محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید کی جمع و ترتیب شدہ نہایت بسیط اور اہم تفسیر
معارف القرآن
جلد ۔ 2
( سورۃ المائدہ تا سورۃ التوبہ)
از قلم
مفتی محمد شفیع عثمانی
( یہ سات جلدوں میں شائع کی جائے گی ان شاء اللہ، ہر جلد ایک قرآنی منزل پر مشتمل ہو گی، یہ دوسری جلد ہی تقریباً پانچ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ براہ کرم بقیہ جلدوں کے لئے انتظار فرمائیں)
متن کا ماخذ
http://equraanlibrary.com
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
۵۔ سورۃ مائدہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے
005: 001
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ۱
ترجمہ:
اے ایمان والو پورا کرو عہدوں کو حلال ہوئے تمہارے لیے چوپائے مویشی سوائے ان کے جو تم کو آگے سنائے جاویں گے مگر حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں اللہ حکم کرتا ہے جو چاہے۔
تفسیر:
سورت کا شان نزول اور خلاصہ مضامین:
یہ سورة مائدہ کی ابتدائی آیت ہے۔ سورة مائدہ بالاتفاق مدنی سورة ہے اور مدنی سورتوں میں بھی آخر کی سورت ہے، یہاں تک کہ بعض حضرات نے اس کو قرآن کی آخری سورت بھی کہا ہے۔ مسند احمد میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ و اسماء بنت یزید منقول ہے کہ سورة مائدہ رسول کریمﷺ پر اس وقت نازل ہوئی جب کہ آپ سفر میں عضبا نامی اونٹنی پر سوار تھے۔ نزول وحی کے وقت جو غیر معمولی ثقل اور بوجھ ہوا کرتا تھا حسب دستور اس وقت بھی ہوا۔ یہاں تک کہ اونٹنی عاجز ہو گئی۔ تو آپﷺ اس سے نیچے اتر آئے۔ یہ سفر بظاہر حجة الوداع کا سفر ہے جیسا کہ بعض روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ حجة الوداع ہجرت کے دسویں سال میں ہوا، اور اس سے واپسی کے بعد رسول کریمﷺ کی دنیوی حیات تقریباً اسی (80) دن رہی۔ ابن حبان نے بحر محیط میں فرمایا کہ سورة مائدہ کے بعض اجزاء سفر حدیبیہ میں اور بعض فتح مکہ کے سفر میں اور بعض حجة الوداع کے سفر میں نازل ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سورت نزول قرآن کے آخری مراحل میں نازل ہوئی ہے۔ خواہ بالکل آخری سورت نہ ہو۔
روح المعانی میں بحوالہ ابو عبید حضرت حمزہ بن حبیب اور عطیہ بن قیس کی یہ روایت رسول کریمﷺ سے منقول ہے۔ المائدة من اٰخر القراٰن تنزیلا فاحلو احلالہا وحترموا حرامھا۔ یعنی سورة مائدہ ان چیزوں میں سے ہے جو نزول قرآن کے آخری دور میں نازل کی گئی ہیں۔ اس میں جو چیز حلال کی گئی ہے اس کو ہمیشہ کے لئے حلال اور جو چیز حرام کی گئی ہے اس کو ہمیشہ کے لئے حرام سمجھو۔
اسی قسم کی ایک روایت ابن کثیر نے مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت جبیر بن نفیرؓ سے نقل کی ہے کہ وہ حج کے بعد حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا جبیر تم سورة مائدہ پڑھتے ہو۔ انہوں نے عرض کیا ہاں پڑھتا ہوں۔ صدیقہؓ نے فرمایا کہ یہ قرآن پاک کی آخری سورة ہے اور اس میں جو احکام حلال و حرام کے آئے ہیں وہ محکم ہیں۔ ان میں نسخ کا احتمال نہیں ہے۔ ان کا خاص اہتمام کرو۔ سورة مائدہ میں بھی سورة نساء کی طرح فروعی احکام، معاملات، معاہدات وغیرہ کے زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔ اسی لئے روح المعانی نے فرمایا ہے کہ سورة بقرہ اور سورة آل عمران باعتبار مضامین کے متحد ہیں۔ کیونکہ ان میں زیادہ تر احکام اصول عقائد، توحید، رسالت، قیامت وغیرہ کے آئے ہیں۔ فروعی احکام ضمنی ہیں اور سورة نساء اور مائدہ باعتبار مضامین کے متحد ہیں کہ ان دونوں میں بیشتر فروعی احکام کا بیان ہے، اصول کا بیان ضمنی ہے۔ سورة نساء میں باہمی معاملات اور حقوق العباد پر زور دیا گیا ہے۔ شوہر بیوی کے حقوق، یتیموں کے حقوق، والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے حقوق کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ سورة مائدہ کی پہلی آیت میں بھی ان تمام معاملات اور معاہدات کی پابندی اور ان کے پورا کرنے کی ہدایت آئی ہے۔ یا ایھا الذین اٰمنوا اوفوا بالعقود۔ اسی لئے سورة مائدہ کا دوسرا نام سورة عقود بھی ہے۔ (بحر محیط)
معاہدات اور معاملات کے بارے میں یہ سورة اور بالخصوص اس کی ابتدائی آیت ایک خاص حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لئے رسول اللہﷺ نے جب عمرو بن حزمؓ کو یمن کا عامل (گورنر) بنا کر بھیجا اور ایک فرمان لکھ کر ان کے حوالہ کیا۔ تو اس فرمان کے سرنامہ پر آپﷺ نے یہ آیت تحریر فرمائی تھی۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو (تمہارے ایمان کا مقتضا یہ ہے کہ) اپنے عہدوں کو (جو کہ ایمان کے ضمن میں تم نے خدا تعالیٰ سے کئے ہیں، پورا کرو (یعنی احکام شرعیہ کو بجا لاؤ کیونکہ ایمان لانے سے سب کا التزام ہو گیا اور التزام کا مقتضی ایفاء ہے) تمہارے لئے تمام چوپائے جو مشابہ (ان) انعام (یعنی اونٹ، بکری، گائے) کے ہوں (جن کی حلت اس سے قبل سورة انعام میں جو کہ مکیہ ہے معلوم ہو چکی ہے، پس ان کے مشابہ جتنے چوپائے ہیں سب) حلال کئے گئے ہیں (جیسے ہرن، نیل گائے وغیرہ کہ اونٹ بکری گائے کے مشابہ ہیں اس بات میں کہ درندے اور شکاری نہیں بجز ان بہائم کے جو کہ دوسرے دلائل شرعیہ حدیث وغیرہ سے مخصوص و مستثنیٰ ہو چکے ہیں۔ جیسے گدھا، خچر وغیرہ۔ ان مستثنیات کے سوا اور سب بہائم اہلی و وحشی حلال ہیں) مگر جن کا ذکر آگے (آیت حرمت علیکم المیتة الخ میں) آتا ہے (کہ وہ باوجود بھیمة الانعام میں داخل ہونے اور مخصوص بالحدیث وغیرہ سے خارج ہونے کے بھی حرام ہیں۔ اور باقی تم کو حلال ہیں) لیکن (ان میں) جو شکار (ہیں ان) کو حلال مت سمجھنا جس حالت میں کہ تم احرام (یا حرم) میں ہو (مثلاً حج و عمرہ کا احرام باندھے ہو گو حرم سے خارج ہو یا یہ کہ حرم کے اندر ہو کہ غالباً شکار بھی حرم کے اندر ہو گا، کیونکہ اصل مدار حکم کا شکار کا حرم کے اندر ہونا ہے گو احرام نہ باندھے ہو، دونوں حالتوں میں شکار یعنی بری و وحشی کا حرام ہے) بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہیں حکم کریں (یعنی وہی مصلحت ہوتا ہے، پس جس جانور کو چاہا ہمیشہ کے لئے فی نفسہ اوقات اضطرار میں حرام کر دیا جس کو چاہا ہمیشہ کے لئے حلال کر دیا۔ جس کو چاہا کسی حالت میں حلال کر دیا کسی حالت میں حرام کر دیا۔ تم کو ہر حالت میں امتثال واجب ہے۔
