اہم
اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔
کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:
مہر نستعلیق ویب فونٹ
کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ
یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
مجلس ادبیاتِ عالیہ کی پیشکش، قدیم داستانی ادب میں ایک اہم تصنیف
مذہبِ عشق معروف بہ گلِ بکاؤلی
از قلم
منشی نہال چند لاہوری

ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
آغاز داستان
کہتے ہیں کہ پورب کے شہزادوں میں کسی شہر کا بادشاہ زین الملوک نام، جمال اس کا جیسے ماہِ منیر، عدل و انصاف اور شجاعت و سخاوت میں بے نظیر۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ ہر ایک علم و فضل میں علامہ زمان اور جوانمردی میں رستم دوراں۔ خدا کی قدرت کاملہ سے اور ایک بیٹا آفتاب کی طرح جہاں کا روشن کرنے والا اور چودھویں رات کے چاند کی طرح دنیا کے اندھیرے دور کرنے والا پیدا ہوا۔
قمر اس کی جبین سے داغ کھائے
مہ نو پیش ابرو سر جھکائے
اگر چین جبین اس کی بنائے
مصور چین کا چیں بول جائے
بلا انگیز دو آنکھیں جادو آمیز
مئے گلرنگ سے دو جام لبریز
کبھی دیکھی تھی اس گلرو کی کاکل
پریشان آج تک ہے حال سنبل
جہاں مجروح ہو تیغ نظر سے
پلک سے پار ہو خنجر جگر سے
وہ مکھڑا مہر اگر دیکھے تو تھرّائے
قمر کے چہرے کا بھی رنگ اڑ جائے
عجب … مزید پڑھیے
مجلس ادبیات عالیہ اردو محفل کی پیشکش
ایڈیٹر کا حشر
ایک دلچسپ ڈرامہ از قلم
ظفر علی خاں
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
پہلا ایکٹ
(سین: لاہور میں ایک سجی ہوئی انگریزی وضع کی کوٹھی۔
وقت شام کے ساڑھے سات بجے۔)
نازلی بیگم (مسٹر عبد الواحد بیرسٹر کی ناز آفریں بیٹی جو اپنے بلند خیال باپ کی تہذیب پرستی کے تصدق میں انگلستان سے تعلیم کا پنج سالہ زمانہ ختم کر کے حال ہی میں وطن کو لوٹی ہے۔ لیمپ کی شعاعیں گلابی ساٹن کے فانوس میں سے چھن چھن کر دو چٹھیوں پر پڑ رہی ہیں جو اُس کے سامنے ایک تپائی پر رکھی ہیں اور وہ خود ایک پر تکلف کوچ پر بیٹھی ہوئی اپنے جی سے باتیں کر رہی ہے):
ایک دن میں دو پیغام! کسے قبول کروں اور کسے رد کروں۔ جس طرح اسلام نے مردوں کو چار چار بیبیاں کر لینے کی اجازت دی ہے کاش عورتوں کو اس سے آدھا ہی حق دیا ہوتا تاکہ میں ایک وقت میں ان دونوں کے ساتھ عقد کر سکتی۔ دونوں اپنی اپنی جگہ میری گرویدگی پر حق رکھتے ہیں۔ ایک دولت مند اور ذی وجاہت ہے، … مزید پڑھیے
فکشن کے ارتقاء کے ضمن میں ایک اہم مطالعہ
بیسویں صدی کا اردو افسانہ اور تنقید
از قلم
رحمن عباس
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
اقتباس
