محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید کی جمع و ترتیب شدہ نہایت بسیط اور اہم تفسیر
معارف القرآن
جلد ۔ سوم
( سورۃ یونس تا سورۃ النحل)
از قلم
مفتی محمد شفیع عثمانی
( یہ سات جلدوں میں شائع کی جائے گی ان شاء اللہ، ہر جلد ایک قرآنی منزل پر مشتمل ہو گی، یہ تیسری جلد ہی تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ براہ کرم بقیہ جلدوں کے لئے انتظار فرمائیں۔)
نوٹ: قرآنی متن القلم، قرآن فانٹ میں رکھا گیا ہے، اگر یہ آپ کے پاس موجود نہ ہو تو ڈاؤن لوڈ کریں۔ پی ڈی ایف فائل بھی اسی باعث فراہم کی جا رہی ہے۔
متن کا ماخذ
http://equraanlibrary.com
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
۱۳۔ سورۃ رعد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
سورة رعد مکہ میں نازل ہوئی اور اس میں تینتالیس آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔
013: 001
الٓمّٓرٰ ۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ۱
ترجمہ:
یہ آیتیں ہیں کتاب کی اور جو کچھ اترا تجھ پر تیرے رب سے سو حق ہے لیکن بہت لوگ نہیں مانتے۔
تفسیر:
خلاصہ تفسیر:
الٓمٓرٰ (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (جو آپ سن رہے ہیں) آیتیں ہیں ایک بڑی کتاب (یعنی قرآن) کی اور جو کچھ آپﷺ پر آپﷺ کے رب کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے یہ بالکل سچ ہے اور (اس کا مقتضا یہ تھا کہ سب ایمان لاتے) لیکن بہت سے آدمی ایمان نہیں لاتے (ربط، اوپر حقیقت قرآن کا مضمون تھا آگے توحید کا مضمون ہے جو کہ اعظم مقاصد قرآن سے ہے) اللہ ایسا (قادر) ہے کہ اس نے آسمانوں کو بدون ستون کے اونچا کھڑا کر دیا چنانچہ تم ان (آسمانوں) کو (اسی طرح) دیکھ رہے ہو پھر عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے) اور آفتاب و ماہتاب کو کام میں لگا دیا (ان دونوں میں سے) ہر ایک (اپنے مدار پر) ایک وقت معین میں چلتا رہتا ہے (چنانچہ سورج اپنے مدار کو سال بھر میں قطع کر لیتا ہے اور چاند مہینہ بھر میں) وہی (اللہ) ہر کام کی (جو کچھ عالم میں واقع ہوتا ہے) تدبیر کرتا ہے (اور) دلائل (تکوینیہ و تشریعیہ) کو صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے پاس جانے کا (یعنی قیامت کا) یقین کر لو (اس کے امکان کا تو اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ ایسی عظیم چیزوں کی تخلیق پر قادر ہے تو مردوں کو زندہ کرنے پر کیوں نہیں قادر ہو گا اور اس کے وقوع کا یقین اس طرح کہ مخبر صادق نے ایک امر ممکن کے وقوع کی خبر دی لامحالہ وہ سچی اور صحیح ہے) اور وہ ایسا ہے کہ اس نے زمین کو پھیلا دیا اور اس (زمین) میں پہاڑ اور نہریں پیدا کیں اور اس میں ہر قسم کے پھلوں سے دو دو قسم کے پیدا کئے (مثلاً کھٹے اور میٹھے یا چھوٹے اور بڑے کوئی کسی رنگ کا اور کوئی کسی رنگ کا اور) شب (کی تاریکی) سے دن (کی روشنی) کو چھپا دیتا ہے (یعنی شب کی تاریکی سے دن کی روشنی پوشیدہ اور زائل ہو جاتی ہے) ان امور (مذکورہ) میں سوچنے والوں کے (سمجھنے کے) واسطے (توحید پر) دلائل (موجود) ہیں (جس کی تقریر پارہ دوم کے رکوع چہارم کے شروع میں گذری ہے) اور (اسی طرح اور بھی دلائل ہیں توحید کے چنانچہ) زمین میں پاس پاس (اور پھر) مختلف قطعے ہیں (جن کا باوجود متصل ہونے کے مختلف الاثر ہونا عجیب بات ہے) اور انگوروں کے باغ ہیں اور (مختلف) کھیتیاں ہیں اور کھجور (کے درخت) ہیں جن میں بعضے تو ایسے ہیں کہ ایک تنہ اوپر جا کر دو تنے ہو جاتے ہیں اور بعضوں میں دو تنے نہیں ہوتے (بلکہ جڑ سے شاخوں تک ایک ہی چلا جاتا ہے اور) سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور) سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور (باوجود اس کے پھر بھی) ہم ایک کو دوسرے پر پھلوں میں فوقیت دیتے ہیں ان امور (مذکورہ) میں (بھی) سمجھداروں کے (سمجھنے کے) واسطے (توحید کے) دلائل (موجود) ہیں۔
