افسانچے پر ایک حوالہ جاتی کتاب
افسانچے کا فن
مرتبہ
محمد علیم اسماعیل
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
افسانچہ کیا ہے؟ ۔۔۔ ڈاکٹر ایم اے حق
افسانچے کو سمجھنے سے پہلے ہمیں لازمی طور پر افسانے کو سمجھنا ہو گا۔ کیوں کہ جس قلمکار نے دانستہ و غیر دانستہ طور پر اس صنف کی ایجاد کی تھی وہ صحیح معنوں میں ایک افسانہ نگار تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اُنھوں نے ریڈیو ڈرامے، ذاتی خاکے، فلم اسکرپٹ رائٹنگ، مضامین وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کی تھی۔ لیکن کامیابی اور شہرت اُنھیں افسانہ اور افسانچہ نگاری میں ہی ملی ہے۔
جی ہاں! آپ ٹھیک سمجھے۔ میں سعادت حسن منٹو کی ہی بات کر رہا ہوں۔ لگے ہاتھوں میں یہ بات بھی ظاہر کر دوں کہ اُنھوں نے کسی منصوبہ بندی کے تحت افسانچہ نگاری (حالانکہ لفظ ’افسانچہ‘ عظیم افسانچہ نگار جوگندر پال کی دین ہے) کی بنیاد نہیں ڈالی تھی۔ تو پھر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آخر افسانچہ کیوں کر صفحۂ قرطاس کی زینت بنا۔ اس لیے میں یہاں اُن واقعات اور حالات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس سے متاثر ہو کر اُنھوں نے مختصر ترین ادبی پاروں کی تخلیق کی تھی۔ اس حقیقت سے شاید ہی کوئی اُردو ادیب یا اس کا طالب علم ناواقف ہو گا کہ منٹو کی زندگی مالی مشکلات سے بھری پڑی تھی۔ اُن کا بچپن نہایت تنگ دستی میں بیتا تھا۔ والد صاحب مقامی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز تھے۔ پہلی بیوی سے کثیر الاولاد ہونے کے باوجود دوسری شادی کی تھی۔ جن سے منٹو پیدا ہوئے تھے۔ اتنا ہی نہیں وہ نہایت ایماندار بھی تھے اور نہ جانے کیوں ۱۹۲۰ میں وہ اپنے عہدے سے سبکدوش بھی ہو گئے تھے۔ یعنی کریلے پر نیم چڑھا۔ یوں بھی جوانی میں جیب خرچ کی سخت ضرورت پڑتی ہے وہ ۱۹۳۳ میں عبد الباری علیگ کے رابطے میں آئے۔ وہ منٹو کی انگریزی صلاحیت سے واقف تھے۔ اُن کی صلاح پر منٹو نے دنیا کے مشہور مصنفوں کی انگریزی کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کرنا شروع کر دیا جس کا معاوضہ بھی انھیں ملنے لگا۔ منٹو کے ترجمے کافی پسند کئے جانے لگے۔ تب اُنھوں نے سوچا کہ وہ خود اردو میں اپنی تخلیق کیوں نہ شائع کرائیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی قسمت آزمانے کے لیے ۱۹۳۶ میں بمبئی چلے گئے۔ وہاں ویکلی فلمی میگزین ’’مصور‘‘ میں اڈیٹر کا عہدہ سنبھالا۔ بمبئی ہی میں ۱۹۳۹ میں صفیہ سے شادی کی، پھر بچے ہوئے۔ گھر کے اخراجات میں اضافہ ہوا۔ زیادہ پیسے کے لالچ میں وہ ۱۹۴۰ سے ۱۹۴۲ تک آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں کام کیا۔ باس کے حاکمانہ رویے سے تنگ آ کر نوکری چھوڑ دی اور واپس بمبئی لوٹ آئے۔ اب قسمت منٹو پر مہربان ہو گئی۔ اُن کی فلم اسکرپٹ رائٹنگ نے کامیابی کے جھنڈے گاڑنے شروع کر دیے۔ خوب روپے کمائے۔ کار خریدی۔ شراب نوشی عروج پر پہنچی۔ غرض کہ ابتدائی زندگی جتنی مفلسی میں کٹی تھی اُس کے برعکس زندگی اب پر مسرت ڈھنگ سے گزرنے لگی تھی۔ بمبئی کے معروف لوگوں سے دوستی گانٹھ لی۔ جن میں نور جہاں، نوشاد، عصمت چغتائی، شیام اور اشوک کمار وغیرہ اہم تھے۔
