اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


معارف القرآن جلد پنجم ۔۔۔ مفتی محمد شفیع عثمانی، جمع و ترتیب :اعجاز عبید، محمد عظیم الدین

مشہور تفسیری کتاب معارف القرآن کی پانچویں جلد

معارف القرآن، جلد ۵: سورۃ الشعراء تا سورۃ یٰسٓ

از قلم

محمد شفیع عثمانی

جمع و ترتیب :اعجاز عبید، محمد عظیم الدین

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل 

ورڈ فائل 

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں…..

۳۶۔ سورۃ یٰسٓ

بسم الله الرحمن الرحيم

شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے

سورة یٰس مکہ میں نازل ہوئی اس میں تراسی آیتیں ہیں اور پانچ رکوع

آج جبکہ میں سورة یٰسین کی تفسیر شروع کر رہا ہوں ماہ صفر کی نویں تاریخ ہے، ماہ صفر 1355ھ میں اسی تاریخ کو میرے والد ماجد مولانا محمد یاسین صاحبؒ کی وفات ہوئی تھی۔ اس سورة کے ساتھ نام میں اشتراک اور تاریخ وفات نے ان کی یاد کو تازہ کر دیا۔ مطالعہ کرنے والے حضرات سے درخواست ہے کہ احقر اور میرے والدین کے لئے دعائے مغفرت فرما دیں اور کوئی ہمت کرے اور سورة یٰسین پڑھ کر ایصال ثواب کر دے تو سبحان اللہ منہ۔

036:001

یٰسٓۚ۝۱

ترجمہ:

یٰس

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

یٰس (اس کی مراد اللہ ہی کو معلوم ہے) قسم ہے قرآن باحکمت کی کہ بیشک آپ منجملہ پیغمبروں کے ہیں (اور) سیدھے رستہ پر ہیں (کہ اس میں جو آپ کی پیروی کرے خدا تک پہنچ جائے نہ کہ جیسا کفار کہتے ہیں لست مرسلا، یعنی آپ رسول نہیں، یا کہتے تھے بل افتراہ یعنی آپ نے خود گھڑ لیا ہے، جس کے لئے گمراہ ہونا لازم ہے اور قرآن تعمیم ہدایت کے ساتھ آپ کی رسالت و نبوت کی دلیل بھی ہے کیونکہ) یہ قرآن خدائے زبردست مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے (اور آپ پیغمبر اس لئے بنائے گئے ہیں) تاکہ آپ (اولاً) ایسے لوگوں کو (عذاب خداوندی سے) ڈراویں جن کے باپ دادے (قریب کے کسی رسول کے ذریعہ سے) نہیں ڈرائے گئے تھے، سو اسی سے یہ بے خبر ہیں (کیونکہ گو عرب میں بعض مضامین شرائع رسل سابقہ کے منقول بھی تھے، جیسا اس آیت میں ہے (آیت) ام جاءھم ما لم یات اباءھم الاولین) یعنی کیا قرآن ان کے پاس کوئی ایسی چیز لایا ہے جو ان کے آباء کے پاس نہیں آئی تھی، یعنی دعوت توحید کوئی نئی چیز نہیں، یہ ہمیشہ ان کے آباء و اجداد میں بھی جاری رہی ہے، مگر پھر بھی نبی کے آنے سے جس قدر تنبہ ہوتا ہے محض اس کے احکام واخبار نقل ہو کر پہنچنے سے جبکہ وہ ناتمام اور متغیر بھی ہو گئے ہوں ویسا تنبہ نہیں ہوتا۔ اور اولاً ڈرانا آپ کا قریش کو تھا، اس لئے اس جگہ انہی کا ذکر فرمایا، پھر عام لوگوں کو بھی آپ نے دعوت فرمائی، کیونکہ بعثت آپ کی عام ہے اور باوجود آپ کی صحت رسالت و صدق قرآن کے یہ لوگ جو نہیں مانتے آپ اس کا غم نہ کیجئے، کیونکہ) ان میں اکثر لوگوں پر (تقدیری) بات ثابت ہو چکی ہے (وہ بات یہ ہے کہ یہ ہدایت کے راستہ پر نہ آئیں گے) سو یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاویں گے (یہ حال ان کے اکثر کا تھا اور بعض کی قسمت میں ایمان بھی تھا وہ ایمان بھی لے آئے اور ان لوگوں کی مثال ایمان سے دوری میں ایسی ہو گئی کہ گویا) ہم نے ان کی گردنوں میں (بھاری بھاری) طوق ڈال دئیے ہیں پھر وہ تھوڑیوں تک (اڑ گئے) ہیں جس سے ان کے سر اوپر کو الل گئے (یعنی اٹھے رہ گئے، نیچے کو نہیں ہو سکتے، خواہ اس وجہ سے کہ طوق میں جو موقع تحت ذقن رہنے کا ہے وہاں کوئی میخ وغیرہ ایسی ہو جو ذقن میں جا کر اڑ جاوے، اور یا طوق کا چکلا ایسا ہو کہ اس کی کگر ذقن میں اڑ جاوے۔ بہر حال دونوں طور پر وہ راہ دیکھنے سے محروم رہے) اور نیز ان کی مثال بعد عن الایمان میں ایسی ہو گئی کہ گویا) ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی جس سے ہم نے (ہر طرف سے) ان کو (پردوں میں) گھیر دیا سو وہ (اس احاطہ حجابات کی وجہ سے کسی چیز کو) نہیں دیکھ سکتے، اور (دونوں تمثیلوں سے حاصل یہ ہے کہ) ان کے حق میں آپ کا ڈرانا یا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، یہ (کسی حالت میں بھی) ایمان نہیں لائیں گے (اس لئے آپ ان سے مایوس ہو کر راحت حاصل کر لیجئے) بس آپ تو (ایسا ڈرانا جس پر نفع مرتب ہو) صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت پر چلے اور خدا سے بے دیکھے ڈرے (کہ ڈر ہی سے طلب حق ہوتی ہے اور طلب سے وصول، اور یہ ڈرتے ہی نہیں) سو (جو ایسا شخص ہو) آپ اس کو (گناہوں کی) مغفرت اور (اطاعت پر) عمدہ عوض کی خوش خبری سنا دیجئے (اور اسی سے اس پر بھی دلالت ہو گئی کہ جو ضلالت اور اعراض کا مرتکب ہو وہ مغفرت اور اجر سے محروم اور مستحق عذاب ہے، اور گو دنیا میں اس جزاء و سزا کا ظہور لازم نہیں، لیکن) بیشک ہم (ایک روز) مردوں کو زندہ کریں گے (اس وقت ان سب کا ظہور ہو جائے گا) اور (جن اعمال پر جزا و سزا ہو گی) ہم (ان کو برابر) لکھے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے جاتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑے جاتے ہیں (ماقدموا) سے مراد جو کام اپنے ہاتھ سے کیا اور آثارہم سے مراد وہ اثر جو اس کام کے سبب پیدا ہوا اور بعد موت بھی باقی رہا، مثلاً کسی نے کوئی نیک کام کیا اور وہ سبب ہو گیا دوسروں کی بھی ہدایت کا یا کسی نے کوئی برا کام کیا اور وہ سبب ہو گیا دوسروں کی بھی گمراہی کا۔ غرض یہ سب لکھے جا رہے ہیں اور وہاں ان سب پر جزا وسزا مرتب ہو جاوے گی) اور (ہمارا علم تو ایسا وسیع ہے کہ ہم اس کتابت کے بھی محتاج نہیں جو بعد الوقوع ہوئی ہے کیونکہ) ہم نے (تو) ہر چیز کو (جو کچھ قیامت تک ہو گا وقوع سے پہلے ہی) ایک واضح کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں ضبط کر دیا تھا (محض بعض حکمتوں سے اعمال کی کتابت ہوتی ہے۔ پس جب قبل وقوع ہم کو سب چیزوں کا علم ہے تو بعد وقوع تو کیوں نہ ہوتا، اس لئے کسی عمل سے مکرنے یا پوشیدہ رکھنے کی گنجائش نہیں، ضرور سزا ہو گی اور لوح محفوظ کو واضح با عتبار تفصیل اشیاء کے کہا گیا ہے۔

