مشہور تفسیری کتاب معارف القرآن کی سورۂ احزاب کی تفسیر سے مقتبس
سورۂ احزاب کی کچھ آیات اور خواتین کے کچھ مسائل
از قلم
مفتی محمد شفیع عثمانی
جمع و ترتیب : اعجاز عبید، محمد عظیم الدین
ڈاؤن لوڈ کریں
ای پب فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں…….
سورۂ احزاب، آیت ۳۲
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ۳۲
ترجمہ:
اے نبی کی عورتوں تم نہیں ہو جیسے ہر کوئی عورتیں اگر تم ڈر رکھو سو تم دب کر بات نہ کرو پھر لالچ کرے کوئی جس کے دل میں روگ ہے اور کہو بات معقول
تفسیر:
ازواج مطہرات کو خاص ہدایات:
(آیت) ینساء النبی لستن کا حد من النساء ان اتقین فلا تخضعن بالقول، سابقہ آیات میں ازواج میں مطہرات کو رسول اللہﷺ سے ایسے مطالبات کرنے سے روکا گیا ہے جن کا پورا کرنا آپ کے لئے دشوار ہو یا جو آپ کی شان کے مناسب نہ ہوں۔ اور جب انہوں نے اس کو اختیار کر لیا تو ان کا درجہ عام عورتوں سے بڑھا دیا گیا کہ ان کے ایک عمل کو دو کے قائم مقام بنا دیا۔ آگے ان کو اصلاح عمل اور رسول اللہﷺ کی صحبت و زوجیت کے مناسب بنانے کے لئے چند ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ سب ہدایات اگرچہ ازواج مطہرات کے لئے مخصوص نہیں بلکہ تمام ہی مسلمان عورتیں ان کی مامور ہیں، مگر یہاں ازواج مطہرات کو خصوصی خطاب کر کے اس پر متوجہ کیا ہے کہ یہ اعمال و احکام جو سب مسلمان عورتوں کے لئے لازم و واجب ہیں آپ کو ان کا اہتمام دوسروں سے زیادہ کرنا چاہئے اور (آیت) لستن کا حد من النساء سے یہی خصوصیت مراد ہے۔
کیا ازواج مطہرات سارے عالم کی عورتوں سے افضل ہیں؟
آیت کے ان الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات تمام دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں۔ مگر قرآن کریم کی آیت حضرت مریم (علیہا السلام) کے بارے میں یہ ہے (آیت) ان اللہ اصطفک وطہرک واصطفک علیٰ نساء العلمین، اس سے حضرت مریمؑ کا سارے جہاں کی عورتوں سے افضل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور ترمذی میں حضرت انس کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کافی ہیں تم کو ساری عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد (ام المومنین) اور فاطمہ بنت محمدﷺ اور آسیہ زوجہ فرعون۔ اس حدیث میں حضرت مریم کے ساتھ اور تین عورتوں کو نساء عالمین سے افضل فرمایا ہے۔
اس لئے اس آیت میں جو ازواج مطہرات کی افضلیت اور فوقیت بیان کی گئی ہے، وہ ایک خاص حیثیت یعنی ازواج النبی اور نساء النبی ہونے کی ہے، جس میں تمام عالم کی عورتوں سے بلاشبہ افضل ہیں۔ اس سے عام فضیلت مطلقہ ثابت نہیں ہوتی جو دوسری نصوص کے خلاف ہو۔ (مظہری)
لستن کا حد من النساء کے بعد ان اتقیتن یہ شرط اس فضیلت کی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو نساء نبی ہونے کی وجہ سے بخشی ہے۔ مقصود اس سے اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ فقط اس نسبت و تعلق پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں کہ ہم ازواج رسول ہیں، بلکہ تقویٰ اور اطاعت احکام الٰہیہ پر فضیلت کی شرط ہے۔ (قرطبی و مظہری)