معارف و مسائل:
یہ سورة مکی ہے اور اس کی کل آیتیں تینتالیس ہیں اس سورة میں بھی قرآن مجید کا کلام حق ہونا اور توحید و رسالت کا بیان اور شبہات کے جوابات مذکور ہیں۔
الٓمٓرٰ یہ حروف مقطعہ ہیں جن کے معنی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں امت کو اس کے معنی نہیں بتلائے گئے عام امت کو اس کی تحقیق میں پڑنا بھی مناسب نہیں۔
حدیث رسول بھی قرآن کی طرح وحی الٰہی ہے:
پہلی آیت میں قرآن کریم کے کلام الٰہی اور حق ہونے کا بیان ہے کتاب سے مراد قرآن ہے اور والذیٓ انزل الیک من ربک سے بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن ہی مراد ہو لیکن واؤ حرف عطف بظاہر یہ چاہتا ہے کہ کتاب اور الذیٓ انزل الیک دو چیزیں الگ الگ ہوں اس صورت میں کتاب سے مراد قرآن اور الذیٓ انزل الیک سے مراد وہ وحی ہو گی جو علاوہ قرآن کے رسول کریمﷺ پر آئی ہے کیونکہ اس میں تو کوئی کلام نہیں ہو سکتا کہ رسول کریمﷺ پر آنے والی وحی صرف قرآن میں منحصر نہیں خود قرآن کریم میں وما ینطق عن الہوٰى ان ہو الا وحی یوحٰى یعنی رسول کریمﷺ جو کچھ کہتے ہیں وہ کسی اپنی غرض سے نہیں کہتے بلکہ ایک وحی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بھیجی جاتی ہے اس سے ثابت ہوا کہ رسول کریمﷺ جو قرآن کے علاوہ دوسرے احکام دیتے ہیں وہ بھی منزل من اللہ ہی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے اور اس کی تلاوت نہیں ہوتی اور اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے معانی اور الفاظ دونوں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور قرآن کے علاوہ حدیث میں جو احکام آپ دیتے ہیں ان کے بھی معانی اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل ہوتے ہیں مگر الفاظ منزل من اللہ نہیں ہوتے اسی لئے نماز میں ان کی تلاوت نہیں کی جا سکتی۔
معنی آیت کے یہ ہو گئے کہ یہ قرآن اور جو کچھ احکام آپﷺ پر نازل کئے جاتے ہیں وہ سب حق ہیں جن میں کسی شک و شبہ کی گنچائش نہیں لیکن اکثر لوگ غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے اس پر ایمان نہیں لاتے۔
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کے دلائل مذکور ہیں کہ اس کی مخلوقات اور مصنوعات کو ذرا غور سے دیکھو تو یہ یقین کرنا پڑے گا کہ ان کی بنانے والی کوئی ایسی ہستی ہے جو قادر مطلق ہے اور تمام مخلوقات و کائنات اس کے قبضہ میں ہیں۔
013: 002
اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ ؕ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ۲
ترجمہ:
اللہ وہ ہے جس نے اونچے بنائے آسمان بغیر ستون دیکھتے ہو تم ان کو پھر قائم ہوا عرش پر اور کام میں لیا دیا سورج اور چاند کو ہر ایک چلتا ہے وقت مقرر پر تدبیر کرتا ہے کام کی ظاہر کرتا ہے نشانیاں کہ شاید تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کرو۔
تفسیر:
ارشاد فرمایا: اللٰہ الذی رفع السمٰوٰت بغیر عمد ترونہا یعنی اللہ ایسا ہے جس نے آسمانوں کے اتنے بڑے وسیع اور بلند رقبہ کو بغیر کسی ستون کے اونچا کھڑا کر دیا جیسا کہ تم ان آسمانوں کو اسی حالت میں دیکھ رہے ہو۔
کیا آسمان کا جرم آنکھوں سے نظر آتا ہے:
عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نیلا رنگ جو ہمیں اوپر نظر آتا ہے آسمان کا رنگ ہے مگر فلاسفہ کہتے ہیں کہ یہ رنگ روشنی اور اندھیری کی آمیزش سے محسوس ہوتا ہے کیونکہ نیچے ستاروں کی روشنی اور اس کی اوپر اندھیرا ہے تو باہر سے رنگ نیلا محسوس ہوتا ہے جیسے گہرے پانی پر روشنی پڑتی ہے تو وہ نیلا نظر آتا ہے قرآن کریم کی چند آیات ایسی ہیں جن میں آسمان کے دیکھنے کا ذکر ہے جیسے اسی آیت مذکورہ میں ترونہا کے الفاظ ہیں اور دوسری آیت میں والى السمآء کیف رفعت کے الفاظ ہیں فلاسفہ کی یہ تحقیق اول تو اس کے منافی نہیں کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ آسمان کا رنگ بھی نیلگوں ہو یا کوئی دوسرا رنگ ہو مگر درمیانی روشنی اور اندھیری کے امتزاج سے نیلا نظر آتا ہو اس سے انکار کی کوئی دلیل نہیں کہ اس فضاء کے رنگ میں آسمان کا رنگ بھی شامل ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کریم میں جہان آسمان کے دیکھنے کا ذکر ہے وہ حکمی اور مجازی ہو کہ آسمان کا وجود ایسے یقینی دلائل سے ثابت ہے کہ گویا دیکھ ہی لیا (روح المعانی)۔