معارف و مسائل

فضائل سورة یٰسین:

حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا یسین قلب القرآن، یعنی سورة یٰسین قرآن کا دل ہے اور اس حدیث کے بعض الفاظ میں ہے کہ جو شخص سورة یٰسین کو خالص اللہ اور آخرت کے لئے پڑھتا ہے اس کی مغفرت ہو جاتی ہے اس کو اپنے مردوں پر پڑھا کرو (رواہ احمد وا بوداؤد والنسائی وابن حبان والحاکم وغیرہم، کذافی الروح و المظہری)

امام غزالی نے فرمایا کہ سورة یٰسین کو قلب قرآن فرمانے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اس سورة میں قیامت اور حشر و نشر کے مضامین خاص تفصیل اور بلاغت کے ساتھ آئے ہیں اور اصول ایمان میں سے عقیدہ آخرت وہ چیز ہے جس پر انسان کے اعمال کی صحت موقوف ہے۔ خوف آخرت ہی انسان کو عمل صالح کے لئے مستعد کرتا ہے اور وہی اس کو ناجائز خواہشات اور حرام سے روکتا ہے۔ تو جس طرح بدن کی صحت قلب کی صحت پر موقوف ہے اسی طرح ایمان کی صحت فکر آخرت پر موقوف ہے (روح) اور اس سورة کا نام جیسا سورة یٰسین معروف ہے اسی طرح ایک حدیث میں اس کا نام عظیمہ بھی آیا ہے (اخرجہ ابو نصر اسجزی عن عائشہ) اور ایک حدیث میں ہے کہ اس سورة کا نام تورات میں معمہ آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والے کے لئے دنیا و آخرت کی خیرات و برکات عام کرنے والی۔ اور اس کے پڑھنے والے کا نام شریف آیا ہے اور فرمایا کہ قیامت کے روز اس کی شفاعت قبیلہ ربیعہ کے لوگوں سے زیادہ کے لئے قبول ہو گی۔ (رواہ سعید بن منصور والبیہقی عن حسان بن عطیہ) اور بعض روایات میں اس کا نام مدافعہ بھی آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والے سے بلاؤں کو دفع کرنے والی اور بعض میں اس کا نام قاضیہ بھی مذکور ہے، یعنی حاجات کو پورا کرنے والی۔ (روح المعانی)

اور حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ جس مرنے والے کے پاس سورة یٰسین پڑھی جائے تو اس کی موت کے وقت آسانی ہو جاتی ہے۔ (رواہ الدیلمی و ابن حبان، مظہری)

اور حضرت عبد اللہ بن زبیر نے فرمایا کہ جو شخص سورة یٰسین کو اپنی حاجت کے آگے کر دے تو اس کی حاجت پوری ہو جاتی ہے۔ (اخرجہ المحاملی فی امالیہ، مظہری)