اس کے بعد چند ہدایات ازواج مطہرات کو دی گئیں۔
پہلی ہدایت عورتوں کے پردہ سے متعلق آواز اور کلام پر پابندی ہے۔ فلا تخضعن بالقول، یعنی کسی غیر محرم سے پس پردہ بات کرنے کی ضرورت بھی پیش آئے تو کلام میں اس نزاکت اور لطافت کے لہجہ سے بتکلف پرہیز کیا جائے جو فطرت عورتوں کی آواز میں ہوتی ہے۔ مطلب اس نرمی اور نزاکت سے وہ نرمی ہے جو مخاطب کے دل میں میلان پیدا کرے جیسا کہ اس کے بعد فرمایا ہے (آیت) فیطمع الذین فی قلبہ مرض، یعنی ایسی نرم گفتگو نہ کرو جس سے ایسے آدمی کو طمع اور میلان پیدا ہونے لگے جس کے دل میں مرض ہو، مرض سے مراد نفاق ہے یا اس کا کوئی شعبہ ہو۔ اصلی منافق سے تو ایسی طمع سرزد ہونا ظاہر ہی ہے، لیکن جو آدمی مومن مخلص ہونے کے باوجود کسی حرام کی طرف مائل ہوتا ہے وہ منافق نہ سہی مگر ضعیف الایمان ضروری ہے۔ اور یہ ضعف ایمان جو حرام کی طرف مائل کرتا ہے درحقیقت ایک شعبہ نفاق ہی کا ہے۔ ایمان خالص جس میں شائبہ نفاق کا نہ ہو اس کے ہوتے ہوئے کوئی حرام کی طرف مائل نہیں ہو سکتا۔ (مظہری)
خلاصہ اس پہلی ہدایت کا عورتوں کے لئے اجنبی مردوں سے اجتناب اور پردہ کا وہ اعلیٰ مقام حاصل کرنا ہے کہ جس سے کسی اجنبی ضعیف الایمان کے دل میں کوئی طمع یا میلان پیدا ہو سکے اس کے پاس بھی نہ جائیں۔ پردہ نسواں کی مفصل بحث اسی سورة میں آگے آنے والی آیات کے تحت میں بیان ہو گی۔ یہاں ازواج مطہرات کے لئے خصوصی ہدایات کے ضمن میں جو کچھ آیا ہے صرف اس کی تشریح لکھی جاتی ہے۔ کلام کے متعلق جو ہدایت دی گئی ہے اس کو سننے کے بعد بعض امہات المومنین اس آیت کے نزول کے بعد اگر غیر مرد سے کلام کرتیں تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتیں تاکہ آواز بدل جائے۔ اس لئے حضرت عمرو بن عاص کی ایک حدیث میں ہے ان النبیﷺ نہیٰ ان یلکم النساء الا باذن ازواجہن (رواہ الطبرانی بسند حسن مظہری)
مسئلہ:
اس آیت اور حدیث مذکور سے اتنا تو ثابت ہوا کہ عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں، لیکن اس پر بھی احتیاطی پابندی یہاں بھی لگا دی اور تمام عبادات اور احکام میں اس کی رعایت کی گئی ہے کہ عورتوں کا کلام جہری نہ ہو جو مرد سنیں۔ امام کوئی غلطی کرے تو مقتدیوں کو لقمہ زبان سے دینے کا حکم ہے، مگر عورتوں کو زبان سے لقمہ دینے کے بجائے یہ تعلیم دی گئی کہ اپنے ہاتھ کی پشت پر دوسرا ہاتھ مار کر تالی بجا دیں جس سے امام متنبہ ہو جائے زبان سے کچھ نہ کہیں۔
دوسری ہدایت:
مکمل پردہ کرنے کی ہے (آیت) وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیة الاولیٰ، یعنی بیٹھو اپنے گھروں میں اور زمانہ قدیم کی جاہلیت والیوں کی طرح نہ پھرو۔ یہاں جاہلیت اولیٰ سے مراد وہ جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس لفظ میں اشارہ ہے کہ اس کے بعد دوسری بھی کوئی جاہلیت آنے والی ہے، جس میں اس طرح کی بے حیائی و بے پردگی پھیل جائے گی، وہ شاید اس زمانہ کی جاہلیت ہے، جس کا اب مشاہدہ ہر جگہ ہو رہا ہے۔