اس کے بعد فرمایا (آیت) ثم استوٰى علی العرش یعنی پھر عرش پر جو تخت سلطنت کے مشابہ ہے قائم اور اس طرح جلوہ فرما ہوا جو اس کی شان کے لائق ہے اس جلوہ فرمانے کی کیفیت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا اتنا اعتقاد رکھنا کافی ہے کہ جس طرح کا استواء شان الٰہی کے شایان ہے وہ مراد ہے۔
وسخر الشمس والقمر کل یجری لاجل مسمى یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند مسخر اور تابع حکم کیا ہوا ہے ان میں سے ایک معین رفتار سے چلتا ہے۔
مسخر کرنے سے مراد یہ ہے کہ دونوں کو جس جس کام پر لگا دیا ہے برابر لگے ہوئے ہیں ہزاروں سال گذر گئے ہیں لیکن نہ کبھی ان کی رفتار میں کمی بیشی ہوتی ہے نہ تھکتے ہیں نہ کبھی اپنے مقررہ کام کے خلاف کسی دوسرے کام میں لگتے ہیں اور معین مدت کی طرف چلنے کے معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پورے عالم دنیا کے لئے جو آخری مدت قیامت متعین ہے سب اسی کی طرف چل رہے ہیں اس منزل پر پہنچ کر ان کا یہ سارا نظام ختم ہو جائے گا۔
اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر ایک سیارے کے لئے ایک خاص رفتار اور خاص مدار مقرر کر دیا ہے وہ ہمیشہ اپنے مدار پر اپنے مدار پر اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ چلتا رہتا ہے چاند اپنے مدار کو ایک ماہ میں پورا کر لیتا ہے اور آفتاب سال بھر میں پورا کرتا ہے۔
ان سیاروں کا عظیم الشان وجود پھر ایک خاص مدار پر خاص رفتار کے ساتھ ہزاروں سال سے یکساں انداز میں اسی طرح چلتے رہنا کہ نہ کبھی ان کی مشین گھستی ہے نہ ٹوٹتی ہے نہ اس کو گریسنگ کی ضرورت ہوتی ہے انسانی مصنوعات میں سائنس کی اس انتہائی ترقی کے بعد بھی اس کی نظیر تو کیا اس کا ہزارواں حصہ ملنا بھی نا ممکن ہے یہ نظام قدرت بآواز بلند پکار رہا ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والی کوئی ایسی ہستی ضرور ہے جو انسان کے ادراک و شعور سے بالاتر ہے۔
ہر چیز کی تدبیر در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے انسانی تدبیر برائے نام ہے:
یدبر الامر یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے انسان جو اپنی تدبیروں پر نازاں ہے ذرا آنکھ کھول کر دیکھے تو معلوم ہو گا کہ اس کی تدبیر کسی چیز کو نہ پیدا کر سکتی ہے نہ بنا سکتی ہے اس کی ساری تدبیروں کا حاصل اس سے زیادہ نہیں کہ خداوند سبحانہ و تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کا صحیح استعمال سمجھ لے تمام اشیاء عالم کے استعمال کا نظام بھی اس کی قدرت سے خارج ہے کیونکہ انسان اپنے ہر کام میں دوسرے ہزاروں انسانوں، جانوروں، اور دوسری مخلوقات کا محتاج ہے جن کو اپنی تدبیر سے اپنے کام میں نہیں لگا سکتا قدرت خداوندی ہی نے ہر چیز کی کڑی دوسری چیز سے اس طرح جوڑی ہے کہ ہر چیز کھینچی چلی آتی ہے آپ کو مکان بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو نقشہ بنانے والے آرکٹیکٹ سے لے رنگ و روغن کرنے والوں تک سینکڑوں انسان اپنی جان اور اپنا ہنر لئے ہوئے آپ کی خدمت کو تیار نظر آتے ہیں سامان تعمیر جو بہت سی دکانوں میں بکھرا ہوا ہے سب آپ کو تیار مل جاتا ہے کیا آپ کی قدرت میں تھا کہ اپنے مال یا تدبیر کے زور سے یہ ساری چیزیں مہیا اور سارے انسانوں کو اپنی خدمت کے لئے حاضر کر لیتے آپ تو کیا کوئی بڑی سے بڑی حکومت بھی قانون کے زور سے یہ نظام قائم نہیں کر سکتی بلا شبہ یہ تدبیر اور نظام عالم کا قیام صرف حی وقیوم ہی کا کام ہے انسان اگر اس کو اپنی تدبیر قرار دے تو جہالت کے سوا کیا ہے۔