پھر ملک کی تقسیم کا ہنگامہ شروع ہو گیا۔ فرقہ وارانہ ذہنیت پروان چڑھنے لگی۔ جگہ جگہ فسادات ہونے لگے، لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا، ایک دوسرے فرقے کی عورتوں اور لڑکیوں کی عزّتیں نیلام ہونے لگیں۔ منٹو نے احتیاطاً اپنی بیوی بال بچوں کو لاہور پہنچا دیا تھا، پھر بھی وہ بمبئی چھوڑ کر پاکستان نہیں جانا چاہتے تھے۔ انھیں بمبئی سے محبت ہو گئی تھی۔ جس کا اظہار اُنھوں نے بمبئی کو خیر باد کرنے کے ساڑھے چار سال بعد لاہور میں لکھے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔ اس مضمون کا ذکر ممبئی کے ایک صحافی جئے راج سنگھ نے اپنے مضمون MUMBAI MIRRORED: THE CITY MANTO LOVED AND LOST میں کیا ہے۔ جو Mumbai Mirror کے ۲۶ ستمبر ۲۰۱۹ کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ موصوف نے منٹو کے ممبئی چھوڑنے کے درد کو اُن کے ہی الفاظ میں پیش کیا ہے۔
I stayed in Bombay for 12 years. And what I am I am because of those years .Today I find myself living in Pakistan. It is possible that tomorrow I may go to live elsewhere. But wherever I go, I will be what Bombay made me. Wherever I live I will carry Bombay with me .When I left Bombay I was sad at leaving it. That was where I had formed the most lasting friendship of my life, friendship of which I am proud. That was where I had got married, where my first child was born. There were times in Bombay where I did not have enough to eat and there were times when I was making vast sums of money and living it up. That was the city I loved. That is the city I still love.
میرا ان باتوں کو بتانا اس لیے ضروری ہے کہ آپ یہ تصور کر سکیں کہ منٹو کو ممبئی یعنی ہندستان چھوڑتے وقت کتنی جھنجھلاہٹ، بے چینی، ذہنی اذیّت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ حالات سے مجبور ہو کر جب منٹو جنوری ۱۹۴۸ میں لاہور پہنچے تو وہاں کا نظارہ ہی بدل چکا تھا۔ پاکستان میں اسلامی جذبہ جوش مار رہا تھا۔ فلم انڈسٹری میں سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔ غرض کہ منٹو کو پھر بھر پیٹ کھانے کے لالے پڑ گئے۔ لے دے کے اخبار اور رسائل ہی تھے جن کی خفیف آمدنی سے شب و روز کا گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ منٹو اپنی خستہ حالی کا ذمہ دار ملک کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں بھڑکنے والے فسادات کو مانتے تھے۔ منٹو کی اسی جھنجھلاہٹ، غصّہ، بے چینی، گھبراہٹ، صدمے اور تحت الشعور میں رینگتے خوف کی وجہ سے مختصر اور مختصر ترین تحریریں یعنی افسانچے عالم وجود میں آئے ہیں۔ ۳۲ افسانچوں پر مشتمل ’’سیاہ حاشیے‘‘ اکتوبر ۱۹۴۸ کو شائع ہوا تھا۔
میں یہ بات اس لیے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ اُن کے لگ بھگ سارے افسانچے ہندو مسلم فساد، لوٹ مار، ہنگامے، آگ زنی، طنز، نفرت سے لبریز ہیں۔ اُنھوں نے خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ شدّت جذبات سے مغلوب ہو کر تحریر کیے گئے اُن کے مختصر مختصر افسانے مستقبل میں کبھی افسانچے نام کی صنف سے پکارے جائیں گے۔ جو رفتہ رفتہ ترقی کی منزلیں طئے کرتا ہوا اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں ایک مقبول صنف کی شکل اختیار کر لے گی۔ مجھے اس بات کا بے حد افسوس ہے کہ اتنی مقبولیت کے باوجود ہمارے معیاری تنقید نگاروں نے ابھی تک اس صنف کو قابل تنقید نہیں سمجھا ہے۔ ہاں! یہ بات صحیح ہے کہ دور حاضر میں منی کہانیوں، افسانچوں، منی افسانوں، مختصر مختصر کہانیوں، کہانچیوں کی جیسے ایک جھڑی سی لگ گئی ہے۔ نئے پُرانے لکھاری حضرات اس صنف پر دھڑلے سے طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ اب تک سینکڑوں مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ یہ اس صنف کی مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بیشتر رسائل و اخبارات مختصر تحریروں کو بڑے اہتمام سے شائع کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کچھ قلمکاروں نے اسے تخلیق کا ایک سہل طریقہ سمجھ لیا ہے اور راتوں رات مقبول ہونے کے چکر میں لطیفہ گوئی، ہم کلامی (مونو لاگ)، ڈائیلاگ، (صرف سوال جواب)، حکایتوں، محاوروں کا بھی بے دھڑک استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ چونکہ صحیح معنوں میں افسانچہ نگاری یا منی کہانی کی بُنت ایک مشکل ترین صنف ہے۔ اس میں وہی لکھاری کامیاب ہو سکتے ہیں جن کو کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ باتوں کو سمیٹنے کا شعور حاصل ہو۔ عنوان کی موزونیت کو پرکھنے کا سلیقہ معلوم ہو، غیر متوقع اختتام کے ذریعہ قارئین کو چونکا دینے کے ہنر سے واقفیت ہو۔ بہت کم ہی قلمکار ایسے ہیں جن میں مندرجہ بالا خصوصیتیں ایک ساتھ یکجا ہوتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا زہر اس صنف کی تنقیص کی شکل میں اُگلتے ہیں اور اُن متعصب حضرات کو مواد فراہم کرتے ہیں۔ اس صنف کے رموز و اوقاف سے بے بہرہ ہمارے یہ ناقص افسانچہ نگار یا منی کہانی کار!!! حالانکہ اُنھیں (متعصب ناقدوں کو) یہ سو فی صد حق ہے کہ وہ ویسے افسانچہ نگاروں کی افسانچہ نگاری پر انگشت نمائی کریں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ اپنی بھڑاس نکالیں گے اس صنف کو ہی تنقید کا نشانہ بنا کر! بہت سی واہیات غزلیں و نظمیں، ناقص افسانے، آئے دن مختلف رسائل و جرائد میں چھپتے رہتے ہیں کیا آج تک کسی ناقد کی یہ ہمّت ہوئی ہے کہ وہ صنف غزل و نظم گوئی، یا افسانہ نگاری کے وجود سے ہی منکر ہو جائے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ کچھ نا سمجھ اور ناعاقبت اندیش اور اسلام سے خار کھائے فرقہ پرست لوگ مسلم لڑکے، کے کسی کے بہکاوے میں آ کر دہشت گردی میں ملوث ہو جانے پر اسلام ہی کو دہشت کا پروردہ مذہب قرار دینے سے باز نہیں آتے ہیں۔ ہاں! اتنا ضرور ہوا ہے کہ جو ایک بڑی کھائی افسانچوں اور تنقید نگاروں کے درمیان حائل تھی وہ اب رفتہ رفتہ سمٹتی جا رہی ہے۔
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ افسانچہ، افسانہ نگار کے ذہن میں پنہاں افسانے کے رموز و اوقاف کے لبادے کو اوڑھ کر عالم وجود میں آیا ہے۔ ایسے خیالات کا اظہار ہمارے کئی دوستوں نے کیا بھی ہے کہ ایک کامیاب افسانہ نگار ہی ایک اچھا افسانچہ نگار بن سکتا ہے۔ میں اس منطق سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتا ہوں۔ لیکن انکار بھی ممکن نہیں۔ مثلاً محمد بشیر مالیرکوٹلوی، نور شاہ، دیپک بدکی، سرور غزالی (جرمنی)، پروفیسر اسلم جمشید پوری، پرویز بلگرامی (کراچی)، امجد مرزا امجد (لندن)، اشتیاق سعید، ویریندر پٹواری، پروفیسر رؤف خوشتر، راجہ یوسف، سید نور الحسنین، مشتاق احمد نوری، ایم۔ مبین، ابرار مجیب، احمد کلیم فیض پوری، شازیہ ستّار نایاب (لاہور)، جاوید نہال حشمی وغیرہ نے کامیاب افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین افسانچے بھی لکھے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ سیّد نورا لحسنین، ابرار مجیب، اشتیاق سعید، مشتاق احمد نوری وغیرہ کے افسانچوں کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن جتنے بھی ہیں ان میں معیاری افسانچوں کا تناسب قابلِ تعریف ہے۔ دوسری طرف میں بہت سے ایسے افسانچہ نگاروں کو جانتا ہوں جنہوں نے اس صنف میں اچھا خاصا نام کمایا ہے جبکہ افسانہ نگاری میں وہ اتنے کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ مثلاً مظفر حنفی، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، ایم۔ اے۔ حق، ڈاکٹر عظیم راہی، رونق جمال، وکیل نجیب، ڈاکٹر نخشب مسعود وغیرہ۔
مندرجہ بالا باتوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایک اچھا افسانہ نگار ہی ایک کامیاب افسانچہ نگار نہیں بن سکتا ہے۔
کچھ ایسے بھی افسانہ نگار ہیں جن کی عظمت اور شہرت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اُن کے افسانے ملک و بیرون ملک میں بڑے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں لیکن اُن کے افسانچوں نے ویسی کامیابی حاصل نہیں کی۔ جیسے سلام بن رزاق، خورشید حیات وغیرہ۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم بلا جھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ افسانچے کی کامیابی کا انحصار اس کی تکنیک کی جانکاری پر ہے۔ اگر کوئی معیاری افسانہ نگار اس تکنیک سے واقف ہے تو بلا شبہ وہ ایک اچھا افسانچہ نگار بن سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اوسط درجے کا افسانہ نگار بھی افسانچے کے رموز و اوقاف سے بھلی بھانتی واقف ہے تو اُن کو ایک بہترین افسانچہ نگار بننے سے کون روک سکتا ہے؟
جہاں تک افسانچے کی طوالت کا تعلق ہے، مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ آخر لوگ افسانچے کی ہی کتر بیونت کے لیے کیوں تُلے ہوئے ہیں۔ اُردو ادب میں اور بھی نثری اصناف ہیں لیکن میں نے تو کبھی کسی کو داستان کی لمبائی کو محدود کرتے، ناول کی طوالت کو قید کرتے، افسانے کے صفحات طئے کرتے، انشائیے پر قدغن لگاتے، مضامین کی سائز پر فیصلہ صادر کرتے نہیں دیکھا ہے۔ تو پھر یہ افسانچے پر ہی ہائے توبہ چہ معنی دارد؟
جہاں تک منٹو کا سوال ہے تو اُنھوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ ایک نئی صنف کی ایجاد کرنے جا رہے ہیں۔ اُن کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے ۳۲ افسانچوں پر جب ہم طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اس میں الہنا ڈیڑھ لائن، قسمت ۲ لائین، آرام کی ضرورت ۲ لائین، رعایت ۲ لائین، سوری ڈھائی لائین، صدقے اس کے ڈھائی لائین، خبردار ۳ لائین، دعوتِ عمل ۳ لائین، آنکھوں پر چربی ساڑھے ۳ لائین سے لے کر اشتراکیت ۷ لائین، پیش بندی ۶ لائین، نگرانی میں ۸ لائین، ہوتے ہوئے تقسیم ۲۴ لائین، مزدوری ۵۶ لائین اور تعاون ۵۸ لائین کی کہانیاں موجود ہیں۔ یعنی اُن کی نگاہ میں ایسی تحریروں کے لیے کسی قسم کے ضابطے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ چونکہ یہ مختصر کہانیاں اُن کے غم و غصّے کا اظہاریہ تھے اس لیے اُن کے دل و دماغ اور ذہن میں جن خیالات کا یلغار ہوتا رہا وہ صفحۂ قرطاس پر نمودار ہوتے گئے۔ اُس وقت تک منٹو کافی افسانے لکھ چکے تھے۔ اس لیے ہم یہ تو بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں کہ اُن افسانوں کی بہ نسبت یہ تحریریں چھوٹی ضرور تھیں۔ تو یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ افسانچہ چھوٹا ہونا چاہیے۔ سیاہ حاشیے کی کچھ کہانیوں کو چھوڑ کر جیسے تقسیم، مزدوری، تعاون وغیرہ۔ اب سوال اُٹھتا ہے کہ یہ کتنا چھوٹا ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں افسانچے میں مختصر کرتے رہنے کے عمل کو تب تک جاری رکھنا چاہیے جب تک اس سے ابہام کی بو نہ آنی شروع ہو جائے۔ اس اصول کو ذہن نشیں کر لیں کہ تفصیل کے زائد ایک جملے پر بھی طوالت کا الزام لگ سکتا ہے۔ بس یہی افسانچے کی لمبائی کا Yardstick ہو سکتا ہے۔ یعنی اتنا طویل نہ کریں کہ بے جا طوالت کا طوق لٹک جائے اور نہ اتنا مختصر کریں کہ ابہام کا خطرہ منڈلانے لگے۔ افسانچہ جتنا مختصر ہو گا اتنا کامیاب ہو گا۔
’’افسانچہ‘‘ در اصل افسانے کی بونسائی (Bonsai) شکل ہے۔ یہ ایک جاپانی ہنر ہے جس میں بڑے بڑے پیڑوں کو انتہائی چھوٹی شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک منفرد تکنیک ہے جس میں فنی مہارت، ذہانت، لگن، مشقت اور جانفشانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی قیمتیں آسمان کو چھوتی ہیں اور یہ بڑے رئیسوں، امیروں، نوابوں، دولت مندوں کے ڈرائینگ روم کی زینت بنتے ہیں۔ آپ لوگوں نے ایسی جگہوں پر برگد، پیپل، آم، اِملی کی چھوٹی شکلیں ضرور دیکھی ہو گی۔ جس کے تمام اجزاء پیڑوں جیسے ہی ہوتے ہیں، لیکن اُن کی جسامت اُن پیڑوں کی بہ نسبت بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ جس طرح ’’بونسائی‘‘ کا بنانا بہت آسان کام نہیں ہے، ٹھیک اُسی طرح ہر قلمکار کے لیے ’’افسانچے‘‘ تحریر کرنا ممکن نہیں۔ اس میں بھی افسانے کے تمام لوازمات موجود رہنے کے باوجود یہ بہت مختصرسی تصنیف نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے فنّی مہارت، ذہانت، محنت، لگن، افسانچے کی تکنیک سے واقفیت، الفاظ پر پورا کنٹرول ہونا لازمی ہے۔ اس لیے افسانے کے اجزائے ترکیبی جیسے پلاٹ، کردار، مکالمے، کلائمکس، پیغام وغیرہ کو نہایت فنّی چابکدستی سے افسانچے کی شکل میں ترتیب دی جاتی ہے۔
یہ بات اب واضح ہو گئی ہے کہ افسانچے کے لیے اختصار کی کیا اہمیت ہے۔ لیکن اس اختصار کو سطور اور صفحات میں قید کرنا مناسب نہیں۔ میرے خیال میں کہانی پن کے لبادے میں پیغام کی مکمل ترسیل جس میں تکرار، غیر ضروری مکالمے اور تفصیلات کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ اختصار کو برتنے والے Appropriate الفاظ کی ادائیگی کا سلیقہ بھی ہو۔ یہ افسانچے کی ساخت کے لیے ضروری ہے۔
کسی لفظ یا جملے کا بار بار استعمال تکرار کہلاتا ہے۔ ایک نمونہ یہاں پیش خدمت ہے:
بڑی بھابی کا موڈ آج کچھ اُکھڑا ہوا تھا۔ بڑے بھیّا حسب معمول خاموش تھے۔ وہ کرتے بھی کیا۔ بڑی بھابی تھیں ہی بد دماغ۔ جس دن سے بڑی بھابی شادی کر کے اس گھر میں آئی ہیں گھر کا ماحول ہی بدل گیا ہے۔ میں نے جب دیکھا کہ بڑی بھابی کا موڈ اُکھڑا ہوا ہے تو چپ چاپ گھر سے باہر نکل گیا۔
اس نمونے میں تکرار کی بھر مار ہے۔ ایک کامیاب افسانچہ نگار اسے یوں لکھے گا۔
’’بڑی بھابی کا موڈ آج کچھ اُکھڑا ہوا تھا۔ (بڑے) بھیّا خاموش تھے۔ وہ کیا کرتے (بڑی بھابی) وہ تھیں ہی بد دماغ۔ جس دن سے (بڑی بھابی) وہ شادی کر کے اس گھر میں آئی ہیں۔ گھر کا ماحول ہی بدل گیا ہے۔ میں نے جب دیکھا کہ( بڑی بھابی کا موڈ اُکھڑا ہوا ہے) اُن کا مزاج بگڑا ہوا ہے۔ تو چپ چاپ گھر سے باہر نکل گیا۔
غیر ضروری مکالمے کی مثال دیکھیے:
کال بیل کی گھنٹی بجی۔ ایک بزرگ شخص نے سخت ناگواری کی حالت میں دروازہ کھولا۔ سامنے اپنے بیٹے شاہد پر نظر پڑتے ہی وہ غصّہ سے اُبل پڑے ’’کہاں گئے تھے اتنی رات کو؟ جانتے ہو ابھی کتنا بجا ہے؟‘‘
شاہد خاموش کھڑا رہا۔
’’اب بولتے کیوں نہیں؟ ساتھیوں کے ساتھ فلم دیکھ کر آ رہے ہو گے؟ کچھ تو شرم کرو، اگلے ماہ تمھارا فائنل اکزام ہے۔ ایک بار تو فیل ہو ہی گئے ہو۔ کب تک یہ سب چلتا رہے گا۔‘‘ شدتِ جذبات سے وہ کانپ رہے تھے۔
’’اب ایسی غلطی نہیں ہو گی پاپا۔ ۔ ۔ معاف کر دیجیے‘‘ شاہد کے لہجے سے ندامت ٹپک رہی تھی۔
’’ٹھیک ہے جاؤ۔ ۔ کچن میں کھانا گرم کر کے کھا لو۔‘‘
مندرجہ بالا تحریر افسانے کے لیے موزوں ہے نہ کہ افسانچے کے لیے۔ ایک اچھا افسانچہ نگار اس کو ایسے برتے گا۔
دیر رات کو فلم کا آخری شو دیکھ کر لوٹے شاہد کو اُس کے ضعیف باپ نے خوب ڈانٹ پلائی۔ ’’کچھ تو شرم کرو۔ اگلے ماہ فائنل اکزام ہے۔ ایک بار تو فیل ہو ہی گئے ہو۔ کب تک یہ سب چلتا رہے گا۔‘‘
نادم شاہد کے معافی مانگنے پر کہ وہ اب ایسی غلطی نہیں کرے گا، اُس کے باپ نے اسے کچن میں رکھے کھانے کو گرم کر کے کھانے کی ہدایت کی۔
دیکھا آپ نے 120 الفاظ پر مشتمل افسانچے کے لحاظ سے غیر ضروری مکالمے کو کس خوبصورتی سے صرف 74 الفاظ میں سمیٹ دیا گیا ہے۔
اب ہم چلتے ہیں ’’غیر ضروری‘‘ تفصیلات کی طرف:
’’مئی کا مہینہ تھا۔ سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اُس کا سارا جسم پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ گرم ہوا کے جھونکے اُس کے چہرے کو جھلسا رہے تھے۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ پیاس کی شدت سے گلے میں کانٹے پڑ رہے تھے۔ چاروں طرف ہو کا ماحول تھا۔‘‘
افسانچے میں اتنی تفصیلات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مندرجہ بالا تفصیلات کو مختصر شکل میں اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے۔
’’مئی کا مہینہ تھا۔ شدّت کی گرمی پڑ رہی تھی‘‘ ایک ذہین قاری کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ وہ اپنی تصور کی آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ مئی کے مہینے میں جب شدّت کی گرمی پڑ رہی ہوتی ہے تو ضرور اُس (افسانچے کے کردار) کا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا ہو گا، گرم ہوا کے جھونکے سے چہرہ جھلس گیا ہو گا، ہونٹوں پہ پپڑیاں جمی ہوں گی، پیاس کی شدت سے گلے میں کانٹے پڑ گئے ہوں گے۔ یہاں افسانچہ نگار کو اسے بتا نے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی باتیں بے جا طوالت کا محرک بنتی ہیں۔
ایک کامیاب افسانچہ نگار کے پاس الفاظ کا ذخیرہ تو ضرور ہونا چاہیے۔ تب ہی وہ طوالت کو قید کر سکے گا۔ لمبے جملے یا مخلوط الفاظ کے لیے ایک لفظ کی جانکاری افسانچہ نگار کو ہونی چاہیے۔ جیسے:
’’اتنے میں لاش لے جانے والی گاڑی بھی وہاں پہنچ گئی‘‘ (گیارہ الفاظ)
’’اتنے میں ایمبولینس بھی وہاں پہنچ گئی‘‘ (سات الفاظ) یہاں ’’لاش لے جانے والی گاڑی‘‘ پانچ الفاظ کے لیے اس کا متبادل ایک لفظ ’ایمبولینس‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اُسی طرح ’چھُپی ہوئی‘ کی جگہ ’پوشیدہ‘ ’ماں باپ‘ کی جگہ ’والدین‘ وغیرہ لکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ہاں! کردار کی مناسبت اور واقعہ کی نوعیت کے مطابق مخفف الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنے کی صلاح دی جاتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ افسانچہ نگار کو نہایت باریکی سے افسانچے کو مختصر کرنے کی تراکیب اپناتے ہوئے کہانی کے زائد الفاظ یا جملے کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
طوالت کے اختصار کے لیے ایک دل چسپ مثال پیش کی جاتی ہے، جسے آپ لوگوں میں سے بہتوں نے کبھی نہ کبھی ضرور دیکھا ہو گا۔ ایک راج مستری(Mason، جو اینٹ اور گارے کی مدد سے دیواریں کھڑی کر کے اُس پر پلاسٹر بھی چڑھاتا ہے) سمینٹ اور بالو کے Mixture کو اپنی ’کرنی‘ ( ایک اوزار جس کی مدد سے وہ پلاسٹر کا کام کرتا ہے) سے دیوار پر مسالہ چڑھاتا ہے۔ جب کافی مقدار میں سیمنٹ اور بالو دیوار پر لتھیڑ دی جاتی ہے تو و وہ اپنے گتّے (ایک اوزار) کی مدد سے زائد اور بے ترتیب سیمنٹ کو گراتا جاتا ہے، جب تک کہ دیوار یکساں طور پر خوبصورت نظر نہ آ نے لگے۔ یہی ترکیب افسانچہ نگار حضرات کو بھی اپنانی چاہیے۔ پہلے وہ اپنے پلاٹ پر الفاظ اور جملوں کا مکسچر لتھیڑ دے۔ پھر اپنی فنی چابکدستی اور اپنے skillful endeavour کے گتّے کا استعمال کر زائد الفاظ اور جملوں کو تب تک سیمنٹ کی طرح گراتا جائے (مختصر کرتے ہوئے) جب تک خوبصورت دیوار کی طرح ایک خوبصورت افسانچے کی تعمیر نہ ہو جائے۔ زائد الفاظ اور جملوں کے تخفیف کرنے کا سلسلہ تب تک چلانا چاہیے کہ اگر مزید ایک لفظ یا جملہ کم کیا گیا تو ابہام پیدا ہو جائے اور اگر ایک لفظ یا جملہ نہیں کم کیا جائے تو غیر ضروری طوالت کا الزام لگ جائے۔ مندرجہ بالا اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اگر ۱۲ سطور پر مشتمل کوئی افسانچہ ( یہ صرف ایک مثال ہے) لکھا جائے تو وہ ایک کامیاب افسانچہ ہو گا۔ ہاں! اب اگر مذکورہ افسانچے میں کچھ الفاظ یا جملے کی تخفیف کر کے اُسے ۹ سطور پر لایا جائے تو ۱۲ سطور والا وہ افسانچہ غیر ضروری طوالت کا شکار کہلائے گا۔ خیال رہے کہ اتنا ہی مختصر کیا جائے جس سے افسانچے کے پیغام کی ترسیل اور کہانی پن مجروح نہ ہونے پائے۔ کہانی پن افسانچے کی روح ہے اور مجھے کہنے دیجیے کہ آج کل کے بیشتر افسانچے اس روح سے بے نیاز ہوتے جا رہے ہیں۔
مندرجہ بالا حقائق کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ افسانچے کا سب سے بڑا وصف اس کا اختصار ہے۔ میں یہاں چند تراکیب بتانا چاہوں گا جن کی مدد سے کوئی افسانچہ نگار کسی طویل تخلیق کو کس طرح اختصار کے ساتھ قلم بند کر سکتا ہے۔
٭آپ اخبار کی کسی خبر (جو لگ بھگ 10-12 سطور پر مشتمل ہو) کا بغور مطالعہ کریں۔ پھر کم سے کم الفاظ میں اسے لکھنے کی کوشش کریں۔ لیکن شرط یہ رہے کہ خبر کی کوئی اہم بات چھوٹنے نہ پائے۔