اور یحییٰ بن کثیر نے فرمایا کہ جو شخص صبح کو سورة یٰسین پڑھ لے وہ شام تک خوشی اور آرام سے رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے تو صبح تک خوشی میں رہے گا۔ اور فرمایا کہ مجھے یہ بات ایسے شخص نے بتلائی ہے جس نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ (اخرجہ ابن الفریس، مظہری)

یٰس، اس لفظ کے متعلق مشہور قول تو وہی ہے جس کو اوپر خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے۔ کہ حروف مقطعات میں سے ہے، جن کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے عام بندوں کو نہیں دیا۔ اور ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ امام مالک نے فرمایا کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اور حضرت ابن عباس سے بھی ایک روایت یہی ہے کہ اسماء الٰہیہ میں سے ہے۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’اے انسان‘‘ اور مراد انسان سے نبی کریمﷺ ہیں۔ اور حضرت ابن جبیر کے کلام سے یہ مستفاد ہے کہ لفظ یٰسین نبی کریمﷺ کا نام ہے۔ روح المعانی میں ہے کہ رسول اللہﷺ کا نام ان دو عظیم الشان حرفوں سے رکھنا، یعنی یا اور سین اس میں بڑے راز ہیں۔

یٰسین کسی کا نام رکھنا کیسا ہے:

امام مالک نے اس کو اس لئے پسند نہیں کیا کہ ان کے نزدیک یہ اسماء الٰہیہ میں سے ہے، اور اس کے صحیح معنی معلوم نہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ کوئی ایسے معنی ہوں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں، جیسے خالق، رازق وغیرہ البتہ اس لفظ کو یاسین کے رسم الخط سے لکھا جائے تو یہ کسی انسان کا نام رکھنا جائز ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں آیا ہے (آیت) سلام علیٰ آل یاسین (ابن عربی) آیت مذکورہ کی معروف قرآت الیاسین ہے مگر بعض قرأتوں میں آل یاسین بھی آیا ہے۔

036:002

وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ۝۲

ترجمہ:

قسم ہے اس پکے قرآن کی

036:003

اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ۝۳

ترجمہ:

تو تحقیق ہے بھیجے ہوؤں میں سے

036:004

عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍؕ۝۴

ترجمہ:

اوپر سیدھی راہ کے

036:005

تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِۙ۝۵

ترجمہ:

اتارا زبردست رحم والے نے

036:006

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ۝۶

ترجمہ:

تاکہ تو ڈرائے ایک قوم کو کہ ڈر نہیں سنا ان کے باپ دادوں نے سو ان کو خبر نہیں

تفسیر:

(آیت) لتنذر قوما ما انذر اباؤہم، مراد اس سے عرب ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ ان کے آباء و اجداد میں کوئی نذیر یعنی پیغمبر عرصہ دراز سے نہیں آیا۔ اور آباء و اجداد سے مراد قریبی آباء و اجداد ہیں، ان کے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھ حضرت اسماعیلؑ کے بعد کتنی صدیوں سے عرب میں کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ اگرچہ دعوت و تبلیغ اور انذار وتبشیر کا سلسلہ برابر جاری رہا جس کا ذکر قرآن کریم کی آیت میں بھی ہے جو خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے اور آیت (آیت) ان من امة الا خلا فیہا نذیر کا بھی یہی مقتضی ہے کہ رحمت خداوندی نے کسی قوم و ملت کو دعوت و انذار سے کسی زمانے اور کسی خطہ میں محروم نہیں رکھا۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ انبیاء کی تعلیمات ان کے نائبوں کے ذریعہ پہنچنا وہ اثر نہیں رکھتا جو خود نبی یا پیغمبر کی دعوت و تعلیم کا ہوتا ہے۔ اس لئے آیت مذکورہ میں عربوں کے متعلق یہ فرمایا گیا کہ ان میں کوئی نذیر نہیں آیا۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ عرب میں عام طور پر پڑھنے پڑھانے اور تعلیم کا کوئی مستحکم نظام نہیں تھا، اسی وجہ سے ان کا لقب امین ہوا۔

036:007

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤی اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۷

ترجمہ:

ثابت ہو چکی ہے بات ان میں بہتوں پر سو وہ نہ مانیں گے

تفسیر:

(آیت) لقد حق القول علیٰ اکثرہم فہم لا یومنون، انا جعلنا فی اعنا قہم اغلا الایة، مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے کفر و ایمان اور جنت و دوزخ کے دونوں راستے انسان کے سامنے کر دئیے، اور ایمان کی دعوت کے لئے انبیاء اور کتابیں بھی بھیج دیں، پھر انسان کو اتنا اختیار بھی دے دیا کہ وہ اپنے بھلے برے کو پہچان کر کوئی رستہ اختیار کرے۔ جو بدنصیب نہ غور و فکر سے کام لے نہ دلائل قدرت میں غور کرے، نہ انبیاء کی دعوت پر کان دھرے نہ اللہ کی کتاب میں غور و تدبر کرے تو اس نے اپنے اختیار سے جو راہ اختیار کر لی تو حق تعالیٰ اسی کے سامان اس کے لئے جمع فرما دیتے ہیں، جو کفر میں لگ گیا پھر اس کے واسطے کفر بڑھانے ہی کے سامان ہوتے رہتے ہیں، یعنی ان میں سے بیشتر لوگوں پر تو ان کے سوء اختیار کی بنا پر یہ قول حق جاری ہو چکا ہے کہ یہ ایمان نہ لائیں گے۔