یفصل الاٰیٰت لعلکم یعنی وہ اپنی آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے اس سے مراد آیات قرآنی بھی ہو سکتی ہیں جن کو حق تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ نازل فرمایا پھر نبی کریمﷺ کے ذریعہ مزید ان کا بیان اور تفسیر فرمائی۔
اور آیات سے مراد آیات قدرت یعنی اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ کی نشانیاں جو آسمان زمین اور خود انسان کے وجود میں موجود ہیں وہ بھی ہو سکتی ہیں جو بڑی تفصیل کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ انسان کی نظر کے سامنے ہیں۔
لعلکم بلقآء ربکم توقنون یعنی یہ سب کائنات اور ان کا عجیب و غریب نظام و تدبیر اللہ تعالیٰ نے اس لئے قائم فرمائے ہیں کہ تم اس میں غور کرو تو تمہیں آخرت اور قیامت کا یقین ہو جائے کیونکہ اس نظام عجیب اور پیدائش عالم پر نظر کرنے کے بعد یہ اشکال تو رہ نہیں سکتا کہ آخرت میں انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج سمجھیں اور جب داخل قدرت اور ممکن ہونا معلوم ہو گیا اور ایسی ہستی نے اس کی خبر دی جس کی زبان پوری عمر میں کبھی جھوٹ پر نہیں چلی تو اس کے واقع اور ثابت ہونے میں کیا شک رہ سکتا ہے۔
013: 003
وَ هُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْهٰرًا ؕ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۳
ترجمہ:
اور وہی ہے جس نے پھیلائی زمین اور رکھے اس میں بوجھ اور ندیاں اور ہر میوے کے رکھے اس میں جوڑے دو دو قسم، ڈھانکتا ہے دن پر رات کو اس میں نشانیاں ہیں ان کے واسطے جو کہ دھیان کرتے ہیں۔
تفسیر:
(آیت) وہو الذی مد الارض وجعل فیہا رواسی وانہٰرا اور وہی وہ ذات ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں بوجھل پہاڑ اور نہریں بنائیں۔
زمین کا پھیلانا اس کے کرہ اور گول ہونے کے منافی نہیں کیونکہ گول چیز جب بہت بڑی ہو تو اس کا ہر ایک حصہ الگ الگ ایک پھیلی ہوئی سطح ہی نظر آتا ہے اور قرآن کریم کا خطاب عام لوگوں سے انہی کی نظروں کے مطابق ہوتا ہے ظاہر دیکھنے والا اس کو ایک پھیلی ہوئی سطح دیکھتا ہے اس لئے اس کو پھیلانے سے تعبیر کر دیا گیا پھر اس کا توازن قائم رکھنے کے لئے نیز اور بہت سے دوسرے فوائد کے لئے اس پر اونچے اونچے بھاری پہاڑ قائم فرما دئیے جو ایک طرف زمین کا توازن قائم رکھتے ہیں دوسری طرف ساری مخلوق کو پانی پہنچانے کا انتظام کرتے ہیں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ ان کی چوٹیوں پر بحر منجمد (برف) کی شکل میں رکھ دیا جاتا ہے جس کے لئے نہ کوئی حوض ہے اور نہ ٹنکی بنانے کی ضرورت ہے نہ ناپاک ہونے کا احتمال نہ سڑنے کا امکان پھر اس کو ایک زیر زمین قدرتی پائپ لائن کے ذریعہ ساری دنیا میں پھیلا دیا جاتا ہے اسی سے کہیں تو کھلی ہوئی ندیاں اور نہریں نکلتی ہیں اور کہیں زیر زمین مستور رہ کر کنوؤں کے ذریعہ اس پائپ لائن کا سراغ لگایا اور پانی حاصل کیا جاتا ہے۔
(آیت) ومن کل الثمرٰت جعل فیہا زوجین اثنین یعنی پھر اس زمین سے طرح طرح کے پھل نکالے اور ہر ایک پھل دو دو قسم کے پیدا کئے چھوٹے بڑے سرخ سفید کھٹے میٹھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ زوجین سے مراد دو نہ ہوں بلکہ متعدد انواع و اقسام مراد ہوں جن کی تعداد کم سے کم دو ہوتی ہے اس لئے زمین اثنین سے تعبیر کر دیا گیا اور کچھ بعید نہیں کہ زوجین سے مراد نر و مادہ ہوں جیسے بہت سے درختوں کے متعلق تو تجربہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ ان میں نر مادہ ہوتے ہیں جیسے کھجور، پپیتہ وغیرہ دوسرے درختوں میں بھی اس کا امکان ہے اگرچہ ابھی تک تحقیقات وہاں تک نہ پہنچی ہوں۔