معارف و مسائل
اس سورت کی پہلی آیت کا پہلا جملہ ایک ایسا جامع جملہ ہے کہ اس کی تشریح و تفسیر میں ہزاروں صفحات لکھے جا سکتے ہیں ارشاد ہے یا ایھا الذین بالعقود۔ یعنی اے ایمان والو اپنے معاہدوں کو پورا کیا کرو۔ اس میں پہلے یا ایھا الذین اٰمنوا سے خطاب فرما کر مضمون کی اہمیت کی طرف متوجہ کر دیا گیا کہ اس میں جو حکم ہے وہ عین ایمان کا تقاضا ہے۔ اس کے بعد حکم فرمایا اوفوا بالعقود۔ لفظ عقود عقد کی جمع ہے۔ جس کے لفظی معنی باندھنے کے ہیں۔ اور جو معاہدہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں بندھ جائے اس کو بھی عقد کہا جاتا ہے۔ اس لئے بمعنی عہود ہو گیا۔
امام تفسیر ابن جریر نے مفسرین صحابہ و تابعین کا اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ امام جصاص نے فرمایا کہ عقد کہا جائے یا عہد و معاہدہ، اس کا اطلاق ایسے معاملہ پر ہوتا ہے جس میں دو فریق نے آئندہ زمانے میں کوئی کام کرنے یا چھوڑنے کی پابندی ایک دوسرے پر ڈالی ہو۔ اور دونوں متفق ہو کر اس کے پابند ہو گئے ہوں۔ ہمارے عرف میں اسی کا نام معاہدہ ہے اسی لئے خلاصہ مضمون اس جملہ کا یہ ہو گیا کہ باہمی معاہدات کا پورا کرنا لازم و ضروری سمجھو۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ ان معاہدات سے کون سے معاہدات مراد ہیں۔ اس میں حضرات مفسرین کے اقوال بظاہر مختلف نظر آتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے اس سے مراد وہ معاہدات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایمان و اطاعت کے متعلق لئے ہیں۔ یا وہ معاہدات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نازل کئے ہوئے احکام حلال و حرام سے متعلق اپنے بندوں سے لئے ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے یہی منقول ہے اور بعض نے فرمایا کہ معاہدات سے اس جگہ وہ معاہدات مراد ہیں جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کر لیا کرتے ہیں۔ جیسے معاہدہ نکاح، معاہدہ بیع و شراء وغیرہ۔ مفسرین میں سے ابن زید اور زید بن اسلم اسی طرف گئے ہیں۔ اور بعض نے فرمایا کہ معاہدات سے وہ حلف اور معاہدے مراد ہیں جو زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے باہمی امداد کے لئے لیا کرتے تھے۔ مجاہد، ربیع، قتادہ وغیرہ، مفسرین نے بھی یہی فرمایا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں۔ بلکہ یہ سب قسم کے معاہدات لفظ عقود کے تحت میں داخل ہیں اور سبھی پورے کرنے کے لئے قرآن کریم نے ہدایت دی ہے۔
اسی لئے امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ معاہدات کی جتنی قسمیں ہیں سب اس لفظ کے حکم میں داخل ہیں اور پھر فرمایا کہ اس کی ابتدائی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ معاہدہ جو انسان کا رب العالمین کے ساتھ ہے۔ مثلاً ایمان، اطاعت کا عہد یا حلال و حرام کی پابندی کا عہد۔ دوسرے وہ معاہدہ جو ایک انسان کا خود اپنے نفس کے ساتھ ہے، جیسے کسی چیز کی نذر اپنے ذمہ مان لے، یا حلف کر کے کوئی چیز اپنے ذمہ لازم کر لے، تیسرے وہ معاہدہ جو ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ ہے۔ اور تیسری قسم میں وہ تمام معاہدات شامل ہیں جو دو شخصوں یا دو جماعتوں یا دو حکمتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔
حکومتوں کے بین العالمی معاہدات۔ یا باہمی سمجھوتے۔ جماعتوں کے باہمی عہد و میثاق اور دو انسانوں کے درمیان ہر طرح کے معاملات نکاح، تجارت، شرکت، اجارہ، ہبہ وغیرہ ان تمام معاہدات میں جو جائز شرطیں باہم طے ہو جائیں اس آیت کی رو سے ان کی پابندی ہر فریق پر لازم و واجب ہے۔ اور جائز کی قید اس لئے لگائی کہ خلاف شرع شرط لگانا یا اس کا قبول کرنا کسی کے لئے جائز نہیں۔
اس کے بعد آیت کے دوسرے جملہ میں اس عام ضابطہ کی خاص جزئیات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے احلت لکم الانعام۔ لفظ بھیمة ان جانوروں کے لئے بولا جاتا ہے، جن کو عادةً غیر ذوی العقول سمجھا جاتا ہے کیونکہ لوگ ان کی بولی کو عادةً نہیں سمجھتے تو ان کی مراد مبہم رہتی ہے۔ اور امام شعرانیؒ نے فرمایا کہ بہیمہ کو بہیمہ اس لئے نہیں کہتے کہ اس کو عقل نہیں اور عقل کی باتیں اس پر مبہم رہتی ہیں۔ جیسا کہ لوگوں کا عام خیال ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عقل و ادراک سے کوئی جانور بلکہ کوئی شجر و حجر بھی خالی نہیں۔ ہاں درجات کا فرق ضرور ہے۔ ان چیزوں میں اتنی عقل نہیں ہے جتنی انسان میں اسی لئے انسان کو احکام کا مکلف بنایا گیا ہے۔ جانوروں کو مکلف نہیں بنایا گیا۔ ورنہ اپنی ضروریات زندگی کی حد تک ہر جانور بلکہ ہر شجر و حجر کو حق تعالیٰ نے عقل و ادراک بخشا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ وان من شی الا یسبح بحمدہ۔ عقل نہ ہوتی تو اپنے خالق ومالک کو کس طرح پہچانتی اور کس طرح تسبیح کرتی۔