اس آیت میں پردہ کے متعلق اصلی حکم یہی ہے کہ عورتیں گھروں میں رہیں (یعنی بلا ضرورت شرعیہ باہر نہ نکلیں) اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جس طرح اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کی عورتیں علانیہ بے پردہ پھرتی تھیں ایسے نہ پھرو۔ لفظ تبرج کے اصلی معنی ظہور کے ہیں اور اس جگہ مراد اس سے اپنی زینت کا اظہار ہے غیر مردوں پر، جیسا کہ دوسری آیت میں غیر متبرجت بزینة آیا ہے۔
عورتوں کے پردہ کی پوری بحث اور مفصل احکام آگے اسی سورت میں آئیں گے۔ یہاں صرف آیت مذکورہ کی تشریح لکھی جاتی ہے۔ اس آیت سے پردہ کے متعلق دو باتیں معلوم ہوئیں، اول یہ کہ اصل مطلوب عند اللہ عورتوں کے لئے یہ ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں، ان کی تخلیق گھریلو کاموں کے لئے ہوئی ہے ان میں مشغول رہیں، اور اصل پردہ جو شرعاً مطلوب ہے وہ حجاب بالبیوت ہے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر بضرورت کبھی عورت کو گھر سے نکلنا ہی پڑے تو زینت کے اظہار کے ساتھ نہ نکلے، بلکہ برقع یا جلباب جس میں پورا بدن ڈھک جائے وہ پہن کر نکلے۔ جیسا کہ آگے اسی سورة احزاب کی (آیت) ویدنین علیہن من جلابیہن میں اس کی تفصیل آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
آیت ۳۳
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ۳۳
ترجمہ:
اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھلاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھلانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں اور قائم رکھو نماز اور دیتی رہو زکوٰة اور اطاعت میں رہو اللہ کی اور اس کے رسول کی اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں اے نبی کے گھر والو! اور ستھرا کر دے تم کو ایک ستھرائی سے
تفسیر:
قرار بیوت سے مواقع ضرورت مستثنیٰ نہیں:
(آیت) قرن فی بیوتکن۔ میں عورتوں پر قرار فی البیوت واجب کیا گیا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ عورتوں کے لئے گھر سے باہر نکلنا مطلقاً ممنوع اور حرام ہو۔ مگر اول تو خود اسی آیت ولا تبرجن سے اس طرف اشارہ کر دیا گیا کہ مطلقاً خروج بضرورت ممنوع نہیں بلکہ وہ خروج ممنوع ہے جس میں زینت کا اظہار ہو۔ دوسرے سورة احزاب کی آیت جو آگے آ رہی ہے، اس میں خود (آیت) یدنین علیہن من جلابیہن کا حکم یہ بتلا رہا ہے کہ کسی درجہ میں عورتوں کے لئے گھر سے نکلنے کی اجازت بھی ہے بشرطیکہ برقع وغیرہ کے پردہ کے ساتھ نکلیں۔
اس کے علاوہ خود رسول اللہﷺ نے مواضع ضرورت کا اس حکم سے مستثنیٰ ہونا ایک حدیث میں واضح فرما دیا۔ جس میں ازواج مطہرات کو خطاب کر کے فرمایا قد اذن لکن ان تخرجن لحاجتکن رواہ مسلم، یعنی تمہارے لئے اس کی اجازت ہے کہ اپنی ضرورت کے لئے گھر سے نکلو، پھر رسول اللہﷺ کا عمل آیت حجاب نازل ہونے کے بعد اس پر شاہد ہے کہ ضرورت کے مواقع میں عورتوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حج و عمرہ کے لئے آنحضرتﷺ کے ساتھ ازواج مطہرات کا جانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح بہت سے غزوات میں ساتھ جانا ثابت ہے۔ اور بہت سی روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ ازواج مطہرات اپنے والدین وغیرہ سے ملاقات کے لئے اپنے گھروں سے نکلتی تھیں اور عزیزوں کی بیمار پرسی اور تعزیت وغیرہ میں شرکت کرتی تھیں اور عہد نبوی میں ان کو مساجد میں جانے کی بھی اجازت تھی۔
اور صرف یہی نہیں کہ حضورﷺ کے ساتھ یا آپ کے زمانے ہی میں ایسا ہوا ہو، رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد بھی حضرت سودہ اور زینب بنت جحش وغیرہ کے علاوہ سب ازواج مطہرات کا حج و عمرہ کے لئے جانا ثابت ہے۔ جس پر صحابہ کرام میں سے کسی نے نکیر نہیں کیا بلکہ فاروق اعظم نے اپنے عہد خلافت میں ازواج مطہرات کو خود اپنے اہتمام سے حج کے لئے بھیجا۔ اور حضرت عثمان غنی اور عبد الرحمن بن عوف کو ان کے ساتھ نگرانی و انتظام کے لئے بھیجا۔ اور ام المومنین حضرت سودہ اور حضرت زینب بنت جحش کا بعد وفات نبی کریمﷺ حج و عمرہ کے لئے نہ جانا اس آیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک حدیث کی بنا پر تھا۔ وہ یہ کہ حجة الوداع میں جب ازواج مطہرات کو رسول اللہﷺ نے خود اپنے ساتھ حج کرا دیا تو واپسی کے وقت فرمایا ھذہ ثم لزوم العصر، ہذٰہ کا اشارہ اس حج کی طرف ہے اور حصر حصیر کی جمع ہے، جس کے معنی بوریا کے ہیں۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ تمہارا نکلنا صرف اس کے لئے ہو چکا اس کے بعد اپنے گھروں کے بوریوں کو لازم پکڑو، ان سے نہ نکلو۔ حضرت سودہ بنت زمعہ اور زینب بنت جحش نے اس حدیث کا یہ مفہوم قرار دیا کہ تمہارا خروج صرف اسی حجة الوداع کے لئے جائز تھا، آگے جائز نہیں۔ باقی اور ازواج مطہرات جن میں صدیقہ عائشہ جیسی فقیہہ بھی داخل تھیں سب نے اس کا مفہوم یہ قرار دیا کہ جس طرح کا یہ سفر تھا کہ ایک شرعی عبادت کی ادائیگی کے لئے ہو بس اسی طرح کا خروج جائز ہے، ورنہ اپنے گھروں میں رہنا لازم ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ (آیت) وقرن فی بیوتکن کے مفہوم سے باشارات قرآن اور بعمل نبی کریمﷺ اور باجماع صحابہ مواقع ضرورت مستثنیٰ ہیں، جن میں عبادات حج و عمرہ بھی داخل ہیں اور ضروریات طبعیہ والدین اور اپنے محارم کی زیارت، عیادت وغیرہ بھی۔ اسی طرح اگر کسی کے نفقہ اور ضروریات زندگی کا کوئی اور سامان نہ ہو تو پردہ کے ساتھ محنت مزدوری کے لئے نکلنا بھی، البتہ مواقع ضرورت میں خروج کے لئے شرط یہ ہے کہ اظہار زینت کے ساتھ نہ نکلیں، بلکہ برقع یا جلباب (بڑی چادر) کے ساتھ نکلیں۔
حضرت ام المومنین صدیقہ عائشہ کا سفر بصرہ اور جنگ جمل کے واقعہ پر روافض کے ہفوات:
اوپر یہ بات وضاحت کے ساتھ آ چکی ہے کہ آیت مذکورہ میں وقرن فی بیوتکن کا مفہوم خود قرآنی اشارات بلکہ تصریحات میں نیز نبی کریمﷺ کے عمل سے اور آپ کے بعد صحابہ کرام کے اجماع سے یہ ثابت ہے کہ مواقع ضرورت اس سے مستثنیٰ ہیں جن میں حج و عمرہ وغیرہ دینی ضروریات شامل ہیں۔ صدیقہ عائشہ اور ان کے ساتھ حضرت ام سلمہ اور صفیہؓ یہ سب حج کے لئے تشریف لے گئیں تھیں۔ وہاں حضرت عثمان غنی کی شہادت اور بغاوت کے واقعات سنے تو سخت غمگین ہوئیں اور مسلمانوں کے باہمی افتراق سے نظام مسلمین میں خلل اور فتنہ کا اندیشہ پریشان کئے ہوئے تھا۔ اسی حالت میں حضرت طلحہ اور زبیر اور نعمان بن بشیر اور کعب بن عجرہ اور چند دوسرے صحابہ کرام مدینہ سے بھاگ کر مکہ معظمہ پہنچے، کیونکہ قاتلان عثمان ان کے بھی قتل کے درپے تھے۔ یہ حضرات اہل بغاوت کے ساتھ شریک نہ تھے، بلکہ ان کو ایسے فعل سے روکتے تھے۔ حضرت عثمان غنی کے قتل کے بعد وہ ان کے بھی درپے تھے، اس لئے یہ لوگ جان بچا کر مکہ معظمہ پہنچ گئے، اور ام المومنین حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشورہ طلب کیا۔ حضرت صدیقہ نے ان کو یہ مشورہ دیا کہ آپ لوگ اس وقت تک مدینہ طیبہ نہ جائیں جب تک کہ باغی لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے گرد جمع ہیں اور وہ ان سے قصاص لینے سے مزید فتنہ کے اندیشہ کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں تو آپ لوگ کچھ روز ایسی جگہ جا کر رہیں جہاں اپنے آپ کو مامون سمجھیں، جب تک امیر المومنین انتظام پر قابو نہ پا لیں اور تم لوگ جو کچھ کوشش کر سکتے ہو اس کی کرو کہ یہ لوگ امیر المومنین کے گرد سے متفرق ہو جائیں اور امیر المومنین ان سے قصاص یا انتقام لینے پر قابو پا لیں۔
یہ حضرات اس پر راضی ہو گئے، اور ارادہ بصرہ چلے جانے کا کیا۔ کیونکہ اس وقت وہاں مسلمانوں کے لشکر جمع تھے۔ ان حضرات نے وہاں جانے کا قصد کر لیا تو ام المومنین سے بھی درخواست کی کہ انتظام حکومت برقرار ہونے تک آپ بھی ہمارے ساتھ بصرہ میں قیام فرمائیں۔
اور اس وقت قاتلان عثمان اور مفسدین کی قوت و شوکت اور حضرت علی کا ان پر حد شرعی جاری کرنے سے بے قابو ہونا خود نہج البلاغہ کی روایت سے واضح ہے۔ یاد رہے کہ نہج البلاغہ کو شیعہ حضرات مستند مانتے ہیں۔ نہج البلاغہ میں ہے کہ ’’حضرت امیر سے ان کے بعض اصحاب و رفقاء نے خود کہا کہ اگر آپ ان لوگوں کو سزا دے دیں جنہوں نے عثمان غنی پر حملہ کیا تو بہتر ہو گا۔ اس پر حضرت امیر نے فرمایا کہ میرے بھائی! میں اس بات سے بے خبر نہیں جو تم کہتے ہو، مگر یہ کام کیسے ہو جبکہ مدینہ پر یہی لوگ چھائے ہوئے ہیں، اور تمہارے غلام اور آس پاس کے اعراب بھی ان کے ساتھ لگ گئے ہیں، ایسی حالت میں ان کی سزا کے احکام جاری کر دوں تو نافذ کس طرح ہوں گے۔
حضرت صدیقہ کو ایک طرف حضرت علی کی مجبوری کا اندازہ تھا دوسری طرف یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت عثمان غنی کی شہادت سے مسلمانوں کے قلوب زخمی ہیں، اور ان کے قاتلوں سے انتقام لینے میں تاخیر جو امیر المومنین علی کی طرف سے بمجبوری دیکھی جا رہی تھی اور مزید یہ کہ قاتلان عثمان، امیر المومنین کی مجالس میں بھی شریک ہوتے تھے۔ جو لوگ حضرت امیر المومنین کی مجبوری سے واقف نہ تھے، ان کو اس معاملہ میں ان سے بھی شکایت پیدا ہو رہی تھی۔ ممکن تھا کہ یہ شکوہ و شکایت کسی دوسرے فتنے کا آغاز نہ بن جائے۔ اس لئے لوگوں کو فہمائش کر کے صبر کرنے اور امیر المومنین کو قوت پہنچا کر نظم مملکت کو مستحکم کرنے اور باہمی شکوہ و شکایت کو رفع کر کے اصلاح بین الناس کے قصد سے بصرہ کا سفر اختیار کر لیا، جس میں ان کے محرم بھانجے حضرت عبد اللہ بن زبیر وغیرہ ان کے ساتھ تھے۔ اپنے اس سفر کا مقصد خود ام المومنین نے حضرت قعقاع کے سامنے بیان فرمایا تھا، جیسا کہ آگے آئے گا۔ اور ایسے شدید فتنہ کے وقت اصلاح بین المومنین کا کام جس قدر اہم دینی خدمت تھی وہ بھی ظاہر ہے۔ اس کے لئے اگر ام المومنین نے بصرہ کا سفر محارم کے ساتھ اور پردہ کے آہنی ہودج میں اختیار فرما لیا تو اس کو جو شیعہ اور روافض نے ایک طوفان بنا کر پیش کیا ہے کہ ام المومنین نے احکام قرآن کی خلاف ورزی کی اس کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔
آگے منافقین اور مفسدین کی شرارت نے جو صورت جنگ باہمی کی پیدا کر دی اس کا خیال کبھی صدیقہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اس آیت کی تفسیر کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ آگے واقعہ جنگ جمل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، مگر اختصار کے ساتھ حقیقت واضح کرنے کے لئے چند سطور لکھی جاتی ہیں۔
باہمی فتنوں اور جھگڑوں کے وقت جو صورتیں دنیا میں پیش آیا کرتی ہیں ان سے کوئی اہل بصیرت و تجربہ غافل نہیں ہو سکتا۔ یہاں بھی صورت یہ پیش آئی کہ مدینہ سے آئے ہوئے صحابہ کرام کی معیت میں حضرت صدیقہ کے سفر بصرہ کو منافقین اور مفسدین نے حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کے سامنے صورت بگاڑ کر اس طرح پیش کیا کہ یہ سب اس لئے بصرہ جا رہے ہیں کہ وہاں سے لشکر ساتھ لے کر آپ کا مقابلہ کریں، اگر آپ امیر وقت ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ اس فتنہ کو آگے بڑھنے سے پہلے وہیں جا کر روکیں۔ حضرت حسن و حسین و عبد اللہ بن جعفر، عبد اللہ بن عباسؓ جیسے صحابہ کرام نے اس رائے سے اختلاف بھی کیا اور مشورہ یہ دیا کہ آپ ان کے مقابلہ پر لشکر کشی اس وقت تک نہ کریں جب تک صحیح حال معلوم نہ ہو جائے، مگر کثرت دوسری طرف رائے دینے والوں کی تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی اسی طرف مائل ہو کر لشکر کے ساتھ نکل آئے، اور یہ شریر اہل فتنہ و بغاوت بھی آپ کے ساتھ نکلے۔
جب یہ حضرات بصرہ کے قریب پہنچے تو حضرت قعقاع کو ام المومنین کے پاس دریافت حال کے لئے بھیجا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے ام المومنین آپ کے یہاں تشریف لانے کا کیا سبب ہوا؟ تو صدیقہ نے فرمایا یای بنی الاصلاح بین الناس، یعنی میرے پیارے بیٹے! میں اصلاح بین الناس کے ارادہ سے یہاں آئی ہوں۔ پھر حضرت طلحہ اور زبیر کو بھی قعقاع کی مجلس میں بلا لیا۔ قعقاع نے ان سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ قاتلان عثمان پر حد شرعی جاری کرنے کے سوا ہم کچھ نہیں چاہتے۔ حضرت قعقاع نے سمجھایا کہ یہ کام تو اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مسلمانوں کی جماعت منظم اور مستحکم نہ ہو جائے، اس لئے آپ حضرات پر لازم ہے کہ اس وقت آپ مصالحت کی صورت اختیار کر لیں۔