یغشی الیل النہار یعنی اللہ تعالیٰ ہی ڈھانپ دیتا ہے رات کو دن پر مراد یہ ہے کہ دن کی روشنی کے بعد رات لے آتا ہے جیسے کسی روشن چیز کو کسی پردہ میں ڈھانپ دیا جائے۔
ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم یتفکرون بلا شبہ اس تمام کائنات کی تخلیق اور اس کی تدبیر و نظام میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ شانہ کی قدرت کاملہ کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔
013: 004
وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ ۫ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۴
ترجمہ:
اور زمین میں کھیت ہیں مختلف ایک دوسرے سے متصل اور باغ ہیں انگور کے اور کھیتیاں اور کھجوریں ہیں ایک کی جڑ دوسری سے ملی ہوئی اور بعض بن ملی ان کو پانی بھی ایک ہی دیا جاتا ہے، اور ہم ہیں کہ بڑھا دیتے ہیں ان میں سے ایک کو ایک سے میووں میں ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان کو جو غور کرتے ہیں۔
تفسیر:
وفی الارض قطع متجٰورٰت وجنٰت من اعناب وزرع ونخیل صنوان وغیر صنوان یسقٰى بمآء واحد ۣ ونفضل بعضہا علیٰ بعض فی الاکل یعنی پھر زمین میں بہت سے قطعے آپس میں ملے ہوئے ہونے کے باوجود مزاج اور خاصیت میں مختلف ہیں کوئی اچھی زمین میں مختلف ہیں کوئی اچھی زمین ہے کوئی کھاری کوئی نرم کوئی سخت کوئی کھیتی کے قابل کوئی باغ کے قابل اور ان قطعات میں باغات ہیں انگور کے اور کھیتی ہے اور کھجور کے درخت ہیں جن میں بعض ایسے ہیں کہ ایک تنے سے اوپر جا کر دو تنے ہو جاتے ہیں اور بعض میں ایک ہی تنہ رہتا ہے۔
اور یہ سارے پھل اگرچہ ایک ہی زمین سے پیدا ہوتے ہیں ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے اور آفتاب و ماہتاب کی شعاعیں اور مختلف قسم کی ہوائیں بھی ان سب کو یکساں پہنچتی ہیں مگر پھر بھی ان کے رنگ اور ذائقے مختلف اور چھوٹے بڑے کا نمایاں فرق ہوتا ہے۔
باوجود اتصال کے پھر یہ طرح طرح کے اختلافات اس بات کی قوی اور واضح دلیل ہے کہ یہ سب کاروبار کسی حکیم و مدبر کے فرمان کے تابع چل رہا ہے محض مادے کے تطورات نہیں جیسا کہ بعض جاہل سمجھتے ہیں کیونکہ مادے کے تطورات ہوتے تو سب مواد کے مشترک ہونے کے باوجود یہ اختلاف کیسے ہوتا ایک ہی زمین سے ایک پھل ایک موسم میں نکلتا ہے دوسرا دوسرے موسم میں ایک ہی درخت کی ایک ہی شاخ پر مختلف قسم کے چھوٹے بڑے اور مختلف ذائقہ کے پھل پیدا ہوتے ہیں۔
ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم یعقلون اس میں بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت اور اس کی وحدت پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیاں ہیں عقل والوں کے لئے اس میں اشارہ ہے کہ جو لوگ ان چیزوں میں غور نہیں کرتے وہ عقل والے نہیں گو دنیا میں ان کو کیسا ہی عقلمند سمجھا اور کہا جاتا ہو۔
013: 005
وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ؕ۬ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۵
ترجمہ:
اور اگر تو عجیب بات چاہے تو عجب ہے ان کا کہنا کہ کیا جب ہو گئے ہم مٹی کیا نئے سرے سے بنائے جائیں گے، وہی ہیں جو منکر ہو گئے اپنے رب سے اور وہی ہیں کہ طوق ہیں ان کی گردنوں میں، اور وہ ہیں دوزخ والے وہ اسی میں رہیں گے برابر۔
تفسیر:
خلاصہ تفسیر:
اور (اے محمدﷺ اگر آپ کو (ان لوگوں کے انکار قیامت سے) تعجب ہو تو (واقعی) ان کا یہ قول تعجب کے لائق ہے کہ جب ہم (مر کر) خاک ہو گئے کیا (خاک ہو کر) ہم پھر (قیامت کو) از سر نو پیدا ہوں گے (تعجب کے لائق اس لئے کی جو ذات ایسی اشیاء مذکورہ کے خلق پر ابتداء قادر ہے اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے اور اسی سے جواب ہو گیا استبعاد بعث کا اور انکار نبوت کا بھی جس کا مبنی وہ استبعاد تھا ایک کے جواب سے دوسرے کا جواب ہو گیا آگے ان کے لئے وعید ہے کہ) یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا (کیونکہ انکار بعث سے اس کی قدرت کا انکار کیا اور انکار قیامت سے انکار نبوت لازم آتا ہے) اور ایسے لوگوں کی گردنوں میں (دوزخ میں) طوق ڈالے جائیں گے اور ایسے لوگ دوزخی ہیں (اور) وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ لوگ عافیت (کہ اگر آپ نبی ہیں تو جائیے عذاب منگا دیجئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب کے وقوع کو بہت بعید سمجھتے ہیں) حالانکہ ان سے پہلے (اور کفار پر) واقعات عقوبت گذر چکے ہیں (تو ان پر آ جانا کیا مستبعد ہے) اور (اللہ تعالیٰ کے غفور اور رحیم ہونے کو سن کر یہ لوگ مغرور نہ ہو جاویں کہ اب ہم کو عذاب نہ ہو گا کیونکہ وہ صرف غفور و رحیم ہی نہیں ہے اور پھر سب کے لئے غفور و رحیم نہیں ہیں بلکہ دونوں باتیں اپنے اپنے موقع پر ظاہر ہوتی ہیں یعنی) یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کا رب لوگوں کی خطائیں باوجود ان کی (ایک خاص درجہ کی) بیجا حرکتوں کے معاف کر دیتا ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کا رب سخت سزا دیتا ہے (یعنی اس میں دونوں صفتیں ہیں اور ہر ایک کے ظہور کی شرطیں اور اسباب ہیں پس انہوں نے بلا سبب اپنے کو مستحق رحمت و مغفرت کیسے سمجھ لیا بلکہ کفر کی وجہ سے ان کے لئے تو اللہ تعالیٰ شدید العقاب ہے) کیوں نہیں نازل کیا گیا (اور یہ اعتراض محض حماقت ہے کیونکہ آپ مالک معجزات نہیں بلکہ) آپ صرف (عذاب خدا سے کافروں کو) ڈرانے والے (یعنی نبی) ہیں (اور نبی کے لئے مطلق معجزہ کی ضرورت ہے جو کہ ظاہر ہو چکا ہے نہ کسی خاص معجزہ کی) اور (کوئی آپ انوکھے نبی نہیں ہوئے بلکہ) ہر قوم کے لئے (امم ماضیہ میں) ہادی ہوتے چلے آئے ہیں (ان میں بھی یہی قاعدہ چلا آیا ہے کہ دعوی نبوت کے لئے مطلق دلیل کو کافی قرار دیا گیا خاص دلیل کا التزام نہیں ہوا) اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور جو کچھ رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے اور ہر چیز اللہ کے نزدیک ایک خاص انداز سے ہے۔
معارف و مسائل:
آیات مذکورہ کی پہلی تین آیتوں میں کفار کے شبہات کا جواب ہے جو نبوت کے متعلق تھی اور اس کے ساتھ منکرین کے لئے عذاب کی وعید مذکور ہے۔
ان کے شبہات تین تھے ایک یہ کہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور محشر کے حساب و کتاب کو محال و خلاف عقل سمجھتے تھے اسی بنا پر آخرت کی خبر دینے والے انبیاء کی تکذیب اور ان کی نبوت کا انکار کرتے تھے جیسا کہ قرآن کریم نے ان کے اس شبہ کا بیان اس آیت میں فرمایا ہے ہل ندلکم علیٰ رجل ینبئکم اذا مزقتم کل ممزق ۙ انکم لفی خلق جدید اس میں انبیاءؑ کا مذاق اڑانے کے لئے کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہیں ایک ایسا آدمی بتائیں جو تمہیں یہ بتلاتا ہے کہ جب تم مرنے کے بعد ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے اور تمہاری مٹی کے ذرات بھی سارے جہان میں پھیل جائیں گے تم اس وقت پھر دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے۔
مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت:
آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں ان کے اس شبہ کا جواب دیا گیا وان تعجب فعجب قولہم ءاذا کنا ترٰبا ءانا لفی خلق جدید اس میں رسول کریمﷺ کو خطاب ہے کہ اگر آپ کو اس پر تعجب ہے کہ یہ کفار آپ کے لئے کھلے ہوئے معجزات اور آپﷺ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ تو ایسے بے جان پتھروں کو مانتے ہیں جن میں نہ حس ہے نہ شعور، خود اپنے نفع و نقصان پر بھی قادر نہیں دوسروں کو کیا نفع پہنچا سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا قرآن نے وجہ اس تعجب کی بالتصریح بیان نہیں کی کیونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی قدرت کاملہ کے عجیب عجیب مظاہر بیان کر کے یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ وہ ایسا قادر مطلق ہے جو ساری مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا اور پھر ہر چیز کے وجود میں کیسی کیسی حکمتیں رکھیں کہ انسان ان کا ادراک و احاطہ بھی نہیں کر سکتا اور یہ ظاہر ہے کہ جو ذات پہلی مرتبہ بالکل عدم سے ایک چیز کو موجود کر سکتی ہے اس کو دوبارہ موجود کر دینا کیا مشکل ہے انسان بھی جب کوئی نئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلی مرتبہ اس کو مشکل پیش آتی ہے اور اسی کو دوبارہ بنانا چاہے تو آسان ہو جا تا ہے۔