آگے ان کے حال کی ایک تمثیل بیان فرمائی ہے، کہ ان کی مثال ایسی ہے کہ جس کی گردن میں ایسے طوق ڈال دئیے گئے ہوں گے کہ اس کا چہرہ اور آنکھیں اوپر اٹھ جائیں، نیچے راستہ کی طرف دیکھ ہی نہ سکے۔ تو ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کھڈ میں گرنے سے نہیں بچا سکتا۔

دوسری مثال یہ دی کہ جیسے کسی شخص کے چاروں طرف دیوار حائل کر دی گئی ہو وہ اس چار دیواری میں محصور ہو کر باہر کی چیزوں سے بے خبر ہو جاتا ہے، ان کافروں کے گرد بھی ان کی جہالت اور اس پر عناد وہٹ دھرمی نے محاصرہ کر لیا ہے کہ باہر کی حق باتیں ان تک گویا پہنچتی ہی نہیں۔

امام رازی نے فرمایا کہ نظر سے مانع دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک مانع تو ایسا ہوتا ہے کہ خود اپنے وجود کو بھی نہ دیکھ سکے، دوسرا یہ کہ اپنے گرد و پیش کو نہ دیکھ سکے۔ ان کفار کے لئے حق بینی سے دونوں قسم کے مانع موجود تھے، اس لئے پہلی مثال پہلے مانع کی ہے کہ جس کی گردن نیچے کو جھک نہ سکے وہ اپنے وجود کو بھی نہیں دیکھ سکتا اور دوسری مثال دوسرے مانع کی ہے کہ گردو پیش کو نہیں دیکھ سکتا۔ (روح)

جمہور مفسرین نے آیت مذکورہ کو ان کے کفر و عناد کی تمثیل ہی قرار دیا ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس کو بعض روایات کی بنا پر ایک واقعہ کا بیان قرار دیا ہے، کہ ابو جہل اور بعض دوسرے لوگ آنحضرتﷺ کو قتل کرنے یا ایذاء پہنچانے کا پختہ عزم کر کے آپ کی طرف بڑھے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، عاجز ہو کر واپس آ گئے۔ اسی طرح کے متعدد واقعات کتب تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، قرطبی، مظہری وغیرہ میں منقول ہیں، مگر وہ بیشتر روایات ضعیفہ ہیں اس پر مدار آیت کی تفسیر کا نہیں رکھا جا سکتا۔

036:008

اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ۝۸

ترجمہ:

ہم نے ڈالے ہیں ان کی گردنوں میں طوق سو وہ ہیں تھوڑیوں تک پھر ان کے سر الل رہے ہیں

036:009

وَ جَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۝۹

ترجمہ:

اور بنائی ہم نے ان کے آگے دیوار اور پیچھے دیوار پھر اوپر سے ڈھانک دیا سو ان کو کچھ نہیں سوجھتا

036:010

وَ سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۰

ترجمہ:

اور برابر ہے ان کو تو ڈرائے یا نہ ڈرائے یقین نہیں کریں گے

036:011

اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ۚ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ كَرِیْمٍ۝۱۱

ترجمہ:

تو تو ڈر سنائے اس کو جو چلے سمجھائے پر اور ڈرے رحمن سے بن دیکھے سو اس کو خوشخبری دے معافی کی اور عزت کے ثواب کی

036:012

اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْ ؔؕ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۠۝۱۲

ترجمہ:

ہم ہیں جو زندہ کرتے ہیں مردوں کو اور لکھتے ہیں جو آگے بھیج چکے اور جو نشان ان کے پیچھے رہے اور ہر چیز گن لی ہم نے ایک کھلی اصل میں۔

تفسیر:

(آیت) ونکتب ما قدموا و آثارہم، ’’یعنی ہم لکھیں گے ان اعمال کو جو انہوں نے آگے بھیجے ہیں‘‘ عمل کرنے کو آگے بھیجنے سے تعبیر کر کے یہ بتلا دیا کہ جو اعمال اچھے یا برے اس دنیا میں کئے ہیں وہ یہیں ختم نہیں ہو گئے، بلکہ وہ تمہارا سامان بن کر آگے پہنچ گئے ہیں جن سے اگلی زندگی میں سابقہ پڑنا ہے، اچھے اعمال ہیں تو جنت کی باغ و بہار بنیں گے، برے ہیں تو جہنم کے انگارے۔ اور ان اعمال کو لکھنے سے اصل مقصود ان کو محفوظ رکھنا ہے، لکھنا بھی اس کا ایک ذریعہ ہے کہ خطاء و نسیان اور زیارت و نقصان کا احتمال نہ رہے۔

اعمال کی طرح اعمال کے اثرات بھی لکھے جاتے ہیں:

و آثارہم، یعنی جس طرح ان کے کئے ہوئے اعمال لکھے جاتے ہیں اسی طرح ان کے آثار بھی لکھے جاتے ہیں۔ آثار سے مراد اعمال کے وہ ثمرات و نتائج ہیں جو بعد میں ظاہر ہوتے اور باقی رہتے ہیں، مثلاً کسی نے لوگوں کو دین کی تعلیم دی، دینی احکام بتلائے یا اس کے لئے کوئی کتاب تصنیف کی جس سے لوگوں نے دین کا نفع اٹھایا یا کوئی وقف کر دیا، جس سے لوگوں کو اس کے بعد نفع پہنچا، یا اور کوئی ایسا کام کیا جس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا، تو جہاں تک اس کے اس عمل خیر کے آثار پہنچیں گے اور جب تک پہنچتے رہیں گے وہ سب اس کے اعمال نامہ میں لکھے جاتے رہیں گے۔ اسی طرح برے اعمال جن کے برے ثمرات و آثار دنیا میں باقی رہے، مثلاً ظالمانہ قوانین جاری کر دئیے، ایسے ادارے قائم کر دئیے جو انسانوں کے اعمال و اخلاق کو خراب کر دیتے ہیں، یا لوگوں کو کسی غلط اور برے راستہ پر ڈال دیا۔ تو جہاں تک اور جب تک اس کے عمل کے برے نتائج اور مفاسد وجود میں آتے رہیں گے، اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے رہیں گے، جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں خود رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔ حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

’’جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا بھی ثواب ملے گا اور جنتی آدمی اس طریقہ پر عمل کریں گے ان کا بھی ثواب اس کو ملے گا بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی آوے۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا بھی گناہ ہو گا اور جتنے آدمی جب تک اس برے طریقہ پر عمل کرتے رہیں گے ان کا گناہ بھی اس کو ہوتا رہے گا بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کمی آوے‘‘

آثار کے ایک معنی نشان قدم کے بھی آتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ انسان جب نماز کے لئے مسجد کی طرف چلتا ہے تو اس کے ہر قدم پر نیکی لکھی جاتی ہے۔ بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں آثار سے مراد یہی نشان قدم ہیں، جس طرح نماز کا ثواب بھی لکھا جاتا ہے اسی طرح نماز کے لئے جانے میں جتنے قدم پڑتے ہیں ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ ابن کثیر نے ان روایات کو اس جگہ جمع کر دیا ہے جن میں یہ مذکور ہے کہ مدینہ طیبہ میں جن لوگوں کے مکانات مسجد نبوی سے دور تھے انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب مکان بنا لیں، آنحضرتﷺ نے منع فرمایا کہ جہاں رہتے ہو وہیں رہو، دور سے چل کر آؤ گے تو یہ وقت بھی ضائع نہ سمجھو، جتنے قدم زیادہ ہوں گے اتنا ہی تمہارا ثواب بڑھے گا۔

اس پر جو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ یہ سورة مکی ہے، اور جو واقعہ ان احادیث میں مذکور ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ آیت تو اپنے عام معنی میں ہے کہ اعمال کے اثرات بھی لکھے جاتے ہیں اور یہ آیت مکہ ہی میں نازل ہوئی ہو، پھر مدینہ طیبہ میں جب یہ واقعہ پیش آیا تو آپ نے بطور استدلال کے اس آیت کا ذکر فرمایا۔ اور نشان قدم کو بھی ان آثار باقیہ میں شمار فرمایا ہے جن کے لکھے جانے کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے۔ اس طرح ان دونوں تفسیروں کا ظاہری تضاد بھی رفع ہو جاتا ہے (کما صرح بہ ابن کثیر واختارہ)

036:013

وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِ ۘ اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَۚ۝۱۳

ترجمہ:

اور بیان کر ان کے واسطے ایک مثال اس گاؤں کے لوگوں کی جب کہ آئے اس میں بھیجے ہوئے جب بھیجے ہم نے ان کی طرف دو تو ان کو جھٹلایا

تفسیر:

خلاصہ تفسیر

اور آپ ان (کفار) کے سامنے (اس غرض سے کہ رسالت کی تائید اور ان کو انکار توحید و رسالت پر تہدید ہو) ایک قصہ یعنی ایک بستی والوں کا قصہ اس وقت کا بیان کیجئے جبکہ اس بستی میں کئی رسول آئے یعنی جبکہ ہم نے ان کے پاس (اول) دو کو بھیجا سو ان لوگوں نے اول دونوں کو جھوٹا بتلایا پھر تیسرے (رسول) سے (ان دونوں کی) تائید کی (یعنی تائید کے لئے پھر تیسرے کو وہاں جانے کا حکم دیا) سو ان تینوں نے (ان بستی والوں سے) کہا کہ ہم تمہارے پاس (خدا کی طرف سے) بھیجے گئے ہیں (تا کہ تم کو ہدایت کریں کہ توحید اختیار کرو بت پرستی چھوڑو کیونکہ وہ لوگ بت پرست تھے، کما یدل علیہ قولہ تعالیٰ (آیت) ومالی لا اعبد الذی فطرنی وقولہ اتخذ من دونہ الہة الخ) ان لوگوں نے (یعنی بستی والوں نے) کہا کہ تم تو ہماری طرح (محض) معمولی آدمی ہو (تم کو رسول ہونے کا امتیاز حاصل نہیں) اور (تمہاری کیا تخصیص ہے، مسئلہ رسالت ہی خود بے اصل ہے اور) خدائے رحمٰن نے (تو) کوئی چیز (کتاب و احکام کی قسم سے کبھی) نازل (ہی) نہیں کی، تم نرا جھوٹ بولتے ہو ان رسولوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار علیم ہے کہ بیشک ہم تمہارے پاس (بطور رسول کے) بھیجے گئے ہیں اور (اس قسم سے یہ مقصود نہیں کہ اسی سے اثبات رسالت کرتے ہیں بلکہ بعد اقامت دلائل کے بھی جب انہوں نے نہ مانا تب آخری جواب کے طور پر مجبور ہو کر قسم کھائی جیسا آگے خود ان کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے) کہ ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر (حکم کا) پہنچا دینا تھا (چونکہ واضح ہونا اس پر موقوف ہے کہ دلائل واضحہ سے دعوے کو ثابت کر دیا جائے، اس سے معلوم ہوا کہ اول دلائل قائم کر چکے تھے، آخر میں قسم کھائی۔ غرض یہ کہ ہم اپنا کام کر چکے تم نہ مانو تو ہم مجبور ہیں) وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں (یا تو اس لئے کہا کہ ان پر قحط پڑا تھا (کما فی العالم) اور یا اس لئے کہا کہ جب کوئی نئی بات سنی جاتی ہے، گو لوگ اس کو قبول نہ کریں مگر اس کا چرچا ضرور ہوتا ہے، اور اکثر عام لوگوں میں اس کی وجہ سے گفتگو اور اس گفتگو میں اختلاف اور کبھی نزاع و نااتفاقی کی نوبت پہنچ ہی جاتی ہے۔ پس مطلب یہ ہو گا کہ تمام لوگوں میں ایک فتنہ جھگڑا ڈال دیا جس سے مضرتیں پہنچ رہی ہیں، یہ نحوست ہے۔ اور اس نحوست کے سبب تم ہو) اور اگر تم (اس دعوت اور دعوے) سے باز نہ آئے تو (یاد رکھو) ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کر دینگے اور (سنگساری سے پہلے بھی) تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی (یعنی اور طرح طرح سے ستاویں گے) نہیں مانو گے تو اخیر میں سنگسار کر دیں گے) ان رسولوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے (یعنی جس کو تم مضرت و مصیبت کہتے ہو اس کا سبب تو حق کا قبول نہ کرنا ہے، اگر حق قبول کرنے پر متفق ہو جاتے نہ یہ جھگڑے اور فتنے ہوتے، نہ قح کے عذاب میں مبتلا ہوتے۔ رہا پہلا اتفاق بت پرستی پر تو ایسا اتفاق جو باطل پر ہو خود فساد و وبال ہے جس کو چھوڑنا لازم ہے اور اس زمانے میں قحط نہ ہونا وہ بطور استدراج کے اللہ کی طرف سے ڈھیل دی ہوئی تھی یا اس وجہ سے تھا کہ اس وقت تک ان لوگوں پر حق واضح نہیں ہوا تھا۔ اور اللہ کا قانون ہے کہ حق کو واضح کرنے سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیتے، جیسا کہ ارشاد ہے کہ (آیت) حتی یبین لہم ما یتقون، اور یہ ڈھیل یا حق کا نہ ہونا بھی تمہاری ہی غفلت، جہالت اور شامت اعمال تھی، اس سے معلوم ہوا کہ ہر حال میں اس نحوست کا سبب خود تمہارا فعل تھا) کیا تم اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جاوے (جو بنیاد سعادت ہے یہ تو واقع میں نحوست نہیں) بلکہ تم (خود) حد (عقل و شرع) سے نکل جانے والے لوگ ہو (پس مخالفت شرع سے تم پر یہ نحوست آئی اور مخالفت عقل سے تم نے اس کا سبب غلط سمجھا) اور (اس گفتگو کی خبر جو شائع ہوئی تو) ایک شخص (جو مسلمان تھا) اس شہر کے کسی دور مقام سے (جو یہاں سے دور تھا یہ خبر سن کر اپنی قوم کی خیر خواہی کے لئے کہ ان رسولوں کا وجود قوم کی فلاح تھا، یا رسولوں کی خیر خواہی کے لئے کہ کہیں یہ لوگ ان کو قتل نہ کر دیں) دوڑتا ہوا (یہاں) آیا (اور ان لوگوں سے) کہنے لگا کہ اے میری قوم ان رسولوں کی راہ پر چلو (ضرور) ایسے لوگوں کی راہ پر چلو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے، اور وہ خود راہ راست پر بھی ہیں (یعنی خود غرضی جو مانع اتباع ہے وہ بھی نہیں اور راہ راست پر ہونا جو مقتضی اتباع ہے وہ موجود ہے پھر اتباع کیوں نہ کیا جاوے) اور میرے پاس کون سا عذر ہے کہ میں اس (معبود) کی عبادت نہ کروں جس نے مجھ کو پیدا کیا (جو کہ منجملہ دلائل استحقاق عبادت کے ہے) اور (اپنے اوپر رکھ کر اس لئے کہا کہ مخاطب کو اشتعال نہ ہو جو کہ مانع تدبر ہو جاتا ہے اور اصل مطلب یہی ہے کہ تم کو ایک اللہ کی عبادت کرنے میں کون سا عذر ہے) تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے (اس لئے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے رسولوں کا اتباع کرو۔ یہاں تک تو معبود حق کے استحقاق عبادت کا بیان کیا، آگے معبودات باطلہ کے عدم استحقاق عبادت کا مضمون ہے یعنی) کیا میں خدا کو چھوڑ کر اور ایسے ایسے معبود قرار دے لوں (جن کی کیفیت بے بسی کی یہ ہے) کہ اگر خدائے رحمن مجھ کو تکلیف پہنچانا چاہے تو نہ ان معبودوں کی سفارش میرے کام آوے گی اور نہ وہ مجھ کو (خود اپنی قدرو زور کے ذریعہ اس تکلیف سے) چھڑا سکیں (یعنی نہ وہ خود قادر ہیں نہ قادر تک واسطہ سفارش بن سکتے ہیں، کیونکہ اول تو جمادات میں شفاعت کی اہلییت ہی نہیں، دوسرے شفاعت وہی کر سکتے ہیں جن کو اللہ کی طرف سے اجازت ہو اور) اگر میں ایسا کروں تو صریح گمراہی میں جا پڑا (یہ بھی اپنے اوپر رکھ کر ان لوگوں کو سنانا ہے) میں تو تمہارے پروردگار پر ایمان لا چکا سو تم (بھی) میری بات سن لو (اور ایمان لے آؤ، مگر ان لوگوں پر کچھ اثر نہ ہوا بلکہ اس کو پتھروں سے یا آگ میں ڈال کر یا گلا گھونٹ کر (کما فی الدر المنشور) شہید کر ڈالا، شہید ہوتے ہی اس کو خدا کی طرف سے) ارشاد ہوا کہ جا جنت میں داخل ہو جا (اس وقت بھی اس کو اپنی قوم کی فکر ہوئی) کہنے لگا کہ کاش میری قوم کو یہ بات معلوم ہو جاتی کہ میرے پروردگار نے (ایمان اور اتباع رسل کی برکت سے) مجھ کو بخش دیا اور مجھ کو عزت داروں میں شامل کر دیا (تو اس حال کو معلوم کر کے وہ بھی ایمان لے آتے اور اسی طرح وہ بھی مغفور اور مکرم ہو جاتے) اور (جب ان بستی والوں نے رسل اور متبع رسل کے ساتھ یہ معاملہ کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور انتقام لینے کے لئے) ہم نے اس (شخص شہید) کی قوم پر اس (کی شہادت) کے بعد کوئی لشکر (فرشتوں کا) آسمان سے نہیں اتارا اور نہ ہم کو اتارنے کی ضرورت تھی، (کیونکہ ان کا ہلاک کرنا اس پر موقوف نہ تھا کہ اس کے لئے کوئی بڑی جمعیت لائی جاتی (کذا فسرہ، ابن مسعود فیما نقل ابن کثیر عن ابن اسحاق حیث قال ما کا ثرنا ہم بالجموع فان الامر کان ایسر علینا من ذلک بلکہ) وہ سزا ایک آواز سخت تھی (جو جبرئیلؑ نے کر دی، کذا فی المعالم یا اور کسی فرشتہ نے کر دی ہو۔ یا صیحہ سے مطلق عذاب مراد ہو جس کی تعیین نہیں کی گئی، جیسا کہ سورة مومنون کی آیت فاخذثہم الصیحة کی تفسیر میں گزر چکا ہے) اور وہ سب اسی دم (اس سے) بجھ کر (یعنی مر کر) رہ گئے (آگے قصہ کا انجام بتلانے کے لئے مکذبین کی مذمت فرماتے ہیں کہ) افسوس (ایسے) بندوں کے حال پر کہ کبھی ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا جس کی انہوں نے ہنسی نہ اڑائی ہو کیا ان لوگوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم ان سے پہلے بہت سی امتیں (اسی تکذیب و استہزاء کے سبب) غارت کر چکے کہ وہ (پھر) ان کی طرف (دنیا میں) لوٹ کر نہیں آتے، (اگر اس میں غور کرتے تو تکذیب و استہزا سے باز آ جاتے اور یہ سزا تو مکذبین کو دنیا میں دی گئی) اور (پھر آخرت میں) ان سب میں کوئی ایسا نہیں جو مجتمع طور پر ہمارے رو برو حاضر نہ کیا جاوے (وہاں پھر سزا ہو گی اور وہ سزا دائمی ہو گی)۔