ان بزرگوں نے اس کو تسلیم کیا۔ حضرت قعقاع نے جا کر امیرالمومنین کو اس کی اطلاع دے دی وہ بھی بہت مسرور ہوئے اور مطمئن ہو گئے اور سب لوگوں نے واپسی کا قصد کر لیا، اور تین روز اس میدان میں قیام اس حال پر رہا کہ کسی کو اس میں شک نہیں تھا کہ اب دونوں فریقوں میں مصالحت کا اعلان ہو جائے گا، اور چوتھے دن صبح کو یہ اعلان ہونے والا تھا اور حضرت امیر المومنین کی ملاقات حضرت طلحہ و زبیر کے ساتھ ہونے والی تھی جس میں یہ قاتلان عثمان غنی شریک نہیں تھے، یہ چیز ان لوگوں پر سخت گراں گزری اور انہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ تم اول حضرت عائشہ کی جماعت میں پہنچ کر قتل و غارت گری شروع کر دو، تاکہ وہ اور ان کے ساتھی یہ سمجھیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے عہد شکنی ہوئی، اور یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہو کر حضرت علی کے لشکر پر ٹوٹ پڑیں ان کی یہ شیطانی چال چل گئی، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر میں شامل ہونے والے مفسدین کی طرف سے جب حضرت صدیقہ کی جماعت پر حملہ ہو گیا تو وہ یہ سمجھنے میں معذور تھے کہ یہ حملہ امیر المومنین کے لشکر کی طرف سے ہوا ہے، اس کی جوابی کارروائی شروع ہو گئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ ماجرا دیکھا تو قتال کے سوا چارہ نہ رہا، اور جو حادثہ باہمی قتل و قتال کا پیش آنا تھا آ گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، یہ واقعہ ٹھیک اسی طرح طبری اور دوسرے ثقات مورخین نے حضرت حسن اور حضرت عبد اللہ بن جعفر اور عبد اللہ بن عباس وغیرہؓ کی روایت سے نقل کیا ہے (روح المعانی)
غرض مفسدین و مجرمین کی شرارت اور فتنہ انگیزی کے نتیجہ میں ان دونوں مقدس گروہوں میں غیر شعوری طور پر قتال کا واقعہ پیش آ گیا اور جب فتنہ فرد ہوا تو دونوں ہی حضرات اس پر سخت غمگین ہوئے۔ حضرت صدیقہ عائشہ کو یہ واقعہ یاد آ جاتا تو اتنا روتی تھیں کہ ان کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا تھا۔ اسی طرح حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کو بھی اس واقعہ پر سخت صدمہ پیش آیا۔ فتنہ فرد ہونے کے بعد مقتولین کی لاشوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے تو اپنی رانوں پر ہاتھ مار کر یہ فرماتے تھے کہ کاش میں اس واقعہ سے پہلے مر کر نسیا منسیا ہو گیا ہوتا۔
اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت ام المومنین جب قرآن میں یہ آیت پڑھتی (آیت) و قرن فی بیوتکن تو رونے لگتیں، یہاں تک کہ ان کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔ (رواہ عبد اللہ بن احمدنی زوائد الزہد وابن المنذرد ابن شیبة عن مسروق، روح)
