنھیں اپنی سدھ بدھ نہ رہی۔
***