معارف و مسائل

(آیت) واضرب لہم مثلاً اصحب القریة، ضرب مثل کسی معاملے کو ثابت کرنے کے لئے اسی جیسے واقعہ کی مثال بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ اوپر جن منکرین نبوت و رسالت کفار کا ذکر آیا ہے، اس کو متنبہ کرنے کے لئے قرآن کریم بطور مثال کے پہلے زمانے کا ایک قصہ بیان کرتا ہے جو ایک بستی میں پیش آیا تھا۔

وہ کونسی بستی ہے جس کا ذکر اس قصہ میں آیا ہے؟

قرآن کریم نے اس بستی کا نام نہیں بتلایا، تاریخی روایات میں محمد بن اسحاق نے حضرت ابن عباس اور کعب احبار، وہب بن منبہ سے نقل کیا ہے کہ یہ بستی انطاکیہ تھی۔ اور جمہور مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ ابو حیان اور ابن کثیر نے فرمایا کہ مفسرین میں اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں۔ معجم البلدان کی تصریح کے مطابق انطاکیہ ملک شام کا مشہور عظیم الشان شہر ہے، جو اپنی شادابی اور استحکام میں معروف ہے، اس کا قلعہ اور شہر پناہ کی دیوار ایک مثالی چیز سمجھی جاتی ہے۔ اس شہر میں نصاریٰ کے عبادت خانے کینسا بیشمار اور بڑے شاندار سونے چاندی کے کام سے مزین ہیں، ساحلی شہر ہے، زمانہ اسلام میں اس کو فاتح شام حضرت امین الامة ابو عبیدہ بن جراح نے فتح کیا ہے۔ معجم البلدان میں یاقوت حموی نے یہ بھی لکھا ہے کہ حبیب بخار (جس کا قصہ اس آیت میں آگے آ رہا ہے) اس کی قبر بھی انطاکیہ میں معروف ہے، دور دور سے لوگ اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔ ان کی تصریح سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس قریہ کا ذکر اس آیت میں آیا ہے وہ یہی شہر انطاکیہ ہے۔