پریم چند (۱۸۸۰ تا ۱۹۳۶)، سعادت حسن منٹو ( ۱۹۱۲ تا ۱۹۵۵)، عصمت چغتائی (۱۹۱۵ تا ۱۹۹۱)، کرشن چندر(۱۹۱۴ تا ۱۹۷۷)، راجندر سنگھ بیدی ( ۱۵ ۱۹ تا ۸۴ ۱۹)، قرۃ العین حیدر (۱۹۲۸ تا ۲۰۰۷) اور انتظار حسین (۱۹۲۳ پیدائش) بیسویں صدی کے نامور افسانہ نگار ہیں۔ پریم چند، سعادت حسن منٹو اور بیدی کے لیے عظیم افسانہ نگار کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ علی عباس حسینی (۱۸۹۷ تا ۱۹۶۹)، حیات اللہ انصاری (۱۹۱۱تا ۱۹۹۹)، اوپندر ناتھ اشک (۱۹۱۰ تا ۹۶ ۱۹)، احمد ندیم قاسمی (۱۹۱۶ تا ۲۰۰۶)، غلام عباس (۱۹۰۷ تا ۱۹۸۲)، بلونت سنگھ (۱۹۲۱ تا ۱۹۸۶)، ممتاز مفتی (۱۹۰۵ تا ۱۹۹۵) وغیرہ ان نامور افسانہ نگاروں کے معاصر ین تھے اور سب نے مل کر اردو افسانے کو بیسویں صدی میں وقار عطا کیا۔ ہندستان میں اردو افسانے کی ادبی تاریخ میں تقسیم کے فوراً بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں خواجہ احمد عباس (۱۹۱۴ تا ۸۷ ۱۹)، قاضی عبد الستار (۱۹۳۳ پیدائش)، اقبال مجید (۱۹۳۱ پیدائش) رتن سنگھ … مزید پڑھیے
فکشن تنقید کے ضمن میں ایک اہم مقالہ
فاقصص القصص۔۔۔
از قلم
حقانی القاسمی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
فاقصص القصص۔۔۔
کہانی کسے کہتے ہیں؟ اس کا شجرۂ نسب کیا ہے؟ مجھے نہیں پتہ!
[شاید کہانی کدم کا پھول ہے، کٹج کی کلی ہے، کرشن کی بانسری ہے یا جوہی، کیتکی، یاسمن، نیلوفر، سنبل، مالتی، سرس، سوسن، ریحان، رعنا، زیبا، کبود کی خوشبوؤں کا منتھن ہے۔]
کہانی جب کرشن کی بانسری بن جاتی ہے تو کہانی کو معراج نصیب ہوتی ہے۔ جس کہانی میں کرشن کی بانسری نہ ہو، وہ کہانی، کہانی نہیں ہوتی۔ کہانی تو ’مدھوبن‘ میں جنم لیتی ہے۔ لکشمی کے مدور استنوں پر وشرام کرتی ہے۔
[شاید استنوں سے لذت اور قوت کشید کرنے کا نام ہی کہانی ہے۔ اِندر کی زعفرانی شراب بھی کہانی ہے اور محافے میں بیٹھی ہوئی حسین دلربا قتالۂ عالم رقاصۂ فلک بھی۔]
کہانی کا محل وقوع گنگا، جمنا اور سرسوتی کے ساحل بھی ہیں اور دارۂ جلجل بھی۔ کہانی قتّان پہ بھی رہتی ہے، کتیفہ پہ بھی۔ دماوند میں بھی، دمون میں بھی۔ راوی میں بھی، راہون میں بھی۔ زبرجد پہ بھی، زبرون میں بھی۔ شعب بوان میں بھی، شوالک … مزید پڑھیے
ایک بہترین افسانہ
پھول کی قیمت
از قلم
آغا بابر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
پھول کی قیمت
لوگ بابا مراد کو اٹھا کر ادھر لے گئے جدھر بھیڑ کم تھی۔ منہ میں پانی ٹپکایا تو آنکھیں کھل گئیں۔ وہ پھول بیچنے والوں کی دکانوں کے قریب سڑک پر چت پڑا تھا۔
ایک پھول فروش نے کہا ’’پانی کا گلاس پی لے۔ لو لگ گئی ہے‘‘۔
مراد پانی کے چند گھونٹ حلق میں اتار کر کمر پر ہاتھ رکھ کر ہمدردی جتانے والے سے بولا ’’میں ہسپتال میں اپنا خون دے کر آ رہا تھا کہ چکر آیا۔۔۔۔‘‘
’’کوئی بات نہیں اٹھ بیٹھ‘‘۔
لوگوں نے اسے سہارا دے کر فیروز دین پھول فروش کے کھوکھے پر بٹھا دیا۔ فیروز دین کی ڈاڑھی اور چہرے کا رنگ بالکل موتیے کے ان پھولوں کا سا تھا، جن کی ڈھیریاں اس کے سامنے کیلے کے سبز پتوں پر دھری تھیں۔ فیروز دین کی آنکھوں میں ایک ایسی گھلاوٹ فہم اور دلداری تھی جو زندگی کا لیل و نہار دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے سے میسر آتی ہے۔