٭اپنا ہی کوئی طویل افسانچہ آپ اس کے لیے منتخب کر سکتے ہیں۔ جب آپ اس مضمون کی روشنی میں تخفیف کا قاعدہ اپناتے ہوئے اسے مختصر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یقین مانیے آپ کو بے انتہا خوشی محسوس ہو گی۔
٭اگر آپ کا کوئی افسانچے کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے تو آپ اپنے طویل افسانچوں کو مختصر کر کے اسے اپنے دوسرے ایڈیشن میں لگا سکتے ہیں۔ اس سے آپ کے افسانچوں کا معیار کافی بلند ہو جائے گا۔
٭یہ تجربہ آپ کسی دوسرے کے طویل افسانچوں یا منی کہانیوں پر بھی کر سکتے ہیں۔
میرا یہ مشورہ کچھ افسانچہ نگاروں کو ناگوار گزر سکتا ہے لیکن اس بات کا اعتراف کرنے میں مجھے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی ہے کہ میں ابھی بھی اس process پر عمل کرتا ہوں۔
Complete perfection in a piece of literature is next to impossible اس لیے افسانچہ نگاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے علاقے میں اس طرح کی کوئی تنظیم بنائیں جہاں افسانچہ نگار جمع ہو کر ایک دوسرے کے افسانچوں پر بے لاگ اور بے باک تجزیے پیش کریں۔ میری نظر میں سارے ہندوستان میں اس طرح کی ایک ہی تنظیم ہے جو ’’افسانہ کلب‘‘ کے نام سے مالیرکوٹلہ (پنجاب) میں واقع ہے۔
افسانچے کا اختتام اس کی پونجی ہے۔ جس طرح مناسب وقت پر پونجی کا صحیح استعمال قابل تعریف بات سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کی سگائی میں کافی مال و دولت کی نمائش کرتا ہے اور شادی بالکل سادگی سے انجام دیتا ہے تو لوگوں کو یہ عمل متاثر نہیں کرتا ہے۔ اس لیے ایک کامیاب افسانچہ نگار کو چاہیے کہ وہ کلائمکس کی پونجی کو بچا کر رکھے اور صحیح وقت پر اس کا استعمال کرے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایک مختصر سی تحریر میں وہ کون سی صفت ہے جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔ زبان و بیان کی لطافت، مکالمے کی اہمیت، جذبات کی جزئیات نگاری اور تفصیلات کی چاشنی یہ سارے افسانے کی خصوصیات ہیں۔ ان کا افسانچے میں کوئی کام نہیں بلکہ ان کی موجودگی افسانچے کو بے جا طوالت کے دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہیں۔ بس ایک اختتام ہی وہ پونجی ہے جو کسی افسانچے کو ابدیت بخشتی ہے۔
اب ہم افسانچے کے عنوان کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کسی افسانچے کو مکمل کرنے میں تین گھنٹے لگتے ہیں تو اُس کے عنوان کا انتخاب تین سے زائد گھنٹوں میں کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ذہن نشیں کرنی چاہیے کہ عنوان ایسا کبھی نہ رکھیں کہ جس سے اختتام کا پتا چل جائے۔ بلکہ اس کی بھنک بھی قاری کو محسوس نہ ہو سکے۔ اگر کوئی افسانچہ نگارایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو قاری کو افسانچے کا اختتام ’’غیر متوقع‘‘ معلوم ہو گا۔ ایسی حالت میں قاری کو افسانچہ پسند کرنے سے کون روک سکتا ہے؟
اب اگر کوئی مجھ سے مختصر میں افسانچے کی تعریف پوچھے تو میرا جواب ہو گا:
’’غیر ضروری تفصیلات، مکالمے اور تکرار سے بچتے ہوئے، قارئین تک افسانے کے پیغام کی ترسیل کرتے ہوئے، کہانی پن کو مجروح کیے بنا، بونسائی کی طرز پر افسانے کے تمام لوازمات کو سمیٹتے ہوئے وجود میں آنے والی تحریر کو ’’افسانچہ‘‘ کہتے ہیں۔‘‘
٭٭٭