آیت مذکورہ پڑھنے پر رونا اس لئے نہ تھا کہ قرار فی البیوت کی خلاف ورزی ان کے نزدیک گناہ تھی یا سفر ممنوع تھا بلکہ گھر سے نکلنے پر جو واقعہ ناگوار اور حادثہ شدیدہ پیش آ گیا، اس پر طبعی رنج وغم اس کا سبب تھا۔ (یہ سب روایات اور پورا مضمون تفسیر روح العانی سے لیا گیا ہے)
ازواج مطہرات کو قرآن کی تیسری، چوتھی اور پانچویں ہدایت:
(آیت) واقمن الصلوٰة واتین الزکوٰة واطعن اللہ و رسولہٗ یعنی نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ دو ہدایتیں تفصیل کے ساتھ پہلے گزر چکی ہیں، یعنی غیر مردوں سے کلام میں نرمی و نزاکت سے اجتناب اور گھروں سے بلا ضرورت نہ نکلنا۔ تین ہدایتیں اس میں آ گئیں۔ یہ کل پانچ ہدایات ہیں جو عورتوں کے لئے مہمات دین میں سے ہیں۔
یہ پانچوں ہدایات سب مسلمانوں کے لئے عام ہیں:
مذکورہ ہدایات میں آخری ہدایات میں تو کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا کہ یہ ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص ہوں، نماز، زکوٰة اور اللہ و رسول کی اطاعت سے کون سا مسلمان مرد و عورت مستثنیٰ ہو سکتا ہے۔ باقی پہلی دو ہدایتیں جو عورتوں کے پردہ سے متعلق ہیں ذرا غور کرنے سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ سب مسلمان عورتوں کے لئے یہی حکم ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ ان ہدایات کے ذکر سے پہلے قرآن نے یہ فرمایا ہے (آیت) لستن کا حد من النساء ان اتقیتن، یعنی ازواج مطہرات عام عورتوں کی طرح نہیں اگر وہ تقویٰ اختیار کریں۔ اس سے بظاہر تخصیص معلوم ہوتی ہے۔ تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ تخصیص احکام کی نہیں بلکہ ان پر عمل کے اہتمام کی ہے۔ یعنی ازواج مطہرات عام عورتوں کی طرح نہیں، بلکہ ان کی شان سب سے اعلیٰ وارفع ہے، اس لئے جو احکام تمام مسلمان عورتوں پر فرض ہیں ان کا اہتمام ان کو سب سے زیادہ کرنا چاہئے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
(آیت) انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطہر کم تطہیرا۔ آیات سابقہ میں جو ہدایات ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے دی گئی ہیں، وہ اگرچہ ان کی ذات کے ساتھ مخصوص نہ تھیں بلکہ پوری امت ان احکام کی مکلف ہے، مگر ازواج مطہرات کو خصوصی خطاب اس لئے کیا گیا کہ وہ اپنی شان اور بیت نبوت کے مناسب ان اعمال کا زیادہ اہتمام کریں۔ اس آیت میں اس خصوصی خطاب کی حکمت مذکور ہے کہ اصلاح اعمال کی خاص ہدایت سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مطلوب یہ ہے کہ اہل بیت رسول کو (جس گندگی) سے پاک کر دے۔
لفظ رجس قرآن میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ رجس بتوں کے معنی میں آیا ہے، (آیت) فاجتنبوا الرجس من الاوثان اور کبھی لفظ رجس مطلق گناہ کے معنی میں، کبھی عذاب کے معنی میں کبھی نجاست اور گندگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو شرعاً یا طبعا قابل نفرت سمجھی جاتی ہو وہ رجس ہے۔ اس آیت میں یہی عام معنی مراد ہیں (بحر محیط)