کلیاں اور پھول رات بھر ستاروں کے گیت سنتے ہیں۔ ظلمت اور اجالے کی آنکھ مچولی … مزید پڑھیے
ایک عمدہ طویل افسانہ
من کی ملکہ
از قلم
شہناز شورو
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
من کی ملکہ
گزشتہ چار دن کی بارش نے پورے شہر کو جل تھل کر دیا تھا۔ آسمان غریب کی چادر کی طرح جگہ جگہ سے پھٹا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ آج پہلا دن تھا کہ آسمان کے چھید رفو ہوتے محسوس ہوئے۔ آج صبح بھی بارش ہوئی تھی مگر مختصر سے وقت کے لیے۔ پھر سورج نے پلکیں جھپکائیں تو گویا زندگی جاگ اُٹھی۔ روز بہ روز پرانے ہوتے شہر کہاں اتنی شدت کی تاب لا سکتے تھے۔ شہر کی ہر گلی میں نکاسی کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے پانی کھڑا تھا۔
’’بھائی صاحب ذرا سنبھل کے، اس طرف سامنے گڑھا ہے، اُس میں نہ سائیکل سمیت گر جائیں۔ اس طرف سے آئیے راستہ صاف ہے۔‘‘ آسمانی کپڑے پہنے، کمر سے نیچے تک سیاہ لچھے دار بال پھیلائے، قدرے دل پذیر نقوش والی لڑکی ایک دروازے سے نمودار ہوئی۔ ایک پٹ کھلا، دوسرا بند۔ دونوں سائیکل سواروں نے اس پر ایک نگاہ ڈالی۔ سانولی کی سنجیدگی کو دیکھ کر ذرا زیادہ ہی ٹپ ٹاپ لڑکے کو خود کو … مزید پڑھیے
کلیات میر کی ایک غزل کا تفصیلی تجزیہ
سرہانے میر کے
از قلم
احمد جاوید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
تشریحی مطالعہ
میر ایسے شاعر ہیں جن کے تعارف کا پہلا فقرہ طے شدہ ہے۔ اور وہ یہ کہ میر اپنی زبان کے سب سے بڑے شاعر ہیں، بلکہ اردو کے تمام بڑے شعرا کے مقابلے میں بھی یہ بہت زیادہ فرق کے ساتھ عظیم تر شاعر ہیں۔ ان کی بڑائی کے کئی پہلو ہیں، مثال کے طور پر میر حافظ کے ہم پلہ ہیں اور بعض پہلوؤں سے تو حافظ کے مقابلے میں بھی زیادہ مکمل شاعر ہیں کیونکہ فارسی زبان کی تعمیر و تشکیل میں حافظ کا کوئی خاص حصہ نہیں ہے لیکن اردو زبان کو اندر باہر سے بنانے اور سنوارنے میں میر کا حصہ غالباً کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ ہے۔ بہت سے بڑے شعرا ہیں جن کی بڑائی کو مانتے ہوئے بھی انہیں مکمل شاعر نہیں کہا جا سکتا، لیکن میر کا مکمل شاعر ہونا ان کی شاعرانہ عظمت کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اگر یہ دیکھنا ہو کہ فلاں شاعر بلکہ فلاں بڑا شاعر مکمل شاعر بھی ہے … مزید پڑھیے
ادبیات عالیہ کی ایک اور پیشکش
لکھنؤ کا عہدِ شاہی
مجلس ادبیات عالیہ واٹس ایپ گروپ کا کارنامہ
عبد الروؤف عشرت لکھنوی
کے قلم سے
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
نصیر الدین غازی حیدر
شاہی محل کی عالیشان عمارت کے وسط میں صدر مقام پر ایک نفیس بارہ دری بنی ہوئی اور شیشہ آلات سے سجی ہوئی ہے۔ نفیس نفیس جھاڑ، نازک نازک دیوار گیریاں، قلمی تصویریں، خوشخط قطعے لگے ہیں۔ کمروں میں تمام کا فرش بچھا ہے۔ سنہری، روپہلی چلمنیں، زربفت کے پردے پڑے ہیں۔ بارہ دری کے سامنے پُر فضا چمن لگا ہے۔ سنگ مرمر کی نہریں جن میں فوارے چھوٹ رہے ہیں۔ شہ نشین میں صدر مقام پر کارچوبی گاؤ تکیے لگائے ہوئے حضرت شاہ نصیر الدین حیدر بادشاہ غازی جلوہ افروز ہیں۔ اُن کے پہلو میں بڑے تُزک و احتشام سے نواب ملکہ زمانیہ بیٹھی ہیں۔ گردا گرد خواصیں ماہتاب کے ہالے کی طرح، اردلی کی خواص چنور اور مورچھل جھل رہی ہے۔ ڈومنیاں مع سازندہ عورتوں کے بھاؤ بتا بتا کر سریلے سُروں میں گا رہی ہیں۔ کوئی چیخ کر بات نہیں کر سکتا۔ نظر سے نظر ملانے کا حکم نہیں ہے۔ کسی کو … مزید پڑھیے
ادبیات عالیہ کی ایک اور پیشکش
نو طرزِ مرصّع
اردو محفل کے اراکین مجلس ادبیات عالیہ کی طرف سے تحفہ
محمد حسین عطا خان تحسینؔ
کے قلم سے
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
دیباچہ
اوپر دانشوران شیریں سخن بزم درایت و رزانت کے اور عاقلان صاحب طبع انجمن بلاغت و متانت کے مخفی و پوشیدہ نہ رہے کہ یہ عاجز ترین خلق اللہ میر محمد حسین عطا خاں متخلص بہ تحسینؔ مخاطب بہ خطاب‘‘مرصع رقم‘‘ بعد رحمت والد بزرگوار حضرت میر محمد باقر خاں صاحب متخلص بہ شوقؔ کے کہ تمام ممالک ہندوستان میں نزدیک ارباب کمال کے کمالات دینی و دنیوی سے شہرہ آفاق تھے اور واقعی یوں ہے کہ بیچ میدان تشریح و توصیف ذات اس مفرد کائنات کے نسریں ہلال آہوئے قلم کا، اوپر صفحۂ گلشنِ افلاکِ چراگاہِ سفیدۂ کاغذ کے جلوہ نمائش کا پا کر نافہ ریز بہار عرصہ تحریر کا نہیں ہو سکتا۔ اگر ذات فائض البرکات ان کے تئیں طغرا منشور فراست عالی یا عنوان مثال بے مثالی کا کہوں، بجا ہے۔ ایزد تعالیٰ غریق رحمت کا کرے۔ برکت صحبت، فیض موہبت، سر حلقۂ سخن طرازانِ دقائق فصاحت و قابلیت، سر دفتر نکتہ پردازانِ حقائق … مزید پڑھیے
اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ کی سوانح
حیاتِ ماہ لقا
سلطنت دکن کی ایک جھلک
غلام صمدانی خان گوہر
کے قلم سے
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں…….
تمہید
ماہ لقا بائی کے نام سے کون واقف نہیں ہے اور چندا جی کا نام کون ہے جو سنا نہیں۔ اس کو انتقال کیے ابھی سو برس بھی پورے نہیں ہوئے، جس کا مقبرۂ عالیشان اور سرا کوہ شریف کے پائیں میں واقع ہیں، جہاں ہر سال عرس شریف کے موقع پر ہزاروں تماش بین اور زائرین فروکش ہوتے ہیں، جس کو حیدرآباد دکن کا ہر امیر فقیر اور برنا و پیر جانتا ہے۔ اور یہ بات بھی ہر ایک کو معلوم ہے کہ ماہ لقا بائی لطیفہ گوئی، بذلہ سنجی، شاعری، مروت، اخلاق، فیاضی، دولت و ثروت، حکومت میں اپنے زمانہ میں یکتائے روزگار مانی جاتی تھیں۔ بارہ کم سو برس ۸۸ کے پیشتر ہزاروں اشخاص بلکہ لاکھوں مہ لقا بائی کے جمال جہاں آرا کے مشتاق اور اس کی نظر عنایت کے امیدوار رہتے تھے۔ افسوس ہے کہ اب وہ ماہ لقا بائی موجود ہے اور نہ اس کے چاہنے والوں کا وجود باقی ہے۔ امتداد زمانہ نے … مزید پڑھیے