تو تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس کے تو قائل ہیں کہ پہلی مرتبہ تمام کائنات کو بیشمار حکمتوں کے ساتھ اسی نے پیدا فرمایا ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے کو کیسے محال اور خلاف عقل سمجھتے ہیں شاید ان منکرین کے نزدیک بڑا اشکال یہ ہے کہ مرنے اور خاک ہو جانے کے بعد انسان کے اجزا اور ذرات دنیا بھر میں منتشر ہو جاتے ہیں ہوائیں ان کو کہیں سے کہیں لے جاتی ہیں اور دوسرے اسباب و ذرائع سے بھی یہ ذرات سارے جہان میں پھیل جاتے ہیں پھر قیامت کے روز ان تمام ذرات کو جمع کس طرح کیا جائے گا اور پھر ان کو جمع کر کے دوبارہ زندہ کیسے کیا جائے گا؟
مگر وہ نہیں دیکھتے کہ اس وقت جو وجود ان کو حاصل ہے اس میں کیا سارے جہان کے ذرات جمع نہیں دنیا کے مشرق و مغرب کی چیزیں پانی ہوا اور ان کے لائے ہوئے ذرات انسان کی غذا میں شامل ہو کر اس کے بدن کا جزو بنتے ہیں اس مسکین کو بسا اوقات خبر بھی نہیں ہوتی کہ ایک لقمہ جو منہ تک لے جا رہا ہے اس میں کتنے ذرات افریقہ کے کتنے امریکہ کے اور کتنے مشرقی ممالک کے ہیں تو جس ذات نے اپنی حکمت بالغہ اور تدبیر امور کے ذریعہ اس وقت ایک ایک انسان اور جانور کے وجود کو سارے جہان کے منتشر ذرات جمع کر کے کھڑا کر دیا ہے کل اس کے لئے یہ کیوں مشکل ہو جائے گا کہ ان سب ذرات کو جمع کر ڈالے جبکہ دنیا کی ساری طاقتیں ہوا اور پانی اور دوسری قوتیں سب اس کے حکم کے تابع اور مسخر ہیں اس کے اشاروں پر ہوا اپنے اندر کے اور پانی اپنے اندر کے اور فضاء اپنے اندر کے سب ذرات کو جمع کر دیں اس پر کیا اشکال ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قدر کو پہچانا ہی نہیں اس کی قدرت کو اپنی قدرت پر قیاس کرتے ہیں حالانکہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزیں اپنی اپنی حیثیت کا ادراک و شعور رکھتے ہیں اور حکم حق کے تابع چلتے ہیں۔
خاک وباد و آب و آتش زندہ اند
بامن و تو مردہ باحق زندہ اند
خلاصہ یہ ہے کہ کھلی ہوئی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود جس طرح ان کا نبوت سے انکار قابل تعجب ہے اس سے زیادہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حشر کے دن سے انکار تعجب کی چیز ہے۔
اس کے بعد ان معاند منکرین کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ لوگ صرف آپﷺ ہی کا انکار نہیں کرتے بلکہ در حقیقت اپنے رب کا انکار کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہو گی کہ ان کی گردنوں میں طوق ڈالے جائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔
دوسرا شبہ منکرین کا یہ تھا کہ اگر فی الواقع آپﷺ اللہ کے نبی اور رسول ہیں تو نبی کی مخالفت پر جو عذاب کی وعیدیں آپﷺ سناتے ہیں وہ عذاب آتا کیوں نہیں اس کا جواب دوسری آیت میں یہ دیا گیا۔
013: 006
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِهِمْ ۚ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ۶
ترجمہ:
اور جلد مانگتے ہیں تجھ سے برائی کو پہلے بھلائی سے اور گزر چکے ہیں ان سے پہلے بہت سے عذاب اور تیرا رب معاف بھی کرتا ہے لوگوں کو باوجود ان کے ظلم کے اور تیرے رب کا عذاب بھی سخت ہے۔
تفسیر:
(آیت) وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِهِمْ ۚ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَاب
یعنی یہ لوگ ہمیشہ عافیت کی میعاد ختم ہونے سے پہلے آپﷺ سے مصیبت کے نازل ہونے کا تقاضا کرتے ہیں (کہ اگر آپ نبی ہیں تو فوری عذاب منگوا دیجئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ عذاب کے آنے کو بہت ہی بعید یا نا ممکن سمجھتے ہیں حالانکہ ان سے پہلے دوسرے کافروں پر بہت سے واقعات عذاب کے گذر چکے ہیں جن کا سب لوگوں نے مشاہدہ کیا ہے تو ان پر عذاب آ جانا کیا مستبعد ہے یہاں لفظ مثلت مثلہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ایسی سزا جو انسان کو سب کے سامنے رسول کریمﷺ کر دے اور دوسروں کے لئے عبرت کا ذریعہ بنے۔
پھر فرمایا کہ بیشک آپﷺ کا رب لوگوں کے گناہوں اور نافرمانیوں کے باوجود بڑی مغفرت و رحمت والا بھی ہے اور جو لوگ اس مغفرت و رحمت سے فائدہ نہ اٹھائیں اپنی سرکشی و نافرمانی پر جمے رہیں ان کے لئے سخت عذاب دینے والا بھی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے غفور و رحیم ہونے سے کسی غلط فہمی میں نہ پڑیں کہ ہم پر عذاب آ ہی نہیں سکتا۔
تیسرا شبہ ان کفار کا یہ تھا کہ اگرچہ رسول کریمﷺ کے بہت سے معجزات ہم دیکھ چکے ہیں لیکن جن خاص خاص قسم کے معجزات کا ہم نے مطالبہ کیا ہے وہ کیوں ظاہر نہیں کرتے؟ اس کا جواب تیسری آیت میں یہ دیا گیا ہے۔
013: 007
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۠۷
ترجمہ:
اور کہتے ہیں کافر کیوں نہ اتری اس پر کوئی نشانی اس کے رب سے تیرا کام تو ڈر سنا دینا ہے اور ہر قوم کے لئے ہوا ہے راہ بتانے والا۔
تفسیر:
(آیت) وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۠
یعنی یہ کفار آپﷺ نبوت پر اعتراض کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ ان پر خاص معجزہ جس کو طلب کرتے ہیں وہ کیوں نازل نہیں کیا گیا سو اس کا جواب واضح ہے کہ معجزہ ظاہر کرنا پیغمبر اور نبی کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ براہ راست وہ حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔
وہ اپنی حکمت سے جس وقت جس طرح کا معجزہ ظاہر کرنا پسند فرماتے ہیں اس کو ظاہر کر دیتے ہیں وہ کسی کے مطالبہ اور خواہش کے پابند نہیں اسی لئے فرمایا (آیت) انمآ انت منذر یعنی آپﷺ کافروں کو خدا کے عذاب سے صرف ڈرانے والے ہیں معجزہ ظاہر کرنا آپ کا کام نہیں۔
ولکل قوم ہاد یعنی ہر قوم کے لئے پچھلی امتوں میں ہادی ہوتے چلے آئے ہیں آپﷺ کوئی انوکھے نبی نہیں سب ہی انبیاءؑ کا وظیفہ یہ تھا کہ وہ قوم کو ہدایت کریں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں معجزات کا ظاہر کرنا کسی کے اختیار میں نہیں دیا گیا اللہ تعالیٰ جب اور جس طرح کا معجزہ ظاہر کرنا پسند فرماتے ہیں ظاہر کر دیتے ہیں۔
کیا ہر قوم اور ہر ملک میں نبی آنا ضروری ہے؟
اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہے اس سے ثابت ہوا کہ کوئی قوم اور کوئی خطہ ملک اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ہدایت کرنے والوں سے خالی نہیں ہو سکتا خواہ وہ کوئی نبی ہو یا اس کے قائم مقام نبی کی دعوت کو پھیلانے والا ہو جیسا سورة یسین میں نبی کی طرف سے کسی قوم کی طرف پہلے دو شخصوں کو دعوت و ہدایت کے لئے بھیجنے کا ہے جو خود نبی نہیں تھے اور پھر تیسرے آدمی کو ان کی تائید و نصرت کے لئے بھیجنا مذکور ہے۔
اس لئے اس آیت میں یہ لازم نہیں آتا کہ ہندوستان میں بھی کوئی نبی و رسول پیدا ہوا ہو البتہ دعوت رسول کے پہنچانے اور پھیلانے والے علماء کا کثرت سے یہاں آنا بھی ثابت ہے اور پھر یہاں بیشمار ایسے ہادیوں کا پیدا ہونا بھی ہر شخص کو معلوم ہے۔
یہاں تک تین آیتوں میں نبوت کا انکار کرنے والوں کے شبہات کا جواب تھا چوتھی آیت میں پھر وہی اصل مضمون توحید کا مذکور ہے جس کا ذکر اس سورة کی ابتداء سے آ رہا ہے۔
013: 008
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰی وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ۸
ترجمہ:
اللہ جانتا ہے جو پیٹ م