امام شعرانی کے فرمانے کا خلاصہ یہ ہے کہ بہیمہ کو بہیمہ اس لئے نہیں کہتے کہ اس کی بے عقلی کے سبب معلومات اس پر مبہم رہتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس کی بولی لوگ نہیں سمجھتے۔ اس کا کلام لوگوں پر مبہم رہتا ہے۔ بہرحال لفظ بہیمہ ہر جاندار کے لئے بولا جاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ چوپایہ جانداروں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اور لفظ انعام نعم کی جمع ہے۔ پالتو جانور جیسے اونٹ، گائے، بھینس، بکری وغیرہ جن کی آٹھ قسمیں سورة انعام میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ان کو انعام کہا جاتا ہے۔ بہیمہ کا لفظ عام تھا۔ انعام کے لفظ نے اس کو خاص کر دیا۔ مراد آیت کی یہ ہو گئی کہ گھریلو جانوروں کی آٹھ قسمیں تمہارے لئے حلال کر دی گئیں۔ لفظ عقود کے تحت میں ابھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ تمام معاہدات داخل ہیں۔ ان میں سے ایک معاہدہ وہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے حلال و حرام کی پابندی کے متعلق لیا ہے۔ اس جملہ میں اس خاص معاہدہ کا بیان آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اونٹ، بکری، گائے، بھینس وغیرہ کو حلال کر دیا ہے۔ ان کو شرعی قاعدہ کے موافق ذبح کر کے کھا سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی ان حدود کے اندر رکھ کر پابندی کرو۔ نہ تو مجوسی اور بت پرستوں کی طرح مطلقاً ان جانوروں کے ذبح ہی کو حرام قرار دو کہ یہ حکمت حق جل شانہٗ پر اعتراض اور اس کی نعمت کی ناشکری ہے۔ اور نہ دوسرے گوشت خور فرقوں کی طرح بے قید ہو کر ہر طرح کے جانور کو کھا جاو بلکہ اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے قانون کے تحت جن جانوروں کو اس نے حلال کیا ہے ان کو کھاو۔ اور جن جانوروں کو حرام قرار دیا ہے ان سے بچو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی خالق کائنات ہے۔ وہ ہر جانور کی حقیقت اور خواص سے اور انسان کے اندر ان سے پیدا ہونے والے اثرات سے واقف ہے۔ وہ طیبات یعنی پاک اور ستھری چیزوں کو انسان کے لئے حلال کر دیتے ہیں۔ جن کے کھانے سے انسان کی جسمانی صحت پر یا روحانی اخلاق پر برا اثر نہ پڑے اور گندے ناپاک جانوروں سے منع فرماتے ہیں۔ جو انسانی صحت کے لئے مہلک ہیں یا ان کے اخلاق خراب کرنے والے ہیں۔ اسی لئے اس حکم عام سے چند چیزوں کا استثناء فرمایا۔
پہلا استثناء یہ ہے، الا ما یتلی علیکم۔ یعنی بجز ان جانوروں کے جن کی حرمت قرآن میں بیان کر دی گئی ہے۔ مثلاً مردار جانور یا خنزیر وغیرہ۔ دوسرا استثناء: غیر محلی حرمت سے فرمایا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ چوپائے جانور تمہارے لئے حلال ہیں، اور جنگل کا شکار بھی حلال ہے۔ مگر جبکہ تم نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا ہوا ہو، تو اس وقت شکار کرنا جرم و گناہ ہے اس سے بچو۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا۔ ان اللہ یحکم ما یرید۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے کسی کو حق نہیں کہ اس کے ماننے میں چون و چرا کرے۔ اس میں شاید اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کے لئے بعض جانوروں کو ذبح کر کے کھانے کی اجازت کوئی ظلم نہیں۔ جس مالک نے یہ سب جانیں بنائی ہیں۔ اسی نے پوری حکمت و بصیرت کے ساتھ یہ قانون بھی بنایا ہے کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کے لئے غذا بنایا ہے۔ زمین کی مٹی درختوں کی غذا ہے اور درخت جانوروں کی غذا۔ اور جانور انسان کی غذا۔ انسان سے اعلیٰ کوئی مخلوق اس دنیا میں نہیں ہے۔ اس لئے انسان کسی کی غذا نہیں بن سکتا۔
005: 002
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىِٕدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۲
ترجمہ:
اے ایمان والو حلال نہ سمجھو اللہ کی نشانیوں کو اور نہ ادب والے مہینہ کو اور نہ اس جانور کو جو نیاز کعبہ کی ہو اور نہ جن کے گلے پٹا ڈال کر لے جائیں کعبہ کو اور نہ آنے والوں کو حرمت والے گھر کی طرف جو ڈھونڈھتے ہیں فضل اپنے رب کا اور اس کی خوشی اور جب احرام سے نکلو تو شکار کر لو اور باعث نہ ہو تم کو اس قوم کی دشمنی جو کہ تم کو روکتی تھی حرمت والی مسجد سے اس پر کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
تفسیر:
ربط آیات
سورة مائدہ کی پہلی آیت میں معاہدات کے پورا کرنے کی تاکید تھی۔ ان معاہدات میں سے ایک معاہدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حلال و حرام کی پابندی کی جائے۔ اس دوسری آیت میں اس معاہدہ کی دو اہم دفعات کا بیان ہے۔ ایک شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کی بیحرمتی سے بچنے کی ہدایت، دوسرے اپنے اور غیر دوست اور دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ اور ظلم کا بدلہ ظلم سے لینے کی ممانعت۔
اس آیت کے نزول کا سبب چند واقعات ہیں۔ پہلے ان کو سن لیجئے تاکہ آیت کا مضمون پوری طرح دلنشیں ہو سکے۔ ایک واقعہ حدیبیہ کا ہے جس کی تفصیل قرآن نے دوسری جگہ بیان فرمائی ہے۔ وہ یہ کہ ہجرت کے چھٹے سال میں رسول کریمﷺ اور صحابہ کرام نے ارادہ کیا کہ عمرہ کریں۔ آنحضرتﷺ ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ساتھ احرام عمرہ باندھ کر بقصد مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ مکہ کے قریب مقام حدیبیہ میں پہنچ کر مکہ والوں کو اطلاع دی کہ ہم کسی جنگ یا جنگی مقصد کے لئے نہیں بلکہ صرف عمرہ کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ ہمیں اس کی اجازت دو۔ مشرکین مکہ نے اجازت نہ دی۔ اور بڑی سخت اور کڑی شرطوں کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اس وقت سب اپنے احرام کھول دیں اور واپس جائیں۔ آئندہ سال عمرہ کے لئے اس طرح آئیں کہ ہتھیار ساتھ نہ ہوں۔ صرف تین روز ٹھہریں۔ اور عمرہ کر کے چلے جائیں۔ اور بھی بہت سی ایسی شرائط تھیں جن کا تسلیم کر لینا بظاہر مسلمانوں کے وقار و عزت کے منافی تھا۔ رسول کریمﷺ کے حکم پر سب مطمئن ہو کر واپس ہو گئے۔ پھر ۷ ھ میں دوبارہ ماہ ذی قعدہ میں انہیں شرائط کی پابندی کے ساتھ یہ عمرہ قضا کیا گیا۔ بہر حال واقعہ حدیبیہ اور ان توہین آمیز شرائط نے صحابہ کے قلوب میں مشرکین مکہ کی طرف سے انتہائی نفرت و بغض کا بیج بو دیا تھا۔ دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ مشرکین مکہ میں سے حطیم بن ہند اپنا مال تجارت لے کر مدینہ طیبہ آیا اور مال فروخت کرنے کے بعد اپنا سامان اور آدمی مدینہ سے باہر چھوڑ کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور منافقانہ طور پر اپنا ارادہ اسلام لانے کا ظاہر کیا تاکہ مسلمان اس سے مطمئن ہو جائیں۔ لیکن نبی کریمﷺ نے اس کے آنے سے پہلے ہی بذریعہ وحی خبر پا کر صحابہ کرام کو بتلا دیا تھا کہ ہمارے پاس ایک شخص آنے والا ہے جو شیطان کی زبان سے کلام کرے گا۔ اور جب یہ واپس گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ شخص کفر سے آیا اور دھوکہ و غداری کے ساتھ لوٹا ہے، یہ شخص آنحضرتﷺ کی مجلس سے نکل کر سیدھا مدینہ سے باہر پہنچا۔ جہاں اہل مدینہ کے جانور چر رہے تھے ان کو ہنکا کر ساتھ لے گیا۔ صحابہ کرام کو اس کی اطلاع کچھ دیر میں ہوئی۔ تعاقب کے لئے نکلے تو وہ ان کی زد سے باہر جا چکا تھا۔ پھر جب ہجرت کے ساتویں سال آنحضرتﷺ صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ حدیبیہ کی قضا کے لئے جا رہے تھے تو دور سے تلبیہ کی آواز سنی اور دیکھا کہ یہی حطیم بن ہند اہل مدینہ کے ان جانوروں کو جو مدینہ سے لایا تھا بطور قربانی کے اپنے ساتھ لئے ہوئے عمرہ کرنے جا رہا ہے۔ اس وقت صحابہ کرام کا قصد ہوا کہ اس پر حملہ کر کے اپنے جانور چھین لیں اور اس کو یہیں ختم کر دیں۔
تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ ہجرت کے آٹھویں سال رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ فتح ہوا، اور تقریباً پورے عرب پر اسلامی قبضہ ہو گیا۔ اور مشرکین مکہ کو رسول کریمﷺ نے بغیر کسی انتقام کے آزاد فرما دیا۔ وہ آزادی کے ساتھ اپنے سب کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے جاہلانہ طرز پر حج و عمرہ کی رسوم بھی ادا کرتے رہے۔ اس وقت بعض صحابہ کرام کے دلوں میں واقعہ حدیبہ کا انتقام لینے کا خیال آیا کہ انہوں نے ہمیں جائز اور حق طریقہ پر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، ہم ان کو ناجائز اور غلط طریق کے عمرہ و حج کو کیوں آزاد چھوڑیں، ان پر حملہ کریں، ان کے جانور چھین لیں اور ان کو ختم کر دیں۔
یہ واقعات ابن جریر نے بروایت عکرمہ و سدی نقل کئے ہیں۔ یہ چند واقعات تھے کہ جن کی بنا پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ شعائر اللہ کی تعظیم تمہارا اپنا فرض ہے۔ کسی دشمن کے بغض و عداوت کی وجہ سے اس میں خلل ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں۔ اشہر حرم میں قتل و قتال بھی جائز نہیں۔ قربانی کے جانوروں کو حرم تک جانے سے روکنا یا ان کا چھین لینا بھی جائز نہیں اور جو مشرکین احرام باندھ کر اپنے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل و رضا حاصل کرنے کے قصد سے چلے ہیں۔ (اگرچہ بوجہ کفر ان کا یہ خیال خام ہے تاہم، شعائر اللہ کی حفاظت و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔ نیز وہ لوگ جنہوں نے تمہیں عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ ان کے بغض و عداوت کا انتقام اس طرح لینا جائز نہیں کہ مسلمان ان کو مکہ میں داخل ہونے یا شعائر حج ادا کرنے سے روک دیں۔ کیونکہ یہ ان کے ظلم کے بدلہ میں ہماری طرف سے ظلم ہو جائے گا، جو اسلام میں روا نہیں۔ اب آیت کی پوری تفسیر دیکھئے۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو بے حرمتی نہ کرو خدا تعالیٰ (کے دین) کی نشانیوں کی (یعنی جن چیزوں کے ادب کی حفاظت کے واسطے خدا تعالیٰ نے کچھ احکام مقرر کئے ہیں۔ ان احکام کے خلاف کر کے ان کی بے ادبی نہ کرو، مثلاً حرم اور احرام کا یہ ادب مقرر کیا ہے کہ اس میں شکار نہ کرو تو شکار کرنا بے ادبی اور حرام ہو گا) اور نہ حرمت والے مہینے کی (بے ادبی کرو کہ اس میں کافروں سے لڑنے لگو) اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کی (بے ادبی کرو کہ اس سے تعرض کرنے لگو) اور نہ ان جانوروں کی (بے ادبی کرو) جن کے گلے میں (اس نشانی کے لئے) پٹے پڑے ہوں (کہ یہ اللہ کی نیاز ہیں حرم میں ذبح ہوں گے) اور نہ ان لوگوں کی (بے حرمتی کرو) جو کہ بیت الحرام (یعنی بیت اللہ) کے قصد سے جا رہے ہوں (اور) اپنے رب کے فضل اور رضا مندی کے طالب ہوں (یعنی ان چیزوں کے ادب سے کافروں کے ساتھ بھی تعرض مت کرو) اور (اوپر کی آیت میں جو احرام کے ادب سے شکار کو حرام فرمایا گیا ہے وہ احرام ہی تک ہے ورنہ) جس وقت تم احرام سے باہر آ جاو تو (اجازت ہے کہ) شکار کیا کرو (بشرطیکہ وہ شکار حرم میں نہ ہو) اور (اوپر جن چیزوں کے تعرض سے منع کیا گیا ہے اس میں) ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم سے جو اس سبب سے بغض ہے کہ انہوں نے (تم کو سال حدیبیہ میں) مسجد حرام (میں جانے) سے روک دیا تھا (مراد کفار قریش ہیں) وہ (بغض) تمہارے لئے اس کا باعث ہو جاوے کہ تم (شرع کی) حد سے نکل جاو۔ (یعنی احکام مذکورہ کے خلاف کر بیٹھو، ایسا نہ کرنا) اور نیکی اور تقویٰ (کی باتوں میں) ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو (مثلاً یہ احکام ہیں کہ ان میں دوسروں کو بھی عمل کرنے کی ترغیب دو) اور گناہ اور زیادتی (کی باتوں میں) ایک دوسرے کی اعانت مت کرو (مثلاً یہی احکام ہیں اگر کوئی ان کے خلاف کرنے لگے تو تم اس کی اعانت مت کرو) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو (کہ اس سے سب احکام کی پابندی سہل ہو جاتی ہے) بلا شبہ اللہ تعالیٰ (احکام کی مخالفت کرنے والے کو) سخت سزا دینے والے ہیں۔
معارف و مسائل
آیت کے پہلے جملے میں ارشاد ہے یا ایھا الذین آمنوا لاتحلوا شعائر اللہ یعنی اے ایمان والو اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو۔ اس میں شعائر جس کا ترجمہ نشانیوں سے کیا گیا ہے شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت، اسی لئے شعائر اور شعیرہ اس محسوس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی علامت ہو۔ شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جائے گا جو عرفا مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس و مشاہد ہیں جیسے نماز، اذان، حج، ختنہ اور سنت کے موافق داڑھی وغیرہ۔ شعائر اللہ کی تفسیر اس آیت میں مختلف الفاظ سے منقول ہے مگر صاف بات وہ ہے جو بحر محیط اور روح المعانی میں حضرت حسن بصری اور عطاءؒ سے منقول ہے اور امام جصاص نے اس کو تمام اقوال کے لئے جامع فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ شعائر اللہ سے مراد تمام شرائع اور دین کے مقرر کردہ واجبات و فرائض اور ان کی حدود ہیں۔ اس آیت میں لا تحلوا شعائر اللہ کے ارشاد کا یہی حاصل ہے کہ اللہ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو۔ اور شعائر اللہ کی بے حرمتی ایک تو یہ ہے کہ سرے سے ان احکام کو نظر انداز کر دیا جائے۔ دوسرے یہ ہے کہ ان پر عمل تو کریں مگر ادھورا کریں، پورا نہ کریں۔ تیسرے یہ کہ مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر کے آگے بڑھنے لگیں۔ لا تحلوا شعائر اللہ میں ان تینوں صورتوں سے منع فرمایا گیا ہے۔
یہی ہدایت قرآن کریم نے دوسرے عنوان سے اس طرح ارشاد فرمائی ہے ومن یعظم تقویٰ القلوب۔ یعنی جو شخص اللہ کی حرمات کی تعظیم کرے تو وہ دلوں کے تقویٰ کا اثر ہے۔ آیت کے دوسرے جملہ میں شعائر اللہ کی ایک خاص قسم یعنی شعائر حج کی کچھ تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
ارشاد ہے: ولا الشھر الحرام ورضوانا۔ یعنی شہر حرام میں قتل و قتال کر کے اس کی بے حرمتی نہ کرو۔ اشہر حرم وہ چار مہینے ہیں جن میں باہمی جنگ کرنا شرعاً حرام تھا۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب بعد میں یہ حکم جمہور علماء کے نزدیک منسوخ ہو گیا، نیز حرم مکہ میں قربان ہونے والے جانور اور خصوصاً وہ جن کے گلے قربانی کی علامت کے طور پر قلادہ ڈالا گیا ہے، ان کی بے حرمتی نہ کرو۔ ان جانوروں کی بے حرمتی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ان کو حرام تک پہنچنے سے روک دیا جائے یا چھین لیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ان سے قربانی کے علاوہ کوئی دوسرا کام سواری یا دودھ حاصل کرنے وغیرہ کا لیا جائے۔ آیت نے ان سب صورتوں کو ناجائز قرار دے دیا۔
پھر فرمایا: ولا امین البیت ورضوانا یعنی ان لوگوں کی بے حرمتی نہ کرو جو حج کے لئے مسجد الحرام کا قصد کر کے گھر سے نکلے ہیں۔ اور اس سفر سے ان کا مقصود یہ ہے کہ وہ اپنے رب کا فضل اور رضا حاصل کریں۔ ان لوگوں کی بے حرمتی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سفر میں ان سے مزاحمت نہ کی جائے۔ نہ کوئی تکلیف پہنچائی جائے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: واذا حللتم فاصطادوا یعنی پہلی آیت میں بحالت احرام شکار کی جو ممانعت کی گئی ہے، اس کی حد بتلا دی گئی کہ جب تم احرام سے فارغ ہو جاؤ تو شکار کرنے کی ممانعت ختم ہو گئی۔ اب شکار کر سکتے ہو۔
آیت متذکرہ میں اس معاہدہ کے اہم جزء کا بیان ہو رہا ہے جو ہر انسان اور رب العالمین کے درمیان ہے۔ اس کے چند اجزاء کا یہاں تک بیان ہوا ہے۔ جس میں اول مطلقاً شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کی بے حرمتی سے بچنے کی ہدایت ہے اور پھر خاص طور پر ان شعائر اللہ کی کچھ تفصیلات ہیں جو حج سے متعلق ہیں۔ ان میں بقصد حج آنے والے مسافروں اور ان کے ساتھ آنے والے قربانی کے جانوروں سے کسی قسم کی مزاحمت نہ کرنے اور ان کی بے حرمتی سے بچنے کی ہدایت کی ہے۔
اس کے بعد معاہدہ کا دوسرا جز اس طرح ارشاد فرمایا: ولا یجر منکم شنان قوم ان صدوکم عن المسجد الحرام۔ یعنی جس قوم نے تم کو واقعہ حدیبیہ کے وقت مکہ میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ اور تم سخت غم و غصہ کے ساتھ ناکام واپس آ رہے تھے۔ اب جبکہ تم کو قوت اور قدرت حاصل ہے تو ایسا نہ ہونا چاہیے کہ پچھلے واقعہ کے غم و غصہ اور بغض کا انتقام اس طرح لیا جائے کہ تم ان کو بیت اللہ اور مسجد حرام میں داخل ہونے اور حج کرنے سے روکنے لگو۔ کیونکہ یہ ظلم ہے۔ اور اسلام ظلم کا انتقام ظلم سے لینا نہیں چاہتا۔ بلکہ ظلم کے بدلہ میں انصاف کرنا اور انصاف پر قائم رہنا سکھلاتا ہے۔ انہوں نے اپنی قوت و اقتدار کے وقت مسلمانوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے ظلماً روک دیا تھا۔ تو اس کا جواب یہ نہ ہونا چاہیے کہ اب مسلمان اپنے اقتدار کے وقت ان کو ان افعال حج سے روک دیں۔
قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ عدل و انصاف میں دوست و دشمن سب برابر ہونے چاہئیں تمہارا دشمن کیسا ہی سخت ہو اور اس نے تمہیں کیسی ہی ایذا پہنچائی ہو اس کا معاملہ بھی انصاف ہی کرنا تمہارا فرض ہے۔
یہ اسلام ہی کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ دشمنوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ان کے ظلم کا جواب ظلم سے نہیں بلکہ انصاف سے دینا سکھاتا ہے۔
باہمی تعاون و تناصر کا قرآنی اصول
ولا تعاونوا علی البر تا واللہ شدید العقاب۔ یہ سورة مائدہ کی دوسری آیت کا آخری جملہ ہے۔ اس میں قرآن حکیم نے ایک ایسے اصولی اور بنیادی مسئلہ کے متعلق ایک حکیمانہ فیصلہ دیا ہے جو پورے نظام عالم کی روح ہے۔ اور جس پر انسان کی ہر اصلاح و فلاح بلکہ خود اس کی زندگی اور بقا موقوف ہے وہ مسئلہ ہے باہمی تعاون و تناصر کا۔ ہر ذی ہوش انسان جانتا ہے کہ اس دنیا کا پورا انتظام انسانوں کے باہمی تعاون و تناصر پر قائم ہے۔ اگر ایک انسان دوسرے انسان کی مدد نہ کرے تو کوئی اکیلا انسان خواہ وہ کتنا ہی عقلمند یا کتنا ہی زور آور یا مالدار ہو، اپنی ضرورت زندگی کو تنہا حاصل نہیں کر سکتا۔ اکیلا انسان نہ اپنی غذا کے لئے غلہ اگانے سے لے کر کھانے کے قابل بنانے تک کے تمام مراحل کو طے کر سکتا ہے۔ نہ لباس وغیرہ کے لئے روئی کی کاشت سے لے کر اپنے بدن کے موافق کپڑا تیار کرنے تک بیشمار مسائل کا حل کر سکتا ہے اور نہ اپنے بوجھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتا ہے۔ غرض ہر انسان اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں دوسرے ہزاروں، لاکھوں انسانوں کا محتاج ہے۔ ان کے باہمی تعاون و تناصر سے ہی سارا دنیا کا نظام چلتا ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو یہ تعاون دنیوی زندگی ہی میں ضروری نہیں۔ مرنے سے لے کر قبر میں دفن ہونے تک کے سارے مراحل بھی اسی تعاون کے محتاج ہیں۔ بلکہ اس کے بعد بھی اپنے پیچھے رہنے والوں کی دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا محتاج رہتا ہے۔
حق جل شانہٗ نے اپنی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ سے اس جہان کا ایسا محکم نظام بنایا ہے کہ ہر انسان کو دوسرے کا محتاج بنا دیا۔ غریب آدمی پیسوں کے لئے مالدار کا محتاج ہے تو بڑے سے بڑا مالدار بھی محنت و مشقت کے لئے غریب مزدور کا محتاج ہے۔ سوداگر گاہکوں کا محتاج ہے۔ اور گاہک سوداگروں کا۔ مکان بنانے والا معمار، لوہار، بڑھئی کا محتاج ہے اور یہ سب اس کے محتاج ہیں۔ اگر یہ ہمہ گیر احتیاج نہ ہوئی اور تعاون محض اخلاقی برتری پر رہ جاتا تو کون کس کا کام کرتا۔ اس کا وہی حشر ہوتا جو عام اخلاقی قدروں کا اس دنیا میں ہو رہا ہے اور اگر یہ تقسیم کار کسی حکومت یا بین الاقوامی ادارہ کی طرف سے بصورت قانون کر بھی دی جاتی تو اس کا بھی وہی انجام ہوتا جو آج پوری دنیا کے قانون کا ہو رہا ہے کہ قانون ایکٹیوں میں محفوظ ہے۔ اور بازار اور دفاتر میں رشوت، بے جا رعایت، فرض ناشناسی اور بے عملی کا قانون چل رہا ہے۔ یہ محض حکیم الحکماء، قادر مطلق کا الٰہی نظام ہے کہ مختلف لوگوں کے دلوں میں مختلف کاروبار کی امنگ اور صلاحیت پیدا کر دی۔ انہوں نے اپنی اپنی زندگی کا محور اسی کام کو بنا لیا
ہر یکے رابہر کارے ساختند
میل اور ادریش انداختند!
ورنہ اگر کوئی بین الاقوامی ادارہ یا کوئی حکومت لوگوں میں تقسیم کار کرتی اور کسی جماعت کو بڑھئی کے کام کے لئے، کسی کو لوہار کے کام کے لئے، کسی کو خاکروب کے کام کے لئے، کسی کو پانی کے لئے، کسی کو خوراک کے لئے مقرر کرتی، تو کون اس کے حکم کی ایسی اطاعت کرتا کہ دن کا چین اور رات کی نیند خراب کر کے اس کام میں لگ جاتا۔
اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے ہر انسان کو جس کام کے لئے پیدا کیا ہے اس کام کی رغبت اس کے دل میں ڈال دی۔ وہ بغیر کسی قانونی مجبوری کے اس خدمت ہی کو اپنی زندگی کا کام سمجھتا ہے اس کے ذریعہ اپنی روزی حاصل کرتا ہے۔ اس نظام محکم کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان کی ساری ضروریات چند ٹکے خرچ کرنے سے بآسانی حاصل ہو جاتی ہے۔ پکا پکایا کھانا، سلا سلایا کپڑا، بنا بنایا فرنیچر، تیار شدہ مکان سب کچھ ایک انسان کچھ پیسے خرچ کر کے حاصل کر لیتا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہوتا تو ایک کروڑ پتی انسان اپنی پوری دولت لٹا کر بھی گندم کا ایک دانہ حاصل نہ کر سکتا۔ اسی قانونی نظام کا نتیجہ ہے کہ آپ ہوٹل میں قیام پذیر ہو کر جس جس چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں اگر ان کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ آٹا امریکہ کا، گھی پنجاب کا، گوشت سندھ کا، مصالحے مختلف ملکوں کے، برتن اور فرنیچر مختلف ملکوں کا، کام کرنے والے بیرے باورچی مختلف شہروں کے آپ کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ایک لقمہ جو آپ کے منہ تک پہنچا ہے اس میں لاکھوں مشینوں، جانوروں اور انسانوں نے کام کیا ہے۔ تب یہ آپ کے ذائقہ کو سنوار سکا ہے۔ آپ صبح گھر سے نکلے تین چار میل جانا ہے جس کی طاقت یا فرصت آپ کو نہیں۔ آپ کو اپنے کسی قریبی مقام میں ٹیکسی اور رکشہ یا بس کھڑی ہوئی ملے گی۔ جس کا لوہا آسٹریلیا کا، لکڑی برما کی، مشینری امریکہ کی، ڈرائیور فرنٹیر کا، کنڈکٹر یو پی کا۔ یہ کہاں کہاں کے سامان اور کہاں کہاں کی مخلوق آپ کی خدمت کے لئے کھڑی ہے کہ صرف چند پیسے دے کر آپ ان سب سے خدمت لے لیں۔ ان کو کس حکومت نے مجبور کیا ہے یا کس نے پابند کیا ہے کہ یہ ساری چیزیں آپ کے لئے مہیا کر دیں۔ سوائے اس قانون قدرت کے جو قلوب کے مالک نے تکوینی طور پر ہر ایک کے دل پر جاری فرما دیا ہے۔
آج کل سوشلسٹ ممالک نے اس قدرتی نظام کو بدل کر ان چیزوں کو حکومت کی ذمہ داری بنا لیا۔ کہ کون انسان کیا کام کرے۔ اس کے لئے ان کو سب سے پہلے جبرو ظلم کے ذریعہ انسانی آزادی سلب کرنا پڑی جس کے نتیجہ میں ہزاروں انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ہزاروں کو قید کیا گیا۔ باقی ماندہ انسانوں کو شدید جبر و ظلم کے ذریعہ مشین کے پرزوں کی طرح استعمال کیا۔ جس کے نتیجہ میں اگر کسی جگہ کچھ اشیاء کی پیداوار بڑھ بھی گئی تو انسانوں کی انسانیت ختم کر کے بڑھی۔ تو یہ سودا سستا نہیں پڑا۔ قدرتی نظام میں ہر انسان آزاد بھی ہے اور قدرتی تقسیم طبائع کی بنا پر خاص خاص کاموں کے لئے مجبور بھی اور وہ مجبوری بھی چونکہ اپنی طبیعت سے ہے۔ اس لئے اس کو کوئی بھی جبر محسوس نہیں کرتا۔ سخت سے سخت محنت اور ذلیل سے ذلیل کام کے لئے خود آگے بڑھنے والے اور کوشش کر کے حاصل کرنے والے ہر جگہ ہر زمانے میں ملتے ہیں۔ اور اگر کوئی حکومت ان کو اس کام کے لئے مجبور کرنے لگے تو یہ سب اس سے بھاگنے لگیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ساری دنیا کا نظام باہمی تعلق پر قائم ہے۔ لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ اگر جرائم، چوری، ڈاکہ، قتل و غارتگری وغیرہ کے لئے یہ باہمی تعاون ہونے لگے۔ چور اور ڈاکوؤں کی بڑی بڑی اور منظم قوی جماعتیں بن جائیں تو یہی تعاون و تناصر اس عالم کے سارے نظام کو درہم برہم بھی کر سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ باہمی تعاون ایک دو دھاری تلوار ہے جو اپنے اوپر بھی چل سکتی ہے۔ اور نظام عالم کو برباد بھی کر سکتی ہے۔ اور یہ عالم چونکہ خیر و شر اور اچھے برے، نیک و بد کا ایک مرکب معجون ہے۔ اس لئے اس میں ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہیں تھا کہ جرائم اور قتل و غارت یا نقصان رسانی کے لئے باہمی تعاون کی قوت استعمال کرنے لگیں۔ اور یہ صرف احتمال نہیں بلکہ واقعہ بن کر دنیا کے سامنے آ گیا۔ تو اس کے رد عمل کے طور پر عقلائے دنیا نے اپنے تحفظ کے لئے مختلف نظریوں پر خاص خاص جماعتوں یا قوموں کی بنیاد ڈالی۔ کہ ایک جماعت یا ایک قوم کے خلاف جب کوئی دوسری جماعت یا قوم حملہ آور ہو تو یہ سب ان کے مقابلہ میں باہمی تعاون کی قوت کو استعمال کر کے مدافعت کر سکیں۔
قومیتوں کی تقسیم
عبد الکریم شہرستانی کی ملل و نحل میں ہے کہ شروع میں جب تک انسانی آبادی زیادہ نہیں تھی تو دنیا کے چار سمتوں کے اعتبار سے چار قومیں بن گئیں۔ مشرقی، مغربی، جنوبی، شمالی۔ ان میں سے ہر ایک سمت کے لوگ اپنے آپ کو ایک قوم اور دوسروں کو دوسری قوم سمجھنے لگے۔ اور اسی بنیاد پر تعاون و تناصر قائم کر لیا۔ اس کے بعد جب آبادی زیادہ پھیلی تو ہر سمت کے لوگوں میں نسبی اور خاندانی بنیادوں پر قومیت اور اجتماعیت کا تصور ایک اصول بن گیا۔ عرب کا سارا نظام اسی نسبی اور قبائلی بنیاد پر تھا۔ اسی پر جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ بنو ہاشم ایک قوم، بنو تمیم دوسری قوم، بنو خزاعہ تیسری قوم۔ ہندوستان کے ہندوؤں میں تو آج تک اونچی ذات اور نیچی ذات کی تفریق اسی طرح چل رہی ہے۔
یورپین اقوام کے دور جدید نے نہ کوئی اپنا نسب باقی رکھا۔ نہ دنیا کے انساب کو کچھ سمجھا، جب دنیا میں ان کا عروج ہوا تو نسبی اور قبائلی قومیتیں اور تقسیمیں ختم کر کے پھر علاقائی اور صوبائی، وطنی اور لسانی بنیادوں پر انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے الگ الگ قومیں کھڑی کر دی گئیں۔ اور آج یہی سکہ تقریباً ساری دنیا میں چل رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ جادو مسلمانوں پر بھی چل گیا۔ عربی، ترکی، عراقی، سندھی کی تقسیمیں ہی نہیں بلکہ ان میں بھی تقسیم در تقسیم ہو کر مصری، شامی، حجازی، نجدی اور پنچابی، بنگالی، سندھی، ہندی وغیرہ کی الگ الگ قوم بن گئی۔ حکومت کے سب کاروبار انھیں بنیادوں پر چلائے گئے۔ یہاں تک کہ یہ صوبائی عصبیت ان کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ اور ہر صوبہ کے لوگوں کا تعاون و تناصر اسی بنیاد پر ہونے لگا۔
قومیت اور اجتماعیت کے لئے قرآنی تعلیم
قرآن کریم نے انسان کو پھر بھولا ہوا سبق یار دلایا۔ سورة نساء کی شروع آیات میں یہ واضح کر دیا کہ تم سب انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہو۔ رسول کریمﷺ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے حجة الوداع کے خطبہ میں اعلان کر دیا کہ کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کا مدار صرف تقویٰ اور اطاعت خدائے تعالیٰ پر ہے۔ اس قرآنی تعلیم نے انما المؤمنون اخوة کا اعلان کر کے حبشہ کے کالے بھجنگ کو سرخ ترکی اور رومی کا، عجم کی نچلی ذات کے انسانوں کو عرب کے قریشی اور ہاشمی کا بھائی بنا دیا۔ قومیت اور برادری اس بنیاد پر قائم کی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ماننے والے ایک قوم۔ اور نہ ماننے والے دوسری قوم ہیں۔ یہی وہ بنیاد تھی جس نے ابو جہل اور ابو لہب کے خاندانی رشتوں کو رسول کریمﷺ سے توڑ دیا۔ اور بلال حبشی اور صہیب رومی کا رشتہ جوڑ دیا۔
حسن زبصرہ بلال زحبش صہیب از روم
زخاک مکہ ابو جہل ایں چہ بوابعجی ست
حتی کہ قرآن کریم نے اعلان کر دیا خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سب کو پیدا کیا۔ پھر تم دو حصوں میں بٹ گئے۔ کچھ کافر ہو گئے۔ کچھ مؤمن، بدر واحد اور احزاب و حنین کے معرکوں میں اسی قرآنی تقسیم کا عملی مظاہرہ ہوا تھا کہ نسبی بھائی جب خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے باہر ہوا تو مسلمان بھائی کا رشتہ اخوت و تعاون اس سے کٹ گیا اور وہ اس کی تلوار کی زد میں آ گیا۔ نسبی بھائی تلوار لے کر مقابلہ پر آیا تو اسلامی بھائی امداد کے لئے پہنچا۔ غزوہ بدر واحد اور خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں
ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد
فدائی یک تن بیگانہ کہ آشنا باشد
آیت مذکورہ میں قرآن حکیم نے تعاون و تناصر کا یہی معقول اور صحیح اصول بتلایا ہے۔ وتعاونوا علی البر والعدوان۔ یعنی نیکی اور خدا ترسی پر تعاون کرو۔ بدی اور ظلم پر تعاون نہ کرو۔
غور کیجئے کہ اس میں قرآن کریم نے یہ عنوان بھی اختیار نہیں فرمایا کہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کرو اور غیروں کے ساتھ نہ کرو۔ بلکہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے کی جو اصل بنیاد ہے، یعنی نیکی اور خدا ترسی اسی کو تعاون کرنے کی بنیاد قرار دیا۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھائی بھی اگر حق کے خلاف یا ظلم و جور کی طرف چل رہا ہو تو ناحق اور ظلم پر اس کی بھی مدد نہ کرو۔ بلکہ اس کی کوشش کرو کہ ناحق اور ظلم سے اس کا ہاتھ روکو۔ کیونکہ در حقیقت یہی اس کی صحیح امداد ہے تاکہ ظلم و جور سے اس کی دنیا اور آخرت تباہ نہ ہو۔
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: انصر اخاک ظالما او مظلوما۔ یعنی اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ کرامؓ جو قرآنی تعلیم میں رنگے جا چکے تھے، انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ مظلوم بھائی کی امداد تو ہم سمجھ گئے مگر ظالم کی امداد کا کیا مطلب ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو ظلم سے روکو۔ یہی اس کی امداد ہے۔
قرآن کریم کی اس تعلیم نے بر و تقویٰ یعنی نیکی اور خدا ترسی کو اصل معیار بنایا۔ اسی پر مسلم قومیت کی تعمیر کھڑی کی۔ اس پر تعاون و تناصر کی دعوت دی۔ اس کے بالمقابل اثم و عدوان کو سخت جرم قرار دیا۔ اس پر تعاون کرنے سے روکا۔ بر و تقویٰ کے دو لفظ اختیار فرمائے۔ جمہور مفسرین نے بر کے معنی اس جگہ فعل الخیرات یعنی نیک عمل قرار دیے ہیں اور تقویٰ کے معنی ترک المنکرات یعنی برائیوں کا ترک بتلائے ہیں۔ اور لفظ اثم مطلق گناہ اور معصیت کے معنی میں ہے۔ خواہ وہ حقوق سے متعلق ہو یا عبادات سے اور عدوان کے لفظی معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ مراد اس سے ظلم و جور ہے۔
بر و تقویٰ پر تعاون اور امداد کرنے کے لئے رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: الدال علی الخیر کفاعلہ۔ یعنی جو شخص کسی کو نیکی کا راستہ بتا دے تو اس کا ثواب ایسا ہی ہے جیسے اس نیکی کو اس نے خود کیا ہو۔ یہ حدیث ابن کثیر نے بحوالہ بزار نقل فرمائی ہے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کو ہدایت اور نیکی کی طرف دعوت دے تو جتنے آدمی اس کی دعوت پر نیک عمل کریں گے، ان سب کی برابر اس کو بھی ثواب ملے گا۔ بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے۔ اور جس شخص نے لوگوں کو کسی گمراہی یا گناہ کی طرف بلایا۔ تو جتنے لوگ اس کے بلانے سے گناہ میں مبتلا ہوئے ان سب کے گناہوں کی برابر اس کو بھی گناہ ہو گا۔ بغیر اس کے کہ ان گناہوں میں کچھ کمی کی جائے۔
اور ابن کثیر نے بروایت طبرانی نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کرنے کے لئے چلا وہ اسلام سے نکل گیا۔ اسی پر سلف صالحین نے ظالم بادشاہوں کی ملازمت اور کوئی عہدہ قبول کرنے سے سخت احتراز کیا ہے۔ کہ اس میں ان کے ظلم کی امداد و اعانت ہے۔ تفسیر روح المعانی میں آیت کریمہ فلن اکون ظہیرا للمجرمین کے تحت یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز آواز دی جائے گی کہ کہاں ہیں ظالم لوگ اور ان کے مددگار یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے ظالموں کے دوات، قلم کو درست کیا ہے۔ وہ بھی سب ایک لوہے کے تابوت میں جمع کر کے جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔
یہ ہے قرآن و سنت کی وہ تعلیم جس نے دنیا میں نیکی، انصاف، ہمدردی اور خوش خلقی پھیلانے کے لئے ملت کے ہر فرد کو ایک داعی بنا کر کھڑا کر دیا تھا۔ اور جرائم و ظلم و جور کے انسداد کے لئے ہر فرد ملت کو ایک ایک ایسا سپاہی بنا دیا تھا جو خفیہ اور علانیہ اپنی ڈیوٹی بجا لانے پر خوف خدا تعالیٰ کی وجہ سے مجبور تھا۔ اسی حکیمانہ تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا جو دنیا نے صحابہ و تابعین کے قرن میں دیکھا۔ آج بھی جب کسی ملک میں جنگ کا خطرہ لاحق ہوتا ہے تو شہری دفاع کے محکمے قائم کر کے ہر فرد قوم کو کچھ فنون کی تعلیم کا تو اہتمام کیا جاتا ہے مگر جرائم کے انسداد کے لئے اس کا کہیں اہتمام نہیں ہے کہ لوگوں کو خیرکا داعی اور شر کو روکنے والا سپاہی بنانے کی کوشش کریں۔ اور ظاہر ہے کہ اس کی مشق نہ فوجی پریڈ سے ہوتی ہے نہ شہری دفاع کے طریقوں سے۔ یہ ہنر تو تعلیم گاہوں میں سیکھنے سکھانے کا ہے جو آج کل بدقسمتی سے ان چیزوں کے نام سے نا آشنا ہے۔ بر و تقویٰ اور ان کی تعلیمات کا داخلہ آج کل کی عام تعلیم گاہوں میں ممنوع ہے۔ اور اثم وعدوان کا ہر راستہ کھلا ہوا ہے۔ پھر یہ بیچاری پولیس کہاں تک جرائم کی روک تھام کرے۔ جب ساری قوم حلال و حرام اور حق و ناحق سے بیگانہ ہو کر جرائم پیشہ بن جائے۔ آج جو جرائم کی کثرت چوری، ڈاکہ، فحاشی، قتل و غارت گری کی فراوانی ہر جگہ اور ہر ملک میں روزبروز زیادہ تر ہوتی جاتی ہیں اور قانونی مشینری ان کے انسداد سے عاجز ہے۔
اس کے یہی دو سبب ہیں کہ ایک طرف تو حکومتیں اس قرآنی نظام سے دور ہیں، ان کے ارباب اقتدار اپنی زندگی کو بر و تقویٰ کے اصول پر ڈالتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ اگرچہ اس کے نتیجہ میں ہزاروں تلخیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ کاش وہ اس تلخ گھونٹ کو ایک دفعہ تجربہ کے لئے ہی پی جائیں، اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا تماشہ دیکھیں کہ کس طرح ان کو اور عوام کو امن و سکون اور چین و راحت کی حیات طیبہ عطا ہوتی ہے۔
دوسری طرف عوام نے یہ سمجھ لیا کہ انسداد جرائم صرف حکومت کا کام ہے۔ وہ ہر جرائم پیشہ کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ محض احقاق حق اور انسداد جرائم کے لئے سچی شہادت سے گریز کرنا جرم کی اعانت ہے جو ازروئے قرآن کریم حرام اور سخت گناہ ہے۔ اور ولا تعاونوا والعدوان کے حکم سے بغاوت ہے۔
***