ابن کثیر نے لکھا ہے کہ انتظاکیہ ان چار مشہور شہروں میں سے ہے جو دین عیسوی اور نصرانیت کے مرکز سمجھے گئے ہیں، یعنی قدس، رومیہ، اسکندریہ اور انطاکیہ۔ اور فرمایا کہ انطاکیہ سب سے پہلا شہر ہے، جس نے دین مسیحؑ کو قبول کیا۔ اسی بنا پر ابن کثیر کو اس میں تردد ہے کہ جس قریہ کا ذکر اس آیت میں ہے وہ مشہور شہر انطاکیہ ہو، کیونکہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق یہ قریہ منکرین رسالت و نبوت کی بستی تھی، اور تاریخی روایات کے مطابق وہ بت پرست مشرکین تھے تو انطاکیہ جو دین مسیح اور نصرانیت کے قبول کرنے میں سب سے اولیت رکھتا ہے، وہ کیسے اس کا مصداق ہو سکتا ہے۔

نیز قرآن کریم کی مذکورہ آیات ہی سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس واقعہ میں اس پوری بستی پر ایسا عذاب آیا کہ ان میں کوئی زندہ نہیں بچا۔ شہر انطاکیہ کے متعلق تاریخ میں اس کا ایسا کوئی واقعہ منقول نہیں کہ کسی وقت اس کے سارے باشندے بیک وقت مر گئے ہوں۔ اس لئے ابن کثیر کی رائے میں یا تو اس آیت میں جس قریہ کا ذکر ہے وہ انطاکیہ کے علاوہ کوئی اور بستی ہے یا پھر انطاکیہ نام ہی کی کوئی دوسری بستی ہے جو مشہور شہر انطاکیہ نہیں ہے۔

صاحب فتح المنان نے ابن کثیر کے ان اشکالات کے جوابات بھی دئیے ہیں، مگر سہل اور بے غبار بات وہی ہے جس کو سیدی حضرت حکیم الامت نے بیان القرآن میں اختیار فرمایا ہے۔ کہ آیات قرآن کا مضمون سمجھنے کے لئے اس بستی کی تعیین ضروری نہیں، اور قرآن کریم نے اس کو مبہم رکھا ہے، تو ضرورت ہی کیا ہے کہ اس کی تعیین پر اتنا زور خرچ کیا جائے۔ سلف صالحین کا یہ ارشاد کہ ابھموا ما ابھمہ اللہ، یعنی جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا ہے تم بھی اسے مبہم ہی رہنے دو، اس کا مقتضیٰ بھی یہی ہے۔

036:014

اِذْ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلَیْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ۝۱۴

ترجمہ:

پھر ہم نے قوت دی تیسرے سے تب کہا انہوں نے ہم تمہاری طرف آئے ہیں بھیجے ہوئے

تفسیر:

(آیت) اذ جاءھا المرسلون۔ اذ ارسلنا الیہم اثنین فکذبوھہما فعززنا بثالث فقالوا انا الیکم مرسلون۔ مذکورہ بستی میں تین رسول بھیجے گئے تھے، پہلے ان کا بیان اجمالی اذجاء انا الیکم مرسلون میں فرمایا۔ اس کے بعد اس کی یہ تفصیل دی گئی کہ پہلے دو رسول بھیجے گئے تھے، بستی والوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کی بات نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید وتقویت کے لئے ایک تیسرا رسول بھیج دیا۔ پھر ان تینوں رسولوں نے بستی والوں کو خطاب کیا انا الیکم مرسلون، یعنی ہم تمہاری ہدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں۔

اس بستی میں جو رسول بھیجے گئے ان سے کیا مراد ہے اور وہ کون حضرات تھے:

لفظ رسول اور مرسل قرآن کریم میں عام طور پر اللہ کے نبی پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے۔ اس آیت میں ان کے بھیجنے کو حق تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، یہ بھی علامت اس کی ہے کہ اس سے مراد انبیاء مرسلین ہیں۔ ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس کعب احبار اور وہب بن منبہ کی روایت یہی نقل کی ہے کہ یہ تینوں بزرگ جن کا اس قریہ میں بھیجنے کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے ان کے نام اس روایت میں صادق، صدوق اور شلوم مذکور ہیں، اور ایک روایت میں تیسرے کا نام شمعون آیا ہے۔ (ابن کثیر)

اور حضرت قتادہ سے یہ منقول ہے کہ یہاں لفظ مرسلون اپنے اصلاحی معنی میں نہیں بلکہ قاصد کے معنی میں ہے اور یہ تین بزرگ جو اس قریہ کی طرف بھیجے گئے خود پیغمبر نہیں تھے، بلکہ حضرت عیسیٰؑ کے حواریین میں سے تھے۔ انہی کے حکم سے یہ اس قریہ کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے (ابن کثیر) اور چونکہ ان کے بھیجنے والے حضرت عیسیٰؑ اللہ کے رسول تھے، ان کا بھیجنا بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ ہی کا بھیجنا تھا اس لئے آیت میں ان کے ارسال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مفسرین میں سے ابن کثیر نے پہلے قول کو اور قرطبی وغیرہ نے دوسرے کو اختیار کیا ہے، ظاہر قرآن سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ حضرات اللہ کے نبی اور پیغمبر تھے۔ واللہ اعلم۔

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید